شیخ رشید پر حملہ

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ، سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور این اے 55سے امیدوار شیخ رشید قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے۔ شیخ رشید کے انتخابی دفتر پر مسلح افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 3افراد ہلاک اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ سمیت10افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ پیر کی شام یہاں خیابان سرسید میں انتخابی دفتر سے شیخ رشید کے نکلتے ہی موٹر سائیکل سواروں نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہوگئے جبکہ شیخ رشید حملہ کے دوران گرنے سے زخمی ہوگئے جنہیں فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال میں منتقل کردیا گیا۔ واقعہ کے بعد علاقے میں شدید خوف وہراس پھیل گیا ، کارکنوں نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹائروں کو آگ لگادی جس سے ٹریفک معطل ہوگیا، کارکنوں نے مسلم لیگ ن کے خلاف نعرے لگائے جبکہ کسی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے پولیس کی بھاری نفری علاقے میں تعینات کردی گئی۔ فائرنگ سے انتخابی دفتر کے باہر کھڑی متعدد گاڑیاں اور دفتر کے شیشے ٹوٹ گئے۔ رات گئے اسپتال سے فارغ ہونے کے بعد شیخ رشیداحمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مخالفین نے شکست سامنے دیکھ کر راستے سے ہٹانے کی کوشش کی، ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں اپنے خون سے بھی بیلٹ پیپر مہر لگانی پڑی تو وہ لگائیں گے۔ شیخ رشیدنے کہا کہ راولپنڈی کی نمائندگی کیلئے وہ آخری دم تک کوششیں جاری رکھیں گے۔ اس طرح کے حملے ان کے عزم و حوصلے کم نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ انکی جانب سے بارہا خدشات کے کہنے کے باوجود کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ پنجاب پولیس واقعہ کی ذمہ دار ہے،انہوں نے کہا کہ وہ انتخابی دفتر سے نکلے ہی تھے کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے ان پر حملہ کردیا اور وہ دیر تک فائرنگ کرتے رہے۔ ان کے جان نثار ساتھیوں نے جان پر کھیل کران کی جان بچائی۔ حملے کے بعد کراچی ,حیدرآباد اور ملک کے دیگر حصوں میں مظاہرے کیے گئے۔ دریں اثناء صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، وزیراعلی پنجاب، وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ، گورنر سندھ عشرت العباد، مولانا فضل الرحمن، وفاقی وزراء اور بلاول ہاؤ س کے ترجمان اعجاز درانی کی جانب سے شیخ رشید پر قاتلانہ حملے اور جاں بحق ہونے والے ان کے ساتھیوں کے افسوسناک واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے شیخ رشید کی جلد صحتیابی اور دراز عمری کیلئے دعا کی۔ رہنماؤں نے واقعہ میں جاں بحق ہونے والو ں کی مغفرت کیلئے اور لواحقین کیلئے صبر وجمیل کیلئے دعا کی۔ جبکہ وزیراعلی پنجاب نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے فوری طور پر حکام سے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ واضح رہے کہ راولپنڈی کے حلقے این اے55کیلئے ضمنی انتخابات رواں ماہ 24تاریخ کو ہوں گے جس میں شیخ رشید بھی امیدوار ہیں۔

ماخذ
 

شمشاد

لائبریرین
یہ تو شیخ صاحب کے ساتھ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے۔

چلیں بہت سے لوگوں کو مذمت کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آ گیا۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،

کل جب یہ خبرٹی وی پردیکھی توبڑا افسوس ہواکہ ہمارےملک میں حالات اس حد تک خراب ہوچکےہیں۔اوردہشت گردوں کے حوصلےاتنےبلندہوگئےہیں کہ وہ اپنی من مرضی سےجس کوچاہیں اڑادے۔جہاں چ۔اہیں حملہ کردیں۔ اےپاکستانیوں کچھ ہوش کے ناخن لو۔ابھی بھی آپ نےاپنےآپ کونہ سنبھالاتویہ وقت آپ کومعاف نہیں کرےگا- میرےوطن کے جوانوں یہ وقت آپکاوقت ہےملک کواس مشکل وقت سےآپ نےاورہم نےملک کرنکالناہے۔ہم نےدہشت گردی کوختم کرناہے۔اس کےلیےہمیں اپنےآپ میں احساس ذمہ داری کواجاگرکرناہوگا۔ہمیں اپنےاردگردنگاہ رکھنی ہوگی اورکوئي بھی ایسی بات جوکہ تشویش ناک معلوم ہوتواس کی نگرانی کرنی ہوگی۔ اللہ تعالی میرےوطن کواس مشکل گھڑی سےجلدازجلدنکالے(آمین ثم آمین)

