اچھا؟؟
میں نے تو سنا تھا کہ آدمی ایک خدا کی اطاعت کرنے سے ہر قسم کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔
آپ نے درست سنا تھا۔ سمجھا غلط۔
خدا کی اطاعت کرنے والا علائقِ دنیوی سے آزاد نہیں ہوتا بلکہ بےنیاز ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑی آزادی کیا ہو سکتی ہے؟
نیز کیا آپ ان تمام لوگوں کو جن کا میں نے ذکر کیا ہے خدا کے مطیع سمجھتے ہیں؟
بھولے اس کے قول و قسم پر، ہائے خیالِ خام کیا
مذہب کے بارے میں اس حقیقت کا ادراک کم لوگ رکھتے ہیں کہ اس نے کبھی بھی مادی دنیا کو جنت بنانے کا وعدہ نہیں دیا۔ ہیگل جس جدلیات (dialectics) کو کائنات کے خمیر میں موجود تضاد دکھانے کے لیے کام میں لایا ہے، مذہب اس کا ادراک پہلے سے رکھتا ہے۔ کائنات کا خالق اپنی کائنات کی بنت سے واقف ہے اور خوب جانتا ہے کہ اس کی نیو میں استحکام اس نے رکھا ہی نہیں۔ اضداد کے پہیے کو جو چکر اس نے دے دیا ہے وہ تاقیامت خیر سے شر اور شر سے خیر پیدا کرتا رہے گا مگر کبھی کسی ایک کا استیلا نہیں ہونے دے گا۔
دنیا میں غلام بھی رہیں گے اور آقا بھی۔ رنگ بھی رہے گا اور بےرنگی بھی۔ خوشبو بھی اور تعفن بھی۔ غم بھی اور خوشی بھی۔ انسان کی غلط فہمی ہے کہ وہ انھیں پیدا یا فنا کر سکتا ہے۔ یہ نقیضین دراصل خود ایک دوسرے کے وجود کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک مثالی دنیا کا جو خواب انسان دیکھتا ہے جس میں خوشی غم کے کھٹکے سے یکسر آزاد ہو، اسے اصلاً مذہب ہی نے دکھایا ہے۔ مگر مذہب نے اس خواب کی تعبیر کی بابت اسے آگاہ کیا تھا کہ وہ دراصل ایک اور جہان میں ظاہر ہو گی۔ یہ محض انسان کی خودفریبی، عجلت اور جہالت کا شاخسانہ ہے کہ وہ اس جنت کو یہیں پر قائم کر لینا چاہتا ہے۔
وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا۔
آپ متفق ہیں کہ مذہب غلامی یا غلامانہ نظام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس سے بالاتر ایک آزاد معاشرے کا ایسا کوئی تصور یا ترغیب فراہم نہیں کرتا لہذا سیکولر جمہوری معاشروں اور ریاستوں کا مقدمہ یہاں واضح ہے۔
جی، میں بالکل متفق ہوں۔ وجہ میں نے اوپر عرض کر دی ہے۔
"فطرتاً غلام" پیدا ہونے کی کوئی وجہ تو سمجھ میں نہیں آتی۔ بحیثیتِ مجموعی ہر انسان سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
قبلہ، میں پیشے کے لحاظ سے معلم ہوں۔ مجھے اپنے سے چھوٹوں اور بڑوں دونوں کو پڑھانے کا ایک عشرے پر محیط تجربہ ہے۔ شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ تعلیم و تدریس کے معاملے میں میں اچھا خاصا behaviourist واقع ہوا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ مناسب تربیت کسی فرد کے طرزِ حیات پر غیرمعمولی حد تک اثرانداز ہو سکتی ہے۔
