جیا راؤ
محفلین
شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاوں والے
کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاوں والے
اب کے بستی نظر آتی نہیں اجڑی گلیاں
آو ڈھونڈیں کہیں درویش دعاوں والے
سنگزاروں میں مرے ساتھ چلے آئے تھے
کتنے سادہ تھے وہ بلورّ سے پاوں والے
ہم نے ذّروں سے تراشے تری خاطر سورج
اب زمیں پر بھی اتر زرد خلاوں والے
کیا چراغاں تھا محبت کا کہ بجھتا ہی نہ تھا
کیسے موسم تھے وہ پرﹸ شور ہواوں والے
تو کہاں تھا مرے خالق کہ مرے کام آتا
مجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداوں والے
ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بنی ہے محسن !
خامشی کے سبھی تیور ہیں صداوں والے
محسن نقوی
کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاوں والے
اب کے بستی نظر آتی نہیں اجڑی گلیاں
آو ڈھونڈیں کہیں درویش دعاوں والے
سنگزاروں میں مرے ساتھ چلے آئے تھے
کتنے سادہ تھے وہ بلورّ سے پاوں والے
ہم نے ذّروں سے تراشے تری خاطر سورج
اب زمیں پر بھی اتر زرد خلاوں والے
کیا چراغاں تھا محبت کا کہ بجھتا ہی نہ تھا
کیسے موسم تھے وہ پرﹸ شور ہواوں والے
تو کہاں تھا مرے خالق کہ مرے کام آتا
مجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداوں والے
ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بنی ہے محسن !
خامشی کے سبھی تیور ہیں صداوں والے
محسن نقوی