جاسم محمد
محفلین
اس کی اصل پارٹی فیلڈ مارشل والی ہی تو ہے۔ اپوزیشن سے نبٹنے کیلئے ہدایات پنڈی والوں سے لے گا۔ اسی لئے تو کپتان پر سکون ہےرشِید کو فیلڈ مارشل بنا دینا چاہِیے۔
اس کی اصل پارٹی فیلڈ مارشل والی ہی تو ہے۔ اپوزیشن سے نبٹنے کیلئے ہدایات پنڈی والوں سے لے گا۔ اسی لئے تو کپتان پر سکون ہےرشِید کو فیلڈ مارشل بنا دینا چاہِیے۔
فوجی بینڈ بجے گا۔ سیاسی بارات وَقت پر پہنچے گی۔ رشِید سواگت کرے گا۔ پھر کہتے ہیں سیاست بورِنگ ہے۔اس کی پارٹی فیلڈ مارشل والی ہی تو ہے۔ اپوزیشن سے نبٹنے کیلئے ہدایات پنڈی والوں سے ہی لے گا۔ اسی لئے تو کپتان پر سکون ہے
یہ سیاسی بارات لے کر جی ایچ کیو گیٹ نمبر ۴ پر پہنچیں گے؟فوجی بینڈ بجے گا۔ سیاسی بارات وَقت پر پہنچے گی۔ رشِید سواگت کرے گا۔ پھر کہتے ہیں سیاست بورِنگ ہے۔
ہِمت نہیں اِن میں۔یہ سیاسی بارات لے کر جی ایچ کیو گیٹ نمبر ۴ پر پہنچیں گے
اس دفعہ شیخ جی فیل ہو جائیں گے۔
ہر شام ٹی وی پر مزاحیہ شو کرتے چلے آرہے ہیں. کچھ دن خاموش رہے. اب اللہ خیر کرے...
اب مزہ آ رہا ہے؟اب تو روزانہ کی بنیاد پر ان کے بیان سننے والے ہوں گے۔
لیکن زیادہ دیر یہ وزیر داخلہ رہے گا نہیں۔
پہلا فیلڈ مارشل بھی "رشید" ہی تھا۔رشِید کو فیلڈ مارشل بنا دینا چاہِیے۔
اب کوئی ان کو یہ نہ بتائے کہ صفر بٹا صفر، undefined نمبر ہوتا ہے، یعنی کچھ بھی نتیجہ نکل سکتا ہے۔کپتان عمران خان کا یہی تو کمال ہے کہ اس کو پتا ہے کونسا کھلاڑی کہاں کس وقت کھلانا ہے۔ اپوزیشن کی چیخیں ایسے ہی تو نہیں نکال رہا۔ بندہ ایماندار، تابعدار اور پھر اوپر سے ہوشیار بھی ہے
بندہ بہت ہوشیار ہے
اپوزیشن جتنا مرضی زور لگا لے نتیجہ صفر بٹا صفر ہی نکلے گا، شیخ رشید
ویب ڈیسک ہفتہ 12 دسمبر 2020
لوگوں کو وائرس کا بھی پتہ ہے اور نیکٹا کے ہائی الرٹ کا بھی، شیخ رشید فوٹو: فائل
راولپنڈی: وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ اپوزیشن جتنا مرضی زور لگا لے نتیجہ صفر بٹا صفر ہی نکلے گا۔
اپنی ٹوئٹ میں وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جتنا مرضی زور لگا لے نتیجہ صفر بٹا صفر ہی نکلے گا- آر پار کی بجائے سیاسی کشتی منجدھار میں ڈوبے گی- لیڈر کال دیتا ہے گلی محلے میں دو مہینوں سے دعوت نامے نہیں بانٹتا پھرتا۔
شیخ رشید نے مزید کہا کہ لوگوں کو خطرناک وائرس کا بھی پتہ ہے اور نیکٹا کے ہائی الرٹ کا بھی، اس کے باوجود اپوزیشن کی ضد کی سیاست بند گلی کی جانب جا رہی ہے جس کا نتیجہ کل مایوسی اور نا کامی کی صورت میں نکلے گا۔ بالآخر انشاءاللہ عمران خان ہی سرخرو ہوں گے۔
لو یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے؟ وجہ وہی ہے جو شہباز شریف جیسے ڈرامہ باز کو اتنی بار پنجاب کی وزارت اعلی ملی ہے۔ بقول شیخ رشید: میں اور شہباز ایک ہی پارٹی کے ہیںویسے یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اس ایک سیٹ والے مسخرے کو بار بار کیوں وزارت دی جاتی ہے۔
