شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور وارثان منبر و محراب

سید فرحت حسین شاہ

تخلیق آدم کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے انسان کی راہنمائی اور ہدایت کے لئے انبیاء اور رسل عظام کو بھیجنا شروع کر دیا جو اپنے اپنے دور کے حالات اور تقاضوں کے مطابق نسل انسانی میں علم وفکر، تعلیم وتربیت، عبادت وریاضت اور شعور کی بیداری کے لئے کام کرتے رہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی نبی اس جہان فانی سے ابدی جہاں کا مسافر ہوتا توکچھ وقت گزرنے کے بعد اس کی تعلیمات کو یکسر فراموش کر دیاجاتا اور انسانیت جہالت و ظلم اور فتنہ وفساد میں پھنس کر رہ جاتی اور یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جاری رہا۔ پھر نبی آخرالزماں، رحمت اللعالمین محبوب خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا زمانہ آیا تو باری تعالی نے پہلے سے قائم نظام کو تبدیل کر کے فرما دیا :

وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.

(مائدہ، 5 : 67)

’’اور اللہ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔‘‘

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَo

(الحجر، 15 : 9)

’’بیشک یہ ذکر عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘

یعنی پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم تیری ذات کو بھی محفوظ رکھا جائے گا اور محبوب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم آپ کی سب تعلیمات کی بھی حفاظت ہو گی اور اللہ رب العزت نے ایساہی کیا۔ جب تک تو حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اس جہان آب وگل میںظاہری حالت میں موجود رہے تو رشد وہدایت، علم وعمل، تعلیم وتربیت، وعظ و تبلیغ، اخوت وبھائی چارہ، عبادت وریاضت، شعور وفکر، قانون اورعدل وانصاف جیسے سبھی چشمے ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ہی جاری وساری رہے اور آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ہی رشد و ہدایت کا منبع ٹھہرے لیکن آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے پردہ فرما جانے کے بعد کے لئے اللہ تعالی نے نظام حفاظت دین دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔

وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا.

(الانبیاء، 21 : 73)

’’اور ہم نے ان کے لئے امام بنائے جو ہمارے حکم سے ہدایت کا کام کرتے ہیں۔‘‘

ہدایت کے امام درحقیقت وہ علمائے حق ہیں جو ہر وقت تعلیم وتربیت، درس وتدریس، وعظ ونصیحت، اقامت دین اور احیائے اسلام کے لئے برسرپیکار نظر آتے ہیں۔ پہلی امتوں کے انبیاء علیہم السلام کا بتایا ہوا درس کچھ عرصہ بعد بالکل بھلا دیا جاتا تھا مگر مصطفوی دین پر کئی ادوار اور مواقع آئے جب لوگوں کے عقائد بگڑ گئے، لوگ افراط وتفریط کا شکار ہو گئے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی نافرمانی عام ہونے لگی، دینی اقدار کا مذاق اڑایا جانے لگا اور دین اسلام کو ناقابل عمل تصور کیا جانے لگا، اس وقت اہل علم ودانش، صالح حکمرانوں اور روحانیت وتصوف کے پیشہ سے وابستہ افراد نے احیائے اسلام اور دینی اقدار کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔

چونکہ اللہ تعالی نے اس دین کی حفاظت کا اہتمام خود فرمارکھا ہے لہذا جب کبھی امت مسلمہ ایسے حالات سے دوچار ہو تی ہے تو اس وقت تین طرح کے طبقات دین اسلام کو سہارا دیتے ہیں اور امت کے عروق مردہ میں زندگی کی لہر پیدا کرتے ہیں :

مصلحین
مجتہدین
مجددین
1۔ مصلحین
یہ ایسے علماء حق کا طبقہ ہے جو اپنی علمی وتحقیقی کاوشوں سے عقائد کی اصلاح کے لئے کام کرتاہے، عقیدہ توحید و رسالت، ادب صحابہ واہل بیت، فکر آخرت، اولیاء اللہ کی نسبت کے حوالے سے پائی جانے والی بدعقیدگی کو دور کرتا ہے اور صحیح عقیدۂ برحق کی حفاظت کے لئے خداداد صلاحیتوں سے کام لے کر عقائد صحیحہ کا دفاع اور فروغ کرتا ہے۔

2۔ مجتہدین
قرآن وحدیث سے جب دینی احکام اور فقہ کوناقابل عمل تصور کیا جارہا ہو، اس وقت علمائے مجتہدین کا طبقہ تحقیق وتخریج، استنباط واستخراج اور اجتہاد کے ذریعے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق دینی اصطلاحات اور احکام کا نہ صرف دفاع کرتا ہے بلکہ انہیں قابل عمل بنا کر ایسے پیش کرتا ہے کہ جس سے روگردانی نہیں کی جاسکتی۔ قرآن وسنت کی نصوص کی تعبیرنو کرتا ہے، تغیر زمان سے تغیر احکام کے اصولوں کو اپناتا ہے۔ کبھی اجتہاد بیانی کرتا ہے اور کبھی اجتہاد قیاسی اس طرح معانی و معارف کے سمندر بہا دیتا ہے۔

3۔ مجدّدین
حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی ہر صدی کے آخر میں ایسے شخص کو پیدا فرمائے گا جو دین کی تجدید کا کام کرے گا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا تن من دھن سب کچھ احیاء دین اسلام اور اقامت دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔

یہی وہ طبقہ ہے جو نئے سے نئے اٹھنے والے فتنوں کا سرکچل دیتا ہے، ایک مجدد اپنی محنت وجانفشانی، دین کے لئے اضطرابی وبے چینی اور وفاداری میں سب سے بے مثل ویکتا ہوتا ہے۔

مجدد دین کی مٹی ہوئی قدروں کو پھر سے زندہ کرتا ہے۔ ۔ ۔ ہر چیلنج کا منہ توڑ جواب دیتا ہے۔ ۔ ۔ باطل افکار ونظریات کا توڑ کرتا ہے۔ ۔ ۔ مجدد نہ صرف دین کی زندگی کے لئے کام کرتا ہے بلکہ ایک مجدد کی مجلس میں بیٹھنے سے قرون اولی کے اسلاف کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

یہی وہ طبقات ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.

الفاطر، 35 : 28

’’بیشک میرے بندوں میں سے علماء ہی ہیں جو اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔‘‘

عُلَمَاءُ اُمَّتِی کَاَنْبِيَاءِ بَنِی اِسْرَائِيْل.

’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔‘‘

ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی امت مسلمہ مشکل ترین دور سے دوچار ہوئی ہے تو اس وقت علم وعمل کے پیکر، صدق واخلاص سے مزین علماء نے ہی امت کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دیا ہے۔

آج اگر ہم قومی اور بین الاقوامی سطح پر نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو انسانیت سسکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ بالخصوص امت مسلمہ کمزور سے کمزور تر، دینی اقدار سے ناآشنا، شعائر اسلام سے دور، بدعقیدگی، دہشت گردی وانتہا پسندی، لا علمی و بے عملی، افراط وتفریط، دین کو کمزور اور ناقابل عمل تصور کیا جانا، بندگی خدا اور غلامی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے فرار جیسی سینکڑوں بیماریوں نے ہمیں گھیر رکھا ہے اور آج ہم گناہوں کے بوجھ تلے دبے چلے جا رہے ہیں حتی کہ نیکی اور بدی کی تمیز ختم ہو تی دکھائی دے رہی ہے۔ ان حالات میں کیا نعوذ باللہ دین اسلام نے ختم ہوجانا ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا کیونکہ خود باری تعالی نے حفاظت دین کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں کئی جماعتیں، ادارے اور تنظیمیں اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق خدمت دین میں مصروف عمل ہیں۔ بعض تنظیمیں مسلکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر کام کر رہی ہیں۔ ۔ ۔ بعض کی بنیاد علاقائی وجغرافیائی ہے۔ ۔ ۔ کچھ سیاسی وسماجی اور کچھ گروہی مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے کے عقائد پر طعن وتشنیع، اور تنقید وتنقیص کے لئے کام کرنا جماعتوں کی پہچان بن گئی ہے، جس وجہ سے امت کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

ان حالات کے پیش نظر ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ اور احیائے اسلام کے عالمگیر مقصد کو پورا کرنے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے تحریک منہاج القرآن کی بنیادرکھی، اس تحریک میں مختلف نظامتیں، شعبہ جات، کونسلز اور ونگز اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق تحریر، تقریر، تنظیم، تحقیق، اشاعت، درس وتدریس اور تعلیم وتربیت کے مراحل میں مصروف ہیں۔

