طالبان دہشت گرد وں کا مذکرات سے انکار

4764310-3x2-940x627.jpg


طالبان کا دوہا میں افس
 
فیتہ کٹائی بھی ہوئی ہے

0618-Qatar-Taliban-peace-talks_full_600.jpg


Qatari Assistant Minister for Foreign Affairs Ali bin Fahd al-Hajri (center r.) and Jan Mohammad Madani (center l.), one of the Taliban officials, cut the ribbon at the official opening ceremony of a Taliban office in Doha, Qatar, Tuesday, June 18. In a major breakthrough, the Taliban and the US announced Tuesday that they will hold talks on finding a political solution to ending nearly 12 years of war in Afghanistan as the Islamic militant movement opened an office in Qatar.
Osama Faisal/AP
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آج کل جب کسی سينير امريکی اہلکار کی جانب سے طالبان کی قيادت کے ساتھ کسی امن معاہدے کے امکانات کے بارے ميں کوئ بيان سامنے آتا ہے تو بعض تجزيہ نگار اور رائے دہندگان چٹی پٹی شہ سرخياں اور طويل کالم لکھنا شروع کر ديتے ہيں۔ جو تجزيہ نگار سياسی مفاہمت اور بات چيت کے آپشن کو افغانستان ميں امريکی شکست قرار ديتے ہيں ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکام کی جانب سے تو اس آپشن کا استعمال افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل کيا گيا تھا۔

حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے 911 کے واقعات کے بعد طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا اور دہشت گردوں کو پناہ دينے کی پاليسی کا اعادہ کيا۔

امريکی صدر اوبامہ نےطالبان کے حوالے سے جو بيان ديا ہے وہ کوئ نئ پاليسی نہيں ہے۔ ان کا حاليہ بيان ہمارے اس ديرينہ موقف کی توثيق تھا کہ جو مسلح گروپ دہشت گردی کو ترک کر کے امن معاہدوں کا حصہ بننا چاہتے ہيں اور قانونی طريقے سے سياسی دائرے ميں شامل ہونا چاہتے ہيں انھيں اس کا پورا موقع ديا جائے گا۔ اور يہ پاليسی افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک کے گروپوں کے ليے يکساں ہے۔

يہاں ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ يہ امريکی حکومت کی جانب سے کوئ نئ حکمت عملی نہيں ہے۔ جولائ 2010 ميں بھی 5 طالبان کے نام اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی اس لسٹ سے حذف کيے گئے تھے جن پر پہلے پابندياں عائد کی جا چکی تھيں۔

امریکی حکومت نے ہميشہ يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ہم ہر اس عمل اور کوشش کی حمايت کريں گے جو دہشت گردی سے جنم لينے والے تشدد کے خاتمے کی جانب پيش رفت کرنے ميں مدد گار ثابت ہو۔ اگر گفت وشنيد کا مقصد يہ ہو کہ مسلح افراد کو قانونی اور سياسی دائرہ عمل ميں لايا جا سکے اور اس کے نتيجے ميں افغانستان اور اس کے اداروں کی ترقی اور استحکام کے عمل کو آگے بڑھايا جا سکے تو يقينی طور پر اس کا فائدہ تمام فریقين کو ہو گا۔

بنيادی نقطہ يہ ہے کہ کسی بھی طے پانے والے معاہدے کا مقصد دہشت گردی کے حوالے سے موجود تحفظات اور ان کے خاتمے سے متعلق ہونا چاہیے۔

امريکی حکومت کبھی بھی افغانستان پر قبضے کی خواہاں نہيں رہی۔ ساری دنيا جانتی ہے کہ خطے ميں ہماری موجودگی اور فوجی کاروائ ہماری جانب سے کسی ابتدائ حملے کے نتيجے ميں نہيں بلکہ ہماری سرزمين پر براہراست حملے کا شاخسانہ ہے۔ يہ ايک ايسی کاروائ تھی جس کی ہميں خواہش نہيں تھی ليکن حتمی تجزيے ميں دنيا بھر ميں انسانی جانوں کو محفوظ کرنے کے لیے يہ ايک ناگزير ردعمل تھا جس کا مقصد محض امريکی زندگيوں کو ہی تحفظ دينا نہيں تھا بلکہ عمومی طور پر انسانيت کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔

ہمارے مقاصد اور خطے ميں اپنے تمام اتحاديوں کے ساتھ ہمارے روابط کا مقصد يہ يقينی بنانا ہے کہ دہشت گردوں کی وہ پناہگاہیں جو پاکستان سميت تمام مہذب دنيا کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں، ان کا خاتمہ کيا جائے اور بن لادن کی خونی سوچ کو عملی جامہ پہنانے والے مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچايا جائے۔

ہماری ہميشہ سے يہی سوچ رہی ہے کہ علاقائ سيکورٹی اور حکومت سازی سے متعلق ذمہ دارياں افغانستان کے عوام اور ان کی منتخب کردہ سياسی قيادت کے حوالے کی جائيں۔ ہم اب بھی اسی منصوبے پر کاربند ہیں۔ ليکن چند رائے دہندگان اور ميڈيا کے تجزيہ نگاروں کی غلط سوچ کے برخلاف ہم نہ تو خطے سے بھاگ رہے ہيں اور نہ ہی افراتفری کے عالم ميں اپنا ناطہ توڑ رہے ہیں۔ ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ طويل المدت بنيادوں پر تعلقات استوار کرنے کے اپنے ارادے اور اپنی حمايت کو برقرار رکھيں گے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

zindagi_anmol_hai.jpg




revised_Ziarat_banner.jpg
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت کبھی بھی افغانستان پر قبضے کی خواہاں نہيں رہی۔ ساری دنيا جانتی ہے کہ خطے ميں ہماری موجودگی اور فوجی کاروائ ہماری جانب سے کسی ابتدائ حملے کے نتيجے ميں نہيں بلکہ ہماری سرزمين پر براہراست حملے کا شاخسانہ ہے۔ يہ ايک ايسی کاروائ تھی جس کی ہميں خواہش نہيں تھی ليکن حتمی تجزيے ميں دنيا بھر ميں انسانی جانوں کو محفوظ کرنے کے لیے يہ ايک ناگزير ردعمل تھا جس کا مقصد محض امريکی زندگيوں کو ہی تحفظ دينا نہيں تھا بلکہ عمومی طور پر انسانيت کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔

ہمارے مقاصد اور خطے ميں اپنے تمام اتحاديوں کے ساتھ ہمارے روابط کا مقصد يہ يقينی بنانا ہے کہ دہشت گردوں کی وہ پناہگاہیں جو پاکستان سميت تمام مہذب دنيا کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں، ان کا خاتمہ کيا جائے اور بن لادن کی خونی سوچ کو عملی جامہ پہنانے والے مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچايا جائے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

نو ستمبر کے واقعے میں کوئی افغان ملوث نہ تھا ۔ پھر افغانستان کو تباہ کر کے کونسی انسانیت کی خدمت کی گئی ۔ القاعدہ کے راہنماؤں کو کمانڈو آپریشنز کے ذریعے بھی پکڑا جا سکتا تھا۔ ہمیں تو بُش اور اوبامہ چنگیز خان اور ہلاکو خان کے سیاسی وارث ہی دکھائی دیتے ہیں اور دُنیا کی تاریخ بھی اسی بات کی توثیق کرتی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
نو ستمبر کے واقعے میں کوئی افغان ملوث نہ تھا ۔ پھر افغانستان کو تباہ کر کے کونسی انسانیت کی خدمت کی گئی ۔ القاعدہ کے راہنماؤں کو کمانڈو آپریشنز کے ذریعے بھی پکڑا جا سکتا تھا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ درست ہے کہ 911 کے واقعات ميں براہراست ملوث افراد افغان شہری نہيں تھے۔ ليکن يہ بھی ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ جن افراد نے دہشت گردی کے اس واقعے ميں حصہ ليا تھا ان کی تربيت افغانستان ميں موجود القائدہ کے ٹرينيگ کيمپس ميں کی گئ تھی۔ افغانستان کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ اسی وقت کيا گيا تھا جب اس وقت کی طالبان حکومت نے ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کرنے سے انکار کر ديا تھا۔

