السلام علیکم،

اپنے پسندیدہ فارسی شاعری اور گانوں میں سے ایک "دل تو از ما خبر ندارد" شئیر کر چکا ہوں اب شئیر کر رہا ہوں، امیر جان صبوری کا لکھا ہوا ایک بہت ہی عمدہ گانا۔ جسے تاجک گلوکارہ نگارہ خالوا نے کمال عمدگی سے حقیقی درد میں پرویا، پتہ نہیں کب ایک بھونڈی نقل رحیم شاہ نے بھی ماری جو آج ہی سنی۔

شهر خالی جاده خالی کوچه خالی خانه خالی
جام خالی سفره خالی ساغر و پیمانه خالی
کوچ کرده دسته دسته
آشنایان عندلیبان
باغ خالی باغچه خالی شاخه خالی لانه خالی
وای از دنیا که یار از یار می ترسد
غنچه های تشنه از گلزار می ترسند
عاشق از آوازه ی دیدار می ترسد
پنجه خنیا گران از خار می ترسد
شه سوار از جاده ی هموار می ترسد
این طبیب از دیدن بیمار می ترسد
سازها بشکست و درد شاعرانه از حد گذشت
سالهای انتظاری بر من و تو بد گذشت
آشنا نا آشنا شد تا بلی گفتن بلا شد
گریه کردم ناله کردم
حلقه بر هر در زدم
سنگ سنگ کلبه ی ویرانه را بر سر زدم
آب از آبی نجنبید خفته در خوابی نجنبید
شهر خالی جاده خالی کوچه خالی خانه خالی
جام خالی سفره خالی ساغر و پیمانه خالی
کوچ کرده دسته دسته
آشنایان عندلیبان
باغ خالی باغچه خالی شاخه خالی لانه خالی
وای از دنیا که یار از یار می ترسد
غنچه های تشنه از گلزار می ترسند
عاشق از آوازه ی دیدار می ترسد
پنجه خنیا گران از خار می ترسد
شه سوار از جاده ی هموار می ترسد
این طبیب از دیدن بیمار می ترسد
چشمه ها خشکید و دریا خستگی را دم گرفت
آسمان افسانه ما را به دست کم گرفت
جام ها جوشی ندارند عشق آغوشی ندارد
بر من و بر ناله هایم هیچ کس گوشی ندارد
شهر خالی جاده خالی کوچه خالی خانه خالی
جام خالی سفره خالی ساغر و پیمانه خالی
کوچ کرده دسته دسته
آشنایان عندلیبان
باغ خالی باغچه خالی شاخه خالی لانه خالی
بازآ تا کاروان رفته باز آید
بازآ تا دلبران ناز ناز آید
بازآ تا مطرب و آهنگ و ساز آید
تا گل افشانان نگار دلنواز آید
بازآ تا بر در حافظ سر اندازیم
گل به افشانیم و می در ساغز اندازیم

وقت کی کمی کی وجہ سے نیٹ سے جو انگریزی ترجمہ مل سکا وہ شئیر کر رہا ہوں کوشش کروں گا آئندہ کہ جتنا ہو سکے خود بھی کچھ کر کے شئیر کر سکوں۔

کوڈ:
Empty City, empty Paths, empty Streets and house is empty
Empty corolla, empty table - linen, empty cup and wine's empty
 
The familiar Acquaintances of this heart's garden have migrated in droves
Empty is garden, empty is bed of flowers, empty branches and the nest's empty
 
Alas world! Here even a friend is afraid of another friend.
The thirsty buds are scared of the marsh (rose-garden)
A lover is scared by fame of meeting (sight)
The hand (fingers) of a professional musician is scared of the strings
Night riders are scared of even (smooth) roads
And this physician is scared of seeing a patient
 
The tunes get broken and the pain of poets crossed its limitations
The years of waiting past Bad for me and you
Our acquaintances became unacquainted
As I said "yes" it became calamity
 
