طالبان کی جانب سے پاکستان سے انتقام لینے کا عزم

عثمان

محفلین
بالکل ٹھیک کہا90 کی دہائی میں پاکستان ہی کی مدد سے امریکہ اپنے روایتی حریف روس کو زیر کرنے میں کامیاب ہوا تھااور آج پاکستان اسی امریکہ کے شر کا شکار ہے۔
امریکہ کے شر کا شکار کیا ہونا ہے۔ پاکستان اپنے پالتوں غنڈوں کے شر کا شکار ہوگیا ہے۔ دہائیوں تک دوسرے ممالک کو "جہاد" کے نام پر غنڈے سپلائی کرتے رہے۔ اب یہی سنپولیے سانپ بن کر پاکستان ہی کو ڈس رہے ہیں۔
جیسا بؤ گے ویسا کاٹو گے۔
 

ساجد

محفلین
امریکہ کے شر کا شکار کیا ہونا ہے۔ پاکستان اپنے پالتوں غنڈوں کے شر کا شکار ہوگیا ہے۔ دہائیوں تک دوسرے ممالک کو "جہاد" کے نام پر غنڈے سپلائی کرتے رہے۔ اب یہی سنپولیے سانپ بن کر پاکستان ہی کو ڈس رہے ہیں۔
جیسا بؤ گے ویسا کاٹو گے۔
عثمان ، آپ نے ٹھیک کہا۔ جب یہ "جہادی" کلچر اپنے پر پرزے نکال رہا تھا اس وقت ہمارے "امیرالمومنین" جنرل ضیاء مرحوم امریکہ کی گڈ بکس میں تھے اور اس کلچر کی فنڈنگ امریکہ سے اور افرادی قوت پاکستان، عرب ممالک اور روس سے آزاد ہونے والی کچھ ریاستوں سے مہیا کرائی جاتی تھی۔ دراصل اس وقت بھی ان "مجاہدین" کو امریکہ ہی کنٹرول کر رہا تھا اور آج بھی یہ "دہشت گرد" اسی کے اشارہ ابرو پہ پاکستان میں اودھم مچائے ہوئے ہیں۔
90 کی دہائی سے کھمبیوں کی طرح سے اٹھ کھڑے ہونے والے "دینی مدارس" اور ان میں زیر تعلیم مشکوک طلباء نے اسلام اور پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کیا۔ اور یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ ریمنڈ ڈیوس کی تحقیقات کے دوران اس کے بھی ایسے مدارس سے رابطوں کی تصدیق ہوئی تھی۔
یہی وہ نکتہ ہے جس پر ہمیں توجہ دینا چاہئیے کہ امریکہ اور طالبان کہیں ایک ہی گیم تو نہیں کر رہے جو پاکستان کی تباہی کی گیم ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميں نے فورمز پر پہلے بھی اس بات کا تذکرہ کيا ہے کہ میں ايک امريکی مسلمان ہوں ليکن ميرے بے شمار دوست اور رشتہ دار پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہتے ہیں۔ اسی ليے جب بھی پاکستان کے کسی بھی علاقےسے کسی خودکش حملے کی خبر آتی ہے تو ديار غیر میں رہنے والے لاکھوں پاکستانیوں کی طرح مجھے بھی پاکستان ميں اپنے دوستوں کی خيريت کے حوالے سے تشويش اور فکر لاحق ہوتی ہے۔ فورمز پر کچھ دوستوں نے يہ جملہ بھی چست کيا کہ میں شايد ان امريکی ايجنٹس کے ساتھ مل کر کام کرتا ہوں جو مبينہ طور پر ان حملوں کے ذمہ دار ہيں اور اسی مناسبت سے ميں حملوں سے پہلے ہی تيار شدہ مذمتی بيانات فورمز پر پوسٹ کر ديتا ہوں۔ يہ انتہائ افسوس ناک اور غلط سوچ ہے۔

يہ ايک تلخ حقيقت ہے کہ پاکستان ميں گزشتہ چند برسوں کے دوران جتنی تعداد ميں خودکش حملے ہوئے ہيں اور جتنے بڑے پيمانے پر ان دہشت گردوں کی جانب سے قتل وغارت گری کی گئ ہے اس کی بدولت ايک ايسی فضا پيدا ہو گئ ہے جہاں بعض اوقات افسوس کا اظہار اور اس ضمن ميں ادا کيے گئے الفاظ اپنی حرمت کھو کر بے معنی اور روايتی لگنے لگتے ہيں۔ ليکن يہ حقيقت ہميشہ مدنظر رہنی چاہیے کہ ان حملوں ميں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے زندگياں ہميشہ کے ليے گہنا جاتی ہيں۔ ان کے ساتھ اظہار ہمدردی اور ان سفاک کاروائيوں کے خلاف اکٹھے صف آرا ہونے اور اپنے مصمم ارادے اور عزم کا اعادہ کرنا انتہائ ضروری ہے۔ اسی بنياد پر ميں دہشت گردی کے واقعات کے بعد تعزيتی پيغامات مختلف فورمز پر پوسٹ کرتا ہوں۔

