اگر مان بھی لیں کہ طالبان امریکہ نے بنائے تھے تو بھی یہ ماننا پڑے گا کہ امریکہ ہی نے طالبان کی حکومت ختم کی اور امریکہ ہی نے طالبان پر جنگ مسلط کی۔ امریکہ ہی پاکستان کے اندر طالبان کے رہنماوں کو ڈرون حملوں سے مارتا رہاہے
ایک سادہ منظر میں امریکہ طالبان کا دشمن ہے۔ یہ دشمنی صرف اسامہ اور نو گیارہ حملوں کی وجہ سے ہے۔ یہی بات ہے نا فواد؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
جہاں تک طالبان کے حوالے سے آپ کا سوال ہے تو افغانستان ميں 90 کی دہائ کے دوران امريکی پاليسی کے حوالے سے ميری يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں ان امريکی اہلکاروں سے بڑی تفصيلی گفتگو ہوئ ہے جو 1995 ميں طالبان کے برسراقتدار آنے سے قبل کے حالات و واقعات اور اس ضمن ميں امريکی پاليسی سے براہراست منسلک تھے۔ اس کے علاوہ ميں نے ايسی سينکڑوں رپورٹوں اور دستاويزات کا بھی تفصيلی مطالعہ کيا ہے جو اس زمانے ميں امريکی اور پاکستانی حکومتی اہلکاروں کے درميان معلومات کے تبادلے پر مبنی ہيں۔ ان دستاويزات سے حاصل شدہ معلومات سے امريکی اہلکاروں کے بیانات کی تصدیق ہوتی ہے۔ ميں نے ان ميں سے کچھ دستاويزات کے لنکس اسی فورم پر کچھ سوالات کے جوابات کے ضمن ميں پوسٹ بھی کيے ہيں۔
موضوع کی مناسبت سے ميں دوبارہ وہ لنکس يہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔ ان دستاويزات پر درج تاریخيں توجہ طلب ہيں۔ يہ رپورٹیں 11 ستمبر 2001 کے واقعات سے پہلے کی ہيں۔ ان دستاويزات سے يہ بات ثابت ہے کہ 90 کی دہائ کے دوران امريکی حکومت کی جانب سے کئ بار حکومت پاکستان کی جانب سے افغانستان کی ديگر تمام سياسی قوتوں کو پس پشت ڈال کر صرف طالبان کی حمايت اور مدد پر شديد تحفظات کا اظہار کيا جاتا رہا۔ کم ازکم 30 مختلف موقعوں پر پاکستانی حکومت اور فوج کے اعلی حکام کو خطے ميں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ضمن ميں ممکنہ خطرات سے آگاہ کيا گيا۔
ايک دستاويز ميں طالبان کے برسراقتدار آنے کی صورت ميں دہشت گردی کے فروغ کے بارے ميں امريکی خدشات کے جواب ميں ايک پاکستانی اہلکار کا جواب خاصا توجہ طلب ہے
"وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طالبان اعتدال پسندی کی راہ اختيار کر ليں گے اور جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے تو يہ آج کا اہم مسلہ نہيں ہے اس مسلئے سے مستقبل ميں نبرد آزما ہوں ليں گے"۔
آپ يو – ايس –اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے ميری وابستگی کی بنياد پر ميری رائے کو جانب داری کے زمرے ميں ڈال سکتے ہيں۔ ليکن حقائق ان دستاويزات کی صورت ميں آپ کے سامنے ہيں۔
نومبر7 1996 کی اس دستاويز ميں پاکستان کی جانب سے طالبان کی براہراست فوجی امداد پر تشويش کا اظہار کيا گيا ہے۔ اس دستاويز ميں ان خبروں کی تصديق کی گئ ہے کہ آئ – ايس – آئ افغانستان ميں براہ راست ملوث ہے۔ اس ميں آئ – ايس – آئ کے مختلف اہلکاروں کا افغانستان ميں دائرہ کار کا بھی ذکر موجود ہے۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689832&da=y
ستمبر26 2000 کو يو – ايس – اسٹیٹ ڈيپارٹمنٹ کی اس رپورٹ ميں پاکستان کی جانب سے طالبان کو فوجی کاروائيوں کے ليے پاکستانی حدود کے اندر اجازت دينے پر شديد خدشات کا اظہار ان الفاظ ميں کيا گيا ہے
"يوں تو پاکستان کی جانب سے طالبان کی امداد کاقی عرصے سے جاری ہے ليکن اس حمايت ميں موجودہ توسيع کی ماضی ميں مثال نہيں ملتی"۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستان طالبان کو اپنی کاروائيوں کے ليے پاکستان کی سرحدی حدود کے اندر سہوليات مہيا کرنے کے علاوہ پاکستانی شہری بھی استعمال کر رہا ہے۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستان کی پختون فرنٹير کور افغانستان ميں طالبان کے شانہ بشانہ لڑائ ميں ملوث ہے۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689833&da=y