شیخ الاسلام کی اجتہادی، علمی، فکری کاوشوں کے ذریعے جہاں ہر طبقہ زندگی کے اندر مختلف پہلوؤں سے مثبت تبدیلیاں پیدا ہوئیں وہاں آپ کی شبانہ روز کاوشوں کے نتیجے میں علماء و مشائخ کی اصلاح بھی ممکن ہوئی اور آج اندرون و بیرون ملک شیخ الاسلام کی محبتوں، قربتوں سے فیض یاب ہونے والے ہزاروں علماء و خطباء آپ کی کتب اور خطابات سے کسبِ فیض کرتے ہوئے دین کے حقیقی اور صحیح تصور کو معاشرے میں فروغ دے رہے ہیں۔ شیخ الاسلام کی انہی کاوشوں کی بدولت آج پھر ایک بار منبر ومحراب سے قوی دلائل کے ساتھ عقائد صحیحہ کا پرچار کیا جا رہا ہے، مساجد ایک مرتبہ پھر صحیح معنوں میں معاشرتی مرکز کے طور پر سامنے آرہی ہیں جہاں نماز پڑھنے والوں کو اپنے ہر معاشرتی، سیاسی، معاشی، اخلاقی، مذہبی مسئلہ کا حل دو ٹوک انداز میں قرآن و حدیث سے میسر آرہا ہے۔ ان وارثانِ منبر و محراب کی ذہنی آبیاری کے لئے، انہیں باقاعدہ طور پر منظم کرنے اور مقصد آشنا بنانے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں منہاج القرآن علماء کونسل کا وجود عمل میں لایاگیا۔

ذیل میں ہم وارثانِ منبر و محراب علماء و مشائخ کے کردار اور ذمہ داریوں کو زیربحث لاتے ہیں اور بعد ازاں اس بات کا احاطہ کریں گے کہ شیخ الاسلام نے علماء و مشائخ کو ان کی ذمہ داریوں سے احسن طور پر عہدہ برآ کرنے کے لئے کیا کاوشیں کیں اور اس کے کیا نتائج سامنے آئے۔

وارثین منبر و محراب کی ذمہ داریاں
1۔ علم وعمل
آج اگر ہم اپنا جائزہ لے کر دیکھیں اکثریت ایسے احباب کی دکھائی دیتی ہے جنہوں نے چند گنی چنی تقریریں اور ان کی مختلف ادائیں سیکھ رکھی ہیں جبکہ شوق و محبت سے قرآن وحدیث کا مطالعہ اور اپنے اسلاف کے احوال زندگی کا مطالعہ چھوڑ دیا ہے لہذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے تمام علماء علم نافع اور عمل صالح کو اپنی زینت بنائیں تاکہ ہمارے دل، سوچ، کردار اور ہر ہر فعل میں تقویٰ وطہارت پہلو غالب دکھائی دے۔

حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

فضل العالم علی العابد سبعون درجة بين کل درجتين حضرالفرس سبعين عاما.

’’عالم کو عابد کو ستر درجے برتری حاصل ہے، ہر دو درجوں کو درمیانی فاصلہ گھوڑے کے ستر سال دوڑنے کے بعد طے ہونے والی مسافت کے برابر ہے۔‘‘

2۔ اخلاص
علماء چونکہ وارثین منبر و محراب ہیں اور خدمت دین کے جذبہ سے سرشار ہیں اس لئے ضروری ہے کہ دل ہر طرح کے فریب اور کھوٹ سے پاک ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کے جملہ امور کو خلوص دل سے نبھایا جائے کیونکہ اخلاص ایک ایسے طاقت ہے جو ہر مخالفت اور مزاحمت کی دیوار کو توڑ سکتی ہے لہذا علماء ومشائخ کی ہمیشہ یہ کوشش ہونی چاہئے کہ دنیوی مفاد کی بجائے خالصۃ اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی رضا کے لئے شب وروز مصروف عمل رہیں۔

3۔ دعوت وتبلیغ اسلام
دین اسلام کی دعوت کو عام کرنے کے لئے لوگوں کا ناطہ قرآن وحدیث سے استوار کرنا یہ علمائے حق کی اولین ذمہ داری ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب علماء ومشائخ قرآن وحدیث کا معرفت وحقائق پر مبنی نور حاصل کرنے کے لئے محنت کریں گے اور پھر اپنے اپنے علاقے اور جہاں تک ممکن ہو وہاں تک دروس قرآن، دروس حدیث، دروس تصوف، شب بیداریوں اور محافل ذکر ونعت کے دین اسلام کا جیتا جاگتا پیغام جملہ اہل اسلام کو پہنچائیں۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ.

’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں‘‘

4۔ فروغ عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

آج کی امت مسلمہ کی زبوں حالی اور شکست خوردگی کا واحد حل یہ ہے کہ لوگوں کا ایک بار پھر ذات رسالتماب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے قلبی، حبی اور والہانہ عشقی تعلق کو مضبوط کیا جائے، اس تعلق کی مضبوطی کے لئے بارگاہ رسالتماب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم میں ہر وقت درود وسلام کا نذرانہ، محافل میلاد ونعت کو معاشرے کی ثقافت بنانا اور حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیمات کی اطاعت وپیروی کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
گر با او نہ رسید تمام بولہبی است

علماء ومشائخ کو اسی مقصد عظیم کے لئے شب وروز مصروف عمل رہنا چاہیے تاکہ ایک بار پھر عصر حاضر میں جمال مصطفوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے شناسائی پیدا کر کے عشق و محبت کی قوت سے امت مرحومہ کی پستیوں کو بلندیوں میں بدلا جا سکے۔

قوت سے عشق سے ہرپست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد (ص) سے اجالا کر دے

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے تصور کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ازسرنو اجاگر کیا جائے تاکہ عصر حاضر کے ملی بگاڑ اور عظمت و محبت رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ناآشنائی کے سبب پیدا ہونے والے روحانی زوال کا جائزہ لیا جا سکے اور ہم اصلاح احوال کی طرف متوجہ ہوں۔

ہمارے علم میں ایک طرف حضور سید عالم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی وہ عظمت وشان ہو جو آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو بارگاہ خداوندی میں حاصل ہے تو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی شوکت ورفعت کا علو جس کے پھریرے اقلیم فرش وعرش پرلہرا رہے ہیں۔ اس تصور کو حتی المقدور تحریر وتقریر کا جامہ پہنا کر عوام الناس میں متعارف کروایا جائے تاکہ پھر سے اسلام کی عظمت کا احیاء، عظمت رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ممکن ہو سکے۔

نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یس، وہی طہ

5۔ عقائد صحیحہ کا دفاع اورفروغ
آج جہاں امت مسلمہ گروہی، لسانی، قومی اور بین الاقوامی تعصبات کا شکار ہے وہیں پر تفرقہ بازی اور مسلکی تعصب کی بنا پر عقائد صحیحہ کو بھی بگاڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں عقیدہء توحید کا غلط مفہوم پیش کر کے کئی لوگ گستاخی رسو ل صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے مرتکب ٹھہرے، اسی طرح تفرقہ کی بنا پر اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے ایسے گروہ پیدا ہوئے جو ادب و محبت میں غلو اور افراط وتفریط سے کام لیتے ہوئے ان ہستیوں کی شان میں گستاخی کے مرتکب ٹھہرے اسی طرح اولیاء، صالحین، مزارات، تبرکات، شفاعت، علم غیب اور دیگر عقائد کو ایک خاص طبقے کی طرف سے بگاڑنے کی کوشش کی گئی۔ ان حالات میں وارثین منبرومحراب کو قرآن وحدیث اور قرون اولیٰ کے اسلاف کی تعلیمات سے عقائد صحیحہ کادفاع نہ صرف عقلی ونقلی دلائل سے کرنا ہو گابلکہ حکمت و تدبر اور بیان کے ذریعے باطل عقائد کا سرکچلنا ہو گا۔ شیخ الاسلام نے لوگوں کو اعمال واحکام کی طرف راغب کر کے صحیح عقائد کا چہرہ دکھا دیا ہے۔ انہی عقائد صحیحہ کے فروغ اور دفاع کے لئے منہاج القرآن علماء کونسل بھی برسرپیکار ہے۔

