طالبان دہشت گرد وں کا مذکرات سے انکار

تاریخ : 31مئی 2013
از طرف: سید انور محمود
طالبان دہشت گردوں کا مذکرات سے انکار

طالبان دہشت گرد وں نےایک امریکی ڈرون حملے میں اپنے دہشت گرد ساتھی ولی الرحمان جس کے سر کی قیمت امریکہ نے پچاس لاکھ امریکی ڈالرمقرر کی تھی، اُسکی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے رواں ہفتے میں برسرِ اقتدار آنے والی نواز شریف کی حکومت سے امن مذاکرات کی پیشکش واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان نے پاکستانی اداروں پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکی ڈرون حملوں کے لیے معلومات فراہم کرتے ہیں اور اس ماحول میں طالبان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ حکومت سے مذاکرات کریں۔ اس کے ساتھ ہی طالبان دہشتگردوں نے پاکستان کی حکومت اور فوج کو بدلہ لینے کی دھمکی بھی دی ہے۔ یاد رہے مذکرات کی یہ دعوت طالبان نے از خود فروری 2013 میں دی تھی، طالبان نےایک ویڈیو پیغام میں حکومت کو مذاکرات کی دعوت اس شرط پر دی تھی کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن، نوازشریف اور سید منور حسن فوج یا حکومت کے لیے ضمانت دیں تو مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔ طالبان کی اس پیشکش کے فوری بعد جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن اور جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بہت پرجوش انداز میں اسکا خیرمقدم کیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ [ن] کے صدر نواز شریف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اب انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھی نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ طالبان سے مذکرات کرنے میں سنجیدہ ہیں۔انکا کہنا ہے کہ اس سے ملک میں امن آئے گا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی طالبان سے مذکرات کے حامی ہیں اور کسی بھی قسم کے طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے سخت خلاف ہیں۔

مذاکرات کی دعوت کے بعد نہ ہی امریکہ نے ڈرون حملے بند کیے اور نہ ہی طالبان نے اپنی دہشت گردی بند کی، بلکہ انتخابات کے دوران طالبان نے پورئے ملک میں ایسا ماحول بنادیا کہ پنجاب کے علاوہ کہیں پر بھی انتخابات کا ماحول نہیں تھا۔ انتخابات سے پہلے اے این پی نے ایک کل جماعتی کانفرس کی تھی جس کے بعد جمعیت علماء اسلام [ف] کےسربراہ مولانا فضل الرحمان کے ذریعے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کےلیے کوششیں کی گئی تھیں لیکن وہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔ ابھی کچھ دن پہلے جمعیت علماء اسلام [س] کےسربراہ مولانا سمیع الحق کے بقول نواز شریف نے ان سے رابطہ کیا اور طالبان سے مذکرات میں اُن کی مدد کی درخواست کی، دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنما اور خیبر پختونخواہ کے نئے وزیر اعلی پرویز خٹک نے بھی مولانا سمیع الحق سے امن و امان کے قیام کے لیے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے مدد طلب کی تھی۔ مولانا سمیع الحق نے ایک بیان میں فرمایا کہ طالبان انھیں باپ کا درجہ دیتے ہیں اور ان کے دارلعلوم سے فارغ التحصیل طالبان افغانستان میں جہاد کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نواز شریف ہمت کریں اور بیرونی دباؤ میں نہ آئیں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق انیس سو اٹھاسی سے دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ ہیں جہاں سے ہزاروں طالبان نے دینی تعلیم حاصل کی ہے ۔ ہم تو اب تک سید منور حسن اور مولانہ فضل الرحمان کو ہی طالبان کا پیٹی بند بھائی سمجھتے تھے مگر اب پتہ چلا کہ طالبان کے باپ بھی موجود ہیں جو مولانا سمیع الحق ہیں۔

جہاں تک افغانستان کے طالبان کا تعلق ہے نہ انہوں نے مذکرات کی دعوت دی ہے اور نہ ہی نوازشریف اور عمران خان نے ان سے مذکرات کی بات کی ہے، مولانہ فضل الرحمان نے مذاکرات سے انکار پر افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سید منورحسن نے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آنے والی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج امریکی ڈرون حملے ہیں جنہیں روکنے کے لیے فوری پالیسی نہ بنائی گئی تو عوام کانئی حکومت پر اعتماد مایوسی میں بدلتے دیر نہیں لگے گی ۔ لگتا ہے جماعت اسلامی جو گرگٹ کی طرح سے رنگ بدلنے میں ماہر ہے اب شاید اُسکو تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہےاور منور حسن کا یہ بیان نوازشریف کے وزیراعظم بنےک سے پہلے ہی اُن کے خلاف جماعت اسلامی کا پہلا حملہ ہے۔ کیونکہ جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ "جسارت" نے اپنے 21 مئی کے اداریئے بعنوان "میاں صاحب کی طالبان کو پیشکش" میں لکھا ہے کہ