والسلام
جاویداقبال
 

آفت

محفلین
جو پردیس مشرف نے بویا تھا آج پوری قوم کو اس کی فصل کاٹنی پڑ رہی ہے ،شیخ رشید نے مشرف کا ساتھ دینے پر قوم سے معافی مانگ لی ہے لیکن جو دہشت گرد تیار ہو چکے ہیں انہیں اب راہ راست پر لانا شاید ممکن نہیں رہا ۔ پچھلے عام انتخابات میں پنڈی میں نواز شریف کے جلسے میں فائرنگ ہوئی تھی جس میں پانچ لوگ شہید ہوئے تھے لیکن اسی دن پنڈی میں بے نظیر پر ہونے والے حملے نے نواز شریف کے جلسے میں ہونے والی دہشت گردی کو پس پشت ڈال دیا تھا کیونکہ بے نظیر بھٹو اس حملے میں شہید ہو گئی تھیں ۔ حالیہ دنوں میں تو دہشت گردوں نے جی ایچ کیو اور مسجد تک میں حملہ کیا وہ تو ہمارے فوجی جوانوں نے جواں مردی سے مقابلہ کر کے دہشت گردوں کو مارا ورنہ بہت بڑا نقصان بھی ہو سکتا تھا ۔ پنڈی اور پشاور شاید دہشت گردی کی وارداتوں میں سرفہرست ہیں ۔
رہی بات شیخ رشید کے دعوے کی کہ نواز لیگ نے حملہ کروایا وہ ایک سیاسی بیان ہے ۔ کیونکہ شیخ رشید کو نواز لیگ واپس پارٹی میں لے نہیں رہی اور شیخ رشید کی سیاست نواز شریف کے بغیر چل نہیں سکتی سو دل کی بھڑاس تو نکالنی ہی ہے ۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،

کل جب یہ خبرٹی وی پردیکھی توبڑا افسوس ہواکہ ہمارےملک میں حالات اس حد تک خراب ہوچکےہیں۔اوردہشت گردوں کے حوصلےاتنےبلندہوگئےہیں کہ وہ اپنی من مرضی سےجس کوچاہیں اڑادے۔جہاں چ۔اہیں حملہ کردیں۔ اےپاکستانیوں کچھ ہوش کے ناخن لو۔ابھی بھی آپ نےاپنےآپ کونہ سنبھالاتویہ وقت آپ کومعاف نہیں کرےگا- میرےوطن کے جوانوں یہ وقت آپکاوقت ہےملک کواس مشکل وقت سےآپ نےاورہم نےملک کرنکالناہے۔ہم نےدہشت گردی کوختم کرناہے۔اس کےلیےہمیں اپنےآپ میں احساس ذمہ داری کواجاگرکرناہوگا۔ہمیں اپنےاردگردنگاہ رکھنی ہوگی اورکوئي بھی ایسی بات جوکہ تشویش ناک معلوم ہوتواس کی نگرانی کرنی ہوگی۔ اللہ تعالی میرےوطن کواس مشکل گھڑی سےجلدازجلدنکالے(آمین ثم آمین)

والسلام
جاویداقبال
 
حملہ اس کئے کرایا گیا تھا انتخابات کو ملتوی ہو جائیں ۔ اور یہ ن لیگ کی دلی خواہش ہے

تو کیا شیخ صاحب نے جو کہا وہ من و عن مان لینا چاہیے۔

حملہ اس لئے کرایا گیا تاکہ ضمنی انتخابات ملتوی ہو جائیں ۔ اور یہ ن لیگ کی دلی خواہش بھی ہے۔ اسی لئے شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ن لیگ ملوث ہے۔
 
یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ حرکت شیخ صاحب نے خود ہی فرمائی ہے victimism کا فائدہ اگر امریکہ نے اٹھایا تو بھارت نے اسکی پیروی میں ممبئی میں حملہ کروایا، بینظیر بھٹو کی شہادت کا فائدہ زرداری نے اٹھایا کہ صدر بن بیٹھا، اسی لائن پر چلتے ہوئے شیخ صاحب بھی تو فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ کیونکہ الیکشن میں اس طرح کی حرکت ایک بے وقوف پارٹی یا شخص ہی کرے گا کہ شیخ صاحب یا کسی دوسرے امیدوار کو ویکٹم ازم کا فائدہ اٹھانے کا موقع دے
 

arifkarim

معطل
اسی قسم کے "جان لیوا" حملے مشرف حضور پر بھی ہوئے ہیں.‌اور ہمیشہ بال بال بچ جانا اس بات کی ضمانت ہے کہ خود ہی کرواتے ہیں‌ مشہوری کیلئے۔
 