6۔ اصلاح احوال امت
اس وقت امت مسلمہ مسلکی بنا پر کئی فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہے جس وجہ سے عدم برداشت، انتہاء پسندی، دہشت گردی، دینی اقدار اور اسلامی شعائر کا مذاق ہماری پہچان بنتی جا رہی ہے۔ اسی طرح اپنے آپ کو درست اور دوسروں کو غلط تصور کئے جانے نے امت مسلمہ کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر ہم تمسخر اور بے وقوفی کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔

ان حالات کے پیش نظر وارثین منبرومحراب کو امت مسلمہ کی راہنمائی کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ عامۃ الناس اور اہل علم ودانش میں حوصلہ، برداشت، باہم رواداری اور ایک دوسرے کے عقائد اور نظریات کے تحفظ اور احترام کو برقرار رکھا جائے۔ اس طرح تمام کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے کے قریب ہوں اور بالاخر اتحاد واتفاق کی طاقت سے سرشار ہو کر باطل، طاغوتی اور صہیونی طاقتوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ یہی وہ کردار ہے جس کے ذریعے امت مسلمہ تفرقہ بازی، انتہاپسندی اور دہشت گردی جیسی بیماریوں سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔

7۔ احیائے اسلام کے لئے کاوشیں
آج ضرورت ہے کہ دین کی مٹی ہوئی قدروں کو پھر سے زندہ کیا جائے، کفر و طاغوت کے باطل ہتھکنڈوں کو مروڑ دیا جائے، ہر چیلنج کا منہ توڑ جواب دیا جائے، باطل افکار ونظریات کا رد کیاجائے، احوال زمانہ کو بدل دیاجائے، کفرکے ایوانوں میں لرزہ برپا کر کے امت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے لگا کر دین اسلام کا پرچم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سربلند کر دیاجائے تاکہ لوگ ایک بار پھر دین کی طرف کشاں کشاں دوڑے چلے آئیں۔

اس طرح دینی اقدار، اسلامی شعائر، خانقاہی نظام اور اخلاص پر مبنی تعلیم و تربیت کو اس طرح عام کیاجائے تاکہ دین کی مٹی ہوئی اقدار کو پھر سے زندہ کیاجاسکے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے علماء ومشائخ کا بیداہو کر اپنا کردار ادا کرنا بہر صورت ضروری ہے۔

8۔ اتحاد امت اور اقامت دین
ہماری تمام ترکاوشوں کا اہم ترین مقصد یہ ہو کہ بالعموم پوری دنیا کے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دی جائے اوربالخصوص وطن عزیز کے علماء ومشائخ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیاجائے تاکہ اقامت دین اسلام کے لئے اجتماعی کاوشیں بروئے کار لائی جا سکیں اس مقصد کے حصول کے لئے ملکی وبین الاقوامی سطح پر مختلف کانفرنسز، مذاکرے اور باہمی تبادلہ خیال کے فورمز منعقد کئے جائیں۔ نیز مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دے کر اتحاد اور اقامت دین کے لئے عملی کاوشیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ بھی اس پرفتن دور میں علماء ومشائخ کی بے شمار ذمہ داریاں ہیں جن کے ذریعے دور حاضر کے مختلف چیلنجز کا عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکے۔

وارثان منبر ومحراب کی اصلاح میں شیخ الاسلام کا کردار
شیخ الاسلام نے علماء و مشائخ کی ذہنی آبیاری اور علمی، فکری اور اخلاقی پختگی کے لئے درج ذیل اقدامات فرمائے جس سے معاشرے کے اندر واضح تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے۔

1۔ قرآن وحدیث کے علوم کی تعبیر نو :
قرآن وحدیث کے علوم اور معانی کی تعبیر نو اور تشکیل نو جس انداز میں آپ کر رہے ہیں یہ اس دورمیں فقط آپ ہی کی ذات کا حصہ ہے اور خصوصاً قرآن وحدیث کے وہ سائنسی علوم ومعارف جن کا زمانہ ماضی میں انکشاف نہیں ہوا اور آج کے دور کی ضرورت تھی اور آج کا انسان قرآن وحدیث کی سائنسی تعبیر مانگ رہا تھا، آپ نے اسی رنگ میں پیش کیا جس کو سن کر نہ صرف مسلمان بلکہ غیرمسلم بھی قرآن کے الہامی کتاب ہونے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے سچے نبی ورسول ہونے کے قائل ہو گئے۔ آپ ہی کا یہ وصف ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے معانی کا سمندر بہاتے چلے جاتے ہیں۔ دروس قرآن اور دروس حدیث کا وسیع نظام پوری دنیا میں آپ نے بپا کر رکھا ہے اور پھر قرآن مجید کی تفسیر منہاج القرآن اور 25000 احادیث کا مجموعہ جامع السنہ کی ترتیب وتدوین کا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

2۔ موجودہ فتنوں کی معرفت اور سدباب :
اس دور میں بہت سے فتنوں نے سراٹھایا اور اس سے امت کے لوگوں کا ایمان متزلزل ہونے لگا جس میں سرفہرست فتنہ قادیانیت ہے۔ مرزا طاہر احمد قادیانی نے امت کو مباہلے کا چیلنج کیا۔ یہ شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاہر القادری کی ذات تھی جس نے اس مباہلے کو قبول کیا اور ساتھ ہی یہ چیلنج بھی کر دیا کہ اگر وہ گیارہ بارہ ربیع الاول 1988 ء کی رات مینار پاکستان پر آگیا تو مسلمان ہو جائے گا یا ہلاک ہو جائے گا۔ وہ بھاگ گیا اور اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اس غلام کو کامیاب کیا۔

اسی طرح امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے بارے میں عقائد کو خراب کیا جا رہا تھا، آئے روز خبریں اور بیانات دیئے جا رہے تھے کہ امام مہدی علیہ السلام پید ا ہو چکے ہیں، اگلے سال وہ امامت کا اعلان کرنے والے ہیں، آپ نے آمد امام مہدی علیہ السلام کے عنوان سے کئی گھنٹوں پر محیط خطاب کے ذریعے ایسے تمام فتنوں کا سر کچل دیا اور اشکالات کا ازالہ فرمایا۔

1992 ء میں اسلام کے خلاف عالمی سطح پر سازش ہوئی اور سودی نظام کو پوری دنیا میں رائج کرنے کے لئے کوششیں ہوئیں، حکومت پاکستان بھی اس سازش کا شکار ہوئی اور سرکاری سطح پر یہ باتیں ہونے لگیں کہ اسلام میں سود کے متبادل کوئی نظام نہیں، آپ نے 7 اکتوبر 1992 موچی دروازے پر بلاسود بنکاری کا عملی خاکہ پیش کر کے اس فتنے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔

آج پھر پوری دنیا میں بالعموم اور عرب دنیا اور برصغیر پاک وہند میں بالخصوص تنقیص مقام رسالت کا فتنہ بڑی شدومد کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ آپ نے پوری دنیا میں مقام عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور ادب مصطفیٰ اور فروغ عشق رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی تحریک برپا کر کے اس فتنہ کا سدباب کر دیا ہے۔ شرک وبدعت کے نام پر بہت سے مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر کے مشرک اور بدعتی بنایا جا رہا ہے۔ آپ نے اس کے خلاف ’’کتاب توحید‘‘ اور ’’کتاب البدعہ‘‘ لکھ کر اس فتنہ کا قلع قمع کیا ہے اور پوری دنیا میں میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی محافل کی دھوم مچاد ی ہے۔

3۔ قرآن وسنت کی معرفت :
آپ نے قرآن مجید کا جدید سائنسی انداز میں جو ترجمہ عرفان القرآن کے نام سے کیا ہے، امت کی آٹھ سو سالہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح ’’المنہاج السوی‘‘ سے لے کر ’’جامع السنہ‘‘ تک جو احادیث مبارکہ کے حوالے سے جو کام ہو رہا ہے وہ امت مسلمہ کو آنے والے کئی سوسال تک ہدایت اور راہنمائی کا کام دیتا رہے گا یہ دونوں کام اجتہادی اور تجدیدی نوعیت کے ہیں۔

4۔ بحیثیت سیاسی مجدد :
دورحاضر میں امت مسلمہ کے حکمران سیاسی زوال کا شکار ہیں۔ پوری ملت اسلامیہ میں کوئی ایک حکمران بھی دینی غیرت وحمیت کا مالک نہیں بلکہ باطل وطاغوت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ بقول شاعر