اس کی اصل پارٹی فیلڈ مارشل والی ہی تو ہے۔ اپوزیشن سے نبٹنے کیلئے ہدایات پنڈی والوں سے لے گا۔ اسی لئے تو کپتان پر سکون ہے
بندہ بہت ہوشیار ہےکپتان نے چَال اچھی چلی ہے کہ فوج کا مسخرہ ترجمان اپوزیشن کے سر پر مُسلط کر دِیا ہے۔
یِہ کیا مُقابلہ کریں گے؟ مینارِ پاکستان آدھا بھر لیں تو شاید بھرم رہ جائے۔ پیزوی باجوہ اور دیگر بھاگ گئے، جو بچ گئے، اُن کی پروٹیکشن کے لیے شیخو میزائل داغ دیا گیا ہے۔بندہ بہت ہوشیار ہے
ہمارا مقابلہ عمران خان کو لانے والوں سے ہے کون کہتا تھا؟ پھر ہو جائے نا مقابلہ؟
حوصلہ پیدا کریں۔ آج ملک فوجی تسلط سے آزاد ہو کر ان جمہوری انقلابی خاندانوں کے تسلط میں جا رہا ہےیِہ کیا مُقابلہ کریں گے؟ مینارِ پاکستان آدھا بھر لیں تو شاید بھرم رہ جائے۔ پیزوی باجوہ اور دیگر بھاگ گئے، جو بچ گئے، اُن کی پروٹیکشن کے لیے شیخو میزائل داغ دیا گیا ہے۔
یہ تو کپتان کی نا اہلی ہے کہ یہاں تک بھی یِہ دوبارہ اُبھرے۔ اپنی ٹیم بھی کپتان کی ایسی ہی ہے۔ اِس لیے مُقابلہ برابر کا ہے۔حوصلہ پیدا کریں۔ آج ملک فوجی تسلط سے آزاد ہو کر ان جمہوری انقلابی خاندانوں کے تسلط میں جا رہا ہے
نواز شریف کے دور میں مہنگائی کم تھی، ڈالر سستا تھا، بیروزگاری کا بھی کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا، دھڑا دھڑ بجلی و گیس کے منصوبے لگ رہے، سڑکیں، پل، میٹرو بن رہے تھے۔ اس کے باوجود کپتان کی ایک کال پر عوام حکومت کے خلاف مینار پاکستان لاہور، جناح گراؤنڈ کراچی، فیصل آباد، ملتان وغیرہ بھر دیتی تھی۔یہ تو کپتان کی نا اہلی ہے کہ یہاں تک بھی یِہ دوبارہ اُبھرے۔ اپنی ٹیم بھی کپتان کی ایسی ہی ہے۔ اِس لیے مُقابلہ برابر کا ہے۔
مِیاں کو پاناما نے نہیں بھیجا، 2011 میں کپتان کا جلسہ اور 2014 میں کپتان کا دھرنا قبل از پاناما تھا۔ اب یِہ فوجیوں کے سامنے نمبر بڑھائیں گے کہ خان تو غیر مقبُول ہو گیا، اِس لیے ہمارے سر پر دستِ شفقت رکھو، نہیں تو خُود بھی صلواتیں سُننے کے لیے تیار رہو یعنی مرنے مارنے پر تُل گئے ہیں جو کُچھ عجیب بات ہے یا پھر 'باہر' کے کسی 'اہم' مُلک یا ممالک کی انہیں سپورٹ حاصل ہے، اس لیے مُمکن ہے کہ 'اسٹیبلشمنٹ' کی غیبی مدد انہیں مِل چکی ہو ورنہ اتنا اعتماد کیسے مِل گیا ان کو۔ مُجھے باجوہ سینئر کا استعفیٰ دکھائی دیتا ہے، اب نہیں، مگر آنے والے وقت میں۔نواز شریف کے دور میں مہنگائی کم تھی، ڈالر سستا تھا، بیروزگاری کا بھی کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا، دھڑا دھڑ بجلی و گیس کے منصوبے لگ رہے، سڑکیں، پل، میٹرو بن رہے تھے۔ اس کے باوجود کپتان کی ایک کال پر عوام حکومت کے خلاف مینار پاکستان لاہور، جناح گراؤنڈ کراچی، فیصل آباد، ملتان وغیرہ بھر دیتی تھی۔