راشد احمد

محفلین
حملے میں ن لیگ ملوث ہے۔ بقول شیخ صاحب

بھارتی فلموں میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک نیتا اپنے اوپر قاتلانہ حملہ کراتا ہے اور لوگوں کی ہمدردی حاصل کرکے الیکشن جیت جاتا ہے۔

میرا نہیں‌خیال کہ ن لیگ ایسی بے وقوفی کا مظاہرہ کرسکتی ہے کہ ایسی حرکت کرکے شیخ‌صاحب کی ہمدردیوں میں‌اضافہ کردے۔ اگر ایسا کیا ہے تو اس نے اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے
 

arifkarim

معطل
یہ تو بالکل وہی ہوا کہ محترمہ کی ہلاکت کی ہمدردیاں اسمیٹنا والا آج ملک کا صدر ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کبھی مجھے حیرت ہوتی ہے لوگوں کے دماغوں میں موجود سیاسی سازشیں دیکھ کر۔
کوئی فرما رہا ہے شیخ رشید صاحب نے خود یہ حملے کروا دیے۔ اور ثبوت یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ "بھانڈ" ہیں۔ (اول تو محفل پر ایسی زبان استعمال ہی نہیں کرنی چاہیے، چاہے اس محفل میں شیخ رشید صاحب کے فین موجود ہوں یا نہ ہوں)
تو کوئی فرما رہا ہے کہ مشرف صاحب ذمہ دار ہیں ان حملوں کے۔ ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ یہ مذہبی جنونیت کے فتنے کا پودا ضیاء الحق نے لگایا تھا اور حمید گل جیسے جنریلوں نے اسے پروان چڑھایا ہے اور اسی لیے آج تک اپنے اس پودے کی حفاظت کرنا اپنا سب سے بڑا فرض سمجھتے ہیں۔ مشرف صاحب نے تو قوم کو اس ناسور سے نجات دلانے کی بہت کوشش کی مگر کیا کیا جائے کہ یہ ناسور اب لوگوں کے رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ یہ الزام غلط ہے کہ مشرف کی وجہ سے یہ جنونی فسادی پیدا ہوئے، اگر ایسا ہوتا تو وہ مشرف کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے، ایسا ہوتا تو وہ اے این پی کے ہزاروں کارکنوں کو ذبح نہ کرتے، ایسا ہوتا تو وہ ہزاروں بے گناہوں کو ذبح نہ کرتے۔
یہ لوگ یہ بات دیکھنے سے عاجز ہیں کہ مشرف صاحب سے قبل ہیں یہ جنونی فسادی افغانستان میں خاک و خون کا کھیل کھیلتے ہوئے قابض ہو چکے تھے اور انکا مقصد پورے خطے کو اپنے کنٹرول میں کرنا تھا۔ اور انکی اس سرشت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا تھا کہ یہ پاکستانی نظام کو بھی کافرانہ نظام سمجھتے تھے اور دیر سے نظر لگائے بیٹھے تھے کہ آہستہ آہستہ پاکستان پر بھی اپنے جابرانہ نظام کو نافذ کر دیں۔ اور نواز شریف، بینظیر اور ضیا وہ اندھے لوگ تھے جنہوں نے ان جنونیوں کو اپنے مقاصد نکالنے کے لیے پھلنے پھولنے کا موقع دیا کہ انکی غلط فہمی تھی کہ وہ پاکستان کا احسان مانیں گے اور پاکستان کے زیر اثر رہیں گے۔
بہرحال، ان مذہبی جنونیوں کے سائلینٹ حامی بھی ان سے کچھ کم اندھے نہیں ہیں۔ مگر عام عوام کو طالبانی ذہنیت سے ہرگز ہرگز دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ مشرف صاحب کیا، اگر خود ضیا اور نواز شریف بھی حکومت میں ہوتے، تب بھی طالبانی دہشتگردوں نے اس پاکستانی نظام کو ختم کر کے اپنا ظالمانہ نظام نافذ کرنا تھا۔ چاہے یہ چیز آج ہوتی یا پھر کل ہوتی، مگر طالبان کو سمجھنے میں کبھی غلطی نہ کیجئے گا۔

