وعلیکم السلام پیارے بھائی
بھائی اگر آپ برا نہ مانیں تو مجھے بتائیں کہ میری پچھلی پوسٹ میں کونسی بات اسلامی تعلیمات سے متصادم لگی ہے۔
نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیںتھی۔ میرا مطلب صرف یہ تھا کہ اگر کسی چیز کا معیار، پیمانہ یا طریقہ قرآن اور حدیث میں مقرر کر دیا گیا ہے تو پھر اس معاملہ میں کسی تیسرے فریق کی گواہی کی ضرورت نہیںرہتی۔
آج جب وقت نے ان سب کے ساتھ اتنا ظلم کیا ہے تو کم از کم اتنا تو دل میں مانوں کہ ان کو ضرم سے بڑھ کر سزا دی گئی ہے۔
بھیا یہ اختلافی معاملہ ہے۔ پہلی بات یہ کہ لال مسجد والوںکو پولیس والوں کو اغواء کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر انہیں پولیس اور فوج پر فائرنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جب انہیں کہا گیا کہ ہتھیار ڈال کر باہر آجائیں تو ایسا کرنے میں کیا امر مانع تھا؟ کیا اس صورت میں وہ تمام جانیں بچائی نہ جا سکتی تھیں؟ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ جی انہیں چھوڑ دیتے تو جانیں بچ جاتیں۔ آپ صرف یہ بتائیں کہ اگر ان کو جانے دیا جاتا تو پاکستان کا وہ کونسا شہر اور قصبہ ہے جہاںلال مسجدیں نہ کھل جاتیں؟ ہر کوئی چند بندوقیں پکڑتا اور اپنے تخلیق کردہ "شرعی" احکام نافذ کرتا پھرتا۔ اور اس کی زد میںسب سے زیادہ آپ ہم وہی لوگ آتے جو ان کی حمایت کرتے ہیں۔ جیسے آج مہمند ایجنسی سے خبر آئی ہے کہ پمفلٹ آگئے ہیںکہ عید کے دن لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ سیر کے لئے باہر نہ نکلیں وگرنہ بم مار کر اُڑا دئے جائیںگے۔ یہ ہے ان جاہلوںکا اسلام۔ رسولِ عربی صلعم کی امت سے ان لوگوں کی محبت ہی ان کے ایمان کی ارزانی کی دلیل ہے۔
ذرا دیکھنا جب قرآن پاک کے اوراق گندے نالے سے نکلے تو کیا آپ کا دل اسکو معمولی واقعہ گردانتا ہے۔
قطعا نہیں میرے بھائی مگر یہ بتائیے کہ اس کا ذمہ ان لوگوںکے سر نہیں جن کا دعوٰی تو اس قرآن کی خدمت تھا اور انہوںنے اسے کشور کشائی کا ایک ذریعہ بنا لیا؟
کیا ان طالب علموں کے جسموں کے ٹکرے ملبے سے برآمد ہوئے تو کیا آپ کا دل اس پر غمناک نہیں ہوتا۔
ہوتا ہے بھائی مگر کیا ان طالب علموں کو، ان کے ماں باپ کو اس بات کی سمجھ نہیںتھی کہ یہ کس راستہ پر چل رہے ہیں؟ چھ روز تک ان سب کو باہر آنے کے لئیے کہا جاتا رہا؟ اگر آجاتے تو کیا قیامت آ جاتی؟ کیا یہ کوئی جنگ تھی؟ ہرگز نہیں۔ اگر ان کا کام احتجاج کرنا تھا تو وہ احتجاج تو یہ لوگ رجسٹر کروا چُکے تھے۔ پھر اتنی انتہا تک جانا اور وہ بھی اس شخص کے لئے جو ہر گھنٹہ اپنی بات بدلتا تھا۔ جب آپ گناہ اور بغاوت کی راہ پر چل نکلو میرے بھائی تو آپ طالب نہیں باغی ہوتے ہو۔ طالب کا کیا کام اسلحہ سے؟
کیا لال مسجد کو دوبارہ کھلنے کے بعد ملبے سے ایک لاش کی برآمدگی اور اس لاش کی برآمدگی کے کچھ دیر بعد آبپارہ میں دھماکہ، اور پھر فورا لال مسضد کی غیر معینہ مدت کے لیئے بندش آپ کو سوچنے پر مجبور نہیں کرتا۔ بھائی آپ امریکہ میں ہو میں نے یہ سب اسلام آباد میں رہتے ہوئے محسوس کیا ہے۔