امريکی اور پاکستانی حکومتيں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اس لعنت کے خاتمے کے لیے مل کر کام کر رہی ہیں جس کی بدولت نہ صرف يہ کہ ہزاروں بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بيٹھے ہيں بلکہ پاکستانی معاشرے کی بنياديں بھی ہل گئ ہيں۔ وقت کی اہم ضرورت يہ ہے کہ ان جرائم کے کرتا دھرتا مجرموں اور ان کےغلط فلسفے پر توجہ مرکوز کی جائے جو اب اپنے آپ کو پوشيدہ رکھنے کی بھی کوئ کوشش نہيں کر رہے۔ يہ لوگ کھلے عام پاکستان کے لوگوں کو دھمکا کر آئے دن ان پر حملے کر رہے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستانی فورمز پر ان دہشت گرد حملوں کے حوالے سے تمام تر بحث کا رخ محض بے بنياد سازشی کہانياں ہی ہوتی ہيں جو اصل ايشوز سے توجہ ہٹانے کا ذريعہ بنتی ہيں۔ دہشت گردی کے ايشو کے حوالے سے بے اعتمادی، ابہام اور کسی حتمی رائے پر متفق نہ ہونے کے سبب معاشرے کے مختلف طبقوں کی جانب سے مربوط اور يکساں ردعمل نہيں آتا جس کی بدولت دہشت گرد تنظيموں اور ان کے قائدين کو مزيد مواقع اور حوصلہ افزائ ملتی ہے جو ان کی جانب سے بغير کسی بڑے عوامی ردعمل کے مزيد کاروائيوں کا موجب بنتی ہے۔ دہشت گردی کے عذاب اور انتہا پسندی کو شکست دينے کے لیے يہ ضروری ہے کہ بے معنی توجيہات اور مافوق الفطرت اور ان ديکھی کہانيوں کی بجائے معاشرہ ان دہشت گرد تنظيموں پر توجہ مرکوز کر کے ان کے بنيادی نظريے اور پيغام کو يکسر رد کرے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
مسٹر فواد ، دہشت گردی کی تعریف؟؟؟۔ سینکڑوں کو مارنے والا دہشت گرد!!! بالکل تسلیم کر لیا۔ لیکن جو لاکھوں معصوم انسانوں کو ان کے مما لک میں گھس کر مارے اس کے بارے میں آپ کے انصاف کا کیا پیمانہ ہے؟؟؟۔
جو بم سے مارے وہ دہشت گرد اور جو ایٹم بم سے حملہ کر کے ہر چیز نیست و نابود کر دے وہ امن کا ٹھیکیدار؟؟؟۔
پاکستانی عوام ، میڈیا اور نیٹ فورمز پر آپ کی جھنجھلاہٹ کوئی نئی بات نہیں دراصل سچ سننا بہت حوصلے کا کام ہوتا ہے۔ براہ کرم خاطر جمع رکھیں ابھی تو طالبان سے مذاکرات کا آغاز ہوا ہے۔ یادش بخیر یہ وہی طالبان ہیں ناں جن کو آپ دہشت گرد کہتے ہیں اور آپ ہی کی حکومت ان دہشت گردوں سے مذاکرات کے لئیے اس قدر سٹپٹائی ہوئی ہے کہ ایک عام سا دکاندار خود کو طالبان کا نمائندہ ظاہر کر کے آپ کے اہلکاروں سے لاکھوں ڈالر اینٹھ کر لے گیا۔
میں کہتا ہوں کہ طالبان دہشت گرد ہیں اور ہماری فوج ان کے خلاف کارروائی کر رہی ہے لیکن آپ کی حکومت ان سے بغیر کسی شرط کے مذاکرات کے لئیے بے چین ہے۔
سچ یہی ہے کہ ابھی بہت سارے کڑوے سچ ظاہر ہوں گے اور اس وقت کا سوچئیے جب امریکی فوج یہاں سے جائے گی تو کس کی امید پہ پسپا ہو گی اس کرزئی کی امید پر کہ جس کی حکومت سرکاری محل تک محدود ہے۔ سچ یہ بھی ہے کہ افغانستان کے کھنڈرات میں اپنے وقتوں کی بڑی بڑی طاقتوں کے مقابر موجود ہیں۔ یہ طاقتیں اس وقت تباہ ہوئیں جب انہوں نے انسانوں کی حریت اور حمیت سے پر ڈاکہ ڈالا۔ یہ مقابر ہر طاقت کے لئیے ایک سبق ہیں لیکن افسوس کی طاقت کی مستی میں کسی کو یہ سبق یاد نہیں رہتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
چھوڑیں بھی ساجد بھائی آپ بھی کس کے آگے بین بجا رہے ہیں۔ ان کے آگے جن کو ایبٹ آباد سے لیکر کراچی تک کوئی قبرستان نظر نہیں آیا اور اسامہ کو سمندر میں بہا دیا اور کہہ دیا کہ اسلامی روایات کے مطابق کیا، بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ اسلام میں یہ کہاں لکھا ہوا ہے؟

