سید انور محمود
محفلین
تاریخ : 31مئی 2013
از طرف: سید انور محمود
طالبان دہشت گرد وں نےایک امریکی ڈرون حملے میں اپنے دہشت گرد ساتھی ولی الرحمان جس کے سر کی قیمت امریکہ نے پچاس لاکھ امریکی ڈالرمقرر کی تھی، اُسکی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے رواں ہفتے میں برسرِ اقتدار آنے والی نواز شریف کی حکومت سے امن مذاکرات کی پیشکش واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان نے پاکستانی اداروں پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکی ڈرون حملوں کے لیے معلومات فراہم کرتے ہیں اور اس ماحول میں طالبان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ حکومت سے مذاکرات کریں۔ اس کے ساتھ ہی طالبان دہشتگردوں نے پاکستان کی حکومت اور فوج کو بدلہ لینے کی دھمکی بھی دی ہے۔ یاد رہے مذکرات کی یہ دعوت طالبان نے از خود فروری 2013 میں دی تھی، طالبان نےایک ویڈیو پیغام میں حکومت کو مذاکرات کی دعوت اس شرط پر دی تھی کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن، نوازشریف اور سید منور حسن فوج یا حکومت کے لیے ضمانت دیں تو مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔ طالبان کی اس پیشکش کے فوری بعد جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن اور جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بہت پرجوش انداز میں اسکا خیرمقدم کیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ [ن] کے صدر نواز شریف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اب انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھی نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ طالبان سے مذکرات کرنے میں سنجیدہ ہیں۔انکا کہنا ہے کہ اس سے ملک میں امن آئے گا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی طالبان سے مذکرات کے حامی ہیں اور کسی بھی قسم کے طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے سخت خلاف ہیں۔
مذاکرات کی دعوت کے بعد نہ ہی امریکہ نے ڈرون حملے بند کیے اور نہ ہی طالبان نے اپنی دہشت گردی بند کی، بلکہ انتخابات کے دوران طالبان نے پورئے ملک میں ایسا ماحول بنادیا کہ پنجاب کے علاوہ کہیں پر بھی انتخابات کا ماحول نہیں تھا۔ انتخابات سے پہلے اے این پی نے ایک کل جماعتی کانفرس کی تھی جس کے بعد جمعیت علماء اسلام [ف] کےسربراہ مولانا فضل الرحمان کے ذریعے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کےلیے کوششیں کی گئی تھیں لیکن وہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔ ابھی کچھ دن پہلے جمعیت علماء اسلام [س] کےسربراہ مولانا سمیع الحق کے بقول نواز شریف نے ان سے رابطہ کیا اور طالبان سے مذکرات میں اُن کی مدد کی درخواست کی، دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنما اور خیبر پختونخواہ کے نئے وزیر اعلی پرویز خٹک نے بھی مولانا سمیع الحق سے امن و امان کے قیام کے لیے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے مدد طلب کی تھی۔ مولانا سمیع الحق نے ایک بیان میں فرمایا کہ طالبان انھیں باپ کا درجہ دیتے ہیں اور ان کے دارلعلوم سے فارغ التحصیل طالبان افغانستان میں جہاد کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نواز شریف ہمت کریں اور بیرونی دباؤ میں نہ آئیں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق انیس سو اٹھاسی سے دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ ہیں جہاں سے ہزاروں طالبان نے دینی تعلیم حاصل کی ہے ۔ ہم تو اب تک سید منور حسن اور مولانہ فضل الرحمان کو ہی طالبان کا پیٹی بند بھائی سمجھتے تھے مگر اب پتہ چلا کہ طالبان کے باپ بھی موجود ہیں جو مولانا سمیع الحق ہیں۔
جہاں تک افغانستان کے طالبان کا تعلق ہے نہ انہوں نے مذکرات کی دعوت دی ہے اور نہ ہی نوازشریف اور عمران خان نے ان سے مذکرات کی بات کی ہے، مولانہ فضل الرحمان نے مذاکرات سے انکار پر افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سید منورحسن نے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آنے والی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج امریکی ڈرون حملے ہیں جنہیں روکنے کے لیے فوری پالیسی نہ بنائی گئی تو عوام کانئی حکومت پر اعتماد مایوسی میں بدلتے دیر نہیں لگے گی ۔ لگتا ہے جماعت اسلامی جو گرگٹ کی طرح سے رنگ بدلنے میں ماہر ہے اب شاید اُسکو تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہےاور منور حسن کا یہ بیان نوازشریف کے وزیراعظم بنےک سے پہلے ہی اُن کے خلاف جماعت اسلامی کا پہلا حملہ ہے۔ کیونکہ جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ "جسارت" نے اپنے 21 مئی کے اداریئے بعنوان "میاں صاحب کی طالبان کو پیشکش" میں لکھا ہے کہ
