عمران القادری
محفلین
سید فرحت حسین شاہ
تخلیق آدم کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے انسان کی راہنمائی اور ہدایت کے لئے انبیاء اور رسل عظام کو بھیجنا شروع کر دیا جو اپنے اپنے دور کے حالات اور تقاضوں کے مطابق نسل انسانی میں علم وفکر، تعلیم وتربیت، عبادت وریاضت اور شعور کی بیداری کے لئے کام کرتے رہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی نبی اس جہان فانی سے ابدی جہاں کا مسافر ہوتا توکچھ وقت گزرنے کے بعد اس کی تعلیمات کو یکسر فراموش کر دیاجاتا اور انسانیت جہالت و ظلم اور فتنہ وفساد میں پھنس کر رہ جاتی اور یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جاری رہا۔ پھر نبی آخرالزماں، رحمت اللعالمین محبوب خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا زمانہ آیا تو باری تعالی نے پہلے سے قائم نظام کو تبدیل کر کے فرما دیا :
وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.
(مائدہ، 5 : 67)
’’اور اللہ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔‘‘
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَo
(الحجر، 15 : 9)
’’بیشک یہ ذکر عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘
یعنی پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم تیری ذات کو بھی محفوظ رکھا جائے گا اور محبوب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم آپ کی سب تعلیمات کی بھی حفاظت ہو گی اور اللہ رب العزت نے ایساہی کیا۔ جب تک تو حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اس جہان آب وگل میںظاہری حالت میں موجود رہے تو رشد وہدایت، علم وعمل، تعلیم وتربیت، وعظ و تبلیغ، اخوت وبھائی چارہ، عبادت وریاضت، شعور وفکر، قانون اورعدل وانصاف جیسے سبھی چشمے ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ہی جاری وساری رہے اور آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ہی رشد و ہدایت کا منبع ٹھہرے لیکن آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے پردہ فرما جانے کے بعد کے لئے اللہ تعالی نے نظام حفاظت دین دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا.
(الانبیاء، 21 : 73)
’’اور ہم نے ان کے لئے امام بنائے جو ہمارے حکم سے ہدایت کا کام کرتے ہیں۔‘‘
ہدایت کے امام درحقیقت وہ علمائے حق ہیں جو ہر وقت تعلیم وتربیت، درس وتدریس، وعظ ونصیحت، اقامت دین اور احیائے اسلام کے لئے برسرپیکار نظر آتے ہیں۔ پہلی امتوں کے انبیاء علیہم السلام کا بتایا ہوا درس کچھ عرصہ بعد بالکل بھلا دیا جاتا تھا مگر مصطفوی دین پر کئی ادوار اور مواقع آئے جب لوگوں کے عقائد بگڑ گئے، لوگ افراط وتفریط کا شکار ہو گئے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی نافرمانی عام ہونے لگی، دینی اقدار کا مذاق اڑایا جانے لگا اور دین اسلام کو ناقابل عمل تصور کیا جانے لگا، اس وقت اہل علم ودانش، صالح حکمرانوں اور روحانیت وتصوف کے پیشہ سے وابستہ افراد نے احیائے اسلام اور دینی اقدار کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔
چونکہ اللہ تعالی نے اس دین کی حفاظت کا اہتمام خود فرمارکھا ہے لہذا جب کبھی امت مسلمہ ایسے حالات سے دوچار ہو تی ہے تو اس وقت تین طرح کے طبقات دین اسلام کو سہارا دیتے ہیں اور امت کے عروق مردہ میں زندگی کی لہر پیدا کرتے ہیں :
مصلحین
مجتہدین
مجددین
1۔ مصلحین
یہ ایسے علماء حق کا طبقہ ہے جو اپنی علمی وتحقیقی کاوشوں سے عقائد کی اصلاح کے لئے کام کرتاہے، عقیدہ توحید و رسالت، ادب صحابہ واہل بیت، فکر آخرت، اولیاء اللہ کی نسبت کے حوالے سے پائی جانے والی بدعقیدگی کو دور کرتا ہے اور صحیح عقیدۂ برحق کی حفاظت کے لئے خداداد صلاحیتوں سے کام لے کر عقائد صحیحہ کا دفاع اور فروغ کرتا ہے۔
2۔ مجتہدین
قرآن وحدیث سے جب دینی احکام اور فقہ کوناقابل عمل تصور کیا جارہا ہو، اس وقت علمائے مجتہدین کا طبقہ تحقیق وتخریج، استنباط واستخراج اور اجتہاد کے ذریعے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق دینی اصطلاحات اور احکام کا نہ صرف دفاع کرتا ہے بلکہ انہیں قابل عمل بنا کر ایسے پیش کرتا ہے کہ جس سے روگردانی نہیں کی جاسکتی۔ قرآن وسنت کی نصوص کی تعبیرنو کرتا ہے، تغیر زمان سے تغیر احکام کے اصولوں کو اپناتا ہے۔ کبھی اجتہاد بیانی کرتا ہے اور کبھی اجتہاد قیاسی اس طرح معانی و معارف کے سمندر بہا دیتا ہے۔
3۔ مجدّدین
حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی ہر صدی کے آخر میں ایسے شخص کو پیدا فرمائے گا جو دین کی تجدید کا کام کرے گا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا تن من دھن سب کچھ احیاء دین اسلام اور اقامت دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔
یہی وہ طبقہ ہے جو نئے سے نئے اٹھنے والے فتنوں کا سرکچل دیتا ہے، ایک مجدد اپنی محنت وجانفشانی، دین کے لئے اضطرابی وبے چینی اور وفاداری میں سب سے بے مثل ویکتا ہوتا ہے۔
مجدد دین کی مٹی ہوئی قدروں کو پھر سے زندہ کرتا ہے۔ ۔ ۔ ہر چیلنج کا منہ توڑ جواب دیتا ہے۔ ۔ ۔ باطل افکار ونظریات کا توڑ کرتا ہے۔ ۔ ۔ مجدد نہ صرف دین کی زندگی کے لئے کام کرتا ہے بلکہ ایک مجدد کی مجلس میں بیٹھنے سے قرون اولی کے اسلاف کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
یہی وہ طبقات ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.
الفاطر، 35 : 28
’’بیشک میرے بندوں میں سے علماء ہی ہیں جو اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔‘‘
عُلَمَاءُ اُمَّتِی کَاَنْبِيَاءِ بَنِی اِسْرَائِيْل.
