صرف سچ بیتیاں

تلمیذ

لائبریرین
یہ دھاگہ تو انتہائی معیاری لگتا ہے، فراز جی۔ نہ جانے کیسے نظر سے اوجھل رہا۔ شروع سے پڑھنے لائق ہے۔، اور یہ بات فرصت سے مشروط ہے۔ لیکن آپ کا شکریہ واجب ہے۔ کہ آپ نے اس کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔
باباجی
 

سید ذیشان

محفلین
یہ بھی ایک جناتی واقعہ ہے لیکن انسانوں کے روپ میں جنات!

سردیوں کے دن تھے اور کرکٹ کا ورلڈ کپ زور و شور سے چل رہا تھا، تو ہم سارے کزن اور رشتہ دار مل کر دیکھتے تھے۔ شام کو سارے بڑے جابز سے آ جاتے تو ہم سب بچوں پر یہ پابندی تھی کہ مغرب اور عشاء کی نماز باجماعت پڑھنی ہے۔ عین مغرب کے وقت پاکستان کا بہت اہم میچ چل رہا تھا اور بچے تو ویسے بھی کرکٹ کے شیدائی ہوتے ہیں تو ہم سب بھی تھے۔ نماز پڑھنے کی چھوٹ تو کسی صورت میں نہیں مل سکتی تھی اس کی وجہ خدا کے ڈر سے زیادہ ماموں کا ڈر ہوتا تھا :p اس کا حل ایک کزن نے یہ نکالا کہ جیکٹ کی جیب میں چھوٹا ریڈیو چھپا دیا اور کانوں میں ہیڈ فون لگا کر سر اور گردن کے گرد مفلر لپیٹ دیا تاکہ کسی کو نظر نہ آئے۔ اس نے سگنل مقرر کئے کہ اگر چوکا لگا تو گلا صاف کرے گا، چھکا لگا تو کھانسے گا، اور اگر کوئی آوٹ ہو گیا تو زور سے کھانسے گا۔ اسطرح ہم عبادت کے دوران بھی میچ کی صورت حال سے جناتی طور پر آگاہ ہوتے تھے۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ بات تو آپ کو باباجی بھائی سے کرنی چاہیے کہ دھاگہ ان کا ہے میرا نہیں:rolleyes:
واہ جی واہ۔۔۔ آوازیں مار مار کر تم سواریاں بلاؤ۔۔۔ اور جب وہ بس نہ چلنے کا شکوہ کریں تو کہو کہ استاد سے بات کرو۔۔ بس تو اس نے چلانی۔۔۔ :cautious:
یہ تو اچھی بات نہیں۔۔۔ :evil:
 
واہ جی واہ۔۔۔ آوازیں مار مار کر تم سواریاں بلاؤ۔۔۔ اور جب وہ بس نہ چلنے کا شکوہ کریں تو کہو کہ استاد سے بات کرو۔۔ بس تو اس نے چلانی۔۔۔ :cautious:
یہ تو اچھی بات نہیں۔۔۔ :evil:
میرا کام تو صرف سواریاں بلانا ہے:cool:
گڈی چلانا "استاد جی" کا کام ہے ہاں:rolleyes:
 
سچ بیتیوں سے بھری زندگی کے کچھ اولین واقعات میں سے ایک شئیر کر رہا ہوں۔

اس وقت میں شاید سات یا آٹھ سال کا تھا۔ اور ہم کوئٹہ میں جیل روڈ ہدہ میں رہا کرتے تھے۔ گھر میں بہنوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے بعد جب امی سے پٹنے کا اندیشہ ہوا تو فوراََ باہر کو بھاگا۔گلی کے بائیں اختتام کے بعد جیل روڈ کے آس پاس کے علاقوں کا بہت بڑا قبرستان پڑتا تھا میں وہاںسبز گھاس کے ایک قطعہ پر کھیلنا شروع ہو گیا کافی دیر بعد ایک جیپ آ کر رکی اور اس میں سے ایک شخص نکل کر میرے پاس آیا اور بولا بیٹا تمہیں تمہارے ابو بلا رہے ہیں۔ اور میں نے جی کہا اور چل دیا انہوں نے کہا آ جاؤ ہم چھوڑ دیں تمہیں اور میں فوراََ جیپ پہ بیٹھ گیا۔ وہ اس راستے پر نہیں گئے جہاں ہمارا فارم تھا بلکہ اس کی مخالف سمت میں سمنگلی روڈ کی طرف چلے گئے، لیکن میں گاڑی میں گھومنے کی خوشی میں بیٹھا رہا۔ سمنگلی روڈ پر کوئٹہ کا ائیر بیس آتا ہے اور روڈ کے ساتھ ہی تھا، اور مجھے یاد ہے کہ جنگی جہاز بڑی تعداد میں آیا اور جایا کرتے تھے۔ بیس کے قریب سے گزرتے ہوئے جب جہاز پوری طاقت سے گرجتے سنے تو دل دھل گیا اور ڈر کر رونا شروع کر دیا۔ میرے رونے پر انہوں نے مجھے ڈانٹا اور خاموش رہنے کی تلقین کی جس پر میں نے اور بھی زیادہ شدت سے رونا شروع کر دیا اور امی اور ابو کو پکارنے لگا روتے روتے۔ بیس کے کافی بعد کوئٹہ کی آخری چیک پوسٹ آتی ہے اور اس کے بعد شاید کچلاک کی حدود شروع ہو جاتی ہے۔ آخری چیک پوسٹ پر پولیس نے حسبِ معمول جیپ روکی اور ان سے کچھ پوچھ تاچھ کی اور فوراََ میرے رونے کو نوٹ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے تو انہوں نے کہا یہ ہمارا بچہ ہے پولیس والوں نے کہا یہ بچہ تم لوگوں کا کیسے ہو سکتا ہے یہ تو پنجابی ہے اور اپنے امی ابو کے لیے رو رہا ہے اتارو اسے نیچے، چنانچہ پولیس والوں نے مجھے نیچے اتارا اور مجھ سے میرے بارے میں پوچھنے لگے، بس اس لمحے کو ان جیپ والوں نے غنیمت جانا اور فوراََ گاڑی بھگا دی۔ پھر پتہ ہیں کیسے کیسے ان پولیس والوں نے ایک گاڑی منگوائی اور مجھ سے لی گئی معلومات کی روشنی میں میرے محلے پہنچا کر محلے والوں سے میرے بارے میں پوچھا اور ان کو واقعہ بھی بتایا، کچھ لوگ ان کے ساتھ ہمارے گھر تک آئے اور دروازہ بجایا تو ابو تو تھے نہیں تو والدہ نے گھر سے استفسار کیا کون تو پولیس والوں نے بتایا کہ آپ کا بچہ گم ہوا تھا اور ہم اسے اغوا ہونے سے بچا لائے ہیں۔ والدہ کے تو گمان میں بھی ایسا کچھ نہیں تھا کیوں کہ ہم عموماََ ایک دو گھنٹہ باہر کھیلا کرتے تھے۔ تو والدہ نے انہیں جواب دیا کہ نہیں جی ہمارا بچہ تو ادھر ہی باہر ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے کھیلنے گیا ہے۔ پھر پولیس والوں نے بتایا کہ جی بچے نے اپنا نام امجد اور والد کا نام میانداد بتایا ہے۔ تو فوراََ امی کا دل دھل گیا اور جب پولیس والوں نے سارا واقعہ بتایا تو امی مجھے گلے لگا لگا کر روتی رہیں اور پھر تو یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور کتنے عرصے تک محلے والے، رشتہ دار عزیز اس واقعہ کے بارے میں پوچھنے کے لیے آتے رہے اور امی آج بھی ان پولیس والوں کو بہت دعائیں دیتی ہیں کہ جن کو وسیلہ بنا کر اللہ نے مجھے میرے ماں باپ سے دوبارہ ملوا دیا۔