سچ تو یہی ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے یہ جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔ ایک عقل کا اندھا بھی یہ جانتا ہے کہ یہ سب ٹوپی ڈرامے ہیں اور امریکہ ہی سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
يہ ايک تلخ حقيقت ہے کہ پاکستان ميں گزشتہ چند برسوں کے دوران جتنی تعداد ميں خودکش حملے ہوئے ہيں اور جتنے بڑے پيمانے پر ان دہشت گردوں کی جانب سے قتل وغارت گری کی گئ ہے اس کی بدولت ايک ايسی فضا پيدا ہو گئ ہے جہاں بعض اوقات افسوس کا اظہار اور اس ضمن ميں ادا کيے گئے الفاظ اپنی حرمت کھو کر بے معنی اور روايتی لگنے لگتے ہيں۔ ليکن يہ حقيقت ہميشہ مدنظر رہنی چاہیے کہ ان حملوں ميں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے زندگياں ہميشہ کے ليے گہنا جاتی ہيں۔ ان کے ساتھ اظہار ہمدردی اور ان سفاک کاروائيوں کے خلاف اکٹھے صف آرا ہونے اور اپنے مصمم ارادے اور عزم کا اعادہ کرنا انتہائ ضروری ہے۔ اسی بنياد پر ميں دہشت گردی کے واقعات کے بعد تعزيتی پيغامات مختلف فورمز پر پوسٹ کرتا ہوں۔

اگر آج امریکہ پاکستان کی جان چھوڑ کر واپس چلا جائے تو یقین مانیں یہ خودکش حملے آج ہی رک جائیں گے۔
 

ساجد

محفلین
امریکہ کی اس خطے میں جارحیت سے پہلے خون ریزی کا یہ سلسلہ ہرگز نہ تھا۔ یہ سبز قدم (امن کے ٹھیکیدار) دنیا کے جس خطے میں بھی جاتے ہیں وہاں خون کی وہ ہولی کھیلتے ہیں کہ الاماان الحفیظ اور بڑی ہوشیاری سے مقامی لوگوں میں سے قاتلوں کے گروہوں کی مالی اعانت کر کے کسی فرضی تنظیم کا نام استعمال کرتے ہیں۔
طالبان سے مذاکرات کے لئیے انہوں نے اس جعلی طالبان مذاکرات کار کو ڈالر بھلا کیوں دئیے تھے؟؟؟۔ یہ تو وہ واقعہ ہے کہ جس کی قلعی کھل گئی لیکن جو کچھ" کامیابی" سے انجام پا جاتا ہے اس کے نتائج کس قدر بھیانک ہوتے ہیں اس کا تصور کیجئیے۔ اب یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ پاکستان میں تشدد کا منبع کون ہے۔
 

طالوت

محفلین
اس ميں کوئ شک نہیں کہ بعض رائے دہندگان اب بھی اس تيزی سے غیر مقبول ہوتے ہوئے نظريے کے معترف ہیں اور ابھی تک اسی پرانی دليل پر بضد ہيں کہ پاکستان کو زبردستی کسی اور کی جنگ ميں دھکيل کر استعمال کيا جا رہا ہے۔