"مسلم لیگ ن کے صدر اور متوقع وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ پیر کو اپنی پارٹی کے نو منتخب ارکان اسمبلی سے خطاب کیا جس میں انہوں نے بطور حکمران اپنی آئندہ کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا ہے۔ میاں نواز شریف کے خطاب کا اہم نکتہ طالبان سے مذاکرات کا ہے جسے انہوں نے بہترین راستہ قرار دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق میاں صاحب طالبان سے مذاکرات کے لیے جمعیت علماء اسلام (س) کے مولانا سمیع الحق کی خدمات حاصل کررہے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کا دعویٰ ہے کہ وہ طالبان کے باپ ہیں اور 90 فیصد طالبان ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ لیکن کون سے طالبان؟ یہ وہ طالبان تو ہوسکتے ہیں جو افغانستان میں غیر ملکی تسلط کے خلاف جہاد کررہے ہیں۔ ان کی قیادت بھی مدارس سے فارغ التحصیل ہوگی لیکن وہ جو اپنے آپ کو پاکستانی طالبان کہتے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان چلا رہے ہیں، ان کی قیادت اور کارکنوں کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ مدارس کے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہیں اور کسی عالم دین کی بات ماننے پر تیار ہوں گے۔ سیکولر طبقے کی طرف سے مدارس پر طرح طرح کے الزامات کے باوجود کوئی مدرسہ ایسا نہیں ہے جو مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کے قتل کو جائز قرار دیتا ہو۔ ہر عالم دین یہ بات خوب سمجھتا ہے کہ جس نے کسی بے گناہ انسان کا خون کیا اس نے گویا پوری انسانیت کا خون کردیا۔ دوسری طرف قتل وغارت گری کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں بے گناہ انسان بڑی تعداد میں مارے گئے اور طالبان نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرلی۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں دین اسلام کا صحیح شعور ہے اور انہوں نے کسی عالم دین کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہوگا۔ پھر اہم سوال یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کن بنیادوں پر؟ طالبان کو اس سے پہلے بھی مذاکرات کی پیشکش کی جاچکی ہے اور یہاں تک کہا گیا کہ اگر وہ ہتھیار رکھ دیں تو قومی دھارے میں شامل ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ مذاکرات کبھی آگے نہیں بڑھ سکے۔ ناکامی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن طالبان کو اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہر خاص وعام ان کے نام سے خوف کھاتا ہے، عزت یا محبت نہیں کرتا۔ جبکہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے عوام کا دل جیتنا بہت ضروری ہے۔ تحریک طالبان کی مجلس شوریٰ کا موقف ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام اور اس کے محافظ سیکورٹی اداروں کے خلاف ان کی جنگ مقدس جہاد ہے اور اسے قرآن وحدیث سے ثابت بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں طالبان سے کیا بات ہوسکتی ہے جو صرف اپنے آپ کو راہ حق پر سمجھتے ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بہت خون، خرابہ ہوچکا۔ اب انہیں نئی حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اصل جہاد تو افغانستان میں ہورہا ہے جہاں صلیبی اور صہیونی طاقتیں قابض ہیں اور بے شمار مسلمانوں کو شہید کرچکی ہیں"۔


جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ جسارت کا یہ اداریہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ مرحوم قاضی حسین احمد اورسید منور حسن سے لیکر دوسرئے جماعت اسلامی کے رہنماابتک اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر تحریک طالبان پاکستان کےفسادیوں اور دہشتگردوں کو جھوٹے بیانات کے زریعےجہادی کہتے رہےہیں۔ دہشتگردی پاکستان کی وہ بیماری ہے جسکا دوا سے علاج کیا جارہا ہے مگر صاف نظرآتا ہے کہ یہ مرض اسقدر بڑھ چکا ہے کہ اب آپریشن کے علاوہ شاید کوئی چارہ نہ ہو۔ اب جبکہ طالبان تو مذکرات سے منکر ہوگے ہیں تو کیا نواز شریف اور عمران خان اب بھی طالبان دہشتگردوں سے مذکرات کرینگے ۔ چلیں ضرور کریں کیونکہ دنیا کے بڑئے بڑئے مسلئے بات چیت سے ہی حل ہوتے ہیں، مگر جب مذاکرات کا نتیجہ نہ نکلے تو پھر آپریشن لازمی ہوگا۔ دوسری طرف اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ پاکستان اور امریکی تعلقات میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ڈروں حملوں کا سلسلہ بند ہو کیونکہ اب تک ہونے والے ڈرون حملوں میں دہشتگرد کم لیکن معصوم لوگوں کی زیادہ ہلاکت ہوتی رہی ہیں۔ آیئے دعا کریں کہ ڈرون حملوں اور دہشتگردوں سے اللہ تعالی پاکستان کو محفوظ بنادئے۔ آمین
 