’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔‘‘
ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی امت مسلمہ مشکل ترین دور سے دوچار ہوئی ہے تو اس وقت علم وعمل کے پیکر، صدق واخلاص سے مزین علماء نے ہی امت کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دیا ہے۔
آج اگر ہم قومی اور بین الاقوامی سطح پر نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو انسانیت سسکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ بالخصوص امت مسلمہ کمزور سے کمزور تر، دینی اقدار سے ناآشنا، شعائر اسلام سے دور، بدعقیدگی، دہشت گردی وانتہا پسندی، لا علمی و بے عملی، افراط وتفریط، دین کو کمزور اور ناقابل عمل تصور کیا جانا، بندگی خدا اور غلامی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے فرار جیسی سینکڑوں بیماریوں نے ہمیں گھیر رکھا ہے اور آج ہم گناہوں کے بوجھ تلے دبے چلے جا رہے ہیں حتی کہ نیکی اور بدی کی تمیز ختم ہو تی دکھائی دے رہی ہے۔ ان حالات میں کیا نعوذ باللہ دین اسلام نے ختم ہوجانا ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا کیونکہ خود باری تعالی نے حفاظت دین کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں کئی جماعتیں، ادارے اور تنظیمیں اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق خدمت دین میں مصروف عمل ہیں۔ بعض تنظیمیں مسلکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر کام کر رہی ہیں۔ ۔ ۔ بعض کی بنیاد علاقائی وجغرافیائی ہے۔ ۔ ۔ کچھ سیاسی وسماجی اور کچھ گروہی مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے کے عقائد پر طعن وتشنیع، اور تنقید وتنقیص کے لئے کام کرنا جماعتوں کی پہچان بن گئی ہے، جس وجہ سے امت کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
ان حالات کے پیش نظر ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ اور احیائے اسلام کے عالمگیر مقصد کو پورا کرنے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے تحریک منہاج القرآن کی بنیادرکھی، اس تحریک میں مختلف نظامتیں، شعبہ جات، کونسلز اور ونگز اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق تحریر، تقریر، تنظیم، تحقیق، اشاعت، درس وتدریس اور تعلیم وتربیت کے مراحل میں مصروف ہیں۔
شیخ الاسلام کی اجتہادی، علمی، فکری کاوشوں کے ذریعے جہاں ہر طبقہ زندگی کے اندر مختلف پہلوؤں سے مثبت تبدیلیاں پیدا ہوئیں وہاں آپ کی شبانہ روز کاوشوں کے نتیجے میں علماء و مشائخ کی اصلاح بھی ممکن ہوئی اور آج اندرون و بیرون ملک شیخ الاسلام کی محبتوں، قربتوں سے فیض یاب ہونے والے ہزاروں علماء و خطباء آپ کی کتب اور خطابات سے کسبِ فیض کرتے ہوئے دین کے حقیقی اور صحیح تصور کو معاشرے میں فروغ دے رہے ہیں۔ شیخ الاسلام کی انہی کاوشوں کی بدولت آج پھر ایک بار منبر ومحراب سے قوی دلائل کے ساتھ عقائد صحیحہ کا پرچار کیا جا رہا ہے، مساجد ایک مرتبہ پھر صحیح معنوں میں معاشرتی مرکز کے طور پر سامنے آرہی ہیں جہاں نماز پڑھنے والوں کو اپنے ہر معاشرتی، سیاسی، معاشی، اخلاقی، مذہبی مسئلہ کا حل دو ٹوک انداز میں قرآن و حدیث سے میسر آرہا ہے۔ ان وارثانِ منبر و محراب کی ذہنی آبیاری کے لئے، انہیں باقاعدہ طور پر منظم کرنے اور مقصد آشنا بنانے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں منہاج القرآن علماء کونسل کا وجود عمل میں لایاگیا۔
ذیل میں ہم وارثانِ منبر و محراب علماء و مشائخ کے کردار اور ذمہ داریوں کو زیربحث لاتے ہیں اور بعد ازاں اس بات کا احاطہ کریں گے کہ شیخ الاسلام نے علماء و مشائخ کو ان کی ذمہ داریوں سے احسن طور پر عہدہ برآ کرنے کے لئے کیا کاوشیں کیں اور اس کے کیا نتائج سامنے آئے۔
وارثین منبر و محراب کی ذمہ داریاں
1۔ علم وعمل
آج اگر ہم اپنا جائزہ لے کر دیکھیں اکثریت ایسے احباب کی دکھائی دیتی ہے جنہوں نے چند گنی چنی تقریریں اور ان کی مختلف ادائیں سیکھ رکھی ہیں جبکہ شوق و محبت سے قرآن وحدیث کا مطالعہ اور اپنے اسلاف کے احوال زندگی کا مطالعہ چھوڑ دیا ہے لہذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے تمام علماء علم نافع اور عمل صالح کو اپنی زینت بنائیں تاکہ ہمارے دل، سوچ، کردار اور ہر ہر فعل میں تقویٰ وطہارت پہلو غالب دکھائی دے۔
حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
فضل العالم علی العابد سبعون درجة بين کل درجتين حضرالفرس سبعين عاما.
’’عالم کو عابد کو ستر درجے برتری حاصل ہے، ہر دو درجوں کو درمیانی فاصلہ گھوڑے کے ستر سال دوڑنے کے بعد طے ہونے والی مسافت کے برابر ہے۔‘‘
2۔ اخلاص
علماء چونکہ وارثین منبر و محراب ہیں اور خدمت دین کے جذبہ سے سرشار ہیں اس لئے ضروری ہے کہ دل ہر طرح کے فریب اور کھوٹ سے پاک ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کے جملہ امور کو خلوص دل سے نبھایا جائے کیونکہ اخلاص ایک ایسے طاقت ہے جو ہر مخالفت اور مزاحمت کی دیوار کو توڑ سکتی ہے لہذا علماء ومشائخ کی ہمیشہ یہ کوشش ہونی چاہئے کہ دنیوی مفاد کی بجائے خالصۃ اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی رضا کے لئے شب وروز مصروف عمل رہیں۔
3۔ دعوت وتبلیغ اسلام
دین اسلام کی دعوت کو عام کرنے کے لئے لوگوں کا ناطہ قرآن وحدیث سے استوار کرنا یہ علمائے حق کی اولین ذمہ داری ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب علماء ومشائخ قرآن وحدیث کا معرفت وحقائق پر مبنی نور حاصل کرنے کے لئے محنت کریں گے اور پھر اپنے اپنے علاقے اور جہاں تک ممکن ہو وہاں تک دروس قرآن، دروس حدیث، دروس تصوف، شب بیداریوں اور محافل ذکر ونعت کے دین اسلام کا جیتا جاگتا پیغام جملہ اہل اسلام کو پہنچائیں۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ.
