صرف سچ بیتیاں

عسکری

معطل
ایک بار بچپن میں ہمارا ایک دوست گھر سے چوری پستول اور چھ راؤنڈ لے آیا کہ شبرات ہے چلائیں گے ۔ اس کا بابا محکمہ انہار میں تھا اسے سرکاری پستول ملا ہوا تھا ۔ بس پھر کیا دن تین بجے لوڈ کیا ہوا پستول میرے ہاتھ میں آیا تو میں نے گن پوائنٹ پر ان سے سب باتیں منوائیں رات 10 بجے تک فائر بھی کیے اس سے ہر طرح سے انہوں نے سمجھایا کہ پستول کی مذاق نہیں ہوتی چل جائے گا کسی کو لگ نا جائے یار ۔پر ہم نا مانیں ہم نے کسی کو پستول نا دیا ۔ ۔رات کو بس اڈے پر گئے پر پستول میں نے نہیں دیا جو بھی قریب آتا میں سیدھا کر لیتا :D اسطرح بس اڈے پر آخری فائر کیا تو سارے میرے دوستوں نے مجھے پکڑ کر اچھی مار لگائی کیونکہ پستول خالی ہو چکا تھا اور اب میں نہتا تھا ۔اس دن سے میں آخری گولی کبھی فائر نہیں کرتا اپنے لیے بچا لیتا ہوں :laugh:

ستم ظریفی یہ کہ ایک لڑائی میں ہم وہ پستول دوسری پارٹی کو دے آئے اور اس کی واپسی کا بڑوں نے 5 ہزار روپیہ دیا تھا جو ہماری چھتر پریڈ کی تھی
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
یہ ان دنوں کی بات ہےجب میں نے اور میری کزنز نےاسلام آباد گھومنے کا ارادہ کیا ۔۔۔۔!
سب سے پہلے ہم نے مارگلہ کی پہاڑیاں دیکھنے کا ارادہ کیا جس دن ہم وہاں پہنچے تو دیکھا وہاں کل اجماع پاکستان ہورہا ہے خوب رونق، لوگ ہی لوگ،ایسی چہل پہل کہ گزرنے کا راستہ ہی نہیں مل رہا تھا۔جب ہم نے اتنے لوگوں کو دیکھا تو اک شرارت سوجھی اور وہ یہ تھی کہ کسی بھی خاتون یا لڑکی کو پیچھے سے پکارتے ہوئے جا لیں گےاور کہین گے ارےفلاں مثلا نسرین آنٹی آپ کہاں تھیں ہم کب سے تلاش کر رہے تھے آپ کو اور جب مخاطب حیرانگی سے پیچھے مڑ کر دیکھتے تو ہم کہتے اوہ! معاف کیجئے گا ہم سمجھے ہماری آنٹی جارہی ہیں:heehee:
اگر کوئی ہماری ہم عمر ہوتیں تو زور سے تھپڑ لگاتے اور کہتے ربییعہ کب سے ڈھونڈ رھے ہیں کہاں چلی گئ تھیں؟:happy:
بہت سے لوگوں کے ساتھ یہ شرارت کی خوب مزے کیئے۔


یہ واقعہ گاؤں کا ہے۔ میں اور کزنز نانا کی حویلی کی چھت پر بیٹھے تھے ۔ رات کافی بیت چکی تھی اور ہم باتوں میں مصروف تھے۔ حویلی کی چھت سے ریل کی پٹری اور پٹری کے پار درختوں کی جھنڈ نظر آتی ہے ۔ باتیں کرتے کرتے کیا دیکھتے ہیں کی اس جھنڈ مین ایک سرے سے دوسرے سرے تک روشنی کا ساماں ہو رہا ہے ۔ ہم ڈر سے گئے اور نیچے بھاگے یہی باتیں کرتے ڈرتے ہم سو گئے۔۔۔صبح اٹھ کر جب بڑوں سے ذکر کیا تو سب نے ڈانٹا کہ رات گئے اوپر کیوں بیٹھے تھے۔
مجھےآج بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو سوچتی ہوں وہ کیا تھا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟÷÷کیا جنات کی شادی