ساجد

محفلین
امریکیوں کےطالبان سے مذاکراتی ڈرامے کا پہلا ایکٹ کامیابی سے پاکستان کے لئے نئے مسائل پیدا کر کے ختم ہوا۔ اب نئے ایکٹ کا آغاز ہونے والا ہے۔ امریکیوں کو صرف وقت چاہئیے اپنی افواج نکالنے کے لئے اور وہ پاکستان کو مذاکرات کے جال میں پھنسا کر یہ کام کر رہے ہیں۔ اگر سوچا جائے تو یہ سوال خود امریکہ سے کیا جانا چاہئے کہ تم جن طالبان کو ختم کرنے آئے تھے اب ان سے مذاکرات کے لئے ہمیں تو کہتے ہو اور خود ہی ان کے کمانڈرز کو مار کر اس کے متضاد گیم بھی کر رہے ہو اور اس سے بھی حیران کن یہ کہ طالبان نے مذاکراتی عمل پاکستان سے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے امریکہ سے نہیں۔ہماری بہتری اسی میں ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی بیوقوفی نہ کریں کیونکہ وہ امریکہ ہی کی پراکسی ہیں۔ امریکہ اپنی پراکسی میں بھی جب کسی کمانڈر کو سرکش ہوتے دیکھتا ہے تو عین وقت پر باقاعدگی سے اس کا صفایا کر دیتا ہے اور پھر سے ڈالر خرچ کر کے ایک نئی ڈمی بنا کر ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ اگر تجربہ کرنا ہی مقصود ہے تو نئی حکومت اس ڈرامے کا کردار بنےاور 6 ماہ بعد مذاکرات کے ترش پھل کا ذائقہ چکھ لے گی۔
ہمیں اپنے قومی مفادات کے لئے طالبان کا صفایا کرنا ہے اور جو لوگ غیر مشروط ہتھیار پھینک دیں ان سے بات چیت کرنی ہے نہ کہ امریکہ کے کہنے پر 35 ہزار زائد پاکستانیوں کے قاتلوں سے شرمناک مذاکرات کرنا چاہئیں۔ پاکستان کی افواج میں یہ طاقت ہے کہ وہ کسی بیرونی امداد کے بغیر ان طالبان کو قابو کر سکتی ہیں اب تک ان کے قابو میں نہ آنے کی وجہ صرف اور صرف امریکہ اور نیٹو کی منافقت ہے۔
 
حدیث مبارکہ ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار ڈسا نہیں جاتا۔۔۔یہ کیسے مومن ہیں کہ بار بار ایک ہی سوراخ سے خود کو ڈسوانے کیلئے آمادہ ہوجاتے ہیں (دونوں فریقین کو اس Statement کے استعمال کرنے اور اپنے حق میں اپلائی کرنے کی اجازت ہے )
 

Fawad -

محفلین
امریکیوں کےطالبان سے مذاکراتی ڈرامے کا پہلا ایکٹ کامیابی سے پاکستان کے لئے نئے مسائل پیدا کر کے ختم ہوا۔ اب نئے ایکٹ کا آغاز ہونے والا ہے۔ امریکیوں کو صرف وقت چاہئیے اپنی افواج نکالنے کے لئے اور وہ پاکستان کو مذاکرات کے جال میں پھنسا کر یہ کام کر رہے ہیں۔ اگر سوچا جائے تو یہ سوال خود امریکہ سے کیا جانا چاہئے کہ تم جن طالبان کو ختم کرنے آئے تھے اب ان سے مذاکرات کے لئے ہمیں تو کہتے ہو اور خود ہی ان کے کمانڈرز کو مار کر اس کے متضاد گیم بھی کر رہے ہو اور اس سے بھی حیران کن یہ کہ طالبان نے مذاکراتی عمل پاکستان سے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے امریکہ سے نہیں۔ہماری بہتری اسی میں ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی بیوقوفی نہ کریں کیونکہ وہ امریکہ ہی کی پراکسی ہیں۔ امریکہ اپنی پراکسی میں بھی جب کسی کمانڈر کو سرکش ہوتے دیکھتا ہے تو عین وقت پر باقاعدگی سے اس کا صفایا کر دیتا ہے اور پھر سے ڈالر خرچ کر کے ایک نئی ڈمی بنا کر ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ اگر تجربہ کرنا ہی مقصود ہے تو نئی حکومت اس ڈرامے کا کردار بنےاور 6 ماہ بعد مذاکرات کے ترش پھل کا ذائقہ چکھ لے گی۔
ہمیں اپنے قومی مفادات کے لئے طالبان کا صفایا کرنا ہے اور جو لوگ غیر مشروط ہتھیار پھینک دیں ان سے بات چیت کرنی ہے نہ کہ امریکہ کے کہنے پر 35 ہزار زائد پاکستانیوں کے قاتلوں سے شرمناک مذاکرات کرنا چاہئیں۔ پاکستان کی افواج میں یہ طاقت ہے کہ وہ کسی بیرونی امداد کے بغیر ان طالبان کو قابو کر سکتی ہیں اب تک ان کے قابو میں نہ آنے کی وجہ صرف اور صرف امریکہ اور نیٹو کی منافقت ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

