ضیاء زندہ ہے

عثمان

محفلین
یہ کلاشنکوف کلچر ، یہ مساجد میں فائرنگ ، یہ مسلح مذہبی جماعتیں ، ان کی سب کی پیدائش ضیائی مہربانی ہے ، جو ملک اب تک بھگت رہا ہے۔ درحقیقت ضیاء نے مذہب کو ہتھیار بنا کر پاکستان کا جتنا کباڑ کیا ہے اتنا پاکستان میں اس سے پہلے اور بعد آنے والے لوگ مل کر بھی نہ کر سکے۔ پاکستان ایک بالکل مختلف سمت پر نظر آتا ہے۔ بہتر یا ابتر ؟ ۔۔۔ سب سامنے ہے۔
 
مذہبی اور لبرل انتہا پسندی ضیاء سے پہلے بھی تھی اور بعد میں بھی ، ۔۔۔دیکھ لیجئے 1954 میں لاہور میں جو فسادات ہوئے، 1973 میں ہوئے ، ان کی ذمہ داری کس پر ڈالیں گے۔۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انتہاپسندی پہلے بھی تھی معاشرے میں ۔۔۔ضیاءالحق نے اپنے وقت کے حالات کے مطابق اس انتہاپسندی سے فائدہ اٹھانا چاہا (افغان جنگ میں ایندھن کی فراہمی کیلئے، اور اپنے اقتدار کو اسلام کے نام پر طول دینے کیلئے)۔۔۔اس مقصد کیلئے انہوں نے سیاسی انتشار کا بھرپور فائدہ اٹھایا، بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا۔۔۔لیکن افغان وار میں روس کی شکست وریخت کے بعد یہ لوگ اس قدر باہمی خونریزیاں کریں گے اور اسلام کے نام پر اس طرح کے گل کھلائیں گے اور معاشرے کی یہ درگت کریں گے، یہ شائد ضیاءالحق کے بھی حاشیہءِ خیال میں کبھی نہ گذرا ہوگا۔۔۔۔بہرحال ی سب ایک پاکستان کے سیاسی و سماجی evolution کا ایک حصہ ہے۔۔۔جب گرد چھٹ جائے گی تو معاملات سیٹل ہوجائیں گے۔۔ایک عربی شعر ہے :
سوف تریٰ اذا انجلی الغبار
افرس تحت رجلک ام حمار۔۔
یعنی ۔۔۔عنقریب، غبار کے چھٹتے ہی تمہیں نظر آجائے گا کہ تم کس شئے پر سوار ہو، گھوڑا یا گدھا۔۔۔:D
 

