سر میں اس لیئے بے دھڑک آپ سے سوالات کر لیتا ہوں کہ آپ تسلی بخش جوابات دیتے ہیں۔ وگرنہ سیاست کے زمرے سے میں کوسوں دور بھاگتا ہوں۔نیرنگ خیال بھائی! آپ کی بات درست ہے کہ ہم عمل سے دور ہیں اور تا حال صرف زبانی کلامی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن اس کالم کا ” اصل موضوع“ اُس مغرب کا ننگا پن اور دوغلہ پن دکھلانا ہے، جس کے ہم میں سے بہت سے مسلمان ”مرید“ ہیں۔ ان ”مغرب پرست“ مسلمانوں کو آئینہ ضرور دکھلاتے رہنا چاہئے کہ وہ دن رات جس کی ”حمد و ثناء“ کرتے نہیں تھکتے، ان کا اصل روپ کیا ہے۔
مغرب تو اسلام دشمنی میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لکھتا اور بولتا ہی رہتا ہے۔ ان کے ”طرفدار مسلمان“ (روئے سخن آپ کی طرف ہرگز نہیں ہے ) بھی مغرب کی حمایت اور عالم اسلام کی مخالفت کرت رہتے ہیں۔ اس کالم یا دھاگہ کا موضوع مسلمانوں کی خامیاں یا کمزوریاں نہین ہیں، جو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ بلکہ اس کالم اور دھاگہ کا موضوع مغرب کا ننگا پن اوردوغلہ پن ہے، جس کے (بد قسمتی سے) ہم میں سے بعض مسلمان بھی ”عاشق“ ہیں۔ کیا ہمیں اپنی خامیوں کے ادراک رکھنے کے ساتھ ساتھ ”اغیار“ کی بدکرداریوں سے اپنی نئی نسل کو آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
پس نوشت: مجھے قوی اًمید ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی خامیوں پر لکھتے اور بولتے نہیں تھکتے، وہ مغرب کے اس ننگے پن اور دوغلہ پن کی مذمت کبھی بھی نہیں کریں گے۔ نہ سوشیل میڈیا پر، اور نہ ہی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں۔
نہیں ایسا نہیں ہے۔ ان کے معاشرے سے ہما را ”تعلق“ نہ صرف ہے، بلکہ بڑھتا جارہا ہے۔ ہماری سو فیصد یوتھ، خواہ پڑھی لکھی ہو، یا ان پڑھ، اسکلڈ ہو یا اَن اسکلڈ، سب کے سب (الا ماشاء اللہ) ان ممالک کو جنت ارضی سمجھتے ہیں اور وہاں جانا اور وہاں رہائش اختیار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ لوگ قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے لاکھوں روپے (قرض یا سب کچھ بیچ کر) دے کر بھی وہان جانا چاہتے ہیں، خواہ وہاں پہنچ کر ان کی حالت بد سے بدتر ہی کیوں نہ ہوجائے۔ لہٰذا ایسے معاشرے کی منفی تصویریں بھی انہیں دکھلاتے رہنا چاہئے۔ یہ کام بھی ساتھ ساتھ کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ ”دور کے ڈھول سہانے“ کا سحر ختم کیا جاسکےسر میں اس لیئے بے دھڑک آپ سے سوالات کر لیتا ہوں کہ آپ تسلی بخش جوابات دیتے ہیں۔ وگرنہ سیاست کے زمرے سے میں کوسوں دور بھاگتا ہوں۔
وہ بھلے مسلم کے خلاف لکھتے ہیں۔ مگر انکا لکھنا محض لکھنے تک محدود نہیں ہوتا۔ وہ اس پر عمل بھی کر کے دکھاتے ہیں۔ مثالوں کی چنداں ضرورت نہیں۔ دوغلہ پن بالکل ہے۔ اور ڈنکے کی چوٹ پر ہے۔ مگر نئی نسل کی خودمختاریوں کو یہ تصویر کا رخ دکھانے سے پہلے کیا یہ بتانا ضروری نہیں کہ کہاں سے بچ کر چلنا ہے۔ کہاں جانا ضروری ہے۔ فحش گوئی، لغویات کیا ہمارے معاشرے کا عام حصہ نہیں؟ کیا ان کو طرف توجہ دلانا ضروری نہیں۔ مگر ہم تو یہاں بھی عمل سے عاری ہیں حالانکہ اس میں ایسا کچھ نہیں جس پر ہم عمل نہ کر سکیں۔ بحثیت مسلم تو اک طرف کیا ہم بحثیت پاکستانی یا محض محلےدار ہونے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہیں؟ ان کے معاشرے کی تصویر جسکا ہم سے تعلق ہی نہیں پیش کرنا پڑی لکڑی اٹھانے والی بات ہے۔ کیا نہیں؟