دلچسپ امر يہ ہے کہ اس نظريے کو ماننے والے ايک طرف تو يہ دليل ديتے ہیں کہ پاکستان کو اس فضول اور بے معنی جنگ سے لاتعلق ہو جانا چاہیے اور ان کے نزديک ايسا کرنے سے القائدہ کی قوتوں سے جاری جنگ بھی ختم ہو جائے گی۔ يعنی ايک طرف تو وہ اس بات کو تسليم کرنے پر مجبور ہيں کہ القائدہ سے منسلک قوتيں ملک ميں متحرک ہيں اور بے گناہ شہريوں کے قتل کرنے کی ذمہ دار ہیں ليکن وہ پھر بھی اس بات پر بضد ہيں کہ ان عناصر کا معاشرے سے خاتمہ کرنا اور ان مجرموں کو انصاف کی عدالت ميں لانا فضول اور بے معنی ہے۔ اس بات پر صرف حيرت کا اظہار ہی کيا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں پر ان خونی کاروائيوں کے ضمن ميں تنقيد کرنے سے تو گريز کيا جاتا ہے اور اس مسلئے پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے سارا الزام امريکہ پر ڈال ديا جاتا ہے۔

حکومت پاکستان اور افواج پاکستان امريکی پاليسيوں کی وجہ سے ان قوتوں کے خلاف نبرد آزما نہيں ہیں۔ ان دہشت گرد قوتوں کے خلاف جنگ کی وجہ يہ ہے کہ يہ مجرم پاکستانی شہريوں، اعلی حکومتی عہديداروں، فوجی جوانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو روزانہ قتل کر رہے ہیں۔ کراچی ميں نيوی کی بسوں پر حاليہ حملے دہشت گردی کی اس لہر کی تازہ مثال ہے جس نے معاشرے کی بنيادوں کے لیے خطرات پيدا کر ديے ہيں۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں ان دہشت گردوں کے خلاف جاری کاروائيوں کو روک کر اور انھيں اپنے حملے جاری رکھنے کے مواقع فراہم کر کے حکومت پاکستان اپنی رٹ قائم کر سکتی ہے اور ملک ميں پائيدار امن قائم کيا جا سکتا ہے کيونکہ اس فورمز پر کچھ رائے دہندگان کے مطابق تو دہشت گردوں کے خلاف کاروائ فضول اور بے معنی ہے۔

امريکہ نے اس مشکل وقت میں پاکستان کو تنہا نہيں چھوڑا ہے۔چاہے سيلاب سے متاثرين کی بحالی اور آبادکاری کا معاملہ ہو، اقوام متحدہ سميت مختلف عالمی فورمز پر يورپی ممالک کے سامنے پاکستان کے لیے مزيد امداد کی درخواست کا ايشو ہو يا امريکی کانگريس سے کيری لوگر بل کی منظوری جيسا معاملہ جس کے ذريعے اگلے 5 سالوں کے دوران پاکستان کو کئ بلين ڈالرز کی امداد دی جائے گی – امريکی حکومت ہر اس عالمی کوشش میں پيش پيش رہی ہے جس کا مقصد پاکستان ميں استحکام لانا اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحيتوں ميں اضافہ کرنا ہے

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

جی تو چاہتا ہے کہ جواب اسی زبان میں دوں جو امریکہ کی ہے مگر پھر اپنی تربیت اور فورم کے قوانین آڑے آتے ہیں ۔ بہرحال ہاتھی کنکروں سے تو نہیں گرتا البتہ جب دلدل میں پھنس جائے تو زندہ کو بھی گیدڑ نوچ نوچ کر کھا جاتے ہیں اور ہاتھی دلدل میں پھنس چکا ہے بس کہیں گیدڑوں کی کاروائی سے قبل باہر نہ نکل آئے۔
 

سویدا

محفلین
میرے ذہن میں کافی عرصے سے ایک سوال گردش کررہا ہے جو اگرچہ براہ راست اس موضوع سے تعلق نہیں رکھتا لیکن بالواسطہ ضرور اس کا تعلق ہے
چند روز قبل جب مہران بیس میں آپریشن کو جاری ہوئے ابھی دو گھنٹے ہی گذرے تھے کہ جیو نیوز پر غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے حوالے سے پٹی چلی کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی
پھر اس سے قبل جب اور جہاں کہیں بھی کوئی اس قسم کا حادثہ یا واقعہ پیش آیا طالبان نے ذمہ داری قبول کرلی
میرا سوال یہ ہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ کرنے والے واقعی طالبان ہی ہیں
میرا مقصد اس سے طالبان کو بچانا ہرگز نہیں ہے لیکن یہ سوال کافی عرصے سے میرے دماغ میں کلبلا رہا ہے
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کہیں کچھ بھی ہو میں آپ کوئی بھی کسی بھی ذریعہ سے میڈیا کی کسی بھی نیوز ایجنسی کو طالبان کا نام لے کر خبر بھیج دیں اور ہر طرف فورا ہی چرچا ہوجائے طالبان کا
کہ جی طالبان نے ذمہ داری قبول کرلی
اور پھر طالبان پر بات ڈالنے میں ہمارے اداروں کے لیے سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اب اس کے بعد کوئی تحقیق نہیں کوئی تفتیش نہیں تمام ذمہ داری ختم
 