آج عمران خان اچھل اچھل کر بولتا ہے کہ الطاف حسین واپس کیوں نہیں آ جاتا۔ مگر عمران خان کے ہوش ٹھکانے پر نہیں آئے جب اسکی اپنی حلیف جماعت نے پنجاب یونیورسٹی میں اسکی جوتوں لاتوں سے تواضع کی۔ اور پھر بے نظیر بھٹو ہزار سیکورٹی کے باوجود شہید کر دی گئی۔ اور اب شیخ رشید کے گھر پر فائرنگ ہوتی ہے۔ یقینی طور پر خان صاحب خود تو بہت محفوظ ہیں کیونکہ وہ اس وقت طالبانی جنونیوں کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں، مگر جس دن ان سے بھی یہ جنونی بگڑ گئے، اُس دن خان صاحب بھی کلاشنکوفوں کی سنگت میں نکلا کریں گے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
آج عمران خان اچھل اچھل کر بولتا ہے کہ الطاف حسین واپس کیوں نہیں آ جاتا۔ مگر عمران خان کے ہوش ٹھکانے پر نہیں آئے جب اسکی اپنی حلیف جماعت نے پنجاب یونیورسٹی میں اسکی جوتوں لاتوں سے تواضع کی۔ اور پھر بے نظیر بھٹو ہزار سیکورٹی کے باوجود شہید کر دی گئی۔ اور اب شیخ رشید کے گھر پر فائرنگ ہوتی ہے۔ یقینی طور پر خان صاحب خود تو بہت محفوظ ہیں کیونکہ وہ اس وقت طالبانی جنونیوں کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں، مگر جس دن ان سے بھی یہ جنونی بگڑ گئے، اُس دن خان صاحب بھی کلاشنکوفوں کی سنگت میں نکلا کریں گے۔

عمران خان کراچی اپنے سنٹر کا افتتاح کرنے کلاشنکوفوں کی سنگت میں ہی آئے تھے۔
 

راشد احمد

محفلین
آج عمران خان اچھل اچھل کر بولتا ہے کہ الطاف حسین واپس کیوں نہیں آ جاتا۔
اس سوال کا جواب تو پوری قوم پچھلی دو دہائیوں سے تلاش کررہی ہے۔

مگر عمران خان کے ہوش ٹھکانے پر نہیں آئے جب اسکی اپنی حلیف جماعت نے پنجاب یونیورسٹی میں اسکی جوتوں لاتوں سے تواضع کی۔
یہی وجہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کی بادشاہت جمعیت کے ہاتھوں سے نکل کر آئی ایس ایف کے ہاتھوں آرہی ہے
اور پھر بے نظیر بھٹو ہزار سیکورٹی کے باوجود شہید کر دی گئی۔ اور اب شیخ رشید کے گھر پر فائرنگ ہوتی ہے۔ یقینی طور پر خان صاحب خود تو بہت محفوظ ہیں کیونکہ وہ اس وقت طالبانی جنونیوں کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں، مگر جس دن ان سے بھی یہ جنونی بگڑ گئے، اُس دن خان صاحب بھی کلاشنکوفوں کی سنگت میں نکلا کریں گے۔
وہ بہادر آدمی ہے اسے الطاف بھائی کی طرح موت کا خوف نہیں‌کہ لندن جاکر چھپ جائے۔ ویسے خوشی ہوتی ہے جب ایم کیو ایم اور اس کے حامی عمران خان کے خلاف زہر آلود باتیں کرتے ہیں۔
 

