طالبان دہشت گرد وں کا مذکرات سے انکار

اگر مان بھی لیں کہ طالبان امریکہ نے بنائے تھے تو بھی یہ ماننا پڑے گا کہ امریکہ ہی نے طالبان کی حکومت ختم کی اور امریکہ ہی نے طالبان پر جنگ مسلط کی۔ امریکہ ہی پاکستان کے اندر طالبان کے رہنماوں کو ڈرون حملوں سے مارتا رہاہے

ایک سادہ منظر میں امریکہ طالبان کا دشمن ہے۔ یہ دشمنی صرف اسامہ اور نو گیارہ حملوں کی وجہ سے ہے۔ یہی بات ہے نا فواد؟
 

سید ذیشان

محفلین
سید ذیشان بھائی ، ان کو سب کچھ معلوم ہے اور میں پہلے بھی یہ بیانات و دیگر ثبوت کئی بار ان کے سامنے پیش کر چکا ہوں لیکن ان کا کوا سفید ہی رہا ۔ اسی لئے اب میں ان کے مراسلات کا جواب دے کر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ یہ جتنا مرضی جھوٹ بول لیں اتنا ہی سچ کھل کر سامنے آئے گا۔


بالکل درست کہا ساجد بھائی لیکن روزی روٹی کا معاملہ ہے نا تو امریکہ کو نیک سیرت دوشیزہ تو ثابت کرنا ہی ہے چاہے دامن کتنا ہی داغ دار کیوں نہ ہو۔ :)
 

سید ذیشان

محفلین
اگر مان بھی لیں کہ طالبان امریکہ نے بنائے تھے تو بھی یہ ماننا پڑے گا کہ امریکہ ہی نے طالبان کی حکومت ختم کی اور امریکہ ہی نے طالبان پر جنگ مسلط کی۔ امریکہ ہی پاکستان کے اندر طالبان کے رہنماوں کو ڈرون حملوں سے مارتا رہاہے

ایک سادہ منظر میں امریکہ طالبان کا دشمن ہے۔ یہ دشمنی صرف اسامہ اور نو گیارہ حملوں کی وجہ سے ہے۔ یہی بات ہے نا فواد؟


سوال یہ نہیں ہے کہ امریکہ اب بھی ان کو سپورٹ کرتا ہے یا نہیں، جس کا جواب بہت ظاہر ہے کہ نہیں کرتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فواد صاھب امریکہ کو ایک تمدن پسند، جدید ڈیموکرسی ثابت کرنا چاہتے جس کو انسانی حقوق کا پاس ہے۔ لیکن انہوں طالبان جیسے دہشتگردوں کو رقم اور اسلحہ فراہم کیا جو عورتوں اور اقلیتوں پر مظالم کرتے تھے۔ لیکن سیکھا کچھ نہیں ابھی بھی شام میں جبھہ النصریٰ، جس کے لوگ دشمنوں کے جسموں سے دل نکال کر کھاتے ہیں، کو رقوم اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔
 
سوال یہ نہیں ہے کہ امریکہ اب بھی ان کو سپورٹ کرتا ہے یا نہیں، جس کا جواب بہت ظاہر ہے کہ نہیں کرتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فواد صاھب امریکہ کو ایک تمدن پسند، جدید ڈیموکرسی ثابت کرنا چاہتے جس کو انسانی حقوق کا پاس ہے۔ لیکن انہوں طالبان جیسے دہشتگردوں کو رقم اور اسلحہ فراہم کیا جو عورتوں اور اقلیتوں پر مظالم کرتے تھے۔ لیکن سیکھا کچھ نہیں ابھی بھی شام میں جبھہ النصریٰ، جس کے لوگ دشمنوں کے جسموں سے دل نکال کر کھاتے ہیں، کو رقوم اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔

میرا خیال ہے شام کے معاملے کو بعد میں دیکھتے ہیں جہاں حزب اللہ جیسے دہشت گرد بھی کام کررہے ہیں

عورتوں اور اقلیتوں پر مظالم تو برما، بوسینیا اور ایران میں بھی ہوتے رہے ہیں اور امریکہ اس پر کوئی خاص کاروائی نہیں کرتا سوائے بیان بازی کے۔ لہذا طالبان کی حکومت ختم کرنے کی یہ کوئی اہم وجہ نہیں۔ فواد کی پیش کردہ دلیل میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ امریکہ اسامہ کی وجہ سے طالبان کو پسند نہیں کرتا۔
رہی بات اس کی کہ امریکہ طالبان کو رقم فراہم کرتا رہا ہے 94 سے پہلے تک۔ اس بات کی تصدیق ابھی تک فواد نے نہیں کی۔ ھیلری کے بیان کی تشریح بھی فواد کے ذمہ ہے
 