:heehee:
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
سردیوں کے دن تھے اور میرے امتحانات ہو رہے تھے
رات پڑھتے پڑھتے میں تھک گئی تو دعا کی اللہ میاں مجھے
جلدی اٹھا دیجئے گا!
رات کے تیسرے پہر مجھے لگا میری امی نے آواز دی اور کہا
عینی بیٹا اٹھو!
میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا
امی یہ کہہ کر جارھی تھیں
میں اٹھ کر پڑھنے لگی
صبح پیپر دینے کے بعد گھر آکر جب امی سے کہا کہ شکر آپ نے اٹھا دیا تو امی نے کہا میں تو آج
اٹھی ہی نہیں
بیٹا۔۔۔۔۔۔۔!
 
ایک بار بچپن میں ہمارا ایک دوست گھر سے چوری پستول اور چھ راؤنڈ لے آیا کہ شبرات ہے چلائیں گے ۔ اس کا بابا محکمہ انہار میں تھا اسے سرکاری پستول ملا ہوا تھا ۔ بس پھر کیا دن تین بجے لوڈ کیا ہوا پستول میرے ہاتھ میں آیا تو میں نے گن پوائنٹ پر ان سے سب باتیں منوائیں رات 10 بجے تک فائر بھی کیے اس سے ہر طرح سے انہوں نے سمجھایا کہ پستول کی مذاق نہیں ہوتی چل جائے گا کسی کو لگ نا جائے یار ۔پر ہم نا مانیں ہم نے کسی کو پستول نا دیا ۔ ۔رات کو بس اڈے پر گئے پر پستول میں نے نہیں دیا جو بھی قریب آتا میں سیدھا کر لیتا :D اسطرح بس اڈے پر آخری فائر کیا تو سارے میرے دوستوں نے مجھے پکڑ کر اچھی مار لگائی کیونکہ پستول خالی ہو چکا تھا اور اب میں نہتا تھا ۔اس دن سے میں آخری گولی کبھی فائر نہیں کرتا اپنے لیے بچا لیتا ہوں :laugh:

ستم ظریفی یہ کہ ایک لڑائی میں ہم وہ پستول دوسری پارٹی کو دے آئے اور اس کی واپسی کا بڑوں نے 5 ہزار روپیہ دیا تھا جو ہماری چھتر پریڈ کی تھی
جبھی تو میں کہوں آپ کو "WEAPONS" سے اتنا لگاؤ کیوں ہے۔ :)
 
اور ایسا ہی میری نانو کے بابا کے ساتھ ہوا ہے وہ آمین پر گئے تھے جن بچے کی۔
ارے جی! میں نے تو ایسے ہی شوخی کی تھی۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی کسی جن سے پالا پڑے۔ میرے پاس ایسا دل گردہ نہیں۔
ویسے ایسا ہوتا ہے۔ قوم جنات اگر کسی سے متاثر ہو تو دعوتوں میں بھی بلاتی ہے۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
ارے جی! میں نے تو ایسے ہی شوخی کی تھی۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی کسی جن سے پالا پڑے۔ میرے پاس ایسا دل گردہ نہیں۔
ویسے ایسا ہوتا ہے۔ قوم جنات اگر کسی سے متاثر ہو تو دعوتوں میں بھی بلاتی ہے۔
لیکن میں نے حقیقتا بتایا نانو کے باباکو جنات نے کوئلہ دیا وہ پھینکتے ہوئے آئے جنگل سے نکلتے ہوئے کچھ رہ گئے وہ سونے میں تبدیل ہوگئے
 

