shahzadafzal
محفلین
شوقِ رقص سے جب تک انگلیاں نہیں کھلتیں
پاؤں سے ہواؤں کے، بیڑیاں نہیں کھلتیں
پیڑ کو دعا دے کر، کٹ گئی بہاروں سے
پھول اتنے بڑھ آئے کھڑکیاں نہیں کھلتیں
پھول بن کر سیروں میں اور کون شامل تھا
شوخیء صبا سے تو بالیاں نہیں کھلتیں
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
کوئی موجہء شیریں چوم کر جگائے گی
سورجوں کے نیزوں سے سیپیاں نہیں کھلتیں
شاخ شاخ سرگرداں کس کی جستجو میں ہیں
کون سے سفر میں ہیں تتلیاں نہیں کھلتیں
آدھی رات کی چپ میں کس کی چاپ ابھرتی ہے
چھت پہ کون آتا ہے، سیڑھیاں نہیں کھلتیں
پانیوں کے چڑھنے تک حال کہہ سکیں اور پھر
کیا قیامتیں گزیریں، بستیاں نہیں کھلتیں