طالبان کا وزیرستان

ساجد

محفلین
مسئلہ یہ ہے کہ امریکن چمچہ گیری میں یہ بھی شرط شامل ہے کہ ان علاقوں کے طالبان اور حمایتیوں کو یہاں چین سے نہ بیٹھنے دیا جائے، تاکہ وہ ری گروپنگ کرکے افغانستان میں انکی نیندیں نہ خراب کر سکیں۔ ابھی مہینہ پہلے وہاں امن و امان تھا جسمیں بڑا کردار وہاں کے مقامی علماء کا تھا۔ لیکن فوج نے دوبارہ چوکیاں بنانا شروع کیں اور یہ تماشہ پھر شروع۔ میں مانتا ہوں کہ فوج کو حق حاصل ہے (قائد کی قبائلیوں کیساتھ انڈرسٹینڈنگ کے باوجود) کہ وہ یہاں چوکیاں بنائے، لیکن ایسے نازک حالات میں چوکیاں بنانے کی ضد۔۔چہ معنی دارد؟ یہ کام ایک دو سال امن سے گزارنے کے بعد آسانی سے ہو جاتا۔ میرا نہیں خیال کے معمولی سمجھ بوجھ کا کوئی لیڈر ایسے نازک وقت میں ایسے عقل سے عاری فیصلے کرے لیکن کیا کیجیے کہ جنرل کو اب امریکی فوجی امداد بھی ایف ڈی آئی اور زرمبادلہ نظر آنے لگے ہیں۔
میرا اپنا خیال ہے کہ قوموں کو دنیا میں باعزت مقام حاصل کرنے کیلیے اعتماد اور یقین کی دولت ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ایٹم بم، اسلحہ اور لامتناہی وسائل۔ اگر ایسے ہوتا تو طاقتور روم و فارس آج تک قائم و دائم رہتے۔ ہم بحیثیت ملک و قوم ذلت کی اس انتہا پر پہنچ چکے ہیں، جہاں ہم دوسروں کی جنگ اپنی زمین پر لڑنے کو جائز و ناجائز قرار دینے کیلیے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ ذاتی طور پر میں اس جنگ(جس کو چھیڑنے کے اسباب تک مشکوک ہیں) کو اپنی سرزمین پر چھیڑنے کو اس سارے بکھیڑے کی وجہ گردانتا ہوں۔ ہمارے زہن جب تک امریکہ فوبیا سے آزاد نہیں ہونگے طالبان، وزیرستان یہ سب چیزیں ہمیں مزید تقسیم کرتے رہینگے۔
میں چاہوں گا کہ اس بحث میں ”پختون ذہنیت“ پر بھی بات کی جائے کیونکہ ہماری اپنی ویلیوز بھی ہیں جو ہمیں ایک مخصوص موقف کا حامل بناتی ہے، جو زمینی حقائق، بین الاقوامی سیاست اور دوسری الم غلم سے مبرا ہوتا ہے۔
ساجد اقبال ، آپ کی بات درست۔ لیکن آرمی کی چوکیوں سے ان کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے ؟ جب کہ ایک عام قبائلی جو محنت مزدوری کرتا ہے اس کو ان بکھیڑوں سے کچھ لینا دینا نہیں تو ان چند سو افراد کی اتنی بے چینی کی کیا وجہ ہے؟ آخر آرمی کوئی دشمن ملک کی نہیں ہے ان کے اپنے سپوت بھی اسی آرمی کے سپاہی ہیں اور اسی آرمی میں اچھے اچھے عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ کیا یہ شک نہیں پیدا ہوتا کہ کسی چیز یا سرگرمی کی پردہ داری ان ( طالبان) کو مقصود ہے؟
میں نے یہ سوال صرف اس لئیے پوچھا ہے کہ ایک عجیب قسم کی بے یقینی اور گومگو کی کیفیت ہے دونوں فریقوں کے مؤقف میں اور ہم جو پردیس میں بیٹھے ہیں ان دونوں کے بینات اور جوابی الزامات کو پڑھ کر حالات کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ آپ ذرا تفصیل سے بتائیں کہ آپ تو اس علاقے کے باسی ہیں۔
ساجد اقبال ، امریکی فوبیا کہہ لیں یا اپنی بے بسی کا اعتراف ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم ایک ان پڑھ اور علوم و فنون سے عاری گروہ کی مانند ہیں کہ جن کے سامنے نہ تو کوئی مقصد ہے اور نہ کوئی منزل۔ ہم اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لئیے ہی سب کچھ کرتے ہیں۔ من حیث القوم نہ ہم نے کبھی سوچا ہے اور نہ ہی اپنی قوم اور وطن کے لئیے اپنے مفادات کو قربان کیا ہے البتہ اپنے مفادات پر اپنی قوم اور وطن کو قربان کرنے کے لئیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ہم بے ایمان ہیں ، منافق ہیں ، جھوٹے ہیں اور پرلے درجے کے چھوڑُو بھی ہیں۔ ہم دین کے سوداگر ہیں۔ وطن فروش ہیں۔ فتووں کے تاجر ہیں۔ ظلم کے داعی ہیں۔ انسانیت کے دشمن ہیں۔
ہم نے اپنی دو نسلوں کو برباد کر دیا ، ہم ان کو نہ تو تعلیم دے سکے نہ تربیت۔ سہولتیں تو دور کی بات ہم ضرورتیں بھی پوری نہ کر سکے۔ اسلامی فلاحی مملکت کا نعرہ لگاتے رہے لیکن اندرون خانہ ہم اسلام کے لفظِ اول "اقراء" سے بھی دور ہٹتے گئے۔
مجھے انگریز اچھا نہیں لگتا کہ اس نے ہمیں غلام بنایا تھا لیکن جب میں اسی کے بنائے ہوئے دنیا کے سب سے بڑے نہری نطام پر فخر کرتا ہوں تو بھول جاتا ہوں کہ میں اپنی نہیں اس انگریز کی محنت وعقل کو داد دے رہا ہوں۔
میں ٹرین میں بیٹھ کر پشاور سے کراچی تک کا سفر کرتا ہوں اور اپنے وطن کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہوں لیکن بھول جاتا ہوں کہ یہ ٹرین یہاں کون لایا تھا۔
مجھے امریکہ اچھا نہیں لگتا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہے لیکن اسی اسلامی امہ کی قریب قریب تمام حکومتیں اپنی بقاء کے لئیے اسی کی مرہوںِ منت ہیں۔
جس جہاد میں ہم نے روس کو شکست دی وہ جہاد بھی اس کافر امریکہ کے بغیر ہم سے نہ ہو سکتا تھا۔
میں اپنی فضائیہ کے ایف 16 پر اتراتا ہوں لیکن بھول جاتا ہوں کہ یہ اسی دشمن (امریکہ) کا بنا ہواہے۔
میں انٹر نیٹ چلاتا ہوں تو میرا رابطہ جدہ یا اسلام آباد سے نہیں اسی کافر امریکہ سے ہی ہوتا ہے اور میں مجبور ہوں کہ اپنے راز پہلے اس کے حوالے کروں بعد میں یہ میرے مطلوبہ شخص تک پہنچیں۔
میں اکلوتی اسلامی ایٹمی طاقت کا شہری ہونے پر پھولا نہیں سماتا ہوں لیکن اس بم کی ٹکنالوجی میرے وطن کی کسی لیبارٹری میں وجود میں نہیں آئی بلکہ ایک (کافر) ملک سے درآمد ہوئی اور جو اللہ کا بندہ اس کو لایا اس کو ہم نے بے شرمی سے اس کے کئیے کی سزا دے ڈالی۔
ذرا سوچئیے تو سہی کے کیا ہمارے اندر کوئی ایسی خوبی ہے کہ ہم عالمی برادری میں سر اٹھا کر جی سکیں۔
ساجد بھائی ، کیا سمجھے کہ آج میں بھی سیاستدانوں کی طرح سے لوٹا ہو گیا اور ان کو آقا سمجھ بیٹھا۔ نہیں آپ غلط سمجھے یہ تو میں آئینہ دیکھ رہا ہوں اور آپ سب کو بھی دکھانا چاہ رہا ہون کہ جس ملک میں امریکہ کی امداد کے بغیر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائی نہ ہو سکتی ہو ، ایک نہر کی کھدائی ممکن نہ ہو ، ایک پاور پلانٹ نہ لگ سکتا ہو ، ایک ہائی وے نہ بن سکتی ہو وہاں آزادی و خود مختاری کا وجود اور اپنے سیاسی معاملات کو اپنے قومی مفادات کے مطابق ڈھالنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
اور ایسے کمزور ممالک میں مسلح تنظیموں کا رواج پانا کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے۔ وجہ سادہ سی ہے کہ ان پڑھ اور بے روزگار نوجوانوں کے لئیے ان تنطیموں میں بڑی کشش ہوتی ہے۔ وہ ان میں شمولیت اختیار کر کے نہ صرف اپنے بپھرے ہوئے جذبات کو تسکین پہنچاتے ہیں بلکہ مذہب اور قوم کے نام پر کچھ عاقبت نا اندیش نام نہاد رہنما ان کی اس دہشت گردی کو جہاد کا نام دے کر ان کی سرکشی کو مستحکم بھی کرتے ہیں۔
موجودہ صورت حال کا ذمہ دار اگر امریکہ ہے تو ہم اس سے بھی زیادہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہماری غفلت اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی نے آج ہمارے ہی نوجوانوں کو ہمارا دشمن بنا دیا ہے وہ اس معاشرے سے اب نفرت کرنے لگے ہیں کہ جس نے انہیں سوائے نفرت اور مارا ماری کے کچھ سکھایا ہی نہیں۔ یہ نوجوان جو ڈاکٹر ، انجینئیر، تاجر ، استاد ، مکینک ، اور عالم بننے کی بھرپور صلاحیتین رکھتے تھے ہم نے ان کے ہاتھ میں یا تو بندوق تھما دی یا کاسہ گدائی۔ اب اپنے کئیے کی سزا ہم کو مل رہی ہے۔
اس پر تشدد قضئیے کا جتنی جلدی ہو سکے خاتمہ ہونا چاہئیے۔ اور صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئیے بلکہ ہمیں جنگی بنیادوں پر ان علاقوں میں تعلیم اور دستکاریوں کے مربوط نظام کے قیام کی طرف توجہ دینا چاہئیے ۔
جب ہم اپنے وسائل اور ہنر مندی سے اپنے مسائل حل کرنا سیکھ لیں گے تو پھر نہ تو ہمیں امریکی فوبیا کا مرض لاحق ہو گا اور نہ ہی سروں کی فصل کٹنے کی نوبت آئے گی۔
بصورتِ دیگر "ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مُفاجات"۔
 