فاتح

لائبریرین
سردیوں کے دن تھے اور میرے امتحانات ہو رہے تھے
رات پڑھتے پڑھتے میں تھک گئی تو دعا کی اللہ میاں مجھے
جلدی اٹھا دیجئے گا!
رات کے تیسرے پہر مجھے لگا میری امی نے آواز دی اور کہا
عینی بیٹا اٹھو!
میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا
امی یہ کہہ کر جارھی تھیں
میں اٹھ کر پڑھنے لگی
صبح پیپر دینے کے بعد گھر آکر جب امی سے کہا کہ شکر آپ نے اٹھا دیا تو امی نے کہا میں تو آج
اٹھی ہی نہیں
بیٹا۔۔۔ ۔۔۔ ۔!
اس میں جنات کا کمال نہیں تھا بلکہ یہ "دماغ" کی کارستانی تھی، ہمارے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی اہم میٹنگ ہو تو ہماری آنکھ اس خواب کے ساتھ کھلتی ہے کہ میٹنگ میں بیٹھے ہیں یا میٹنگ سے لیٹ ہو گئے ہیں :)
 

فاتح

لائبریرین
اس دھاگے کا نام تبدیل کر کے "جنات کا دیدار" کر دیا جائے اور "غیر متعلقہ" یعنی "عقلی" مراسلے یہاں سے کسی اور دھاگے میں منتقل کر دیں۔ :laughing:
ہمیں بھی کسی نے جنات کے دیدار کے لیے گیدڑ کی چربی لے کر علاقہ غیر کے پہاڑوں پر آنے کی دعوت دی تھی، شاید جنات کے پاس پاکستانی پاسپورٹ نہیں تھا اس لیے وہ علاقہ غیر سے پاکستان نہیں آ سکتے تھے۔ :laughing:
 

عثمان

محفلین
اگر ایسا کوئی دھاگہ کسی انگریزی فورم میں ہوتا تو وہ خلائی مخلوق کے تذکروں سے بھرا ہوتا۔ ;)
ہماری تہذیب میں خلائی مخلوق کی اہمیت کم ہے یا پھر ہم اس سے واقف ہی نہیں۔ ہمارے اسرار کا ٹھیکہ بھوت پریت نے لے رکھا ہے۔ :)

واضح رہے کہ ہم کسی کے مشاہدے اور تجربے کو چیلنج نہیں کر رہے ، بلکہ ایک عمومی مشاہدہ بیان کر رہے ہیں۔ :)
 

رانا

محفلین
مجھےاس واقعے کو تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ۔
بہت شکریہ شریک محفل کرنے پر
اور مجھے ہمیشہ یہ حسرت ہی رہی کہ ایسے واقعات دوسروں کے ساتھ ہی کیوں پیش آتے ہیں جبکہ میں دل سے انتہائی متمنی ہوں کہ ایسا کوئی واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آئے لیکن یہ جنات صاحبان مجھے لفٹ ہی نہیں کراتے۔ کتنی عجیب بات ہے نا کہ جو انہیں دیکھنے اور ان کی اوٹ پٹانگ حرکتوں کا مشاہدہ کرکے جی جان سے داد دینے کا خواہش مند ہے اس پر ان کی نظر کرم ہی نہیں۔:idontknow:اگر کوئی جن صاحب یہ تحریر پڑھیں تو انتہائی عاجزانہ درخواست ہے کہ ایک چھوٹا موٹا سا کرتب ادھر بھی لڑھکا دیں بندہ دعائیں دے گا۔:)