I cried I groaned, I whined on every door
I beat every brick of a ruined cottage on my head
Water didn't know of its depth, slept one didn't know of sleep
The fountains withered (dried) and the river stifled weariness (fatigue)
The sky underestimated our myth
The corolla's doesn't boil, Love doesn't have bosom
Nobody hears to me and to my whines
 
Come back so that gone caravan also return
Come back so that charming dears also get back
Come back so that minstrels, songs and tunes also return
The forelock sprayer's sweetheart of Orphic get back
 
Come back so that we could drop on Hafiz's (famous Iranian poet) door
Come so that we may strew roses and pour wine into the cup.
Translation By : S.B Xeerak (Eldanisa)
 
TRANSLITERATION
Shahr Khali, jadah khali, koocha khali, khana khali
jam khali sufra khali, saghar'o paimana khali
Kooch kerda dasta dasta, aashna'yan'e dil'e bagh
Bagh khali baghcha khali, shakha khali, la'ana khali
 
Wa'ye az duniya ki yaar az yaar metarsad
Ghuncha'haye tashna az gulzaar metarsad
Ashiq az awaza'e didaar metarsad
Panja'e khamyagar'an az daar metarsad
Sheh'sawar az jadah'e hamwaar metarsad
In tabeeb az didaan'e bimaar metarsad
 
saat'ha beshkast o dard'e shayiran az hadh guzasht
saal'haye intezari bar man'o tu bar guzasht
Aashna na aashna shod, ta bale guftam bala shod
 
girya kardam nala kerdam, halqa bar her dar zadam
sang sang'e kulbayi wairana bar sar zadam
aab az aabi najumbid, khufta dar khabi najumbid
 
Shahr Khali, jadah khali, koocha khali, khana khali
jam khali sufra khali, saghar'o paimana khali
 
Wa'ye az duniya ki yaar az yaar metarsad
Ghuncha'haye tashna az gulzaar metarsad
Ashiq az awaza'e didaar metarsad
Panja'e khamyagar'an az daar metarsad
Sheh'sawar az jadah'e hamwaar metarsad
In tabeeb az didaan'e bimaar metarsad
 
chashma'ha khushkid 'o' darya khastagi ra dam girift
Asman afsana'e maa'ra ba dast'e kam girift
jam'ha joshi nadarad, ishq aghoshi nadarad
bar man'o bar nala'ha'yem hech kas goshi nadarad
 
Shahr Khali, jadah khali, koocha khali, khana khali
jam khali sufra khali, saghar'o paimana khali
Kooch kerda dasta dasta, aashna'yan'e dil'e bagh
Bagh khali baghcha khali, shakha khali, la'ana khali
 
Baz aa ta karwan'e rafta baz ayad
Baz aa ta dilbar'an'e naz naz ayad
Baz aa ta mutr'eb'o ahang'o saz ayad
pa gul' afshan'an nigare dilnawaz ayad
Baz aa ta dar'e hafiz sar andazem
Gul benafshan'im o mai dar saghar andazem

ویڈیو لنک: گلوکارہ نگارہ خالوا کی آواز میں

آڈیو لنک: امیر جان صبوری کی آواز میں
 
حسان خان آپ جناب کے آج کل کے رجحان کو دیکھتے ہوئے آپ کو ٹیگ کیا جا رہا ہے :)
مجھے بھی کبھی ازبکی، دری، فارسی میں کافی روانی تھی، وقت کے تھپیڑے اپنی دبیز چادر تنتے جا رہے ہیں اور جہاں ہمیں کبھی کمال تھا اب فقط ملال دِکھتا ہے۔ کبھی خانئہ فرہنگ کوئٹہ میں کچھ اساتذہ سے تعریفی کلمات بھی سننے کو ملے تھے جب انہوں نے بِگینر کے بجائے تیسرے چوتھے درجے میں داخل ہونے کا مشورہ دیا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بہت عمدہ گانا ہے۔ :)

