ضیاء زندہ ہے

انتہا

محفلین
میرے محترم بھائی
انتہا پسندی یا کاملیت ۔ یہ دونوں جذبے " میں " سے ابھرتے " انا و خودی " کا روپ دھارتے ہیں ۔
میں بھی " میں " کا اسیر ہوں ۔ میری یہ " میں " مجھے یہ مہمیز دیتی ہے کہ میں اپنے آپ کو
ہر صفت قابل سے ایسے مزین کر لوں کہ دوسرے مجھ سے متاثر ہوتے بنا میرے کہے میری بات کو اہمیت دیں ۔
یہ " میں " سے ابھری میری خودی ہے ۔
میری یہی " میں " اگر مجھے مہمیز دے کہ میں اپنی صفات پر نازاں و مغرور ہوتے
دوسروں سےبہر صورت اپنی بات منوانے کی کوشش کروں ۔ اور اس کوشش میں حد سے گزر جاؤں تو
یہ میری " میں " سے ابھرتی انا ہے ۔
کاملیت کا جذبہ جو کہ خودی پر استوار ہوتا ہے ۔ مجھ سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ میں جن تعلیمات کا پرچار کرنا چاہتا ہوں ۔
ان تعلیمات کو میں بذات خود اپنے آپ پر ایسے لاگو کروں کہ میرا عمل و کردار دوسروں کے لیئے بنا کسی تبلیغ کے معتبر ٹھہرے ۔
انتہا پسندی کا جذبہ چونکہ انا پر استوار ہوتا ہے ۔ اور مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں جن تعلیمات کو سچ جانتا ہوں ۔ بنا ان کو خود پر لاگو کیئے
زبردستی دوسروں سے منواؤں ۔ اور اس کے لیئے ہر قسم کا حربہ استعمال کروں ۔
میرے محترم بھائی " اقراء " کا حکم آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جب نازل ہوا ۔
اس سے پہلے ہی آپ اپنے کردار و عمل سے " صادق و امین و ہمدرد " کے لقب سے مشرف ہو چکے تھے ۔
آپ کا وجود پاک اس آگہی پانے سے پہلے ہی اسم با مسمی " محمد تعریف کیا گیا " ٹھہر چکا تھا ۔
اور آپ سے بڑھ کر کاملیت کی مثال کہاں ۔

آپ کی تحقیق بہت معتبر اور استدلال بہت مدلل، گو میں اپنی ناسمجھی سے ابھی تک ان دونوں کو ”جذبے“ کا درجہ نہیں دے پا رہا، کہ انتہا پسندی کی حد تک تو استدلال پھر بھی قابل فہم ہے لیکن کاملیت کا درجہ کس طرح خودی کا جذبہ ہے، ذہن رسا نہیں ہے، میری اپنی سمجھ کی ہی کمی ہے، پھر بھی اپنے خیالات و معلومات شیئر کرنا چاہوں گا تا کہ صحیح تک رسائی حاصل کر سکوں۔​
انتہا پسندی کا جذبہ کیسے پروان چڑھتا ہے؟مختلف مواقع پر مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔​
امیدوں اور آرزوؤں کا پورا نہ ہونا، مسلسل حوصلہ شکنی، احساس محرومی، سوچ کی سمت کا صحیح نہ ہونا، رہ نما یا رہ نمائی صحیح نہ ہونا، مسلسل ظلم کا شکار ہونا،رائے کو اہمیت نہ دیا جانا، ماحول و اشیا سے متاثر ہونا، وغیرہ​
اس میں ”میں“ کا عنصر شامل ہو جائے تو یہ انتہا پسندی فقط انتہا پسندی نہ رہے گی بلکہ عینیت و خود پسندی بھی اس میں شامل ہو جائے گی۔​
انتہا پسندی میں نظریہ کا صحیح ہونا ممکن ہے لیکن عینیت اور ارتجاع میں بھٹکنے کا لا محالہ اندیشہ ہے۔ اس میں ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونا جن کا میں پرچار کرتا ہوں یا درست سمجھتا ہوں شاید بہت زیادہ ضروری نہیں۔​
اب یہ جس ماحول کے تحت ہو انتہا پسندی اسی کے تحت پروان چڑھتی ہے، اگر مذہب کے تحت ہے تو مذہبی، زبان کے تحت ہے تو لسانی، قوم کے تحت ہے تو قومی، مادیت کے تحت ہے تو مادی وغیرہ​
اس کے بالمقابل اعتدال پسندی عدل کا تقاضا کرتی ہے یعنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا، اپنے جذبات، نظریات، خیالات، مالوفات، اشکالات، غرض ہر کسی سے ماورا ہو کر صرف اور صرف توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش، ہر شے کو مساوی درجہ پر فائز کرنا کہ فضا بے اعتدال نہ ہو، ماحول خوش گوار رہے۔​
کاملیت یا اکمال کیا ہے؟ شاید ایک رتبہ یا درجہ، جو کہ اپنے تمام سفلی جذبات کو مٹا کر صفات الہٰیہ سے متصف ہونے اور ان میں کمال حاصل کرنے کا نام ہے، جس میں تمام جذبوں سے بے نیاز ہو کر صرف اور صرف حق کی پہچان اور اس کی ترویج کی کوشش۔​
جس درجے یا رتبے تک پہنچا جاتا ہے یا پہنچایا جاتا ہے، کسی کامل کی رہ نمائی میں​
انبیا کی رہ نمائی براہ راست الطاف باری تعالیٰ کے ذریعے ہوتی ہے اور ان کے بعد کے لوگوں کی انبیا کے ذریعے اور اس کے بعد پھر جو اکمال کے درجے پر فائز ہوتے رہیں​
انتقاص ، درجہ محرومی ہے کہ کاملیت کی استعداد ہونے کے باوجود، کسی کامل کا رہ نمانہ ہونا یا عقلیت کے تحت مغلوب ہو کر اپنی رائے اور سمجھ کو کل ماننا اور اس کے تحت صحیح کی تلاش اور کوشش بالآخر محرومی کا سبب ہوتی ہے جیسے شیطان محروم کیا گیا۔​
اکمال یا کاملیت کے لیے حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ، پھر آپ کے فوراً بعد ہی خود مسلمان اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے لگتے ہیں، تو جب اصول ہی میں اعتدال سے انتہا پر بات آ جائے تو پھر فروع اور تاخر میں اسے تلاش کرنا اور شخصیات کو ان سے متہم کرنا چہ معنی؟​
درجوں اور جذبوں میں فرق ضروری ہے کہ جذبوں کی قدر(صحیح یا غلط) کے بعد ہی درجوں تک رسائی ہوتی ہے۔​
میرا مقصد صرف اپنے خیالات کو واضح کر کے صحیح کی تلاش اور پہچان ہے، یقیناً میں کم علم اور نا سمجھ ہوں اور صحیح کی طرف رہ نمائی چاہتا ہوں۔ جو میری رہ نمائی کرے وہ میرا محسن ہے اور میں اس کا شکر گزار ہوں۔​
میرے الفاظ کا تاثر شاید میرے مقصد کی طرف صحیح رہ نمائی نہیں کر پاتا اس لیے شاید لوگ بد گمانی میں مبتلا ہو تے ہیں حالانکہ میں پہلے ہی ان سے برات کا اظہار کر چکا ہوں۔​
 