تو کبھی ان وجوہات کا بھی تذکرہ ہو جائے جنکی وجہ سے انکو جنت ارضی سمجھا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ میرے اس مراسلے کا دوغلے پن والے موضوع سے تعلق نہیں۔ بات وہیں کہ ہم وہ حالات خود کیوں نہیں پیدا کرتے۔ جب ہم امریکن بینکوں کے لیئے کام کرتے تھے یہاں پاکستان میں تو میری تنخواہ محض چند ہزار روپے تھی۔ جبکہ جوکمپنی انکو میرا چارج کرتی تھی وہ کوئی 60ڈالر فی گھنٹہ تھا۔ اسی طرح کی اور بہت سے مثالیں دے سکتا ہوں۔ وہ مزدور کے لیول پر بھی کسی کا حق نہیں دباتے۔ چاہے سیاسی و مذہبی طور پر کتنےہی اختلافات ہوں۔ پھر انکا انداز انصرام۔ ہمارا معاشرہ ہر سطح پر سیاسی چالوں اور ٹانگ کھینچنے والے طرز عمل سے بھرا ہوا۔ میرا اس وقت بھی مینیجر اک انگریز ہے اور اسکا جب میں یہاں موجود باقیوں سے موازنہ کرتا ہوں تو کیا کہوں۔ اب اس بات کو دبا رہنے دیں۔ اگر ہم خود بھی اسی طرح محنت کریں اور تحقیق کے پیشہ کو اپنائیں بجائے اسکے جو میں نے پڑھا سب صحیح باقی سب غلط تو یہ بھی جنت ارضی ہی کہلائے گا۔ انشاءاللہنہیں ایسا نہیں ہے۔ ان کے معاشرے سے ہما را ”تعلق“ نہ صرف ہے، بلکہ بڑھتا جارہا ہے۔ ہماری سو فیصد یوتھ، خواہ پڑھی لکھی ہو، یا ان پڑھ، اسکلڈ ہو یا اَن اسکلڈ، سب کے سب (الا ماشاء اللہ) ان ممالک کو جنت ارضی سمجھتے ہیں اور وہاں جانا اور وہاں رہائش اختیار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ لوگ قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے لاکھوں روپے (قرض یا سب کچھ بیچ کر) دے کر بھی وہان جانا چاہتے ہیں، خواہ وہاں پہنچ کر ان کی حالت بد سے بدتر ہی کیوں نہ ہوجائے۔ لہٰذا ایسے معاشرے کی منفی تصویریں بھی انہیں دکھلاتے رہنا چاہئے۔ یہ کام بھی ساتھ ساتھ کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ ”دور کے ڈھول سہانے“ کا سحر ختم کیا جاسکے
یہاں دھاگہ ان مقاصد کے لئے نہیں ہے۔ صرف مغرب کے ننگ پنے پر بات کریں بلکہ شہزادی کیٹ کی تصویر چسپاں کر کے جزائے خیر وصول کریں۔مجھے مغرب کے دوغلے پن کی حمایت نہیں کرنی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دوسروں کے عیب گنتے وقت خود کی کارگزاریوں پر بھی کڑی نظر ہونی چاہیئے۔
سر میں اس لیئے بے دھڑک آپ سے سوالات کر لیتا ہوں کہ آپ تسلی بخش جوابات دیتے ہیں۔ وگرنہ سیاست کے زمرے سے میں کوسوں دور بھاگتا ہوں۔
وہ بھلے مسلم کے خلاف لکھتے ہیں۔ مگر انکا لکھنا محض لکھنے تک محدود نہیں ہوتا۔ وہ اس پر عمل بھی کر کے دکھاتے ہیں۔ مثالوں کی چنداں ضرورت نہیں۔ دوغلہ پن بالکل ہے۔ اور ڈنکے کی چوٹ پر ہے۔ مگر نئی نسل کی خودمختاریوں کو یہ تصویر کا رخ دکھانے سے پہلے کیا یہ بتانا ضروری نہیں کہ کہاں سے بچ کر چلنا ہے۔ کہاں جانا ضروری ہے۔ فحش گوئی، لغویات کیا ہمارے معاشرے کا عام حصہ نہیں؟ کیا ان کو طرف توجہ دلانا ضروری نہیں۔ مگر ہم تو یہاں بھی عمل سے عاری ہیں حالانکہ اس میں ایسا کچھ نہیں جس پر ہم عمل نہ کر سکیں۔ بحثیت مسلم تو اک طرف کیا ہم بحثیت پاکستانی یا محض محلےدار ہونے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہیں؟ ان کے معاشرے کی تصویر جسکا ہم سے تعلق ہی نہیں پیش کرنا پڑی لکڑی اٹھانے والی بات ہے۔ کیا نہیں؟
متفق۔ اور اگر کوئی ان کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرے تو ہم لوگ آگ بگولہ ہوجاتے ہیں کہ تم نے ہماری شہزادی، ہماری ملکہ عالیہ، ہماری سابقہ (اور ذہنی طور پر ”موجودہ“) آقا زادی کے بارے میں ایسی بات کہی کیسے؟ یعنی شہزادی کا ننگے ساحلوں پر گھومنا پھرنا، تصویریں اُتروانا، تو اُن کا ”ذاتی فعل“ ہے، لیکن اس ”خبر“ پر تبصرہ کرنا گناہ کبیرہ ہےبات دہرے معیار کی ہی ہے یعنی:
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
السلام علیکم
تصویریں چشپاں کیوں کرنا ہے
ایک مرغی لیں اس کی کھال سے پر وغیرہ صاف کردیں
پھر سمجھ لیں کہ یہ گورے لوگ ہیں۔