صوبہ جنوبی پنجاب

ہم عام پاکستانی بھی نہیں سمجھتے، فکر نہ کریں :)
ہم ضرور سمجھتے ہیں۔ ہمارے مذہبی لوگ بالکل انکار کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہونے کے علاوہ بھی کچھ پہچان رکھتے ہیں۔اسی لیے کچھ مولوی قسم کے لوگوں نے اوپر سرائیکی صوبے کا تصور غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ ان کے لیے صرف عربی ثقافت قابلِ قبول ہے۔

جہاں تک انگریزی والے طبقے کا تعلق ہے، ان کا حال آپ پر ظاہر ہوگا۔ یہاں اونچے طبقے کے افراد تو دور کی بات ہے، کم سے کم معاشی حیثیت والا شخص بھی انگریزی میں فیسبک اپڈیٹ لکھے گا، جتنی انگریزی اسے آتی ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
میں ذاتی طور پر ڈی سینٹرلائزڈ حکومت کا حامی ہوں۔ اسی لئے ہمیشہ سے بلدیاتی اداروں کے کردار کو مضبوط کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہوں۔دنیا بھر میں جمہوریت کو عوامی سطح پر لے جانے کے لئے بلدیاتی ادارے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مقامی مسائل کے حل کے لئے فیصلہ سازی بھی مقامی سطح پر ہی کی جانی چاہئے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے بھی اپنے آئین کی تہترویں اور چوہترویں ترامیم کے ذریعے بلدیاتی اداروں کو انتظامی اور مالی خودمختاری دے دی لیکن ہم اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے ۔ہمارے ملک میں تو بلدیاتی انتخابات کروانے کے لئے بھی سپریم کورٹ کو ہی میدان میں آنا پڑا۔
مگر سپریم کورٹ کے دباو کے بعد بھی صوبوں نے اپنے اپنے بلدیاتی نظام کے لئے جو قانون سازی کی اس میں نہ تو ان اداروں کو کوئی مالیاتی خودمختاری دی گئی اور نہ ہی انتظامی طاقت۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بلدیاتی اداروں کو آئین پاکستان کے تابع تحفظ دے کر ان کے اختیارات کو واضح کیا جاتا۔ صوبوں پر لازم کیا جاتا کہ وہ این ایف سی کی طرز پر صوبائی مالیاتی ایوارڈ کا اعلان کریں جس کے بعدہر ضلع کو اس کے حصے کے فنڈز براہ راست ٹرانسفر کر دیئے جاتے۔ پھر ضلع کی سطح پر ہی فیصلہ کیا جاتا کہ کن ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنا ہے لیکن چونکہ ہمارے سیاستدان تمام تر اقتدار اپنے پاس رکھنے کے خواہشمند ہیں اس لئے بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے سے گریزاںہیں۔
 
ہم ضرور سمجھتے ہیں۔ ہمارے مذہبی لوگ بالکل انکار کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہونے کے علاوہ بھی کچھ پہچان رکھتے ہیں۔اسی لیے کچھ مولوی قسم کے لوگوں نے اوپر سرائیکی صوبے کا تصور غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ ان کے لیے صرف عربی ثقافت قابلِ قبول ہے۔

جہاں تک انگریزی والے طبقے کا تعلق ہے، ان کا حال آپ پر ظاہر ہوگا۔ یہاں اونچے طبقے کے افراد تو دور کی بات ہے، کم سے کم معاشی حیثیت والا شخص بھی انگریزی میں فیسبک اپڈیٹ لکھے گا، جتنی انگریزی اسے آتی ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔
پاکستانیوں کی اکثریت ایسا نہیں سمجھتی اگر کچھ لوگ سمجھتے ہیں تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
 

عباس اعوان

محفلین
x118923_20455285.jpg.pagespeed.ic.8XYQBC_1lT.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
میں میںسے اپنی قراردار میں نظامی صاحب کی پیش کی گئی جزوی ترمیم کو سیکنڈ کرتا ہوں
جئے گوجرانوالہ صوبہ
آپ کی آواز کوئی نہیں سنے گا جب تک آپ چند ارکان اسمبلی کا گروپ نہ بنائیں جس کا نام گوجرانوالا صوبہ محاذ ہو۔
 