مجھے تاجک لوگ بہت اچھے لگتے ہیں، اور اُن سے بھی کم و بیش ویسی ہی اپنائیت محسوس کرتا ہوں جیسی مثلاً آذربائجانیوں سے، مگر اُن کی فارسی پر ازبک کا بہت گہرا اثر ہے، جس کی وجہ سے مجھے اُن کا گفتگو کا لہجہ ایرانیوں کے مقابلے میں کرخت محسوس ہوتا ہے۔

مجھے تاجک گلوکارہ شبنم ثریا کا یہ گانا بہت اچھا لگتا ہے، یہ بھی سنیے گا۔
باز تو نگو
http://www.afghanmusik.eu/audios/411/bahram-und-shabnam---baz-tu-nago.php
 
بہت عمدہ گانا ہے۔ :)

مجھے تاجک لوگ بہت اچھے لگتے ہیں، اور اُن سے بھی کم و بیش ویسی ہی اپنائیت محسوس کرتا ہوں جیسی مثلاً آذربائجانیوں سے، مگر اُن کی فارسی پر ازبک کا بہت گہرا اثر ہے، جس کی وجہ سے مجھے اُن کا گفتگو کا لہجہ ایرانیوں کے مقابلے میں کرخت محسوس ہوتا ہے۔

مجھے تاجک گلوکارہ شبنم ثریا کا یہ گانا بہت اچھا لگتا ہے، یہ بھی سنیے گا۔
باز تو نگو
http://www.afghanmusik.eu/audios/411/bahram-und-shabnam---baz-tu-nago.php
بہت عمدہ،
آپ کبھی وقت ملے تو میری پسند کے گلوکاروں امیر جان صبوری، نذیر خارا اور غزال، نازیہ کرامت اللہ (Noziya Karomatullo) اور فیروزہ حافظوا (firuza hafizova) کے گانے سنیئے گا اور بتائیے گا کیسے لگے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بہت عمدہ،
آپ کبھی وقت ملے تو میری پسند کے گلوکاروں امیر جان صبوری، نذیر خارا اور غزال، نازیہ کرامت اللہ (Noziya Karomatullo) اور فیروزہ حافظوا (firuza hafizova) کے گانے سنیئے گا اور بتائیے گا کیسے لگے۔

جی، میں ضرور سنوں گا۔ :)
 