بالکل درست کہا ساجد بھائی لیکن روزی روٹی کا معاملہ ہے نا تو امریکہ کو نیک سیرت دوشیزہ تو ثابت کرنا ہی ہے چاہے دامن کتنا ہی داغ دار کیوں نہ ہو۔ :)

کم ازکم فواد اتنا سچ تو کہہ رہا ہے کہ امریکہ اب طالبان کو سپورٹ نہیں کرتا۔ وگرنہ امریکی افواج اتنی بڑی تعداد میں افغانستان میں نہ بیٹھی ہوتیں صرف اس وجہ سے کہ وہاں طالبان کی حکومت قائم نہ ہوسکے۔
 

سید ذیشان

محفلین
میرا خیال ہے شام کے معاملے کو بعد میں دیکھتے ہیں جہاں حزب اللہ جیسے دہشت گرد بھی کام کررہے ہیں

عورتوں اور اقلیتوں پر مظالم تو برما، بوسینیا اور ایران میں بھی ہوتے رہے ہیں اور امریکہ اس پر کوئی خاص کاروائی نہیں کرتا سوائے بیان بازی کے۔ لہذا طالبان کی حکومت ختم کرنے کی یہ کوئی اہم وجہ نہیں۔ فواد کی پیش کردہ دلیل میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ امریکہ اسامہ کی وجہ سے طالبان کو پسند نہیں کرتا۔
رہی بات اس کی کہ امریکہ طالبان کو رقم فراہم کرتا رہا ہے 94 سے پہلے تک۔ اس بات کی تصدیق ابھی تک فواد نے نہیں کی۔ ھیلری کے بیان کی تشریح بھی فواد کے ذمہ ہے


آپ کا اپنا کوئی مطالعہ نہیں ہے جو ہر بات میں فواد کو لے آتے ہیں؟
 

سید ذیشان

محفلین
کم ازکم فواد اتنا سچ تو کہہ رہا ہے کہ امریکہ اب طالبان کو سپورٹ نہیں کرتا۔ وگرنہ امریکی افواج اتنی بڑی تعداد میں افغانستان میں نہ بیٹھی ہوتیں صرف اس وجہ سے کہ وہاں طالبان کی حکومت قائم نہ ہوسکے۔


طالبان ہر مہینے درجنوں امریکی مارتے ہیں تو وہ ان کو کیسے سپورٹ کر سکتے ہیں؟ ساجد بھائی نے پاکستانی طالبان کے سپورٹ کی بات کی تھی، لیکن اس بات سے میں غیر متفق ہوں۔
 
آپ کا اپنا کوئی مطالعہ نہیں ہے جو ہر بات میں فواد کو لے آتے ہیں؟

امریکی ترجمان فواد ہیں۔ میرا مطالعہ نہیں۔ کیا برا ہے اگر طالبان کے بنانے کے بیان کو جو ھیلری نے دیا ہے اس کی تشریح خود ان امریکیوں سے ہی پوچھی جاوے؟
 
طالبان ہر مہینے درجنوں امریکی مارتے ہیں تو وہ ان کو کیسے سپورٹ کر سکتے ہیں؟ ساجد بھائی نے پاکستانی طالبان کے سپورٹ کی بات کی تھی، لیکن اس بات سے میں غیر متفق ہوں۔

یعنی اپ اس بات کے قائل ہیں کہ افغانستان میں امریکی افغان طالبان کے خلاف ہیں
اور اپ اس سے متفق ہیں کہ امریکی پاکستانی طالبان کے بھی خلاف ہیں ۔

فواد کا بھی یہی موقف ہیں
میں صرف یہ جاننا چاہ رہا ہوں فواد سے کہ طالبان کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ اگر اسامہ ہے ؟ اگر اسامہ ہے تو امریکہ کے لیے مخالفت کی سب سے بڑی وجہ ختم ہی ہوچکی ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
یعنی اپ اس بات کے قائل ہیں کہ افغانستان میں امریکی افغان طالبان کے خلاف ہیں
اور اپ اس سے متفق ہیں کہ امریکی پاکستانی طالبان کے بھی خلاف ہیں ۔

فواد کا بھی یہی موقف ہیں
میں صرف یہ جاننا چاہ رہا ہوں فواد سے کہ طالبان کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ اگر اسامہ ہے ؟ اگر اسامہ ہے تو امریکہ کے لیے مخالفت کی سب سے بڑی وجہ ختم ہی ہوچکی ہے۔