ساجد

محفلین
محترم ساجد بھائی
گویا جو بھی " دہشت گردی " انتہا پسندی " کی بنیاد کی جانب اشارہ کرے گا ۔
وہ اسلامی اقدار کے خلاف اپنے اندر کی سڑاند باہر نکالے گا ۔
برادرِ عزیز ، بہ نظر عمیق جائزہ لیں کہ میں نے اپنے مراسلے میں ایک فقرہ لکھا ہے کہ ضیاء نے ' شدت پسندوں کو پنپنے کے شاندار مواقع فراہم کئے
میں ضعفِ دماغ کا مریض ہوں نہ نسیان کا کہ اپنے لکھے ایک فقرے کو بھول کر کسی "مُصلح" پر اسی بات پر تنقید کروں کہ جس کا میں خود اقراری ہوں۔
محترم ، شاید استعمار کے حربوں پر یہاں لکھنا مناسب نہ ہو گا کہ کیسے کسی قوم میں تشدد اور لاقانونیت پیدا کر کے پھر اس کے ایک گروپ سے ہمدردی جتا کر قوم کو تقسیم در تقسیم سے کیسے دوچار کیا جاتا ہے۔ چلیں چھوڑیں اس بات کو میرے کچھ محترم دوست شاید مجھے دائیں بازو کا حامی کہہ کر کوئی منطق تلاش کر لیں میں اپنی بات کہتا ہوں کہ جب طالبان کی دہشت گردیوں کا ذکر ہوتا ہے تو کیا مجھ سے زیادہ کسی نے ان جانوروں کی مذمت کی ہے؟۔
دہشت گردی اور اس کے اسباب پر میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں لیکن ان سب باتوں کی آڑ میں کوئی ہمارے جذبات سے کھلواڑ کرے اور اظہار مذمت کی بجائے اسلامی اقدار پر ہی بکواس کرنا شروع کر دے تو کیا یہ دہشت گردی کی مذمت کہلوائے گی یا کسی ایجنڈے کی تکمیل؟۔
موصوف کالم نگار نے ضیاء کی زیادتیوں پر جو کچھ بھی لکھا میں نے ہرگز اس پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اپنے مراسلے میں اس کی تائید کی ہے لیکن ان پیشہ ور صحافی نے جس مکاری سے ضیاء کے کاندھے پر بندوق کی نشست جما کر اسلامی عقائد و طرز حیات پر تابڑ توڑ حملے کئے ہیں انہیں محسوس کیجیے۔اب بتائیے کہ موبائل رنگ ٹون ، حجاب ، نقاب ، نکاح نامے روز مرہ امور و اسلامی عقائد کو دہشت گردی سے جوڑنے کی جو سعی یہ صاحب یہاں کرتے نظر آتے ہیں وہ کہاں تک کامیابی حاصل کر چکی ہے کہ لگتا ہے آپ جیسے معاملہ فہم بھی ان کے چکر میں آ گئے۔ یہ باتیں مارننگ ود فرح جیسی روشن خیال خاتون فرح کی اس ناراضگی کو میرے دماغ میں تازہ کر رہیں ہیں جس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے ٹی وی پر کہا تھا کہ اسی بی بی سی کے ایک نمائندے نے ان سے جو انٹرویو کیا اسے توڑ مروڑ کر یوں ایڈٹ کر کے پیش کر دیا کہ گویا پاکستان میں خواتین پر سخت پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔
آپ اپنی رائے میں آزاد ہیں لیکن جس نکتے کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ میں محفل کے دھاگوں پر اس سے قبل بھی بہت بار ثبوتوں کے ساتھ بی بی سی کے گراوٹی معیار پر لکھ چکا ہوں ۔ ایک واقعہ میں تو انہوں نے میاں چنوں میں اراضی کے درمیان دو گروپوں کے درمیان تنازعہ کو عیسائیوں پر مسلمانوں کے ظلم و تشدد کا رنگ بھر کر بڑی خبر کے طور پر پیش کر دیا تھا اور یہ خبر میں نے صحافت کے زمرے میں شامل کی تھی۔ اس نشریاتی ادارے کے پاکستان مخالف مشن کی کچھ مزید جھلکیاں "صحافت" کے دھاگے میں موجود ہیں۔
 

ساجد

محفلین
یہ کلاشنکوف کلچر ، یہ مساجد میں فائرنگ ، یہ مسلح مذہبی جماعتیں ، ان کی سب کی پیدائش ضیائی مہربانی ہے ، جو ملک اب تک بھگت رہا ہے۔ درحقیقت ضیاء نے مذہب کو ہتھیار بنا کر پاکستان کا جتنا کباڑ کیا ہے اتنا پاکستان میں اس سے پہلے اور بعد آنے والے لوگ مل کر بھی نہ کر سکے۔ پاکستان ایک بالکل مختلف سمت پر نظر آتا ہے۔ بہتر یا ابتر ؟ ۔۔۔ سب سامنے ہے۔
سرِ مُو انحراف نہیں ہے کہ ضیاء کے دور میں یہ سب ہوا۔ یہ تو طے ہو گیا کہ ضیائی دور میں مذہب کا غلط استعمال ہوا۔ اب بات کرتے ہیں ان محمد حنیف صاحب کی جو صحافتی کاریگری کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا یہ بھی اپنی صحافت کا غلط استعمال نہیں کر رہے؟۔ ضیاء کی طرح:)
 

عثمان

محفلین
سرِ مُو انحراف نہیں ہے کہ ضیاء کے دور میں یہ سب ہوا۔ یہ تو طے ہو گیا کہ ضیائی دور میں مذہب کا غلط استعمال ہوا۔ اب بات کرتے ہیں ان محمد حنیف صاحب کی جو صحافتی کاریگری کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا یہ بھی اپنی صحافت کا غلط استعمال نہیں کر رہے؟۔ ضیاء کی طرح:)
محمد حنیف غلط ہو سکتا ہے۔ کیوں نہیں ہوسکتا۔ میرا تبصرہ تو آپ کے سرخ کئے گئے جملوں سے متعلق تھا۔ :)
 