ہنستے بستے اور پررونق شہر جب اجڑے ہوئے دیار محسوس ہونے لگیں تو سمجھو کہ بستی کے مکینوں پر ایسا بہت کچھ بیت چکا ہے کہ وہ اب بہار میں خزاں کی اداسی اوڑھ لیتے ہیں اور سرسبز و شاداب شہر بھی انہیں ریت کے بگولے جیسے نظر آتے ہیں۔ ایسی ادا، دکھ اور کرب یوں تو پوری بستی کا المیہ ہوتا ہے لیکن شاعر اس کرب کی زبان بنتا ہے کہ بقولِ اقبال وہ دیدہ بینائے قوم ہوتا ہے۔ ایسے ہی کربناک ماحول کو ناصر کاظمی نے خوب پیش کیا ہے دل تو میرا اداس ہے ناصر شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے ساٹھ کی دہائی کے ہنستے بستے شہر اگر ناصر کاظمی کو سناٹوں کے امین لگتے تھے تو اگر وہ آج زندہ ہوتا تو وہ ایسی اداسی کی چادر اوڑھ لیتا جو شہر بھر کے زخموں سے تار تار ہو چکی ہوتی۔ جنگ، خونریزی، خوف، دھوکہ، فریب اور اجنبیت آج کے شہر کا المیہ ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان ایک شہر میں رہتے ہوئے بھی دربدر ہوتا ہے، وہاں سے کوچ کر چکا ہوتا ہے۔ اسی کیفیت پر آج سے پندرہ سال قبل "نوحہ ہجرت" کے عنوان سے یہ نظم کہی تھی ہجرت بھی عجب اب کے مکینوں سے ہوئی ہے جس شہر میں رہتے تھے وہی شہر ہے اب تک جس گھر میں بسیرا تھا وہی اب ہے ٹھکانا جس چھت کی دعا مانگتے رہتے تھے سبھی لوگ اب تک ہے سروں پر اسی چھتنار کا سایہ پھر بھی کوئی ہجرت ہے کہ چہروں پہ سجی ہے ہر آنکھ میں گھر لوٹ کے جانے کی پڑی ہے ……… کل گھر جسے کہتے تھے پڑاؤ ہے کوئی اب ایک چھت جو اماں دیتی تھی اب خوف نشاں یاروں کا ٹھکانہ نہیں ملتا ہے کسی کو باتیں سبھی اغیار کی یاروں کی زباں ہے آنکھیں سبھی اپنوں کی مگر شعلہ فشاں ہیں دل یوں تو دھڑکتے ہیں سنائی نہیں دیتے اس شہر کو اب اشک دکھائی نہیں دیتے ……… ایک قافلہ در بدراں اپنے ہی گھر میں ہجرت کا سماں چاروں طرف خوف نگر میں بے گھر ہیں غریب الوطنی سب پہ پڑی ہے بے سمت مسافر کی گھڑی آن کھڑی ہے چہرے کہیں اپنوں کے دکھائی نہیں دیتے دیوار و در اپنے تھے سجھائی نہیں دیتے کیا لوگ ہیں اس دکھ کی دہائی نہیں دیتے مدتوں اپنی اس نظم کی کیفیت مجھ پر مسلسل طاری رہی۔اس لئے کہ دنیا کے شہروں کے ظلم ختم ہوتے تھے اور نہ ہی اس نظم کا دکھ۔ لیکن لگتا تھا کہ میری شاعری اس کرب کا صحیح اظہار نہیں کر پا رہی۔ شائد اسکے لئے اس المیے سے گزرنا ضروری تھا۔ شاید کراچی، کوئٹہ، سوات یا وزیرستان کا کوئی بے گھر لٹا پٹا شاعرواقعی اسکا حق ادا کر سکتاہے۔ لیکن گذشتہ ایک ماہ سے ایک فارسی نظم نے یوں ذہن کو اپنے سحر میں لیا ہے کہ بار بار سننے سے بھی تسلی نہیں ہوتی۔جی چاہتا ہے اس نظم کی کیفیت میں دیر تک دنیا و مافیہا کو بھول کر پڑا رہوں یا پھر کسی اجڑے شہر کی خالی پگڈنڈیوں پر اسے گنگناتا ہوا گھومتا رہوں۔ یقیناً کوئی افغانستانAfghanistan میں بسنے والا ہی ایسے کرب سے آشنا ہو سکتا ہے جہاں گزشتہ چالیس سال سے خون اور بارود کی بو کے سوا کچھ نہیں اگتا۔ کیا مقدر ہے ہرات شہر کا جسے خراسان کا ہیرا کہا جاتا تھا۔1221ء میں اسے چنگیز خان نے برباد کیا، ابھی دوبارہ آباد ہوا ہی تھا کہ 1381ء میں تیمور نے اسے کھوپڑیوں کے میناروں سے سجا دیا، 1506ء میں اس پر ازبک چڑھ دوڑے اور پھر شاہ اسماعیل صفوی نے اسے ایرانIran میں شامل کرلیا۔ احمد شاہ ابدالی نے ایک سال اسکا محاصرہ کیے رکھا اور زبردست خونریزی کے بعد اس پر قبضہ کیا۔یہ تو تاریخ تھی لیکن اور گزشتہ چالیس سال سے روس، امریکہ United States اور دنیا کے تقریباً ہر طاقتور ملک کے ظلم کا نشانہ یہ شہر ہے۔ جس شہر میں عاشق رسول اور فارسی نعت گوئی کے سردار عبدالرحمن جامی نے عمر گزاری ہو، جہاں مولانا روم کا بچپن اور جوانی بیتی ہو، اس شہر نے ایک ایسے شاعر کو جنم دیا جسکی اس نظم نے ایک ماہ سے مجھے اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے۔ امیر جان صبوری، شاعر تو ہے ہی لیکن اپنی غزلیں خود بلا کی خوبصورتی سے گاتا ہے اور انکی دھنیں بھی خود بناتا ہے۔ لیکن اسکی اس نظم کو اسی کی بنائی ہوئی دھن میں تاجکستان کی "نگورا خولوہ "نے جس درد سے گایا ہے وہ سینے میں زخم بن کر اترجا تا ہے۔ایک شاعری اس بلا کی ہے کہ اسے کسی ساز کی حاجت نہیں، بس دل سے درد کے ساتھ گانے کی حاجت ہے جسکا حق اس نے ادا کر دیا۔ برادر بزرگ کے ہارون الرشید نے دو شعر کالم میں تحریر کئے تھے لیکن اس نظم کا یہ حق ہے کہ اسے پوری تفہیم کے ساتھ مکمل قارئین کو پیش کیا جائے تا کہ درد کی اس دنیا میں چند لمحے وہ بھی گزاریں شہر خالی، جادّہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی کوچ کردہ ، دستہ دستہ ، آشنایان، عندلیبان باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی (کیا عالم ہے کہ شہر، رستے، کوچے اور گھر سب خالی لگتے ہیں، جام میز صراحی و ساغر بھی خالی ہیں۔ آہستہ آہستہ تمام دوست اور بلبلیں یہاں سے کوچ کر چکی ہیں یہی وجہ ہے کہ باغیچے شاخیں اور گھونسلے سب کے سب خالی ہیں) وائے از دنیا کہ یار از یار می ترسد غنچہ ہای تشنہ از گلزار می ترسد عاشق از آوازہ دیدار می ترسد پنجہ خنیاگران از تار می ترسد شہ سوار از جادہ ہموار می ترسد این طبیب از دیدن بیمار می ترسد (حیف ہے اس دنیا پر کہ جہاں دوست دوست سے ڈرتا ہے، کلیاں کھلنے سے پہلے ہی باغ سے ڈرتی ہیں، عاشق اپنے محبوب کی آواز سے ڈرتا ہے، موسیقار ساز کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں اور مسافر آسان راستے سے بھی خوف کھاتے ہیں اور سازہا بشکست و دردِ شاعران از حد گذشت سال ہائے انتظاری بر من و تو برگذشت آشنا ناآشنا شد تا بلی گفتم بلا شد (سْروں کو بکھیرنے والے تار ٹوٹ چکے اور شاعروں کا درد حد سے گزر گیاہے۔ میں نے تیرے انتظار میں اتنے سال گزارے ہیں کہ سب آشنا اب ناآشنا ہو گئے ہیں) گریہ کردم، نالہ کردم، حلقہ بر ہر در زدم سنگ سنگِ کلبہ ویرانہ را بر سر زدم آب از آبی نجنبید خفتہ در خوابی نجنبید (میں بہت رویا، گریہ و فریاد کی،ہر ایک دروازے پر دستک دی۔ اس ویرانے کے پتھروں کی ریت اپنے سر پر ڈالی۔ لیکن جیسے پانی کو نہیں معلوم کہ وہ کسقدر گہرا ہے ویسے ہی سوئے ہوئے شخص کو کیا پتہ کہ وہ کتنی گہری نیند سو رہا ہے) چشمہ ہا خشکیدہ و دریا خستگی را دم گرفت آسمان افسانہ ما را بہ دستِ کم گرفت جام ہا جوشی ندارد، عشق آغوشی ندارد بر من و بر نالہ ہایم، ہیچ کس گوشی ندارد (سب چشمے خشک ہوگئے، دریا سست ہوگئے، آسمان نے بھی میری داستان کو کوئی وقعت نہ دی سب نشہ بے اثر ہوگیا ہے اور عشق کی آگ جو سینوں میں تھی بجھ چکی ہے) بازآ تا کاروانِ رفتہ باز آید بازآ تا دلبرانِ ناز ناز آید بازآ تا مطرب و آہنگ و ساز آید کاکل افشانم نگارِ دل نواز آید بازآ تا بر در حافظ اندازیم گل بیفشانیم و می در ساغر اندازیم (تم لوٹ آؤ تاکہ قافلہ پھر روانہ ہو جائے، لوٹ آئوکہ محبوبوں کے نازوانداز لوٹ آئیں۔ لوٹ آؤ گے مضطرب ساز کی دنیا آباد ہو۔ لوٹ آؤ اور حافظ کے انداز میں مہرجاناں کے استقبال میں پھول برسائیں اور رونقیں پھیلا دیں) شہر کے لٹنے، تباہ ہونے، برباد ہونے اور اجڑنے کا دکھ اپنی جگہ ہے لیکن جیسے آج سمجھانے کیلئے فارسی شاعری کا مجھے ترجمہ لکھنا پڑ رہا ہے اور مجھے خوب اندازہ ہے کہ ترجمہ پڑھنے والا اس کیفیت سے ہرگز نہیں گزر سکتا جس سے گانے والی نگوراہ خلوا گزری ہے کہ یہ اسکی زبان ہے اسی لئے اس نے اسے امر کر دیا، ویسے ہی عین ممکن ہے ایک وقت ایسا بھی آجائے جب کسی کالم نگار کو ناصر کاظمی کے اس شعر کا بھی ترجمہ تحریر کرنا پڑ جائے۔ تہذیبیں اجڑتی ہیں تو دکھ، درد خوشی اور اداسی کے گیت بھی اجڑ جاتے ہیں
Orya Maqbool Jan Column Harf e Raz Shehar kyun Sain sain karta hai 14 May 2019
 