سیاست کار پیغمبراں بود
دریں دور کار بولہبی شد

سیاست اور ملت اسلامیہ کی ظاہری خلافت بھی سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم وخلفائے راشدین تھی جو آج کل بالکل مٹ چکی ہے بلکہ عوام الناس کا ذہن اس حد تک بدل چکا ہے کہ کسی نیک صالح اور باکردار انسان کا اس میں آنا ہی حرام سمجھتے ہیں۔ آپ نے عملی طور پر اس میں شریک ہو کر اس غلط سوچ پر بھی ضرب کاری لگائی ہے۔ یہ سنت جو مٹ چکی تھی آپ نے اس کو صحیح معنوں میں زندہ کرتے ہوئے سیاست کے حقیقی تصورات اور مقاصد سے قوم کو آشنا کیا۔

5۔ اجتہاد اور معاصر سوچ :
ہمارے قدامت پرست مذہبی ذہن نے ماشاء اللہ تصور تقلید کو فی الواقع فکری تعطل میں بدل دیا ہے اور اجتہاد کو عملًا شجر ممنوعہ بنا دیا ہے جو عملی اور فقہی کام آج سے کئی سال پہلے ہوا تھا اس سے جزوی اختلاف یا اس میں اجتہاد نو کو فعل حرام سمجھتا ہے۔ آپ نے دور حاضر میں اجتہاد کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جامدذہنوں کو سوچنے پر مجبور کیا اور بہت سے جدید مسائل میں اجتہاد کر کے اس کا عملی ثبوت دیا۔

6۔ روحانی زوال :
دورحاضر میں تصوف وطریقت اور روحانیت محض ایک مردہ رسم بن کر رہ گئی ہے۔ خانقاہوں سے جو روحانی تربیت کا سامان ہوتا تھا، لوگوں کے احوال بدل جاتے تھے، ان کے اخلاق بدلے جاتے تھے، آج وہ روحانیت کے مرکز اجڑگئے ہیں۔ وہاں تصوف وطریقت اور پیری مریدی کے نام پر پیسے بٹورنے، مرید بنانے اور نذرانے اکٹھے کرنے کی جنگ جاری ہے۔ اکثر پیران کرام خود شریعت وطریقت سے عاری، اصول تربیت سے ناواقف، دل کے احوال سے بے خبر صاحب مزار سے نسبی تعلق کی بنیاد پر یہ دکان چلا رہے ہیں۔ انہوں نے جاہ وجلال، آنکھوں کا سرخ ہونا، جبہ، قبہ، دستار، ٹوپی، تسبیح، منکے، سبز چوغے روحانیت کی باتیں، شریعت کی مخالفت، ہاتھ پاؤں کا بوسہ، بیعت، دم، تعویز دھاگہ، بداخلاقی اور غیرمحرم عورتوں کے جن نکالنا وغیرہ کو تصوف وطریقت کا نام دے رکھا ہے۔

اور وہ حقیقی تصوف و روحانیت جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے لے کر حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شاہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت بابا فریدالدین گنج شکر مسعود رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت پیر سیال شریف رحمۃ اللہ علیہ تک اور دیگر بزرگان دین کی زندگی میں تھا موجودہ دور میں اس کا تصور بھی ختم ہو رہا ہے۔ دوسری طرف منکرین تصوف اور روحانیت موجودہ دور کے تصوف کو دیکھ کر تصوف کی حقیقت اور عظمت ہی سے انکاری ہیں۔

آپ نے اس پہلو پر بھی مجددانہ نوعیت کا کام کیا ہے۔ علمی طور پراسے قرآن وسنت صحابہ کرام، ائمہ، اہل بیت اور آئمہ مجتہدین کے عمل سے ثابت کیا، دروس تصوف حقیقت تصوف، حسن اعمال، حسن احوال، سلوک وتصوف کا عملی دستور، ’’فیوضات محمدیہ‘‘ اور ’’تذکرے اور صحبتیں‘‘ جیسی نادر کتب تصنیف فرما کر اس فتنے کا رد کیا اور مرکزی اجتماعی اعتکاف کی صورت میں ہر سال دس دن آخری عشرہ رمضان المبارک میں عملی تصوف کا درس دے کر لوگوں کی عملی تربیت کا اہتمام کیا۔

آپ کی ان تمام کوششوں کو دیکھ کر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ فی الواقع آپ ہی کی ذات بابرکات اس صدی کی مجدد ہے جو ہمہ جہتی پہلوؤں میں تجدید کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔

اس مختصر مطالعہ کے بعد نہ صرف عامۃ الناس بلکہ وارثین منبرومحراب (علماء ومشائخ) کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسی شخصیت کے شانہ بشانہ دین اسلام کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو سہارا دینے کے لئے میدان عمل میں نکلیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
عمران، طاہرالقادری صاحب کی شخصیت کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا شکریہ۔ لیکن اس تواتر سے طاہرالقادری صاحب کی شخصیت کو قد آور ثابت کرنے کی کوشش سے آپ کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ اسلام اور عصر حاضر کا زمرہ کسی ایک شخصیت کی مدح و تحسین کے لیے مختص نہیں کیا جا سکتا۔
 
نبیل صاحب آپ اگر اپنے رہائش کے قریب ایسے بک سٹور پر چلے جائیں جہاں سے ڈاکٹر محمدطاہر القادری کی کتب مل سکیں اور ان کو آپ اپنے زیر مطالعہ لائیں تو آپ خود میرے ہی انداز میں ان کو پسند کرنا شروع کردیں گے۔ جو کہ مجھے امید ہے بہت صحیح ہوگا ۔
 
ہیرو پرستی کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں‌ہے۔ میرا ہیرو بڑا ہے اور تمہارا ہیرو چھوٹا ہے۔ اسی فلسفہ سے فرقوں نے جنم لیا ، مذاہب نے جنم لیا، قرآن ہم کو اصول پرستی سکھاتا ہے ، اللہ کے احکام پریقین رکھنا سکھاتا ہے ، اللہ پر ایمان اور اور نبیوں پر ایمان سکھاتا ہے یعنی انے لائے ہوئے پیغام کو ماننا سکھاتا ہے۔ کسی انسان کی شخصیت پرستی یعنی تعریف کرنے کے لئے نہیں کہتا۔

اسلام جس مذہب کا نام ہے اس میں تمام تر تعریف صرف اللہ کے لئے ہے ۔ الحمد لللہ رب العالمین۔ یہ تعریف کرنا ہی اللہ کی عبادت ہے۔ جب ہم انسانوں کی تعریف اللہ کی طرح کرتے ہیں ، ان تعریف و مد و سراہ کے نغمے گاتےہیں تو درحقیقت یہ تعریف ان افراد کی عبادت ہے۔ جس طرح اللہ کی حمد و تعریف اللہ کی عبادت ہے۔ اس طرح کسی شخص کو دینی کردار بنا کر تعریفوں کے پل باندھنا اس شخص‌کی عبادت ہے۔

کوئی بھی شخص کوئی بڑا دینی کام کرتا ہے تو اس سے بھی بڑا کام یہ ہے کہ عاجزی اختیار کرے۔ مترجمین اور روایات و سنت کو جمع کرنےوالے ہزار ہا لوگ ہیں اور ان میں سے کئی حیات بھی ہیں۔ تعریف و توصیف میں ان کو انبیاء‌ مساوی کھڑا کرنا ایک طرح کی ہیرو پرستی ہے۔ ایک خدا کی عبادت نہیں ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
اسلام جس مذہب کا نام ہے اس میں تمام تر تعریف صرف اللہ کے لئے ہے ۔ الحمد لللہ رب العالمین۔ یہ تعریف کرنا ہی اللہ کی عبادت ہے۔ جب ہم انسانوں کی تعریف اللہ کی طرح کرتے ہیں ، ان تعریف و مد و سراہ کے نغمے گاتےہیں تو درحقیقت یہ تعریف ان افراد کی عبادت ہے۔ جس طرح اللہ کی حمد و تعریف اللہ کی عبادت ہے۔ اس طرح کسی شخص کو دینی کردار بنا کر تعریفوں کے پل باندھنا اس شخص‌کی عبادت ہے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ۔ ۔ ۔
 
محترم فاروق سرور خان صاحب آپ کی باتوں کا میں تفصیل کے ساتھ جواب دینا چاہوں گا۔ جو کہ مجھ ناچیز کے خیال میں بہت ضرور ہو گیا ہے۔
کیا اللہ تعالٰی غفور و رحیم کے علاوہ کسی کی تعریف و توصیف کرنا جائز ہے یا ناجائز؟