نایاب

لائبریرین
محمد حنیف کے اکثر کالم حسن نثار کی طرز پر ہوتے ہیں۔ ضیاء مرحوم کی طرف داری مقصود نہیں بلکہ محمد حنیف کا ادنیٰ صحافتی معیار اور ان اسلامی اقدار پر موصوف کا غبار نکالنا کہ جو ایک اسلامی ملک کے باشندوں کے درمیان بلا اختلاف مسلک و مکتب یکساں قابلِ قبول ہیں اچھی طرح ظاہر کرتا ہے کہ وہ ضیاء پر تنقید کی آڑ میں اپنی انا کو کس طرح تسکین پہنچا رہے ہیں۔ ضیاء نے بلا شبہ اسلام کے نام پر قوم سے مذاق کیا ، آئیں توڑا ، لوگوں پر ظلم ڈھائے اور سیاسی چالوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام دیا ۔ شدت پسندوں کو پنپنے کے شاندار مواقع فراہم کئے۔ لیکن موصوف کالم نگار کا یہ لکھنا کہ ریڈیائی لہروں پر ، موبائل فون کی رنگ ٹون پر ، سڑکوں اور چوکوں پر ، بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں ، ان کی لوریوں میں ،ہمارے آئیں میں ، ہمارے قانون میں ، اس قانون کی حفاظت کرنے والوں کے ضمیر میں ، ٹی وی کے ڈراموں میں ، ٹاک شوز کے میزبانوں میں ، ہمارے منہ سے نکلتی عربی آوازوں میں ، حجابوں میں ، نقابوں میں ، نکاح نامہ دکھانے کے میں اور نہ جانے کیا کیا کاموں میں ضیاء زندہ ہے۔
ارے بھائی عقل کے ہول سیل بیوپاری تو اتنا بھی نہیں سمجھ سکا کہ ضیاء سے پہلے ہی قادیانی کافر قرار پا چکے تھے ، پاکستان کا آئین اسلامی ہو چکا تھا۔ زنا پر شرعی سز ا مقرر تھی ، عربی زبان بھی بولی جاتی تھی ، خواتین نقاب بھی کرتی تھیں ، حجاب کا بھی استعمال تھا اور ریڈیائی لہروں پر قرآن کے درس بھی نشر ہوا کرتے تھے ۔ مائیں ضیاء سے قبل بھی اپنے بچوں کو اللہ اللہ کے نام کی میٹھی لوری سنایا کرتی تھیں۔کتابوں میں اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (ختم ) نبوت کا ذکر بھی تھا۔ نکاح نامہ بھی بنایا جاتا تھا اور ضرورت پڑنے پر چیک بھی کیا جاتا تھا۔اور اگر ضیاء 11 سال حکومت کرنے کے بعد آج سے 24 سال قبل دنیا سے جا چکا ہے تو اس کے بعد کی ربع صدی میں پاکستان بھر میں آنے والی تبدیلیوں کو بھی تو کس حساب سے ایک فرد کے کھاتے میں ڈال کر اپنے صحافتی معیار کو چار چاند لگا رہا ہے۔ تو پاکستانی معاشرے اور اسلامی اقدار کے خلاف اپنے اندر کی سڑاند یوں نکال رہا ہے کہ اس کے آگے ضیاء کا مچایا ہوا گند بھی گندگی کے حوالے سے کم معلوم ہوتا ہے۔
بی بی سی کا معیار اس حد تک گر جائے گا یہ کس نے سوچا ہو گا ۔
برادرِ عزیز ، بہ نظر عمیق جائزہ لیں کہ میں نے اپنے مراسلے میں ایک فقرہ لکھا ہے کہ ضیاء نے ' شدت پسندوں کو پنپنے کے شاندار مواقع فراہم کئے
میں ضعفِ دماغ کا مریض ہوں نہ نسیان کا کہ اپنے لکھے ایک فقرے کو بھول کر کسی "مُصلح" پر اسی بات پر تنقید کروں کہ جس کا میں خود اقراری ہوں۔
محترم ، شاید استعمار کے حربوں پر یہاں لکھنا مناسب نہ ہو گا کہ کیسے کسی قوم میں تشدد اور لاقانونیت پیدا کر کے پھر اس کے ایک گروپ سے ہمدردی جتا کر قوم کو تقسیم در تقسیم سے کیسے دوچار کیا جاتا ہے۔ چلیں چھوڑیں اس بات کو میرے کچھ محترم دوست شاید مجھے دائیں بازو کا حامی کہہ کر کوئی منطق تلاش کر لیں میں اپنی بات کہتا ہوں کہ جب طالبان کی دہشت گردیوں کا ذکر ہوتا ہے تو کیا مجھ سے زیادہ کسی نے ان جانوروں کی مذمت کی ہے؟۔
دہشت گردی اور اس کے اسباب پر میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں لیکن ان سب باتوں کی آڑ میں کوئی ہمارے جذبات سے کھلواڑ کرے اور اظہار مذمت کی بجائے اسلامی اقدار پر ہی بکواس کرنا شروع کر دے تو کیا یہ دہشت گردی کی مذمت کہلوائے گی یا کسی ایجنڈے کی تکمیل؟۔
موصوف کالم نگار نے ضیاء کی زیادتیوں پر جو کچھ بھی لکھا میں نے ہرگز اس پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اپنے مراسلے میں اس کی تائید کی ہے لیکن ان پیشہ ور صحافی نے جس مکاری سے ضیاء کے کاندھے پر بندوق کی نشست جما کر اسلامی عقائد و طرز حیات پر تابڑ توڑ حملے کئے ہیں انہیں محسوس کیجیے۔اب بتائیے کہ موبائل رنگ ٹون ، حجاب ، نقاب ، نکاح نامے روز مرہ امور و اسلامی عقائد کو دہشت گردی سے جوڑنے کی جو سعی یہ صاحب یہاں کرتے نظر آتے ہیں وہ کہاں تک کامیابی حاصل کر چکی ہے کہ لگتا ہے آپ جیسے معاملہ فہم بھی ان کے چکر میں آ گئے۔ یہ باتیں مارننگ ود فرح جیسی روشن خیال خاتون فرح کی اس ناراضگی کو میرے دماغ میں تازہ کر رہیں ہیں جس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے ٹی وی پر کہا تھا کہ اسی بی بی سی کے ایک نمائندے نے ان سے جو انٹرویو کیا اسے توڑ مروڑ کر یوں ایڈٹ کر کے پیش کر دیا کہ گویا پاکستان میں خواتین پر سخت پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔
آپ اپنی رائے میں آزاد ہیں لیکن جس نکتے کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ میں محفل کے دھاگوں پر اس سے قبل بھی بہت بار ثبوتوں کے ساتھ بی بی سی کے گراوٹی معیار پر لکھ چکا ہوں ۔ ایک واقعہ میں تو انہوں نے میاں چنوں میں اراضی کے درمیان دو گروپوں کے درمیان تنازعہ کو عیسائی مسلم فساد کا رنگ بھر کر بڑی خبر کے طور پر پیش کر دیا تھا اور یہ خبر میں نے صحافت کے زمرے میں شامل کی تھی۔ اس نشریاتی ادارے کے پاکستان مخالف مشن کی کچھ مزید جھلکیاں "صحافت" کے دھاگے میں موجود ہیں۔
میرے محترم بھائی
جس خبر کی بنیاد پر کالم نگار نے انتہائی فرسٹریٹڈ ہوتے بقول آپ کے اپنے اندر کا گند اگلا ۔
یہ گند اک اسی شخص کے کاشت کردہ پودے جو کہ چوبیس سال گزرنے پر اک تناور درخت بن چکا ہے کی چھاؤں کی دین ہے ۔
کالم اک بار پھر پڑھیئے اور اس تلخ سچائی کو محسوس کیجئے ۔ جو اس کالم کی بنیاد ہے ۔
نہ تو اسلام نہ ہی اسلامی عقائد اور نہ ہی اسلامی طرز معاشرت
اس قدر بودے ہیں کہ ایسے کالم لکھنے والے اسے نقصان پہنچا سکیں ۔
 

