صرف آپ کے لیے

سیما علی

لائبریرین
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
ذکر اغیار سے ہوا معلوم
حرف ناصح برا نہیں ہوتا
کس کو ہے ذوق تلخ کامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
امتحاں کیجئے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا
ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا
آہ طول امل ہے روز فزوں
گرچہ اک مدعا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حال دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
رحم کر خصم جان غیر نہ ہو
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا
دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دست عاشق رسا نہیں ہوتا
چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
کیوں سنے عرض مضطرب مومنؔ
صنم آخر خدا نہیں ہوتا

مومن خاں مومن
 

سیما علی

لائبریرین
وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
پھر مجھے لے چلا ادھر دیکھو
دل خانہ خراب کی باتیں
واعظا چھوڑ ذکر نعمت خلد
کہہ شراب و کباب کی باتیں
مہ جبیں یاد ہیں کہ بھول گئے
وہ شب ماہتاب کی باتیں
حرف آیا جو آبرو پہ مری
ہیں یہ چشم پرآب کی باتیں
سنتے ہیں اس کو چھیڑ چھیڑ کے ہم
کس مزے سے عتاب کی باتیں
جام مے منہ سے تو لگا اپنے
چھوڑ شرم و حجاب کی باتیں
مجھ کو رسوا کریں گی خوب اے دل
یہ تری اضطراب کی باتیں
جاؤ ہوتا ہے اور بھی خفقاں
سن کے ناصح جناب کی باتیں
قصۂ زلف یار دل کے لیے
ہیں عجب پیچ و تاب کی باتیں
ذکر کیا جوش عشق میں اے ذوقؔ
ہم سے ہوں صبر و تاب کی باتیں