ماضی ميں جھانکتے ہوئے شايد يہ بحث کی جا سکتی ہے کہ 90 کی دہائ ميں جب اسامہ بن لادن افغانستان ميں القائدہ کو منظم کر رہا تو آيا امريکی حکومت نے اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کے ليے ہر ممکن کوشش کی يا نہيں۔ ليکن يہ کہنا حقيقت سے انکار ہو گا کہ دہشت گردی کے وہ خطرات جو آخر کار ستمبر 11 2001 کو حقيقت کا روپ دھار گئے، ان کو روکنے کے ليے سرے سے کوئ کوشش ہی نہيں کی گئ۔

پاکستان ميں اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے قبل امريکہ قريب 15 برس تک اسامہ بن لادن تک رسائ کی کوشش کرتا رہا۔

سال 1996 ميں سی آئ آئے نے باقاعدہ ايک يونٹ "بن لادن ايشو اسٹيشن" کے نام سے تشکيل ديا جس کا مقصد ہی اسامہ بن لادن کے محل ووقوع کے بارے ميں کھوج لگانا تھا۔

نو گيارہ کے حوالے سے جو کميشن رپورٹ تسکيل دی گئ تھی اس ميں ان تمام اقدامات اور کاوشوں کا تفصيلی ذکر موجود ہے جو اسامہ بن لادن کے حوالے سے کی گئيں۔ يہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسامہ بن لادن کو روکنے کے ليے ہر ممکن امکان پر کام کيا جا رہا تھا۔

http://govinfo.library.unt.edu/911/report/911Report_Ch4.htm

اگست 20 1998 کو افغانستان ميں القا‏ئدہ کے اڈوں پر امريکی ميزائل بھی داغے گئے۔ يہ حملہ کينيا اور تنزانيہ ميں امريکی سفارت خانوں پر حملوں کے بعد کيا گيا جن ميں 12 امريکیوں سميت 224 شہری ہلاک اور 5000 سے زائد زخمی ہوئے۔ اگرچہ اسامہ بن لادن اس حملے ميں بچ نکلا ليکن اس سے اسامہ بن لادن کی جانب سے شروع کی گئ دہشت گردی کی لہر کو روکنے کے ليے امريکی مصمم ارادوں کی توثيق ہو جاتی ہے۔

اسامہ بن لادن کے حوالے سے يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی حکومت کی جانب سے جون 1999 ميں 25 ملين ڈالرز کا انعام مقرر کيا گيا تھا۔ يہ بات 911 کے واقعات سے 2 سال پہلے کی ہے۔

http://www.fbi.gov/wanted/topten/fugitives/laden.htm


امريکی حکومت خطرناک دہشت گردوں کو کيفر کردار تک پہنچانے کے ليے مدد کی ترغيب ديتی ہے۔ مثال کے طور پر "ريوارڈ فار جسٹس" پروگرام کے ذريعے صدام حسين کے دونوں بيٹوں کے محل وقوع کی معلومات دينے والے کو انعام دياگيا تھا۔ ليکن يہ بھی ياد رہے کہ ہمارا مقصد محض افراد کی گرفتاری تک محدود نہيں ہے۔ افغانستان ميں ہماری فوجی کاروائ کا مقصد القائدہ تنظيم کا مکمل خاتمہ اور اس امر کو يقينی بنانا ہے کہ افغانستان کی سرزمين کو خطے اور دنيا کے خلاف دہشت گردی کے ليے استعمال نا کيا جا سکے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu

zindagi_anmol_hai.jpg



revised_Ziarat_banner.jpg
 
Top