’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں‘‘
4۔ فروغ عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
آج کی امت مسلمہ کی زبوں حالی اور شکست خوردگی کا واحد حل یہ ہے کہ لوگوں کا ایک بار پھر ذات رسالتماب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے قلبی، حبی اور والہانہ عشقی تعلق کو مضبوط کیا جائے، اس تعلق کی مضبوطی کے لئے بارگاہ رسالتماب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم میں ہر وقت درود وسلام کا نذرانہ، محافل میلاد ونعت کو معاشرے کی ثقافت بنانا اور حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیمات کی اطاعت وپیروی کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
گر با او نہ رسید تمام بولہبی است
علماء ومشائخ کو اسی مقصد عظیم کے لئے شب وروز مصروف عمل رہنا چاہیے تاکہ ایک بار پھر عصر حاضر میں جمال مصطفوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے شناسائی پیدا کر کے عشق و محبت کی قوت سے امت مرحومہ کی پستیوں کو بلندیوں میں بدلا جا سکے۔
قوت سے عشق سے ہرپست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد (ص) سے اجالا کر دے
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے تصور کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ازسرنو اجاگر کیا جائے تاکہ عصر حاضر کے ملی بگاڑ اور عظمت و محبت رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ناآشنائی کے سبب پیدا ہونے والے روحانی زوال کا جائزہ لیا جا سکے اور ہم اصلاح احوال کی طرف متوجہ ہوں۔
ہمارے علم میں ایک طرف حضور سید عالم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی وہ عظمت وشان ہو جو آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو بارگاہ خداوندی میں حاصل ہے تو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی شوکت ورفعت کا علو جس کے پھریرے اقلیم فرش وعرش پرلہرا رہے ہیں۔ اس تصور کو حتی المقدور تحریر وتقریر کا جامہ پہنا کر عوام الناس میں متعارف کروایا جائے تاکہ پھر سے اسلام کی عظمت کا احیاء، عظمت رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ممکن ہو سکے۔
نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یس، وہی طہ
5۔ عقائد صحیحہ کا دفاع اورفروغ
آج جہاں امت مسلمہ گروہی، لسانی، قومی اور بین الاقوامی تعصبات کا شکار ہے وہیں پر تفرقہ بازی اور مسلکی تعصب کی بنا پر عقائد صحیحہ کو بھی بگاڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں عقیدہء توحید کا غلط مفہوم پیش کر کے کئی لوگ گستاخی رسو ل صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے مرتکب ٹھہرے، اسی طرح تفرقہ کی بنا پر اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے ایسے گروہ پیدا ہوئے جو ادب و محبت میں غلو اور افراط وتفریط سے کام لیتے ہوئے ان ہستیوں کی شان میں گستاخی کے مرتکب ٹھہرے اسی طرح اولیاء، صالحین، مزارات، تبرکات، شفاعت، علم غیب اور دیگر عقائد کو ایک خاص طبقے کی طرف سے بگاڑنے کی کوشش کی گئی۔ ان حالات میں وارثین منبرومحراب کو قرآن وحدیث اور قرون اولیٰ کے اسلاف کی تعلیمات سے عقائد صحیحہ کادفاع نہ صرف عقلی ونقلی دلائل سے کرنا ہو گابلکہ حکمت و تدبر اور بیان کے ذریعے باطل عقائد کا سرکچلنا ہو گا۔ شیخ الاسلام نے لوگوں کو اعمال واحکام کی طرف راغب کر کے صحیح عقائد کا چہرہ دکھا دیا ہے۔ انہی عقائد صحیحہ کے فروغ اور دفاع کے لئے منہاج القرآن علماء کونسل بھی برسرپیکار ہے۔
6۔ اصلاح احوال امت
اس وقت امت مسلمہ مسلکی بنا پر کئی فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہے جس وجہ سے عدم برداشت، انتہاء پسندی، دہشت گردی، دینی اقدار اور اسلامی شعائر کا مذاق ہماری پہچان بنتی جا رہی ہے۔ اسی طرح اپنے آپ کو درست اور دوسروں کو غلط تصور کئے جانے نے امت مسلمہ کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر ہم تمسخر اور بے وقوفی کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر وارثین منبرومحراب کو امت مسلمہ کی راہنمائی کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ عامۃ الناس اور اہل علم ودانش میں حوصلہ، برداشت، باہم رواداری اور ایک دوسرے کے عقائد اور نظریات کے تحفظ اور احترام کو برقرار رکھا جائے۔ اس طرح تمام کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے کے قریب ہوں اور بالاخر اتحاد واتفاق کی طاقت سے سرشار ہو کر باطل، طاغوتی اور صہیونی طاقتوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ یہی وہ کردار ہے جس کے ذریعے امت مسلمہ تفرقہ بازی، انتہاپسندی اور دہشت گردی جیسی بیماریوں سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔
7۔ احیائے اسلام کے لئے کاوشیں
آج ضرورت ہے کہ دین کی مٹی ہوئی قدروں کو پھر سے زندہ کیا جائے، کفر و طاغوت کے باطل ہتھکنڈوں کو مروڑ دیا جائے، ہر چیلنج کا منہ توڑ جواب دیا جائے، باطل افکار ونظریات کا رد کیاجائے، احوال زمانہ کو بدل دیاجائے، کفرکے ایوانوں میں لرزہ برپا کر کے امت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے لگا کر دین اسلام کا پرچم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سربلند کر دیاجائے تاکہ لوگ ایک بار پھر دین کی طرف کشاں کشاں دوڑے چلے آئیں۔
اس طرح دینی اقدار، اسلامی شعائر، خانقاہی نظام اور اخلاص پر مبنی تعلیم و تربیت کو اس طرح عام کیاجائے تاکہ دین کی مٹی ہوئی اقدار کو پھر سے زندہ کیاجاسکے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے علماء ومشائخ کا بیداہو کر اپنا کردار ادا کرنا بہر صورت ضروری ہے۔
8۔ اتحاد امت اور اقامت دین
ہماری تمام ترکاوشوں کا اہم ترین مقصد یہ ہو کہ بالعموم پوری دنیا کے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دی جائے اوربالخصوص وطن عزیز کے علماء ومشائخ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیاجائے تاکہ اقامت دین اسلام کے لئے اجتماعی کاوشیں بروئے کار لائی جا سکیں اس مقصد کے حصول کے لئے ملکی وبین الاقوامی سطح پر مختلف کانفرنسز، مذاکرے اور باہمی تبادلہ خیال کے فورمز منعقد کئے جائیں۔ نیز مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دے کر اتحاد اور اقامت دین کے لئے عملی کاوشیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ بھی اس پرفتن دور میں علماء ومشائخ کی بے شمار ذمہ داریاں ہیں جن کے ذریعے دور حاضر کے مختلف چیلنجز کا عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکے۔
وارثان منبر ومحراب کی اصلاح میں شیخ الاسلام کا کردار
شیخ الاسلام نے علماء و مشائخ کی ذہنی آبیاری اور علمی، فکری اور اخلاقی پختگی کے لئے درج ذیل اقدامات فرمائے جس سے معاشرے کے اندر واضح تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے۔
1۔ قرآن وحدیث کے علوم کی تعبیر نو :
قرآن وحدیث کے علوم اور معانی کی تعبیر نو اور تشکیل نو جس انداز میں آپ کر رہے ہیں یہ اس دورمیں فقط آپ ہی کی ذات کا حصہ ہے اور خصوصاً قرآن وحدیث کے وہ سائنسی علوم ومعارف جن کا زمانہ ماضی میں انکشاف نہیں ہوا اور آج کے دور کی ضرورت تھی اور آج کا انسان قرآن وحدیث کی سائنسی تعبیر مانگ رہا تھا، آپ نے اسی رنگ میں پیش کیا جس کو سن کر نہ صرف مسلمان بلکہ غیرمسلم بھی قرآن کے الہامی کتاب ہونے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے سچے نبی ورسول ہونے کے قائل ہو گئے۔ آپ ہی کا یہ وصف ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے معانی کا سمندر بہاتے چلے جاتے ہیں۔ دروس قرآن اور دروس حدیث کا وسیع نظام پوری دنیا میں آپ نے بپا کر رکھا ہے اور پھر قرآن مجید کی تفسیر منہاج القرآن اور 25000 احادیث کا مجموعہ جامع السنہ کی ترتیب وتدوین کا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