محترم ساجد،

ايک جانب تو آپ يہ دعوی کرتے ہيں کہ ٹی ٹی پی کو سی آئ اے باقاعدہ استعمال کر رہی ہے اور پھر آپ اس بات پر بھی بضد ہيں کہ ہم اپنے ہی "اثاثوں" کو ٹارگٹ کر کے بات چيت کے عمل ميں رخنہ ڈال رہے ہيں۔ کيا اس دليل ميں کوئ منطق ہے؟

آپ يہ دعوی بھی کر رہے ہيں کہ جس نے ہمارے ساتھ باغيانہ رويہ اختيار کيا، اسے نشانہ عبرت بنا ديا گيا۔ اگر اس دليل کو درست تسليم کر ليا جائے تو پھر سوال يہ اٹھتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے قائدين اور اس تنظیم سے وابستہ وفادار جنگجو کيونکر ايک ايسے "کٹھ پتلی نچانے والے" مالک کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگائيں گے جو نا صرف يہ کہ خود انھيں ٹارگٹ کر رہا ہے بلکہ وہ حکومت پاکستان کو بھی ہر قسم کے وسائل، لاجسٹک امداد اور جنگی سازو سامان مہيا کر رہا ہے تا کہ ان کے محفوظ ٹھکانوں کو تباہ و برباد کيا جا سکے؟

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ ٹی ٹی پی يہ جانتے ہوئے ہمارے ساتھ تعاون کرے گی اور ہمارے اشاروں پر کام کرے گی کہ ہم نے نا صرف يہ کہ اس تنظيم کے قائدین کی گرفتاری پر انعام مقرر کر رکھا ہے بلکہ ہم خطے ميں اپنے اسٹريجک اتحاديوں کے ساتھ مل کر اس امر کو يقینی بنا رہے ہيں کہ اس تنظيم کو اس حد تک غير فعال کر ديا جائے کہ وہ کسی قسم کی دہشت گرد کاروائ کرنے کی صلاحيت سے عاری ہو جائے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
معاملہ بالکل صاف اور سیدھا ہے۔ ان جناتی روحوں کے ساتھ ایک بار سنجیدگی سے مذاکرات کر لیے جائیں لیکن اگر یہ لوگ ریاست کے اندر ریاست بنانے پر اسی طرح تلے بیٹھے رہتے ہیں تو تمام سیاسی قوتوں کو متحد ہو کر ان کے خلاف لڑنا چاہیے۔
 

arifkarim

معطل
اس خبر کا ٹائیٹل درست کریں۔ درست یہ ہونا چاہئے:
طالبان دہشت گردوں کا امریکی اور پاکستانی دہشتگردوں کیساتھ مذاکرات سے انکار!
 

ساجد

محفلین
معاملہ بالکل صاف اور سیدھا ہے۔ ان جناتی روحوں کے ساتھ ایک بار سنجیدگی سے مذاکرات کر لیے جائیں لیکن اگر یہ لوگ ریاست کے اندر ریاست بنانے پر اسی طرح تلے بیٹھے رہتے ہیں تو تمام سیاسی قوتوں کو متحد ہو کر ان کے خلاف لڑنا چاہیے۔

جناب یہ جناتی سے زیادہ شیطانی روحیں ہیں :)

جو طالبان واقعی اسلامی شریعت کے طالب تھے وہ تو 2001 کی امریکی جارحیت کے شروع کے دنوں اور مہینوں میں مار دئیے گئے یا ان کو گرفتار کر لیا گیا جس کے جواب میں اسلامی دنیا کے مذہبی حلقوں میں رد عمل پیدا ہوا اور مختلف اقسام کےخود مختار مزاحمتی گروپ پیدا ہوئے جو کسی ایک مرکز کے تحت کام نہ کرتے تھے اس لئے امریکہ کو ان کی طرف سے کوئی خاص پریشانی نہیں اٹھانی پڑی لیکن امریکہ نے جب اس مزاحمتی عمل کو ایک خاص تکنیک سے اپنے حق میں استعمال کیا تو معاملہ اس قدر پیچیدہ ہو گیا کہ اب اس کا ادراک کرنا ایک مشکل امر ہے۔