اگست 1996 ميں سی – آئ – اے کی اس دستاويز کے مطابق حرکت الانصار نامی انتہا پسند تنظيم جسے حکومت پاکستان کی حمايت حاصل رہی ہے، کے حوالے سے خدشات کا اظہار کيا گيا ہے۔ حرکت الانصار کی جانب سے غير ملکی شہريوں پر حملے اور عالمی دہشت گردی کے حوالے سے اپنے دائرہ کار کو وسيع کرنے کی غرض سے افغانستان ميں اسامہ بن لادن کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط مستقبل ميں اس جماعت کی جانب سے امريکہ کے خلاف دہشت گردی کے کسی بڑے واقعے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستانی اينٹيلی جينس انتہا پسند تنظيم حرکت الانصار کو مالی امداد مہيا کرتی ہے مگر اس کے باوجود يہ تنظيم اسامہ بن لادن سے تعلقات بڑھانے کی خواہش مند ہے جو کہ مستقبل ميں نہ صرف اسلام آباد بلکہ امريکہ کے ليے دہشت گردی کے نئے خطرات کو جنم دے گا۔ اس تنظيم کی جانب سے دہشت گردی کے حوالے سے ہوائ جہازوں کے استعمال کے بھی شواہد ملے ہيں۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689834&da=y
فروری6 1997 کی اس دستاویز ميں امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان کے ايک حکومتی اہلکار کو يہ باور کرايا گيا ہے کہ امريکی حکومت کو افغانستان ميں اسامہ بن لادن، طالبان اور حرکت الانصار کے درميان بڑھتے ہوئے تعلقات پر شديد تشويش ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے حرکت الانصار کی پشت پناہی کے حوالے سے پاکستانی حکومتی اہلکار کا يہ دعوی تھا کہ اس تنظيم کی کاروائيوں پر مکمل کنٹرول ہے اور اس حوالے سے مستقبل ميں پکستان کو کوئ خطرات درپيش نہیں ہيں۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689835&da=y
جنوری 16 1997 کی اس دستاويز کے مطابق طالبان کی انتہا پسند سوچ کا پاکستان کے قبائلی علاقے ميں براہراست اثرات کے خطرے کے حوالے سے حکومت پاکستان کا موقف يہ تھا کہ "يہ مسلہ فوری ترجيحات ميں شامل نہيں ہے"۔ کابل ميں طالبان کی موجودہ حکومت پاکستان کے بہترين مفاد ميں ہے۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689836&da=y
اکتوبر 22 1996 کی اس دستاويز کے مطابق آئ – ايس –آئ کے طالبان کے ساتھ روابط کا دائرہ کار اس سے کہيں زيادہ وسيع ہے جس کا اظہار حکومت پاکستان امريکی سفارت کاروں سے کرتی رہی ہے۔ آئ – ايس – آئ ايک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے ذريعے طالبان کو امداد مہيا کرتی رہی ہے۔ اس دستاويز کے مطابق آئ – ايس – آئ طالبان کو اسلحہ مہيا کرنے ميں براہراست ملوث ہے اور اس حوالے سے پاکستانی سفارت کار دانستہ يا کم علمی کی وجہ سے غلط بيانی سے کام ليتے رہے ہيں۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689837&da=y
امريکی انٹيلی جينس کی اس دستاويز کے مطابق پاکستان طالبان کی فوجی امداد ميں براہ راست ملوث ہے۔ اس دستاويز ميں حکومت پاکستان کی اس تشويش کا بھی ذکر ہے کہ پاکستان ميں پختون آبادی کو طالبان کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے ليے حکوت پاکستان طالبان کو اپنی پاليسيوں ميں اعتدال پيدا کرنے کے ليے اپنا رول ادا کرے گی۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689838&da=y
اگست 27 1997 کی اس دستاويز کے مطابق افغانستان کے مسلئے کے حوالے سے پاکستان کا کردار محض مصالحتی نہيں ہے بلکہ پاکستان براہراست فريق ہے۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689839&da=y
دسمبر 22 1995 کی اس دستاويز کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے تہران اور تاشقند کو اس يقين دہانی کے باوجود کہ پاکستان طالبان کو کنٹرول کر سکتا ہے، امريکی حکومتی حلقے اس حوالے سے شديد تحفظات رکھتے ہيں۔ اس دستاويز ميں امريکہ کی جانب سے حکومت پاکستان کی طالبان کی پشت پناہی کی پاليسی کو افغانستان ميں قيام امن کے ليے کی جانے والی عالمی کوششوں کی راہ ميں رکاوٹ قرار ديا ہے۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689840&da=y
اکتوبر 18 1996 کو کينيڈين اينٹيلی ايجنسی کی اس دستاويز کے مطابق کابل ميں طالبان کی توقع سے بڑھ کر کاميابی خود حکومت پاکستان کے لیے خدشات کا باعث بن رہی ہے اور طالبان پر حکومت پاکستان کا اثر ورسوخ کم ہونے کی صورت ميں خود پاکستان کے ليے نئے چيليجنز پيدا ہو جائيں گے۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689841&da=y