2۔ موجودہ فتنوں کی معرفت اور سدباب :
اس دور میں بہت سے فتنوں نے سراٹھایا اور اس سے امت کے لوگوں کا ایمان متزلزل ہونے لگا جس میں سرفہرست فتنہ قادیانیت ہے۔ مرزا طاہر احمد قادیانی نے امت کو مباہلے کا چیلنج کیا۔ یہ شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاہر القادری کی ذات تھی جس نے اس مباہلے کو قبول کیا اور ساتھ ہی یہ چیلنج بھی کر دیا کہ اگر وہ گیارہ بارہ ربیع الاول 1988 ء کی رات مینار پاکستان پر آگیا تو مسلمان ہو جائے گا یا ہلاک ہو جائے گا۔ وہ بھاگ گیا اور اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اس غلام کو کامیاب کیا۔
اسی طرح امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے بارے میں عقائد کو خراب کیا جا رہا تھا، آئے روز خبریں اور بیانات دیئے جا رہے تھے کہ امام مہدی علیہ السلام پید ا ہو چکے ہیں، اگلے سال وہ امامت کا اعلان کرنے والے ہیں، آپ نے آمد امام مہدی علیہ السلام کے عنوان سے کئی گھنٹوں پر محیط خطاب کے ذریعے ایسے تمام فتنوں کا سر کچل دیا اور اشکالات کا ازالہ فرمایا۔
1992 ء میں اسلام کے خلاف عالمی سطح پر سازش ہوئی اور سودی نظام کو پوری دنیا میں رائج کرنے کے لئے کوششیں ہوئیں، حکومت پاکستان بھی اس سازش کا شکار ہوئی اور سرکاری سطح پر یہ باتیں ہونے لگیں کہ اسلام میں سود کے متبادل کوئی نظام نہیں، آپ نے 7 اکتوبر 1992 موچی دروازے پر بلاسود بنکاری کا عملی خاکہ پیش کر کے اس فتنے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔
آج پھر پوری دنیا میں بالعموم اور عرب دنیا اور برصغیر پاک وہند میں بالخصوص تنقیص مقام رسالت کا فتنہ بڑی شدومد کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ آپ نے پوری دنیا میں مقام عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور ادب مصطفیٰ اور فروغ عشق رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی تحریک برپا کر کے اس فتنہ کا سدباب کر دیا ہے۔ شرک وبدعت کے نام پر بہت سے مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر کے مشرک اور بدعتی بنایا جا رہا ہے۔ آپ نے اس کے خلاف ’’کتاب توحید‘‘ اور ’’کتاب البدعہ‘‘ لکھ کر اس فتنہ کا قلع قمع کیا ہے اور پوری دنیا میں میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی محافل کی دھوم مچاد ی ہے۔
3۔ قرآن وسنت کی معرفت :
آپ نے قرآن مجید کا جدید سائنسی انداز میں جو ترجمہ عرفان القرآن کے نام سے کیا ہے، امت کی آٹھ سو سالہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح ’’المنہاج السوی‘‘ سے لے کر ’’جامع السنہ‘‘ تک جو احادیث مبارکہ کے حوالے سے جو کام ہو رہا ہے وہ امت مسلمہ کو آنے والے کئی سوسال تک ہدایت اور راہنمائی کا کام دیتا رہے گا یہ دونوں کام اجتہادی اور تجدیدی نوعیت کے ہیں۔
4۔ بحیثیت سیاسی مجدد :
دورحاضر میں امت مسلمہ کے حکمران سیاسی زوال کا شکار ہیں۔ پوری ملت اسلامیہ میں کوئی ایک حکمران بھی دینی غیرت وحمیت کا مالک نہیں بلکہ باطل وطاغوت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ بقول شاعر
سیاست کار پیغمبراں بود
دریں دور کار بولہبی شد
سیاست اور ملت اسلامیہ کی ظاہری خلافت بھی سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم وخلفائے راشدین تھی جو آج کل بالکل مٹ چکی ہے بلکہ عوام الناس کا ذہن اس حد تک بدل چکا ہے کہ کسی نیک صالح اور باکردار انسان کا اس میں آنا ہی حرام سمجھتے ہیں۔ آپ نے عملی طور پر اس میں شریک ہو کر اس غلط سوچ پر بھی ضرب کاری لگائی ہے۔ یہ سنت جو مٹ چکی تھی آپ نے اس کو صحیح معنوں میں زندہ کرتے ہوئے سیاست کے حقیقی تصورات اور مقاصد سے قوم کو آشنا کیا۔
5۔ اجتہاد اور معاصر سوچ :
ہمارے قدامت پرست مذہبی ذہن نے ماشاء اللہ تصور تقلید کو فی الواقع فکری تعطل میں بدل دیا ہے اور اجتہاد کو عملًا شجر ممنوعہ بنا دیا ہے جو عملی اور فقہی کام آج سے کئی سال پہلے ہوا تھا اس سے جزوی اختلاف یا اس میں اجتہاد نو کو فعل حرام سمجھتا ہے۔ آپ نے دور حاضر میں اجتہاد کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جامدذہنوں کو سوچنے پر مجبور کیا اور بہت سے جدید مسائل میں اجتہاد کر کے اس کا عملی ثبوت دیا۔
6۔ روحانی زوال :
دورحاضر میں تصوف وطریقت اور روحانیت محض ایک مردہ رسم بن کر رہ گئی ہے۔ خانقاہوں سے جو روحانی تربیت کا سامان ہوتا تھا، لوگوں کے احوال بدل جاتے تھے، ان کے اخلاق بدلے جاتے تھے، آج وہ روحانیت کے مرکز اجڑگئے ہیں۔ وہاں تصوف وطریقت اور پیری مریدی کے نام پر پیسے بٹورنے، مرید بنانے اور نذرانے اکٹھے کرنے کی جنگ جاری ہے۔ اکثر پیران کرام خود شریعت وطریقت سے عاری، اصول تربیت سے ناواقف، دل کے احوال سے بے خبر صاحب مزار سے نسبی تعلق کی بنیاد پر یہ دکان چلا رہے ہیں۔ انہوں نے جاہ وجلال، آنکھوں کا سرخ ہونا، جبہ، قبہ، دستار، ٹوپی، تسبیح، منکے، سبز چوغے روحانیت کی باتیں، شریعت کی مخالفت، ہاتھ پاؤں کا بوسہ، بیعت، دم، تعویز دھاگہ، بداخلاقی اور غیرمحرم عورتوں کے جن نکالنا وغیرہ کو تصوف وطریقت کا نام دے رکھا ہے۔
اور وہ حقیقی تصوف و روحانیت جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے لے کر حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شاہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت بابا فریدالدین گنج شکر مسعود رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت پیر سیال شریف رحمۃ اللہ علیہ تک اور دیگر بزرگان دین کی زندگی میں تھا موجودہ دور میں اس کا تصور بھی ختم ہو رہا ہے۔ دوسری طرف منکرین تصوف اور روحانیت موجودہ دور کے تصوف کو دیکھ کر تصوف کی حقیقت اور عظمت ہی سے انکاری ہیں۔
آپ نے اس پہلو پر بھی مجددانہ نوعیت کا کام کیا ہے۔ علمی طور پراسے قرآن وسنت صحابہ کرام، ائمہ، اہل بیت اور آئمہ مجتہدین کے عمل سے ثابت کیا، دروس تصوف حقیقت تصوف، حسن اعمال، حسن احوال، سلوک وتصوف کا عملی دستور، ’’فیوضات محمدیہ‘‘ اور ’’تذکرے اور صحبتیں‘‘ جیسی نادر کتب تصنیف فرما کر اس فتنے کا رد کیا اور مرکزی اجتماعی اعتکاف کی صورت میں ہر سال دس دن آخری عشرہ رمضان المبارک میں عملی تصوف کا درس دے کر لوگوں کی عملی تربیت کا اہتمام کیا۔
آپ کی ان تمام کوششوں کو دیکھ کر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ فی الواقع آپ ہی کی ذات بابرکات اس صدی کی مجدد ہے جو ہمہ جہتی پہلوؤں میں تجدید کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔
اس مختصر مطالعہ کے بعد نہ صرف عامۃ الناس بلکہ وارثین منبرومحراب (علماء ومشائخ) کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسی شخصیت کے شانہ بشانہ دین اسلام کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو سہارا دینے کے لئے میدان عمل میں نکلیں۔
تخلیق آدم کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے انسان کی راہنمائی اور ہدایت کے لئے انبیاء اور رسل عظام کو بھیجنا شروع کر دیا جو اپنے اپنے دور کے حالات اور تقاضوں کے مطابق نسل انسانی میں علم وفکر، تعلیم وتربیت، عبادت وریاضت اور شعور کی بیداری کے لئے کام کرتے رہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی نبی اس جہان فانی سے ابدی جہاں کا مسافر ہوتا توکچھ وقت گزرنے کے بعد اس کی تعلیمات کو یکسر فراموش کر دیاجاتا اور انسانیت جہالت و ظلم اور فتنہ وفساد میں پھنس کر رہ جاتی اور یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جاری رہا۔ پھر نبی آخرالزماں، رحمت اللعالمین محبوب خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا زمانہ آیا تو باری تعالی نے پہلے سے قائم نظام کو تبدیل کر کے فرما دیا :
وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.