طالوت

محفلین
جی سویدا یہ معاملہ بھی خاصاغور طلب ہے مگر کئی احباب اسے گور طلب سمجھتے ہیں۔

شمشاد بھائی ۔ امریکہ کے جانے سے خود کش حملے نہیں رکے گیں ، یہ گند منحوس جرنیلوں ، امریکہ اور اس کے نمک خواروں اور ریالوں کا مشترکہ پھیلایا ہوا ہے۔ اس میں واضح کمی آئے گی مگر اصل سبب سامراج کی پالیسیوں کا تسلسل ہے جو ہمارے نام نہاد لیڈر اور جرنیل حق نمک ادا کرتے ہوئے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی ، انصاف کی فوری اور مفت فراہمی ، احتساب اور قانون پر سختی سے عملدرآمد ہی اسے روک سکے گا۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور انتہا پسندی کے لئے یہ سب کرنا ضروری ہے ، وگرنہ کل کو اس میں اس انتہا پسندی کی جو رکاوٹ کھڑی ہو گی وہ عوامی ہو گی اور اسے دور کرنے کے لئے ہمیں جس قسم کی آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا آج ہم اس سے ذرہ برابر بھی نہیں گزر رہے۔
یہاں جس کو دیکھیں اس کا قبلہ امریکہ ، سعودی عرب ، ایران یا اپنے مسلک میں ملتا ہے۔ اگر پاکستان اور پاکستانیت کا دعویٰ ہے تو دیگر راگ الاپنا بند کرنے ہوں گے ورنہ حب الوطنی کا منافق چولا اتار کر سب سامنے آ جائیں تاکہ یہ روز روز کی بک بک جھک جھک کا خاتمہ کر کے اپنی اپنی راہ لیں۔
 

ساجد

محفلین
یہاں جس کو دیکھیں اس کا قبلہ امریکہ ، سعودی عرب ، ایران یا اپنے مسلک میں ملتا ہے۔ اگر پاکستان اور پاکستانیت کا دعویٰ ہے تو دیگر راگ الاپنا بند کرنے ہوں گے ورنہ حب الوطنی کا منافق چولا اتار کر سب سامنے آ جائیں تاکہ یہ روز روز کی بک بک جھک جھک کا خاتمہ کر کے اپنی اپنی راہ لیں۔
۔
۔
۔
طالوت ، آپ کے یہ الفاظ ہمارے جملہ مسائل کی جامع تشریح ہیں لیکن ہمارے اندر اپنے ملک کو چھوڑ کر اغیار سے رجوع کا جو خناس سمایا ہوا ہے ہم اس سے جان چھڑانے کا کبھی نہیں سوچتے۔ ہر گروہ اپنے مفادات کے لئیے اپنے "دنیاوی خدا" کی خوشنودی کے لئیے کچھ بھی کرنے پر تیار رہتا ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

میرے ذہن میں کافی عرصے سے ایک سوال گردش کررہا ہے جو اگرچہ براہ راست اس موضوع سے تعلق نہیں رکھتا لیکن بالواسطہ ضرور اس کا تعلق ہے
چند روز قبل جب مہران بیس میں آپریشن کو جاری ہوئے ابھی دو گھنٹے ہی گذرے تھے کہ جیو نیوز پر غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے حوالے سے پٹی چلی کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی
پھر اس سے قبل جب اور جہاں کہیں بھی کوئی اس قسم کا حادثہ یا واقعہ پیش آیا طالبان نے ذمہ داری قبول کرلی
میرا سوال یہ ہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ کرنے والے واقعی طالبان ہی ہیں
میرا مقصد اس سے طالبان کو بچانا ہرگز نہیں ہے لیکن یہ سوال کافی عرصے سے میرے دماغ میں کلبلا رہا ہے
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کہیں کچھ بھی ہو میں آپ کوئی بھی کسی بھی ذریعہ سے میڈیا کی کسی بھی نیوز ایجنسی کو طالبان کا نام لے کر خبر بھیج دیں اور ہر طرف فورا ہی چرچا ہوجائے طالبان کا
کہ جی طالبان نے ذمہ داری قبول کرلی
اور پھر طالبان پر بات ڈالنے میں ہمارے اداروں کے لیے سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اب اس کے بعد کوئی تحقیق نہیں کوئی تفتیش نہیں تمام ذمہ داری ختم

