محترم بھائی
یوسف ثانی ۔ بہت خوب یاد شریک محفل کی آپ نے ۔
پڑھ کو مجھے بھی اس سے ملتی جلتی یاد آگئی ۔
پانچویں جماعت کی امتحان نزدیک تھے ۔ اک بہت اہم مرحلہ درپیش تھا کہ سکول جایا جائے ،
اور کسی صورت نام دوبارہ درج کروایا جائے ۔
یہ یقین تو ہوتا تھا کہ والد مرحوم کے تعلقات سامنے رکھتے نام تو داخل ہوجائے گا مگر
سکول کی جانب جانا اور قریب پہنچتے ہی سوچوں میں الجھ کر راستہ بدل لینا کہ
سکول پہنچتے ہی میرے مشفق و مہربان استاد میری کیسی آؤ بھگت کریں گے ۔
ناصر صاحب ملے تو بالوں پر گھاس کاٹنے والی قینچی چلے گی ۔
اشرف صاحب ملے تو کان پکڑ کھیل کے میدان سمیت سارے سکول کی صفائی کرنا پڑے گی ۔
انور ورک صاحب ملے تو بہت بری ہوگی ۔ پہلے سکھ چین کے درخت پر چڑھا باریک سی شاخ تلاش کروائیں گے ۔
اس چھیل چھال اک دوبار لہرائیں گے ۔ پھر کان پکڑوا برسائیں گے ۔
امتحان کے دن قریب سے قریب تر ہو گئے ۔ اک دن دل کڑا کر کے سکول میں جو داخل ہوئے ۔
تو دیکھا کہ ہیڈماسٹر صاحب نے کچھ بچوں کو بلا رکھا ہے ۔ میں بھی ان کے پیچھے کھڑا ہو گیا ۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے سب کو اک اک پرچہ دیا اور قطار میں بٹھا ان کے جواب لکھنے کا حکم دیا ۔
میں نے بھی کاپی کھول پرچہ حل کیا ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے پرچے جمع کیئے اور سب بچوں کو کلاس میں جانے کا کہا ۔
میں بھی ڈرتا ڈرتا کلاس تک پہنچا ۔ کلاس میں جھانکا تو اپنے بالوں پر انا للہ " پڑھ کلاس میں قدم رکھا ۔ ماسٹر ناصر صاحب
کلاس میں موجود تھے اور مجھے پتہ تھا کہ آج میری ٹنڈ ہو ہی جائے گی ۔
مجھے دیکھتے ہی فرمایا ۔
چلو شاہ جی ذرا ککڑ تے بن جاؤ ۔ اشارے کی دیر تھی میں ککڑ بن گیا ۔
ماسٹر صاحب ساری کلاس میں میری تعریف و توصیف بیان فرمانے لگے ۔
اب کیا لکھوں کہ کن شاندار الفاظ پر مشتمل تھی میری تعریف و توصیف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر انہیں ترس آیا مجھے ککڑ سے دوبارہ انسان بننے کا حکم ہوا ۔
ابھی وہ مجھ سے پوچھ ہی رہے تھے کہ میری سزا کیا ہو کہ
اتنے میں مختار چاچا کلاس میں آئے اور اک کاغذ دیا ماسٹر صاحب کو
کہ ان بچوں کو الگ کر کے تیاری کروائیں ۔
حافظ فیض رسول
جاوید اقبال
تیسرا نام پڑھا
سید نایاب حسین ۔۔۔۔۔اور بے ساختہ زور سے بولے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوووووووووووو تیرا ناں کنج آیا ۔
تیرا تے ناں ای نیں رجسٹر اچ ۔
اور مجھے پکڑ ہیڈ ماسٹر کے پاس لے گئے ۔ ان سے کہنے لگے کہ اس بچے کا تو نام کٹے اک عرصہ ہو چکا ہے ۔
یہ کیسے امتحان میں شریک ہوگا ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے مکمل رجسٹر چیک کیا ۔ اور کہنے لگے کہ درج کر لو ۔
شاید یہی سکول کی عزت رکھ لے ۔ ٹیسٹ میں سب سے بہتر رہا ہے ۔
میرے من میں لڈو کیا انار پھوٹ رہے تھے ۔ مگر چپ چاپ سن رہا تھا ۔ ماسٹر صاحب واپس کلاس میں آئے ۔
اور کہنے لگے کہ دیکھ تیرا نام وظیفے کے امتحان میں آ گیا ہے ۔ اب غیر حاضری نہیں کرنی ۔
وظیفے کے امتحان میں شرکت کا اعزاز پاکر میں تو سکول بھر میں اتراتا پھروں ۔
ایم سی مڈل سکول اسلام نگر کا سن1973 کلاس پنجم کا وظیفہ پایا ۔ اور یہی ہمارا پہلا اور آخری تعلیمی کارنامہ کہلایا ۔
جس پر اتراتے ہم نصابی کتب سے بے نیاز ہوتے میٹرک تک ہنچے
اور میٹرک کے امتحان کا تیسرا پیپر خالی صفا چٹ دے کر تعلیم سے بالکل محروم رہ گئے ۔