امریکہ پاکستان طالبان کے خلاف نہ بھی ہوں تو ان کے ساتھ کم از کم نہیں ہیں، اور یہ میرا موقف ہے۔
 
امریکہ پاکستان طالبان کے خلاف نہ بھی ہوں تو ان کے ساتھ کم از کم نہیں ہیں، اور یہ میرا موقف ہے۔

ساتھ نہیں تو خلاف ہونگے۔ کہ نہیں؟
اگر امریکہ کے ڈرون حملوں سے نیک محمد، بیت اللہ محسود اور ولی الرحمان نشانہ بنے تو یہ کس بات کی نشاندہی ہے؟
 

سید ذیشان

محفلین
ساتھ نہیں تو خلاف ہونگے۔ کہ نہیں؟
اگر امریکہ کے ڈرون حملوں سے نیک محمد، بیت اللہ محسود اور ولی الرحمان نشانہ بنے تو یہ کس بات کی نشاندہی ہے؟


یہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے میں سمجھوتے کی نشاندہی کرتی ہے۔
 
ایسا نہیں ہے۔ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر یہ چل رہا ہے۔

یعنی ملکر نہیں لڑرہے بلکہ کبھی مل جاتے ہیں کبھی نہیں۔ یہی تو تعاون کہلاتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ اپ اپنی رائے کو واضح کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے۔

بہرحال یہ معاملہ فواد کی بیان کے انے تک موخر کرتے ہیں
 

ساجد

محفلین
طالبان ہر مہینے درجنوں امریکی مارتے ہیں تو وہ ان کو کیسے سپورٹ کر سکتے ہیں؟ ساجد بھائی نے پاکستانی طالبان کے سپورٹ کی بات کی تھی، لیکن اس بات سے میں غیر متفق ہوں۔
جی بالکل ذیشان بھائی آپ کو اختلاف کا حق حاصل ہے اور مجھے اس کا احترام ہے۔
میرے اپنے مطالعہ کے مطابق طالبان کی بنیاد افغانستان میں نہیں بلکہ امریکہ اور آئی ایس آئی نے کچھ عرب ممالک کی افرادی اور نظریاتی حمایت کے ساتھ پاکستان میں رکھی ۔ پھر کچھ عرصہ تک تو امریکی و پاکستانی مفادات ایک ساتھ چلتے رہے اور طالبان دونوں ممالک کے لئے قابلِ قبول تھے لیکن پھر بقول ہیلری کلنٹن ان طالبان کے "ظاہری" اسلامی تشخص کی وجہ سے امریکہ کو اپنے مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگے تب ان میں گروپ بندی کی گئی اور نئے ڈمیاں بنائی گئیں ، ڈالرز خرچ کئے گئے دوسری طرف پاکستان نے بھی حصہ بقدر جثہ اپنی مرضی کے طالبان کو پالا لیکن امریکہ نے جب افغانستان میں جارحیت کا ارتکاب کرتے وقت پاکستان سے دو ٹوک الفاظ میں امریکہ مخالف طالبانی گروہ سے ہاتھ اٹھانے کا کہا تو پاکستان نے ملا ضعیف اور دیگر طالبان کو گرفتار کر لیا جس سے طالبان میں اشتعال پیدا ہوا اور جن مذہبی مدرسوں سے یہ طالبان تعلق رکھتے تھے انہوں نے پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے ، یہ طالبان پاکستانی طالبان کہلائے جو آج بھی پاکستان کے بے گناہ لوگوں کو قتل کر کے اپنے تئیں بدلہ لے رہے ہیں جبکہ افغانستان کے طالبان اپنی حکومت ختم ہونے پر امریکہ سے لڑ رہے ہیں جن میں سے کچھ گروہوں کو امریکی جارحیت کی وجہ سے افغان عوام سے حمایت بھی ملتی ہے اسی طرح پاکستانی طالبان کو باوجود پاکستانیوں کے قاتل ہونے کے پاکستان کے بعض مذہبی حلقوں سے مکمل حمایت مل رہی ہے اور وہ ان عناصر کی مدد سے ہی اپنی اکثر کارروائیاں پایہ تکمیل کو پہنچاتے ہیں۔ اب اس گھمبیر صورتحال کا امریکہ نے یوں فائدہ اٹھایا کہ اس نے دونوں گروہوں میں اپنے افراد داخل کر دئے اور ڈالرز تقسیم کر کے ان میں مزید تقسیم کر دی۔ آپ دیکھ سکتے ہین کہ جب بیت اللہ محسود قتل ہوا تو اس کے بعد طالبان کے یہ گروہ آپس میں لڑنے لگے وجہ تھی اس خطیر رقم پر قبضہ جمانا جو سی آئی اے نے ان کو ڈالروں کی شکل میں دے رکھی تھی۔ اور خود بیت اللہ محسود کافی عرصہ تک امریکی حملوں کے باوجود زندہ رہا لیکن اسے مارا بھی امریکہ نے ۔ آپ 2001 کے بعد کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ نے اس جنگ اپنے کسی بھی پروردہ کو ایک خاص وقت سے زیادہ کام کرنے اور جینے نہیں دیا اور یہ چال حربی سٹریٹجی کا اہم حصہ ہوا کرتی ہے کہ جو زیادہ جان جائے اسے ختم کر دو۔
 