مارچ 9 1998 کی اس دستاويز ميں اسلام آباد ميں امريکی ڈپٹی چيف آف مشن ايلن ايستھم اور پاکستان کے دفتر خارجہ کے ايک اہلکار افتخار مرشد کی ملاقات کا ذکر ہے جس ميں امريکی حکومت کی جانب سے اسامہ بن لادن سے منسوب حاليہ فتوے اور پاکستان ميں حرکت الانصار کے ليڈر فضل الرحمن خليل کی جانب سے اس فتوے کی تحريری حمايت کے حوالے سے امريکی حکومت کے خدشات کا اعادہ کيا گيا۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689842&da=y
ستمبر 28 1998 اور 25 مارچ 1999 کی ان دو دستاويزات ميں امريکی حکومت نے ان خدشات کا اظہار کيا ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنے اثر ورسوخ کے باوجود اسامہ بن لادن کی بازيابی ميں اپنا کردار ادا نہيں کر رہا۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689843&da=y
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689844&da=y
دسمبر 5 1994 کی اس دستاويز کے مطابق حکومت پاکستان کی افغانستان کی سياست ميں براہراست مداخلت اور طالبان پر آئ – ايس – آئ کے اثرورسوخ کے سبب طالبان قندھار اور قلات پر قبضہ کرنے ميں کامياب ہوئے۔
پاکستان کی اس غير معمولی مداخلت کے سبب اقوام متحدہ ميں افغانستان کے خصوصی ايلچی محمود ميسٹری کی افغانستان مين قيام امن کی کوششوں ميں شديد مشکلات حائل ہيں۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689845&da=y
جنوری 29 1995 کی اس دستاويز میں حکومت پاکستان کے اہلکاروں کی جرنل دوسطم سے ملاقات کا ذکر ہے جس ميں انھيں يہ باور کروايا گيا کہ طالبان ان کے خلاف کاروائ نہيں کريں گے ليکن اس يقين دہانی کے باوجود مئ 1997 ميں مزار شريف پر قبضہ کر کے انھيں جلاوطن ہونے پر مجبور کر ديا۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689846&da=y
اکتوبر 18 1995 کی اس دستاويز ميں افغانستان ميں پاکستانی سفير قاضی ہمايوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کی سپورٹ اور اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی مشکلات کا ذکر کيا ہے۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689847&da=y
ستمبر 30 1996 کو کابل ميں طالبان کے قبضے کے چار دن بعد سی – آئ – اے کی جانب سے اس دستاويز ميں طالبان کی جانب سے دہشت گرد تنظيموں کی پشت پناہی کے حوالے سے غير متوازن پاليسی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گيا ہے۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689848&da=y
اکتوبر 2 1996 کی اس دستاويز ميں آئ – ايس – آئ کی جانب سے 30 سے 35 ٹرک اور 15 سے 20 تيل کے ٹينکر افغانستان منتقل کرنے کا حوالہ ہے۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689849&da=y
نومبر 12 1996 کی اس دستاویز ميں طالبان کے ترجمان ملا غوث کے توسط سے اس دعوے کا ذکر ہے کہ اسامہ بن لادن افغانستان ميں موجود نہيں ہيں۔ اس دستاويز ميں اسامہ بن لادن کو افغانستان ميں لانے اور طالبان سے متعارف کروانے ميں پاکستان کے براہراست کردار کا بھی ذکر ہے۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689850&da=y
مارچ 10 1997 کی اس دستاويز ميں حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کے حوالے سے پاليسی ميں تبديلی کا عنديہ ديا گيا ہے ليکن آئ – ايس – آئ کی جانب سے طالبان کی بھرپور حمايت کا اعادہ کيا گيا ہے۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689851&da=y
جولائ 1 1998 کی اس دستاويز ميں پاکستان کے ايٹمی دھماکے کے بعد نئ سياسی فضا کے پس منظر ميں پاکستان کی جانب سے پہلی بار کھلم کھلا طالبان کی پشت پناہی کا اعادہ کيا گيا۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689853&da=y
اگست 6 1998 کی اس دستاويز ميں ايک رپورٹ کے حوالے سے يہ باور کرايا گيا کہ طالبان کی صفوں ميں 20 سے 40 فيصد فوجی پاکستانی ہيں۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689854&da=y
ستمبر 11 2001 کا واقعہ وہ نقطہ تھا جس پر تمام مذاکرات، مطالبات، قراردادوں اور رپورٹس کا سلسلہ منقطع ہو گيا۔ يہ واضح ہو چکا تھا کہ دہشت گردی کو روکنے، بے گناہ انسانوں کو محفوظ رکھنے اور اسامہ بن لادن کو انصاف کے کٹہرے ميں لانے کے ليے فوجی کاروائ آخری آپشن ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUr