اس رجحان کو اسلامی ممالک کے باہمی تفرقات سے مزید تقویت مل رہی ہے۔
بعض مملکتوں کے موجودہ اور سابقہ سربراہوں کو بھی شیطان کا پجاری قرار دیا جا چکا ہے۔ آپ جانتے ہیں اُن کے نام؟
مگر سدھریں گے نہیں پھر بھی۔
کیوں جی ؟ میں نے کیا کہا تھا ۔ اب کافر کہنے کا طریقہ پرانا ہو گیا نیا طریقہ نئے ڈرامے کے ساتھشکریہ
امت کی کچھ باتوں پر اتفاق نہیں رہتا یہ الگ بات ہے لیکن " ابلس نے اللہ سے تکرار کے دوران کہا تھا کہ میں بنی آدم کو گمراہ کرونگا اور اپنا حصہ لے کر رہونگا"
یہ بات تو ہم مان سکتے ہیں، دنیا بھر میں ابلس کے کارندے پھیل رہے ہیں جن کے بارہ میں ذکر ہے وہ نظروں میں آگئے ہیں جن کے بارہ میں نہیں ہے ایسے بہت سے ہیں جنوبی ایشیاء میں ایسے لوگوں کی کثرت ہے کلمہ گو ہونے کے باوجود پیروں ، خانقاہوں، سجادہ نشینوں، قبروں ، مزاروں، حجر، شجر، پتھر، جانور، اولیاء اللہ انبیاء
(حتی کہ ان ابلس کے معمور جنات اور انسان جسطرح چاہتے ہیں چلاتے) کو مقدس رب الکعبۃ جتنا مانتے ہیں یہ ان کے پیار میں غلو کرتے کرتے حد پارکر جاتے ہیں
اور یہ بھی ابلس ایسی ہی کامیابی ہے
مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ کچھ افراد میرے اس بات کو پسند نہیں کرینگے لیکن میں حق بات کرنے سے باز نہیں آونگا،،
پاکستان تک دین جس روٹ سے پہنچا یہ دین اسلام اس میں بہت سے اندھی تقلید والوں نے اور بہت سے پیسا کمانے والے شیطان کے عالموں نے ملاوٹیں کردی ہیں،
مدینۃ المنورہ اور مکۃ المعظمہ سے جب دین کوفا آیا ، عراق آیا صحابہ کرام کا سلسلہ جب تک تھا اس وقت تک یہ لوگوں کو نصیحت کرتے رہیں اور لوگ مانتے بھی تھے لیکن ان کے بعد اچھے لوگوں نے دین کو قائم رکھا اوربرے لوگ کچھ نہ کچھ شامل کرتے رہے اور برصغیر میں دین اسی روٹ سے آیا جن اولیاء اللہ نے دین پھیلایا وہ راہ حق میں تھے لیکن ان کی شاگردوں نے یا مریدوں نے اس میں ملاوٹیں کرنا شروع کردیں جسکی وجہ سے آج اللہ کے دین میں ابلس نے راستہ بنالیا کہ کلمہ حق والوں کو انکے راستے سے ہی گمراہ کردو۔ اور یہی ہوا ۔
انکو راہ راست میں لانے کے لیے محنت کربی پڑے گی لیکن یہ محنت کرنے والوں نے اپنے اپنے یونیفارم بناکر اپنے پیروں اور علماؤں کی تابیداری زیادہ اور اللہ کی ، اللہ کی کتاب کی ، اور عمل نبی صلی اللہ علیہہ وسلم کی کم کرنے لگے، حتی کہ ان کے علماء اپنی باتیں کرتے نظر آتے ہیں یہ سب باتیں شیطان کو اچھی لگتی ہیں
اور اس کوچھپی ہوئی شیطان کی عبادت اور پیروی کہتے ہیں۔
ذیل میں کچھ مثالیں ہیں شاید بہت سے لوگ مجھ پر تنز کریں لیکن یہی ہوتا ہے
ساجد بھائی داد تو دینے ہی پڑے گی یہاں شیطان کہ پجاریوں کا رونا رویا جارہا ہے ادھرابھی کل ہی کسی دھاگے میںدادا دینا پڑے کی مضمون نگار کی ہوشیاری اور امت کی "تبلیغ" کی
حضور اس حلیے کے افراد کو Goth کہا جاتا ہے۔ اور یہ ہپی لوگوں کی مانند ایک کاؤنٹر کلچر پر مبنی فیشن ہے۔اس مضمون میں بیان کردہ " شیطان کے پجاریوں " کا حلیہ آج کل یہاں عام دیکھا جا سکتا ہے ۔
لمبے جھاڑ جھنکار بال ۔ عجیب سیاہی مائل لبادے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اور خلیج میں اس سلسلے کے پھیلنے کی خبر بھی یہاں اک ہوٹل میں منعقد شدہ پارٹی پر پولیس چھاپے کے ہوئی ۔ اور حیرت ہے کہ مضمون نگار اس پارٹی کے ذکر کو سرے سے گول کر گیا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