کرتا ہے بھائی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ کہ ہمارے یہاں مذہب کو دہشتگردی کا ایک آلہ بنا لیا گیا ہے۔ ہم لوگ حرام کی کمائی سے حلال گوشت خریدتے ہیں اور مساجد کو چندے دیتے ہیں۔ ہمارے علماء ان چندوں کو بخوشی وصول کر کے ان پیسوں کو استعمال کرتے ہیں۔ بدلہ میں وہ رشوت خوری، چور بازاری، اقرباء پروری، ناجائز منافع خوری، قبضہ گروپ اور ان جیسے "معصوم" جرائم پر تو خطبہ نہیںدیتے، ہاں موسیقی، ٹی وی اور ایسے دیگر مضامین پر ان کی زبان بہت چلتی ہے۔ ہمارا "اسلامی" معاشرہ اس حمایت کے عوض مولوی کی ہر اس بات کی تائید کرتا ہے جو ہمارے زندگی میں مداخلت نہ کرے۔ اس مالِ حرام پر جب ایک طالب پلتا ہے تو پیارے بھائی کیا اس کا علم اور کیا اس کا تقوٰی؟ جب جسم میںدوڑ ہی حرام کا مال رہا ہو، تو ان سب کی بات ہی کہاںآئی۔
اور جہاں تک سزا کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں آپ بھی جانتے ہیں، کہ کیا ہے، ویسے بھی ساجد بھائی نے سزا کو کافی تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔ لیکن سزا کامعاملہ تو تب آئے جب کوئی گواہ نہ لا سکے۔
ارے بھائی گواہِ شرعی کی بات ہے۔ جس طرح کی شہادت قرآن اور سنت سے اور اجماعِ ائمہ سے ثابت ہے۔ یہاں فاتح بھائی نے میڈیکل ٹیسٹ کی بات کی ہے مگر میرے ناقص فہم کے مطابق جب قرآن، سنت اور ائمہ سے کسی معاملہ کا ثبوت ہو جائے تو اس میں مزید اضافہ ناجائز ہے (زنا بالجبر کا معاملہ البتہ اور ہے)۔ بہرحال یہ ایک علٰیحدہ موضوع ہے۔ فی الحال تو یہی بات کہ جب کوئی کام شریعت کے دعوٰی سے کیا جائے تو اس کا طریق بھی شرعی ہونا چاہئے۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے کہ "اگر کوئی کسی پارسا عورت پر الزام لگائے اور چار آدمی بطورِ گواہ نہ پیش کر سکے تو اس کی سزا اسی دُرے ہیں اور تمام عمر کے لئے اس کی گواہی کبھی بھی معتبر نہ سمجھو"
اب اس صورت حال میں آپ فرمائیے کہ اگر کوئی شخص جو اپنے آپ کو عالمِ قرآن بھی کہتا ہے، کسی بھی عورت پر الزامِ گناہ لگاتا ہے اور پھر یہ اعتراف بھی برسرِ عام کرتا ہے کہ اس کے پاس چار گواہانِ شرعی نہیں ہیں تو اس شخص کی قرآن کے مطابق کیا حیثیت ہے؟ جذباتیت سے ہٹ کر سوچئے۔ اور اب ایک ایسا شخص جس کی گواہی ہی تمام عمر کے لئے از روئے قرآن ساقط ہو گئی، اس کے حکم پر دین کے لئے سر کٹانا چہ معنی دارد؟ کیا ضروری نہیں کہ اگر کوئی بھی دین کے نام پر کوئی اعلان کرے تو اس سے پہلے بات کرنے والے کی پڑتال کر لی جائے بجائے اس کے کہ صرف یہ دیکھا کہ جی صاحب باریش ہیں اور ایک مسجد و مدرسہ پر قابض ہیں لہٰذا سب ٹھیک ہی کہتے ہوں گے؟
میں صرف اتنا کہتا ہوں اگر کسی کو جو گواہان سامنے آئے تھی ان پر شک تھا تو مفتیان اکرام/قاضی صاحبان کے سامنے ان سے پوچھ گچھ کر لیتے، اور اگر وہ گواہ جھوٹے ہوتے یا حد کا الزام ثابت نہ ہوتا تو اس صورت میں شریعہ کے مطابق کاروائی ہو تی۔ لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے اب ایک نئی بحث چل پڑی ہے۔
ارے بھائی اس کا اعتراف تو خود غازی صاحب مرحوم نے ٹی وی پروگرام "میرے مطابق" میں کیا تھا کہ ان کے پاس شرعی گواہان موجود نہیں ہیں۔ بات ریکارڈ پر ہے۔
وہاں ان لوگوں کے کچھ اپنے رواج ہیں، جن کی پاسداری بابائے قوم محمد علی جناح نے بھی کی اور ان کو ان کے رواجوں کے مطابق رہنے کی اجازت دی، جس میں ان کے تمام مسئل کا حل جرگہ کرتا ہے، اور یہ پچھلے ساٹھ سالوں سے چل رہا ہے۔