انتہا پسندی ایک رویہ ہے جسکا تعلق مخصوص مزاج سے ہوتا ہے، اسی طرح اعتدال بھی ایک رویے کا نام ہے جو مخصوص مزاج سے تعلق رکھتا ہے۔
انتہا پسندی بذاتِ خود بری چیز نہیں ہے کیونکہ یہ پرفیکشن یعنی کاملیت کے حصول کی جانب سفر ہے۔۔بری یہ اس وقت کہلاتی ہے جب اسکی سمت درست نہ رہے۔ جب اسکا مرکز، معروف کے دائرے سے نکل کر منکر کے دائرے میں داخل ہوجائے تو پھر مدح سے ہٹ کر مذمت کی حقدار ٹھہرتی ہے :)
 

نایاب

لائبریرین
میرے محترم بھائی
مجھے اپنی جاہلیت کا اعتراف ہے ۔ آپ سے گفتگو کرتے جو میرے ذہن میں ابھرا وہ تحریر کر دیا ۔
انتہا پسندی کے پروان چڑھنے کی جو وجوہات آپ نے تحریر کی ہیں ۔ مجھے ان سے کامل اتفاق ہے ۔
اور ان وجوہات کے متضادات کاملیت کو پروان چڑھانے میں مدد گار ہوتے ہیں ۔
آپ نے اپنے جواب میں شیطان کا ذکر کیا ۔
شیطان ہی اپنی جگہ " انتہا پسندی اور کاملیت " مکمل مثال ہے ۔
یہ شیطان جانے کتنے ہزار سال اللہ سبحان و تعالی کی بارگاہ میں رکوع و سجود کرتے
کاملیت کی علامت بن مقرب فرشتوں کا سردار مقرر ہوا ۔
شیطان نے نافرمانی کی اور انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے آدم کو سجدے سے انکار کرتے راندہ درگاہ ٹھہرا ۔
جذبہ میری نظر میں انسان کے اندر سے اٹھنے والی ہر وہ آواز جس کے تحت انسان اپنی ہستی خوشی خوشی مٹا دیتا ہے ۔
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ۔
اس کلمے کے اتباع اور اس کی حقانیت کے زیر اثر ہم " انتہا پسند " ٹھہریں گے یا کاملیت کے حامل ؟
میرے محترم آپ کی گفتگو بہت اچھی اور مفید ہے ۔ لیکن کھلے فورمز پر کھلے طور تحریری گفتگو اکثر
" محرم سے مجرم " بنا دیتی ہے ۔ کسی کی سرسری نگاہ کسی لفظ کو گرفت میں لیتے دار سجا دیتی ہے ۔
 

یوسف-2

محفلین
ضیاّالحق مرحوم کی حمایت اور مخالفت میں بولنے والے لوگ بھی تین قسم کے ہیں :
1- وہ اسلام پسند جنکے نزدیک ضیاء الحق کی مخالفت، دراصل اسلام کی مخالفت ہے۔
2- وہ لوگ جو کسی نہ کسی وجہ سے مذہب کو سیاست سے دور رکھنے کے قائل ہیں،
3- تیسرا طبقہ وہ ہے جو مذکورہ بالا بلیک اینڈ وائٹ سوچ سے آزاد ہیں اور کافی متوازن سوچ رکھتے ہیں۔ :)
ماشا ء اللہ کیا خوب تجزیہ ہے۔ متفق ۔
ضیاء الحق اور اسلام لازم و ملزوم تو نہیں، گو کہ ان کے عہد میں کچھ لوگوں اور خود انہوں نے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی۔ ان کا عہد تو گذر گیا اور بھٹو کا عہد بھی گزر گیا ۔ گو کہ بھٹو کی خاندانی ”باقیات“ ابھی باقی ہیں، اور آئندہ بھی باقی رہیں گی۔ لیکن یہ دونوں عہد ایک دوسرے کے ”اُلٹ“ بھی ہیں۔ پاکستان میں دور ضیاء اسلامی نظام کے حامیوں کے لئے ایک سنہری دور تھا۔ اوراس دور میں سوشلزم، کمیونزم، سیکیولرزم، قادیانیت وغیرہ کے لئے سخت دور تھا۔ پینے پلانے والوں، عیش و طرب کی محفلیں جمانے والوں کے لئے یہ ایک سخت دور تھا۔ اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ ضیاء الحق کا تصور اسلام، حقیقی اسلام سے بر عکس نہیں تو بالکل یکساں بھی نہیں تھا۔ وہ کوئی عالم دین نہیں بلکہ ایک سیدھا سادھا فوجی اور اسلام کا چاہنے والا تھا۔ اس کی اصل قوت اور پارٹی پاکستان آرمی تھی۔ اور سب جانتے ہیں کہ پاک آرمی کے بالائی طبقہ کا اسلام سے کتنا واسطہ تھا اور ہے۔