محترم میں کوئی عالم دین نہیں ہوں۔ میں صرف ایک عاجز بندہ ہوں جو کہ کوشش کرتا ہے اس کے بتائے ہوئے احکامات میں سے کسی ایک پر بھی عمل کرلوں تو اس سے میری آخرت سنور جائے گی ۔
جب ایک بندہ اللہ تعالٰی کی تعریف و توصیف کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے انداز میں ایک عاجزی ، انکساری انتہا درجے کا ادب اور احترام ہوتا ہے ،
جب بندہ اپنی مادری زبان میں اس رب ذوالجلال کی تعریف و توصیف کرتا ہے تو وہ اتنا محتاط ہوتا ہے کہ اپنی زبان سے ہر لفظ بہت احتیاط سے نکالتا ہے کہ انجانے میں کوئی ایسا لفظ نہ نکل جائے جس سے اس کی ناراضگی مول لینی پڑے۔
میں نے پہلے بھی گذارش کی ہے کہ میں عالم دین نہیں ہوں۔ بلکہ صرف اور صرف ایک طالب علم ہوں۔ آپ کے سامنے صرف ایک قرآن حکیم جو کہ ڈھیروں حکمتوں سے لبریز ہے کا ایک لفظ پیش کروں گا۔ ’’رب العالمین‘‘ جب ایک مسلمان اللہ تعالٰی کو پکارتے ہوئے اس کی تعریف و توصیف میں یہ کہتا ہے کہ اے رب العالمین ! جس کا معنی ہے تمام جہانوں کو پالنے والا۔ آپ یہ کس طرح تصور کر سکتے ہیں کہ ایک انسان تمام جہانو‌ں کو پال سکتا ہے۔
اس دنیا میں اس کائنات میں موجود ایک ایک چیز اس اللہ تعالٰی کی پیدا کی ہوئی ہے۔ انسانوں کو اللہ تعالٰی نے پیدا فرمایا۔ اس کو عقل فہم ،شعور اللہ تعالٰی نے عطا کیا ۔ جس سے وہ دوسروں کی مدد کرتا ہے۔ اگر آپ سٹرکوں پر پیدل سفر کریں تو آپ کو کئی ایسے انسان بیٹھے ہوئے اور چلتے پھرتے ہوئے نظر آئیں گے جو کہ پاگل ہوں گے کئ لوگوں نے مکمل کپڑے بھی نہ پہنے ہوں گے، سر کے بال جسم مٹی اور گرد غبار سے اٹے ہوں گے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو فہم اور شعور ہی نہیں ہے ۔ یہ فہم اور شعور اللہ تعالٰی جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ انسان کی تخلیق بھی اسی کا کرشمہ قدرت ہے۔ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہ اللہ تعالٰی کی قدرت ہے کہ جس سے چاہتا ہے علم و فہم اور حکمت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔
اگر آپ زمین کے کسی بھی حصے کی طرف متوجہ ہو جائیں وہیں پر آپ کو اللہ تعالٰی کی قدرت کے کرشمے نظر آئیں گے۔ سمندر اس نے پیدا کیے ۔اس میں بسنے والی مخلوق اس نے پیدا کی۔ مچھلیاں ، پودے ۔ اس میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو انسان کے لیے مفید ہیں اور کچھ نقصان دہ۔ خشکی کو اس نے پیدا کیا۔ انسان اس نے پیدا کیے۔ درخت اس نے پیدا کیے ۔ پھل پھول پودے اس نے پیدا کیے۔ آپ مجھے بتائیں کیا کوئی انسان ایسا کر سکتا ہے ؟ کیا کوئی انسان اتنی ڈھیر ساری مخلوقات کو تخلیق کر سکتا ہے۔ انسان کی بات دور ۔جانور کی بھی بات دور کوئی شخص ایک پودا تک نہیں تخلیق کر سکتا۔ کوئی شخص ہے وہ اللہ تعالٰی کے تخلیق کیے ہوئے پھلوں پودوں پر تجربات تو کر سکتا ہے لیکن ایک ناموجود چیز کو تخلیق نہیں کر سکتا ہے۔
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کی تعریف اور اللہ تعالٰی کی تعریف برابر ہو سکتی ہے۔ قطعا ناممکن ۔ یہ کبھی بھی ممکن نہیں کہ اللہ کی تعریف اور کسی شخص کی تعریف ایک جیسی ہوئی۔
اللہ کی تعریف اس کی عبادت کے لیے کی جاتی ہے اور ایک انسان کی تعریف اس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کی جاتی تا کہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ مزید بہتر کام کرسکے جس سے دین اسلام کی اشاعت ہو۔
یہ تعریف اس معنوں میں‌ہے۔

اگر کوئی شخص دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے سلسلہ میں کوئی غیر معمولی کام سرانجام دیتا ہے تو کیا اس کی اس کارنامے اور دین اسلام کی خدمت کی بنا پر اسے خراج تحسین پیش کرنا ۔کیا اسے انبیاء کے مساوی کھڑا کرنے مترادف ہے۔؟
اگر کوئی شخص دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اچھا اور بہتر کام سرانجام دیتا ہے تو اس کی تعریف و تحسین کرنا کا مقصد اس کی حوصلہ افزائی ہے۔
اگر سابقہ ادوار کی شخصیات کو دیکھیں تو احمد رضا خان بریلوی نے قرآن حکیم کا اردو میں ترجمہ کیا بہت سارے لوگ آج بھی اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اور اس استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ اردو سمجھنے والے لوگ ان کی تعریف کہ کرتے ہیں انہوں نے ترجمہ قرآن کرکے دین اسلام کی خدمت کی ہے۔ اسی طرح سید ابو الاعلٰی مودودی نے ترجمہ قرآن اور تفسیر کی اردو زبان میں ۔ اردو سمجھنے اور پڑھنے والے لوگ ان کی اس تفسیر اور ترجمہ کو پڑھتے اور اس استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ میں نے جن کا ترجمہ اور تفسیر سے استفادہ حاصل کیا ان کا حوالہ دے دیا۔ کیا ان شخصیات کی تعریف کریں گے تو کیا ہم ان کو انبیا کی فہرست میں کھڑا کریں گے ۔ نعوذباللہ ۔استغفراللہ۔
 

باذوق

محفلین
عمران، طاہرالقادری صاحب کی شخصیت کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا شکریہ۔ لیکن اس تواتر سے طاہرالقادری صاحب کی شخصیت کو قد آور ثابت کرنے کی کوشش سے آپ کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ اسلام اور عصر حاضر کا زمرہ کسی ایک شخصیت کی مدح و تحسین کے لیے مختص نہیں کیا جا سکتا۔
اور یہ مخلصانہ مشورہ بھی ضرور دیا جانا چاہئے کہ انفرادی ویب سائیٹ یا بلاگ بنا کر تقدس مآب پیشواؤں کی جتنی چاہے مدح و تحسین کر لیں کسی کو قطعاً اعتراض نہ ہوگا ، لیکن اوپن فورم پر اس طرح کی اجا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
عمران، طاہرالقادری صاحب کی علمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ میں ایک تجویز پیش کرتا ہوں، اس پر عمل کرنا آپ کے اختیار میں ہے۔ اگر طاہر القادری صاحب پر مضامین کسی اور ویب سائٹ پر موجود ہیں تو آپ اس کا ربط یہاں فراہم کر سکتے ہیں۔ اس سے بھی ہماری معلومات میں اضافہ ہوگا۔ آپ کے تعاون کا شکریہ۔
 
عمران صاحب، سلام مسنون۔ سب سے پہلے عرض‌یہ ہے کہ درج ذیل میں سے کوئی بھی بات کسی ایک شخص کے لئے نہیں‌بلکہ عمومی ہے۔