"مسلم لیگ ن کے صدر اور متوقع وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ پیر کو اپنی پارٹی کے نو منتخب ارکان اسمبلی سے خطاب کیا جس میں انہوں نے بطور حکمران اپنی آئندہ کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا ہے۔ میاں نواز شریف کے خطاب کا اہم نکتہ طالبان سے مذاکرات کا ہے جسے انہوں نے بہترین راستہ قرار دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق میاں صاحب طالبان سے مذاکرات کے لیے جمعیت علماء اسلام (س) کے مولانا سمیع الحق کی خدمات حاصل کررہے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کا دعویٰ ہے کہ وہ طالبان کے باپ ہیں اور 90 فیصد طالبان ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ لیکن کون سے طالبان؟ یہ وہ طالبان تو ہوسکتے ہیں جو افغانستان میں غیر ملکی تسلط کے خلاف جہاد کررہے ہیں۔ ان کی قیادت بھی مدارس سے فارغ التحصیل ہوگی لیکن وہ جو اپنے آپ کو پاکستانی طالبان کہتے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان چلا رہے ہیں، ان کی قیادت اور کارکنوں کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ مدارس کے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہیں اور کسی عالم دین کی بات ماننے پر تیار ہوں گے۔ سیکولر طبقے کی طرف سے مدارس پر طرح طرح کے الزامات کے باوجود کوئی مدرسہ ایسا نہیں ہے جو مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کے قتل کو جائز قرار دیتا ہو۔ ہر عالم دین یہ بات خوب سمجھتا ہے کہ جس نے کسی بے گناہ انسان کا خون کیا اس نے گویا پوری انسانیت کا خون کردیا۔ دوسری طرف قتل وغارت گری کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں بے گناہ انسان بڑی تعداد میں مارے گئے اور طالبان نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرلی۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں دین اسلام کا صحیح شعور ہے اور انہوں نے کسی عالم دین کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہوگا۔ پھر اہم سوال یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کن بنیادوں پر؟ طالبان کو اس سے پہلے بھی مذاکرات کی پیشکش کی جاچکی ہے اور یہاں تک کہا گیا کہ اگر وہ ہتھیار رکھ دیں تو قومی دھارے میں شامل ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ مذاکرات کبھی آگے نہیں بڑھ سکے۔ ناکامی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن طالبان کو اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہر خاص وعام ان کے نام سے خوف کھاتا ہے، عزت یا محبت نہیں کرتا۔ جبکہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے عوام کا دل جیتنا بہت ضروری ہے۔ تحریک طالبان کی مجلس شوریٰ کا موقف ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام اور اس کے محافظ سیکورٹی اداروں کے خلاف ان کی جنگ مقدس جہاد ہے اور اسے قرآن وحدیث سے ثابت بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں طالبان سے کیا بات ہوسکتی ہے جو صرف اپنے آپ کو راہ حق پر سمجھتے ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بہت خون، خرابہ ہوچکا۔ اب انہیں نئی حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اصل جہاد تو افغانستان میں ہورہا ہے جہاں صلیبی اور صہیونی طاقتیں قابض ہیں اور بے شمار مسلمانوں کو شہید کرچکی ہیں"۔
جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ جسارت کا یہ اداریہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ مرحوم قاضی حسین احمد اورسید منور حسن سے لیکر دوسرئے جماعت اسلامی کے رہنماابتک اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر تحریک طالبان پاکستان کےفسادیوں اور دہشتگردوں کو جھوٹے بیانات کے زریعےجہادی کہتے رہےہیں۔ دہشتگردی پاکستان کی وہ بیماری ہے جسکا دوا سے علاج کیا جارہا ہے مگر صاف نظرآتا ہے کہ یہ مرض اسقدر بڑھ چکا ہے کہ اب آپریشن کے علاوہ شاید کوئی چارہ نہ ہو۔ اب جبکہ طالبان تو مذکرات سے منکر ہوگے ہیں تو کیا نواز شریف اور عمران خان اب بھی طالبان دہشتگردوں سے مذکرات کرینگے ۔ چلیں ضرور کریں کیونکہ دنیا کے بڑئے بڑئے مسلئے بات چیت سے ہی حل ہوتے ہیں، مگر جب مذاکرات کا نتیجہ نہ نکلے تو پھر آپریشن لازمی ہوگا۔ دوسری طرف اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ پاکستان اور امریکی تعلقات میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ڈروں حملوں کا سلسلہ بند ہو کیونکہ اب تک ہونے والے ڈرون حملوں میں دہشتگرد کم لیکن معصوم لوگوں کی زیادہ ہلاکت ہوتی رہی ہیں۔ آیئے دعا کریں کہ ڈرون حملوں اور دہشتگردوں سے اللہ تعالی پاکستان کو محفوظ بنادئے۔ آمین