امریکی تکنیک یہ تھی کہ طالبان کے نام کو اس نے برانڈ نیم کے طور پر استعمال کیا اور سی ائی اے کے تربیت یافتہ لوگوں کو طالبان کے روپ میں ڈمی بنا کر ہمارے سامنے پیش کر دیا یہ لوگ ڈالرز کے لئے قتل ، اغواء اور دیگر قسم کے سنگین جرائم کے لئے ماضی میں بھی جانے جاتے رہے ہیں خود امریکہ کی سابقہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اس بات کا اقرار کر چکی ہیں کہ ان طالبان کو امریکہ نے تخلیق کیا (ویڈیو ) تا کہ ان کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ لہذا ان خونخواروں کے بارے میں کسی قسم کی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئیے کہ یہ کبھی ریاست پاکستان کے وفادار ہو سکیں گے۔ ماضی کے 12 برس اس بات کی گواہی دیتے ہین کہ ان نام نہاد طالبان نے ہمیشہ امریکی مفادات کا ہی تحفظ کیا ہے اور امریکیوں پر جو اکا دکا حملے ہوئے ہیں وہ انہوں نے نہیں بلکہ ان مزاحمتی مذہبی گروپس نے کئے جو امریکی جارحیت کے رد عمل میں اس وقت کے طالبان کی ہمدردی میں بنائے گئے جبکہ ان امریکی طالبان نے پاکستان اور افغانستان میں بے گناہ شہریوں اور انفراسٹرکچر کی تباہی کا کام کیا ہے۔

گو کہ 2001 سے قبل والے طالبان بھی امریکی حمایت سے نوازے جاتے تھے لیکن جب امریکہ کے مفادات کو ان کے ہاتھوں خطرہ لاحق ہوا تو اس نے ان کو ختم کرنے کی ٹھان لی اور ان کا نام استعمال کر کے نئے دہشت گردوں کی فنڈنگ کی جو ابھی تک جاری ہے۔ پراکسی وار میں پاکستان نے سراسر نقصان اٹھایا اس لئے ہمیں اب ماضی سے سبق سیکھنا چاہئیے اور امریکہ کے کہنے پر ایسی پراکسیز کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بجائے اپنی پوری طاقت اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے خرچ کرنی چاہئے۔ ان دہشت گردوں کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھنا چاہئے ہم جس قدر جلد ماضی کی اس غلطی کا ازالہ کر دیں گے اتنا ہی بہتر ہو گا۔ اس سلسلے میں پاکستان کو چین جیسی بڑی طاقت کو اعتماد میں لینا چاہئیے تا کہ امریکہ اور نیٹو اس پراکسی کے ذریعہ خطے کے حالات مزید خراب نہ کریں ۔
 

سید ذیشان

محفلین
ہیلری کلنٹن کا بیان افغان طالبان کے بارے میں ہے جو 1994 میں آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے بنائے تھے۔
 

ساجد

محفلین
ہیلری کلنٹن کا بیان افغان طالبان کے بارے میں ہے جو 1994 میں آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے بنائے تھے۔
جی بالکل درست فرما رہے ہیں آپ۔ میرے اوپر کے مراسلے کا آخری پیرا اسی سے متعلق ہے اور اسی لئے میں نے لکھا کہ اس غلطی کا ازالہ اب کر لینا چاہئیے اسے ایسے ہی چھوڑنا مزید خطرناک ہو گا۔
 

Fawad -

محفلین
خود امریکہ کی سابقہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اس بات کا اقرار کر چکی ہیں کہ ان طالبان کو امریکہ نے تخلیق کیا (ویڈیو ) تا کہ ان کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ ۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


يہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ وہی سينير امريکی اہلکار جب خطے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور دونوں ممالک کو ان عناصر سے درپيش مشترکہ خطرات کے ضمن ميں مشترکہ کاوشوں کی ضرورت پر زور ديتے ہيں تو ان کی سفارتی کوششوں اور بيانات کو پاکستان پر عالمی دباؤ بڑھانے کی کوشش قرار دے کر يکسر نظرانداز کر ديا جاتا ہے۔

ايک مشہور کہاوت ہے کہ "ميٹھا ميٹھا ہپ ہپ اور کوڑا کوڑا تھو تھو"۔ جب آپ سابقہ امريکی وزير خارجہ يا کسی بھی دوسرے امريکی اہلکار کے ايک خاص تناظر ميں ديے گئے بيان کے ايک مخصوص حصے کا حوالہ ديتے ہيں جو کسی لحاظ سے آپ کے نقطہ نظر کو توقيت ديتا ہے تو پھر انصاف کا تقاضا يہی ہے کہ آپ ان سرکاری امريکی دستاويزات کو بھی اہميت ديں جو اسی موضوع کے حوالے سے ميں نے بارہا اردو فورمز پر پوسٹ کی ہيں۔ يہ دستاويزات آپ کو 80 کے دہائ ميں "افغان جہاد" کے حوالے سے مکمل تصوير کو سمجھنے ميں مدد ديں گی۔ اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ امريکی حکومت نے ديگر مسلم ممالک کی طرح افغانستان کے عوام کی مالی اعانت کی تھی۔ يہی بات سابقہ وزير خارجہ ہيلری کلنٹن نے اپنے بيان ميں بھی کہی تھی۔ انھوں نے واضح طور پر لفظ "فنڈنگ" استعمال کيا تھا۔ ليکن يہ صرف معاملے کا ايک پہلو ہے۔ اس دور ميں امريکہ کے کردار پر غير جانب دار اور مکمل تجزيے کے ليے آپ کو ان تصديق شدہ اور ريکارڈ پر موجود حقائق کا حوالہ بھی دينا ہو گا جن سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام تر مالی اعانت پاکستانی افسران اور آئ ايس آئ کے ذريعے منتقل کی گئ تھی اور وہی اس فيصلے کے حوالے سے ذمے دار تھے کہ کن گروپوں اور افراد کو افغانستان ميں فنڈز اور سپورٹ فراہم کی جائے۔ اس کے علاوہ طالبان سال 1994 ميں منظر عام پر آئے تھے اور اس سارے عمل ميں امريکی حمايت شامل نہيں تھی۔