ہم اور آپ سب جانتے ہیں کہ قرآن کے مترجمین بے شمار ہیں۔ احادیث و سنت رسول کے پرستار اور دوبارہ ترتیب دینے والے بے شمار ہیں۔ کسی بھی عالم کے علم سے استفادہ حاصل کرنا اور اس کے کام کو قابل تعریف قرار دینا ایک نیک امر ہے اور اور اس شخص کی تعریف و توصیف اور حمد و ثناء میں زمیں و آسمان کے قلابے ملا دینا ایک دوسرا امر ہے۔ ایک بہترین کام کرنے والے کی حیثیت سے ہر شخص عزت و احترام کا مستحق ہے بس اس کو یہیں تک رکھئے ۔ کسی عالم کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ اس کے کئے ہوئے کام کو بطور ریفرنس پیش کیا جائے یعنی درست مانا جائے۔ تو ایسا ہو رہا ہے۔ اور اگر ایک عالم کے کئے ہوئے کام میں کوئی سقم نظر آتا ہے تو بہت سے دوسرے عالم اس پر تنقید کرنے کے بجائے تجاہل عارفانہ استعمال کرتے ہوئے نظر انداز کر جاتے ہیں۔ کہ ایسے معمولی انحرافی اعمال و بیانات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یہ بات جہاں فزکس کے عالموں کے لئے ، کیمسٹری کے عالموں کے لئے ، اور دوسرے علوم کے عالموں کےلئے درست ہے ، اسی طرح یہ بات مذہب کے عالموں کے لئے بھی درست ہے۔ ۔ آج کے اس دور میں پاکستان اور پاکستان سے باہر مذہب کے عالموں‌کی کمی نہیں لیکن ان سب میں فقدان ہے ایک منصف اور ملا کر ایک بنانے والے لیڈر کا ہے۔

ہر عالم اپنے ہی فرقہ کا کیوں ترجمان ہے ؟‌
اس لئے کہ ان میں سے بیشتر کا فوکس ایک محدود طبقہ سے آمدنی پر ہے، اگر وہ اپنے فرقہ کے عام آدمی کی ترجمانی نہیں کریں گے تو ان میں سے بیشتر کو خوف ہے کہ وہ اس زکواۃ و خیرات و امداد کی آمدنی کو کھو دیں گے جو ان کو اپنے پرستاروں اور عقیدت مندوں سے حاصل ہوتی ہے۔

ممکن ہے آپ کواختلافات کی یہ بات مبہم نظر آئے لیکن آپ کو ، مسئلہ وراثت پر ، مسئلہ غلامی پر، چھوٹی لڑکیوں کی شادیوں کے مسئلوں پر ، بیک وقت تین طلاق پر اور اس طرح کے ذاتی سطح کے سماجی مسئلوں اختلافات ، ہر فرقہ اور فقہ میں مل جائیں گے۔

اسی طرح‌من حیث القوم عورتوں کو تعلیم سے محروم رکھنے پر، فرد واحد کی حکومت یا ایک شوری کی حکومت پر علماء کے اختلافی بیانات بہت آسانی سے مل جائیں گے۔

اس اختلافی صورت حال میں ایک شخص کو باقی عالموں سے بڑا ثابت کرنے کی کوشش اور سب سے بڑھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ ہمارا ہیرو بڑا ہے اس کی پرستش کرو۔ اس کا عام طور پر مقصد یہ ہوتا ہےکہ اس ایک فرد واحد کو قانون سازی یعنی فتوی سازی کا حق دے دیا جائے۔ یہ ایک قسم کی مارکیٹنگ یعنی بازاری حربہ ہے۔ جس سے کا مقصد عام طور پر ایک عالم کو فتوی سازی کا مطلق حق دلوانا ہے۔

قرآن کی جو آیت آپ نے پیش کی ہے اس کو غور سے دیکھئے کہ ایک فرد کے لئے نہیں‌کہا گیا کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا داعی ہو یعنی اس کو قانون سازی کا حق ہو۔ بلکہ ایسا ایک جماعت کے لئے کہا گیا ہے۔ایک ایسی جماعت جس پر عام آدمی اپنے اعتماد کا اظہار کرے۔ ایسی جماعت صرف ایک منتخب شوری ہی ہوسکتی ہے جو ایسے قوانین بنائے جو نیک کاموں کو فروغ دے اور برے کاموں سے روکے۔ ایسا جب ہی ممکن ہوگا جب، قومی سظح سے بلند ہوکر، ایک جماعت (‌ایک شخص نہیں )‌ منظم طریقہ سے ایک عالمانہ انصاف کی داعی ہوتی ہے۔ اور اسی عالمی انصاف کے نکتہ نگاہ سے اسلام کی اصل روح، سلامتی، امن اور آشتی کی علم بردار بنتی ہے۔ ایک ایسی جماعت جس کو عام آدمی کی طرف اعتماد کا ووٹ حاصل ہو۔

اس آیت میں ويامرون بالمعروف وينھون عن المنكر کا حکم دینے والی جماعت پر غور فرمائیے۔
3:104
’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں‘‘

اور یسی جماعت میں مردوں اور عورتوں کی مساوی شراکت کا حکم دیکھئے :ويامرون بالمعروف وينھون عن المنكر
9:71 اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے

تو ایسی جماعت میں مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا رفیق و مددگار قرار دیا گیا ہے۔ شاید يامرون بالمعروف وينھون عن المنكر کی مد میں یہ آیت ہمارے ان علماء کے لئے قابل قبول نہ ہوھ جو پہلی آیت پر اکتفا کرکے بیٹھے ہیں اور جن کے مدارس میں عورتیں دور دور تک نہیں پائی جاتی ہیں۔

ایسی جماعت جب ہی ممکن ہے جب ایک قوم کی ایک بڑی تعداد ان نمائیندوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کرے - جس میں‌مردوں کی رفیق و مددگار عورتیں بھی ہوں‌اکہ ان کی حق تل۔فی نہ ہو۔ پاکستان میں اس عمومی اعتماد کا ذریعہ انتخابات اور ووٹ ہیں۔ یقیناً‌ پاکستان کے عوام کسی ایک شخص کو نا حکومت کرنے کا حق عطا کرتے ہیں اور نہ ہی قانون سازی کا۔ لہذا آج کے دور میں کسی ایک زندہ شخص کو لیڈر یعنی امام بنانا اور تعریف و توصیف کرکے ایک ایسے الوہی مقام پر کھڑا کرنا کہ اس کے بنائے ہوئے قوانین ، فتوی کے روپ میں سب کے لئے قابل قبول ہوجائیں بلاشبہ ایک یہودی اور آتش پرست روایت ہے۔ اسلامی و قرآنی طریقہ نہیں۔ آپ کی پیش کردہ آیت اس کی قرانی طریقہ کی آئینہ دار ہے

لہذا ایک واحد لیڈر، ایک امام یا ایک عالم کو تعریف و توصیف کے ذریعہ ایسا حق دینا کہ وہ مطلق قانون ساز ہو یا ایسا چاہنا کہ صرف ایک آدمی کی کہی ہوئی بات قانون ہو جیسا کہ بادشاہت میں ہوتا ہے شاید عالمانہ نکتہ نظر نہیں بلکہ ایسی کوشش عام طور پر مذکورہ عالم کے لئے ایک مخالفانہ ماحول کو جنم دیتی ہے۔

ہم کو چاہئیے کہ حکومت، فتوی سازی، قانون سازی ، منتخب نمائیندوں‌ کے لئے چھوڑ دیں۔ اور عالموں کو ان حکومت کرنے والوں کے لئے مناسب علم مہیا کرنے کا بہترین موقع دیں۔
 
جب تک کسی موضوع پر ڈسکس نی کیا جائے اس وقت تک مسائل حل نہیں‌ ہوتے بلکہ وہ پھل پھول کر بڑھ جاتے ہیں ۔ میں آپ سے اپنی بساط کے مطابق بات کروں گا جتنا میں معلومات رکھتا ہوں ۔ میں پہلے بھی کہا تھا کہ میں‌کوئی عالم دین نہیں ہوں میں صرف ایک طالب علم ہوں جو کہ کوشش کرتا ہےکہ جب بھی کام کرے وہ اچھا کرے تا کہ اس سے صرف میرا اپنا ہی فائدہ نہ ہو بلکہ اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے۔

لیکن اس سے پہلے آپ یہ ملاحظہ کریں:

www.minhajbooks.com
 
محترم فاروق سرور خان صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی شخص دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے سلسلہ میں کوئی غیر معمولی کام سرانجام دیتا ہے تو کیا اس کی اس کارنامے اور دین اسلام کی خدمت کی بنا پر اسے خراج تحسین پیش کرنا ۔کیا اسے انبیاء کے مساوی کھڑا کرنے مترادف ہے۔؟
اگر کوئی شخص دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اچھا اور بہتر کام سرانجام دیتا ہے تو اس کی تعریف و تحسین کرنا کا مقصد اس کی حوصلہ افزائی ہے۔
اگر سابقہ ادوار کی شخصیات کو دیکھیں تو احمد رضا خان بریلوی نے قرآن حکیم کا اردو میں ترجمہ کیا بہت سارے لوگ آج بھی اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اور اس استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ اردو سمجھنے والے لوگ ان کی تعریف کہ کرتے ہیں انہوں نے ترجمہ قرآن کرکے دین اسلام کی خدمت کی ہے۔ اسی طرح سید ابو الاعلٰی مودودی نے ترجمہ قرآن اور تفسیر کی اردو زبان میں ۔ اردو سمجھنے اور پڑھنے والے لوگ ان کی اس تفسیر اور ترجمہ کو پڑھتے اور اس استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ میں نے جن کا ترجمہ اور تفسیر سے استفادہ حاصل کیا ان کا حوالہ دے دیا۔ کیا ان شخصیات کی تعریف کریں گے تو کیا ہم ان کو انبیا کی فہرست میں کھڑا کریں گے ۔ نعوذباللہ ۔استغفراللہ۔