بدتمیز

محفلین
محترم بد تمیز
دنیا میں بہت سارے ممالک ایٹم بم اور جدید اسلحہ کے بغیر رھتے ہیں۔اور ہم سے زیادہ خوش اور ازاد نیز باوقار ہیں۔
میں 22 سالوں سے گلف میں رہ رھا ہوں۔۔بتاؤ کس کے پاس ایٹم بم ہے؟اور کون ہے جو معاشی فکر میں گرفتار ہے۔
یورپ میں بہت سارے ممالک کے پاس فوج نہیں ہے۔لیکن ہم سے زیادہ خوشحال ہیں۔اور ازاد بھی ہیں۔

اگر جدید اسلحہ بھی ہو اور بم بھی بقول اپکے ضروری ہے تو پھر اتنی مختاجی اور خوشنودی کیوں؟
اپنے ملک کے لوگوں کو اور اپنے ہمسائیہ ملک کے مسلمان بھائیوں کو قتل کرکے اپ انٹرنشنل اجرتی قاتل بن چکے ہیں۔

پھر ہمیں اتنی بڑی فوج رکھنی کی کیا ضرورت ہے؟انڈیا کی طاقت تسلیم کرو۔اور معاملہ ختم!!!!!کیونکی پاکستان بنتے وقت بھی کوئی فوج نہیں تھا۔اور بن گیا۔
جب امریکہ کی غلامی میں ہم لوگ گاجر مولیوں کی طرح کٹ رہے ہیں اور بھیڑ بکریوں کی طرح خرید و فروخت جاری ہے تو پھر ایسے فوج او ایسے ایٹم پر لعنت ہے۔
ساجد نے کیا خوب کہا ہے کہ جس رعایا کو اپ بنیادی سہولتیں نہیں دے سکتے اس پر اپنا تسلط برقرار رکھنا کہاں کا انصاف ہے۔
اسلامی بھائی چارگی اور احوت کے انجکش اب بے اثر ہے۔
اپ کے ساتھ پختنوں بلوچوں کا ایک ہی رشتہ تھا اور وہ اسلام کامضبوط رشتہ تھا۔ وہ بھی پاکستان کے حکمرانوں نے گنوا دیا ہے۔کیونکہ اسلام یہ نہیں جو وزیرستان میں استعمال ہورہا ہے۔