آشوبِ وطن
( ماخوذ)

پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری

شہر خالی رستے خالی گلیاں خالی خانہ خالی
جام خالی میز خالی ساغر و پیمانہ خالی

چل دئیے ہیں دوستوں اور بلبلوں کے قافلے
باغ خالی شاخیں خالی اور خالی گھونسلے

وائے اے دنیا کہ یار اب یار سے ڈرنے لگے
پیاسے غنچے اپنے ہی گلزار سے ڈرنے لگے

عاشق اب محبوب کے دیدار سے ڈرنے لگے
موسیقار اب ساز ہی کے تار سے ڈرنے لگے

شہسوار اب رستہ ء ہموار سے ڈرنے لگے
دیکھنے کو چارہ گر بیمار سے ڈر نے لگے

ساز ٹوٹے اور دردِ شاعراں حد سے بڑھا
شاق گذرا ہم پہ تم پہ انتظارِ سال ہا

جو شناسا تھے ہمارے ہو گئے نا آشنا
ایسا کہنا بھی ہے جیسے کوئی آفت یا بلا

نال و شیون کیا ہر در پہ دی میں نے صدا
خاکِ ویرانہ سے اپنے سر کو آلودہ کیا

پھر بھی ساکت پانیوں میں کوئی نہ حرکت ہوئی
خواب غفلت میں جو ڈوبے آنکھ نہ ان کی کھلی

خشک چشمے ہوگئے دریا بہت ہی کم رواں
آسمان بھی ہنس دیا سن کر ہماری داستاں

عشق محرومِ حبیب جام خالی جوش سے
ہمدرد کوئی بھی نہیں جو میرے نالے کو سنے

لوٹ آو تا کہ لوٹیں جانے والے قافلے
لوت آو پھر اٹھا ئیں ناز اہلِ ناز کے

لوٹ آو تا کہ لوٹے مطرب و آہنگ و ساز
زلف پھیلاو کہ لوٹے پھر نگارِ دل نواز

در پہ حاضر مظہریؔ ہوں حافظِ شیراز کے
پھول برسیں چھلکیں ساغر مے ءِ خوش انداز کے
 
بہت عمدہ گانا ہے۔ :)

