جہانزیب
محفلین
گو کہ انتخابات میں، میں ووٹ ڈالنے کا اہل نہیں ہوں لیکن بھرپور طور پر پاکستان مسلم لیگ کی حمایت کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ انتخابات کے نتائج پاکستان مسلم لیگ کے حق میں آئیں ۔ مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر میں پاکستان مسلم لیگ کی حمایت کرتا ہوں ۔
بہترین ٹیم ۔
پاکستان مسلم لیگ کے پاس اس وقت سب سے بہترین اور آزمائی ہوئی ٹیم ہے جو پاکستان کو ان بدترین حالات سے باہر نکالنے کی اہل ہے، پاکستان مسلم لیگ کو ووٹ دینا اس ٹیم کو ووٹ دینا ہے نہ کہ کسی ایک شخصیت کو ووٹ دینا ۔
لیڈرشپ ۔
پاکستان مسلم لیگ کے پاس بلاشبہ ایسی لیڈر شپ موجود ہے جو داخلی اور خارجہ امور میں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔ ذیل کے واقعات مثال کے طور پر موجود ہیں ۔
1999 میں پاکستانی فوج ایک ایک جرنیل کی نادور اندیشی کی وجہ سے کارگل جیسی مہم میں بری طرح پھنس چکی تھی، فوج نے آغاز میں یہ تاثر دیا کہ پاکستان فوج اس مہم جوئی کا حصہ نہیں ہے اور اس بات کا زور و شور سے دنیا میں پرچار کیا کہ مہم جو کشمیری ہیں جو اپنا حق خود ارادیت لینے کے لئے ہندوستانی فوج سے برسر پیکار ہیں ۔ بعد میں جب ہندوستانی فوج نے پیش قدمی کی اور ہمارے فوجی جوانوں کو واپسی کا کوئی محفوظ راستہ نہیں مل رہا تھا اور پاکستان فضائیہ پاکستان فوج کے پہلے موقف کی وجہ سے کاروائی کرنے سے گریزاں تھی جو ہندوستان اور پاکستان میں کھلی جنگ پر ختم ہوتا ۔ میاں محمد نواز شریف نے ایسے حالات میں ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ممکنہ فوجی شکست کو سیاسی طور پر حل کیا اور پھنسے جوانوں کو محفوظ راستہ سیاسی طور پر مہیا کروایا۔ ایک جرنیل کی نا دور اندیشی کا الزام اپنے سر لے کر افواج پاکستان کے مورال کو گرنے سے بچایا ۔ کارگل میں افواج پاکستان کی شہادتیں 1965 کی جنگ سے زیادہ تھیں ۔
خارجہ امور میں امریکہ سے تعلقات پاکستان کے لئے اہم ہیں لیکن اپنی خود مختاری اور اصول پر قائم رہنا اس سے بھی زیادہ اہم ہے ۔ امریکہ کی غلامی سے نجات آج کل ویسے بھی ایک مقبول نعرہ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کی لیڈرشپ نے اس زمرہ میں بھی اپنی خودمختاری اور اصولوں پر کسی قسم کا سودا نہیں کیا ۔
1998 میں نیروبی میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ ہوا، اور 250 ہلاکتیں ہوئیں ۔ اسامہ بن لادن افغانستان میں موجود تھا اور امریکہ افغانستان پر فوجیں اتارنے کے لئے تیار تھا اور سمندر سے افغانستان پر بیس مزائل بھی داغ چکا تھا جس سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوئی تھی ۔ میاں نواز شریف کے پرزوراحتجاج نے امریکہ کو مزید مہم جوئی سے باز رکھا اور امریکہ کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑا ۔