اس ايشو کے حوالے سے ميں اپنے موقف کا اعادہ کروں گا کہ 80 کی دہائ ميں افغان عوام کی مدد اور حمايت کرنے کا فيصلہ بالکل درست تھا۔ اس وقت يہ مقصد اور ارادہ ہرگز نہيں تھا کہ دنيا کے نقشے پر دہشت گردوں کو روشناس کروايا جائے بلکہ مقصد افغانستان کے عوام کو سويت فوجوں کے تسلط سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/
 

Fawad -

محفلین
ہیلری کلنٹن کا بیان افغان طالبان کے بارے میں ہے جو 1994 میں آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے بنائے تھے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ نے کبھی بھی افغانستان ميں طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان سے سفارتی تعلقات بھی قائم نہيں کیے تھے۔ حقیقت يہ ہے کہ اقوام متحدہ کے 191 ميں سے صرف 3 ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسليم کيا تھا


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/
 
میرا خیال ہے فواد درست کہہ رہا ہے ۔ امریکہ نے کبھی بھی طالبان کی حمایت نہیں کی بلکہ امریکہ نے تو طالبان کی حکومت ختم کی ہے۔ لہذا یہ الزام لگانا کہ امریکہ طالبان کی پشت پناہی کررہا ہے مضحکہ خیز ہے
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ نے کبھی بھی افغانستان ميں طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان سے سفارتی تعلقات بھی قائم نہيں کیے تھے۔ حقیقت يہ ہے کہ اقوام متحدہ کے 191 ميں سے صرف 3 ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسليم کيا تھا
[]

طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ کیا تھی؟
 

Fawad -

محفلین
امریکی تکنیک یہ تھی کہ طالبان کے نام کو اس نے برانڈ نیم کے طور پر استعمال کیا اور سی ائی اے کے تربیت یافتہ لوگوں کو طالبان کے روپ میں ڈمی بنا کر ہمارے سامنے پیش کر دیا ۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کی پوسٹ سے يہ تاثر ملتا ہے کہ طالبان بنيادی طور پر پرامن ہیں ليکن ان کے درميان کچھ غير ملکی عناصر موجود ہيں جو دانستہ بے گناہ افراد کو ہلاک کر کے لوگوں کو ان کے خلاف کر رہے ہیں۔

آپ کی دليل ميں وزن ہوتا اگر ان کے عوامی بيانات اور ان کے اعمال ميں فرق ہوتا۔ مگر بدقسمتی سے آپ کے مفروضے کے برخلاف حقیقت اس سے مختلف ہے۔ چاہے طالبان کے ليڈر جيسے مولوی نذير کے انٹرويو ہوں، ان کے ترجمان مسلم خان کے بيانات ہوں يا پھر ان کی پراپيگنڈہ ويڈيوز ہوں جن ميں سر قلم کرنے کے غير انسانی مناظر موجود ہیں۔ ان کا پيغام واضح اور صاف ہے۔

طالبان اور ان کی ليڈرشپ نے نہ صرف اپنے اعمال کی ذمہ داری قبول کی ہے بلکہ مستقبل ميں اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت ميں ايسے مزيد اقدامات کرنے کا عنديہ ديا ہے۔

طالبان کا يہ عفريت محض ايک دو واقعات کی بنياد پر سامنے نہيں آيا جس کا ذمہ دار چند افراد کو قرار ديا جا سکے



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کی پوسٹ سے يہ تاثر ملتا ہے کہ طالبان بنيادی طور پر پرامن ہیں ليکن ان کے درميان کچھ غير ملکی عناصر موجود ہيں جو دانستہ بے گناہ افراد کو ہلاک کر کے لوگوں کو ان کے خلاف کر رہے ہیں۔