اب اس سے متعلق ایک واقعہ شئیر کرہی دوں۔:) اسی سال کی بات ہے کہ دو واقعات ایک ہی دن میں دو گھنٹوں کے وقفے سے ہوئے دونوں نے کچھ دیر کے لئے کے ایسا حیران کیا کہ یاد رہ گئے۔
پہلا واقعہ تو بے ضرر ہے لیکن پھر بھی یاد رہ گیا کہ کراچی میں ایسا ہوتا نہیں۔:) گزرے دسمبر کی بات ہے میں آئی آئی چندریگر روڈ پر نیشنل بینک کے ہیڈآفس کے سامنے والی بلڈنگ میں ایک سافٹ وئیر ہاوس میں انٹرنشپ کررہا تھا۔ ساڑھے چھ بجے جب آف ہوتا تھا تو اندھیرا پھیل چکا ہوتا تھا اور جن لوگوں نے وہ جگہ دیکھی ہے انہیں علم ہے وہاں سے سڑک پار کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے کہ ایک ہی بڑی سے سڑک ہے جس پر تمام مشہور بینکوں کے ہیڈ آفس ہیں اور اسی پر دوطرفہ ٹریفک چل رہی ہے۔ اس لئے سڑک پار کرتے ہوئے پہلے دائیں طرف دیکھنا پڑتا ہے اور بیچ سڑک کے پہنچتے ہی ایک دم گردن گھما کر فورا بائیں طرف دیکھنا پڑجاتا ہے کہ درمیان میں اکثر جگہ کوئی پارٹیشن نہیں جو دو رویہ ٹریفک میں تفریق کرے۔
ایسی ہی ایک شام میں سڑک پار کرنے لگا اور دائیں طرف دیکھنا شروع کیا اس طرف کچھ اور لوگ بھی سڑک پار کرنے کے متمنی کھڑے تھے جن میں ایک خاتون بھی تھیں۔ ان خاتون نے سڑک پار کرتے ہوئے میرا بازو پکڑ لیا میرا سارا دھیان ٹریفک کی طرف تھا میں نے کچھ خیال نہیں کیا کہ کوئی آنٹی ہوں گی چلو ثواب ہی مل جائے گا۔ اب جب دونوں طرف کی ٹریفک سے گزر کر دوسری طرف پہنچے تو میری بس آگئی اور اس وقت اتفاق سے ان کے چہرے کی طرف نظر پڑی تو حیران رہ گیا کہ اچھی بھلی نوجوان لڑکی ہے۔ شائد کسی آفس سے نکلی ہوگی۔ لیکن مجھے حیرت اس پر کہ نوجوان لڑکی ہے لیکن کس دھڑلے سے میرا بازو پکڑ کر سڑک پار کرلی جیسے میں ان کا کوئی اپنا ہوں۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ خود مجھے سڑک پار کروانے کے بعد پتہ لگا کہ کسی لڑکی نے میرا سہارا لے کر سڑک پار کرلی ہے۔:)

دوسرا واقعہ ذرا زیادہ جناتی ہے شائد اس لئے کہ اوپر والے واقعے کے صرف ڈیڑھ گھنٹے بعد پیش آیا۔ واقعاتی صحبت کا اثر ہوگا۔:) ہوا یوں کہ محترمہ کو سڑک پار کراکے میں مشہور زمانہ W-11 میں بیٹھ کر النور موڑ پر اترا کہ وہاں سے قریب ہی مسجد ہے۔ سوچا کہ عشاء پڑھ کی ہی گھر جاتا ہوں۔ بیگ ٹیبل پر رکھ کر وضوخانہ کی طرف گیا۔ جب واش روم سے نکلا ہوں تو لائٹ آف کرکے نکلا ہوں لیکن جیسے ہی نکلا اور وضو کرنا شروع کیا تو واش روم کی لائٹ کا بٹن آن ہونے کی بہت واضع آواز سنائی دی اور ساتھ ہی لائٹ آن ہوگئی۔ میں تو وضو کرتے کرتے ایک دم رک گیا اور واش روم کی دیکھا کہ دروازہ تو اسی طرح کھلا ہے لیکن لائیٹ آن ہے۔ اب تو میں تھوڑا سا ایکسائٹڈ ہوگیا کہ آخر جنوں نے میری سن ہی لی اور میرے ساتھ بھی کوئی حرکت کردی ہے۔ میں نے اٹھ کر دیکھا کہ واش روم واقعی خالی ہے نہ اندر کوئی ہے نہ باہر قریب میں میرے علاوہ کوئی اور بندہ۔ اور بٹن آن ہونے کی آواز بھی اتنی واضع تھی کہ وہم کا تو تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو غور کیا پھر یقین کرنے کی طرف طبیعت مائل ہوئی کہ میاں تم بھی ان لوگوں میں شامل ہوگئے ہو جو جنوں کے واقعات سنایا کرتے ہیں۔ لیکن اس خوش قسمتی پر یقین آہی نہیں رہا تھا لہذا ذرا زیادہ سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا تو عقدہ یہ کھلا کہ واش روم کا بٹن آف کرتے ہوئے پوری طرح آف نہیں ہوا تھا بلکہ بیچ میں معلق رہ گیا تھا کئی لوگوں کو اس طرح کا تجربہ ہوتا ہوگا۔ اب جب بیچ میں معلق رہ گیا تو نیچے کی طرف جھکاو زیادہ تھا اس لئے کچھ ہی دیر میں نیچے ہوگیا اور لائٹ آن ہوگئی۔ تو جناب ساری ایکسائٹمنٹ کی ایسی تیسی ہو کر رہ گئی۔:atwitsend:
 

