محترم ساجد بھائی
گویا جو بھی " دہشت گردی " انتہا پسندی " کی بنیاد کی جانب اشارہ کرے گا ۔
وہ اسلامی اقدار کے خلاف اپنے اندر کی سڑاند باہر نکالے گا ۔
برادرِ عزیز ، بہ نظر عمیق جائزہ لیں کہ میں نے اپنے مراسلے میں ایک فقرہ لکھا ہے کہ ضیاء نے '
شدت پسندوں کو پنپنے کے شاندار مواقع فراہم کئے'۔
میں ضعفِ دماغ کا مریض ہوں نہ نسیان کا کہ اپنے لکھے ایک فقرے کو بھول کر کسی "مُصلح" پر اسی بات پر تنقید کروں کہ جس کا میں خود اقراری ہوں۔
محترم ، شاید استعمار کے حربوں پر یہاں لکھنا مناسب نہ ہو گا کہ کیسے کسی قوم میں تشدد اور لاقانونیت پیدا کر کے پھر اس کے ایک گروپ سے ہمدردی جتا کر قوم کو تقسیم در تقسیم سے کیسے دوچار کیا جاتا ہے۔ چلیں چھوڑیں اس بات کو میرے کچھ محترم دوست شاید مجھے دائیں بازو کا حامی کہہ کر کوئی منطق تلاش کر لیں میں اپنی بات کہتا ہوں کہ جب طالبان کی دہشت گردیوں کا ذکر ہوتا ہے تو کیا مجھ سے زیادہ کسی نے ان جانوروں کی مذمت کی ہے؟۔
دہشت گردی اور اس کے اسباب پر میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں لیکن ان سب باتوں کی آڑ میں کوئی ہمارے جذبات سے کھلواڑ کرے اور اظہار مذمت کی بجائے اسلامی اقدار پر ہی بکواس کرنا شروع کر دے تو کیا یہ دہشت گردی کی مذمت کہلوائے گی یا کسی ایجنڈے کی تکمیل؟۔
موصوف کالم نگار نے ضیاء کی زیادتیوں پر جو کچھ بھی لکھا میں نے ہرگز اس پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اپنے مراسلے میں اس کی تائید کی ہے لیکن ان پیشہ ور صحافی نے جس مکاری سے ضیاء کے کاندھے پر بندوق کی نشست جما کر اسلامی عقائد و طرز حیات پر تابڑ توڑ حملے کئے ہیں انہیں محسوس کیجیے۔اب بتائیے کہ موبائل رنگ ٹون ، حجاب ، نقاب ، نکاح نامے روز مرہ امور و اسلامی عقائد کو دہشت گردی سے جوڑنے کی جو سعی یہ صاحب یہاں کرتے نظر آتے ہیں وہ کہاں تک کامیابی حاصل کر چکی ہے کہ لگتا ہے آپ جیسے معاملہ فہم بھی ان کے چکر میں آ گئے۔ یہ باتیں مارننگ ود فرح جیسی روشن خیال خاتون فرح کی اس ناراضگی کو میرے دماغ میں تازہ کر رہیں ہیں جس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے ٹی وی پر کہا تھا کہ اسی بی بی سی کے ایک نمائندے نے ان سے جو انٹرویو کیا اسے توڑ مروڑ کر یوں ایڈٹ کر کے پیش کر دیا کہ گویا پاکستان میں خواتین پر سخت پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔
آپ اپنی رائے میں آزاد ہیں لیکن جس نکتے کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ میں محفل کے دھاگوں پر اس سے قبل بھی بہت بار ثبوتوں کے ساتھ بی بی سی کے گراوٹی معیار پر لکھ چکا ہوں ۔ ایک واقعہ میں تو انہوں نے میاں چنوں میں اراضی کے درمیان دو گروپوں کے درمیان تنازعہ کو عیسائیوں پر مسلمانوں کے ظلم و تشدد کا رنگ بھر کر بڑی خبر کے طور پر پیش کر دیا تھا اور یہ خبر میں نے صحافت کے زمرے میں شامل کی تھی۔ اس نشریاتی ادارے کے پاکستان مخالف مشن کی کچھ مزید جھلکیاں "صحافت" کے دھاگے میں موجود ہیں۔