(مائدہ، 5 : 67)
’’اور اللہ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔‘‘
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَo
(الحجر، 15 : 9)
’’بیشک یہ ذکر عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘
یعنی پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم تیری ذات کو بھی محفوظ رکھا جائے گا اور محبوب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم آپ کی سب تعلیمات کی بھی حفاظت ہو گی اور اللہ رب العزت نے ایساہی کیا۔ جب تک تو حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اس جہان آب وگل میںظاہری حالت میں موجود رہے تو رشد وہدایت، علم وعمل، تعلیم وتربیت، وعظ و تبلیغ، اخوت وبھائی چارہ، عبادت وریاضت، شعور وفکر، قانون اورعدل وانصاف جیسے سبھی چشمے ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ہی جاری وساری رہے اور آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ہی رشد و ہدایت کا منبع ٹھہرے لیکن آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے پردہ فرما جانے کے بعد کے لئے اللہ تعالی نے نظام حفاظت دین دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا.
(الانبیاء، 21 : 73)
’’اور ہم نے ان کے لئے امام بنائے جو ہمارے حکم سے ہدایت کا کام کرتے ہیں۔‘‘
ہدایت کے امام درحقیقت وہ علمائے حق ہیں جو ہر وقت تعلیم وتربیت، درس وتدریس، وعظ ونصیحت، اقامت دین اور احیائے اسلام کے لئے برسرپیکار نظر آتے ہیں۔ پہلی امتوں کے انبیاء علیہم السلام کا بتایا ہوا درس کچھ عرصہ بعد بالکل بھلا دیا جاتا تھا مگر مصطفوی دین پر کئی ادوار اور مواقع آئے جب لوگوں کے عقائد بگڑ گئے، لوگ افراط وتفریط کا شکار ہو گئے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی نافرمانی عام ہونے لگی، دینی اقدار کا مذاق اڑایا جانے لگا اور دین اسلام کو ناقابل عمل تصور کیا جانے لگا، اس وقت اہل علم ودانش، صالح حکمرانوں اور روحانیت وتصوف کے پیشہ سے وابستہ افراد نے احیائے اسلام اور دینی اقدار کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔
چونکہ اللہ تعالی نے اس دین کی حفاظت کا اہتمام خود فرمارکھا ہے لہذا جب کبھی امت مسلمہ ایسے حالات سے دوچار ہو تی ہے تو اس وقت تین طرح کے طبقات دین اسلام کو سہارا دیتے ہیں اور امت کے عروق مردہ میں زندگی کی لہر پیدا کرتے ہیں :
مصلحین
مجتہدین
مجددین
1۔ مصلحین
یہ ایسے علماء حق کا طبقہ ہے جو اپنی علمی وتحقیقی کاوشوں سے عقائد کی اصلاح کے لئے کام کرتاہے، عقیدہ توحید و رسالت، ادب صحابہ واہل بیت، فکر آخرت، اولیاء اللہ کی نسبت کے حوالے سے پائی جانے والی بدعقیدگی کو دور کرتا ہے اور صحیح عقیدۂ برحق کی حفاظت کے لئے خداداد صلاحیتوں سے کام لے کر عقائد صحیحہ کا دفاع اور فروغ کرتا ہے۔
2۔ مجتہدین
قرآن وحدیث سے جب دینی احکام اور فقہ کوناقابل عمل تصور کیا جارہا ہو، اس وقت علمائے مجتہدین کا طبقہ تحقیق وتخریج، استنباط واستخراج اور اجتہاد کے ذریعے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق دینی اصطلاحات اور احکام کا نہ صرف دفاع کرتا ہے بلکہ انہیں قابل عمل بنا کر ایسے پیش کرتا ہے کہ جس سے روگردانی نہیں کی جاسکتی۔ قرآن وسنت کی نصوص کی تعبیرنو کرتا ہے، تغیر زمان سے تغیر احکام کے اصولوں کو اپناتا ہے۔ کبھی اجتہاد بیانی کرتا ہے اور کبھی اجتہاد قیاسی اس طرح معانی و معارف کے سمندر بہا دیتا ہے۔
3۔ مجدّدین
حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی ہر صدی کے آخر میں ایسے شخص کو پیدا فرمائے گا جو دین کی تجدید کا کام کرے گا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا تن من دھن سب کچھ احیاء دین اسلام اور اقامت دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔
یہی وہ طبقہ ہے جو نئے سے نئے اٹھنے والے فتنوں کا سرکچل دیتا ہے، ایک مجدد اپنی محنت وجانفشانی، دین کے لئے اضطرابی وبے چینی اور وفاداری میں سب سے بے مثل ویکتا ہوتا ہے۔
مجدد دین کی مٹی ہوئی قدروں کو پھر سے زندہ کرتا ہے۔ ۔ ۔ ہر چیلنج کا منہ توڑ جواب دیتا ہے۔ ۔ ۔ باطل افکار ونظریات کا توڑ کرتا ہے۔ ۔ ۔ مجدد نہ صرف دین کی زندگی کے لئے کام کرتا ہے بلکہ ایک مجدد کی مجلس میں بیٹھنے سے قرون اولی کے اسلاف کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
یہی وہ طبقات ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.
الفاطر، 35 : 28
’’بیشک میرے بندوں میں سے علماء ہی ہیں جو اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔‘‘
عُلَمَاءُ اُمَّتِی کَاَنْبِيَاءِ بَنِی اِسْرَائِيْل.
’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔‘‘
ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی امت مسلمہ مشکل ترین دور سے دوچار ہوئی ہے تو اس وقت علم وعمل کے پیکر، صدق واخلاص سے مزین علماء نے ہی امت کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دیا ہے۔
آج اگر ہم قومی اور بین الاقوامی سطح پر نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو انسانیت سسکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ بالخصوص امت مسلمہ کمزور سے کمزور تر، دینی اقدار سے ناآشنا، شعائر اسلام سے دور، بدعقیدگی، دہشت گردی وانتہا پسندی، لا علمی و بے عملی، افراط وتفریط، دین کو کمزور اور ناقابل عمل تصور کیا جانا، بندگی خدا اور غلامی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے فرار جیسی سینکڑوں بیماریوں نے ہمیں گھیر رکھا ہے اور آج ہم گناہوں کے بوجھ تلے دبے چلے جا رہے ہیں حتی کہ نیکی اور بدی کی تمیز ختم ہو تی دکھائی دے رہی ہے۔ ان حالات میں کیا نعوذ باللہ دین اسلام نے ختم ہوجانا ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا کیونکہ خود باری تعالی نے حفاظت دین کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں کئی جماعتیں، ادارے اور تنظیمیں اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق خدمت دین میں مصروف عمل ہیں۔ بعض تنظیمیں مسلکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر کام کر رہی ہیں۔ ۔ ۔ بعض کی بنیاد علاقائی وجغرافیائی ہے۔ ۔ ۔ کچھ سیاسی وسماجی اور کچھ گروہی مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے کے عقائد پر طعن وتشنیع، اور تنقید وتنقیص کے لئے کام کرنا جماعتوں کی پہچان بن گئی ہے، جس وجہ سے امت کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
ان حالات کے پیش نظر ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ اور احیائے اسلام کے عالمگیر مقصد کو پورا کرنے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے تحریک منہاج القرآن کی بنیادرکھی، اس تحریک میں مختلف نظامتیں، شعبہ جات، کونسلز اور ونگز اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق تحریر، تقریر، تنظیم، تحقیق، اشاعت، درس وتدریس اور تعلیم وتربیت کے مراحل میں مصروف ہیں۔
شیخ الاسلام کی اجتہادی، علمی، فکری کاوشوں کے ذریعے جہاں ہر طبقہ زندگی کے اندر مختلف پہلوؤں سے مثبت تبدیلیاں پیدا ہوئیں وہاں آپ کی شبانہ روز کاوشوں کے نتیجے میں علماء و مشائخ کی اصلاح بھی ممکن ہوئی اور آج اندرون و بیرون ملک شیخ الاسلام کی محبتوں، قربتوں سے فیض یاب ہونے والے ہزاروں علماء و خطباء آپ کی کتب اور خطابات سے کسبِ فیض کرتے ہوئے دین کے حقیقی اور صحیح تصور کو معاشرے میں فروغ دے رہے ہیں۔ شیخ الاسلام کی انہی کاوشوں کی بدولت آج پھر ایک بار منبر ومحراب سے قوی دلائل کے ساتھ عقائد صحیحہ کا پرچار کیا جا رہا ہے، مساجد ایک مرتبہ پھر صحیح معنوں میں معاشرتی مرکز کے طور پر سامنے آرہی ہیں جہاں نماز پڑھنے والوں کو اپنے ہر معاشرتی، سیاسی، معاشی، اخلاقی، مذہبی مسئلہ کا حل دو ٹوک انداز میں قرآن و حدیث سے میسر آرہا ہے۔ ان وارثانِ منبر و محراب کی ذہنی آبیاری کے لئے، انہیں باقاعدہ طور پر منظم کرنے اور مقصد آشنا بنانے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں منہاج القرآن علماء کونسل کا وجود عمل میں لایاگیا۔
ذیل میں ہم وارثانِ منبر و محراب علماء و مشائخ کے کردار اور ذمہ داریوں کو زیربحث لاتے ہیں اور بعد ازاں اس بات کا احاطہ کریں گے کہ شیخ الاسلام نے علماء و مشائخ کو ان کی ذمہ داریوں سے احسن طور پر عہدہ برآ کرنے کے لئے کیا کاوشیں کیں اور اس کے کیا نتائج سامنے آئے۔
وارثین منبر و محراب کی ذمہ داریاں
1۔ علم وعمل
آج اگر ہم اپنا جائزہ لے کر دیکھیں اکثریت ایسے احباب کی دکھائی دیتی ہے جنہوں نے چند گنی چنی تقریریں اور ان کی مختلف ادائیں سیکھ رکھی ہیں جبکہ شوق و محبت سے قرآن وحدیث کا مطالعہ اور اپنے اسلاف کے احوال زندگی کا مطالعہ چھوڑ دیا ہے لہذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے تمام علماء علم نافع اور عمل صالح کو اپنی زینت بنائیں تاکہ ہمارے دل، سوچ، کردار اور ہر ہر فعل میں تقویٰ وطہارت پہلو غالب دکھائی دے۔
حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
فضل العالم علی العابد سبعون درجة بين کل درجتين حضرالفرس سبعين عاما.
’’عالم کو عابد کو ستر درجے برتری حاصل ہے، ہر دو درجوں کو درمیانی فاصلہ گھوڑے کے ستر سال دوڑنے کے بعد طے ہونے والی مسافت کے برابر ہے۔‘‘
2۔ اخلاص
علماء چونکہ وارثین منبر و محراب ہیں اور خدمت دین کے جذبہ سے سرشار ہیں اس لئے ضروری ہے کہ دل ہر طرح کے فریب اور کھوٹ سے پاک ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کے جملہ امور کو خلوص دل سے نبھایا جائے کیونکہ اخلاص ایک ایسے طاقت ہے جو ہر مخالفت اور مزاحمت کی دیوار کو توڑ سکتی ہے لہذا علماء ومشائخ کی ہمیشہ یہ کوشش ہونی چاہئے کہ دنیوی مفاد کی بجائے خالصۃ اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی رضا کے لئے شب وروز مصروف عمل رہیں۔
3۔ دعوت وتبلیغ اسلام
دین اسلام کی دعوت کو عام کرنے کے لئے لوگوں کا ناطہ قرآن وحدیث سے استوار کرنا یہ علمائے حق کی اولین ذمہ داری ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب علماء ومشائخ قرآن وحدیث کا معرفت وحقائق پر مبنی نور حاصل کرنے کے لئے محنت کریں گے اور پھر اپنے اپنے علاقے اور جہاں تک ممکن ہو وہاں تک دروس قرآن، دروس حدیث، دروس تصوف، شب بیداریوں اور محافل ذکر ونعت کے دین اسلام کا جیتا جاگتا پیغام جملہ اہل اسلام کو پہنچائیں۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ.