Fawad -

محفلین
اگر مان بھی لیں کہ طالبان امریکہ نے بنائے تھے تو بھی یہ ماننا پڑے گا کہ امریکہ ہی نے طالبان کی حکومت ختم کی اور امریکہ ہی نے طالبان پر جنگ مسلط کی۔ امریکہ ہی پاکستان کے اندر طالبان کے رہنماوں کو ڈرون حملوں سے مارتا رہاہے

ایک سادہ منظر میں امریکہ طالبان کا دشمن ہے۔ یہ دشمنی صرف اسامہ اور نو گیارہ حملوں کی وجہ سے ہے۔ یہی بات ہے نا فواد؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جہاں تک طالبان کے حوالے سے آپ کا سوال ہے تو افغانستان ميں 90 کی دہائ کے دوران امريکی پاليسی کے حوالے سے ميری يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں ان امريکی اہلکاروں سے بڑی تفصيلی گفتگو ہوئ ہے جو 1995 ميں طالبان کے برسراقتدار آنے سے قبل کے حالات و واقعات اور اس ضمن ميں امريکی پاليسی سے براہراست منسلک تھے۔ اس کے علاوہ ميں نے ايسی سينکڑوں رپورٹوں اور دستاويزات کا بھی تفصيلی مطالعہ کيا ہے جو اس زمانے ميں امريکی اور پاکستانی حکومتی اہلکاروں کے درميان معلومات کے تبادلے پر مبنی ہيں۔ ان دستاويزات سے حاصل شدہ معلومات سے امريکی اہلکاروں کے بیانات کی تصدیق ہوتی ہے۔ ميں نے ان ميں سے کچھ دستاويزات کے لنکس اسی فورم پر کچھ سوالات کے جوابات کے ضمن ميں پوسٹ بھی کيے ہيں۔

موضوع کی مناسبت سے ميں دوبارہ وہ لنکس يہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔ ان دستاويزات پر درج تاریخيں توجہ طلب ہيں۔ يہ رپورٹیں 11 ستمبر 2001 کے واقعات سے پہلے کی ہيں۔ ان دستاويزات سے يہ بات ثابت ہے کہ 90 کی دہائ کے دوران امريکی حکومت کی جانب سے کئ بار حکومت پاکستان کی جانب سے افغانستان کی ديگر تمام سياسی قوتوں کو پس پشت ڈال کر صرف طالبان کی حمايت اور مدد پر شديد تحفظات کا اظہار کيا جاتا رہا۔ کم ازکم 30 مختلف موقعوں پر پاکستانی حکومت اور فوج کے اعلی حکام کو خطے ميں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ضمن ميں ممکنہ خطرات سے آگاہ کيا گيا۔

ايک دستاويز ميں طالبان کے برسراقتدار آنے کی صورت ميں دہشت گردی کے فروغ کے بارے ميں امريکی خدشات کے جواب ميں ايک پاکستانی اہلکار کا جواب خاصا توجہ طلب ہے

"وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طالبان اعتدال پسندی کی راہ اختيار کر ليں گے اور جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے تو يہ آج کا اہم مسلہ نہيں ہے اس مسلئے سے مستقبل ميں نبرد آزما ہوں ليں گے"۔

آپ يو – ايس –اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے ميری وابستگی کی بنياد پر ميری رائے کو جانب داری کے زمرے ميں ڈال سکتے ہيں۔ ليکن حقائق ان دستاويزات کی صورت ميں آپ کے سامنے ہيں۔

نومبر7 1996 کی اس دستاويز ميں پاکستان کی جانب سے طالبان کی براہراست فوجی امداد پر تشويش کا اظہار کيا گيا ہے۔ اس دستاويز ميں ان خبروں کی تصديق کی گئ ہے کہ آئ – ايس – آئ افغانستان ميں براہ راست ملوث ہے۔ اس ميں آئ – ايس – آئ کے مختلف اہلکاروں کا افغانستان ميں دائرہ کار کا بھی ذکر موجود ہے۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689832&da=y


