محسن نقوی شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاوں والے۔۔۔۔۔۔ محسن نقوی

جیا راؤ

محفلین
شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاوں والے
کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاوں والے

اب کے بستی نظر آتی نہیں اجڑی گلیاں
آو ڈھونڈیں کہیں درویش دعاوں والے

سنگزاروں میں مرے ساتھ چلے آئے تھے
کتنے سادہ تھے وہ بلورّ سے پاوں والے

ہم نے ذّروں سے تراشے تری خاطر سورج
اب زمیں پر بھی اتر زرد خلاوں والے

کیا چراغاں تھا محبت کا کہ بجھتا ہی نہ تھا
کیسے موسم تھے وہ پرﹸ شور ہواوں والے

تو کہاں تھا مرے خالق کہ مرے کام آتا
مجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداوں والے

ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بنی ہے محسن !
خامشی کے سبھی تیور ہیں صداوں والے

محسن نقوی
 

محمداحمد

لائبریرین
تو کہاں تھا مرے خالق کہ مرے کام آتا
مجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداوں والے

واہ واہ واہ جیا صاحبہ! بہت خوب! لاجواب غزل ہے۔

خوش رہیے!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے​
کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاؤں والے​
اب کے بستی نظر آتی نہیں اجڑی گلیاں​
آو ڈھونڈیں کہیں درویش دعاؤں والے​
سنگزاروں میں مرے ساتھ چلے آئے تھے​
کتنے سادہ تھے وہ بلورّ سے پاوں والے​
ہم نے ذّروں سے تراشے تری خاطر سورج​
اب زمیں پر بھی اتر زرد خلاؤں والے​
کیا چراغاں تھا محبت کا کہ بجھتا ہی نہ تھا​
کیسے موسم تھے وہ پرﹸ شور ہواؤں والے​
تو کہاں تھا مرے خالق کہ مرے کام آتا​
مجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداؤں والے​
ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بنی ہے محسن !​
خامشی کے سبھی تیور ہیں صداؤں والے​
(محسن نقوی)​
(برگِ صحرا)​
 

محمداحمد

لائبریرین
تو کہاں تھا مرے خالق کہ مرے کام آتا​
مجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداؤں والے​
کیا غزل ہے اور کیا شعر ہے۔
واہ
 
Top