1998 میں ہی جب ہندوستان جوہری دھماکے کر چکا تھا تو پاکستان مسلم لیگ کی قیادت نے جس احسن طریقہ سے اس کو حل کیا اسکی دنیا میں مثال نہیں ملتی ۔ پاکستان مسلم لیگ کی قیادت نے جلدبازی کی بجائے دنیا اور اقوام متحدہ کو ہندوستانی دھماکوں پر ردعمل کے لئے مناسب وقت دیا اور جب محسوس کیا کہ کہیں سے کوئی شنوائی نہیں ہو رہی اور ہندوستان پر کسی قسم کی پابندیوں کا امکان نہیں تو تمام خدشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے جوہری دھماکے کئے اور پاکستان کی سفارتی کوششوں سے پاکستان، آج شمالی کوریا کی طرح عالمی طور پر تنہا نہیں تھا ۔
معاشی حالات ۔
جو لوگ پاکستان مسلم لیگ کی قیادت پر اعتراض کرتے ہیں ان کا سب بڑا اعتراض ملک کو بدحالی کے دھانے پر لے جانے کا ہے، لیکن جب ہم حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ اس بات کی چغلی کھاتے ہیں ۔
پاکستان مسلم لیگ پہلی بار 1990 کے اخیر میں حکومت میں آئی ۔ 1990 میں ملک کا جی ڈی پی 42ء5 تھا جبکہ ایک سال کے قلیل عرصہ میں اگلے ہی سال 1991 میں جی ڈی پی 57ء7 کی حد پر پہنچ گیا ۔ ترقی کی رفتار میں دھچکہ اس وقت لگا جب حکومت کو اڑھائی سال بعد صدارتی فرمان کے تحت چلتا کر دیا گیا ۔
اپنے دوسرے دور میں پاکستان مسلم لیگ کی ٹیم میں شامل اراکین نے صرف دو سال کی قلیل مدت میں بدترین جی ڈی پی 70ء1 کو 18ء4 تک پہنچا دیا۔ یاد دہانی کے لئے کہ اس دور میں پاکستان جوہری دھماکوں کے باعث اقتصادی پابندیوں کا بھی شکار تھا ۔
اپنے پہلے دور اقتدار میں دوسال کے قلیل عرصہ میں شرح غربت 4ء37 فی صد سے کم کر کے 7ء25 تک لانے میں کامیاب رہی۔ پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں یہ شرح بڑھ کر دوبارہ 6ء28 فی صد تک چلی گئی اور اپنے دوسرے دور میں پاکستان مسلم لیگ اسے واپس 24 فی صد کی سطح تک لانے میں کامیاب رہی ۔ گوکہ 1999 میں یہ شرح بڑھ کر 32 فی صد تک جا پہنچی تھی لیکن اس دور میں پاکستان جوہری دھماکوں کے باعث بدترین اقتصادی پابندیوں کا شکار تھا ۔ لیکن اس دور میں بھی پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کساد بازاری کی شرح کو 4 فی صد تک رکھنے پر کامیاب رہی جو کہ 1990 کی دھائی میں سب سے کم ہے -
موٹروے جو آج کے پاکستان کی معاشیات میں ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھتی ہے اور کوئی شخص آج اس سے انکار نہیں کرتا، یہ بھی پہلے دور حکومت میں آٹھ رویہ سڑک منظور کی گئی تھی جسے پیپلزپارٹی نے یہ کہہ کر چار رویہ کر دیا کہ اس منصوبہ کی قوم کو ضرورت نہیں۔ پھر بھی اگلے دور میں پاکستان مسلم لیگ نے دوبارہ مذاکرات کر کے اسے چھ رویہ سڑک پر منظور کروا لیا ۔
اگر یہ ٹیم ان دو ادوار میں برائے نام حکومت ہوتے ہوئے بھی ایسے نتائج دینے کے قابل تھی تو انشاللہ مستقبل میں بھی روشن پاکستان کی ضمانت پاکستان مسلم لیگ کی قیادت اور ٹیم ہی ہے ۔ دوسرے ابھی جو وعدے کر رہے ہیں پاکستان مسلم لیگ برائے نام حکومت میں بھی وہ سب کر کے دکھا چکی ہے ۔