ستمبر26 2000 کو يو – ايس – اسٹیٹ ڈيپارٹمنٹ کی اس رپورٹ ميں پاکستان کی جانب سے طالبان کو فوجی کاروائيوں کے ليے پاکستانی حدود کے اندر اجازت دينے پر شديد خدشات کا اظہار ان الفاظ ميں کيا گيا ہے

"يوں تو پاکستان کی جانب سے طالبان کی امداد کاقی عرصے سے جاری ہے ليکن اس حمايت ميں موجودہ توسيع کی ماضی ميں مثال نہيں ملتی"۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستان طالبان کو اپنی کاروائيوں کے ليے پاکستان کی سرحدی حدود کے اندر سہوليات مہيا کرنے کے علاوہ پاکستانی شہری بھی استعمال کر رہا ہے۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستان کی پختون فرنٹير کور افغانستان ميں طالبان کے شانہ بشانہ لڑائ ميں ملوث ہے۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689833&da=y

اگست 1996 ميں سی – آئ – اے کی اس دستاويز کے مطابق حرکت الانصار نامی انتہا پسند تنظيم جسے حکومت پاکستان کی حمايت حاصل رہی ہے، کے حوالے سے خدشات کا اظہار کيا گيا ہے۔ حرکت الانصار کی جانب سے غير ملکی شہريوں پر حملے اور عالمی دہشت گردی کے حوالے سے اپنے دائرہ کار کو وسيع کرنے کی غرض سے افغانستان ميں اسامہ بن لادن کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط مستقبل ميں اس جماعت کی جانب سے امريکہ کے خلاف دہشت گردی کے کسی بڑے واقعے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستانی اينٹيلی جينس انتہا پسند تنظيم حرکت الانصار کو مالی امداد مہيا کرتی ہے مگر اس کے باوجود يہ تنظيم اسامہ بن لادن سے تعلقات بڑھانے کی خواہش مند ہے جو کہ مستقبل ميں نہ صرف اسلام آباد بلکہ امريکہ کے ليے دہشت گردی کے نئے خطرات کو جنم دے گا۔ اس تنظيم کی جانب سے دہشت گردی کے حوالے سے ہوائ جہازوں کے استعمال کے بھی شواہد ملے ہيں۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689834&da=y

فروری6 1997 کی اس دستاویز ميں امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان کے ايک حکومتی اہلکار کو يہ باور کرايا گيا ہے کہ امريکی حکومت کو افغانستان ميں اسامہ بن لادن، طالبان اور حرکت الانصار کے درميان بڑھتے ہوئے تعلقات پر شديد تشويش ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے حرکت الانصار کی پشت پناہی کے حوالے سے پاکستانی حکومتی اہلکار کا يہ دعوی تھا کہ اس تنظيم کی کاروائيوں پر مکمل کنٹرول ہے اور اس حوالے سے مستقبل ميں پکستان کو کوئ خطرات درپيش نہیں ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689835&da=y

جنوری 16 1997 کی اس دستاويز کے مطابق طالبان کی انتہا پسند سوچ کا پاکستان کے قبائلی علاقے ميں براہراست اثرات کے خطرے کے حوالے سے حکومت پاکستان کا موقف يہ تھا کہ "يہ مسلہ فوری ترجيحات ميں شامل نہيں ہے"۔ کابل ميں طالبان کی موجودہ حکومت پاکستان کے بہترين مفاد ميں ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689836&da=y

اکتوبر 22 1996 کی اس دستاويز کے مطابق آئ – ايس –آئ کے طالبان کے ساتھ روابط کا دائرہ کار اس سے کہيں زيادہ وسيع ہے جس کا اظہار حکومت پاکستان امريکی سفارت کاروں سے کرتی رہی ہے۔ آئ – ايس – آئ ايک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے ذريعے طالبان کو امداد مہيا کرتی رہی ہے۔ اس دستاويز کے مطابق آئ – ايس – آئ طالبان کو اسلحہ مہيا کرنے ميں براہراست ملوث ہے اور اس حوالے سے پاکستانی سفارت کار دانستہ يا کم علمی کی وجہ سے غلط بيانی سے کام ليتے رہے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689837&da=y

امريکی انٹيلی جينس کی اس دستاويز کے مطابق پاکستان طالبان کی فوجی امداد ميں براہ راست ملوث ہے۔ اس دستاويز ميں حکومت پاکستان کی اس تشويش کا بھی ذکر ہے کہ پاکستان ميں پختون آبادی کو طالبان کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے ليے حکوت پاکستان طالبان کو اپنی پاليسيوں ميں اعتدال پيدا کرنے کے ليے اپنا رول ادا کرے گی۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689838&da=y