ساجد

محفلین
میرے محترم بھائی
جس خبر کی بنیاد پر کالم نگار نے انتہائی فرسٹریٹڈ ہوتے بقول آپ کے اپنے اندر کا گند اگلا ۔
یہ گند اک اسی شخص کے کاشت کردہ پودے جو کہ چوبیس سال گزرنے پر اک تناور درخت بن چکا ہے کی چھاؤں کی دین ہے ۔
کالم اک بار پھر پڑھیئے اور اس تلخ سچائی کو محسوس کیجئے ۔ جو اس کالم کی بنیاد ہے ۔
نہ تو اسلام نہ ہی اسلامی عقائد اور نہ ہی اسلامی طرز معاشرت
اس قدر بودے ہیں کہ ایسے کالم لکھنے والے اسے نقصان پہنچا سکیں ۔
میرا خیال ہے فرق تو پڑتا ہے۔ اگر ضیاء کے لگائے پودے چوبیس سال بعد بھی ہم مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور ہمارے طرزِ معاشرت کی دھجیاں اڑا رہے ہیں تو محمد حنیف کا قلم ضیاء کی "تلوار" سے کہیں زیادہ نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔ :)
وما علینا الا البلاغ۔
 

نایاب

لائبریرین
میرے محترم ساجد بھائی
آپ جیسے صاحب علم بزرگوں سے سنا ہے کہ
یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہہ رہاہے ۔
اور رہی بات فرق پڑنے کی تو میرے بھائی
چودہ سو سالوں میں کئی اسلام کو اسلامی عقائد کواسلامی طرز معاشرت کو مٹانے آئے ۔
مگر خود مٹ گئے ۔ اسلام نہیں مٹا اور ان شاءاللہ کبھی مٹے گا بھی نہیں ۔
کیونکہ اسلام ہے قران سے اور قران کی حفاظت اللہ سبحان و تعالی نے خود سے لے رکھی ہے ۔
 