محترمی عمران حسینی صاحب۔ سلام مسنون۔

لگتا ہے بھائی کٹ پیسٹ کے دوران کہ آپ کو پہلی تحریر پڑھنے کا موقع نہیں‌ ملا ۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ابتدائی مراسلہ میں لکھا ۔

[arabic]عُلَمَاءُ اُمَّتِی کَاَنْبِيَاءِ بَنِی اِسْرَائِيْل.[/arabic]
’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔‘‘


پتہ نہیں اس کا کیا مقصد ہے؟ علماء‌بس علماء ہوتے ہیں۔ ٹیچرز ہوتے ہیں۔ پڑھاتے ہیں ، علم فراہم کرتے ہیں اور اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔

جبکہ نبوت ایک عہدہ ہے جو اللہ تعالی تفویض‌کرتے رہے ہیں، عہد رسالت لینے کے بعد۔ اتفاق سے تمام کے تمام انبیاء جن کا تذکرہ ملتا ہے وہ بنی اسرائیل میں ہی آئے۔ کیا آج کا عالم، علم کی کسی بھی معراج پر فائز ہوجائے۔ نبی نہیں بن سکتا ہے؟

آپ کے بعد کے مراسلے سے - جو آپ نے خود لکھا ہے - ایک عالم کے نبی بن جانے کے خیال کی تردید ہوتی نطر آتی ہے۔

شکریہ و والسلام
 
فاروق سرور خان;

عمران صاحب، سلام مسنون۔ سب سے پہلے عرض‌یہ ہے کہ درج ذیل میں سے کوئی بھی بات کسی ایک شخص کے لئے نہیں‌بلکہ عمومی ہے۔

ہم اور آپ سب جانتے ہیں کہ قرآن کے مترجمین بے شمار ہیں۔ احادیث و سنت رسول کے پرستار اور دوبارہ ترتیب دینے والے بے شمار ہیں۔ کسی بھی عالم کے علم سے استفادہ حاصل کرنا اور اس کے کام کو قابل تعریف قرار دینا ایک نیک امر ہے اور اور اس شخص کی تعریف و توصیف اور حمد و ثناء میں زمیں و آسمان کے قلابے ملا دینا ایک دوسرا امر ہے۔ ایک بہترین کام کرنے والے کی حیثیت سے ہر شخص عزت و احترام کا مستحق ہے بس اس کو یہیں تک رکھئے ۔ کسی عالم کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ اس کے کئے ہوئے کام کو بطور ریفرنس پیش کیا جائے یعنی درست مانا جائے۔ تو ایسا ہو رہا ہے۔


عمران الحسینی :

یہ بات آپ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک عالم کے لیے یہ انعام ہے کہ اس کے کام کو بطور ریفرنس پیش کیا جائے۔ یہی میرا مرکزی خیال ہے اپنی بات کا۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے بارے میں یہاں مضمون پوسٹ کرنے کا میرا مقصد ان کے متعلق دوسرے دوستوں کو انفارم کرنا تھا ۔ تا کہ ان کے کام کے حوالے سے دوسرے ان کی شخصیت کو جان سکیں ان کےکیے ہوئے کام کو دیکھ سکیں ۔ اس حوالے سے ایک سوال کا جواب دیں کہ اردو کی تاریخ میں یا پاکستان کی تاریخ میں مجھ کو کوئی ایسا عالم دین یا سکالر بتا دیں جس نے 7000 تقاریر و خطابات کیئے ہوں۔ یا اس کی 350 کے قریب کتب موجود ہوں۔ آپ اس بات کو موازانہ کر سکتے ہیں کسی سکالر کے ساتھ ۔ کبھی بھی نہیں‌کر سکیں۔ اردو کی تاریخ میں کوئی بھی ایسا اسلامی سکالر موجود نہیں جس نے دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے اتنا کام کیا ہو۔ (ملاحظہ کیجئے www.minhajbooks.com)


فاروق سرور خان:
اور اگر ایک عالم کے کئے ہوئے کام میں کوئی سقم نظر آتا ہے تو بہت سے دوسرے عالم اس پر تنقید کرنے کے بجائے تجاہل عارفانہ استعمال کرتے ہوئے نظر انداز کر جاتے ہیں۔ کہ ایسے معمولی انحرافی اعمال و بیانات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہ بات جہاں فزکس کے عالموں کے لئے ، کیمسٹری کے عالموں کے لئے ، اور دوسرے علوم کے عالموں کےلئے درست ہے ، اسی طرح یہ بات مذہب کے عالموں کے لئے بھی درست ہے۔ ۔


عمران الحسینی:
محترم فاروق سرور خان اگر کسی عالم کےکئے ہوئے کام میں سقم نظر آئے اور دوسرے عالم اسے نظر انداز کر دیں یہ موجودہ دور میں ممکن نہیں ۔ پاکستان میں یا کسی دوسرے ملک میں اگر آپ یہ کہیں کسی مذہبی غلطی یا سقم کو نظر انداز کر دیا جائے تو وہ آپ کو اس معاملے میں بہت پیچھے دکھیل دے گا۔ اس لیے ایسا ممکن نہیں کہ کسی مذہبی عالم دین کی طرف سے وارد ہونے والے سقم کو نظر انداز کر دیا جائے۔ فزکس کیمسٹری بیالوجی اناٹومی کمپیوٹر یا سائنس کے کسی بھی شعبہ میں‌ہونے والے سقم سے کسی عالم کو اور اس سے وابستہ افراد کو موجودہ وقت میں فرق پڑ سکتا ہے لیکن ان کی یہ غلطی ان کے آخرت کے اعمال پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ہے۔ لیکن مذہبی معاملات میں وارد ہونے والے سقم کی بنا پر اس کی دنیا بھی برباد ہو جائے گی اور آخرت بھی ۔ اس لیے یہ نظریہ ہے قابل قبول نہیں ہو سکتا ہے کسی عالم کی غلطی کو نظر انداز کر دیا جائے۔

فاروق سرور خان:
آج کے اس دور میں پاکستان اور پاکستان سے باہر مذہب کے عالموں‌کی کمی نہیں لیکن ان سب میں فقدان ہے ایک منصف اور ملا کر ایک بنانے والے لیڈر کا ہے۔


عمران الحسینی:
پہلے تو آپ کو یہ سوچنا پڑے گا کہ "ایک منصف اور ملا کر ایک بنانے والے لیڈر میں کی خصوصیات ہونی چاہیں؟" پہلے تو اس بات کو جواب دیں۔

فاروق سرور خان:
ہر عالم اپنے ہی فرقہ کا کیوں ترجمان ہے ؟‌
اس لئے کہ ان میں سے بیشتر کا فوکس ایک محدود طبقہ سے آمدنی پر ہے، اگر وہ اپنے فرقہ کے عام آدمی کی ترجمانی نہیں کریں گے تو ان میں سے بیشتر کو خوف ہے کہ وہ اس زکواۃ و خیرات و امداد کی آمدنی کو کھو دیں گے جو ان کو اپنے پرستاروں اور عقیدت مندوں سے حاصل ہوتی ہے۔


عمران الحسینی:
اگر آپ کسی فرد واحد کے متعلق بتائیں جن کو آپ نے ایسا کرتےہوئے دیکھا ہے تو پھر بھی بندہ تسلیم کرے۔ آپ کسی کا حوالہ یا ثبوت تو مہیا کریں۔

فاروق سرور خان :ممکن ہے آپ کواختلافات کی یہ بات مبہم نظر آئے لیکن آپ کو ، مسئلہ وراثت پر ، مسئلہ غلامی پر، چھوٹی لڑکیوں کی شادیوں کے مسئلوں پر ، بیک وقت تین طلاق پر اور اس طرح کے ذاتی سطح کے سماجی مسئلوں اختلافات ، ہر فرقہ اور فقہ میں مل جائیں گے۔
اسی طرح‌من حیث القوم عورتوں کو تعلیم سے محروم رکھنے پر، فرد واحد کی حکومت یا ایک شوری کی حکومت پر علماء کے اختلافی بیانات بہت آسانی سے مل جائیں گے۔

