ایران سے سیکھے شیوہ مردانگی کوئی
09/01/2020 عدنان خان کاکڑ
آپ نے داستانِ امیر حمزہ پڑھ رکھی ہو تو آپ بخوبی واقف ہوں گے کہ غیرت مند پہلوان دشمن پر وار کرنے سے پہلے اپنا نام بتاتے تھے اور کچھ اس طرح کے جملوں سے لڑائی کا آغاز کرتے تھے ”منم لندھور بن سعدان، اے ملعون، میرا وار آیا ہی چاہتا ہے، بچ سکتا ہے تو بچ جا، پھر نہ کہنا کہ خبر نہ کی“۔ اس کے بعد ڈز سے اپنا گرز مار دیتے تھے۔ بلکہ جو زیادہ بڑے چیمپئن ہوتے تھے وہ پہلے دشمن کو وار کرنے کی دعوت دیتے تھے کہ لا جو حربہ ہے وہ دکھا اور اس کے بعد اپنا وار کیا کرتے تھے۔
مشرق وسطیٰ میں گزشتہ چند برسوں سے تناؤ بڑھتا جا رہا تھا اور صاف دکھائی دے رہا تھا کہ پیہم شکستیں کھانے کے بعد امریکہ اور ایران کا براہ راست ٹکراؤ ہو گا۔ غیرت مند اور طاقتور ایران نے امریکہ کو پہلا بزدلانہ وار کرنے کا موقع دیا۔ اس کے بعد اپنا وار کرنے سے کئی گھنٹے پہلے ہی عراق کے وزیراعظم کے توسط سے امریکہ کو آگاہ کر دیا تھا کہ ہم امریکی اڈوں پر حملہ کرنے لگے ہیں، بچ سکتے ہو تو بچ جاؤ۔ امریکی حکام بھی ایران کی اس مردانگی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکی حکومت کے ایک سینئیر اہلکار نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا ”ہمیں کئی گھنٹے پہلے ہی پتہ تھا، اور عراقیوں نے بھی ہمیں بتا دیا تھا، کہ یہ (حملہ) ہونے والا ہے“۔
اب ان بزدل امریکیوں کو کیا پتہ کہ ایرانی زال و رستم جیسے بہادروں کی اولاد ہیں۔ ڈھائی ہزار برس پہلے دنیا کی پہلی عظیم سلطنت ایرانیوں نے بنائی تھی، ایک ایرانی دنیا کا پہلا شہنشاہ تھا۔ مغرب کے سب سے بڑے ہیرو سکندر اعظم کی تمنا تھی کہ وہ ایرانی شہنشاہ کوروش اعظم جیسی عظمت پا سکے۔ اور خاندانی بہادروں کی یہی روایت ہوتی ہے کہ وہ دشمن کو بتا کر وار کرتے ہیں تاکہ کوئی کم ظرف بزدل جان بچانے کو چھپنا چاہے تو چھپ جائے۔
امریکی پکے بزدل نکلے۔ ایرانی وارننگ کے بعد پہلے ہی ان میں سے بہت سے پناہ گاہوں میں چھپے ہوئے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی کو وہ مار تو بیٹھے تھے لیکن اب خوب ڈر رہے تھے کہ ایران بہت غیرت مند اور طاقتور ہے، بدلہ لے گا اور بہت زیادہ مارے گا۔ اسی وجہ سے وہ ایرانی کمیونیکیشن کو مانیٹر کر رہے تھے، ان کے ہوائی جہاز ایرانی فضاؤں کا چپا چپا دیکھ رہے تھے اور ان کے مصنوعی سیارے ایرانی سرزمین پر چلتی چیونٹی کو بھی خوف کے عالم میں تک رہے تھے۔
جیسے ہی ایرانی میزائلوں نے لانچر چھوڑے امریکیوں کو ان جاسوسی ذرائع نے بتا دیا کہ میزائلوں کا ہدف کون سے اڈے ہیں۔ ان کے ہاتھ پاؤں ایسے پھولے کہ اپنے میزائل شکن نظام کو حرکت میں بھی نہیں لائے۔ ادھر حملے کے سائرن گونج اٹھے اور امریکی فوجی خوفزدہ ہو کر قبر جیسی خندقوں میں کود پڑے۔ یوں ایران نے انہیں جیتے جی دفن کر دیا۔ انہیں دہشت انگیز ایرانی طاقت کا اندازہ تھا۔
بعد میں جب حملہ ختم ہوا تو امریکی باہر نکلے اور بندے گنے کے کتنے مرے ہیں۔ جب امریکیوں کو علم ہوا کہ کوئی فوجی نہیں مرا تو وہ حیران رہ گئے کہ ایرانیوں کا نشانہ کیسے چوک گیا۔ ان کے حکام خود تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ ایرانیوں نے جان بوجھ کر ان کا نشانہ نہیں لیا اور ایسی جگہوں پر میزائل داغے ہیں جہاں بزدل امریکی موجود نہیں تھے ورنہ چند ماہ پہلے سعودی ریفائنریوں پر لگے ایرانی میزائلوں نے صاف بتا دیا تھا کہ ان کا نشانہ خطا نہیں ہوتا۔ امریکیوں نے اس بات پر بھی سکھ کا سانس لیا کہ ہزاروں ایرانی میزائل رکھنے کے باوجود ایران نے ان پر صرف دو درجن میزائل ہی داغے۔
بعد میں امریکی اپنی خفت مٹانے کو دعوے کرتے رہے کہ صدر ٹرمپ نے فوجیوں کی گنتی کرنے کا کہا تو اس وقت ان کا پورا ارادہ تھا کہ ایک بھی امریکی مرا تو وہ ایرانی تنصیبات پر بھرپور جوابی حملہ کر دیں گے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ صرف گیدڑ بھبکیاں ہیں۔
امریکی میڈیا تو دنیا کو گمراہ کرنے کو یہی کہے گا کہ امریکہ کا کوئی خاص نقصان نہیں ہوا، محض سنگ و خشت کی بنی چند عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے، جبکہ نہ صرف ایران کا اہم ترین جرنیل مارا گیا ہے بلکہ اس کے پچاس سے زیادہ شہری بھی بعد میں بھگدڑ میں مارے گئے ہیں۔ لیکن غیرت مند لوگ جانتے ہیں کہ اخلاقی شکست امریکہ کی ہوئی ہے۔
آج دنیا کی واحد سپر پاور تمام تر تکنیکی برتری کا مالک ہونے اور بہت بڑی فوج کی مالک ہونے کے باوجود جو اڑتی چڑیا کے پر گن سکتی ہے اور پرواز کرتے دشمن میزائل کو ہدف پر پہنچنے سے پہلے تباہ کر سکتی ہے، یہ بات تسلیم کر رہی ہے کہ غیرت مند ایرانی بزدل امریکیوں کی طرح اچانک حملہ نہیں کرتے بلکہ وار کرنے سے پہلے خبردار کر دیتے ہیں۔ سپر پاور امریکہ اس وقت شرمندہ ہو کر بزبانِ حال یہ شعر پڑھ رہا ہو گا
ایران سے سیکھے شیوہ مردانگی کوئی
جب قصدِ خوں کو آئے تو پہلے پکار دے