صرف آپ کے لیے

shahzadafzal

محفلین


شوقِ رقص سے جب تک انگلیاں نہیں کھلتیں
پاؤں سے ہواؤں کے، بیڑیاں نہیں کھلتیں

پیڑ کو دعا دے کر، کٹ گئی بہاروں سے
پھول اتنے بڑھ آئے کھڑکیاں نہیں کھلتیں

پھول بن کر سیروں میں اور کون شامل تھا
شوخیء صبا سے تو بالیاں نہیں کھلتیں

حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

کوئی موجہء شیریں چوم کر جگائے گی
سورجوں کے نیزوں سے سیپیاں نہیں کھلتیں

شاخ شاخ سرگرداں کس کی جستجو میں ہیں
کون سے سفر میں ہیں تتلیاں نہیں کھلتیں

آدھی رات کی چپ میں کس کی چاپ ابھرتی ہے
چھت پہ کون آتا ہے، سیڑھیاں نہیں کھلتیں

پانیوں کے چڑھنے تک حال کہہ سکیں اور پھر
کیا قیامتیں گزیریں، بستیاں نہیں کھلتیں
 

shahzadafzal

محفلین


کیسے چھوڑیں اسے تنہائی پر
حرف آتا ہے مسیحائی پر

اس کی شہرت بھی تو پھیلی ہر سُو
پیار آنے لگا رسوائی پر

ٹھہرتی ہی نہیں آنکھیں جاناں
تیری تصویر کی زیبائی پر

رشک آیا ہے بہت حُسن کو بھی
قامتِ عشق کی رعنائی پر

سطح کے دیکھ کے اندازے لگیں
آنکھ جاتی نہیں گہرائی پر

ذکر آئے گا جہاں بھونروں کا
بات ہوگی مرے ہرجائی پر

خود کو خوشبو کے حوالے کردیں
پھول کی طرزِ پذیرائی پر
 

shahzadafzal

محفلین


ایک اداس نظم

یہ حسین شام اپنی
ابھی جس میں گھل رہی ہے
ترے پیرہن کی خوشبو
ابھی جس میں کھل رہے ہیں
میرے خواب کے شگوفے
ذرا دیر کا ہے منظر


ذرا دیر میں افق پہ
کھلے گا کوئی ستارہ
تری سمت دیکھ کر وہ
کرے گا کوئی اشارہ
ترے دل کو آئیگا پھر
کسی یاد کا بلاوا
کوئی قصہء جدائی
کوئی کار نا مکمل
کوئی خواب نا شگفتہ
کوئی بات کہنے والی
کسی اور آدمی سے


ہمیں چاہیے تھا ملنا
کسی عہد مہرباں میں
کسی خواب کے یقیں میں
کسی اور آسماں میں
کسی اور سر زمیں میں
 