1999 کے بعد کی پاکستان مسلم لیگ کی سیاست ملک کے لئے کس طرح بہتر ثابت ہوئی انشااللہ اس پر بعد میں تحریر کروں گا ۔ سوچ سمجھ کر ووٹ دیں نعرے سن کر ووٹ مت دیں ۔
بہترین ٹیم ۔
پاکستان مسلم لیگ کے پاس اس وقت سب سے بہترین اور آزمائی ہوئی ٹیم ہے جو پاکستان کو ان بدترین حالات سے باہر نکالنے کی اہل ہے، پاکستان مسلم لیگ کو ووٹ دینا اس ٹیم کو ووٹ دینا ہے نہ کہ کسی ایک شخصیت کو ووٹ دینا ۔
لیڈرشپ ۔
پاکستان مسلم لیگ کے پاس بلاشبہ ایسی لیڈر شپ موجود ہے جو داخلی اور خارجہ امور میں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔ ذیل کے واقعات مثال کے طور پر موجود ہیں ۔
1999 میں پاکستانی فوج ایک ایک جرنیل کی نادور اندیشی کی وجہ سے کارگل جیسی مہم میں بری طرح پھنس چکی تھی، فوج نے آغاز میں یہ تاثر دیا کہ پاکستان فوج اس مہم جوئی کا حصہ نہیں ہے اور اس بات کا زور و شور سے دنیا میں پرچار کیا کہ مہم جو کشمیری ہیں جو اپنا حق خود ارادیت لینے کے لئے ہندوستانی فوج سے برسر پیکار ہیں ۔ بعد میں جب ہندوستانی فوج نے پیش قدمی کی اور ہمارے فوجی جوانوں کو واپسی کا کوئی محفوظ راستہ نہیں مل رہا تھا اور پاکستان فضائیہ پاکستان فوج کے پہلے موقف کی وجہ سے کاروائی کرنے سے گریزاں تھی جو ہندوستان اور پاکستان میں کھلی جنگ پر ختم ہوتا ۔ میاں محمد نواز شریف نے ایسے حالات میں ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ممکنہ فوجی شکست کو سیاسی طور پر حل کیا اور پھنسے جوانوں کو محفوظ راستہ سیاسی طور پر مہیا کروایا۔ ایک جرنیل کی نا دور اندیشی کا الزام اپنے سر لے کر افواج پاکستان کے مورال کو گرنے سے بچایا ۔ کارگل میں افواج پاکستان کی شہادتیں 1965 کی جنگ سے زیادہ تھیں ۔
خارجہ امور میں امریکہ سے تعلقات پاکستان کے لئے اہم ہیں لیکن اپنی خود مختاری اور اصول پر قائم رہنا اس سے بھی زیادہ اہم ہے ۔ امریکہ کی غلامی سے نجات آج کل ویسے بھی ایک مقبول نعرہ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کی لیڈرشپ نے اس زمرہ میں بھی اپنی خودمختاری اور اصولوں پر کسی قسم کا سودا نہیں کیا ۔
1998 میں نیروبی میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ ہوا، اور 250 ہلاکتیں ہوئیں ۔ اسامہ بن لادن افغانستان میں موجود تھا اور امریکہ افغانستان پر فوجیں اتارنے کے لئے تیار تھا اور سمندر سے افغانستان پر بیس مزائل بھی داغ چکا تھا جس سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوئی تھی ۔ میاں نواز شریف کے پرزوراحتجاج نے امریکہ کو مزید مہم جوئی سے باز رکھا اور امریکہ کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑا ۔