وہ لوگ تو اب یہ کہتے ہیں(اور ہم جیسے کٹر پاکستانی بھی اب یہی سوچ رہے ہیں) کہ نہ تو ہماری بولی ایک ہے نہ زبان،نہ کلچر نہ رواج اور پھر اسلامی اخوت کا بھی کوئی کردار نہیں بچا ،تعلیم،بجلی پانی ،صحت اور جان و مال کی حفاظت بھی نہیں تو پھر کس کھاتے میں ہم اپکے ساتھ رہیں؟؟؟؟


سلام
آپ ان چند ممالک کے نام نہ بتا سکے۔ خیر گلف کی مثال دی اس کا ذکر کر لیتےہیں۔ گلف کیسے وجود میں‌ آیا تھا؟ کتنے میر صادق اور میر جعفر ایک مملکت ٹوٹنے پر چھوٹے چھوٹے حکمران بنائے گئے تھے؟ اللہ آپ کو زندگی دے۔ کم از کم بھی مزید پچاس سال پھر ان میں سے چند ریاستوں میں سے تیل ختم ہونے پر میں آپ سے پوچھونگا کہ کونسی ترقی کونسا وقار اور کونسا امن؟ صرف دبئی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ15 سے بیس سال کا تیل ہے اس کے پاس۔ میرے خیال سے آپ بھٹو کے تیل بم کو بھول گئے ہیں۔ تو ان کے پاس کونسا بم ہوا پھر؟
ایٹم بم اور صدر پاکستان میں فرق ہے۔ ایٹم بم پر نہیں صدر پاکستان پر اخراجات ہو رہے ہیں جو غریبوں کے پیٹ کاٹ کر پورے کئے جا رہے ہیں۔
یورپ کے پاس بم نہیں لیکن یورپ کی تاریخ لڑائی مار کٹائی سے بھری پڑی ہے۔ دونوں جنگیں عظیم کہاں‌ہوئی؟ اس کے نتائج کس نے دیکھے؟ یورپ آج معاشی طور پر گندھا ہوا ہے اور یہ اس کے حکمرانوں نے نہیں ہم جیسے عواموں نے کیا۔ صحیح لوگ منتخب کر کے اور صحیح چیز پر تنقید کر کے۔ ایٹم بم کے بجائے آپ کو اپنے حکمرانوں سے چھٹکارا پانا چاہئے۔ آپ معاشی حقائق ہی جان لیں کہ صدر پاکستان، ان کے وزیر اعظم اور پھر پارلیمنٹ پر کیا خرچ ہے۔
انڈیا کی طاقت تسلیم کرو :confused::eek: آپ کی بات سن کر ایک بوڑھی فلسطینی عورت یاد آ گئی۔ اس پر اسرائیلی فوجی نے کتا چھوڑ دیا تھا۔ آپ کو کشمیر فلسطین بوسنیا پر لٹریچر پڑھنے کی ضرورت ہے۔ چلیں سابق صدر جمی کارٹر کی فلسطین پر بک ہی پڑھ لیں۔ امید ہے سوچ میں مثبت تبدیلی آئے گی۔
یعنی آپ کا خیال ہے کہ آج اگر دس جوتے لگتے ہیں تو ایٹم اور فوج ختم کر کے دس اپنوں سے اور دس غیروں سے ٹوٹل بیس جوتے لگنے چاہئے؟ آپ ہمت کر کے پہلے دس ہی کیوں نہیں‌ ختم کرتے؟
کس کھاتے میں تو اس کا سیدھا سا جواب ہے صوبائی خود مختاری دے کر۔ فیڈرل گورنمنٹ صرف خارجہ اور داخلہ امور کے ساتھ ساتھے ڈیفنس کے لئے ہونی چاہئے باقی تمام امور میں خود مختاری یہی قرین انصاف ہے۔ معذرت کے ساتھ آپ جیسے کٹر پاکستانی بھی اب غلط سوچ رہے ہیں اور صرف آسان ترین حل یعنی تباہ ہونے دو جو ہوتا ہے کی سوچ ہے۔
 

Dilkash

محفلین
بد تمیز۔
میں نے تاریخ کی کتابیں کافی پڑہی ہیں اور پاک سٹڈی بھی پڑہی ہے۔۔معزرت کے ساتھ بدنیتی اور جھوٹ پر مبنی مواد ہے۔
۔۔دبئ اور گلف ،یورپ کی باتیں کرکے اپ نے اپنی جہالت کا ثبوت دے دیا ہے،اور معاف کرنا اپ جیسے حضرات کو میں السلام علیکم ہی بولوں گا۔

ویسے بھی بد تمیزوں کا ساتھ گفتگو کا انجام کیا ہوگا۔
تو میری طرف ایک دفہ پھر سلام قبول فرمائیں۔
 

ساجد

محفلین
بد تمیز۔
میں نے تاریخ کی کتابیں کافی پڑہی ہیں اور پاک سٹڈی بھی پڑہی ہے۔۔معزرت کے ساتھ بدنیتی اور جھوٹ پر مبنی مواد ہے۔
۔۔دبئ اور گلف ،یورپ کی باتیں کرکے اپ نے اپنی جہالت کا ثبوت دے دیا ہے،اور معاف کرنا اپ جیسے حضرات کو میں السلام علیکم ہی بولوں گا۔