کاشفی

محفلین
کوئی زندہ ہو یا نہ ہو ۔۔۔۔پر بی بی تو زندہ ہے۔۔
Zinda.jpg
بشکریہ: فیس بک
 
جزاك اللہ خيرا ، بى بى سى كا يہ تجزيہ نگار واقعى اپنے دماغ كى سڑاند اپنى تحريروں ميں انڈيلتا رہتا ہے، اس كے لفظ لفظ سے بساند اٹھتى ہے۔ اس كا مسئلہ شخصيات نہيں اسلام ہے اور پاكستان ، پاكستانى قوم اور اداروں کے متعلق اس كى اصل عداوت مسئلہ قاديانيت سے جڑی ہوئى ہے۔ آپ نے اس كى تحرير كا بالكل درست تجزيہ كيا ہے۔
محمد حنیف کے اکثر کالم حسن نثار کی طرز پر ہوتے ہیں۔ ضیاء مرحوم کی طرف داری مقصود نہیں بلکہ محمد حنیف کا ادنیٰ صحافتی معیار اور ان اسلامی اقدار پر موصوف کا غبار نکالنا کہ جو ایک اسلامی ملک کے باشندوں کے درمیان بلا اختلاف مسلک و مکتب یکساں قابلِ قبول ہیں اچھی طرح ظاہر کرتا ہے کہ وہ ضیاء پر تنقید کی آڑ میں اپنی انا کو کس طرح تسکین پہنچا رہے ہیں۔ ضیاء نے بلا شبہ اسلام کے نام پر قوم سے مذاق کیا ، آئیں توڑا ، لوگوں پر ظلم ڈھائے اور سیاسی چالوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام دیا ۔ شدت پسندوں کو پنپنے کے شاندار مواقع فراہم کئے۔ لیکن موصوف کالم نگار کا یہ لکھنا کہ ریڈیائی لہروں پر ، موبائل فون کی رنگ ٹون پر ، سڑکوں اور چوکوں پر ، بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں ، ان کی لوریوں میں ،ہمارے آئیں میں ، ہمارے قانون میں ، اس قانون کی حفاظت کرنے والوں کے ضمیر میں ، ٹی وی کے ڈراموں میں ، ٹاک شوز کے میزبانوں میں ، ہمارے منہ سے نکلتی عربی آوازوں میں ، حجابوں میں ، نقابوں میں ، نکاح نامہ دکھانے کے میں اور نہ جانے کیا کیا کاموں میں ضیاء زندہ ہے۔
ارے بھائی عقل کے ہول سیل بیوپاری تو اتنا بھی نہیں سمجھ سکا کہ ضیاء سے پہلے ہی قادیانی کافر قرار پا چکے تھے ، پاکستان کا آئین اسلامی ہو چکا تھا۔ زنا پر شرعی سز ا مقرر تھی ، عربی زبان بھی بولی جاتی تھی ، خواتین نقاب بھی کرتی تھیں ، حجاب کا بھی استعمال تھا اور ریڈیائی لہروں پر قرآن کے درس بھی نشر ہوا کرتے تھے ۔ مائیں ضیاء سے قبل بھی اپنے بچوں کو اللہ اللہ کے نام کی میٹھی لوری سنایا کرتی تھیں۔کتابوں میں اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (ختم ) نبوت کا ذکر بھی تھا۔ نکاح نامہ بھی بنایا جاتا تھا اور ضرورت پڑنے پر چیک بھی کیا جاتا تھا۔اور اگر ضیاء 11 سال حکومت کرنے کے بعد آج سے 24 سال قبل دنیا سے جا چکا ہے تو اس کے بعد کی ربع صدی میں پاکستان بھر میں آنے والی تبدیلیوں کو بھی تو کس حساب سے ایک فرد کے کھاتے میں ڈال کر اپنے صحافتی معیار کو چار چاند لگا رہا ہے۔ تو پاکستانی معاشرے اور اسلامی اقدار کے خلاف اپنے اندر کی سڑاند یوں نکال رہا ہے کہ اس کے آگے ضیاء کا مچایا ہوا گند بھی گندگی کے حوالے سے کم معلوم ہوتا ہے۔