آپ کی دليل ميں وزن ہوتا اگر ان کے عوامی بيانات اور ان کے اعمال ميں فرق ہوتا۔ مگر بدقسمتی سے آپ کے مفروضے کے برخلاف حقیقت اس سے مختلف ہے۔ چاہے طالبان کے ليڈر جيسے مولوی نذير کے انٹرويو ہوں، ان کے ترجمان مسلم خان کے بيانات ہوں يا پھر ان کی پراپيگنڈہ ويڈيوز ہوں جن ميں سر قلم کرنے کے غير انسانی مناظر موجود ہیں۔ ان کا پيغام واضح اور صاف ہے۔

طالبان اور ان کی ليڈرشپ نے نہ صرف اپنے اعمال کی ذمہ داری قبول کی ہے بلکہ مستقبل ميں اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت ميں ايسے مزيد اقدامات کرنے کا عنديہ ديا ہے۔

طالبان کا يہ عفريت محض ايک دو واقعات کی بنياد پر سامنے نہيں آيا جس کا ذمہ دار چند افراد کو قرار ديا جا سکے



[=652224]
عمومی طور پر فواد کی بات درست ہے۔ پاکستان میں طالبان نے جنگ جو رویہ اختیار کیا ہے وہ وہی ہے جو افغانستان میں امریکہ کے خلاف اختیارکیا ہے کیونکہ امریکہ افغانستان میں جارح ہے۔
مگر 1991 سے پہلے جب امریکہ نے طالبا ن کو تسلیم نہیں کیا تھا اس وقت طالبان کی یہ حالت نہیں تھی۔ طالبان کی حکومت کو امریکہ نے کیوں تسلیم نہیں کیا تھا؟
 

Fawad -

محفلین
طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ کیا تھی؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

طالبان اور امريکہ کے درميان تعلقات کے ضمن ميں ہميشہ سے سب سے رکاوٹ دہشت گردی کا ايشو رہا ہے۔ يہ ايسی ناقابل ترديد حقیقت ہے جو نوے کی دہائ سے متعلقہ بہت سی سرکاری امريکی دستاويزات سے ثابت ہے۔

ميں يہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ طالبان کی يہ خواہش تھی کہ امريکہ ان کی حکومت کو تسليم کر لے۔ انھوں نے بہت سے انتظامی چينلز کے توسط سے يہ ايشو اٹھايا۔ ليکن اس ضمن ميں وہ دہشت گردی کے ايشو اور امريکہ کے جائز خدشات دور کرنے کے لیے تيار نہيں تھے۔

مجموعی طور پر امريکہ اور طالبان کے درميان 33 مواقعوں پر رابطہ ہوا ہے جس ميں سے 30 رابطے صدر کلنٹن کے دور ميں ہوئے اور 3 رابطے صدر بش کے ۔

اس کے علاوہ طالبان کے ليڈر ملا عمر کی خواہش پر امريکی اہلکاروں کے ساتھ ان کا ايک رابطہ ٹيلی فون پر بھی ہوا۔ يہ ٹيلی فونک رابطہ 1998 ميں امريکی حکومت اور ملا عمر کے درميان ہونے والا واحد براہراست رابطہ تھا۔

يہ تمام روابط اور وہ تمام ايشوز جن پر بات چيت ہوئ ريکارڈ پر موجود ہيں۔ ميں ان ميں سے کچھ روابط کی تفصيل يہاں پوسٹ کر رہا ہوں

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174871&da=y

اگست 23 1998 کو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے ملا عمر کی اس درخواست پر يہ جواب بھيجا گيا تھا جس ميں ملا عمر نے امريکی حکومت سے اسامہ بن لادن کے خلاف ثبوت مانگا تھا۔ اس دستاويز ميں امريکی حکومت نے فوجی کاروائ کی توجيہہ، اسامہ بن لادن کے خلاف امريکی کيس اور ان وجوہات کی تفصيلات پيش کيں جس کی بنياد پر طالبان سے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کيا گيا تھا۔ اس دستاويز ميں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئ کہ اسامہ بن لادن کے نيٹ ورک نے امريکی جہاز تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174875&da=y
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174878&da=y
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174876&da=y
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174877&da=y

دسمبر


7 1997 کو طالبان کے کچھ افسران نے امريکہ ميں يونوکال کے توسط سے ساؤتھ ايشيا کے ليے امريکی اسسٹنٹ سيکرٹری آف اسٹيٹ کارل انٹرفوتھ سے واشنگٹن ميں ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے دوران طالبان کی جانب سے امريکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش اور افغانستان ميں پوست کے متبادل کاشت کاری کے منصوبوں کی ضرورت پر زور ديا گيا۔

انٹرفوتھ کی جانب سے اس ضمن ميں ہر ممکن تعاون کی يقين دہانی کروائ گئ اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے حقوق نسواں اور دہشت گردی کے حوالے سے ان کی پاليسی کے بارے ميں وضاحت بھی مانگی گئ۔ اس کے جواب ميں طالبان کا يہ موقف تھا کہ حقوق نسواں کے حوالے سے ان کی پاليسی افغان کلچر کے عين مطابق ہے اس کے علاوہ انھوں نے اس عزم کا بھی اظہار کيا کہ افغانستان کی سرزمين کو دہشت گردی کی کاروائيوں کے ليے استعمال کرنے کی اجازت نہيں دی جائے گی۔