ویسے بھی بد تمیزوں کا ساتھ گفتگو کا انجام کیا ہوگا۔
تو میری طرف ایک دفہ پھر سلام قبول فرمائیں۔
فیروز بھائی ،
بی ٹی کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ لیکن ہم سب کا مقصد جو ہمیں یہاں لکھنے پر مجبور کر رہا ہے ، ایک ہی ہے کہ اپنے وطن اور قوم کو اس قتل و غارت سے بچایا جائے۔ اب ایسی بحوث میں کچھ تندی و تیزی تو ہو ہی جاتی ہے نا!!!
ویسے آپ کا انٹرویو میں نے پڑھا۔ ماشاءاللہ بہت اچھے انداز میں آپ نے اس گھمبیر صورت حال کی وضاحت فرمائی۔ اور جو کچھ آپ نے انٹرویو میں بتایا وہ حقیقت بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ قبائلی خود ظلم کا شکار ہیں ۔ میں نے بھی اسی دھاگے پر یہ بات اس وقت کہی تھی جب یہ بحث ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا رخ اختیار کر رہی تھی۔ اور جیسا کہ میں نے لکھا کہ میں خود کچھ عرصہ پشاور، کوہاٹ اور آدم خیل میں رہ چکا ہوں اور ایسے بہت سے قبائلی لوگوں سے مل چکا ہوں جو غربت اور مسلح گروہوں کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر کراچی ، لاہور یا پھر پشاور اور نوشہرہ منتقل ہو چکے تھے۔ اور یہ بات اس وقت کی ہے جب اس علاقے میں آپریشن کا دور دورہ نہ تھا۔ اب جبکہ آپریشن اور طالبان کا تشدد جاری ہے تو میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ کس قدر برا حال ہو گا وہاں۔
اللہ ہمیں محفوظ رکھے (آمین)۔
 

ساجداقبال

محفلین
ساجد بھائی یہی نکتہ میرا بھی ہے، جو آپ سمجھا رہے ہیں۔ پاکستان کی تقدیر ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ہم ہی وہ ہیں جو اپنے فرائض سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔
صرف دبئی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ15 سے بیس سال کا تیل ہے اس کے پاس۔
دبئی کی معیشت تیل پر بہت کم انحصار کرتی ہے، صرف دس فیصد۔
 