بابائے قوم رحمتہ اللہ علیہ کے فیصلہ اس وقت کے مطابق تھے۔ آج اگر ان کے اپنے رواج کا مطلب یہ ہے کہ اُدھر سے خودکش بمبار تیار ہو کر دُنیا میں ہر طرف اور بالخصوص پاکستان کے اندر پھیل جائیں تو کیا پھر بھی ہم اُسی فیصلہ پر اٹکے رہیں گے؟ دیکھئے بھائی جب آپ کسی ملک کے شہری ہونے کے دعویدار ہیں تو پھر آپ پر اس ملک کا قانون بھی لاگو ہونا چاہئے۔ اب بابائے قوم نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ازبک، تاجک، عرب جو کوئی بھی دہشت گرد ہو اُسے پناہ دے دینا تاکہ وہ تمہاری ہی فوج سے لڑے اور تمہارے گھر میں بیٹھ کر تمہیں ہی آنکھیں دکھائے۔
اس لئے کہ امریکہ کو خطرہ ہے، بجائے ہم امریکہ کو بتائیں کی اس کی پالیسیوں نے دنیا میں اس کے خلاف نفرت کی فضا قائم کی ہے، ہم ان کے اشاروں پر اپنی ہی زمیں بارود و خوں سے رنگین کر رہے ہیں، ہم اپنی ہی زمین پر نفرت کی وہ فصل بو رہے ہیں جو خدا نخواستہ تناور درخت بن گیا تو ...
میرے بھائی امریکہ کو کس سے خطرہ ہے؟ خطرہ تو ہمیں خود ہے۔ امریکہ کا یہ قبائلی کیا بگاڑ لیں گے؟ امریکہ تو چاہتا ہے کہ یہ قبائلی طاقتور ہوں، انارکی پھیلے پاکستان میں، ان کے ذریعے وہ چین میں دہشت گردی کروائے، وسط ایشیا کی ریاستوں میں ہمیشہ دہشت گردی رہے تاکہ یہ خطہ کبھی بھی مغرب کے مفادات کے لئے کوئی خطرہ نہ بن سکے۔ یہ لوگ جو ٹی وی کو حرام کہتے ہیں لیکن لوگوںکو مارنے کی ویڈیو بناتے ہیں؟ جن کے نزدیک اسلام صرف ظاہر ہے اور اسلام کا مطلب یہ ہے کہ انسان مادی طور پر چودہ سو صدیاں پیچھے چلا جائے مگر استعمال سیٹلائیٹ فون کرتے ہیں اور گاڑیاں چلاتے ہیں۔ جن کے نزدیک عورتوں کا پڑھنا لکھنا جرم ہے۔ جن کے نزدیک ہنسنا جرم ہے داڑھی منڈوانا جرم ہے۔ ان لوگوں سے امریکہ کو خطرہ ہوگا؟ ارے بھائی یہ لوگ تو امریکہ اور مغرب کے سب سے بڑے ہتھیار ہیں۔ غیر مسلم تو دور کی بات ان لوگوں کے افعال و کردار سے تو مسلمان نعوذ باللہ اسلام سے دور ہو سکتے ہیں اور شاید ہو بھی رہے ہیں۔ اور اگر یہ لوگ طاقت میں آتے ہیں تو بھائی ڈنڈے امریکی بیبیوں کو نہیں میری اور آپکی ماؤں بہنوں کو پڑیں گے۔ داڑھی منڈوانے پر سر عام ذلت امریکیوں کی نہیں میری اور آپکی ہوگی۔ یہ ایک وبا ہے میرے بھائی ایک فتنہ ہے۔ خدا کے لئے سمجھئے۔ یہ ایک ایسا عفریت ہے جس نے اگر ہماری سوسائٹی میں جڑ پکڑ لی تو ہم لوگ موت مانگیں اور وہ بھی ہم سے روٹھ جائے گی۔ اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ آمین
خون کسی قبائلی کا بہے یا میری فوج کے کسی جوان کا گھائو میرے ملک کے سینے پر لگتا ہے، بارود اگر وزیرستان میں پھٹے یا بنوں، سوات، تربیلا غازی میں تو لہو لہان پاکستان ہوتا ہے۔ بارود کے اس دھویں میں دم پورے پاکستان کا گھٹتا ہے۔
بالکل درست کہا میرے بھائی۔ مگر لڑائی قبائل اور فوج کی نہیںہے۔ لڑائی فوج کی ہے ان جہالت کے علمبرداروں سے جو خود کو طالبان کہلاتے ہیں۔ اور چند مفاد پرست قبائلی اس لئے اس کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اس میں ان کے مخصوص مفادات مزید محکم ہوتے ہیں۔
آپ یہ اپنے دل سے پوچھو، کیا سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے، کیا ہم اس ملک کے قیام کے حقیقی مقصد کے حصول کے لئیے کوشاں ہیں، یا ہم کسی بیرونی قوت کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ۔