آپ کے تجزيے سے يہ تاثر ابھرتا ہے کہ دہشت گرد تنظيموں اور ان کا انتظامی ڈھانچہ ميڈيا کی اس مبينہ مہم سے بےخبراور جديد دور کے تکنيکی معاملات سے اس حد تک لاعلم اور لاتعلق ہے کہ وہ ان سے منسوب کسی بھی انجان شخص کے ايسے بيان کی ترديد کرنے کی بھی صلاحيت نہيں رکھتے جس ميں ان حملوں کی کھلم کھلا ذمہ داری قبول کی جاتی ہے۔

لگتا ہے کہ آپ پشاور اور ملک کے ديگر شہروں ميں عوامی مقامات پر ان ہزاروں سی ڈيز کی موجودگی سے لاعلم ہيں جن ميں پاکستان کے عوام کے خلاف اپنی "عظيم کاميابيوں" کو امريکہ کے خلاف ايک مقدس جہاد کے پيرائے ميں پيش کيا جاتا ہے۔

ان تنظيموں کی تشہيری صلاحيتوں، فعال اور متحرک کاوشوں اور ميڈيا کے حوالے سے ان کی پہنچ کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ اکتوبر 13 2010 کو پاکستان اليکٹرونک اور ميڈيا ريگوليٹری اتھارٹی (پيمرا) نے 124 ايف ايم ريڈيو اسٹيشنز کے خلاف تاديبی کاروائ کی اور ان کے دفاتر اور سازوسامان کو قبضے ميں لے کر اسے سيل کر ديا۔

پيمرا کی رپورٹ کے مطابق خيبر پختون خواہ کے مختلف شہروں بشمول پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، مردان، بنوں، ڈيرہ اسماعيل خان، کوہاٹ اور لکی مروت ميں غير قانونی ايف ايم ريڈيو اسٹيشنز کے خلاف آپريشن کا آغاز کيا گيا تھا۔

دہشت گرد ان ايف ايم اسٹيشنز کے ذريعے لسانی اور منفی مواد کی تشہير کر رہے تھے۔ پيمرا کی جانب سے ان علاقوں کے پوليس اسٹيشنز ميں ان ايف ايم اسٹيشنز کے خلاف باقاعدہ کيسيز بھی رجسٹرڈ کيے گئے۔

رپورٹ کے مطابق تحريک طالبان کی کالعدم تنظيم کے ريڈيو اسٹيشنز بھی پمرہ کی اس لسٹ ميں شامل تھے۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ اگر کوئ شخص ان تنظيموں کی رضامندی کے بغير ان سے منسوب کر کے کوئ بيان داغ دے تو ان کے پاس ايسے کوئ وسائل يا ميڈيا تک رسائ کے ذرائع نہيں ہيں جن کے ذريعے وہ ان بيانات کا جواب دينے سے قاصر ہوں؟

گزشتہ ہفتے آج ٹی وی کے مقبول پروگرام بولتا پاکستان ميں سينير صحافی نصرت جاويد نے اس طريقہ کار کی تفصيل سے وضاحت کی تھی جس کے مطابق وہ ان تنظيموں کے ترجمان اور نمايندوں سے روابط قائم کرتے ہیں۔ وہ واحد سينير صحافی نہيں ہيں جنھوں نے براہراست ان تنظيموں کے نمايندوں سے گفتگو کی ہے۔

پاکستان کے مختلف اخبارات اور ٹی وی چينلز سے وابستہ بے شمار صحافيوں اور ٹی اينکرز نے ان تنظيموں کے خيالات اور بيانات عوام کے سامنے پيش کيے ہیں۔
يہ ممکن نہيں ہے کہ يہ تمام صحافی، اخبارات اور ٹی وی چينلز بيک وقت ان دہشت گردوں کے عوامی تشخص کو مسخ کرنے کی سی آئ اے کی مبينہ سازش اور مہم کا حصہ بن جائيں۔

اس کے علاوہ اگر آپ ان تنظيموں کے بينرز، پوسٹرز اور تشہيری مواد کا جائزہ لیں اور اس پيغام کو پڑھيں جسے وہ عوام میں برملا پھيلا رہے ہيں تو آپ پر يہ واضح ہو جائے گا کہ وہ ان اقدامات سے مختلف نہيں ہيں جن کی ذمہ داری يہ ميڈيا پر اکثر قبول کرتے رہتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

dxbgraphics

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department


طالبان کی جانب سے اسامہ بن لادن کی موت کے بدلے پاکستان سے انتقام لینے کا عزم
دہشت گرد تنظيم معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے کيليئے کمسن بچوں کو استعمال کرنے سے بھی دريغ نہيں کرے گی۔ آپ اس ويڈيو کو ذرا غور سے ديکھیں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