بس اس کے بعد میرا گاڑی پہ سواری کا شوق ہوا ہو گیا اور باہر کھیلنا بلوغت تک ہی بند یا بہت محدود رہا۔
ایک بات اور بھی کہ جہازوں کی ویسی گھن گھرج سمنگلی بیس کے علاوہ میں نے کبھی کہیں نہیں سنی شاید میراج طیارے ہوا کرتے تھے اور ایک بلاسٹ سا ہوتا تھا گویا آواز کا اور دل دھل جایا کرتا تھا۔ شاید میں بہت چھوٹا تھا اس لیے کم اور چھوٹی چیزیں بھی بہت زیادہ اور بڑی یاد آتی ہیں۔
 
محترم شمشاد ، رانا ، تعبیر ، محمود احمد غزنوی ، گمنام زندگی ، نیرنگ خیال ، فرحت کیانی ،یوسف ثانی ،مغل ، نایاب ، نیلم ، بابا جی اور عزیزم فاتح ! سچ بیتی کی پسندیدگی کا اور حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ ،
آج جو اپنی زندگی کا پورا ورق آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اس میں آپ جیسے نوجوانوں کے لیے بہت سبق ہے
۱۹۶۸ میں میں نے گورنمنٹ ہائی سکول نمبر ۲ سےمیٹرک کیا اور گونمنٹ کالج کوہاٹ میں داخلہ لے لیا یہ دور پاکستان میں سیاست کے آغاز کا دور تھا ہر طرف ایوب خان کے خلاف ہنگامے ہورہے تھے کیا مشرقی پاکستان اور کیا مغربی پاکستان ، ہمارا نیا نیا خون تھا میری عمر پندرہ سال کی تھی مگر آج کے بچوں کی طرح پپو بچہ نہ تھا سٹریٹ لرننگ بہت تھی ہاں زندگی میں سٹریٹ لرننگ بہت کام آتی ہے آج کی سیاست میں آصف زرداری ، رحمان ملک اور الطاف حسین کو یہ علم حاصل ہے جبکہ بیشتر سیاستدان ،ڈرائنگ روم کی سیاست کرتے ہیں۔ ہاں تو بات ہورہی تھی داخلہ لینے کے بعد ہم بھی اسی کو اپنی زندگی سمجھے اور اپنے مقصد سے دور ہوتے گئے نتیجہ یہ نکلا جو ایف اے ۱۹۷۰ میں کرنا تھا وہ ۱۹۷۲ تک نہ ہوسکا اور میٹرک کے میٹرک ہی رہے ۔آخر تعلیم کو خیر آباد کہا اور فرنٹیر کیمیکلز کے نام سے سائنسی آلات اور کیمیکلز کی دکان کھول لی ۔ یہا ں آپ کو عجیب بات بتاوں ہم بعض دفعہ آدمی کے ظاہر کو دیکھ کر بہت غلط اندازہ لگا لیتے ہیں ۔ جن صاحب نے مجھے اس دکان کا مشورہ دیا تھا وہ درہ آدم خیل میں اسلحہ سازی کرتے تھے اس زمانے میں درہ آدم خیل اسلحے کے لئے ملک اور بیرون ملک مشہور تھا ۔ ان صاحب کی سفید ڈاڑھی آنکھوں سے تھوڑا نیچے سے شروع ہوتی تھی اور کنگ سٹارک کی سگریٹ پیتے تھے ۔