گرائیں

محفلین
کبھی مجھے حیرت ہوتی ہے لوگوں کے دماغوں میں موجود سیاسی سازشیں دیکھ کر۔
کوئی فرما رہا ہے شیخ رشید صاحب نے خود یہ حملے کروا دیے۔ اور ثبوت یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ "بھانڈ" ہیں۔ (اول تو محفل پر ایسی زبان استعمال ہی نہیں کرنی چاہیے، چاہے اس محفل میں شیخ رشید صاحب کے فین موجود ہوں یا نہ ہوں)
تو کوئی فرما رہا ہے کہ مشرف صاحب ذمہ دار ہیں ان حملوں کے۔ ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ یہ مذہبی جنونیت کے فتنے کا پودا ضیاء الحق نے لگایا تھا اور حمید گل جیسے جنریلوں نے اسے پروان چڑھایا ہے اور اسی لیے آج تک اپنے اس پودے کی حفاظت کرنا اپنا سب سے بڑا فرض سمجھتے ہیں۔ مشرف صاحب نے تو قوم کو اس ناسور سے نجات دلانے کی بہت کوشش کی مگر کیا کیا جائے کہ یہ ناسور اب لوگوں کے رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ یہ الزام غلط ہے کہ مشرف کی وجہ سے یہ جنونی فسادی پیدا ہوئے، اگر ایسا ہوتا تو وہ مشرف کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے، ایسا ہوتا تو وہ اے این پی کے ہزاروں کارکنوں کو ذبح نہ کرتے، ایسا ہوتا تو وہ ہزاروں بے گناہوں کو ذبح نہ کرتے۔
یہ لوگ یہ بات دیکھنے سے عاجز ہیں کہ مشرف صاحب سے قبل ہیں یہ جنونی فسادی افغانستان میں خاک و خون کا کھیل کھیلتے ہوئے قابض ہو چکے تھے اور انکا مقصد پورے خطے کو اپنے کنٹرول میں کرنا تھا۔ اور انکی اس سرشت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا تھا کہ یہ پاکستانی نظام کو بھی کافرانہ نظام سمجھتے تھے اور دیر سے نظر لگائے بیٹھے تھے کہ آہستہ آہستہ پاکستان پر بھی اپنے جابرانہ نظام کو نافذ کر دیں۔ اور نواز شریف، بینظیر اور ضیا وہ اندھے لوگ تھے جنہوں نے ان جنونیوں کو اپنے مقاصد نکالنے کے لیے پھلنے پھولنے کا موقع دیا کہ انکی غلط فہمی تھی کہ وہ پاکستان کا احسان مانیں گے اور پاکستان کے زیر اثر رہیں گے۔
بہرحال، ان مذہبی جنونیوں کے سائلینٹ حامی بھی ان سے کچھ کم اندھے نہیں ہیں۔ مگر عام عوام کو طالبانی ذہنیت سے ہرگز ہرگز دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ مشرف صاحب کیا، اگر خود ضیا اور نواز شریف بھی حکومت میں ہوتے، تب بھی طالبانی دہشتگردوں نے اس پاکستانی نظام کو ختم کر کے اپنا ظالمانہ نظام نافذ کرنا تھا۔ چاہے یہ چیز آج ہوتی یا پھر کل ہوتی، مگر طالبان کو سمجھنے میں کبھی غلطی نہ کیجئے گا۔

آج عمران خان اچھل اچھل کر بولتا ہے کہ الطاف حسین واپس کیوں نہیں آ جاتا۔ مگر عمران خان کے ہوش ٹھکانے پر نہیں آئے جب اسکی اپنی حلیف جماعت نے پنجاب یونیورسٹی میں اسکی جوتوں لاتوں سے تواضع کی۔ اور پھر بے نظیر بھٹو ہزار سیکورٹی کے باوجود شہید کر دی گئی۔ اور اب شیخ رشید کے گھر پر فائرنگ ہوتی ہے۔ یقینی طور پر خان صاحب خود تو بہت محفوظ ہیں کیونکہ وہ اس وقت طالبانی جنونیوں کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں، مگر جس دن ان سے بھی یہ جنونی بگڑ گئے، اُس دن خان صاحب بھی کلاشنکوفوں کی سنگت میں نکلا کریں گے۔

محترمہ کو کوئی لگام دینے والا نہیں ہے؟ باقی اراکین کے لئے تو انتباہی یا انضباطی وقاعد جلد نافذ کر دئے جاتے ہیں ان کو نظر انداز کیوں کیا جا رہا ہے؟

ذرا آخری پیرا گراف کو ملاحظہ کیجئے۔

ظفری، ابن سعید، محمد وارث اور دوسرے منتظمین نے آخر ایسی زبان کو شائع کیوں ہونے دیا؟ کیا محترمہ یہی باتیں مہذب انداز سے نہیں کہہ سکتی تھیں؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
محترمہ کو کوئی لگام دینے والا نہیں ہے؟ باقی اراکین کے لئے تو انتباہی یا انضباطی وقاعد جلد نافذ کر دئے جاتے ہیں ان کو نظر انداز کیوں کیا جا رہا ہے؟

ذرا آخری پیرا گراف کو ملاحظہ کیجئے۔

ظفری، ابن سعید، محمد وارث اور دوسرے منتظمین نے آخر ایسی زبان کو شائع کیوں ہونے دیا؟ کیا محترمہ یہی باتیں مہذب انداز سے نہیں کہہ سکتی تھیں؟