’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں‘‘
4۔ فروغ عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
آج کی امت مسلمہ کی زبوں حالی اور شکست خوردگی کا واحد حل یہ ہے کہ لوگوں کا ایک بار پھر ذات رسالتماب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے قلبی، حبی اور والہانہ عشقی تعلق کو مضبوط کیا جائے، اس تعلق کی مضبوطی کے لئے بارگاہ رسالتماب صلی اللہ علیہ آلہ وسلم میں ہر وقت درود وسلام کا نذرانہ، محافل میلاد ونعت کو معاشرے کی ثقافت بنانا اور حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیمات کی اطاعت وپیروی کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
گر با او نہ رسید تمام بولہبی است
علماء ومشائخ کو اسی مقصد عظیم کے لئے شب وروز مصروف عمل رہنا چاہیے تاکہ ایک بار پھر عصر حاضر میں جمال مصطفوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے شناسائی پیدا کر کے عشق و محبت کی قوت سے امت مرحومہ کی پستیوں کو بلندیوں میں بدلا جا سکے۔
قوت سے عشق سے ہرپست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد (ص) سے اجالا کر دے
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے تصور کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ازسرنو اجاگر کیا جائے تاکہ عصر حاضر کے ملی بگاڑ اور عظمت و محبت رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ناآشنائی کے سبب پیدا ہونے والے روحانی زوال کا جائزہ لیا جا سکے اور ہم اصلاح احوال کی طرف متوجہ ہوں۔
ہمارے علم میں ایک طرف حضور سید عالم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی وہ عظمت وشان ہو جو آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو بارگاہ خداوندی میں حاصل ہے تو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی شوکت ورفعت کا علو جس کے پھریرے اقلیم فرش وعرش پرلہرا رہے ہیں۔ اس تصور کو حتی المقدور تحریر وتقریر کا جامہ پہنا کر عوام الناس میں متعارف کروایا جائے تاکہ پھر سے اسلام کی عظمت کا احیاء، عظمت رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ممکن ہو سکے۔
نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یس، وہی طہ
5۔ عقائد صحیحہ کا دفاع اورفروغ
آج جہاں امت مسلمہ گروہی، لسانی، قومی اور بین الاقوامی تعصبات کا شکار ہے وہیں پر تفرقہ بازی اور مسلکی تعصب کی بنا پر عقائد صحیحہ کو بھی بگاڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں عقیدہء توحید کا غلط مفہوم پیش کر کے کئی لوگ گستاخی رسو ل صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے مرتکب ٹھہرے، اسی طرح تفرقہ کی بنا پر اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے ایسے گروہ پیدا ہوئے جو ادب و محبت میں غلو اور افراط وتفریط سے کام لیتے ہوئے ان ہستیوں کی شان میں گستاخی کے مرتکب ٹھہرے اسی طرح اولیاء، صالحین، مزارات، تبرکات، شفاعت، علم غیب اور دیگر عقائد کو ایک خاص طبقے کی طرف سے بگاڑنے کی کوشش کی گئی۔ ان حالات میں وارثین منبرومحراب کو قرآن وحدیث اور قرون اولیٰ کے اسلاف کی تعلیمات سے عقائد صحیحہ کادفاع نہ صرف عقلی ونقلی دلائل سے کرنا ہو گابلکہ حکمت و تدبر اور بیان کے ذریعے باطل عقائد کا سرکچلنا ہو گا۔ شیخ الاسلام نے لوگوں کو اعمال واحکام کی طرف راغب کر کے صحیح عقائد کا چہرہ دکھا دیا ہے۔ انہی عقائد صحیحہ کے فروغ اور دفاع کے لئے منہاج القرآن علماء کونسل بھی برسرپیکار ہے۔
6۔ اصلاح احوال امت
اس وقت امت مسلمہ مسلکی بنا پر کئی فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہے جس وجہ سے عدم برداشت، انتہاء پسندی، دہشت گردی، دینی اقدار اور اسلامی شعائر کا مذاق ہماری پہچان بنتی جا رہی ہے۔ اسی طرح اپنے آپ کو درست اور دوسروں کو غلط تصور کئے جانے نے امت مسلمہ کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر ہم تمسخر اور بے وقوفی کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر وارثین منبرومحراب کو امت مسلمہ کی راہنمائی کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ عامۃ الناس اور اہل علم ودانش میں حوصلہ، برداشت، باہم رواداری اور ایک دوسرے کے عقائد اور نظریات کے تحفظ اور احترام کو برقرار رکھا جائے۔ اس طرح تمام کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے کے قریب ہوں اور بالاخر اتحاد واتفاق کی طاقت سے سرشار ہو کر باطل، طاغوتی اور صہیونی طاقتوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ یہی وہ کردار ہے جس کے ذریعے امت مسلمہ تفرقہ بازی، انتہاپسندی اور دہشت گردی جیسی بیماریوں سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔
7۔ احیائے اسلام کے لئے کاوشیں
آج ضرورت ہے کہ دین کی مٹی ہوئی قدروں کو پھر سے زندہ کیا جائے، کفر و طاغوت کے باطل ہتھکنڈوں کو مروڑ دیا جائے، ہر چیلنج کا منہ توڑ جواب دیا جائے، باطل افکار ونظریات کا رد کیاجائے، احوال زمانہ کو بدل دیاجائے، کفرکے ایوانوں میں لرزہ برپا کر کے امت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے لگا کر دین اسلام کا پرچم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سربلند کر دیاجائے تاکہ لوگ ایک بار پھر دین کی طرف کشاں کشاں دوڑے چلے آئیں۔
اس طرح دینی اقدار، اسلامی شعائر، خانقاہی نظام اور اخلاص پر مبنی تعلیم و تربیت کو اس طرح عام کیاجائے تاکہ دین کی مٹی ہوئی اقدار کو پھر سے زندہ کیاجاسکے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے علماء ومشائخ کا بیداہو کر اپنا کردار ادا کرنا بہر صورت ضروری ہے۔
8۔ اتحاد امت اور اقامت دین
ہماری تمام ترکاوشوں کا اہم ترین مقصد یہ ہو کہ بالعموم پوری دنیا کے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دی جائے اوربالخصوص وطن عزیز کے علماء ومشائخ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیاجائے تاکہ اقامت دین اسلام کے لئے اجتماعی کاوشیں بروئے کار لائی جا سکیں اس مقصد کے حصول کے لئے ملکی وبین الاقوامی سطح پر مختلف کانفرنسز، مذاکرے اور باہمی تبادلہ خیال کے فورمز منعقد کئے جائیں۔ نیز مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دے کر اتحاد اور اقامت دین کے لئے عملی کاوشیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ بھی اس پرفتن دور میں علماء ومشائخ کی بے شمار ذمہ داریاں ہیں جن کے ذریعے دور حاضر کے مختلف چیلنجز کا عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکے۔
وارثان منبر ومحراب کی اصلاح میں شیخ الاسلام کا کردار
شیخ الاسلام نے علماء و مشائخ کی ذہنی آبیاری اور علمی، فکری اور اخلاقی پختگی کے لئے درج ذیل اقدامات فرمائے جس سے معاشرے کے اندر واضح تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے۔
1۔ قرآن وحدیث کے علوم کی تعبیر نو :