1998 میں ہی جب ہندوستان جوہری دھماکے کر چکا تھا تو پاکستان مسلم لیگ کی قیادت نے جس احسن طریقہ سے اس کو حل کیا اسکی دنیا میں مثال نہیں ملتی ۔ پاکستان مسلم لیگ کی قیادت نے جلدبازی کی بجائے دنیا اور اقوام متحدہ کو ہندوستانی دھماکوں پر ردعمل کے لئے مناسب وقت دیا اور جب محسوس کیا کہ کہیں سے کوئی شنوائی نہیں ہو رہی اور ہندوستان پر کسی قسم کی پابندیوں کا امکان نہیں تو تمام خدشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے جوہری دھماکے کئے اور پاکستان کی سفارتی کوششوں سے پاکستان، آج شمالی کوریا کی طرح عالمی طور پر تنہا نہیں تھا ۔
معاشی حالات ۔
جو لوگ پاکستان مسلم لیگ کی قیادت پر اعتراض کرتے ہیں ان کا سب بڑا اعتراض ملک کو بدحالی کے دھانے پر لے جانے کا ہے، لیکن جب ہم حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ اس بات کی چغلی کھاتے ہیں ۔
پاکستان مسلم لیگ پہلی بار 1990 کے اخیر میں حکومت میں آئی ۔ 1990 میں ملک کا جی ڈی پی 42ء5 تھا جبکہ ایک سال کے قلیل عرصہ میں اگلے ہی سال 1991 میں جی ڈی پی 57ء7 کی حد پر پہنچ گیا ۔ ترقی کی رفتار میں دھچکہ اس وقت لگا جب حکومت کو اڑھائی سال بعد صدارتی فرمان کے تحت چلتا کر دیا گیا ۔
اپنے دوسرے دور میں پاکستان مسلم لیگ کی ٹیم میں شامل اراکین نے صرف دو سال کی قلیل مدت میں بدترین جی ڈی پی 70ء1 کو 18ء4 تک پہنچا دیا۔ یاد دہانی کے لئے کہ اس دور میں پاکستان جوہری دھماکوں کے باعث اقتصادی پابندیوں کا بھی شکار تھا ۔
اپنے پہلے دور اقتدار میں دوسال کے قلیل عرصہ میں شرح غربت 4ء37 فی صد سے کم کر کے 7ء25 تک لانے میں کامیاب رہی۔ پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں یہ شرح بڑھ کر دوبارہ 6ء28 فی صد تک چلی گئی اور اپنے دوسرے دور میں پاکستان مسلم لیگ اسے واپس 24 فی صد کی سطح تک لانے میں کامیاب رہی ۔ گوکہ 1999 میں یہ شرح بڑھ کر 32 فی صد تک جا پہنچی تھی لیکن اس دور میں پاکستان جوہری دھماکوں کے باعث بدترین اقتصادی پابندیوں کا شکار تھا ۔ لیکن اس دور میں بھی پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کساد بازاری کی شرح کو 4 فی صد تک رکھنے پر کامیاب رہی جو کہ 1990 کی دھائی میں سب سے کم ہے -
موٹروے جو آج کے پاکستان کی معاشیات میں ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھتی ہے اور کوئی شخص آج اس سے انکار نہیں کرتا، یہ بھی پہلے دور حکومت میں آٹھ رویہ سڑک منظور کی گئی تھی جسے پیپلزپارٹی نے یہ کہہ کر چار رویہ کر دیا کہ اس منصوبہ کی قوم کو ضرورت نہیں۔ پھر بھی اگلے دور میں پاکستان مسلم لیگ نے دوبارہ مذاکرات کر کے اسے چھ رویہ سڑک پر منظور کروا لیا ۔
اگر یہ ٹیم ان دو ادوار میں برائے نام حکومت ہوتے ہوئے بھی ایسے نتائج دینے کے قابل تھی تو انشاللہ مستقبل میں بھی روشن پاکستان کی ضمانت پاکستان مسلم لیگ کی قیادت اور ٹیم ہی ہے ۔ دوسرے ابھی جو وعدے کر رہے ہیں پاکستان مسلم لیگ برائے نام حکومت میں بھی وہ سب کر کے دکھا چکی ہے ۔
1999 کے بعد کی پاکستان مسلم لیگ کی سیاست ملک کے لئے کس طرح بہتر ثابت ہوئی انشااللہ اس پر بعد میں تحریر کروں گا ۔ سوچ سمجھ کر ووٹ دیں نعرے سن کر ووٹ مت دیں ۔