آپ کو کتنی بار یہ سمجھانا پڑے گا کہ پاکستانی عوام جمہوریت کیلئے نہیں بنی۔ خان صاحب تو یہاں تک کہہ دیا کرتے تھے کہ جب ڈالر مہنگا ہو تو سمجھ لینا وزیر اعظم چور ہے۔ اس پر بھی بھولی بھالی عوام آنکھیں اور کان بند کر کے یقین کر لیتی تھی۔
وہ تو اللہ بھلا کرے پاناما لیکس والوں کا کہ عین نواز شریف کے دور حکومت میں شریف خاندان کا نام آگیا اور ان کو اپنی کرپشن کا حساب دینا پڑ گیا۔ وگرنہ آج آپ ملک دیوالیہ کروا کر بھی میاں صاحب کے ہی گن گا رہے ہوتے۔
یہ سب نون لیگیوں کی رنگ بازی ہے۔ میں اس بارہ میں یہاں تفصیل سے لکھ چکا ہوں:اب یِہ فوجیوں کے سامنے نمبر بڑھائیں گے کہ خان تو غیر مقبُول ہو گیا، اِس لیے ہمارے سر پر دستِ شفقت رکھو، نہیں تو خُود بھی صلواتیں سُننے کے لیے تیار رہو
خواجہ رنگ باز آصف بھرے جلسے میں سب کے سامنے فوج سے جمہوری انقلاب کی بھیک مانگتے ہوئے
تو یہ تھا اپوزیشن کا گرینڈ جمہوری انقلابی پلان۔ پہلے عمران خان کا نام فوج سے جوڑو۔ پھر فوج کو بدنام کرو۔ پھر فوج کو کہو کہ اب چونکہ تمہاری عمران خان کی وجہ سے بدنامی ہو رہی ہے اس لئے اسے چھوڑ کر ہمارے کیمپ میں آجاؤ
اتنی دماغی طاقت سازشیں پلان کرنے کی بجائے ملک کے مسائل حل کرنے میں لگائی ہوتی تو آج پاکستان سوپر پاور ہوتا
عمران خان ۲۰۱۵ میں اپنا دھرنا ختم کر کے واپس اسمبلی میں آگیا تھا۔ تب سے پارٹی کی مقبولیت کا گراف ن لیگ سے نیچے ہی تھا۔ اس بارہ میں سابق وزیر داخلہ اعجاز شاہ بھی فرما چکے ہیں کہ اگر نواز شریف کے ارد کچھ لوگ نہ ہوتے تو وہ آج بھی وزیر اعظم ہوتےمِیاں کو پاناما نے نہیں بھیجا، 2011 میں کپتان کا جلسہ اور 2014 میں کپتان کا دھرنا قبل از پاناما تھا۔
خان کی مقبُولیت سب سے زیادہ 2013 میں تھی، اب مُشکل سمجھو، اتنی بڑی گیم اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کرنا بیرونی سپورٹ کے بغیر مُمکن نہیں۔ دھڑن تختہ کی پوزِیشن اکیلے کسی کے پاس نہیں۔عمران خان ۲۰۱۵ میں اپنا دھرنا ختم کر کے واپس اسمبلی میں آگیا تھا۔ تب سے پارٹی کی مقبولیت کا گراف ن لیگ سے نیچے ہی تھا۔ اس بارہ میں سابق وزیر داخلہ اعجاز شاہ بھی فرما چکے ہیں کہ اگر نواز شریف کے ارد کچھ لوگ نہ ہوتے تو وہ آج بھی وزیر اعظم ہوتے
یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کی سلیکشن فوج کو بہت مشکل حالات میں کرنی پڑی ہے۔ اور کافی کچھ انجینئر کر کے ان کی اقتدار تک رسائی ممکن ہوئی ہے۔ اب اتنی پیچیدہ سیاسی انجینرنگ کو ریورس کرنا اتنا آسان کام نہیں۔ اور اگر خان صاحب کو اس کی بھنک بھی پڑ گئی کہ مقتدرہ اپوزیشن کے کیمپ میں پہنچ گئی ہے تو وہ ان کی چال سے قبل ہی سب کا دھڑن تختہ کر دیں گے