ذوق
 

سیما علی

لائبریرین
لیتے ہی دل جو عاشق دل سوز کا چلے
تم آگ لینے آئے تھے کیا آئے کیا چلے

تم چشم سرمگیں کو جو اپنی دکھا چلے
بیٹھے بٹھائے خاک میں ہم کو ملا چلے

دیوانہ آ کے اور بھی دل کو بنا چلے
اک دم تو ٹھہرو اور بھی کیا آئے کیا چلے

ہم لطف سیر باغ جہاں خاک اڑا چلے
شوق وصال دل میں لیے یار کا چلے

غیروں کے ساتھ چھوڑ کے تم نقش پا چلے
کیا خوب پھول گور پہ میری چڑھا چلے

دکھلا کے مجھ کو نرگس بیمار کیا چلے
آوارہ مثل آہوئے صحرا بنا چلے

اے غم مجھے تمام شب ہجر میں نہ کھا
رہنے دے کچھ کہ صبح کا بھی ناشتا چلے

بل بے غرور حسن زمیں پر نہ رکھے پاؤں
مانند آفتاب وہ بے نقش پا چلے

کیا لے چلے گلی سے تری ہم کو جوں نسیم
آئے تھے سر پہ خاک اڑانے اڑا چلے

افسوس ہے کہ سایہ مرغ ہوا کی طرح
ہم جس کے ساتھ ساتھ چلیں وہ جدا چلے

کیا دیکھتا ہے ہاتھ مرا چھوڑ دے طبیب
یاں جان ہی بدن میں نہیں نبض کیا چلے

قاتل جو تیرے دل میں رکاوٹ نہ ہو تو کیوں
رک رک کے میرے حلق پہ خنجر ترا چلے

لے جائیں تیرے کشتے کو جنت میں بھی اگر
پھر پھر کے تیرے گھر کی طرف دیکھتا چلے

آلودہ چشم میں نہ ہوئی سرمے سے نگاہ
دیکھا جہاں سے صاف ہی اہل صفا چلے

روز ازل سے زلف معنبر کا ہے اسیر
کیا اڑ کے تجھ سے طائر نکہت بھلا چلے

ساتھ اپنے لے کے توسن عمر رواں کو آہ
ہم اس سرائے دہر میں کیا آئے کیا چلے

سلجھائیں زلفیں کیا لب دریا پہ آپ نے
ہر موج مثل مارسیہ تم بنا چلے

دنیا میں جب سے آئے رہا عشق گل رخاں
ہم اس جہاں میں مثل صبا خاک اڑا چلے

قاتل سے دخل کیا ہے کہ جاں بر ہو اپنا ہوش
گر اڑ کے مثل طائر رنگ حنا چلے

فکر قناعت ان کو میسر ہوئی کہاں
دنیا سے دل میں لے کے جو حرص و ہوا چلے

اس روئے آتشیں کے تصور میں یاد زلف
یعنی غضب ہے آگ لگے اور ہوا چلے

اے ذوقؔ ہے غضب نگہ یار الحفیظ
وہ کیا بچے کہ جس پہ یہ تیر قضا چلے

شیخ ابراہیم ذوق
 

سیما علی

لائبریرین
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
کیا کیا الجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک شانہ کیا
زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا
اڑتا ہے شوق راحت منزل سے اسپ عمر
مہمیز کہتے ہیں گے کسے تازیانہ کیا
زینہ صبا کا ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک
بام بلند یار کا ہے آستانہ کیا
چاروں طرف سے صورت جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا
صیاد اسیر دام رگ گل ہے عندلیب
دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے دام و دانہ کیا
طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
آتی ہے کس طرح سے مرے قبض روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا
ہوتا ہے زرد سن کے جو نامرد مدعی
رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا
ترچھی نگہ سے طائر دل ہو چکا شکار
جب تیر کج پڑے تو اڑے گا نشانہ کیا
صیاد گل عذار دکھاتا ہے سیر باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا
بیتاب ہے کمال ہمارا دل حزیں
مہماں سرائے جسم کا ہوگا روانہ کیا
یوں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتشؔ غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
حیدر علی آتش
 

سیما علی

لائبریرین
مستئ حال کبھی تھی کہ نہ تھی، بُھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی، بُھول گئے
یُوں مُجھے بھیج کے تنہا سرِ بازارِ فریب
کیا میرے دوست میری سادہ دلی بُھول گئے
میں تو بے حِس ہوں، مُجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں روشِ چارہ گری بُھول گئے؟
اب میرے اشکِ محبت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ہی دامن کی نمی بُھول گئے
اب مُجھے کوئی دِلائے نہ محبت کا یقیں
جو مُجھے بُھول نہ سکتے تھے وہی بُھول گئے
اور کیا چاہتی ہے گردش ایام، کہ ہم
اپنا گھر بُھول گئے، ان کی گلی بُھول گئے
کیا کہیں کتنی ہی باتیں تھیں جو اب یاد نہیں
کیا کریں ہم سے بڑی بُھول ہوئی، بُھول گئے

جونؔ ایلیا
 

سیما علی

لائبریرین
ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اُس کا تھا
بسا نہ کوئی، یہ خالی مکان اُس کا تھا
میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ
ستارہ میرا، سمندر نشان اُس کا تھا
میں اُس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا
فضا کھلی تھی، مگر آسمان اُس کا تھا
سلیقہ عشق میں جاں اپنی پیش کرنے کا
جنہیں بھی آیا تھا ان کو ہی دھیان اُس کا تھا
پھر اس کے بعد کوئی بات بھی ضروری نہ تھی
مرے خلاف سہی، وہ بیان اُس کا تھا
ہوا نے اب کے جلائے چراغ رستے میں
کہ میری راہ میں عادلؔ مکان اُس کا تھا

تاجدار عادلؔ
 

سیما علی

لائبریرین
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ، یعنی نباہ کا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لُطف مجھ پہ تھے پیشتر، وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گِلے، وہ شکایتیں، وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ رُوٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے سب میں جو رُوبرُو، تو اشارتوں ہی سے گُفتگو
وہ بیان شوق کا برملا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر بہم، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گِلۂ ملامتِ اقربا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی ایسی بات اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بُری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بُھولنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سُنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اِک آپ نے وعدہ تھا
سو نِباہنے کا تو ذکر کیا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مِرے دل سے صاف اُتر گئی
تَو کہا کہ جانے مِری بلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بِگڑنا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گِنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومنِؔ مبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مومن خان مومنؔ
 