مجھے تاجک لوگ بہت اچھے لگتے ہیں، اور اُن سے بھی کم و بیش ویسی ہی اپنائیت محسوس کرتا ہوں جیسی مثلاً آذربائجانیوں سے، مگر اُن کی فارسی پر ازبک کا بہت گہرا اثر ہے، جس کی وجہ سے مجھے اُن کا گفتگو کا لہجہ ایرانیوں کے مقابلے میں کرخت محسوس ہوتا ہے۔

مجھے تاجک گلوکارہ شبنم ثریا کا یہ گانا بہت اچھا لگتا ہے، یہ بھی سنیے گا۔
باز تو نگو
http://www.afghanmusik.eu/audios/411/bahram-und-shabnam---baz-tu-nago.php
پنجہ خنیاگران از خار می ترسد۔ یہ شاید غلط لکھا گیا ہے۔ از تار می ترسد ہونا چاہئے ۔ اسی طرح ، آوازہ دیدار نہیں بلکہ آوازہ دلدار صحیح ہوگا ۔
 
نگار خلوا کی آواز میں امیر جان صبوری کا گیت ، شہر خالی جادہ خالی کوچہ خالی خانہ خالی ۔۔۔ سن کر بے ساختہ نکلا : عفاک اللہ درد ہجر وسوز غم بیاں کردی ۔ عطا دلہائے مہجوران راگویا زباں کردی ۔
 
بہت عمدہ،
آپ کبھی وقت ملے تو میری پسند کے گلوکاروں امیر جان صبوری، نذیر خارا اور غزال، نازیہ کرامت اللہ (Noziya Karomatullo) اور فیروزہ حافظوا (firuza hafizova) کے گانے سنیئے گا اور بتائیے گا کیسے لگے۔
السلام علیکم۔۔۔شہر خالی گانا سنا بہت اچھا لگا میں فارسی سیکھنا چاھتا تھا یہ گانا سننے کے بعد تمنا بڑھ گئی ہے میری راہنمائی فرمائیں کیسے تاجک اور فارسی میں اچھا ہو سکتا ہوں
 
مدیر کی آخری تدوین:

ابنِ محمد

محفلین
میں نے بھی اس کلام کا ترجمہ کرنے کی ہمت کی ہے احباب سے درخواست ہے کہ اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
یہ لنک ہے میرا جس پر یہ ترجمہ اپلوڈ کیا ہے ۔
 
بعض جگہ ترجمہ میں تبدیلی یا اضافہ ہے جس سے کہیں کہیں مفہوم بھی بدل گیا ہے ۔ پھر اصل الفاظ میں غنائیت کا اپنا ایک حسن ہے جو ترجمہ میں نہیں ہے ۔ اچھی کاوش ہے لیکن ترجمہ کرتے وقت ان دونوں باتوں کا خیال رکھا جائے تو بہتر ہے ۔
 
ایک بات کہناچاہوں گا ۔ گیت کے پہلے شعر کے دوسرے مصرع میں ایک جھول محسوس ہوا ۔ جام ، ساغر ، پیمانہ ، تینوں ہم معنی ہیں ۔ ایک ہی مصرع میں ان کا استعال کچھ مناسب نہیں لگتا ۔ شاید شاعر کا دھیان اس طرف نہیں گیا ورنہ فارسی کا دامن اتنا تنگ نہیں ۔ پیمانہ کی جگہ میخانہ بہتر ہوتا اور جام کے ساتھ مینا ا سکتا تھا ۔ گیت خوب ہے بلکہ خیلی خوب ۔ اور نگارہ کی ادائگی کا تو جواب نہیں ۔ دوسری بات ۔ راشد محمود صاحب برا نہ مانیں تو عرض کروں کہ السلام علیکم کی ترکیب غلط ہے ۔ السلام علیکم ہونا چاہئے ۔ معذرت چاہتا ہوں ۔
 
Top