مگر کبھی آپ نے غور فرمایا کہ وہ کیا شے ہے جس پر ہم تربیت کے ذریعے اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں؟ وہ جسے ہم مبہم سے انداز میں انسانی فطرت کہہ دیتے ہیں کیا واقعی اتنی بےرنگ ہے کہ اس پر ہر ملمع پھب سکتا ہے؟ کیا انسانی ذہن کی لوحِ سادہ (tabula rasa) پر سچ مچ ہر قلم چل سکتا ہے؟ اچھا، اگر یوں ہی ہے تو فرد کا ارادہ (free will) کیا شے ہے؟ اس کا وظیفہ کیا ہے؟ اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اب اگر ارادے کی بات کی جائے تو دراصل یہیں پر فرد کی غلامی یا آزادی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ارادے کی آزادی محض کسی مخصوص شے کی تمنا کرنے اور اس کی جستجو میں رواں ہونے کی اہلیت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک جوہر ہے جو فرد کی پوری زندگی کو اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے۔ ایک غلام آزادی کی تمنا کرتا ہے اور اسے حاصل کر لیتا ہے۔ دوسرا جستجو کرتا ہے اور منہ کی کھاتا ہے۔ ایک آزادہ اپنی آزادگی کی حفاظت پر مستعد ہوتا ہے اور دوسرا اسے غنیم کے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔ کیا یہ فقط حالات کا شاخسانہ ہو سکتا ہے؟ کیا دونوں کے جوہر ہائے ذاتی میں کوئی فرق نہیں؟ کیا ہردو مثال میں ہردو اشخاص کو بچپن ہی سے ایک جیسے (controlled) حالات میں رکھا جائے اور ایک سی تربیت فراہم کی جائے تو آپ جیتے جاگتے انسانوں سے مشینوں کی طرح مماثل (identical) نتائج حاصل کر سکیں گے؟
ممکن ہے آپ نکتہ اٹھائیں کہ ایک جیسے حالات فراہم کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس سے اتفاق مگر نظامِ حیات کا یہی جبر تو غلامی اور آزادی کا فرق پیدا کرتا ہے۔
جو چاہیں سو آپ کریں ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا
اس معاملے پر زیادہ واضح طور پر ایک اور زاویے سے بھی نگاہ کی جا سکتی ہے۔ جسمانی طور پر مختلف استعدادوں اور معذوریوں کے شکار انسانوں کا پیدا ہونا کیا غیرفطری ہے؟ اگر نہیں، اور یقیناً نہیں، تو ذہنی استعدادیں، جو فرد کی زندگی کی غلامانہ یا آزادانہ نوعیت وغیرہ کا تعین کرتی ہیں، کیونکر غیرفطری ہو گئیں؟ جدید نفسیات تو خیر سے ذہن کو مغزِ سر ہی کا فعل خیال کرتی ہے جو جسم کا ایک ایسا ہی عضو ہے جیسے ہاتھ، پاؤں، ناک یا کان وغیرہ۔ ہاتھ پاؤں مختلف ہو سکتے ہیں تو بھلا ذہن کیوں نہیں؟
---
طالب بھائی، میں جب دہریہ ہوا کرتا تھا تو متدین حضرات کا خیال تھا میرے خمیر میں سرکشی ہے۔ میں کبھی سیدھی راہ پر نہیں آ سکتا۔ مگر مجھے ان کی بجائے سچائی سے زیادہ دلچسپی تھی۔ یہ تو تقدیر کی ستم ظریفی ہے کہ اس دلچسپی نے پایانِ کار مجھے صفِ دشمناں ہی میں لا کھڑا کیا ہے۔ تاہم میرا منشور آج بھی وہی ہے۔
Plato is dear to me, but dearer still is truth.
Aristotle -
مجھے آج کا انسانیت پسندانہ (humanistic) فلسفہ فی الحال تو محض ایک فریب معلوم ہوتا ہے۔ اگر وقت نے ثابت کیا اور میری عقل اس لائق ہوئی کہ اس کے دعاویٰ کی تصدیق کر سکے تو مجھے لارڈ رسل کے بقول پریوں کی کہانیوں میں جینے کا کوئی شوق نہیں۔