سیما علی

لائبریرین
عُمر گُزری جس کا رَستہ دیکھتے
آ بھی جاتا وہ تو ہم کیا دیکھتے
کیسے کیسے موڑ آئے راہ میں
ساتھ چلتے، تو تماشا دیکھتے
قریہ، قریہ، جتنا آوارہ پِھرے
گھر میں رہ لیتے تو دُنیا دیکھتے
گر بہا آتے نہ دریاؤں میں ہم
آج ان آنکھوں سے صحرا دیکھتے
خود ہی رکھ آتے دِیا دیوار پر
اور پھر اس کا بھڑکنا دیکھتے
جب ہوئی تعمیرِ جسم و جاں تو لوگ
ہاتھ کا مٹی میں کھونا دیکھتے
دو قدم چل آتے اُس کے ساتھ ساتھ
جس مسافر کو اکیلا دیکھتے
اعتبار اُٹھ جاتا آپس کا جمالؔ
لوگ اگر اُس کا بِچھڑنا دیکھتے

جمالؔ احسانی
 

سیما علی

لائبریرین
کُھلا ہے جُھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں
سکُوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اِظہار، آؤ سچ بولیں
ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے
بنامِ عظمتِ کِردار، آؤ سچ بولیں
سُنا ہے وقت کا حاکم بڑا ہی مُنصِف ہے
پُکار کر سرِ دربار، آؤ سچ بولیں
تمام شہر میں ایک بھی منصُور نہیں
کہیں گے کیا رَسَن و دار، آؤ سچ بولیں
جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار، آؤ سچ بولیں
چُھپائے سے کہیں چُھپتے ہیں داغ چہروں کے
نظر ہے آئینۂ بردار، آؤ سچ بولیں
قتیلؔ جِن پہ سدا پتھروں کو پیار آیا
کِدھر گئے وہ گنہگار، آؤ سچ بولیں

قتیلؔ شفائی
 

سیما علی

لائبریرین
عشق میں جان سے گذرتے ہیں گذرنے والے
موت کی راہ نہیں دیکھتے مرنے والے
آخری وقت بھی پورا نہ کیا وعدۂ وصل
آپ آتے ہی رہے، مر گئے مرنے والے
اُٹھے اور کوچۂ محبوب میں پہنچے عاشق
یہ مسافر نہیں رَستے میں ٹھہرنے والے
جان دینے کا کہا میں نے تو ہنس کر بولے
تم سلامت رہو، ہر روز کے مرنے والے
آسماں پہ جو ستارے نظر آئے امیرؔ
یاد آئے مجھے داغ اپنے اُبھرنے والے

امیرؔ مینائی
 

سیما علی

لائبریرین
سگنل پر چالیس وہ لمحے برسوں ہم کو یاد رہے
گجرے والا بولا تھا جب، صاحب !! جوڑی شاد رہے

چوراہے پر یاد ہے کیسے دیتا تھا مجذوب دعا
تیرے گھر کا چولہا چوکھا صدیوں تک آباد رہے

عقل و دانش، فہم ، فراست، ایک نظر میں ڈھیر ہوئے
اُن کی پلکیں اُٹھنے تک بس، ہم اُن کے استاد رہے

شب کی ہر سلوٹ سے پوچھو کیسے جاگے چاند اور میں
سُونی رات کے اک بستر پر کیسے دو افراد رہے

پریم نگر میں گارے مٹی سے بھی گھر بن جاتے ہیں
بنیادوں میں سچ کی پُختہ اینٹیں ہوں بس یاد رہے

خود پر اسمِ اعظم پڑھ کے خود کو ہی تسخیر کریں
کب تک اِس آسیب نگر میں تنہا یہ ہمزاد رہے

عاطف جاوید عاطف​

 

سیما علی

لائبریرین
نین جن کے شراب کی صورت
ہونٹ اُن کے گلاب کی صورت

تو دھمکتا ہے ماہ و انجم میں
مثلِ لالہ شباب کی صورت

تیرے ہجر و فراق کے لمحے
مجھ پہ گزرے عذاب کی صورت

میری چاہت کے دل سمندر میں
تو ہے نایاب خواب کی صورت

تم محبت کی ہو غزل جاناں
کیوں نہ چھیڑوں رباب کی صورت

مصطفی مغل​

 