shahzadafzal

محفلین


دن ٹھہر جائے، مگر رات کٹے
کوئی صورت ہو کہ برسات کٹے

خوشبوئیں مجھ کو قلم کرتی گئیں
شاخ در شاخ مرے ہات کٹے

موجہء گُل ہے کہ تلوار کوئی
درمیاں سے ہی مناجات کٹے

حرف کیوں اپنے گنوائیں جا کر
بات سے پہلے جہاں بات کٹے

چاند، آ مل کے منائیں یہ شب
آج کی رات ترے سات کٹے

پُورے انسانوں میں گھس آئے ہیں
سر کٹے، جسم کٹے، ذات کٹے
 

shahzadafzal

محفلین


جذبات کا سمندر ، الفاظ کا بہاؤ
اس طرح کا فسانہ ، کُچھ اور بھی سُناؤ

تحریر میں تمھاری جو معنی موجزن ھیں
میرے حوالے کردو ، لکھ لکھ کے نہ مٹاؤ

ھے سفر یہ شاعری کا ، راتوں کو تارے گننا
اے سُلگتے دِل مُبارک ، کہ بڑھکتا ھے الا
 

shahzadafzal

محفلین


گُزری ساعتوں سے اِک تیرا خیال تو لوں
رقم کرنے کو رُودادِ ماہ و سال تو لوں

ابھی نغمہ ء نشاط نہ چھیڑ اے ھمدم
میں بکھری ، بے ترتیب سانسیں سنبھال تو لوں

زندگی بھی عجب فریبِ خود آگاھی ھے میں
قلزمِ تحیر سے خود کو نکال تو لوں

مُجھے اُترنا ھے اھلِ سُخن کی زمین پہ اب
خود کو پیکرِ غزل میں ڈھال تو لوں

اپنی جُھوٹی انا کا شکستہ خول گرا کر
احبابِ گُم گشتہ کے احوال تو لوں

دوا بے ثمر سھی دعا میں اثر تو ھے
عذابِ کربِ مُسلسل ٹال تو لوں
 

سیما علی

لائبریرین
ہر شے کا آغاز محبت اور انجام محبت ہے
درد کے مارے لوگوں کا بس اک پیغام ، محبت ہے

یہ جو مجھ سے پوچھ رہے ہو، ’’من مندر کی دیوی کون؟‘‘
میرے اچھے لوگو سن لو،’’اُس کا نام محبت ہے!‘‘

شدت کی لُو ہو یا سرد ہوائیں، اِس کو کیا پروا
کانٹوں کے بستر پر بھی محوِ آرام محبت ہے

بِن بولے اک دل سے دوجے دل تک بات پہنچتی ہے
جو ایسے روحوں پر اُترے، وہ الہام محبت ہے

پگلے! دامن بندھ جاتی ہے، جس کے بخت میں لکھی ہو
تم کتنا بھاگو گے، آگے ہر ہر گام محبت ہے

اب تو بس اک یاد سہارے وقت گزرتا رہتا ہے
اور اُس یاد میں ہراک صبح، ہر اک شام محبت ہے

ہم جیسے پاگل دیوانے، سود خسارہ کیا جانیں
نفرت کے اس شہر میں اپنا ایک ہی کام محبت ہے

اک لڑکی آدھے رستے میں ہار گئی اپنا جیون
وہ شاید یہ مان چکی تھی، بدفرجام محبت ہے

کچھ آلودہ روحوں والے، ہوس پجاری ہوتے ہیں
زین انہی لوگوں کے باعث ہی بدنام محبت ہے

تُو پگلی! اب کن سوچوں میں گم صم بیٹھی رہتی ہے
بولا ہے ناں اب یہ ساری تیرے نام محبت ہے

زین شکیل
 

سیما علی

لائبریرین
نہ مجھ سے اور کوئی بات مانی جائے گی
خدا کی ذات بڑی ذات مانی جائے گی

سو تُو نے دکھتی ہوئی رگ پہ ہاتھ رکھا ناں
تجھے پتہ تھا تری بات مانی جائے گی

میں کیا کروں یہ مرےعشق کی حمیّت ہے
تمہاری بے رخی سوغات مانی جائے گی

رہیں گے سارے ہی لمحات محترم تیرے
نہ میرے دن نہ مری رات مانی جائے گی
 

سیما علی

لائبریرین
شکل اس کی تھی دلبروں جيسی
خو تھي ليکن ستمگروں جيسی
اس کے لب تھے سکوت کے دريا
اس کی آنکھيں سخنوروں جيسی
ميری پرواز جاں ميں حائل ہے
سانس ٹوٹے ہوئے پروں جيسی
دل کي بستی ميں رونقيں ہيں مگر
چند اجڑے ہوئے گھروں جيسی
کون ديکھے گا اب صليبوں پر
صورتيں وہ پيمبروں جيسی
ميری دنيا کے بادشاہوں کی
عادتيں ہيں گداگروں جيسی
رخ پہ صحرا ہيں پياس کے محسن
دل ميں لہريں سمندروں جيسی

محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا،
نہ فرصتوں کی اداس برکھا!!!!
یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں،
جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ!!!!!!!!!!

