بلوچستان کے حالات میں اگرچہ 2008ء کے مقابلے میں سیاسی طورپرکچھ نہ کچھ بہتری آئی ہے لیکن عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے میدان میں رئیسانی حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہ اتر سکی ۔
رئیسانی حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ میں بلوچستان کا حصہ بڑھا اور صوبائی بجٹ میں ایک سو ارب روپے تک کا اضافہ ہوا لیکن اٹھارہویں ترمیم کے بعد کئی محکمے صوبے کو منتقل ہونے سے غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ ہوا ۔تیس ارب روپے کا سالانہ صوبائی ترقیاتی بجٹ زمین پر نظر نہیں آیا ۔ بدعنوانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ جو رکن صوبائی اسمبلی 2008ء میں رکنیت کا حلف اٹھانے رکشے میں آیا وہ آج گاڑیوں کے قافلے میں گھومتا ہے ۔
پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی ، مسلم لیگ ق اور اے این پی کی مخلوط صوبائی حکومت نے گوادر پورٹ کی بحالی ، ریکوڈک منصوبے کو خود چلانےکی کوششیں کیں لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ یہ منصوبے کامیاب ہوتے تو اس سے نہ صرف صوبے بلکہ ملک کی تقدیر بھی بدل سکتی تھی لیکن ان منصوبوں کی کامیابی کےلئے وفاق نے صوبے کی کوئی مدد نہ کی۔
امن وامان کی بات کی جائے تو اس میں بھی کوئی بہتری نہ آسکی ۔ 2008ء میں تین سو تیس افراد ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کا نشانہ بنے تو 2011ء اور 2012ء میں بھی یہ سالانہ اوسط 300 سے زیادہ رہی اور 2013ء میں 150 افراد اب تک ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں لقمہ اجل بن چکے ہیںِ ۔ گزشتہ تین سالوں سے بلوچ عسکریت پسندوں اور لاپتہ سیاسی کارکنوں کی 400 سے زائد لاشیں بھی ملیں۔ امن و امان کی اس صورتحال کی ذمہ دارصوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاق اور سیکورٹی ادارے بھی ہیں
امن وامان کی موجودہ صورتحال صوبے میں آئندہ عام انتخابات کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ جھالاوان( خضدار، قلات، خاران، آواران ) اور مکران (گوادر، پنجگور، کیچ ، تربت ) کے علاقوں میں انتخابات کا عمل خونی ثابت ہوسکتا ہے ۔