بی بی سی کا معیار اس حد تک گر جائے گا یہ کس نے سوچا ہو گا ۔
 
واہ بھئی اب یہاں پر ڈکٹیٹرز کی بھی طرفداری ہو رہی ہے۔ پاکستان میں کسی بھی چیز کے ساتھ اسلام کا نام لگا دو تو لوگ اس کی پوجا شروع کر دیتے ہیں۔
میری توبہ جو آئندہ اس فورم میں کچھ پوسٹ کیا۔ یہ سب باتیں پڑھ کر مجھے پاکستان کا مستقبل تاریک نظر آنے لگتا ہے اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہوں۔ بہتر یہی ہے کہ اس سے دور رہوں اور اپنے کم میں مگن رہوں۔
پرويز مشرف نامى ڈكٹيٹر كے ساتھ اسلام كا نام نہيں لگا تھا اس كى بغل ميں امپورٹڈ كتے ہوتے تھے ليكن بہت سے بے دين روشن خيالوں نے پوری ڈھٹائى سے اس كى پوجا كى تھی ۔ كيونکہ اس نے مسجديں ڈھائيں اور باريش نوجوان ڈالروں ميں بيچ كر گوانتانامو بے كا ايكسرے كيمپ آباد كيا ، اسى كے دور ميں امہات المومنين اور صحابيات رضى اللہ عنہن كے شعار حجاب پر " برقعہ ويگنزا " جيسے گھٹيا ڈرامےسركارى سرپرستى ميں بنائے گئے اور پردہ دار عورتوں كا سركارى سرپرستى ميں تمسخر اڑايا گيا ، اقتدار كا سورج غروب ہوتے ہی اس كو پاكستانى سرحد سے دور غير ممالك ميں پناہ ليتے بنى ، ضياء كى قبر اسى ملك ميں ہے اور اس كا خاندان يہيں بيٹھا ہے۔ اس كے دور ميں پاكستان نے ايك فون كال پر سرنڈر نہيں كيا تھا بلكہ امريكى امداد كو مونگ پھلى كہہ كر مسترد كر ديا تھا ۔ اس نے روس اور امريكہ كى جنگ سے پاكستان كے ليے ممكن فوائد كشيد كئے ، امريكا كى آنكھوں ميں دھول حھونك كر ايٹمى پروگرام جارى ركھا جس كا اعتراف خود حال ہی ميں ريليز كى گئی امريكى خفيہ دستاويزات ميں كيا گيا ہے۔مجھے ضيا دور كى كئى باتيں ناپسند ہيں ليكن وہ كم ازكم پاكستانى تھا عالمى غنڈوں كى كٹھ پتلى نہيں، جيا تو پاكستان كا مقدمہ لڑتے اور مرا تو پاكستان ميں دفن ہوا ۔ شخصيات كا مطالعہ ان پر تنقيد ہونى چاہيیے ليكن محمد حنيف كى طرح کيچڑ اچھالنا نہيں چاہيے ۔ يہاں ڈكٹيٹر كى طرف دارى سے زيادہ بڑی بات محمد حنيف كى بد باطن تحرير ميں مخفى اسلام دشمنى ہے جس كو نا پسند كيا جا رہا ہے ۔
پاكستان كا مستقبل تب روشن ہو گا جب ہم متضاد نظريات ركھنے والے اپنے اپنے ڈبوں ميں بند ہو كر بيٹھنے كى بجائے سنجيدہ مكالمہ كر كے ايك دوسرے كا موقف ديانتدارى سے سمجھنے كى كوشش كريں گے اور ہمارا مطمح نظر اپنے افكار كسى پر مسلط كرنے كى بجائے ملك و ملت كے ليے مثبت راہيں تلاش كرنا ہو گا ۔ كيا محمد حنيف اعلى تعليم يافتہ پاكستانيوں سے بڑا دانش ور ہے كہ ہم اس كى زہريلى تحرير من و عن قبول كر ليں ؟ ہمارا اپنا مطالعہ تاريخ ، ہمارا سماجى شعور كيا كہتا ہے؟ہمارا اپنا ورلڈ ويو كيوں نہيں ہو سكتا ؟
 