غور سے دیکھنے کے بعد یہی جان پایا ہوں کہ اس ویڈیو پر کسی انگریز نے اردو ڈبنگ کی ہے اور اس کی باتوں سے ایسا لگتا ہے جیسے نئی نئی اردو سیکھی ہے اور صحیح طریقے سے بولنے کی کوشش کر رہا ہے
 

سویدا

محفلین
غور سے دیکھنے کے بعد یہی جان پایا ہوں کہ اس ویڈیو پر کسی انگریز نے اردو ڈبنگ کی ہے اور اس کی باتوں سے ایسا لگتا ہے جیسے نئی نئی اردو سیکھی ہے اور صحیح طریقے سے بولنے کی کوشش کر رہا ہے
جو کہا جائے اتنا ہی سمجھا کریں اس سے زیادہ نہیں
شاید آپ نے کچھ زیادہ ہی غور سے دیکھ لی :)
ویسے یہ بھی ایک فلم ہی کی ویڈیو ہے یعنی ’’فلمی نوعیت‘‘ کی اور اس فلم کا نام ہے نیو ورلڈ آرڈر
اس فلم کے ٹریلر تو وقتا فوقتا آتے رہتے ہیں مکمل فلم پتہ نہیں کب منظر عام پر آئے گی
شاید جب ہم ہی منظر عام سے غائب ہوجائیں گے تب ! !
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميں اس تجزيے سے اتفاق نہيں کرتا کہ امريکہ دنيا بھر میں نت نئ جنگيں شروع کرنے کا متمنی رہتا ہے۔ ستمبر11 2001 کے حادثے کے بعد بھی امريکہ نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ طالبان حکومت اسامہ بن لادن کو امريکی حکومت کے حوالے کر دے تا کہ اسے انصاف کے کٹہرے ميں لايا جا سکے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دو ماہ ميں 5 وفود بيجھے گئے۔ ليکن تمام تر سفارتی کوششوں کے باوجود طالبان حکومت نے يہ واضح کر ديا کہ وہ دہشت گردوں کی حمايت سے پيچھے نہيں ہٹيں گے۔

11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد يہ واضح نہيں تھا کہ القائدہ کا نيٹ ورک کتنا پھيل چکا ہے اور دنيا ميں کن ممالک ميں ان کے سيل کام کر رہے ہيں۔ القائدہ عالمی برداری کے ليے ايک واضح خطرہ بن کر منظر عام پر آئ تھی اور اس حوالے سے امريکہ اور يورپ سميت تمام مغربی ممالک ميں شديد خدشات تھے۔ طالبان کے صاف انکار کے بعد امريکہ کو کيا کرنا چاہيے تھا؟ کيا القائدہ تنظیم کو طالبان حکومت کے سائے تلے مزيد مضبوط ہونے کے مواقع فراہم کرنا صحيح فيصلہ ہوتا؟

کيا کوئ بھی يہ دعوی کر سکتا ہے کہ اگر اسامہ بن لادن اپنے ان تمام ساتھيوں سميت آج بھی فعال ہوتے جو امريکی اور نيٹو افواج کی اپنے اتحاديوں کے تعاون کے ساتھ کی جانے والی کوششوں کے توسط سے گرفتار يا ہلاک کيے جا چکے ہيں تو دنيا زيادہ محفوظ ہوتی؟

ميں جانتا ہوں کہ پچھلے 7 سالوں ميں دنيا بھر ميں دہشت گردی کے بے شمار واقعات رونما ہوئے ہيں۔ ليکن اگر القائدہ کو افغانستان ميں طالبان حکومت کی پشت پناہی حاصل رہتی تو دہشت گردی کی کاروائيوں ميں کئ گنا اضافہ ہوتا۔

جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے تو امريکہ کے پيغام اور اہداف کی وضاحت میں کوئ ابہام يا شبہہ نہيں ہے۔ ہم اپنے اتحاديوں اور شراکت داروں کے تعاون سے ان دہشت گردوں کا پيچھا جاری رکھيں گے۔ تمام مہذب دنيا اور انفرادی حکومتوں کا يہ حق بھی اور ان پر يہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہريوں کی حفاظت کو يقینی بنائيں۔ يہ جارحيت کی رغبت يا امريکہ کی جانب سے جنگوں کی خواہش ہرگز نہيں ہے۔ پائيدار امن کا قيام ايک عالمی خواہش اور دنيا کی کسی بھی حکومت کا بنيادی نصب العين ہے۔