(ناصر کاظمی)
 

سیما علی

لائبریرین
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو
میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے
میں گر پڑوں تو مری پستیوں کا ساتھی ہو
وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے
گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو
کرے کلام جو مجھ سے تو میرے لہجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو
میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھ کو دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو
وہ خواب دیکھے تو دیکھے مرے حوالے سے
مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو

افتخار عارف
 

سیما علی

لائبریرین
جسے نہ آنے کی قسمیں مَیں دے کے آیا ہوں
اسی کے قدموں کی آہٹ کا انتظار بھی ہے
کاوش سہروردی
 

سیما علی

لائبریرین
بھیجتا ہوں آپ کو اپنی پسندیدہ غزل
تازہ تازہ ناشنیدہ اور نادیدہ غزل
داستان حسن بھی ہے یہ سراپا حسن بھی
سنگ مرمر سے مثال بت تراشیدہ غزل
میرؔ غالبؔ ذوقؔ و مومنؔ پر بھی تھی جاں سے نثار
تھی بہادر شاہ کی ہر چند گرویدہ غزل
شہرۂ آفاق ہے اس کا جمال فکر و فن
ساری اصناف سخن میں ہے جہاں دیدہ غزل
پارہ پارہ ہو نہ جائے ماہ پارہ دیکھیے
ہے ہوس ناکوں کے ہاتھوں آج رنجیدہ غزل
شعر کی آمد نہیں ہوتی ہے کیا ناشادؔ اب
شاعران‌ عصر تو کہتے ہیں پیچیدہ غزل
ناشاد اُورنگ آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں
مر جائیں ہم جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں

آنکھوں کی سرخ لہر ہے موجِ سپردگی
یہ کیا ضروری ہے کہ اب انگڑائیاں بھی ہوں

ہر حسنِ سادہ لوح نہ دل میں اتر سکا
کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں

دنیا کے تذکرے تو طبیعت ہی لے بجھے
بات اس کی ہو تو پھر سخن آرائیاں بھی ہوں

پہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فراز
دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں
 

سیما علی

لائبریرین
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھولوں میں چھپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا
محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اسے مڑ کر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا
بشیر بدر
 

سیما علی

لائبریرین
اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا
اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا
تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں
میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا
مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر
راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا
ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہد وفا
اک ترے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا

وسیم بریلوی
 

سیما علی

لائبریرین
کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے
جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے
شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیں
میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہوں گے
وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے
اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا
یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے
میرا سانس اکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے
یعنی میرے بعد بھی یعنی سانس لیے جاتے ہوں گے
جون ایلیا
 

سیما علی

لائبریرین
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
اس کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو
کہ طبیعت مری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی
عکس رخسار نے کس کے ہے تجھے چمکایا
تاب تجھ میں مہ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی
اب کی جو راہ محبت میں اٹھائی تکلیف
سخت ہوتی ہمیں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
نگہ یار کو اب کیوں ہے تغافل اے دل
وہ ترے حال سے غافل کبھی ایسی تو نہ تھی
چشم قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفرؔ سے ہر بار
خو تری حور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی
بہادر شاہ ظفر
 

سیما علی

لائبریرین
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے یہ اکرام ہی تو ہے
کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوق فضول و الفت ناکام ہی تو ہے
دل مدعی کے حرف ملامت سے شاد ہے
اے جان جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
دست فلک میں گردش تقدیر تو نہیں
دست فلک میں گردش ایام ہی تو ہے
آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ یار خوش خصال سر بام ہی تو ہے
بھیگی ہے رات فیضؔ غزل ابتدا کرو
وقت سرود درد کا ہنگام ہی تو ہے
فیض صاحب
 

سیما علی

لائبریرین
تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں
بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو
جنوں وہی ہے وہی میں مگر ہے شہر نیا
یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو
کسے ہے خواہش مرہم گری مگر پھر بھی
میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو
تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو
جون ایلیا
 
Top