محترمہ کو یہ باتیں ضرور مہذب انداز میں کرنی چاہییں اور آپ کو بھی بار بار بدگمانی پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ فورم کے قواعد سب کے لیے ایک جیسے ہیں اور کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جا رہا ہے۔
 
محترمہ کو کوئی لگام دینے والا نہیں ہے؟ باقی اراکین کے لئے تو انتباہی یا انضباطی وقاعد جلد نافذ کر دئے جاتے ہیں ان کو نظر انداز کیوں کیا جا رہا ہے؟

یارو یہ دور ضعف ِ بصارت کا دور ہے
آندھی اُٹھے تو اُس کو گھٹا کہہ لیا کرو
 

گرائیں

محفلین
نبیل ::

میں نے کوئی بد گمانی پھیلانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ جو میں‌نے محسوس کیا، امن پسند محفلین کی حیثیت سے رپورٹ کر دیا۔ حال آنکہ اگر میں‌ابن سعید کے مشورے کے مطابق اگر مھترمہ کو ذآتی پیغام میں‌یہ کہتا تو وہ شائد اس کا کچھ اور مطلب لے لیتیں۔

واضح رہے ابن سعید کے جس مشورے کی میں نے بات کی ہے وہ ضروری اعلانات کے زمرے میں‌ظفری کے دھاگے میں غالبا ایس ایچ نقوی صاحب کو مخاطب کر کے دیا گیا تھا۔ باقی آپ لوگ سیاہ و سفید کے مالک ہیں جو چاہے کریں۔
 

ظفری

لائبریرین
گرائیں جی ۔۔۔۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے ضروری اعلانات کے زمرے میں شائع ہونی والی میری پوسٹ کو اپنے دل پر لے لیا ہے ۔ میں نے وہاں چند اصولی باتوں کی نشان دہی کرکے ان کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے ۔ اس کے لیئے مجھے پوری ایک تمہید بھی باندھنی پڑھی ۔ کیونکہ مجھے یقین تھا یار دوستوں کو یہ بات آسانی سے سمجھ نہیں آنے والی ( اور چند دوست تو اب بھی نہیں سمجھے ) ۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ اردو محفل پر ہر پوسٹ آسمانی صحیفہ بن جائے ۔ جس میں غلطی کا تصور تک بھی نہ موجود ہو ۔ میری پوسٹ میں سب سے اصولی بات یہ تھی کہ اخلاقی پہلو نظر انداز نہ ہو ۔ گفتگو شائستہ او رمہذب انداز میں ہو ۔ اب اسی دائرے میں کوئی نکتہِ اعتراض پیش کیا جائے گا تو بہت سے لوگ اختلاف رکھنے کے باوجود جواب دیتے ہوئے محتاط رہیں گے ۔ یہ الگ بات ہے کہ جہل سے الجھنا خود ایک جہل ہے ۔ لہذا اس سلسلے کے تمام رویئے حذف کردیئے جائیں گے ۔ اور ہوسکتا ہے کہ انتہائی قدم اٹھا کر بین بھی لگا دیا جائے ۔
مہوش علی کے جملے " عمران خان کے اچھل اچھل کر بات کرتا ہے ۔" پر آپ نے اعتراض اٹھایا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمران خاں صاحب آپ کی پسندیدہ شخصیت ہیں ۔ اور کوئی بھی اچھل اچھل کر بات کرے تو اس میں اخلاقی پہلو کا کونسا منفی پہلو نکلتا ہے ۔ اکثر و بیشتر سیاسی رہنما اسی انداز میں فضا میں ہاتھ لہرا لہرا کر اسی طرح تقریریں فرماتے ہیں ۔ ( کرد علی خاں کے انداز کے بارے میں کیا خیال ہے ) ۔ کئی دفعہ آپ نے بھی یہ احتیاط پیشِ نظر نہیں‌ رکھی ۔ آپ کی بھی بیشتر پوسٹ میں ایسے رکیک جملے مل جائیں گے جس میں آپ نے شخصیتوں کو بری طرح رگیدا ہے ۔ لہذا جس جملے سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہے ۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ بھی اپنی پوسٹوں میں محتاط رہیں ۔ شاید پھر آپ یہ کہہ سکیں کہ دیکھیں ۔۔۔۔ یہ غیر مناسب رویہ ہے اس کی مذمت ہونی چاہیئے ۔
مجھے امید ہے آپ میری بات کا لب لباب سمجھ گئے ہونگے ۔
 
Top