ساجداقبال

محفلین
ایسے کمزور ممالک میں مسلح تنظیموں کا رواج پانا کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے۔ وجہ سادہ سی ہے کہ ان پڑھ اور بے روزگار نوجوانوں کے لئیے ان تنطیموں میں بڑی کشش ہوتی ہے۔
یہی خیال ہمارے ارباب اختیار کا بھی ہے لیکن یہ ایک چھوٹی وجہ تو ہو سکتی ہے لیکن مرکزی وجہ نہیں۔ حامد میر کا آج کا کالم ملاحظہ کریں:
عید کا دوسرا دن تھا۔ بنّوں شہر کے ایک اسکول کی عمارت میں پناہ لینے والے شمالی وزیرستان کے مہاجرین مجھے اپنی تباہی کی داستانیں سنا رہے تھے۔ اکثر مہاجرین کا تعلق شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی سے تھا۔ عید سے چند دن پہلے میر علی کے مرکزی بازار اور آس پاس کے قصبوں پر ہونے والی بمباری سے سیکڑوں لوگ مارے گئے اور ہزاروں لوگ خوف و ہراس کے عالم میں محفوظ مقامات کی طرف بھاگے۔ دس اکتوبر کو میر علی کے قریب ایک گاؤں ایپی میں پچاس افراد کی نمازہ جنازہ پڑھی گئی۔ ایپی کا ایک زخمی بچّہ مجھے بنّوں کے ڈسٹرکٹ ہاسپیٹل میں ملا۔ چھ سات سال کے اس بچّے کا چہرہ بم کا ٹکڑا لگنے سے بُری طرح متاثر ہوا تھا۔ ساتھ والے بستر پر ایک زخمی بزرگ پڑا ہوا تھا۔ اس بزرگ نے مجھے بتایا کہ اس بچّے کا نام عبداللہ ہے اور یہ بول چال سے قاصر ہے۔ اس بچّے کا باپ بمباری میں مارا گیا، زخمی ماں اسے اٹھا کر یہاں تک پہنچی اور چند گھنٹوں کے بعد چل بسی۔ اس بزرگ نے کپکپاتے ہونٹوں اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ کہا کہ 1937ء میں وہ اس معصوم بچّے کی عمر کا تھا اس وقت بھی ایپی گاؤں پر بمباری ہوئی تھی، اس وقت بھی کئی لوگ مارے گئے تھے لیکن فرق یہ ہے کہ 1937 ء میں ایپی گاؤں پر برطانوی ایئر فورس کے طیاروں نے بمباری کی اور گاؤں والوں نے بڑے حوصلے اور فخر سے اپنے شہداء کو دفن کیا لیکن 2007ء میں ایپی گاؤں پر پاکستان ایئر فورس نے بمباری کی اور جب شہداء کو دفن کیا جا رہا تھا تو جذباتی نوجوان برطانوی سامراج کی بجائے پاکستانی فوج کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ بنّوں شہر کے مختلف علاقوں میں شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی حالت زار دیکھنے اور ہاسپیٹل میں زخمیوں کی عیادت کے دوران مجھے بار بار لبنان یاد آتا رہا۔ پچھلے سال جولائی میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو عذر پیش کیا کہ حزب اللہ کے گوریلے جنوبی لبنان کے سرحدی علاقوں سے اسرائیلی فوج پر حملے کرتے ہیں لہذا اسرائیل نے پورے جنوبی لبنان کو بمباری سے تباہ و برباد کر دیا۔ جنوبی لبنان کے مہاجرین اپنے ہی وطن میں بے گھر ہو کر بیروت کے مغربی اور مشرقی علاقوں میں پہنچے جہاں انہوں نے اسکولوں کی عمارتوں میں پناہ لی۔ ان اسکولوں میں پناہ لینے والے لبنانی مہاجرین کی کہانیوں اور بنّوں کے اسکولوں میں پناہ لینے والے شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی کہانیوں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ لبنانی مہاجرین اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی میں تباہ ہوئے اور شمالی وزیرستان والے پاکستانی فوج اور مقامی طالبان کی لڑائی میں تباہ ہو رہے ہیں۔ بیروت کے اسپتالوں میں زخمی عورتوں اور بچّوں کی دیکھ بھال کرنے والوں میں ریڈ کراس کے علاوہ عبدالستار ایدھی بھی نظر آتے تھے لیکن بنّوں میں شمالی وزیرستان کے تباہ حال مہاجرین کی خبر گیری کرنے والوں میں جماعت اسلامی اور الرحمت ٹرسٹ کے علاوہ کوئی تیسرا نظر نہیں آیا۔ جماعت اسلامی والوں نے بنّوں شہر میں مہاجرین کے تین کیمپ قائم کئے۔ جماعت اسلامی ضلع بنّوں کے امیر مطیع اللہ جان ایڈووکیٹ سے میں نے پوچھا کہ شمالی وزیرستان کے منتخب رکن قومی اسمبلی کا تعلق جمعیت علماء اسلام (ف) سے ہے لیکن ان کی جماعت کہیں نظر نہیں آ رہی۔ یہ سوال سن کر مطیع اللہ جان نے نظریں جھکا لیں اور موضوع بدلتے ہوئے کہنے لگے کہ ان متاثرین کا تعلق شمالی وزیرستان کے داوڑ قبیلے سے ہے جو میر علی کے گرد و نواح میں آباد ہے، یہ بڑے غیرت مند لوگ ہیں اور مشکل ترین حالات میں بھی کسی سے مدد نہیں مانگتے، لہذا یہ بمشکل دو تین دن ہمارے کیمپوں میں ٹھہرتے ہیں اور پھر اپنا انتظام کر کے آگے کوہاٹ اور کرک کی طرف چلے جاتے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں بمباری کے متاثرین کی اکثریت یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھی کہ ان کی تباہی کے ذمہ دار غیر ملکی عسکریت پسند یا طالبان ہیں۔ یہ سب متاثرین اپنی تباہی کی ذمہ داری امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر ڈال رہے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کا نام بہت کم سننے میں آیا۔ کافی دیر کے بعد مجھے پتہ چلا کہ داوڑی لوگ اپنے اصلی دشمن کا نام زبان پر لانا پسند نہیں کرتے۔ ڈگری کالج میر علی میں فورتھ ایئر کے ایک طالب علم نے کہا کہ سات اکتوبر سے پہلے وہ عسکریت پسندی کے سخت خلاف تھا اور دن رات اپنی تعلیم میں مگن تھا لیکن سات اکتوبر کی بمباری کے بعد اسے تعلیم میں کوئی دلچسپی نہیں رہی کیونکہ اب اسے اپنے چھوٹے بھائی کے قتل کا بدلہ لینا ہے جو بمباری میں مارا گیا۔ اس نے چیختے ہوئے کہا کہ میرا بھائی صبح سحری کے وقت میر علی بازار میں دہی لینے گیا تھا اور بمباری سے مارا گیا، وہ غیر ملکی دہشت گرد نہیں تھا صرف بارہ سال کا سٹوڈنٹ تھا جو ہر وقت کرکٹ کھیلتا تھا اور شاہد آفریدی کی تصاویر جمع کرتا تھا، میرے بھائی کے قتل کا ذمہ دار سب سے بڑا دہشت گرد ہے اور اب میں اس سے بھی بڑا دہشت گرد بن کر دکھاؤں گا۔ یہ سن کر میرے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی اور میں سوچنے لگا کہ کیا لاہور اور کراچی کے دانشور نفرت کی اس نئی آگ کا ادراک رکھتے ہیں جس پر آئے دن مزید تیل ڈالا جا رہا ہے؟ بنّوں میں شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی دکھ بھری کہانیاں سننے کے بعد میں بکا خیل کی طرف روانہ ہوا۔ بکا خیل سے شمالی وزیرستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ میر علی میں کرفیو ختم ہونے کے باوجود میرانشاہ بنّوں روڈ پر مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ مہاجرین میر علی سے نہیں بلکہ دتّہ خیل سے آ رہے تھے۔ دتّہ خیل سے آنے والے بتا رہے تھے کہ ان کے علاقے میں پاکستانی فوج بکتر بند گاڑیاں اور توپیں لیکر پہنچ گئی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ میر علی کے بعد اگلا آپریشن دتّہ خیل میں ہو گا۔ کچھ لوگ بنّوں سے واپس میر علی بھی جا رہے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا سامان لیکر واپس جائیں گے۔ اب انہیں کسی امن معاہدے پر اعتماد نہیں کیونکہ حکومت اپنی ضرورت کے مطابق معاہدہ کرتی ہے اور ضرورت کے مطابق توڑتی ہے، ہمارے مفاد کا کسی کو خیال نہیں۔ بکا خیل میں کھلے آسمان تلے ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے تباہ حال خاندان کے ایک فرد نے کہا کہ ہمارے بزرگ انگریزوں کے ظلم کی جو داستانیں ہمیں سناتے تھے اب تو وہ بھی ماند نظر آتی ہیں۔ انگریز ہمیشہ بمباری سے قبل اعلان کرتے، ہوائی جہاز سے ہینڈ بل گراتے اور بمباری کا وقت اور جگہ بھی بتاتے تھے تاکہ فقیر ایپی کے مجاہدین کے ساتھ لڑائی میں عام لوگوں کا نقصان نہ ہو۔ فقیر ایپی پر ڈاکٹر فضل الرحمان کی کتاب میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ 9 اپریل 1937ء کو برطانوی ایئر فورس نے دتّہ خیل اور میر علی کے آس پاس اشتہار گرائے اور خبردار کیا کہ 12 اپریل کو کھجوری اور سیدگی کے درمیان بمباری ہو گی لہذا مقامی لوگ کہیں اور چلے جائیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وزیرستان میں آج بھی انگریزوں کے طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں لیکن انداز انگریزوں والا نہیں ہے۔ سات اکتوبر 2007ء کو میر علی اور آس پاس کے علاقوں پر کسی اطلاع کے بغیر بمباری کی گئی۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس بمباری کا مقصد غیر ملکی دہشت گردوں کو ہلاک کرنا تھا لیکن کسی ایک غیر ملکی کی لاش میڈیا کے سامنے نہیں لائی گئی ․․․․ 1937ء کی بمباری نے انگریزوں کے خلاف فقیر ایپی کی تحریک کو مزید آگے بڑھایا تھا اور 2007ء کی بمباری نے شمالی وزیرستان کے عسکریت پسندوں کو غصّے اور نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے نوجوانوں کی ایک نئی کھیپ مہیا کی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار شمالی وزیرستان میں وہی غلطیاں کر رہے ہیں جو امریکہ نے عراق اور بھارت نے کشمیر میں کیں۔ نجانے ان ارباب اختیار نے لال مسجد آپریشن سے کوئی سبق کیوں نہیں سیکھا؟ چند لبرل فاشسٹوں کی خوشی کیلئے لال مسجد آپریشن کیا گیا جس نے مزید تشدد اور خودکش حملہ آور پیدا کئے۔ لبرل فاشسٹوں کو خوش کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو شمالی وزیرستان میں بھڑکائی جانے والی آگ کو لاہور اور کراچی تک پھیلنے سے روکنا آسان نہ ہو گا۔
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی یہی نکتہ میرا بھی ہے، جو آپ سمجھا رہے ہیں۔ پاکستان کی تقدیر ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ہم ہی وہ ہیں جو اپنے فرائض سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔

دبئی کی معیشت تیل پر بہت کم انحصار کرتی ہے، صرف دس فیصد۔
ساجد اقبال ،
نئے اعداد و شمار کے مطابق تیل پر ان کی معیشت کا انحصار اب دس سے بھی کم ہو کر سات فیصد رہ گیا ہے۔
 

Dilkash

محفلین
[]
ساجد بھائی
گلف اب وہ گلف کہاں جہاں پاکستان سے ہمارے ان پڑہ مزدور اکر اپنے خاندانوں کے لئے رزق کماتے تھے۔۔اب یہاں پڑہے لکھے لوگ مزدوری کے لئے اتے ہیں۔۔اور پیسے کی زور پر ان لوگوں نے دنیا کی بہترین تکنالوجی خریدی ہے۔ ا ینفراسٹرکچر بنا لیا ہے اور فلک بوس عمارتیں کھڑی کردی ہیں۔عقارات میں بے پناہ ترقی ہوئی ہے۔یورپ سے مہنگے کرایے ہیں۔دینا بھر کے پیسے والے لوگ اپنی پروپرٹی خرید رہے ہیں۔پاکستان کے ہزاروں کروڑپتیوںاور اربپتیوں نے اپنے ویلاز اورفلیٹس خریدٰیں ہیں۔ ارام،سکون
اور شاپنگ لے لئے مہینے میں ایک دو دفعہ اتے جاتے ہیں۔
انڈسٹریز کی بھرمار ہے۔ سٹیل ،فرٹلئیزر،بلڈینگ میٹرییل،گیس،ایجوکیشن اور سیاحت کےانڈستریز کے علاوہ پٹرولئیم سے متعلق اشیا ایکسپورٹ کرتے ہیں۔پاکستان بھی فرٹلئیزر خرید رھا ہے۔

دبئی میں تیل نہیں ہے ہوٹل انڈسٹری ہے۔ایک چھوٹا سا ملک قطر کے ائیرلائینز نے پی ائی اے کو تباہ کردیا ہے۔۔اپکے تمام شہروں سے دینا بھر کے مسافروں کو ٹرانسپورٹ کرارہے ہیں۔۔۔ہم لوگ کہاں سوئے ہوئے ہیں؟
 

Dilkash

محفلین
ہاہاہاہہا ۔۔۔۔۔کمال کے ادمی ہو ساجد بھائی۔۔مابدولت کا خمار ابھی تک نہیں ٹوٹا۔۔۔حالانکہ حالیہ تبصرے پڑہ کر اپ نے ہمیں اچھا خاصہ مرغوب کیا ہے۔
اللہ کریں زور قلم اور زیادہ۔۔۔
 

خرم

محفلین
بھائیو بات وہی جو ہم سب کہتے ہیں اور کر نہیں سکتے۔ پورا نظام بدلنے کی ضرورت ہے مگر بدلے گا کون؟

طالبان کو تو بیرونی امداد مل رہی ہے اور ملتی ہی رہے گی۔ پاکستانی حکومت کو معصوم شہریوں پر بمباری کرکے انہیں ہلاک کرنے کی بجائے انہیں تحفظ دینا چاہئے۔ ہاں قبائلی بھائیوں کو بھی چاہئے کہ وہ طالبان کو اپنے اندر گھلنے ملنے نہ دیں۔ قبائلیوں کو بتائیں کہ طالبان سے خطرہ امریکہ کو نہیں خود ہمیں ہے۔ قبائلیوں کو ٹارگٹ نہیں کریں انہیں console کریں۔ مگر یہ سب مرحلہ وار ہونا چاہئے۔ میرے خیال میں تو سب سے پہلے حکومت کو ایک safe perimeter بنانا چاہئے اور اس کے بعد طالبان کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے۔ جہاں تک بات ہے طالبانائزیشن کی، اسے ہر قیمت پر کچلنا چاہئے مگر نظریہ کو کچلو، لوگوں‌کو نہیں۔ ساجد بھائی، دلکش بھائی آپ لوگ جانتے ہیں ان علاقوں کو، ان لوگوں کو، کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟ کیا ہم کچھ کر سکتے ہیں؟
 

بدتمیز

محفلین
بد تمیز۔
میں نے تاریخ کی کتابیں کافی پڑہی ہیں اور پاک سٹڈی بھی پڑہی ہے۔۔معزرت کے ساتھ بدنیتی اور جھوٹ پر مبنی مواد ہے۔
۔۔دبئ اور گلف ،یورپ کی باتیں کرکے اپ نے اپنی جہالت کا ثبوت دے دیا ہے،اور معاف کرنا اپ جیسے حضرات کو میں السلام علیکم ہی بولوں گا۔

ویسے بھی بد تمیزوں کا ساتھ گفتگو کا انجام کیا ہوگا۔
تو میری طرف ایک دفہ پھر سلام قبول فرمائیں۔

اے عالم با عمل فٹ جہالت کا سرٹیفیکیٹ دینے کا بہت شکریہ۔ آپ کے اس طرز عمل سے آپ کا اندازہ بہرحال بہت بخوبی ہو جاتا ہے۔
سلام دعا کے کافی عادی معلوم ہوتے ہیں کبھی ایٹم بم کو سلام تو کبھی ہمکو۔ چلیں ایک آخری مہربانی کریں کہ اگر ایٹم بم کے ختم ہو جانے کے بعد کے حال احوال نا نقشہ کھینچ دیں۔ اگر آپ اپنے علم سمیت شرما گئے ہیں تو کوئی بات نہیں کوئی دوسرا ہی یہ نقشہ کھینچ دے۔
آپ نے ہی دنیا کے بےشمار ملکوں‌کا ذکر فرمایا تھا لہذا میں نے بھی سبھی کا ذکر کر دیا کہ آپ کو تشنگی کا احساس نہ ہو۔
ویسے بھی ایٹم بم ایٹم بم کرنے والے مجھے اس کمہار کی یاد دلا دیتے ہیں جس کا گاؤں کی چودہری بےعزتی کرے یا اپنا ہی وڈا پتر وہ غصہ بیچاری بیوی پر ہی نکالتا ہے۔ اسی طرح آپ لوگ بھی بیچارے ایٹم بم کے پیچھے پڑ جاتے ہیں

