محترم شمشاد ، رانا ، تعبیر ، محمود احمد غزنوی ، گمنام زندگی ، نیرنگ خیال ، فرحت کیانی ،یوسف ثانی ،مغل ، نایاب ، نیلم ، بابا جی اور عزیزم فاتح ! سچ بیتی کی پسندیدگی کا اور حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ ،
آج جو اپنی زندگی کا پورا ورق آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اس میں آپ جیسے نوجوانوں کے لیے بہت سبق ہے
۱۹۶۸ میں میں نے گورنمنٹ ہائی سکول نمبر ۲ سےمیٹرک کیا اور گونمنٹ کالج کوہاٹ میں داخلہ لے لیا یہ دور پاکستان میں سیاست کے آغاز کا دور تھا ہر طرف ایوب خان کے خلاف ہنگامے ہورہے تھے کیا مشرقی پاکستان اور کیا مغربی پاکستان ، ہمارا نیا نیا خون تھا میری عمر پندرہ سال کی تھی مگر آج کے بچوں کی طرح پپو بچہ نہ تھا سٹریٹ لرننگ بہت تھی ہاں زندگی میں سٹریٹ لرننگ بہت کام آتی ہے آج کی سیاست میں آصف زرداری ، رحمان ملک اور الطاف حسین کو یہ علم حاصل ہے جبکہ بیشتر سیاستدان ،ڈرائنگ روم کی سیاست کرتے ہیں۔ ہاں تو بات ہورہی تھی داخلہ لینے کے بعد ہم بھی اسی کو اپنی زندگی سمجھے اور اپنے مقصد سے دور ہوتے گئے نتیجہ یہ نکلا جو ایف اے ۱۹۷۰ میں کرنا تھا وہ ۱۹۷۲ تک نہ ہوسکا اور میٹرک کے میٹرک ہی رہے ۔آخر تعلیم کو خیر آباد کہا اور فرنٹیر کیمیکلز کے نام سے سائنسی آلات اور کیمیکلز کی دکان کھول لی ۔ یہا ں آپ کو عجیب بات بتاوں ہم بعض دفعہ آدمی کے ظاہر کو دیکھ کر بہت غلط اندازہ لگا لیتے ہیں ۔ جن صاحب نے مجھے اس دکان کا مشورہ دیا تھا وہ درہ آدم خیل میں اسلحہ سازی کرتے تھے اس زمانے میں درہ آدم خیل اسلحے کے لئے ملک اور بیرون ملک مشہور تھا ۔ ان صاحب کی سفید ڈاڑھی آنکھوں سے تھوڑا نیچے سے شروع ہوتی تھی اور کنگ سٹارک کی سگریٹ پیتے تھے ۔ان سے ملاقات لاہور میں اپننے چچا کی ورکشاپ میں ہوئی وہ وہاں اپنی کوئی مشین بنانے آئے تھے مزے کی بات بتاوں چچا نے دوران گفتگو کوئی لفظ انگریزی کا بول دیا تو ان صاحب نے اپنے چار دن کے قیام میں ایک لفظ اردو کا نہیں بولا انگریزی ہی میں گفتگو کرتے انتہائی سادہ زندگی گزارنے والا یہ عبد الرحمان آفریدی پٹھان مجھ سے بہت شفقت سے ملا ۔میں گاہے گاہے گپ شپ کے لیے اور مشوروں کے لیے ان کے پاس درہ آدم خیل جاتا ۔بہر حال ان کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے میں نے کیمیکلز کا کا روبار شروع کیا۔ صوبہ سرحد میں یہ اپنی نوعیت کی تیسری اور کوہاٹ میں واحد دکان تھی بہت کامیابی ہوئی ۔ بے پناہ پیسہ کمایا ڈیرہ اسماعیل خان کی آخری سرحد پروہا سے لے کر دیر ، لنڈیکوتل ، پارہ چنار ،وزیرستان اور مردان پشاور ایبٹ آباد تک میرے ٹھیکے چلتے تھے ۔ میرے مرحوم والد اور بڑی ہمشیرہ میرے کاروبار سے نا خوش تھے ۔کیونکہ بغیر رشوت دئے ٹھیکہ نہیں ملتا اور کیمیکلز و سا ئنسی آلات ، میں اتنی دھاندلی اور دو نمبری ہے کہ الاماں الحفیظ ۔ چونے کا پانی ، کیلشیم ہائیڈرو آکسائد کہلاتا ہے اور اس دور میں ۱۵ پیسےمیں بننے والی بوتل چالیس روپے کی بیچتا تھا ، اسی طرح پھتکڑی ،ایلم پوٹاش ، دھوبی سوڈا ، کیلشیم کاربونیٹ وغیرہ اس کے علاوہ زووالوجی لیبارٹری کے لئے محفوظ اور حنوط شدہ جانور ، ان کی علیحدہ داستان ہے ۔بلی کی کھالیں بھی سائنسی سامان بھی آتی تھی ۔ مضمون طویل ہو رہا ہے خیر اگر پڑھنا چاہیں تو قسطوں میں پڑھ لیجیے گا ۔ ایک دفعہ میران شاہ کے بیس مڈل سکولوں کے لئے ریڈی ایٹر کی ڈیمانڈ آئی میں نے اپنی دانست میں گاڑی کے ریڈیایٹر کے ٹن کے ماڈل کا اندزہ لگایا اور بتیس روپے فی کا ریٹ دے دیا یہ انہیں بیس درجن چاہیے تھے ریٹ منظور ہوگیاجب میں لاہور کے آبکاری روڈ ، انارکلی کی مارکیٹ میں گیا تو پتہ چلا کہ یہ شیشے کی ایک ٹیوب ہوتی ہے جو چھے روپے درجن ہے ۔ میں نے وہ سپلائی کردی منافع کا حساب آپ لگا لیں ۔ بہر حال والد مرحوم اور بڑی ہمشیرہ کی مخالفت کے باوجود میں یہ کاروبار کرتا رہا ۔ والدہ کا انتقال جب میں چھٹی جماعت کا امتحان دے رہا تھا اسی دور ہی میں ہوگیا تھا ۔بڑی ہمشیرہ جو شادی شدہ تھیں کہا کرتی تھیں کہ زبیر ایک وقت آئے گا کہ اس حرام کمائی کے باعث تمہاری دعا بھی قبول نہ ہو گی آپ یقین کریں کہ اس کاروبار میں سینکڑوں تعلیمی اداروں کو سامان سپلائی کیا مگر گنتی کے دو تین مرد ایسے ملے جو رشوت نہ لیتے تھے باقی سب خوب دبا کر لیتے تھے اور خواتین میں سے صرف ایک خاتون ملیں جو کالج کی پرنسپل تھیں جنہوں نے رشوت لی باقی کسی نے نہ لی ۔ ۱۹۸۰ میں مجھے بھی اس حقیقت کا احساس ہوا کہ اتنے اچھے کاروبار سے کوئی جائداد وغیرہ بن نہیں رہی بس اچھا کھا پی کر ہی گزارہ ہو رہا ہے ۔ میں نے اللہ سے توبہ کی اور دعا کی کہ مجے کوئی اور کاروبار پر لگادے ۔ حالات نے پلٹہاکھایا اور میں نے جنرل سٹور کھول لیا ۔ کوہاٹ میں نیشنل فوڈز کی ڈسٹریبیوٹر شپ لی محنت کی صبح سات بجے دکان کھولتا اور رات گیارہ بجے بند کرتا ۔ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کی وجہ سے بہت ذمہ داری تھی کاروبا ر سے اخراجات اچھی طرح پورے ہو رہے تھے بہنٰیں ایم فل اور ماسٹرز وغیرہ کررہی تھیں یونیورسٹی پشاور میں تھی ہاسٹل اور تعلیمی اخراجات اللہ کی مدد سے پورے ہورہے تھے والد صاحب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے اور میں ابھی تک میٹرک کا میٹرک ۔ دوست احباب اور تعلیمی اداروں کے پرانے گاہک مجھے بہت کہتے کہ ساتھ ساتھ ٹھیکیداری بھی کرتے رہو یہ ایک ایسا ٹیکنیکل کام تھا جو تجربے ہی سے آتا ہے مگر میں انکار کرتا رہا ۔ ۱۹۸۱ آگیا میں نے سوچا کہ ایف اے کر ہی لوں ا۹۸۲ میں میٹرک کے چودہ سال بعد میں نے ایف کیا کتنا وقت برباد ہوا حساب آپ کریں اور ۱۹۸۴ میں پشاور یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے کیا ۔ ۱۹۸۳ میں میری دکان کی روزانہ کی سیل چار ہزار سے اوپر ہوتی اور نیشنل فوڈز کی آمدن علیحدہ تھی معقول آمدن تھی دوستوں کی ترغیب کی وجہ سے میں نے دوبارہ پانچ چھے ٹھیکے لے لئے ۔ اب اللہ کی قدرت دیکھیے کہ جس دکان سے میں روزانہ چار پانچ ہزار کی سیل لے کر جاتا ایک دن میں صرف چالیس روپے یعنی دس دس کے چار نوٹ لے کر رات کو گیا ۔ وجہ سمجھ میں یہی آئی کہ اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ یہ بندہ پھر گندگی اور غلاظت کیطرف جارہا ہے تو حلال کی کمائی بند کردی ۔ بڑا زور دار جھٹکا تھا ۔ خیر توبہ کا دروازہ تو بند نہیں ہوتا ۔ جیسے ہی ٹھیکے ختم ہوئے میں نے ہمیشہ کے لیے ٹھیکیداری چھوڑ دی ۔ اب قدرت نے کچھ اور منظر دکھائے کوہاٹ کے ایک اس دور کے کروڑ پتی تاجر کو جو بزرگ تھے اپنے بیٹے کی شادی کے موقعے پر کسی کی ہوائی فئر نگ کی وجہ سے پولیس نے گرفتار کر لیا ہتھکڑیاں لگائیں اور تھانے لے گئے گو کہ ان کی ضمانت ہو گئی لیکن مجھ پر شدید اثر ہوا کہ دکاندار کی کیا عزت ہے دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ میرے سامنے کا دکاندار بیمار ہو گیا دکان بند ہو گئی خرچہ بڑھتے رہے اور آمدن ختم ہو گئی تو میں نے سوچا زبیر اگر تم بیمار ہو گئے تو یہ سارا کیا ہوگا میرا تو کوئی بھی نہ تھا والد صاحب ضعیف تھے۔ اسی دوران پاک فضائیہ میں ملازمت کا اشتہار آگیا ، تدریس کے لئے جونئر کمیشنڈ آ فیسر کی اسامیاں تھیں گریجویٹ مانگے تھے درخواست دی ٹیسٹ وغیرہ پاس کیے اور ۱۹۸۵ میں پاک فضا ئیہ میں بھرتی ہو گیا ۔شعبہ تدریس تھا ۱۹۹۴ میں بی اے کے تقریباً دس سال بعد اردو میں ایم اے کیا بعد میں فضائیہ کے تعلقات عامہ شعبے میںآ گیا جہاں سے ۲۰۰۸ میں اعزازی فلائیٹ لیفٹنٹ کے طور پر ریٹائر ہوا ۔ اللہ کا شکر ہے اب میری اولاد مکمل حلال کمائی پر پرورش پا رہی ہے گو کہ جائداد نام کی کوئی شے نہیں مگر سکون ہے۔ میں نے جو سیکھا وہ یہ کہ ہر امر کا ایک وقت مقرر ہے جو اس وقت واقعہ ہوتا ہے کوشش فرض ہے کہ نہ جانے وہ وقت کب ہو ۔حلال کی کمائی میں جو سکوں اور عزت ہے وہ حرام میں نہیں ہے کسی کی حق تلفی نہ کریں آپ کی حق کی حفاظت اللہ کرتا ہے ۔ کسی ظاہری حیثیت کو مت دیکھیں ہو سکتا ہے وہ شخص آپ سے زیادہ خوبیوں کا مالک ہو کیونکہ اللہ تبارک ٰ تعالیٰ انسان کو وہ تمام صلا حیتیں عطا کر کے اس دنیا میں بھیجتے ہیں جو اس کے زندگی کے سفر میں کام آتی ہیں
بہت ہی پیار ےساتھیو ! آپ نے میری سر گزشت پڑھی یقیناً دل گردے کا کام ہے ایک بوڑھے کی اتنی لمبی داستان پڑھنا ۔اس کے لیے میں آ پ کا بے حد مشکور ہوں ۔ اللہ آپ سب کےحلال رزق میں کشادگی عطا فرمائے اور دونوں جہانوں کی کامیابیاں اور خوشیاں عطا فرمائے اور میرا سفر آسان کردے (آمین) آج چھے ستمبر کو میری بیٹی سیدہ آمنہ بتول کی ۲۳ ویں سالگرہ ہے اس کے متعلق میں اگلے ماہ تحریر کرونگا بشرط زندگی۔