سیما علی

لائبریرین

سید ضیا حسین ۔۔۔ ایک لڑکی​

بین الاقوامی تعلقات میں گریجویشن کرتی ہوئی لڑکی
یہ تو جانتی ہو گی
کہ اکثر دوستیاں دائمی نہیں ہوتیں
یہ بنتی ہیں، بگڑتی ہیں
بس مفادات کی خاطر
یہ دوستی تب تک ہی رہتی ہے
جب تک کسی کو حاجت رہتی ہے کسی کی
ورنہ کچھ نہیں
دوستی کے یہ بندھن
پل میں ٹوٹ جاتے ہیں
دوست بن جاتے ہیں دشمن
اور دشمن دوست بنتے ہیں

یہ لڑکی
یہ بھی جانتی ہو گی
کہ چھوٹوں کی تو کوئی مرضی نہیں ہوتی
انھیں توچاہنا ہے بس وہ ہی
جو چاہتے ہیں بڑے اُن کے
انھیں تو کرنا ہے بس وہ ہی
جو کہتے ہیں بڑے ان کے
انھیں تو اپنی مرضی سے خواب بھی نہیں دیکھنا کوئی


مگر یہ لڑکی
سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے پھربھی
اپنے سارے سبق بھلا بیٹھی
اک لڑکے سے دل لگا بیٹھی
اس کے ساتھ گھر بسانے کے
خواب آنکھوں میں سجا بیٹھی
وہ یہ بھول بیٹھی تھی
کہ ایسی دوستیاں دائمی نہیں ہوتیں

اس کے بڑوں نے پھر اس کو
یاد کروائے، وہ سبق سارے
جنھیں وہ بھول بیٹھی تھی
بڑوں نے اپنی چھوٹی پر
پابندیاں لگا دی ہیں
اب وہ سر پٹختی ہے
اسے اب آگے نہیں پڑھنا
اسے اب وہ ہی کرنا ہے
جو کہتے ہیں بڑے اُس کے
اُسے چپ چاپ اب توبیٹھ جانا ہے
اپنے اک کزن کی ڈولی میں
اسے اب سارے خواب بھول جانے ہیں
اُسے پھر یاد کرنے ہیں
وہ سبق سارے
جو وہ بھول بیٹھی تھی
 

سیما علی

لائبریرین

خالق آرزو ۔۔۔​

’’مگر پھر لوٹ جاتے ہیں‘‘​

کتنے انمول ہیں وہ آنسو
جو آنکھوں سے نہیں بہتے
دکھائی جو نہیں دیتے
وہ آنسو
جھیل کی سی گہری آنکھوں سے
باہر نکلنے کو جب بہت بے چین ہوتے ہیں
تو کوئی احساس ماضی کا
انھیں آنکھوں کی سرحد پر
یہ کہہ کر روک لیتا ہے
ابھی تم نے نہیں بہنا
وہ کہہ گیا تھا
پہاڑوں پر برف پگھلنے تک
میرا انتظار کر لینا
بہت ہی خوبصورت ہیں
وہ آنسو
جو پانی کے کٹوروں کی
طرح سے جھلملاتے ہیں
وہ آنکھوں تک تو آتے ہیں
مگر پھر لوٹ جاتے ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
‏.
آئینہ خود بھی سنورتا تھا ، ہماری خاطر...
ہم تیرے واسطے تیار ہوا کرتے تھے...

سلیم کوثر
 

shahzadafzal

محفلین
خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے
غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے

ہم نہ مجنوں ہیں، نہ فرہاد کے کچھ لگتے ہیں
ہم کسی دشت تماشے میں نہیں آئیں گے

مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہو سکتی
درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے

اُس کی کچھ خیر خبر ہو تو بتاؤ یارو
ہم کسی اور دلاسے میں نہیں آئیں گے

جس طرح آپ نے بیمار سے رخصت لی ہے
صاف لگتا ہے جنازے میں نہیں آئیں گے

خالد ندیم شانی
......................
 
Top