اگست 27 1997 کی اس دستاويز کے مطابق افغانستان کے مسلئے کے حوالے سے پاکستان کا کردار محض مصالحتی نہيں ہے بلکہ پاکستان براہراست فريق ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689839&da=y

دسمبر 22 1995 کی اس دستاويز کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے تہران اور تاشقند کو اس يقين دہانی کے باوجود کہ پاکستان طالبان کو کنٹرول کر سکتا ہے، امريکی حکومتی حلقے اس حوالے سے شديد تحفظات رکھتے ہيں۔ اس دستاويز ميں امريکہ کی جانب سے حکومت پاکستان کی طالبان کی پشت پناہی کی پاليسی کو افغانستان ميں قيام امن کے ليے کی جانے والی عالمی کوششوں کی راہ ميں رکاوٹ قرار ديا ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689840&da=y

اکتوبر 18 1996 کو کينيڈين اينٹيلی ايجنسی کی اس دستاويز کے مطابق کابل ميں طالبان کی توقع سے بڑھ کر کاميابی خود حکومت پاکستان کے لیے خدشات کا باعث بن رہی ہے اور طالبان پر حکومت پاکستان کا اثر ورسوخ کم ہونے کی صورت ميں خود پاکستان کے ليے نئے چيليجنز پيدا ہو جائيں گے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689841&da=y

مارچ 9 1998 کی اس دستاويز ميں اسلام آباد ميں امريکی ڈپٹی چيف آف مشن ايلن ايستھم اور پاکستان کے دفتر خارجہ کے ايک اہلکار افتخار مرشد کی ملاقات کا ذکر ہے جس ميں امريکی حکومت کی جانب سے اسامہ بن لادن سے منسوب حاليہ فتوے اور پاکستان ميں حرکت الانصار کے ليڈر فضل الرحمن خليل کی جانب سے اس فتوے کی تحريری حمايت کے حوالے سے امريکی حکومت کے خدشات کا اعادہ کيا گيا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689842&da=y

ستمبر 28 1998 اور 25 مارچ 1999 کی ان دو دستاويزات ميں امريکی حکومت نے ان خدشات کا اظہار کيا ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنے اثر ورسوخ کے باوجود اسامہ بن لادن کی بازيابی ميں اپنا کردار ادا نہيں کر رہا۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689843&da=y

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689844&da=y


دسمبر 5 1994 کی اس دستاويز کے مطابق حکومت پاکستان کی افغانستان کی سياست ميں براہراست مداخلت اور طالبان پر آئ – ايس – آئ کے اثرورسوخ کے سبب طالبان قندھار اور قلات پر قبضہ کرنے ميں کامياب ہوئے۔

پاکستان کی اس غير معمولی مداخلت کے سبب اقوام متحدہ ميں افغانستان کے خصوصی ايلچی محمود ميسٹری کی افغانستان مين قيام امن کی کوششوں ميں شديد مشکلات حائل ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689845&da=y


جنوری 29 1995 کی اس دستاويز میں حکومت پاکستان کے اہلکاروں کی جرنل دوسطم سے ملاقات کا ذکر ہے جس ميں انھيں يہ باور کروايا گيا کہ طالبان ان کے خلاف کاروائ نہيں کريں گے ليکن اس يقين دہانی کے باوجود مئ 1997 ميں مزار شريف پر قبضہ کر کے انھيں جلاوطن ہونے پر مجبور کر ديا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689846&da=y


اکتوبر 18 1995 کی اس دستاويز ميں افغانستان ميں پاکستانی سفير قاضی ہمايوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کی سپورٹ اور اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی مشکلات کا ذکر کيا ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689847&da=y


ستمبر 30 1996 کو کابل ميں طالبان کے قبضے کے چار دن بعد سی – آئ – اے کی جانب سے اس دستاويز ميں طالبان کی جانب سے دہشت گرد تنظيموں کی پشت پناہی کے حوالے سے غير متوازن پاليسی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گيا ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689848&da=y


اکتوبر 2 1996 کی اس دستاويز ميں آئ – ايس – آئ کی جانب سے 30 سے 35 ٹرک اور 15 سے 20 تيل کے ٹينکر افغانستان منتقل کرنے کا حوالہ ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689849&da=y


نومبر 12 1996 کی اس دستاویز ميں طالبان کے ترجمان ملا غوث کے توسط سے اس دعوے کا ذکر ہے کہ اسامہ بن لادن افغانستان ميں موجود نہيں ہيں۔ اس دستاويز ميں اسامہ بن لادن کو افغانستان ميں لانے اور طالبان سے متعارف کروانے ميں پاکستان کے براہراست کردار کا بھی ذکر ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689850&da=y