ان سے ملاقات لاہور میں اپننے چچا کی ورکشاپ میں ہوئی وہ وہاں اپنی کوئی مشین بنانے آئے تھے مزے کی بات بتاوں چچا نے دوران گفتگو کوئی لفظ انگریزی کا بول دیا تو ان صاحب نے اپنے چار دن کے قیام میں ایک لفظ اردو کا نہیں بولا انگریزی ہی میں گفتگو کرتے انتہائی سادہ زندگی گزارنے والا یہ عبد الرحمان آفریدی پٹھان مجھ سے بہت شفقت سے ملا ۔میں گاہے گاہے گپ شپ کے لیے اور مشوروں کے لیے ان کے پاس درہ آدم خیل جاتا ۔بہر حال ان کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے میں نے کیمیکلز کا کا روبار شروع کیا۔ صوبہ سرحد میں یہ اپنی نوعیت کی تیسری اور کوہاٹ میں واحد دکان تھی بہت کامیابی ہوئی ۔ بے پناہ پیسہ کمایا ڈیرہ اسماعیل خان کی آخری سرحد پروہا سے لے کر دیر ، لنڈیکوتل ، پارہ چنار ،وزیرستان اور مردان پشاور ایبٹ آباد تک میرے ٹھیکے چلتے تھے ۔ میرے مرحوم والد اور بڑی ہمشیرہ میرے کاروبار سے نا خوش تھے ۔کیونکہ بغیر رشوت دئے ٹھیکہ نہیں ملتا اور کیمیکلز و سا ئنسی آلات ، میں اتنی دھاندلی اور دو نمبری ہے کہ الاماں الحفیظ ۔ چونے کا پانی ، کیلشیم ہائیڈرو آکسائد کہلاتا ہے اور اس دور میں ۱۵ پیسےمیں بننے والی بوتل چالیس روپے کی بیچتا تھا ، اسی طرح پھتکڑی ،ایلم پوٹاش ، دھوبی سوڈا ، کیلشیم کاربونیٹ وغیرہ اس کے علاوہ زووالوجی لیبارٹری کے لئے محفوظ اور حنوط شدہ جانور ، ان کی علیحدہ داستان ہے ۔بلی کی کھالیں بھی سائنسی سامان بھی آتی تھی ۔ مضمون طویل ہو رہا ہے خیر اگر پڑھنا چاہیں تو قسطوں میں پڑھ لیجیے گا ۔ ایک دفعہ میران شاہ کے بیس مڈل سکولوں کے لئے ریڈی ایٹر کی ڈیمانڈ آئی میں نے اپنی دانست میں گاڑی کے ریڈیایٹر کے ٹن کے ماڈل کا اندزہ لگایا اور بتیس روپے فی کا ریٹ دے دیا یہ انہیں بیس درجن چاہیے تھے ریٹ منظور ہوگیاجب میں لاہور کے آبکاری روڈ ، انارکلی کی مارکیٹ میں گیا تو پتہ چلا کہ یہ شیشے کی ایک ٹیوب ہوتی ہے جو چھے روپے درجن ہے ۔ میں نے وہ سپلائی کردی منافع کا حساب آپ لگا لیں ۔ بہر حال والد مرحوم اور بڑی ہمشیرہ کی مخالفت کے باوجود میں یہ کاروبار کرتا رہا ۔ والدہ کا انتقال جب میں چھٹی جماعت کا امتحان دے رہا تھا اسی دور ہی میں ہوگیا تھا ۔بڑی ہمشیرہ جو شادی شدہ تھیں کہا کرتی تھیں کہ زبیر ایک وقت آئے گا کہ اس حرام کمائی کے باعث تمہاری دعا بھی قبول نہ ہو گی آپ یقین کریں کہ اس کاروبار میں سینکڑوں تعلیمی اداروں کو سامان سپلائی کیا مگر گنتی کے دو تین مرد ایسے ملے جو رشوت نہ لیتے تھے باقی سب خوب دبا کر لیتے تھے اور خواتین میں سے صرف ایک خاتون ملیں جو کالج کی پرنسپل تھیں جنہوں نے رشوت لی باقی کسی نے نہ لی ۔ ۱۹۸۰ میں مجھے بھی اس حقیقت کا احساس ہوا کہ اتنے اچھے کاروبار سے کوئی جائداد وغیرہ بن نہیں رہی بس اچھا کھا پی کر ہی گزارہ ہو رہا ہے ۔ میں نے اللہ سے توبہ کی اور دعا کی کہ مجے کوئی اور کاروبار پر لگادے ۔ حالات نے پلٹہاکھایا اور میں نے جنرل سٹور کھول لیا ۔ کوہاٹ میں نیشنل فوڈز کی ڈسٹریبیوٹر شپ لی محنت کی صبح سات بجے دکان کھولتا اور رات گیارہ بجے بند کرتا ۔ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کی وجہ سے بہت ذمہ داری تھی کاروبا ر سے اخراجات اچھی طرح پورے ہو رہے تھے بہنٰیں ایم فل اور ماسٹرز وغیرہ کررہی تھیں یونیورسٹی پشاور میں تھی ہاسٹل اور تعلیمی اخراجات اللہ کی مدد سے پورے ہورہے تھے والد صاحب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے اور میں ابھی تک میٹرک کا میٹرک ۔ دوست احباب اور تعلیمی اداروں کے پرانے گاہک مجھے بہت کہتے کہ ساتھ ساتھ ٹھیکیداری بھی کرتے رہو یہ ایک ایسا ٹیکنیکل کام تھا جو تجربے ہی سے آتا ہے مگر میں انکار کرتا رہا ۔ ۱۹۸۱ آگیا میں نے سوچا کہ ایف اے کر ہی لوں ا۹۸۲ میں میٹرک کے چودہ سال بعد میں نے ایف کیا کتنا وقت برباد ہوا حساب آپ کریں اور ۱۹۸۴ میں پشاور یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے کیا ۔ ۱۹۸۳ میں میری دکان کی روزانہ کی سیل چار ہزار سے اوپر ہوتی اور نیشنل فوڈز کی آمدن علیحدہ تھی معقول آمدن تھی دوستوں کی ترغیب کی وجہ سے میں نے دوبارہ پانچ چھے ٹھیکے لے لئے ۔ اب اللہ کی قدرت دیکھیے کہ جس دکان سے میں روزانہ چار پانچ ہزار کی سیل لے کر جاتا ایک دن میں صرف چالیس روپے یعنی دس دس کے چار نوٹ لے کر رات کو گیا ۔ وجہ سمجھ میں یہی آئی کہ اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ یہ بندہ پھر گندگی اور غلاظت کیطرف جارہا ہے تو حلال کی کمائی بند کردی ۔ بڑا زور دار جھٹکا تھا ۔ خیر توبہ کا دروازہ تو بند نہیں ہوتا ۔ جیسے ہی ٹھیکے ختم ہوئے میں نے ہمیشہ کے لیے ٹھیکیداری چھوڑ دی ۔ اب قدرت نے کچھ اور منظر دکھائے کوہاٹ کے ایک اس دور کے کروڑ پتی تاجر کو جو بزرگ تھے اپنے بیٹے کی شادی کے موقعے پر کسی کی ہوائی فئر نگ کی وجہ سے پولیس نے گرفتار کر لیا ہتھکڑیاں لگائیں اور تھانے لے گئے گو کہ ان کی ضمانت ہو گئی لیکن مجھ پر شدید اثر ہوا کہ دکاندار کی کیا عزت ہے دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ میرے سامنے کا دکاندار بیمار ہو گیا دکان بند ہو گئی خرچہ بڑھتے رہے اور آمدن ختم ہو گئی تو میں نے سوچا زبیر اگر تم بیمار ہو گئے تو یہ سارا کیا ہوگا میرا تو کوئی بھی نہ تھا والد صاحب ضعیف تھے۔ اسی دوران پاک فضائیہ میں ملازمت کا اشتہار آگیا ، تدریس کے لئے جونئر کمیشنڈ آ فیسر کی اسامیاں تھیں گریجویٹ مانگے تھے درخواست دی ٹیسٹ وغیرہ پاس کیے اور ۱۹۸۵ میں پاک فضا ئیہ میں بھرتی ہو گیا ۔شعبہ تدریس تھا ۱۹۹۴ میں بی اے کے تقریباً دس سال بعد اردو میں ایم اے کیا بعد میں فضائیہ کے تعلقات عامہ شعبے میںآ گیا جہاں سے ۲۰۰۸ میں اعزازی فلائیٹ لیفٹنٹ کے طور پر ریٹائر ہوا ۔ اللہ کا شکر ہے اب میری اولاد مکمل حلال کمائی پر پرورش پا رہی ہے گو کہ جائداد نام کی کوئی شے نہیں مگر سکون ہے۔ میں نے جو سیکھا وہ یہ کہ ہر امر کا ایک وقت مقرر ہے جو اس وقت واقعہ ہوتا ہے کوشش فرض ہے کہ نہ جانے وہ وقت کب ہو ۔حلال کی کمائی میں جو سکوں اور عزت ہے وہ حرام میں نہیں ہے کسی کی حق تلفی نہ کریں آپ کی حق کی حفاظت اللہ کرتا ہے ۔ کسی ظاہری حیثیت کو مت دیکھیں ہو سکتا ہے وہ شخص آپ سے زیادہ خوبیوں کا مالک ہو کیونکہ اللہ تبارک ٰ تعالیٰ انسان کو وہ تمام صلا حیتیں عطا کر کے اس دنیا میں بھیجتے ہیں جو اس کے زندگی کے سفر میں کام آتی ہیں
بہت ہی پیار ےساتھیو ! آپ نے میری سر گزشت پڑھی یقیناً دل گردے کا کام ہے ایک بوڑھے کی اتنی لمبی داستان پڑھنا ۔اس کے لیے میں آ پ کا بے حد مشکور ہوں ۔ اللہ آپ سب کےحلال رزق میں کشادگی عطا فرمائے اور دونوں جہانوں کی کامیابیاں اور خوشیاں عطا فرمائے اور میرا سفر آسان کردے (آمین) آج چھے ستمبر کو میری بیٹی سیدہ آمنہ بتول کی ۲۳ ویں سالگرہ ہے اس کے متعلق میں اگلے ماہ تحریر کرونگا بشرط زندگی۔
بہت دلچسپ اور نصحیت آموز
آپ بہت بہادر انسان ہیں سب کچھ سچ سچ بیان کر دیا
اللہ آپ کو ڈھیروں سعادتیں عطا فرمائے آمین
 
محترم بھائی روحانی بابا
کیا آپ کی مراد اس بوٹی سے جو کہ خودرو کانٹے دار پودا ہے جو عموماً ریگستان میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ پودا اونٹ کی مرغوب غذا ہے۔ اسے سچی بوٹی بھی کہتے ہیں اور حکمت میں خون کے امراض میں استعمال کیا جاتا ہے ۔؟
باقی لانا یا سجی کھار سے ناواقف ہوں ۔
جس بوٹی کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کا نام اونٹ کٹارا ہے سجی کھار اور چیز ہے
 
