ساجد اقبال ، آپ کی بات درست۔ لیکن آرمی کی چوکیوں سے ان کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے ؟ جب کہ ایک عام قبائلی جو محنت مزدوری کرتا ہے اس کو ان بکھیڑوں سے کچھ لینا دینا نہیں تو ان چند سو افراد کی اتنی بے چینی کی کیا وجہ ہے؟ آخر آرمی کوئی دشمن ملک کی نہیں ہے ان کے اپنے سپوت بھی اسی آرمی کے سپاہی ہیں اور اسی آرمی میں اچھے اچھے عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ کیا یہ شک نہیں پیدا ہوتا کہ کسی چیز یا سرگرمی کی پردہ داری ان ( طالبان) کو مقصود ہے؟مسئلہ یہ ہے کہ امریکن چمچہ گیری میں یہ بھی شرط شامل ہے کہ ان علاقوں کے طالبان اور حمایتیوں کو یہاں چین سے نہ بیٹھنے دیا جائے، تاکہ وہ ری گروپنگ کرکے افغانستان میں انکی نیندیں نہ خراب کر سکیں۔ ابھی مہینہ پہلے وہاں امن و امان تھا جسمیں بڑا کردار وہاں کے مقامی علماء کا تھا۔ لیکن فوج نے دوبارہ چوکیاں بنانا شروع کیں اور یہ تماشہ پھر شروع۔ میں مانتا ہوں کہ فوج کو حق حاصل ہے (قائد کی قبائلیوں کیساتھ انڈرسٹینڈنگ کے باوجود) کہ وہ یہاں چوکیاں بنائے، لیکن ایسے نازک حالات میں چوکیاں بنانے کی ضد۔۔چہ معنی دارد؟ یہ کام ایک دو سال امن سے گزارنے کے بعد آسانی سے ہو جاتا۔ میرا نہیں خیال کے معمولی سمجھ بوجھ کا کوئی لیڈر ایسے نازک وقت میں ایسے عقل سے عاری فیصلے کرے لیکن کیا کیجیے کہ جنرل کو اب امریکی فوجی امداد بھی ایف ڈی آئی اور زرمبادلہ نظر آنے لگے ہیں۔
میرا اپنا خیال ہے کہ قوموں کو دنیا میں باعزت مقام حاصل کرنے کیلیے اعتماد اور یقین کی دولت ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ایٹم بم، اسلحہ اور لامتناہی وسائل۔ اگر ایسے ہوتا تو طاقتور روم و فارس آج تک قائم و دائم رہتے۔ ہم بحیثیت ملک و قوم ذلت کی اس انتہا پر پہنچ چکے ہیں، جہاں ہم دوسروں کی جنگ اپنی زمین پر لڑنے کو جائز و ناجائز قرار دینے کیلیے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ ذاتی طور پر میں اس جنگ(جس کو چھیڑنے کے اسباب تک مشکوک ہیں) کو اپنی سرزمین پر چھیڑنے کو اس سارے بکھیڑے کی وجہ گردانتا ہوں۔ ہمارے زہن جب تک امریکہ فوبیا سے آزاد نہیں ہونگے طالبان، وزیرستان یہ سب چیزیں ہمیں مزید تقسیم کرتے رہینگے۔
میں چاہوں گا کہ اس بحث میں ”پختون ذہنیت“ پر بھی بات کی جائے کیونکہ ہماری اپنی ویلیوز بھی ہیں جو ہمیں ایک مخصوص موقف کا حامل بناتی ہے، جو زمینی حقائق، بین الاقوامی سیاست اور دوسری الم غلم سے مبرا ہوتا ہے۔
میں نے یہ سوال صرف اس لئیے پوچھا ہے کہ ایک عجیب قسم کی بے یقینی اور گومگو کی کیفیت ہے دونوں فریقوں کے مؤقف میں اور ہم جو پردیس میں بیٹھے ہیں ان دونوں کے بینات اور جوابی الزامات کو پڑھ کر حالات کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ آپ ذرا تفصیل سے بتائیں کہ آپ تو اس علاقے کے باسی ہیں۔
ساجد اقبال ، امریکی فوبیا کہہ لیں یا اپنی بے بسی کا اعتراف ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم ایک ان پڑھ اور علوم و فنون سے عاری گروہ کی مانند ہیں کہ جن کے سامنے نہ تو کوئی مقصد ہے اور نہ کوئی منزل۔ ہم اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لئیے ہی سب کچھ کرتے ہیں۔ من حیث القوم نہ ہم نے کبھی سوچا ہے اور نہ ہی اپنی قوم اور وطن کے لئیے اپنے مفادات کو قربان کیا ہے البتہ اپنے مفادات پر اپنی قوم اور وطن کو قربان کرنے کے لئیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ہم بے ایمان ہیں ، منافق ہیں ، جھوٹے ہیں اور پرلے درجے کے چھوڑُو بھی ہیں۔ ہم دین کے سوداگر ہیں۔ وطن فروش ہیں۔ فتووں کے تاجر ہیں۔ ظلم کے داعی ہیں۔ انسانیت کے دشمن ہیں۔
ہم نے اپنی دو نسلوں کو برباد کر دیا ، ہم ان کو نہ تو تعلیم دے سکے نہ تربیت۔ سہولتیں تو دور کی بات ہم ضرورتیں بھی پوری نہ کر سکے۔ اسلامی فلاحی مملکت کا نعرہ لگاتے رہے لیکن اندرون خانہ ہم اسلام کے لفظِ اول "اقراء" سے بھی دور ہٹتے گئے۔