مارچ 10 1997 کی اس دستاويز ميں حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کے حوالے سے پاليسی ميں تبديلی کا عنديہ ديا گيا ہے ليکن آئ – ايس – آئ کی جانب سے طالبان کی بھرپور حمايت کا اعادہ کيا گيا ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689851&da=y


جولائ 1 1998 کی اس دستاويز ميں پاکستان کے ايٹمی دھماکے کے بعد نئ سياسی فضا کے پس منظر ميں پاکستان کی جانب سے پہلی بار کھلم کھلا طالبان کی پشت پناہی کا اعادہ کيا گيا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689853&da=y


اگست 6 1998 کی اس دستاويز ميں ايک رپورٹ کے حوالے سے يہ باور کرايا گيا کہ طالبان کی صفوں ميں 20 سے 40 فيصد فوجی پاکستانی ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689854&da=y


ستمبر 11 2001 کا واقعہ وہ نقطہ تھا جس پر تمام مذاکرات، مطالبات، قراردادوں اور رپورٹس کا سلسلہ منقطع ہو گيا۔ يہ واضح ہو چکا تھا کہ دہشت گردی کو روکنے، بے گناہ انسانوں کو محفوظ رکھنے اور اسامہ بن لادن کو انصاف کے کٹہرے ميں لانے کے ليے فوجی کاروائ آخری آپشن ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUr
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جہاں تک طالبان کے حوالے سے آپ کا سوال ہے تو افغانستان ميں 90 کی دہائ کے دوران امريکی پاليسی کے حوالے سے ميری يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں ان امريکی اہلکاروں سے بڑی تفصيلی گفتگو ہوئ ہے جو 1995 ميں طالبان کے برسراقتدار آنے سے قبل کے حالات و واقعات اور اس ضمن ميں امريکی پاليسی سے براہراست منسلک تھے۔ اس کے علاوہ ميں نے ايسی سينکڑوں رپورٹوں اور دستاويزات کا بھی تفصيلی مطالعہ کيا ہے جو اس زمانے ميں امريکی اور پاکستانی حکومتی اہلکاروں کے درميان معلومات کے تبادلے پر مبنی ہيں۔ ان دستاويزات سے حاصل شدہ معلومات سے امريکی اہلکاروں کے بیانات کی تصدیق ہوتی ہے۔ ميں نے ان ميں سے کچھ دستاويزات کے لنکس اسی فورم پر کچھ سوالات کے جوابات کے ضمن ميں پوسٹ بھی کيے ہيں۔

موضوع کی مناسبت سے ميں دوبارہ وہ لنکس يہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔ ان دستاويزات پر درج تاریخيں توجہ طلب ہيں۔ يہ رپورٹیں 11 ستمبر 2001 کے واقعات سے پہلے کی ہيں۔ ان دستاويزات سے يہ بات ثابت ہے کہ 90 کی دہائ کے دوران امريکی حکومت کی جانب سے کئ بار حکومت پاکستان کی جانب سے افغانستان کی ديگر تمام سياسی قوتوں کو پس پشت ڈال کر صرف طالبان کی حمايت اور مدد پر شديد تحفظات کا اظہار کيا جاتا رہا۔ کم ازکم 30 مختلف موقعوں پر پاکستانی حکومت اور فوج کے اعلی حکام کو خطے ميں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ضمن ميں ممکنہ خطرات سے آگاہ کيا گيا۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUr

گڈ ورک
مگر فواد یہ تو بتاو کہ اس سب لنکس میں کہیں بھی ہیلری کے بیان کو ذکر نہیں ہے ؟ ہیلری کا بیان اصل ہے یا پھر اپ کے لنکس۔ ہیلری تو اپ کے ڈیپارٹمنٹ کی ہی باس تھی۔

ویسے ان لنکس کو میرے پاس پڑھنے کا وقت تو نہیں ہے۔ معذرت ۔مگر لگ یہ رہا ہے کہ یہ پاکستان اور امریکہ کی ایجنسیوں کے درمیان ہلکی پھلکی موسیقی تھی۔