اس کے برعکس بھٹو دور نام کے اسلام والوں، اقلیتوں، سیکولر اذہان، پینے پلانے اور طربیہ محفل سجانے والوں کے لئے ایک بہترین دور تھا۔ اس دور میں شراب و شباب تو عام تھا ہی۔ اسی عہد مین کراچی میں عالمی جوئے کا اڈہ (کیسینو) بنانے کا آغاز بھی ہوا۔ بھٹو کی پارٹی کے آئین میں سوشلزم شامل تھا۔ طوائفوں کے ساتھ ڈانس اور شراب میں نہاتے ہوئے اس کے وزراء کی تصویریں (جیسے عبد الوحید کٹبپر سندھ کے وزیر صحت) اخبارات میں بھی چھپتی رہی ہیں۔ موصوف نے عرب شیوخ کو پاکستان میں عیاشی کے تمام وسائل فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مبینہ طور پر وڈیوز بھی بنوائی تھی۔ جب بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو ان کے دوست عرب شیوخ نے ضیاء الحق سے سخت احتجاج کیا تھا۔ ضیاء یا کوئی بھی پاکستانی حکمران عرب لیڈرز کی مخالفت ”ایفورڈ“ نہین کرسکتا تھا۔ چنانچہ ضیا الحق نے بھٹو کو پھانسی دینے سے قبل عرب ممالک کا ہنگامی دورہ کیا اور انہیں یہ ویڈیوز دکھلائیں۔ جس پر سب شیوخ (جو ملوث تھے اور جو نہیں تھے، سب کے سب) دم بخود رہ گئے۔ اور انہون نے بھٹو کے معاملہ میں ضیاء کو ”فری ہینڈ“ دیدیا کہ آپ جو چاہو کرو۔ بھٹو کے پھانسی دینے پر پاکستان مین کہین بھی دس آدمیوں کا بھی مطاہرہ نہیں ہوا بلکہ بابر اعوان جیسے لوگوں نے تو مٹھائیاں بھی تقسیم کیں۔ اور عالم عرب نے بھی کچھ نہیں کیا۔ قبل ازیں ایوب خان کے عہد میں سید ابو الاعلیٰ مودودی کو بھی سزائے موت سنائی گئی تھی۔ وہ بھی ایک فوجی ڈکٹیٹر تھا، ضیا کی طرح۔ عرب دنیا نے اس سزا کے خلاف احتجاج کیا تو ایوب حکومت نے پھانسی کی سزا واپس لے لی تھی۔ جبکہ ضیاء نے بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد عرب لیڈرز سے اتنا قریب ہوا کہ اس دور میں ایٹمی پراجیکٹ کے لئے عرب لیڈرز نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئے۔

دونوں عہد مین زمیں کا آسمان کا فرق ہے۔ بس اسی فرق کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ ورنہ ضیا دور مین ایم کیو ایم بھی بنی، ہیروئین بھی عام ہوئی۔ طوائفوں کے ادون پر پابندی لگی تو یہ طوائفئں پوش ابادیوں کے بنگلوں مین منتقل ہوگئیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح بھٹو ہی نے داکٹر قدیر کو پاکستان بلوا کر ایٹمی پروجیکٹ کا آگاز کیا۔ اسی کے عہد میں قادیانیوں کو سرکاری طور پر غیر مسلم قرار دیا گیا (گو کہ اس عمل میں بھٹو کا کوئی ذاتی عمل دخل نہیں تھا) بھٹو ہی کے عہد میں (جب اس کی اقتدار کی کشتی ڈول رہی تھی تو) کچھ اسلامی اقدامات کا اعلان ہوا ۔ اسی کے عہد مین مسلم سربراہی کانفرنس ہوئی۔ گو کہ اس کا اصل مقصد بنگلہ دیش کو منظور کروانا تھا تاکہ اس کی ھومت کو قانونی ”جواز“ مل سکے۔ قبل ازیں وہ عوامی جلسوں مین بنگلہ دیش کو منطور کروانے کی کوشش میں سراسر ناکام رہا تھا
 