عمران الحسینی: سماجی مسائل پر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کا موقف ملاحظہ کرنے کے لیے ان کی کتب ملاحظہ کریں۔

عمران الحسینی:
محترم فاروق سرور خان صاحب آپ کی گفتگو کا یہ حصہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس پر علیحدہ سے ایک تھریڈ پوسٹ کیا جائے۔
فاروق سرور خان :
قرآن کی جو آیت آپ نے پیش کی ہے اس کو غور سے دیکھئے کہ ایک فرد کے لئے نہیں‌کہا گیا کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا داعی ہو یعنی اس کو قانون سازی کا حق ہو۔ بلکہ ایسا ایک جماعت کے لئے کہا گیا ہے۔ایک ایسی جماعت جس پر عام آدمی اپنے اعتماد کا اظہار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور عالموں کو ان حکومت کرنے والوں کے لئے مناسب علم مہیا کرنے کا بہترین موقع دیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
محترمی عمران حسینی صاحب۔ سلام مسنون۔

لگتا ہے بھائی کٹ پیسٹ کے دوران کہ آپ کو پہلی تحریر پڑھنے کا موقع نہیں‌ ملا ۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ابتدائی مراسلہ میں لکھا ۔

[arabic]عُلَمَاءُ اُمَّتِی کَاَنْبِيَاءِ بَنِی اِسْرَائِيْل.[/arabic]
’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔‘‘


پتہ نہیں اس کا کیا مقصد ہے؟ علماء‌بس علماء ہوتے ہیں۔ ٹیچرز ہوتے ہیں۔ پڑھاتے ہیں ، علم فراہم کرتے ہیں اور اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔

جبکہ نبوت ایک عہدہ ہے جو اللہ تعالی تفویض‌کرتے رہے ہیں، عہد رسالت لینے کے بعد۔ اتفاق سے تمام کے تمام انبیاء جن کا تذکرہ ملتا ہے وہ بنی اسرائیل میں ہی آئے۔ کیا آج کا عالم، علم کی کسی بھی معراج پر فائز ہوجائے۔ نبی نہیں بن سکتا ہے؟

آپ کے بعد کے مراسلے سے - جو آپ نے خود لکھا ہے - ایک عالم کے نبی بن جانے کے خیال کی تردید ہوتی نطر آتی ہے۔

شکریہ و والسلام
میری گذارش یہ ہے کہ اگر پیش کی جانے والی روایت حدیث ہے تو اس کا مکمل سیاق و سباق اور اسکی فنی حیثیت واضح کیا جائے نیز محدثین کے حوالے سے اس کی شرح بھی ۔۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تک یہ سارا عمل انجام نہیں پا جاتا تب تک کسی بھی شخص کو محض اپنے قیاس فاسد کی بنیاد پر یہ ہرگزَ نہیں کہنا چاہیے کہ یہاں معاذ اللہ اس امت کے علماء کو نفس نبوت میں بنی اسرائیل کے علماء کے مصداق ٹھرایا گیا ہے ۔ ۔ کیونکہ اگر محض قیاس ہی کی اگر بات کی جائے تو بات چونکہ علماء کی بابت فرمائی جارہی ہے تو علماء در حقیقت وارثان علم ہی ہوتے ہیں لہذا کلمات تشبیہ کو علم کے پھیلانے اور علم کی تبلیغ کرنے کے ضمرے میں لیے جانے سے میرے نزدیک کوئی امر مانع نہیں ہے یعنی یہ بھی تو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہاں کی طرح سے مراد نفس نبوت نہیں بلکہ علم کی تبلیغ یعنی علم کا پھیلانا ہے۔ ۔ ۔ کیونکہ پیش کردہ الفاظ اپنے ظاہر میں تو حدیث ہی معلوم ہورہے ہیں لہذا یہ الفاظ اگر فنی اعتبار سے صحیح حدیث ثابت ہوجائیں تو کیا گیا اعتراض حدیث پر اعتراض کہلائے گا
 

خرم

محفلین
بھائیو اب بات کو آگے احادیث اور قرآن کے مسئلہ میں نہ الجھائیے گا۔ عمران نے ایک مضمون لکھا، مدحت میں لکھا کہ مذمت میں اس سے غرض نہیں۔ آپ لوگ طاہر القادری صاحب کے بارے میں عمران کے خیالات سے آگاہ ہو گئے۔ آپ اس سے اتفاق کرتے یا اختلاف وہ آپکا ذاتی معاملہ ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ ہم اب اس معاملہ کو یہیں چھوڑ دیں۔:)
 
علماء‌یعنی سکالرز یعنی ٹیچرز کو ان کے مقام پر رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ ان کا علم انکے لئے اور انکے علم کا نتیجہ دنیا کے لئے ہوتا ہے۔

اگر کسی بھی تاویل سے، الفاظ کے ہیر پھر سے، معنوی اعتبار سے، تشبیہات سے ، کسی کے علماء اس کے لئے بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں تو اس کو مبارک ؛)
 

آبی ٹوکول

محفلین
علماء‌یعنی سکالرز یعنی ٹیچرز کو ان کے مقام پر رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ ان کا علم انکے لئے اور انکے علم کا نتیجہ دنیا کے لئے ہوتا ہے۔

اگر کسی بھی تاویل سے، الفاظ کے ہیر پھر سے، معنوی اعتبار سے، تشبیہات سے ، کسی کے علماء اس کے لئے بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں تو اس کو مبارک ؛)
محترم جناب فاروق سرور صاحب آپ سے بصد ادب و نیاز گذارش ہے کہ آپ علماء‌ یعنی سکالرز یعنی ٹیچرز کو ان کے مقام پر رکھتے ہوئے( کیونکہ ان کا علم انکے لئے اور انکے علم کا نتیجہ دنیا کے لئے ہوتا ہے) درج زیل آیت کا فقط ترجمہ بغیر کسی بھی تاویل کے یعنی فقط قرآن کے ظاہری الفاظ کے مطابق الفاظ کے ہیر پھر سےپاک انداز میں بغیر معنوی اعتبار اختیار کیے ہوئے نیز تشبیہات سے پاک انداز اختیار کرتے ہوئے درج زیل آیت کا ترجمہ کے ساتھ ساتھ مفھوم بھی واضح فرماد یجیئے تاکہ ہم بھی آپکی قرآن فھمی سے مستفید ہوسکیں ۔ ۔۔ آیت درج زیل ہے ۔ ۔ ۔
وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُكُم مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ
یاد رہے مذکورہ آیت میں کلمہ امم امثالکم بالکل اس طرح کلمہ تشبیہ ہے کہ جس طرح حدیث میں علماء کی انبیاء کے ساتھ تشبیہ بیان ہوئی ہے فرق بس یہ ہے کہ وہاں حدیث میں کَاَنْبِيَاءِ کے الفاظ ہین کہ جن کا ترجمہ کی طرح بنتا ہے ہوا ہے اور یہاں قرآن میں أُمَمٌ أَمْثَالُكُم الفاظ ہیں کہ جن کا ترجمہ تمہاری مثل ہیں بنتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

خرم

محفلین
لوجی شروع ہو گیا کام۔ ارے بھائیو کیوں ایسی بحثیں شروع کرتے ہیں؟ آپ حدیث کی اسناد بیان کردیں اور باقی کا معاملہ فاروق بھائی پر چھوڑ دیں۔ اس طرح بال کی کھال اتارنے سے کیا حاصل ہوگا؟ اس دھاگے کا جو مقصد تھا وہ پورا ہوگیا۔ کیا ضروری ہے کہ اسلام پر ہونے والی ہر بات ایک نظریاتی دنگل پر ہی اختتام پذیر ہو؟:(
 

شمشاد

لائبریرین
خرم بھائی بعض حضرات کی عادت ہے کہ بحث چھڑ کر پھر بحث برائے بحث اس کو طول دیا جائے۔ اور اول و آخر " میں نہ مانوں " تو ہے ہی۔
بھائی ایک بات ہوئی ختم ہو گی۔ آپ کا دل مانتا ہے تو مانیں، نہیں مانتا تو نہ مانیں۔ اب لٹھ لے دوسرے کے پیچھے مت ہو جائیں کہ مانو نہیں تو لٹھ ماروں گا۔
 
Top