قرآن وحدیث کے علوم اور معانی کی تعبیر نو اور تشکیل نو جس انداز میں آپ کر رہے ہیں یہ اس دورمیں فقط آپ ہی کی ذات کا حصہ ہے اور خصوصاً قرآن وحدیث کے وہ سائنسی علوم ومعارف جن کا زمانہ ماضی میں انکشاف نہیں ہوا اور آج کے دور کی ضرورت تھی اور آج کا انسان قرآن وحدیث کی سائنسی تعبیر مانگ رہا تھا، آپ نے اسی رنگ میں پیش کیا جس کو سن کر نہ صرف مسلمان بلکہ غیرمسلم بھی قرآن کے الہامی کتاب ہونے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے سچے نبی ورسول ہونے کے قائل ہو گئے۔ آپ ہی کا یہ وصف ہے کہ آپ قرآن وحدیث کے معانی کا سمندر بہاتے چلے جاتے ہیں۔ دروس قرآن اور دروس حدیث کا وسیع نظام پوری دنیا میں آپ نے بپا کر رکھا ہے اور پھر قرآن مجید کی تفسیر منہاج القرآن اور 25000 احادیث کا مجموعہ جامع السنہ کی ترتیب وتدوین کا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
2۔ موجودہ فتنوں کی معرفت اور سدباب :
اس دور میں بہت سے فتنوں نے سراٹھایا اور اس سے امت کے لوگوں کا ایمان متزلزل ہونے لگا جس میں سرفہرست فتنہ قادیانیت ہے۔ مرزا طاہر احمد قادیانی نے امت کو مباہلے کا چیلنج کیا۔ یہ شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاہر القادری کی ذات تھی جس نے اس مباہلے کو قبول کیا اور ساتھ ہی یہ چیلنج بھی کر دیا کہ اگر وہ گیارہ بارہ ربیع الاول 1988 ء کی رات مینار پاکستان پر آگیا تو مسلمان ہو جائے گا یا ہلاک ہو جائے گا۔ وہ بھاگ گیا اور اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اس غلام کو کامیاب کیا۔
اسی طرح امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے بارے میں عقائد کو خراب کیا جا رہا تھا، آئے روز خبریں اور بیانات دیئے جا رہے تھے کہ امام مہدی علیہ السلام پید ا ہو چکے ہیں، اگلے سال وہ امامت کا اعلان کرنے والے ہیں، آپ نے آمد امام مہدی علیہ السلام کے عنوان سے کئی گھنٹوں پر محیط خطاب کے ذریعے ایسے تمام فتنوں کا سر کچل دیا اور اشکالات کا ازالہ فرمایا۔
1992 ء میں اسلام کے خلاف عالمی سطح پر سازش ہوئی اور سودی نظام کو پوری دنیا میں رائج کرنے کے لئے کوششیں ہوئیں، حکومت پاکستان بھی اس سازش کا شکار ہوئی اور سرکاری سطح پر یہ باتیں ہونے لگیں کہ اسلام میں سود کے متبادل کوئی نظام نہیں، آپ نے 7 اکتوبر 1992 موچی دروازے پر بلاسود بنکاری کا عملی خاکہ پیش کر کے اس فتنے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔
آج پھر پوری دنیا میں بالعموم اور عرب دنیا اور برصغیر پاک وہند میں بالخصوص تنقیص مقام رسالت کا فتنہ بڑی شدومد کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ آپ نے پوری دنیا میں مقام عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور ادب مصطفیٰ اور فروغ عشق رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی تحریک برپا کر کے اس فتنہ کا سدباب کر دیا ہے۔ شرک وبدعت کے نام پر بہت سے مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر کے مشرک اور بدعتی بنایا جا رہا ہے۔ آپ نے اس کے خلاف ’’کتاب توحید‘‘ اور ’’کتاب البدعہ‘‘ لکھ کر اس فتنہ کا قلع قمع کیا ہے اور پوری دنیا میں میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی محافل کی دھوم مچاد ی ہے۔
3۔ قرآن وسنت کی معرفت :
آپ نے قرآن مجید کا جدید سائنسی انداز میں جو ترجمہ عرفان القرآن کے نام سے کیا ہے، امت کی آٹھ سو سالہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح ’’المنہاج السوی‘‘ سے لے کر ’’جامع السنہ‘‘ تک جو احادیث مبارکہ کے حوالے سے جو کام ہو رہا ہے وہ امت مسلمہ کو آنے والے کئی سوسال تک ہدایت اور راہنمائی کا کام دیتا رہے گا یہ دونوں کام اجتہادی اور تجدیدی نوعیت کے ہیں۔
4۔ بحیثیت سیاسی مجدد :
دورحاضر میں امت مسلمہ کے حکمران سیاسی زوال کا شکار ہیں۔ پوری ملت اسلامیہ میں کوئی ایک حکمران بھی دینی غیرت وحمیت کا مالک نہیں بلکہ باطل وطاغوت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ بقول شاعر
سیاست کار پیغمبراں بود
دریں دور کار بولہبی شد
سیاست اور ملت اسلامیہ کی ظاہری خلافت بھی سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم وخلفائے راشدین تھی جو آج کل بالکل مٹ چکی ہے بلکہ عوام الناس کا ذہن اس حد تک بدل چکا ہے کہ کسی نیک صالح اور باکردار انسان کا اس میں آنا ہی حرام سمجھتے ہیں۔ آپ نے عملی طور پر اس میں شریک ہو کر اس غلط سوچ پر بھی ضرب کاری لگائی ہے۔ یہ سنت جو مٹ چکی تھی آپ نے اس کو صحیح معنوں میں زندہ کرتے ہوئے سیاست کے حقیقی تصورات اور مقاصد سے قوم کو آشنا کیا۔
5۔ اجتہاد اور معاصر سوچ :
ہمارے قدامت پرست مذہبی ذہن نے ماشاء اللہ تصور تقلید کو فی الواقع فکری تعطل میں بدل دیا ہے اور اجتہاد کو عملًا شجر ممنوعہ بنا دیا ہے جو عملی اور فقہی کام آج سے کئی سال پہلے ہوا تھا اس سے جزوی اختلاف یا اس میں اجتہاد نو کو فعل حرام سمجھتا ہے۔ آپ نے دور حاضر میں اجتہاد کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جامدذہنوں کو سوچنے پر مجبور کیا اور بہت سے جدید مسائل میں اجتہاد کر کے اس کا عملی ثبوت دیا۔
6۔ روحانی زوال :
دورحاضر میں تصوف وطریقت اور روحانیت محض ایک مردہ رسم بن کر رہ گئی ہے۔ خانقاہوں سے جو روحانی تربیت کا سامان ہوتا تھا، لوگوں کے احوال بدل جاتے تھے، ان کے اخلاق بدلے جاتے تھے، آج وہ روحانیت کے مرکز اجڑگئے ہیں۔ وہاں تصوف وطریقت اور پیری مریدی کے نام پر پیسے بٹورنے، مرید بنانے اور نذرانے اکٹھے کرنے کی جنگ جاری ہے۔ اکثر پیران کرام خود شریعت وطریقت سے عاری، اصول تربیت سے ناواقف، دل کے احوال سے بے خبر صاحب مزار سے نسبی تعلق کی بنیاد پر یہ دکان چلا رہے ہیں۔ انہوں نے جاہ وجلال، آنکھوں کا سرخ ہونا، جبہ، قبہ، دستار، ٹوپی، تسبیح، منکے، سبز چوغے روحانیت کی باتیں، شریعت کی مخالفت، ہاتھ پاؤں کا بوسہ، بیعت، دم، تعویز دھاگہ، بداخلاقی اور غیرمحرم عورتوں کے جن نکالنا وغیرہ کو تصوف وطریقت کا نام دے رکھا ہے۔
اور وہ حقیقی تصوف و روحانیت جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے لے کر حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شاہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت بابا فریدالدین گنج شکر مسعود رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت پیر سیال شریف رحمۃ اللہ علیہ تک اور دیگر بزرگان دین کی زندگی میں تھا موجودہ دور میں اس کا تصور بھی ختم ہو رہا ہے۔ دوسری طرف منکرین تصوف اور روحانیت موجودہ دور کے تصوف کو دیکھ کر تصوف کی حقیقت اور عظمت ہی سے انکاری ہیں۔
آپ نے اس پہلو پر بھی مجددانہ نوعیت کا کام کیا ہے۔ علمی طور پراسے قرآن وسنت صحابہ کرام، ائمہ، اہل بیت اور آئمہ مجتہدین کے عمل سے ثابت کیا، دروس تصوف حقیقت تصوف، حسن اعمال، حسن احوال، سلوک وتصوف کا عملی دستور، ’’فیوضات محمدیہ‘‘ اور ’’تذکرے اور صحبتیں‘‘ جیسی نادر کتب تصنیف فرما کر اس فتنے کا رد کیا اور مرکزی اجتماعی اعتکاف کی صورت میں ہر سال دس دن آخری عشرہ رمضان المبارک میں عملی تصوف کا درس دے کر لوگوں کی عملی تربیت کا اہتمام کیا۔
آپ کی ان تمام کوششوں کو دیکھ کر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ فی الواقع آپ ہی کی ذات بابرکات اس صدی کی مجدد ہے جو ہمہ جہتی پہلوؤں میں تجدید کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔
اس مختصر مطالعہ کے بعد نہ صرف عامۃ الناس بلکہ وارثین منبرومحراب (علماء ومشائخ) کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسی شخصیت کے شانہ بشانہ دین اسلام کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو سہارا دینے کے لئے میدان عمل میں نکلیں۔