از طرف: سید انور محمود
طالبان دہشت گردوں کا مذکرات سے انکار
طالبان دہشت گرد وں نےایک امریکی ڈرون حملے میں اپنے دہشت گرد ساتھی ولی الرحمان جس کے سر کی قیمت امریکہ نے پچاس لاکھ امریکی ڈالرمقرر کی تھی، اُسکی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے رواں ہفتے میں برسرِ اقتدار آنے والی نواز شریف کی حکومت سے امن مذاکرات کی پیشکش واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان نے پاکستانی اداروں پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکی ڈرون حملوں کے لیے معلومات فراہم کرتے ہیں اور اس ماحول میں طالبان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ حکومت سے مذاکرات کریں۔ اس کے ساتھ ہی طالبان دہشتگردوں نے پاکستان کی حکومت اور فوج کو بدلہ لینے کی دھمکی بھی دی ہے۔ یاد رہے مذکرات کی یہ دعوت طالبان نے از خود فروری 2013 میں دی تھی، طالبان نےایک ویڈیو پیغام میں حکومت کو مذاکرات کی دعوت اس شرط پر دی تھی کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن، نوازشریف اور سید منور حسن فوج یا حکومت کے لیے ضمانت دیں تو مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔ طالبان کی اس پیشکش کے فوری بعد جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن اور جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بہت پرجوش انداز میں اسکا خیرمقدم کیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ [ن] کے صدر نواز شریف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اب انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھی نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ طالبان سے مذکرات کرنے میں سنجیدہ ہیں۔انکا کہنا ہے کہ اس سے ملک میں امن آئے گا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی طالبان سے مذکرات کے حامی ہیں اور کسی بھی قسم کے طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے سخت خلاف ہیں۔
مذاکرات کی دعوت کے بعد نہ ہی امریکہ نے ڈرون حملے بند کیے اور نہ ہی طالبان نے اپنی دہشت گردی بند کی، بلکہ انتخابات کے دوران طالبان نے پورئے ملک میں ایسا ماحول بنادیا کہ پنجاب کے علاوہ کہیں پر بھی انتخابات کا ماحول نہیں تھا۔ انتخابات سے پہلے اے این پی نے ایک کل جماعتی کانفرس کی تھی جس کے بعد جمعیت علماء اسلام [ف] کےسربراہ مولانا فضل الرحمان کے ذریعے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کےلیے کوششیں کی گئی تھیں لیکن وہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔ ابھی کچھ دن پہلے جمعیت علماء اسلام [س] کےسربراہ مولانا سمیع الحق کے بقول نواز شریف نے ان سے رابطہ کیا اور طالبان سے مذکرات میں اُن کی مدد کی درخواست کی، دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنما اور خیبر پختونخواہ کے نئے وزیر اعلی پرویز خٹک نے بھی مولانا سمیع الحق سے امن و امان کے قیام کے لیے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے مدد طلب کی تھی۔ مولانا سمیع الحق نے ایک بیان میں فرمایا کہ طالبان انھیں باپ کا درجہ دیتے ہیں اور ان کے دارلعلوم سے فارغ التحصیل طالبان افغانستان میں جہاد کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نواز شریف ہمت کریں اور بیرونی دباؤ میں نہ آئیں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق انیس سو اٹھاسی سے دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ ہیں جہاں سے ہزاروں طالبان نے دینی تعلیم حاصل کی ہے ۔ ہم تو اب تک سید منور حسن اور مولانہ فضل الرحمان کو ہی طالبان کا پیٹی بند بھائی سمجھتے تھے مگر اب پتہ چلا کہ طالبان کے باپ بھی موجود ہیں جو مولانا سمیع الحق ہیں۔
جہاں تک افغانستان کے طالبان کا تعلق ہے نہ انہوں نے مذکرات کی دعوت دی ہے اور نہ ہی نوازشریف اور عمران خان نے ان سے مذکرات کی بات کی ہے، مولانہ فضل الرحمان نے مذاکرات سے انکار پر افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سید منورحسن نے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آنے والی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج امریکی ڈرون حملے ہیں جنہیں روکنے کے لیے فوری پالیسی نہ بنائی گئی تو عوام کانئی حکومت پر اعتماد مایوسی میں بدلتے دیر نہیں لگے گی ۔ لگتا ہے جماعت اسلامی جو گرگٹ کی طرح سے رنگ بدلنے میں ماہر ہے اب شاید اُسکو تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہےاور منور حسن کا یہ بیان نوازشریف کے وزیراعظم بنےک سے پہلے ہی اُن کے خلاف جماعت اسلامی کا پہلا حملہ ہے۔ کیونکہ جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ "جسارت" نے اپنے 21 مئی کے اداریئے بعنوان "میاں صاحب کی طالبان کو پیشکش" میں لکھا ہے کہ