ساجد۔ دولتی کولٹس کا نشان ہے۔ کچھ ایسا برا بھی نہیں۔

دبئی کی معیشت تیل پر استوار ہوئی تھی۔ میرے خیال سے آپ کی رپورٹس کو نظر انداز کر کے اگلے بیس برس کا انتظار کرتے ہیں۔ ویسے بھی میں نے دلکشاں کو بم کا بتایا تھا کہ ان کے پاس کونسا بم ہے۔
 
خرم بھائی آپ کی بات سے متفق ہوں اور آپ نے شاید محفل پر ہی وہ دھاگہ دیکھا ہو جہاں‌ ہم نے ایک تنظیم بنانے کی بات کی ہے تاکہ ہم کچھ عملی اقدامات شروع تو کریں اور بجائے کڑھنے اور صرف باتیں کرنے کے کچھ عملی کام کرکے باقی لوگوں کو بھی ایک پلیٹ‌فارم دے سکیں۔ ضرورت واقعی یہی ہے کہ اس نظام کو بدلا جائے ورنہ اس نظام کے اندر جو خرابیاں ہیں وہ گھوم پھر کر اسی طرح پھیلتی رہیں گی اور ان مشکلات سے ہم کبھی نہ نکل سکیں‌گے۔ بات وہی ہے کہ ہمیں دیرپا حل چاہیے جس سے ہم اس مسئلہ کو ختم کر سکیں نہ کہ وقتی طور پر دبا کر اسے آئیندہ کے لیے اور سنگین کر لیں۔

مجھے بڑی کمی محسوس ہو رہی ہے وہاب اعجاز خان کی جن کا تعلق پشاور سے ہے اور جو محفل کے بہت متحرک رکن بھی رہے ہیں مگر کافی عرصہ سے نظر نہیں آ رہے ورنہ کچھ اور معلومات ان کے ذریعے بھی ملتی ۔ ساجد اقبال نے بہت عمدہ تجزیہ کیا ہے اور ہمیں تصویر کا دوسرا رخ دکھایا ہے جس کی طرف حکمرانوں کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
 

Dilkash

محفلین
قبائیلی لشکر کے بارے میں شائد کسی کو معلوم نہ ہوں۔مگر یہ صدیوں سے بنتے ارہے ہیں اصلاح اور امن کے لئے
خلافت ترکیہ کے زمانے میں ترک خلیفہ نے قبائیلوں کوانکی شناحت الگ رکھنے کے لئے جھنڈے دئے تھے۔جس کا اج بھی لوگ بہت اخترام کرتے ہیں۔کہ یہ خلیفہ کے دئے ہوے فلگز ہیں۔یہ جھنڈے قبائیلوں میں ابھی تک موجود ہیں اور اکثر علما اور بڑے گھرانوں کے لوگوں کے پاس محفوظ پڑے رہتے ہیں۔

ایک دفعہ اگر یہ جھنڈ ے نکل ائیں تو پھر تمام افراد وہاں جمع ہو جاتے ہیں اور لیڈروں سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہو ہے؟؟؟

یہ جھنڈے اس وقت نکالے جاتے ہیں جب دشمنیاں زیادہ ہوجائیں۔ڈاکے قتل اور چھینا جپٹی ظلم زیادتی کا ماحول بنتا جارہا ہو تو پھر اصلاحات کے نام پر علما نکل اتے ہیں اور تمام قبائیلی ملکر لشکر بنادیتے ہیں۔اور جہان پر برائی ہو وہاں جاکر صلح اور امن لاتے ہیں اور لوگوں کو بھاری جرمانے اور انکے گھر اور املاک جلا دیتے ہیں تاکہ انکو سبق مل جائیں۔۔یہ کام زمانوں سے ہوتا ارہا ہے۔
بد قسمتی سے اس مقدس رسم کو بھی یار کوگوں نے سیاست اور پیسے کا کاروبار بنالیاہے۔۔اب جب لشکر نکلتا ہے تو یا تو پاکستانئ حکومتی ایجنسی اور یا افغانستان کی حکومت کے شہہ پر نکل کر تباہی مچا دیتا ہے۔عوام کو کچھ پتہ نہیں ہوتا مگر لیڈر پیسے لیکر ایک دوسروں کی املاک اور حکومتی رٹ کے خلاف کام شروع کردیتے ہیں۔

اسکا حل فل حال حکومت کی پاس ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ ایجنسیاں ان کے اندر لگے ہیں،پھر جب مخالف حکومت کی طرف سے بھی ڈالر انا شروع ہو تو حکومت کے پاس کوئی تدبیر نہیں بچتی سوائے اس کے کہ بمباری کریں۔
جب تک عوام کے اندر تعلیم اور شعور نہیں اتا تب تک یہ قصہ چلتا رہے گا۔
 

خرم

محفلین
جب تک عوام کے اندر تعلیم اور شعور نہیں اتا تب تک یہ قصہ چلتا رہے گا۔
سو باتوں کی یہی ایک بات ہے مگر جب تعلیم میں بھی "اسلامی" اور "غیر اسلامی" کی تفریق آجائے گی تو جہالت کے سوا کیا بچے گا؟ یہی تو المیہ ہے ہمارا اور طالبان بھی تو اسی تعلیم اور شعور سے خائف ہیں۔ امریکہ اور روس کا بنا ہوا اسلحہ استعمال کرتے ہیں اور تعلیم کے خلاف ہیں۔
باقی بھائی لشکر وغیرہ گزرے وقتوں میں شاید ٹھیک تھے مگر کیا یہ اچھا نہ ہو کہ ایک باقاعدہ نظام ہو اور ایک باقاعدہ محکمہ جو قانون نافذ کرے اور خلاف ورزی کی سزا بھی صرف مجرم کو ملے اس کے اہل خانہ کو نہ۔ ویسے تو ایسا کوئی محکمہ ہی پاکستان میں موجود نہیں‌اور نہ کوئی ایسا تصور ہے مگر کیا کریں، دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے۔