مگر بہرحال اپ کے اس موقف سے اتفاق ہے کہ امریکہ طالبان کے خلاف ہے۔ اس مخالفت کی بڑی وجہ اسامہ اور القائدہ تھے۔ اب اسامہ اس دنیا میں نہیں رہا تو کیا یہ ممکن ہے کہ امریکہ بھی یہاں سے بستر گول جلدی کرلے۔اور یہ کام وہ پاکستان کو نقصان پہنچائے بغیر کرلے۔ براہ کرم یہ بات اوبامہ تک پہنچادیں کہ وہ طالبان جن کا امریکی افواج ایک طویل عرسہ تک کچھ زیادہ نہ بگاڑ سکے اور شکست کھا گئے ان کا پاکستانی افواج بھی کچھ زیادہ نہیں بگاڑ سکتیں۔
اب جبکہ پاکستان یہ یقین دھانی کرانے کو تیار ہے کہ وہ امریکہ کی خودمختاری کا خیال رکھیں گی۔ امریکہ بھی پاکستان کی خودمختاری کا خیال رکھے ۔
بہتر ہے امریکہ مزاکرات کی راہ اپنا کر اپنے گھر کی راہ لے۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ امر قابل توجہ ہے کہ جن گروہوں کی حمايت اور دفاع ميں حقائق سے عاری اور ابہام سے بھرپور سوچ اور نظريات کا پرچار کيا جاتا ہے، وہ محض عادی مجرموں اور ٹھگوں کا امتزاج ہے۔

جس طرح سے کچھ رائے دہندگان اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہيں اور تمام عالمی مسائل کو "امريکہ بمقابلہ مجاہدين اسلام" کے سانچے ميں ڈھال کراپنی رائے قائم کرتے ہيں، اس سے واضح ہے کہ مقصد پڑھنے والوں کو يہ باور کروانا ہے کہ عالمی دہشت گردی کے معاملے کو مذہبيت کے عدسے سے پرکھا جانا چاہیے اور جہاد اور مذہبی جدوجہد جيسے الفاظ کا استعمال کر کے ان کے غير انسانی اقدامات پر پردہ ڈالا جا سکے۔

اس سے پہلے کہ آپ افغانستان کے "مقدس آزادی کے سپاہيوں" کی کاميابی کے ليے دعا گو ہوں اور اپنے وطن کی آزادی کے نعرے کے تحت ان کے خود ساختہ جہاد کے ضمن ميں کلمہ خير کہيں، بہتر ہو گا کہ آپ ان ذمہ داروں پر ايک طائرانہ نظر ڈاليں جو ان مجرموں کے گروہ کے ليے راہ متعين کر رہے ہيں۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ عزام دا امريکن جيسے آوارہ خبطی پر اندھا اعتقاد رکھنے والے اور اس کے "روحانی درس" سے فيض ياب ہونے والے درست راستے پر ہو سکتے ہيں؟

http://s21.postimg.org/4623onm6f/final_car.jpg



يہ امر توجہ طلب ہے کہ ايک مفرور گورا جسے خود اس کے اپنے معاشرے اور گھر والوں نے دھتکار ديا ہے، آج مذہب کا ٹھيکيدار بنا بيٹھا ہے۔ وہ نا صرف يہ کہ اپنی "گرانقدر مذہبی سوچ" اور نابلد حکمت کے موتی بکھير رہا ہے بلکہ ان خود ساختہ مجاہدين اسلام کے ليے مشعل راہ بھی بن بيٹھا ہے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ تصوير ميں جس شخص کا حوالہ ديا ہے وہ امريکہ کو مطلوب القائدہ کے اہم ترين ليڈر ايک امريکی شہری ايڈم پرلمين ہيں جو "عزام دا امريکن" کے نام سے بھی جانے جاتے ہيں۔ يہ ايک طے شدہ حقيقت ہے کہ وہ افغانستان ميں القائدہ تنظيم کے ساتھ کام کر رہے ہيں۔

بہادری اور عظمت جیسے القابات ان دہشت گردوں کی مجرمانہ کاروائيوں کو بيان کرنے کے لیے استعمال نہيں کيے جا سکتے جن کی تمام حکمت عملی کا محور انتہائ بزدلی کے ساتھ زيادہ سے زيادہ بے گناہ انسانوں کو قتل کرنا ہے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ عالمی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اشتراک عمل اور کاوشوں کا کوئ بھی تعلق افراد کی قوميت اور مذہبی وابستگی سے ہرگز نہيں ہے۔

امريکی حکومت کی توجہ اور تمام تر کوششوں کا مرکز دہشت گردی کے ان اڈوں کا قلع قمع کرنا ہے جہاں اس سوچ کی ترويج وتشہير کی جاتی ہے کہ دانستہ بے گناہ افراد کی ہلاکت جائز ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
فواد
یہ اوپر کا پیغام تو ایک ڈرون حملہ ہے۔ یہ تو سوال ہی نہیں تھا
سوال یہ تھا کہ ہیلری کا بیان درست ہے یا اپ کے لنکس؟ کیوں کے دونوں متضاد ہیں
 
Top