"مسلم لیگ ن کے صدر اور متوقع وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ پیر کو اپنی پارٹی کے نو منتخب ارکان اسمبلی سے خطاب کیا جس میں انہوں نے بطور حکمران اپنی آئندہ کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا ہے۔ میاں نواز شریف کے خطاب کا اہم نکتہ طالبان سے مذاکرات کا ہے جسے انہوں نے بہترین راستہ قرار دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق میاں صاحب طالبان سے مذاکرات کے لیے جمعیت علماء اسلام (س) کے مولانا سمیع الحق کی خدمات حاصل کررہے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کا دعویٰ ہے کہ وہ طالبان کے باپ ہیں اور 90 فیصد طالبان ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ لیکن کون سے طالبان؟ یہ وہ طالبان تو ہوسکتے ہیں جو افغانستان میں غیر ملکی تسلط کے خلاف جہاد کررہے ہیں۔ ان کی قیادت بھی مدارس سے فارغ التحصیل ہوگی لیکن وہ جو اپنے آپ کو پاکستانی طالبان کہتے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان چلا رہے ہیں، ان کی قیادت اور کارکنوں کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ مدارس کے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہیں اور کسی عالم دین کی بات ماننے پر تیار ہوں گے۔ سیکولر طبقے کی طرف سے مدارس پر طرح طرح کے الزامات کے باوجود کوئی مدرسہ ایسا نہیں ہے جو مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کے قتل کو جائز قرار دیتا ہو۔ ہر عالم دین یہ بات خوب سمجھتا ہے کہ جس نے کسی بے گناہ انسان کا خون کیا اس نے گویا پوری انسانیت کا خون کردیا۔ دوسری طرف قتل وغارت گری کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں بے گناہ انسان بڑی تعداد میں مارے گئے اور طالبان نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرلی۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں دین اسلام کا صحیح شعور ہے اور انہوں نے کسی عالم دین کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہوگا۔ پھر اہم سوال یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کن بنیادوں پر؟ طالبان کو اس سے پہلے بھی مذاکرات کی پیشکش کی جاچکی ہے اور یہاں تک کہا گیا کہ اگر وہ ہتھیار رکھ دیں تو قومی دھارے میں شامل ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ مذاکرات کبھی آگے نہیں بڑھ سکے۔ ناکامی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن طالبان کو اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہر خاص وعام ان کے نام سے خوف کھاتا ہے، عزت یا محبت نہیں کرتا۔ جبکہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے عوام کا دل جیتنا بہت ضروری ہے۔ تحریک طالبان کی مجلس شوریٰ کا موقف ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام اور اس کے محافظ سیکورٹی اداروں کے خلاف ان کی جنگ مقدس جہاد ہے اور اسے قرآن وحدیث سے ثابت بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں طالبان سے کیا بات ہوسکتی ہے جو صرف اپنے آپ کو راہ حق پر سمجھتے ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بہت خون، خرابہ ہوچکا۔ اب انہیں نئی حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اصل جہاد تو افغانستان میں ہورہا ہے جہاں صلیبی اور صہیونی طاقتیں قابض ہیں اور بے شمار مسلمانوں کو شہید کرچکی ہیں"۔
جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ جسارت کا یہ اداریہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ مرحوم قاضی حسین احمد اورسید منور حسن سے لیکر دوسرئے جماعت اسلامی کے رہنماابتک اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر تحریک طالبان پاکستان کےفسادیوں اور دہشتگردوں کو جھوٹے بیانات کے زریعےجہادی کہتے رہےہیں۔ دہشتگردی پاکستان کی وہ بیماری ہے جسکا دوا سے علاج کیا جارہا ہے مگر صاف نظرآتا ہے کہ یہ مرض اسقدر بڑھ چکا ہے کہ اب آپریشن کے علاوہ شاید کوئی چارہ نہ ہو۔ اب جبکہ طالبان تو مذکرات سے منکر ہوگے ہیں تو کیا نواز شریف اور عمران خان اب بھی طالبان دہشتگردوں سے مذکرات کرینگے ۔ چلیں ضرور کریں کیونکہ دنیا کے بڑئے بڑئے مسلئے بات چیت سے ہی حل ہوتے ہیں، مگر جب مذاکرات کا نتیجہ نہ نکلے تو پھر آپریشن لازمی ہوگا۔ دوسری طرف اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ پاکستان اور امریکی تعلقات میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ڈروں حملوں کا سلسلہ بند ہو کیونکہ اب تک ہونے والے ڈرون حملوں میں دہشتگرد کم لیکن معصوم لوگوں کی زیادہ ہلاکت ہوتی رہی ہیں۔ آیئے دعا کریں کہ ڈرون حملوں اور دہشتگردوں سے اللہ تعالی پاکستان کو محفوظ بنادئے۔ آمین