رانا

محفلین
لیکن اس خوش قسمتی پر یقین آہی نہیں رہا تھا لہذا ذرا زیادہ سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا تو عقدہ یہ کھلا کہ واش روم کا بٹن آف کرتے ہوئے پوری طرح آف نہیں ہوا تھا بلکہ بیچ میں معلق رہ گیا تھا کئی لوگوں کو اس طرح کا تجربہ ہوتا ہوگا۔ اب جب بیچ میں معلق رہ گیا تو نیچے کی طرف جھکاو زیادہ تھا اس لئے کچھ ہی دیر میں نیچے ہوگیا اور لائٹ آن ہوگئی۔ تو جناب ساری ایکسائٹمنٹ کی ایسی تیسی ہو کر رہ گئی۔:atwitsend:

تبصرہ از شاہ جنات::vampirebat:
بے ہودہ شخص! وہ بٹن ہمارے ہی ایک کارندے نے آن کیا تھا۔ اور اس کارندے کو ہم نے اپنی شہزادی گڑیا کی فرمائش پر تمہارے پاس بھیجا تھا کہ وہ بے چاری ترلے کر رہی تھی کہ اس رانے کی بھی سن لیں پلیز اسے بھی کوئی جلوہ دکھادیا جائے۔ لیکن تم ٹھہرے ناشکرے نالائق کہیں کے۔ اس میں بھی سائنسی وجہ ڈھونڈ لیِ۔ ایسے بدذوق کو ہم آئندہ کبھی بھول کر بھی اپنے کرتبوں سے مستفید نہیں کریں گے اور ابھی جاکر اپنی شہزادی کی خبر لیتے ہیں جس نے تم جیسے بدذوق کی سفارش کی۔:skull:
 