انتہا

محفلین
میرے محترم بھائی
مجھے اپنی جاہلیت کا اعتراف ہے ۔ آپ سے گفتگو کرتے جو میرے ذہن میں ابھرا وہ تحریر کر دیا ۔
انتہا پسندی کے پروان چڑھنے کی جو وجوہات آپ نے تحریر کی ہیں ۔ مجھے ان سے کامل اتفاق ہے ۔
اور ان وجوہات کے متضادات کاملیت کو پروان چڑھانے میں مدد گار ہوتے ہیں ۔
آپ نے اپنے جواب میں شیطان کا ذکر کیا ۔
شیطان ہی اپنی جگہ " انتہا پسندی اور کاملیت " مکمل مثال ہے ۔
یہ شیطان جانے کتنے ہزار سال اللہ سبحان و تعالی کی بارگاہ میں رکوع و سجود کرتے
کاملیت کی علامت بن مقرب فرشتوں کا سردار مقرر ہوا ۔
شیطان نے نافرمانی کی اور انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے آدم کو سجدے سے انکار کرتے راندہ درگاہ ٹھہرا ۔
جذبہ میری نظر میں انسان کے اندر سے اٹھنے والی ہر وہ آواز جس کے تحت انسان اپنی ہستی خوشی خوشی مٹا دیتا ہے ۔
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ۔
اس کلمے کے اتباع اور اس کی حقانیت کے زیر اثر ہم " انتہا پسند " ٹھہریں گے یا کاملیت کے حامل ؟
میرے محترم آپ کی گفتگو بہت اچھی اور مفید ہے ۔ لیکن کھلے فورمز پر کھلے طور تحریری گفتگو اکثر
" محرم سے مجرم " بنا دیتی ہے ۔ کسی کی سرسری نگاہ کسی لفظ کو گرفت میں لیتے دار سجا دیتی ہے ۔
نایاب بھائی، میں شرمندہ ہوں کہ صحیح تک پہنچنے کے لیے شاید کچھ زیادہ ہی تفصیل میں چلا گیا، لیکن کیا کروں، کیا کہوں بس چھوڑیں، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اپنے ۔۔۔۔۔
کچھ نہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
موصوف نے عرب شیوخ کو پاکستان میں عیاشی کے تمام وسائل فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مبینہ طور پر وڈیوز بھی بنوائی تھی۔ جب بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو ان کے دوست عرب شیوخ نے ضیاء الحق سے سخت احتجاج کیا تھا۔ ضیاء یا کوئی بھی پاکستانی حکمران عرب لیڈرز کی مخالفت ”ایفورڈ“ نہین کرسکتا تھا۔ چنانچہ ضیا الحق نے بھٹو کو پھانسی دینے سے قبل عرب ممالک کا ہنگامی دورہ کیا اور انہیں یہ ویڈیوز دکھلائیں۔ جس پر سب شیوخ (جو ملوث تھے اور جو نہیں تھے، سب کے سب) دم بخود رہ گئے۔ اور انہون نے بھٹو کے معاملہ میں ضیاء کو ”فری ہینڈ“ دیدیا کہ آپ جو چاہو کرو۔ بھٹو کے پھانسی دینے پر پاکستان مین کہین بھی دس آدمیوں کا بھی مطاہرہ نہیں ہوا بلکہ بابر اعوان جیسے لوگوں نے تو مٹھائیاں بھی تقسیم کیں۔ اور عالم عرب نے بھی کچھ نہیں کیا۔ قبل ازیں ایوب خان کے عہد میں سید ابو الاعلیٰ مودودی کو بھی سزائے موت سنائی گئی تھی۔ وہ بھی ایک فوجی ڈکٹیٹر تھا، ضیا کی طرح۔ عرب دنیا نے اس سزا کے خلاف احتجاج کیا تو ایوب حکومت نے پھانسی کی سزا واپس لے لی تھی۔ جبکہ ضیاء نے بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد عرب لیڈرز سے اتنا قریب ہوا کہ اس دور میں ایٹمی پراجیکٹ کے لئے عرب لیڈرز نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئے۔
میرے محترم بھائی
یہ مبینہ مفروضات کی پٹاری کھولنا بہتر نہیں ہو گا ۔
عرب شیوخ نے کیوں بھٹو کی پھانسی برداشت کی ؟۔ یہ کسی بھی ذی شعور سے مخفی نہیں ہے ۔
ضیائ کا یہ کہنا کہ اگر بھٹو کو چھوڑ دیا اور اس کا اسلامی سوشلزم کامیاب ہوگیا تو
عرب کی بادشاہتیں اپنا بوریا بسترا سمیٹ لیں ۔ ضیاء نے ہی امریکہ بہادر کو اس عرب میں اپنے قدم جمانے اور
اسلامی سربراہی کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل مسلم امہ سے مخلص ہستیوں کو ٹارگٹ کرنے کا موقع فراہم کیا ۔
یہ مبینہ اور مفروضات کہانیاں تو آسانی سے بنا لیتے ہیں مگر حقیقت کب چھپی رہتی ہے سدا ؟
اور ایٹمی پروگرام میں ضیا صاحب کا کیا کردار تھا ؟ اور سی ون تھرٹی کس کے اشارے پر اور کیوں تباہ ہوا ۔ ؟
ان سب کو آنے والے وقت کے مورخ پر چھوڑ دینا بہتر ۔
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی، میں شرمندہ ہوں کہ صحیح تک پہنچنے کے لیے شاید کچھ زیادہ ہی تفصیل میں چلا گیا، لیکن کیا کروں، کیا کہوں بس چھوڑیں، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اپنے ۔۔۔ ۔۔
کچھ نہیں۔
میرے محترم بھائی
آپ کی تفصیل مفید اور معلوماتی تھی ۔
اور میرے لیئے آئندہ کسی ایسی گفتگو میں مددگار ثابت ہو گی ۔
اپنے ہی گراتے ہیں نشمین پہ بجلیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقرہ درست مکمل ہوا ہے کیا ؟
 

انتہا

محفلین
میرے محترم بھائی
آپ کی تفصیل مفید اور معلوماتی تھی ۔
اور میرے لیئے آئندہ کسی ایسی گفتگو میں مددگار ثابت ہو گی ۔
اپنے ہی گراتے ہیں نشمین پہ بجلیاں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ فقرہ درست مکمل ہوا ہے کیا ؟
نہیں نایاب بھائی مجھے تو خود آپ سے اور دیگر احباب سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے، میرا بجلیاں گرانے کا کوئی ارادہ نہیں، لیکن میں اس جملے کو پورا نہیں کر سکتا۔ اگر اب کچھ لکھوں تو شاید جھوٹ ہو گا چناں چہ اس کو رہنے دیجیے۔
 

نایاب

لائبریرین
نہیں نایاب بھائی مجھے تو خود آپ سے اور دیگر احباب سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے، میرا بجلیاں گرانے کا کوئی ارادہ نہیں، لیکن میں اس جملے کو پورا نہیں کر سکتا۔ اگر اب کچھ لکھوں تو شاید جھوٹ ہو گا چناں چہ اس کو رہنے دیجیے۔
یہ تووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووو انتہا پسندی ہوئی محترم بھائی
 