محب بھائی
یقینا دیکھا ہے وہ دھاگہ اور بہت اچھا ہو اگر ہم ایسی کسی تنظیم پر متفق ہو جائیں۔ میرے خیال میں تو ایسی تنظیم کو سیاسی ہونا چاہئے کہ سیاست بھی عبادت اور سُنت رسول ہے اور ایک درست سیاسی تنظیم سے بڑی فلاحی تنظیم نہیں ہو سکتی۔ فی الحال تو "پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ" والا معاملہ ہے کہ سب دوست کس طرح کی تنظیم پر متفق ہوتے ہیں۔
 

ساجد

محفلین
بھائیو بات وہی جو ہم سب کہتے ہیں اور کر نہیں سکتے۔ پورا نظام بدلنے کی ضرورت ہے مگر بدلے گا کون؟

طالبان کو تو بیرونی امداد مل رہی ہے اور ملتی ہی رہے گی۔ پاکستانی حکومت کو معصوم شہریوں پر بمباری کرکے انہیں ہلاک کرنے کی بجائے انہیں تحفظ دینا چاہئے۔ ہاں قبائلی بھائیوں کو بھی چاہئے کہ وہ طالبان کو اپنے اندر گھلنے ملنے نہ دیں۔ قبائلیوں کو بتائیں کہ طالبان سے خطرہ امریکہ کو نہیں خود ہمیں ہے۔ قبائلیوں کو ٹارگٹ نہیں کریں انہیں console کریں۔ مگر یہ سب مرحلہ وار ہونا چاہئے۔ میرے خیال میں تو سب سے پہلے حکومت کو ایک safe perimeter بنانا چاہئے اور اس کے بعد طالبان کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے۔ جہاں تک بات ہے طالبانائزیشن کی، اسے ہر قیمت پر کچلنا چاہئے مگر نظریہ کو کچلو، لوگوں‌کو نہیں۔ ساجد بھائی، دلکش بھائی آپ لوگ جانتے ہیں ان علاقوں کو، ان لوگوں کو، کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟ کیا ہم کچھ کر سکتے ہیں؟
خرم بھائی ، بہت شکریہ آپ کی تحریر کا اور اس قومی احساس کے لئیے میں آپ کا ممنون ہوں کہ جو آپ کی تحریر سے مترشح ہے۔
خرم ، بات یہ ہے کہ موجودہ حکومتی مشینری اور ذمہ داران میں اتنی عقلی ، سیاسی اور اخلاقی قوت نہیں ہے کہ وہ یہ مسئلہ حل کر سکیں۔ اس مسئلے کے حل کی طرف اگر ہم کو پہلا قدم بڑھانا ہے تو سب سے پہلے مشرف صاحب کو اقتدار چھوڑنا ہو گا اور فوج کو حکومت چلانے کی بجائے اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائی کی طرف لوٹنا ہو گا۔ یہ ایک بنیاد ہوگی عوامی سظح پر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کہ ہمارے اربابِ بست و کشاد اس مسئلے کو حل کرنے میں مخلص ہیں۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ مشرف صاحب کے حکومت میں براجمان رہتے ہوئے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ وہ فوج کی نمائندگی کرتے ہیں اور فوج اس قضئیے میں ایک فریق بنی ہوئی ہے۔ اگر مشرف صاحب آرمی کو تیاگ دیں اور صدر بنے رہیں تب بھی حالات کی بہتری کی امید ایک سراب ہی ثابت ہو گا۔
دوسرے یہ کہ امریکہ کو بتا دیا جائے کہ جو کچھ ہو سو ہوا۔ تم ہمارے دوست ہو اور ہم بھی تم سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے لیکن اس تعلقات کی قیمت پاکستانی عوام کی جانوں کی شکل میں ہم ادا نہیں کر سکتے۔ کوئی مطلوب ہے تو تم ہمیں بتاؤ ہم اس کو جرم ثابت ہونے پر خود سزا دیں گے ، تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ دونوں کام نہ تو مشرف کے بس کے ہیں اور نہ محترمہ کے بس کے۔ اس لئیے اس کو فی الحال ایک خواب ہی سمجھا جائے۔ عمل درآمد کوئی جمہوری حکومت ہی کر سکے گی اگر کبھی بنی تو۔
ایک ہی راستہ بچتا ہے عوامی مزاحمت کا لیکن اس کے بھی آثار تاحال دکھائی نہیں دے رہے۔ لیکن محترمہ کے پاکستان میں نازل ہونے سے فرق یہ پڑے گا کہ اب مشرف کی من مانیوں میں کمی آ جائے گی ۔ عوامی مفاد میں نہیں بلکہ محترمہ اور مشرف کے مفادات میں ٹکراؤ کی وجہ سے یہ صورتحال پیش آئے گی۔ تب شاید کچھ سر پھروں کو بھی تحریک ہو اس نورا کشتی کو سمجھنے کی اور عوام کو مزاحمت کے لئیے ابھارنے کی۔
 

ساجد

محفلین
ساجد۔ دولتی کولٹس کا نشان ہے۔ کچھ ایسا برا بھی نہیں۔
وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ
کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ​
بی ٹی بھائی ، معذرت کہ مجھے ابھی تک آپ کے اسمِ گرامی سے شناسائی نہیں ہوئی ، میں نے تو دولتی والی بات محض گفتگو کی تلخی میں کمی لانے کی غرض سے لکھی تھی لیکن شاید آپ کی طبع پہ گراں گزری۔ واللہ ، دوران بحث میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہوتا کہ میں اپنی بات پر اڑوں یا غلطی پر ، ضد کی وجہ سے تکرار کروں۔ چونکہ ہر آدمی اپنی علمی استطاعت کے مطابق ہی لکھتا اور بولتا ہے اور مجھ جاہل کے پاس جو کچھ تھا میں نے بھی یہاں اس کا اظہار کر دیا ۔اور پھر ان علاقوں میں کچھ عرصہ قیام کر چکنے کی وجہ سے میں وہاں کی معاشرت اور معیشت کو سمجھنے کا زعم بھی رکھتا ہوں اس لئیے جو حقیقت حال تھی وہ بلا کم و کاست میں نے اپنے تئیں لکھنے کی کوشش کی۔
آپ کی آراء ہماری لئیے بہت قیمتی ہیں اور ہمیں بہت کچھ جاننے کا موقع دیتی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا اور امیدِ واثق ہے کہ آپ آئندہ بھی ہمارا ساتھ نبھاتے رہیں گے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
ساجد
 
Top