رانا

محفلین
اور ایسا ہی میری نانو کے بابا کے ساتھ ہوا ہے وہ آمین پر گئے تھے جن بچے کی۔
ایسے واقعات میں اکثر ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی رشتے دار کے ساتھ ہوا ہوتا ہے۔ اگر کبھی بھولے سے کوئی ایسا راوی مل جائے کہ جس کے ساتھ خود ایسا ہوا ہو تو اس میں بھی ایک قدر مشترک عموما ملتی ہے کہ اس واقعے کے وقت وہ اپنے بچپن یا لڑکپن کے دور میں ہوتا ہے۔ ایک بار ایک صاحب ایسے ملے کہ جنہوں نے اپنے ہوش و حواس کے وقت کا واقعہ سنایا اور ان کے ہوش حواس کا ثبوت یہ تھا کہ اس وقت وہ شادی شدہ اور ایک بچے کے باپ تھے۔:) لیکن ان صاحب کی زندگی کا محور صرف ملازمت، تنخواہ، بیوی بچے پالنا اور شام کے اوقات گلی کے دوستوں کے ساتھ گزارنا تھا۔ نہ کوئی علمی اور ادبی ایکٹویٹی نہ کوئی سوشل ایکٹیویٹی کہ جس سے ان کی شخصیت میں کوئی سنجیدگی کا تاثر ابھرے نہ ہی کیریکٹر اتنا مضبوط کہ بندہ ان کی بات پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلے۔
البتہ کچھ واقعات ایسے لوگوں سے بھی سنے ہیں جن کے کردارکی بلندی کے باعث اس حوالے سے تو شک کا شائبہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ غلط بیانی کررہے ہوں گے لیکن اکثر تو ایسے لوگ خود ہی اس واقعے کی قابل فہم تشریح کردیتے ہیں ورنہ آپ کو یہ تو تسلی ہوتی ہے کہ سنانے والے نے کوئی غلط بیانی نہیں کی۔ ایسے لوگوں کی بات پر تو بندے کو واقعاتی اعتبار سے یقین کرنا ہی پڑتا ہے۔ بعد میں آپ اس کی توجیہ سوچتے رہیں۔ لیکن اکثر واقعات سنانے والے پہلی کیٹیگری میں آتے ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
زمانہ قدیم سے انسان " طلسم "کا اسیر رہا ہے ۔ " طلسم " کیا ہے کچھ حروف کی اک مخصوص ترتیب ۔
ہر بچہ بچپن میں کہانیاں سننے کا شوقین ہوتا ہے ۔
اور اس کے بزرگ اسے یہ کہانیاں اس کی شخصیت کی تعمیر کے لیئے سناتے ہیں ۔
ہم بھی بچپن میں کہانیاں سنتے تھے ۔ اکثر کہانیوں میں شہزادہ شہزادی کی تلاش میں راہ بھٹک جاتا تھا ۔
راستے کی صعو بتیں مشکلیں برداشت کرتا تھا ۔ حوصلہ نہ ہارتا تھا ۔
اور اسے اکثر ہی کسی ویراں جنگل میں کوئی جادوگر یا جادو گرنی مل جاتی تھی ۔
جس نے اپنے سامنے اک شیشے کا گولہ رکھا ہوتا تھا ۔ وہ اس شیشے کے گولے کو کچھ پڑھ کر گھماتی تھی ۔
اور وہ شیشہ روشن ہوجاتا تھا ۔ شہزادی کہاں کس حال میں ہے سب دکھاتا تھا ۔
کبھی شہزادہ تخت پر بیٹھ ہوا میں اڑتا شہزادی تک پہنچ جاتا تھا ۔
یہ جادوگر کے پڑھے اس "طلسم " کا نتیجہ ہوتا تھا جو وہ کچھ کسی خاص ترتیب سے پڑھتا تھا ۔
آج میرے سامنے کمپیوٹر پڑا ہے ۔ میں اسے آن کرتا ہوں ۔ سکرین روشن ہو جاتی ہے ۔
مجھ سے ہزاروں میل کی دوری پر موجود میری شہزادی مجھ کو دکھاتی ہے ۔ حال سب اس کا سناتی ہے ۔
اور جب چاہوں جہاز پر بیٹھ ہوا میں اڑ اسے مل آتا ہوں ۔
اور یہ سارا " طلسم " قائم ہے ۔ " کی بورڈ کی کیز اور ماؤس کی کچھ مخصوص حرکات پر "
اور یہ کام کرتا ہے میرے ماؤس اور کی بورڈ کی کیز سے ۔
اک مخصوص طریقے سے پریس کیئے جانے پر میری خواہش اک کمانڈ کی صورت پہنچتی ہے پروسیسر تک ۔
اور مطلوب سامنے آ جاتا ہے ۔
رہی بات ذکر آیات قرانی کی ۔ تو سچا زندہ کلام ہے جو سب آلودہ "طلسموں " کو خالص کر انہیں ہدایت وشفاء للناس فرماتا ہے۔
ذکر کرے کوئی خلوص دل اور نیت سچی سے ۔ تو مراد اپنی پاتا ہے ۔
اپنی سچائی خود دکھاتا ہے ۔
 
Top