الف نظامی

لائبریرین
  • ترکی کو دیکھیے، ترکی کی ساڑھے سات کروڑ آبادی ہے 81 صوبے ہیں
  • ایران کی ساڑھے چھ کروڑ کے قریب آبادی 30 صوبے ہیں
  • جاپان کی ساڑھے بارہ کروڑ سے زائد آبادی میں 47 صوبے ہیں
  • چائنہ کی ایک سو پینتیس کروڑ آبادی 33 صوبے ہیں
  • ملائشیا کی 3 کروڑ کے قریب آبادی 15 صوبے ہیں
  • امریکہ کی 30 کروڑ 13 لاکھ آبادی 50 اسٹیٹس ہیں، ویت نام کی 9 کروڑ آبادی اور 58 سٹیٹ ہیں
  • الجیریا کی ساڑھے تین کروڑ آبادی اور 48 صوبے ہیں
  • کینیا کی 4 کروڑ کے نزدیک آبادی ہے 26 صوبے ہیں
  • فرانس کی ساڑھے 6 کروڑ آبادی 26 صوبے ہیں
  • اٹلی کی ساڑھے 6 کروڑ کے قریب آبادی 20 صوبے
  • روس کی 14 کروڑ آبادی 83 صوبے
اور ہماری 18 کروڑ آبادی صرف 4 صوبے
اتنا بڑا شرم ناک تماشا اختیارات کو جمع کرنے کا دنیا میں کہیں نہیں۔

میں نے ساری دنیا کا حکومتی نقشہ آپ کے سامنے رکھ دیا۔ دنیا کے سارے ممالک نے اختیارات چالیس چالیس، پچاس پچاس، ستر سترصوبے بنا کے نیچے تقسیم کر دئیے، مرکز کے پاس امریکہ جیسا ملک صرف 15 وزیر، ساڑھے انیس ہزار لوکل گورنمنٹس پورا امریکہ 1900 مئیر، ناظم چلا رہے ہیں؛ اوبامہ نہیں چلا رہا۔ اوباما امریکہ کے اوپر کے معاملات کو دیکھتا ہے، ملک عوام کے حقوق کو مئیر چلاتے ہیں۔ یہی نظام ترکی کا، یہی نظام جاپان کا، یہی چائنہ کا، یہی ایران کا، یہیں ملائشیا کا سب ملکوں کا یہی نظام۔

ہمارے چار صوبے تا کہ گردنیں اکڑی رہیں، اختیارات بڑھیں۔
میں یہ عرض کر رہا تھا کہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے تماشا بنا رکھا ہے اور اختیارات یا مرکز کے پاس یا بڑے بڑے چار صوبوں کے پاس، عوام کلیتاً محروم۔ جس نے رحیم یار خان اور صادق آباد سے چلنا ہے وہ عدل و انصاف لینے کے لیے لاہور آئے، ظلم کی انتہا ہے۔ راجن پور سے چلنے والا لاہور آئے۔ بلوچستان کے اندرون سے چلنے والا کوئٹہ جائے، اندرون سندھ سے جانے والا کراچی جائے۔

میں جو ویژن دینا چاہتا ہوں پاکستان کیا نیا ماڈل اس میں پاکستان کے کم سے کم 35 صوبے ہونے چاہئے۔ جب تک 35 صوبے، مطلب ہر ڈویژن صوبہ ہو گا اور فاٹا بھی صوبہ بنے گا، پانا بھی صوبہ بنے گا۔ ہر ڈویژن کو صوبہ اور کمشنر کا فنڈ اس صوبے کے گورنر کو دے دیا جائے، دنیا کے کسی ملک میں انڈیا کے سوا، کسی صوبے میں وزیر اعلیٰ نہیں ہوتا۔ کسی صوبے میں صوبائی وزراء نہیں ہوتے پاکستان کے صوبوں سے وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزارتوں کو ختم کرنا ہوگا تا کہ ارب ہا روپے کے فنڈ جو حرام خوری، عیاشی اور سرکاری پروٹوکول پہ جاتے ہیں وہ براہ راست غریبوں میں تقسیم ہو سکیں اور صوبے کا گورنر کمشنر کی جگہ اور ضلعے پر مئیر ہو گا، وی سی کمشنر ختم کر دئیے جائیں اور تحصیل پر ڈپٹی میئر ہوگا۔ عوام کے منتخب نمائندے ان کے حکمران۔
اور مرکز کے پاس صرف پانچ محکمے ہونے چاہیے تا کہ مرکز کی عیاشی بھی ختم کی جائے: صرف سٹیٹ بینک اور کرنسی، دفاع، خارجہ پالیسی، ہائیر ایجوکیشن، اِن لینڈ سکیورٹی اور کاؤنٹر ٹیررزم تاکہ پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم ہو۔ اس طرح کے چند محکمے، پانچ سے سات محکمے مرکز کے پاس باقی سارے محکمے صوبوں کو منتقل کر دئیے جائیں اور صوبوں کے بعد پھر وہ سارے محکمے ضلعی حکومتوں کو منتقل کر دئیے جائیں۔ ٹرانسپورٹ بھی ضلعی حکومت کے پاس، پانی، بجلی، سوئی گیس، واٹر، فوڈ، ایجوکیشن، میڈیکل، سکیورٹی، سڑکیں، پولیس سب اختیارات ضلعی حکومتوں کو دے دئیے جائیں تا کہ وہاں کے ٹیکس وہاں لگیں اور لوگوں کو براہ راست داد رسی مل سکے۔ اور یہ فراڈ بڑے بڑے حکمرانوں کا ختم کر دیا جائے، ان بتوں کو پاش پاش کر دیا جائے۔
(ڈاکٹر طاہر القادری ، 17 مارچ 2013 لیاقت باغ راولپنڈی میں خطاب)
 