سات سال گزر چکے تھے گھر سے دور رہتے ، اللہ کے فضل سے کفیل کے ساتھ ہوا معاملہ سلجھ چکا تھا ۔ گھر جانے سب سے ملنے کی بہت شدید خواہش تھی ۔ مگر ابھی وسائل نہ تھے کہ سفر کر سکوں ۔ اللہ انہیں سدا اپنے کرم سے نوازے جن دوستوں نے میری کیفیت کو سمجھا ۔ اور مل جل کر مجھے آنے جانے کا ٹکٹ اور ری اینٹری ویزا لگوا کر دے دیا ۔ چار دن کے بعد کی فلائٹ تھی ۔ اک طرف اگر گھر والوں سے ملنے کی خوشی تھی اور دوسری جانب اتنے عرصے کے بعد بھی خالی ہاتھ گھر جانے کا دکھ بھی ۔ جمعےکا دن تھا گھر فون کیا والدہ کو اپنے آنے کا بتایا اور ساتھ اپنے حالات سے بھی آگہی دی ۔ والدہ نے میرے آنسوؤں کو محسوس کر لیا اور کہنے لگیں کہ اللہ بے نیاز ہے وہ انشاءاللہ اپنا کرم کرے گا ۔ اگر اس تمام عرصے میں اس نے تیری دستگیری کی ہے تو ان شاءاللہ اب بھی تجھے رسوا نہیں ہونے دے گا ۔ تسلی دلاسہ دعا پا کر دل کچھ کچھ مطمئن ہوا ۔ مگر حقیقت تو سامنے تھی کہ اتنے عرصے بعد خالی ہاتھ گھر پہنچنا ہے ۔ نماز کا وقت ہوا میں چل پڑا مسجد کی جانب ۔ نماز کیا پڑھنی تھی بس گلہ شکوے اور سوچوں میں گم رہا ۔ جب مسجد سے باہر آیا تو دروازے پر اک بوڑھی عورت مانگنے والی بیٹھی تھی ۔ میری جیب میں صرف پانچ روپے تھے ۔ اسے دیکھ دل میں ہنسا کہ لے نایاب اب پانچ اسے دے گا تو سگریٹ کی ڈبیا کے لیئے ادھار کرنا پڑے گا ۔ وہ پانچ ریال اسے دیئے ۔ اور اپنے روم کی جانب آ گیا ۔ سوچنے لگا کہ یہ کیسی نیکی ہے میں نے ۔" گھر میں نہیں دانے اماں چلی بھنانے " والی مثال ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
اپنی رہائیشی بلڈنگ کے دروازے سے اندر قدم رکھنے لگا تو پیچھے سے آواز آئی ۔
" یا باکستانی کہربائی " پیچھے مڑ کر دیکھا تو اک سعودی کار میں بیٹھا مجھے بلا رہا تھا ۔ میں اس کی جانب گیا تو کہنے لگا کہ
میں کل ہی سفر سے واپس آیا ہوں اور بیوی نے بتایا ہے کہ تو نے موٹر پانی والی ٹھیک کی تھی ۔ اس کی مزدوری باقی ہے ۔
کتنی مزدوری ہے اس کی ۔ ؟
میں نے کہا کہ " شیخ موٹر ٹھیک تھی بس تار اتر گئی " اور اس کی کیا مزدوری ۔
کہنے لگا نہیں جو تیرا حق ہے وہ تو ضرور لے ۔ اور زبردستی مجھے پچاس ریال دے دیئے ۔
پچاس ریال لے کر یہ سوچتا کہ " دس دنیا ستر آخر کھرا اصول ہے رب کا " ابھی کمرے میں قدم ہی رکھا تھا کہ
فون کی گھنٹی بجی ۔ فون ریسیو کیا تو اک ہسپتال میں کچھ مشینوں کے لیئے وائرنگ کی تھی ۔ اس کے مالک کا فون تھا کہ
فوری اس سے ملوں ۔ اگر صبح یہ فون آتا تو میرے پاس جانے کے لیئے کرایہ بھی نہ ہونے کے باعث اسے ٹال دیتا ۔
مگر اب جیب میں پچاس ریال تھے ۔ سو فوری ٹیکسی پکڑی اور اس کے پاس پہنچ گیا ۔
وہاں پہنچ کر دیکھا کہ مالک انجینئر سب پریشان بیٹھے ہیں ۔
مالک کہنے لگا کہ ہمیں جو وائرنگ ڈائیگرام ملا تھا اس میں سب مشینیں ٹو فیز تھیں ۔