بالکل سب ٹھیک نہیں ہورہا بھائی لیکن قبائلی علاقوں میں طالبان نامی قوت کو بھرپور قوت سے کچلنا ازحد ضروری ہے۔ خدا نہ کرے کہ آپ کے گھر پمفلٹ آئیں کہ اگر عید کے دن خوشی منائی تو مار دئے جاؤ گے۔ نہیںبھائی نہیں اس دن سے بچنے کے لئے ہر قربانی جائز ہے۔
کیا ہم شریعت سے اس لئے گریزاں ہیں کے اس سے ہماری نان نہاد روشن خیالی پر ضرب پڑتی ہے۔
بالکل ایسا ہی ہے بھائی لیکن شریعت جرم و سزا نہیں ایک فلاحی مملکت کا تصور ہے۔ روشن خیالی تو ایک بکواس ہے جس نے اپنی موت آپ مر جانا ہے۔ لیکن جس چیز کو شریعت کہہ کے مارکیٹ کیا جارہا ہے اس کا شریعت سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا روشن خیالی کا۔
کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا لیبل لگا کر اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو رہے ہیں۔
اور مولویوں کی حمایت کر کے بھی۔
لیکن یہ یاد رکھنا چاہئیے ایک ذات ہے جو دیکھ رہی ہے، اس نے آٹھ اکتوبر کو اپنی موجودگی کا احساس اس غافل قوم کو دلایا، میں کسی اور کی بات نہیں کرتا اس وقت میں نے بھی بڑے دعوے کیے، میں یہ کروں گا وہ کروں گا ۔ بس اب آئندہ غفلت نہیں ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن آج میں پھر دنیاوی کاموں میں اتنا مگن ہوں کہ غفلت کی چادر تنی ہوئی ہے۔
اللہ تعالٰی ہم سب پر ہمیشہ اپنی رحمت رکھے۔ ہم اس سے اس کی رحمت اور بخشش کے طلبگار ہیں۔
ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم سے پہلے مسلماں جب عروج پر تھے تو ان کے پاس ایسا کیا تھا جو آج ہمارے پاس نہیں۔ آخر ایسا کیا تھا ہمارے پاس کہ اس قوم میں صلاح الدیں ایوبی، یوسف بن تاشفین، خالد بن ولید، طارق بن زیاد، موسٰی بن نصیر وغیرہ جیسے جری نوجوانان نے جنم لیا۔ ہم کو اپنی صفوں میں میر جعفر، میر صادق کو کھوجنا ہو گا، جو ہم میں ہم جیسا لبادہ اوڑے بیٹھے ہیں اور ہم کو ہی آپس میں لڑا رہے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جو آج ہمیں اُٹھ کر یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ہم مسلمان ہی نہیں۔ یہ لوگ جن کے دلوں میں نہ اللہ کی عزت، نہ اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور نہ آپ صلعم کی امت سے کوئی پیار ہے اور اپنے آپ کو دین کے ٹھیکیدار کہتے اور سمجھتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ ساتھ وہ لوگ جو روشن خیالی کے نام پر ہمارے دین اور ہماری اقدار کو ملیامیٹ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں اور ہمیں ان دونوں سے لڑنا ہے۔ لیکن کوئی بھی لڑائی لڑنے سے پہلے اپنے دشمن کو جاننا بہت ضروری ہے۔
اور آخری بات، کیا ریاست کے اندر ریاست صرف قبائل نے بنائی ہوئی ہے، ان جاگیرداروں کا کیا جو اپنے مزارعوں کی قسمت کے مالک بنے بیٹھے ہیں، جہاں آپ کی پولیس اس وڈیرے کی مرضی کے بنا کچھ نہیں کر سکتی، جہاں آخری مرضی اس جاگیردار کی ہوتی ہے۔ تو کیا خیال ہے آپ کا ان کے خلاف بھی آپریشن سائلنس نہ ہو جائے۔
یقینًا پیارے بھائی بالکل کیوں نہیں۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئے۔