اگرچہ طالبان کا يہ موقف تھا کہ اسامہ بن لادن ان کی دعوت پر افغانستان نہيں آئے ليکن انھوں نے دعوی کيا کہ ان کے پبلک انٹرويوز پر پابندی کے سبب ايران اور عراق ميں بے چينی پائ جاتی ہے کيونکہ وہ ان سے رابطے کی کوشش ميں ہیں۔
آپ اس ملاقات کی مکمل تفصيل اس سرکاری دستاويز ميں پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173286&da=y

اس دستاويز سے يہ واضح ہے کہ طالبان کی جانب سے امريکی افسران کو يہ يقين دہانی کروائ گئ تھی کہ اسامہ بن لادن طالبان کے زير حکومت افغانستان کی سرزمين کو دہشت گردی کے ليے استعمال نہيں کر سکيں گے۔ ہم سب جانتے ہيں کہ طالبان کے اس وعدے کا کيا انجام ہوا۔

يہاں يہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اس معاہدے کے لیے طالبان اصرار کر رہے تھے ليکن امريکی افسران نے دو مواقع پر ان پر يہ واضح کيا تھا کہ اس معاہدے کی کاميابی کا دارومدار ان کی جانب سے خطے ميں امن وامان، سيکورٹی اور انسانی حقوق کی پاسداری کی يقين دہانی سے مشروط ہے



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/
 

سید ذیشان

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ نے کبھی بھی افغانستان ميں طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان سے سفارتی تعلقات بھی قائم نہيں کیے تھے۔ حقیقت يہ ہے کہ اقوام متحدہ کے 191 ميں سے صرف 3 ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسليم کيا تھا

تسلیم کرنے کی بات کسی نے کی ہے؟ آپ کو طالبان بنانے اور طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا فرق معلوم نہیں ہے؟

میرا خیال ہے فواد درست کہہ رہا ہے ۔ امریکہ نے کبھی بھی طالبان کی حمایت نہیں کی بلکہ امریکہ نے تو طالبان کی حکومت ختم کی ہے۔ لہذا یہ الزام لگانا کہ امریکہ طالبان کی پشت پناہی کررہا ہے مضحکہ خیز ہے


یہ ہے ہیلری کلنٹن کا بیان جب وہ سیکرٹری خارجہ تھیں۔ وہ خود کہہ رہی ہے کہ امریکہ نے طالبان بنائے تھے۔

http://archives.dawn.com/archives/33371

 
تسلیم کرنے کی بات کسی نے کی ہے؟ آپ کو طالبان بنانے اور طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا فرق معلوم نہیں ہے؟




یہ ہے ہیلری کلنٹن کا بیان جب وہ سیکرٹری خارجہ تھیں۔ وہ خود کہہ رہی ہے کہ امریکہ نے طالبان بنائے تھے۔

http://archives.dawn.com/archives/33371


فواد اس سلسلے میں کیا موقف پیش کرتے ہیں؟

اوپر پیش کردہ مواد سے یہ کہانی سمجھ میں اتی ہے کہ امریکہ 94 میں افغانستان میں طالبان کو بنانے کا حامی تھا مگر بعد میں اسامہ کی وجہ سے مخالف ہوگیا اور ان کی جب حکومت اگئی تو اس کو تسلیم نہیں کیا
یاد رہے کہ 94 میں طالبان کی حکومت نہیں تھی۔

کیا فواد 94 میں طالبان بنانے کی کچھ وجہ بیان کریں گے؟
 
یار فواد اپنے سیگنیچرز میں اپنی پروپیگنڈا مودی اور سیگنیچرز کی ایک لمبا سلسلہ تو ہٹاو۔ بیان پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے
 

ساجد

محفلین
تسلیم کرنے کی بات کسی نے کی ہے؟ آپ کو طالبان بنانے اور طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا فرق معلوم نہیں ہے؟




یہ ہے ہیلری کلنٹن کا بیان جب وہ سیکرٹری خارجہ تھیں۔ وہ خود کہہ رہی ہے کہ امریکہ نے طالبان بنائے تھے۔

http://archives.dawn.com/archives/33371

سید ذیشان بھائی ، ان کو سب کچھ معلوم ہے اور میں پہلے بھی یہ بیانات و دیگر ثبوت کئی بار ان کے سامنے پیش کر چکا ہوں لیکن ان کا کوا سفید ہی رہا ۔ اسی لئے اب میں ان کے مراسلات کا جواب دے کر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ یہ جتنا مرضی جھوٹ بول لیں اتنا ہی سچ کھل کر سامنے آئے گا۔
 
Top