الف نظامی

لائبریرین
14 دسمبر ، 2019
پریس کانفرنس کے دوران صحافی کےسوال کے جواب میں فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ تحریک انصاف کو اسمبلیوں میں واضح اکثریت حاصل نہیں، یہی وجہ ہےکہ سرائیکی صوبے کا قیام ممکن نہیں۔
خیال رہے کہ 9 مئی 2012ء کو پنجاب اسمبلی اپنی الگ قراردادوں میں متفقہ طورپر بہاولپور صوبہ اور جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کی منظوری دے چکی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے قومی اسمبلی میں بل بھی پیش کرچکی ہے۔
 
اگر سرائیکستان کا نام جنوبی پنجاب رکھا گیا تو کیا خیال ہے، خیبر پختونخواہ کا نام شمالی پنجاب ہونا چاہیے، بلوچستان کا مغربی پنجاب ، آزادکشمیر کا شمال مشرقی پنجاب۔ عجیب ذہنیت ہے ان لوگوں کی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اگر سرائیکستان کا نام جنوبی پنجاب رکھا گیا تو کیا خیال ہے، خیبر پختونخواہ کا نام شمالی پنجاب ہونا چاہیے، بلوچستان کا مغربی پنجاب ، آزادکشمیر کا شمال مشرقی پنجاب۔ عجیب ذہنیت ہے ان لوگوں کی۔
آپ کے خیال پر منحصر ہے جو مرضی خیال کریں۔ عجیب ذہنیت کا اس سے تعلق تو تب بنے جب اس کا مطالبہ کہیں سے ہو ۔آپ ہی کا خیال اور آپ ہی کی ذہنیت سے جمہور کے بارے میں کیا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
 

A jabbar

محفلین
  • ترکی کو دیکھیے، ترکی کی ساڑھے سات کروڑ آبادی ہے 81 صوبے ہیں
  • ایران کی ساڑھے چھ کروڑ کے قریب آبادی 30 صوبے ہیں
  • جاپان کی ساڑھے بارہ کروڑ سے زائد آبادی میں 47 صوبے ہیں
  • چائنہ کی ایک سو پینتیس کروڑ آبادی 33 صوبے ہیں
  • ملائشیا کی 3 کروڑ کے قریب آبادی 15 صوبے ہیں
  • امریکہ کی 30 کروڑ 13 لاکھ آبادی 50 اسٹیٹس ہیں، ویت نام کی 9 کروڑ آبادی اور 58 سٹیٹ ہیں
  • الجیریا کی ساڑھے تین کروڑ آبادی اور 48 صوبے ہیں
  • کینیا کی 4 کروڑ کے نزدیک آبادی ہے 26 صوبے ہیں
  • فرانس کی ساڑھے 6 کروڑ آبادی 26 صوبے ہیں
  • اٹلی کی ساڑھے 6 کروڑ کے قریب آبادی 20 صوبے
  • روس کی 14 کروڑ آبادی 83 صوبے
اور ہماری 18 کروڑ آبادی صرف 4 صوبے
اتنا بڑا شرم ناک تماشا اختیارات کو جمع کرنے کا دنیا میں کہیں نہیں
محترم نظامی صاحب، ان ممالک کی مثال سامنے رکھتے ہوئے کیا بہتر نہیں ہوگا کہ پاکستان کے تمام انتظامی ڈویژنز جو تیس سے زائد ہیں کو صوبوں کا درجہ دے دیا جائے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
محترم نظامی صاحب، ان ممالک کی مثال سامنے رکھتے ہوئے کیا بہتر نہیں ہوگا کہ پاکستان کے تمام انتظامی ڈویژنز جو تیس سے زائد ہیں کو صوبوں کا درجہ دے دیا جائے؟
مناسب یہ ہوگا کہ ایک صوبہ دو ڈویژنز پر مشتمل ہو، یعنی زیادہ سے زیادہ 15 صوبے ۔
 
آخری تدوین:
Top