سید زبیر

محفلین
ضیاالحق شہید نے اس وقت اقتدار سنبھالا تھا جب ملک میں ھر طرف انارکی پھیلی ہوئی تھی۔مولانا طفیل سمیت کئی علما کے ساتھ عقوبت خانوں میں شرمناک سلوک کیا جا رہا تھا۔دلائی کیمپ میں مخالفین کو اذیتیں دی جارہی تھیں۔ آٹا ، چینی گھی پیاز ناپید تھیں آٹے چینی کے لیے راشن کارڈ جاری ہوتے تھے اور سیاسی لوٹ مار کا ایک بازار گرم تھا۔ اخلاقی صورتحال بھی ابتر تھی قومی ٹی ؤی فحاشی و بے باکی کی قیدیں پھلانگ چکا تھا۔
نیتوں کے حال اللہ ہی بہتر سمجھتا ہے وہ ہی علیم و خبیر ہے ضیاالحق شہید نہ تو فرشتہ تھے نہ ہی شیطان ، وہ انسان تھے ایک مسلمان کی مانند کہ جب ان کو اقتدار ملتا ہے تو وہ نماز قائم کرتے ہیں ذکواة کا نظام قائم کرتے ہیں ،فحاشی ،لغویات ختم کرتے ھیں اسی طرح انہوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو
ِ سب سے پہلے ٹی وی کا قبلہ درست کیا
ِ دفاتر میں نماز قائم کی افسران بالا کو دیکھتے ہوے ماتحت بھی مسجدوں میں آنے لگے۔دکھاوا بھی ہوسکتا ہے مگر ان کے بس میں اتنا ہی تھا ذکواة کا نظام قائم کیا۔
ِایک اھم تبدیلی جو معاشرے میں آئی وہ یہ تھی کہ صدیوں سے ہندو پڑوس کی وجہ سے مسلمانوں میں سلام کی روائت ختم ہو گئی تھی خیبر پختون خوا میں پہ خیر راغلے ، پنجاب میں جی آیاں نوں اسی طرح سندھ بلوچستان میں السلام علیکم نہیں کہا جاتا تھا۔ٹیلیفون آپریٹرز، ٹی وی کی اناونسرز اور خود اپنے طرز عمل سے السلام علیکم اور اللہ حافظ جیسے پیارے الفاظ عام کیے جیسا حاکم ہوتا رعایا اسی کی نقل کرتی ہے اب یہ الفاظ عام ہو گئے۔
ِ افغان جہاد کا عمل شریعت کے عین مطابق تھا جب کسی مسلمان ملک پر جارحیت ہو توتمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے اور اس کا ذمہ حکمران پر ہوتا ہے افغان کے ساتھ ابتدائی دو سالوں میں سوائے پاکستان کے کوئی دوسرا ملک نہیں تھا جب امریکہ اس میدان میں کودا تو ضیاالحق شہید نے یہ شرط رکھی تھی کہ کوئی امریکی فوجی اس علاقے میں نہیں آئے گا اس طرح بیرونی مداخلت کا رستہ بند کیا۔ امریکہ سے بے شک امداد لی مگر اس کی غلامی نہیں کی۔
ِ ضیاالحق شہید کی سادہ زندگی کی کئی مثالیں ہیں جو تاریخ کی کئی کتابوں میں محفوظ ہیں {سیارہ ڈائجسٹ کا ضیا الحق نمبر ۱۹۸۹
جنازہ ایک ایسا موقع ہوتا ہے جس سے انسان کے درجات کا اندازہ ہوتا ہے بے شمار ایسے اہل ثروت ہوتے ہیں جن کے جنازوں میں واجبی سے لوگ شریک ہوتے ہیں اور بعض ایسی شخصیات ہوتی ہیں جن کے جنازوں میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں یہ ایسا موقع ہوتا ہے جس میں شرکت کے لیے انسان خود آتا ہے بے شک بعض اہل اقتدار اور اہل ثروت کے رشتہ داروں کے جنازے بھی بڑے ہوتے ہیں مگر وہ مقتتدرہ شخصیت جب خود موت سے ہمکنار ہوتی ہے تو جنازے میں صرف چند لوگ ہی شریک ہوتے ہیں ضیاالحق شہید کا جنازہ دیدنی تھا فیصل مسجد سے پشاور موڑ تک لوگوں کا جم غفیر تھا۔ لوگوں نے کوٹھیوں کے باہر پانی کے پائپ پھینکے ہوئے تھے تاکہ لوگ وضو کر سکیں شاید یو ٹیوب پر کہیں ویڈیو موجود ہویہ سب من جانب اللہ ہوتا ہے۔ آخر اس بندے میں ایسی کوئی تو خوبی ہوگی کہ ملک کے طول و عرض سے لوگ اسلام آباد اپنے خرچے پر بھاگے چلے آئے۔عوام میں اس کی مقبولیت کا اندازہ صرف اس سے لگایا جا سکتاے کہ جب انہوں نے چودہ اگست منانے کا ایک نیا انداز متعارف کرایا کہ آٹھ بجے ٹی وی ،ریڈیو پر بجنے والے ترانے سے ہم آواز ہو کر ترانہ پڑھے گی تو میں اس امر کا چشم دید گواہ ہوں کہ کوہاٹ کے بازار کے تمام دکاندار اپنی دکانوں میں کھڑے ھو کر دھیمی آواز میں قومی ترانھ پڑہ رہے تھے ۱۹۶۵ کی جنگ کے بعد ایسا منظر کم ہی دیکھنے کو ملا۔ کیا وجہ تھی کہ جالندھر سے ھجرت کرکے آنے والے ایک شخص پر افغانستان اورپاکستان کے عوام کی کثیر تعداد اعتماد کرتی تھی۔ ان کے حامیوں کی کثیر تعداد متوسط اور غریب طبقے سے تھی۔مفاد پرست عناصر بھی تھے مگر وہ ان کی شہادت کے بعد اپنا قبلہ تبدیل کرنے لگے
ِ یہ واحد شخصیت تھی جس نے اقوام متحدہ میں خطاب سے پہلے دنیا کی پروا کیے بغیردعوت تبلیغ دی۔
ِیہ ضیاالحق شہید ہی تھے جنہوں نے قومی لباس اور قومی روایات کو فروغ دیا
ِضیا الحق شہید کا مذہب کی جانب رجحان وقتی نہیں تھا سیکنڈ لیفٹنٹ کے دور میں بھی وہ ایک سچے اور پکے مسلمان تھے
ِ ضیا الحق شہیدہی نے کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے راجیو کو یہ گاندھی جی کی نصیحت یاد دلا دی کہ "پاکستان کے ختم ہونے سے اسلامی ریاست نہیں ختم ہوگی جبکہ بھارت کے ختم ہونے سے دنیا سے ھندو ریاست ختم ہو جائے گی "
ِ ضیاالحق شہید ہی کا وشوں سے عرب اتحاد کو مظبوطی حاصل ہوئی اس کے علاوہ ایران اور عرب دنیا کے اختلافات میں کمی آئی ان کا قصور مسلم امہ کا اتحاد تھا کاسا بلانکا میں ان کی تقریر کا لنک
ہے جس کے الفاظ قابل توجہ ہیں کہ بین الاقوامی پلیٹ فارم سے ایسے الفاظ ادا کرنے کے لیے جرات رندانہ ہی چاہئیے ۔ ان کے جانے کے بعد غیر ملکی اور ملکی ذرائع ابلا غ نے اتنی کردار کشی کی کہ اب ان کا نام لینا بھی جرم بن گیا یہی تومیڈیا کا کردار ہے کہ وہ چوہے جیسی کراہت انگیز مخلوق کو "مکی ماوس" کی خوبصورت تصویر پیش کرتا ہے۔
ہمارا ایمان ہے کہ ہر کسی نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور نیتوں کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔ضیا الحق کوجس طرح پیش کیا جاتارہا ہے وہ ایسے نہ تھے
ہم تو صرف مغفرت کی دعا ہی کر سکتےہیں۔سوچ کو بدلنا انسان کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
نیتوں کے حال اللہ ہی بہتر سمجھتا ہے وہ ہی علیم و خبیر ہے ضیاالحق شہید نہ تو فرشتہ تھے نہ ہی شیطان ، وہ انسان تھے ایک مسلمان کی مانند کہ جب ان کو اقتدار ملتا ہے تو وہ نماز قائم کرتے ہیں ذکواة کا نظام قائم کرتے ہیں ،فحاشی ،لغویات ختم کرتے ھیں اسی طرح انہوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو
جب وہ اقتدار ر قبضہ کرتا ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حق ان کی مغفرت فرمائے آمین
 

