الف عین
لائبریرین
ہزار پارہ ہے کاسۂ سر، شگاف سے مغز بہہ رہا ہے
نہ مُردوں میں ہے نہ زندوں میں ہے
دعائیں مرنے کی مانگتے ہیں
کھڑا ہوا ہے فرشتۂ موت سامنے پھر بھی مرنا مشکل
درختِ زقّوم سے غذائیں گناہ گاروں کو مل رہی ہیں
درختِ زقّوم، آگ سے جو اُگا ہوا ہے
گناہ سے جیسے اس کی لذّت کا سبزپودا اُگا ہوا ہو
غذا یہ ان کے بطون میں پگھلے تانبے جیسی ابل رہی ہے
مریض اونٹوں کی پیاس!
درختِ زقّوم کی غذا کھا کے پی رہے ہیں ابلتا پانی
درختِ زقّوم نفسِ امّارہ سے اُگا ہے
تہہِ جہنم جڑیں ہیں اس کی
کہ نفس، امّارہ کا جہنم ہے استعارہ
ہمارے اندر جو کالی آواز گاہے گاہے پکارتی ہے
درِ جہنم کی چرچراہٹ سے اپنا لہجہ سنوارتی ہے ۹۵۹
نہ مُردوں میں ہے نہ زندوں میں ہے
دعائیں مرنے کی مانگتے ہیں
کھڑا ہوا ہے فرشتۂ موت سامنے پھر بھی مرنا مشکل
درختِ زقّوم سے غذائیں گناہ گاروں کو مل رہی ہیں
درختِ زقّوم، آگ سے جو اُگا ہوا ہے
گناہ سے جیسے اس کی لذّت کا سبزپودا اُگا ہوا ہو
غذا یہ ان کے بطون میں پگھلے تانبے جیسی ابل رہی ہے
مریض اونٹوں کی پیاس!
درختِ زقّوم کی غذا کھا کے پی رہے ہیں ابلتا پانی
درختِ زقّوم نفسِ امّارہ سے اُگا ہے
تہہِ جہنم جڑیں ہیں اس کی
کہ نفس، امّارہ کا جہنم ہے استعارہ
ہمارے اندر جو کالی آواز گاہے گاہے پکارتی ہے
درِ جہنم کی چرچراہٹ سے اپنا لہجہ سنوارتی ہے ۹۵۹