مجھےاس واقعے کو تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ۔
بہت شکریہ شریک محفل کرنے پر
اور مجھے ہمیشہ یہ حسرت ہی رہی کہ ایسے واقعات دوسروں کے ساتھ ہی کیوں پیش آتے ہیں جبکہ میں دل سے انتہائی متمنی ہوں کہ ایسا کوئی واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آئے لیکن یہ جنات صاحبان مجھے لفٹ ہی نہیں کراتے۔ کتنی عجیب بات ہے نا کہ جو انہیں دیکھنے اور ان کی اوٹ پٹانگ حرکتوں کا مشاہدہ کرکے جی جان سے داد دینے کا خواہش مند ہے اس پر ان کی نظر کرم ہی نہیں۔
اگر کوئی جن صاحب یہ تحریر پڑھیں تو انتہائی عاجزانہ درخواست ہے کہ ایک چھوٹا موٹا سا کرتب ادھر بھی لڑھکا دیں بندہ دعائیں دے گا۔
اب اس سے متعلق ایک واقعہ شئیر کرہی دوں۔
اسی سال کی بات ہے کہ دو واقعات ایک ہی دن میں دو گھنٹوں کے وقفے سے ہوئے دونوں نے کچھ دیر کے لئے کے ایسا حیران کیا کہ یاد رہ گئے۔
پہلا واقعہ تو بے ضرر ہے لیکن پھر بھی یاد رہ گیا کہ کراچی میں ایسا ہوتا نہیں۔
گزرے دسمبر کی بات ہے میں آئی آئی چندریگر روڈ پر نیشنل بینک کے ہیڈآفس کے سامنے والی بلڈنگ میں ایک سافٹ وئیر ہاوس میں انٹرنشپ کررہا تھا۔ ساڑھے چھ بجے جب آف ہوتا تھا تو اندھیرا پھیل چکا ہوتا تھا اور جن لوگوں نے وہ جگہ دیکھی ہے انہیں علم ہے وہاں سے سڑک پار کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے کہ ایک ہی بڑی سے سڑک ہے جس پر تمام مشہور بینکوں کے ہیڈ آفس ہیں اور اسی پر دوطرفہ ٹریفک چل رہی ہے۔ اس لئے سڑک پار کرتے ہوئے پہلے دائیں طرف دیکھنا پڑتا ہے اور بیچ سڑک کے پہنچتے ہی ایک دم گردن گھما کر فورا بائیں طرف دیکھنا پڑجاتا ہے کہ درمیان میں اکثر جگہ کوئی پارٹیشن نہیں جو دو رویہ ٹریفک میں تفریق کرے۔
ایسی ہی ایک شام میں سڑک پار کرنے لگا اور دائیں طرف دیکھنا شروع کیا اس طرف کچھ اور لوگ بھی سڑک پار کرنے کے متمنی کھڑے تھے جن میں ایک خاتون بھی تھیں۔ ان خاتون نے سڑک پار کرتے ہوئے میرا بازو پکڑ لیا میرا سارا دھیان ٹریفک کی طرف تھا میں نے کچھ خیال نہیں کیا کہ کوئی آنٹی ہوں گی چلو ثواب ہی مل جائے گا۔ اب جب دونوں طرف کی ٹریفک سے گزر کر دوسری طرف پہنچے تو میری بس آگئی اور اس وقت اتفاق سے ان کے چہرے کی طرف نظر پڑی تو حیران رہ گیا کہ اچھی بھلی نوجوان لڑکی ہے۔ شائد کسی آفس سے نکلی ہوگی۔ لیکن مجھے حیرت اس پر کہ نوجوان لڑکی ہے لیکن کس دھڑلے سے میرا بازو پکڑ کر سڑک پار کرلی جیسے میں ان کا کوئی اپنا ہوں۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ خود مجھے سڑک پار کروانے کے بعد پتہ لگا کہ کسی لڑکی نے میرا سہارا لے کر سڑک پار کرلی ہے۔
دوسرا واقعہ ذرا زیادہ جناتی ہے شائد اس لئے کہ اوپر والے واقعے کے صرف ڈیڑھ گھنٹے بعد پیش آیا۔ واقعاتی صحبت کا اثر ہوگا۔
ہوا یوں کہ محترمہ کو سڑک پار کراکے میں مشہور زمانہ W-11 میں بیٹھ کر النور موڑ پر اترا کہ وہاں سے قریب ہی مسجد ہے۔ سوچا کہ عشاء پڑھ کی ہی گھر جاتا ہوں۔ بیگ ٹیبل پر رکھ کر وضوخانہ کی طرف گیا۔ جب واش روم سے نکلا ہوں تو لائٹ آف کرکے نکلا ہوں لیکن جیسے ہی نکلا اور وضو کرنا شروع کیا تو واش روم کی لائٹ کا بٹن آن ہونے کی بہت واضع آواز سنائی دی اور ساتھ ہی لائٹ آن ہوگئی۔ میں تو وضو کرتے کرتے ایک دم رک گیا اور واش روم کی دیکھا کہ دروازہ تو اسی طرح کھلا ہے لیکن لائیٹ آن ہے۔ اب تو میں تھوڑا سا ایکسائٹڈ ہوگیا کہ آخر جنوں نے میری سن ہی لی اور میرے ساتھ بھی کوئی حرکت کردی ہے۔ میں نے اٹھ کر دیکھا کہ واش روم واقعی خالی ہے نہ اندر کوئی ہے نہ باہر قریب میں میرے علاوہ کوئی اور بندہ۔ اور بٹن آن ہونے کی آواز بھی اتنی واضع تھی کہ وہم کا تو تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو غور کیا پھر یقین کرنے کی طرف طبیعت مائل ہوئی کہ میاں تم بھی ان لوگوں میں شامل ہوگئے ہو جو جنوں کے واقعات سنایا کرتے ہیں۔ لیکن اس خوش قسمتی پر یقین آہی نہیں رہا تھا لہذا ذرا زیادہ سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا تو عقدہ یہ کھلا کہ واش روم کا بٹن آف کرتے ہوئے پوری طرح آف نہیں ہوا تھا بلکہ بیچ میں معلق رہ گیا تھا کئی لوگوں کو اس طرح کا تجربہ ہوتا ہوگا۔ اب جب بیچ میں معلق رہ گیا تو نیچے کی طرف جھکاو زیادہ تھا اس لئے کچھ ہی دیر میں نیچے ہوگیا اور لائٹ آن ہوگئی۔ تو جناب ساری ایکسائٹمنٹ کی ایسی تیسی ہو کر رہ گئی۔