سید زبیر

محفلین
جب وہ اقتدار ر قبضہ کرتا ہے تو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
حق ان کی مغفرت فرمائے آمین
قبضہ کس سے کرتا ھے ؟ کیا جس سے قبضہ کیا تھا اسے حکمرانی کا حق حاصل تھا ؟۔ مشرقی پاکستان کو توڑنے میں اس کا کتنا ہاتھ تھا ؟بہر حال ہر فرعون کے لیے موسیٰ ضرور آتا ہے اور موسیٰ کےبعد پھر فرعون آجا تا ھے فرق اعمال کا ہوتا ہے
 

نایاب

لائبریرین
قبضہ کس سے کرتا ھے ؟ کیا جس سے قبضہ کیا تھا اسے حکمرانی کا حق حاصل تھا ؟۔ مشرقی پاکستان کو توڑنے میں اس کا کتنا ہاتھ تھا ؟بہر حال ہر فرعون کے لیے موسیٰ ضرور آتا ہے اور موسیٰ کےبعد پھر فرعون آجا تا ھے فرق اعمال کا ہوتا ہے
سبحا ن اللہ
میرے محترم بھائی
مشرقی پاکستان توڑنے کے سلسلے میں " حمود الرحمان کمیشن " رپورٹ کا مطالعہ مفید رہے گا ۔
اور منتخب وزیراعظم کی اصطلاع بھٹو کے لیئے خاص ہے ۔ اور غاصب کی آپ ضیاء الحق کے لیئے ۔
یہ اچھے موسی تھے جو اپنے یدبیضاء کی مدد سے نوے دن کو گیارہ سالوں پہ محیط کرتے
اور عصا الہی کی مدد سے ہیروئن کلاشنکوف دہشت گردی کا زہر پھیلاتے ایسی کافر فیکٹری نصب فرما گئے ۔
جو دھڑا دھڑ جنت کے ٹکٹ چھاپتے معصوم نوجواں نسل کو بلا ویزہ جنت میں پہنچا رہی ہے ۔
موسی کلیم اللہ تو وہ سچے انسان تھے جنہوں نے بنی اسرائیل کو صداقت و امانت کا مظاہرہ کرتے نجات دلائی تھی ۔
بلاشک ہر اک کو اپنے اعمال کا ہی جواب دینا ہے ۔
 

سید زبیر

محفلین
جو دھڑا دھڑ جنت کے ٹکٹ چھاپتے معصوم نوجواں نسل کو بلا ویزہ جنت میں پہنچا رہی ہے ۔
موسی کلیم اللہ تو وہ سچے انسان تھے جنہوں نے بنی اسرائیل کو صداقت و امانت کا مظاہرہ کرتے نجات دلائی تھی ۔
بلاشک ہر اک کو اپنے اعمال کا ہی جواب دینا ہے ۔

نایاب بھائی آپ ضیا کو چھوڑیں ۔۔ وہ جانے اور میر اللہ ۔ لیکن کم از کم یہ تو یقین کر لیں کہ یہ دہماکے یہ دھشت گردی امریکہ کے پاکستانی تنخواہ دار گماشتے کر رھے ھیں مجاھدین تو اپنے ملک سےغا صبوں کو نکالنے کی جد و جہد کر رہے ہیں ۔ دوسری بات موسیٰ کلیم اللہ کی بات میں نے محاورتآ استعمال کیا تھا ۔کہاں موسیٰ ّ اور کہاں ضیا الحق کوئی نسبت نہیں۔ اور نہ ہی بھٹو کو فرعون سے نسبت ہو سکتی ھے یہ صرف مثال دی تھی
 

نایاب

لائبریرین
جہاد اور مجاہدین
شہادت گاہ مومن
عنداللہ پسندیدہ اور ان سے مفر تو کسی صورت ممکن نہیں ۔
لیکن یہ جو جہاد کے نام پر پاکستان کو دہشت گردی بھگتنی پڑ رہی ہے ۔
یہ جہاد الفساد ہے صرف ۔
کبھی ہم بھی مجاہد کا تمغہ لگائے پھرتے تھے ۔
کشمیر آزاد کرانا تھا ۔ بڑے پر جوش تھے ۔
اللہ کا فضل دماغ شاطر تھا ۔
جلد ہی سمجھ آ گئی کہ " شہادت " صرف کارکنان کے لیئے ہے ۔
اور اس " شہادت " کو حاصل کرنے کے سفر میں پہلا پڑاؤ " فلاں کافر " کی زبان بند کرنا ہے ۔
ہم کہ ٹھہرے اک چوہا بھی مارنے سے معذور ۔
سو توبہ کرتے ایسے جہاد سے لوٹ کے بدھو گھر کو آئے ۔
 

سید ذیشان

محفلین
واہ بھئی اب یہاں پر ڈکٹیٹرز کی بھی طرفداری ہو رہی ہے۔ پاکستان میں کسی بھی چیز کے ساتھ اسلام کا نام لگا دو تو لوگ اس کی پوجا شروع کر دیتے ہیں۔
میری توبہ جو آئندہ اس فورم میں کچھ پوسٹ کیا۔ یہ سب باتیں پڑھ کر مجھے پاکستان کا مستقبل تاریک نظر آنے لگتا ہے اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہوں۔ بہتر یہی ہے کہ اس سے دور رہوں اور اپنے کم میں مگن رہوں۔
 