مجھے انگریز اچھا نہیں لگتا کہ اس نے ہمیں غلام بنایا تھا لیکن جب میں اسی کے بنائے ہوئے دنیا کے سب سے بڑے نہری نطام پر فخر کرتا ہوں تو بھول جاتا ہوں کہ میں اپنی نہیں اس انگریز کی محنت وعقل کو داد دے رہا ہوں۔
میں ٹرین میں بیٹھ کر پشاور سے کراچی تک کا سفر کرتا ہوں اور اپنے وطن کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہوں لیکن بھول جاتا ہوں کہ یہ ٹرین یہاں کون لایا تھا۔
مجھے امریکہ اچھا نہیں لگتا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہے لیکن اسی اسلامی امہ کی قریب قریب تمام حکومتیں اپنی بقاء کے لئیے اسی کی مرہوںِ منت ہیں۔
جس جہاد میں ہم نے روس کو شکست دی وہ جہاد بھی اس کافر امریکہ کے بغیر ہم سے نہ ہو سکتا تھا۔
میں اپنی فضائیہ کے ایف 16 پر اتراتا ہوں لیکن بھول جاتا ہوں کہ یہ اسی دشمن (امریکہ) کا بنا ہواہے۔
میں انٹر نیٹ چلاتا ہوں تو میرا رابطہ جدہ یا اسلام آباد سے نہیں اسی کافر امریکہ سے ہی ہوتا ہے اور میں مجبور ہوں کہ اپنے راز پہلے اس کے حوالے کروں بعد میں یہ میرے مطلوبہ شخص تک پہنچیں۔
میں اکلوتی اسلامی ایٹمی طاقت کا شہری ہونے پر پھولا نہیں سماتا ہوں لیکن اس بم کی ٹکنالوجی میرے وطن کی کسی لیبارٹری میں وجود میں نہیں آئی بلکہ ایک (کافر) ملک سے درآمد ہوئی اور جو اللہ کا بندہ اس کو لایا اس کو ہم نے بے شرمی سے اس کے کئیے کی سزا دے ڈالی۔
ذرا سوچئیے تو سہی کے کیا ہمارے اندر کوئی ایسی خوبی ہے کہ ہم عالمی برادری میں سر اٹھا کر جی سکیں۔
ساجد بھائی ، کیا سمجھے کہ آج میں بھی سیاستدانوں کی طرح سے لوٹا ہو گیا اور ان کو آقا سمجھ بیٹھا۔ نہیں آپ غلط سمجھے یہ تو میں آئینہ دیکھ رہا ہوں اور آپ سب کو بھی دکھانا چاہ رہا ہون کہ جس ملک میں امریکہ کی امداد کے بغیر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائی نہ ہو سکتی ہو ، ایک نہر کی کھدائی ممکن نہ ہو ، ایک پاور پلانٹ نہ لگ سکتا ہو ، ایک ہائی وے نہ بن سکتی ہو وہاں آزادی و خود مختاری کا وجود اور اپنے سیاسی معاملات کو اپنے قومی مفادات کے مطابق ڈھالنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
اور ایسے کمزور ممالک میں مسلح تنظیموں کا رواج پانا کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے۔ وجہ سادہ سی ہے کہ ان پڑھ اور بے روزگار نوجوانوں کے لئیے ان تنطیموں میں بڑی کشش ہوتی ہے۔ وہ ان میں شمولیت اختیار کر کے نہ صرف اپنے بپھرے ہوئے جذبات کو تسکین پہنچاتے ہیں بلکہ مذہب اور قوم کے نام پر کچھ عاقبت نا اندیش نام نہاد رہنما ان کی اس دہشت گردی کو جہاد کا نام دے کر ان کی سرکشی کو مستحکم بھی کرتے ہیں۔
موجودہ صورت حال کا ذمہ دار اگر امریکہ ہے تو ہم اس سے بھی زیادہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہماری غفلت اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی نے آج ہمارے ہی نوجوانوں کو ہمارا دشمن بنا دیا ہے وہ اس معاشرے سے اب نفرت کرنے لگے ہیں کہ جس نے انہیں سوائے نفرت اور مارا ماری کے کچھ سکھایا ہی نہیں۔ یہ نوجوان جو ڈاکٹر ، انجینئیر، تاجر ، استاد ، مکینک ، اور عالم بننے کی بھرپور صلاحیتین رکھتے تھے ہم نے ان کے ہاتھ میں یا تو بندوق تھما دی یا کاسہ گدائی۔ اب اپنے کئیے کی سزا ہم کو مل رہی ہے۔
اس پر تشدد قضئیے کا جتنی جلدی ہو سکے خاتمہ ہونا چاہئیے۔ اور صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئیے بلکہ ہمیں جنگی بنیادوں پر ان علاقوں میں تعلیم اور دستکاریوں کے مربوط نظام کے قیام کی طرف توجہ دینا چاہئیے ۔
جب ہم اپنے وسائل اور ہنر مندی سے اپنے مسائل حل کرنا سیکھ لیں گے تو پھر نہ تو ہمیں امریکی فوبیا کا مرض لاحق ہو گا اور نہ ہی سروں کی فصل کٹنے کی نوبت آئے گی۔
بصورتِ دیگر "ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مُفاجات"۔