اور اب جو مشینیں پہنچی ہیں وہ تھری فیز ہیں ۔ ہسپتال کی بلڈنگ مکمل تیار ہے ۔
اور ان تمام مشینوں کی وائرنگ زیر زمین ہے ۔ اب سارا فرش اکھاڑا جائے تو وائرنگ بدلی جا سکتی ہے ۔
فرش اکھاڑنے کا مطلب اک طرح سے ہسپتال میں بنے تقریبا سب ہی پارٹیشن روم اکھاڑنے پڑتے ۔
اور اس تمام کام میں کم از کم چھ ماہ مزید لگ جانے ہیں ۔ میں نے ان کی پرابلم کو سنا ۔
میرے دل نے کہا کہ اللہ نے سبیل بنا دی ہے ۔ میں نے مالک سے کہا
" شیخ اگر میں بنا کچھ اکھاڑے ہی تار پوری کر دوں تو کیا انعام دے گا "؟
کہنے لگا کہ تو کیا مانگتا ہے ۔ ؟
میں نے شیخ مجھے گھر جانا ہے اور میرے پاس پیسہ نہیں ہے ۔
میرا تیرا کام کر دیتا ہوں تو جو مناسب سمجھے مجھے دے دینا ۔
اور ساتھ میں کچھ رقم بطور ادھار کہ اگر واپس آیا تو ادا کر دوں گا ۔
اس نے کہا کوئی فکر نہ کر اور کام شروع کر دے ۔
میں دو مزدور ساتھ لیئے اور کام شروع کر دیا ۔ دو دن میں کام مکمل کر دیا ۔
اور شیخ کو فون کیا کہ کام مکمل ہے ۔ اس نے کہا کہ دو گھنٹے تک وہ آ جائے گا ۔
دو گھنٹے بعد وہ آیا اور انجینئرز کے ساتھ کام کو چیک کیا ۔
سب اوکے ہوگیا تو مجھے اپنے ساتھ مارکیٹ لے گیا اور کہنے لگا کہ جو بھی خریدنا چاہتا ہے خرید لے
میں نے کہا کہ شیخ مجھے نقد ضرورت ہے ، کہنے لگا کہ کتنے میں تیری ضرورت پوری ہوجائے گی ۔
میں نے دو دن کام کیا تھا دو مزدور ساتھ تھے بہت بھی زیادہ چھرا پھیرتا تو تین ہزار ریال سے زیادہ نہ بنتے ۔
میں کہا کہ شخ میری ضرورت تو پانچ ہزار کی ہے ۔
اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر گاڑی موڑ کر مجھ سے پوچھا کہ تیری رہائیش کہاں ہے ۔
اسے اپنی رہائیش کا بتایا ۔ تو کہنے لگا کہ میں پہنچا دیتا ہوں ۔
میں دل میں سوچنے لگا کہ پیسے نہیں دے رہا یہ تو ۔
ویسے ہی باتوں سے پورا کر رہا ہے ۔ گاڑی میری رہائیش کے سامنے رکی ۔
میں نیچے اترا اپنے اوزاروں کا تھیلا اتارا ۔
اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور اک لفافہ مجھے پکڑا " یہ تیرا نصیب نہیں بلکہ حق ہے ۔" کہتے زن سے گاڑی نکال لے گیا ۔
میں سوچنے لگا کہ یہ تو مجھے ہی چھرا پھیر گیا ۔
بہرحال جب بجھے دل سے لفافے کو کھولا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ دس ہزار ریال تھے ۔
بلا شک اللہ بے نیاز ہے اور دکھی مایوسی کی حد تک پہنچے دل کی پکار کو بہت نزدیک سے سنتا ہے ۔
آنکھیں نم ہو گئیں
اللہ دینات داری اور محنت کبھی ضائع نہیں کرتا
اللہ ہمیشہ شاد و آباد رکھے آمین
 
Top