ساجد

محفلین
محمد حنیف کے اکثر کالم حسن نثار کی طرز پر ہوتے ہیں۔ ضیاء مرحوم کی طرف داری مقصود نہیں بلکہ محمد حنیف کا ادنیٰ صحافتی معیار اور ان اسلامی اقدار پر موصوف کا غبار نکالنا کہ جو ایک اسلامی ملک کے باشندوں کے درمیان بلا اختلاف مسلک و مکتب یکساں قابلِ قبول ہیں اچھی طرح ظاہر کرتا ہے کہ وہ ضیاء پر تنقید کی آڑ میں اپنی انا کو کس طرح تسکین پہنچا رہے ہیں۔ ضیاء نے بلا شبہ اسلام کے نام پر قوم سے مذاق کیا ، آئیں توڑا ، لوگوں پر ظلم ڈھائے اور سیاسی چالوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام دیا ۔ شدت پسندوں کو پنپنے کے شاندار مواقع فراہم کئے۔ لیکن موصوف کالم نگار کا یہ لکھنا کہ ریڈیائی لہروں پر ، موبائل فون کی رنگ ٹون پر ، سڑکوں اور چوکوں پر ، بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں ، ان کی لوریوں میں ،ہمارے آئیں میں ، ہمارے قانون میں ، اس قانون کی حفاظت کرنے والوں کے ضمیر میں ، ٹی وی کے ڈراموں میں ، ٹاک شوز کے میزبانوں میں ، ہمارے منہ سے نکلتی عربی آوازوں میں ، حجابوں میں ، نقابوں میں ، نکاح نامہ دکھانے کے میں اور نہ جانے کیا کیا کاموں میں ضیاء زندہ ہے۔
ارے بھائی عقل کے ہول سیل بیوپاری تو اتنا بھی نہیں سمجھ سکا کہ ضیاء سے پہلے ہی قادیانی کافر قرار پا چکے تھے ، پاکستان کا آئین اسلامی ہو چکا تھا۔ زنا پر شرعی سز ا مقرر تھی ، عربی زبان بھی بولی جاتی تھی ، خواتین نقاب بھی کرتی تھیں ، حجاب کا بھی استعمال تھا اور ریڈیائی لہروں پر قرآن کے درس بھی نشر ہوا کرتے تھے ۔ مائیں ضیاء سے قبل بھی اپنے بچوں کو اللہ اللہ کے نام کی میٹھی لوری سنایا کرتی تھیں۔کتابوں میں اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (ختم ) نبوت کا ذکر بھی تھا۔ نکاح نامہ بھی بنایا جاتا تھا اور ضرورت پڑنے پر چیک بھی کیا جاتا تھا۔اور اگر ضیاء 11 سال حکومت کرنے کے بعد آج سے 24 سال قبل دنیا سے جا چکا ہے تو اس کے بعد کی ربع صدی میں پاکستان بھر میں آنے والی تبدیلیوں کو بھی تو کس حساب سے ایک فرد کے کھاتے میں ڈال کر اپنے صحافتی معیار کو چار چاند لگا رہا ہے۔ تو پاکستانی معاشرے اور اسلامی اقدار کے خلاف اپنے اندر کی سڑاند یوں نکال رہا ہے کہ اس کے آگے ضیاء کا مچایا ہوا گند بھی گندگی کے حوالے سے کم معلوم ہوتا ہے۔
بی بی سی کا معیار اس حد تک گر جائے گا یہ کس نے سوچا ہو گا ۔
 

عثمان

محفلین
محمد حنیف کے اکثر کالم حسن نثار کی طرز پر ہوتے ہیں۔ ضیاء مرحوم کی طرف داری مقصود نہیں بلکہ محمد حنیف کا ادنیٰ صحافتی معیار اور ان اسلامی اقدار پر موصوف کا غبار نکالنا کہ جو ایک اسلامی ملک کے باشندوں کے درمیان بلا اختلاف مسلک و مکتب یکساں قابلِ قبول ہیں اچھی طرح ظاہر کرتا ہے کہ وہ ضیاء پر تنقید کی آڑ میں اپنی انا کو کس طرح تسکین پہنچا رہے ہیں۔ ضیاء نے بلا شبہ اسلام کے نام پر قوم سے مذاق کیا ، آئیں توڑا ، لوگوں پر ظلم ڈھائے اور سیاسی چالوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام دیا ۔ شدت پسندوں کو پنپنے کے شاندار مواقع فراہم کئے۔ لیکن موصوف کالم نگار کا یہ لکھنا کہ ریڈیائی لہروں پر ، موبائل فون کی رنگ ٹون پر ، سڑکوں اور چوکوں پر ، بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں ، ان کی لوریوں میں ،ہمارے آئیں میں ، ہمارے قانون میں ، اس قانون کی حفاظت کرنے والوں کے ضمیر میں ، ٹی وی کے ڈراموں میں ، ٹاک شوز کے میزبانوں میں ، ہمارے منہ سے نکلتی عربی آوازوں میں ، حجابوں میں ، نقابوں میں ، نکاح نامہ دکھانے کے میں اور نہ جانے کیا کیا کاموں میں ضیاء زندہ ہے۔
ارے بھائی عقل کے ہول سیل بیوپاری تو اتنا بھی نہیں سمجھ سکا کہ ضیاء سے پہلے ہی قادیانی کافر قرار پا چکے تھے ، پاکستان کا آئین اسلامی ہو چکا تھا۔ زنا پر شرعی سز ا مقرر تھی ، عربی زبان بھی بولی جاتی تھی ، خواتین نقاب بھی کرتی تھیں ، حجاب کا بھی استعمال تھا اور ریڈیائی لہروں پر قرآن کے درس بھی نشر ہوا کرتے تھے ۔ اور اگر ضیاء 11 سال حکومت کرنے کے بعد آج سے 24 سال قبل دنیا سے جا چکا ہے تو اس کے بعد کی ربع صدی میں پاکستان بھر میں آنے والی تبدیلیوں کو بھی تو کس حساب سے ایک فرد کے کھاتے میں ڈال کر اپنے صحافتی معیار کو چار چاند لگا رہا ہے۔ تو پاکستانی معاشرے اور اسلامی اقدار کے خلاف اپنے اندر کی سڑاند یوں نکال رہا ہے کہ اس کے آگے ضیاء کا مچایا ہوا گند بھی گندگی کے حوالے سے کم معلوم ہوتا ہے۔
بی بی سی کا معیار اس حد تک گر جائے گا یہ کس نے سوچا ہو گا ۔
نکاح نامہ دیکھانے کا حوالہ تو ظاہر ہے ضیاء کے حدود آرڈیننس کی طرف ہے۔
منہ سے نکلتی عربی الفاظ کی چوٹ بھی خوب ہے۔ یہ اللہ حافظ اور خدا حافظ کی بحث ہی ملاحضہ کر لیجیے۔
حجاب ، نقاب اور برقع پر اس قدر لایعنی اصرار بھی ضیاء کے دور سے ہی خوب پروان چڑھا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اس سے پہلے کا پاکستان کتنا معتدل مزاج تھا۔ ضیاء سے پہلے اور ضیاء کے بعد کے پاکستانی معاشرے میں بہت فرق ہے۔ایک مذہبی جنونیت سے پہلے کا عہد تھا۔ دوسرا مذہبی جنونیت کا عہد۔ ہاں وہ الگ بات ہے کہ ضیاء کے چاہنے والے ایک کو حق اور دوسرے کو باطل عہد گردانیں گے۔
 