نایاب

لائبریرین
بلا شک ضیاء مرحوم کے روس کے خلاف امریکہ کی حمایت سے حاصل کردہ فوائد
ایسے ہی کشید کردہ تھے جیسے کہ افیون سے ہیروئن ۔
اور یہ فوائد بلا شبہ پاکستان کو کہیں سے کہیں پہنچا گئے
کلاشنکوف بچوں کے ہاتھ اور جہاد کاترانہ
ہیروئن کا پھیلاؤ
فتوؤں کی مہر عام ہوئی ۔
شیعہ کافر اڑا دو جنت میں جاؤ
سنی کافر اڑا دو جنت کو پاؤ
قانون توہین رسالت کو اک مذاق بنا دو
یہ ان فوائد کا اس قدر طاقتور ہونا ہی تھا کہ
لال مسجد خون سے لال ہوئی ۔
اور آج کے پاکستان میں موجود مذہبی انتہا پسندی بلا شبہ
ببانگ دہل نعرہ زن ہوتی ہے کہ
ضیاء زندہ ہے ۔
انسان گزر جاتے ہیں مگر ان کی سوچ انہیں ہمیشہ زندہ رکھتی ہے ۔
اسی لیئے کہتے ہیں کہ " بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا "
محمد حنیف کے لکھے کالم کی مخالفت صرف " قادیانیت " کے تاثر کی بنیاد پر کھڑی
اور " بغض معاویہ " کی علامت لگتی ہے ۔ اب اللہ ہی جانے وہ قادیانی ہے بھی کہ نہیں ۔ ؟
تین ہزار افراد نے اک شخص کو زندہ جلا دیا ۔اور وہ بھی بنا تصدیق کے ۔
ہم مسلمانوں کی نظر میں شاید یہ کوئی المیہ نہیں
اور جس نے اس المیے کو سمجھ الفاظ کی زبان دی ۔
اس المیے کی بنیاد کو تلاشا ۔ وہ معطون کھڑا ہے ہم مسلمانوں کی نظر میں ۔
ضیاء مرحوم سے نفرت نہیں بلکہ اس کی پھیلائی سوچ سے نفرت ہے ۔
جو کافر فیکٹری کی بنیاد میں رواں ہے ۔ اور بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہی ہے ۔
 
Top