نایاب

لائبریرین
محمد حنیف کے اکثر کالم حسن نثار کی طرز پر ہوتے ہیں۔ ضیاء مرحوم کی طرف داری مقصود نہیں بلکہ محمد حنیف کا ادنیٰ صحافتی معیار اور ان اسلامی اقدار پر موصوف کا غبار نکالنا کہ جو ایک اسلامی ملک کے باشندوں کے درمیان بلا اختلاف مسلک و مکتب یکساں قابلِ قبول ہیں اچھی طرح ظاہر کرتا ہے کہ وہ ضیاء پر تنقید کی آڑ میں اپنی انا کو کس طرح تسکین پہنچا رہے ہیں۔ ضیاء نے بلا شبہ اسلام کے نام پر قوم سے مذاق کیا ، آئیں توڑا ، لوگوں پر ظلم ڈھائے اور سیاسی چالوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام دیا ۔ شدت پسندوں کو پنپنے کے شاندار مواقع فراہم کئے۔ لیکن موصوف کالم نگار کا یہ لکھنا کہ ریڈیائی لہروں پر ، موبائل فون کی رنگ ٹون پر ، سڑکوں اور چوکوں پر ، بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں ، ان کی لوریوں میں ،ہمارے آئیں میں ، ہمارے قانون میں ، اس قانون کی حفاظت کرنے والوں کے ضمیر میں ، ٹی وی کے ڈراموں میں ، ٹاک شوز کے میزبانوں میں ، ہمارے منہ سے نکلتی عربی آوازوں میں ، حجابوں میں ، نقابوں میں ، نکاح نامہ دکھانے کے میں اور نہ جانے کیا کیا کاموں میں ضیاء زندہ ہے۔
ارے بھائی عقل کے ہول سیل بیوپاری تو اتنا بھی نہیں سمجھ سکا کہ ضیاء سے پہلے ہی قادیانی کافر قرار پا چکے تھے ، پاکستان کا آئین اسلامی ہو چکا تھا۔ زنا پر شرعی سز ا مقرر تھی ، عربی زبان بھی بولی جاتی تھی ، خواتین نقاب بھی کرتی تھیں ، حجاب کا بھی استعمال تھا اور ریڈیائی لہروں پر قرآن کے درس بھی نشر ہوا کرتے تھے ۔ مائیں ضیاء سے قبل بھی اپنے بچوں کو اللہ اللہ کے نام کی میٹھی لوری سنایا کرتی تھیں۔ نکاح نامہ بھی بنایا جاتا تھا اور ضرورت پڑنے پر چیک بھی کیا جاتا تھا۔اور اگر ضیاء 11 سال حکومت کرنے کے بعد آج سے 24 سال قبل دنیا سے جا چکا ہے تو اس کے بعد کی ربع صدی میں پاکستان بھر میں آنے والی تبدیلیوں کو بھی تو کس حساب سے ایک فرد کے کھاتے میں ڈال کر اپنے صحافتی معیار کو چار چاند لگا رہا ہے۔ تو پاکستانی معاشرے اور اسلامی اقدار کے خلاف اپنے اندر کی سڑاند یوں نکال رہا ہے کہ اس کے آگے ضیاء کا مچایا ہوا گند بھی گندگی کے حوالے سے کم معلوم ہوتا ہے۔
بی بی سی کا معیار اس حد تک گر جائے گا یہ کس نے سوچا ہو گا ۔
محترم ساجد بھائی
گویا جو بھی " دہشت گردی " انتہا پسندی " کی بنیاد کی جانب اشارہ کرے گا ۔
وہ اسلامی اقدار کے خلاف اپنے اندر کی سڑاند باہر نکالے گا ۔
کاش کہ آپ نے اس کالم سے ابھرتی سوچ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہوتا ۔
شاید آپ نے 1977 سے پہلے کے پاکستان میں مذہبی آزادی کا مشاہدہ نہیں کیا ۔
کبھی وقت ملے تو تجزیہ کیجئے گا کہ 1978 سے لیکر اب تک
کتنے سنی کتنے شیعہ کتنے اہل حدیث کتنے قادیانی کتنے مسیحی کتنے ہندو
اس مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جھلسے ہیں ۔ ؟
اور سن 1977 سے پہلے کے تیس سال میں کتنے اس مذہبی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھے ۔؟
اور اس مذہبی انتہا پسندی کے ڈانڈے کہاں جا کر ملتے ہیں ۔
کہ اب تو مسجد جاتے بھی ڈر لگتا ہے ۔
کبھی محرم ربیع الاول میں لوگ گھروں میں ٹکتے ہی نہیں تھے ۔
خیال و خواب ہوئے وہ میلے
اب تو گھر سے نہیں نکلتے ۔
 
Top