خون ريزی اور معصوم شہريوں کی ہلاکت کی تمام تر ذمہ داری القائدہ اور اس سے منسلک گروہوں کی ہے جن کے نزديک بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کو اپنے مقاصد کے حصول اور عوام کی اکثريت پر اپنے نظريات مسلط کرنے کی غرض سے استعمال کرنے ميں کوئ مضائقہ نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

طالوت

محفلین
جس قوم و ملک کے نزدیک پانچ لاکھ عراقی بچوں کی اموات صدام حسین کو "سبق" سکھانے کے لئے زیادہ بڑی قیمت نہیں اس کے چار پانچ ہزار شہریوں کی ہلاکت مزید دس لاکھ عراقیوں اور ہزاروں افغانوں کی موت کے مقابلے میں یقینا معمولی نوعیت کی ہے۔ انتہائی معمولی نوعیت کی۔
اور جناب کا جملہ ذرا سی تبدیلی کے ساتھ ۔ ۔ ۔
"خون ريزی اور معصوم شہريوں کی ہلاکت کی تمام تر ذمہ داری امریکہ اور اس سے منسلک ملکوں کی ہے جن کے نزديک بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کو اپنے مقاصد کے حصول اور عوام کی اکثريت پر اپنے نظريات مسلط کرنے کی غرض سے استعمال کرنے ميں کوئ مضائقہ نہيں ہے۔ "
کیا یہ سچ نہیں ۔ سو فیصد ثابت سچ ۔
 

dxbgraphics

محفلین
ميں اس تجزيے سے اتفاق نہيں کرتا کہ امريکہ دنيا بھر میں نت نئ جنگيں شروع کرنے کا متمنی رہتا ہے۔ ستمبر11 2001 کے حادثے کے بعد بھی امريکہ نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ طالبان حکومت اسامہ بن لادن کو امريکی حکومت کے حوالے کر دے تا کہ اسے انصاف کے کٹہرے ميں لايا جا سکے۔

دنیا بھر میں اگر امریکہ جنگوں کا متمنی نہ ہو تو امریکہ سے دفاعی سازو سامان و اسلحہ کون بے وقوف خریدے گا
رہی بات افغان طالبان کی تو طالبان کی حکومت تسلیم شدہ تھی اور انہوں نے اسامہ کے خلاف ثبوت مانگے تھے جس کو امریکہ سرکار نے مسترد کرتے ہوئے اپنی جارحیت کو اشکارہ کرتے ہوئے افغان حکومت پر حملہ کر دیا۔
لیکن آج افغانستان سے باعزت انخلا کا امریکی خواب چکنا چور ہونے کو ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے لئے نت نئے طریقے اختیار کئے جارہے ہیں۔ لیکن انشااللہ افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت ضرور رنگ لائے گی اور امریکہ کو ویت نام سے بھی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ميں جانتا ہوں کہ پچھلے 7سالوں ميں دنيا بھر ميں دہشت گردی کے بے شمار واقعات رونما ہوئے ہیں
امریکہ کے عراق و افغانستان پر حملے کے بعد دنیا بھر میں دہشت گردی کی جو لہر اٹھی ہے وہ امریکی پیداوار ہے وگرنہ 2001 سے ایسی کوئی دہشت گردی کا نام و نشان تک نہیں۔

اس حقیقت سے کوئ انکار نہيں ہے کہ ہم ان بے رحم مجرموں کا تعاقب پوری استقامت اور تندہی سے کر رہے ہيں جو دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بنا کر انھيں قتل کر رہے ہيں۔ يہ ہمارا واضح کردہ ايجنڈا اور ہدف ہے
لیکن اس وقت امریکہ دنیا کا خطرناک ترین دہشت گرد ہے۔ عراق میں دس لاکھ بے گناہ شہریوں، افغانستان میں قریبا پچاس ہزار شہریوں کا قتل عام اس کو ثابت کرتا ہے کہ القاعدہ سے پہلے امریکہ کو اپنی دہشت گردی ختم کرنا ہوگی۔ پاکستان میں ڈرون حملوں میں بے گناہ شہریوں کاذکر اس لئے نہیں کر رہا ہے ہمارے سیاسی لیڈر اس وقت امریکی لونڈوں سے کم نہیں جو اسمبلی کی قرار داد پر عمل درآمد تک نہیں کرواسکتے۔ اور امریکہ کی دہشت گردی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ پاکستان کی اسمبلی کی قرار داد کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔

مام مہذب دنيا اور انفرادی حکومتوں کا يہ حق بھی اور ان پر يہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہريوں کی حفاظت کو يقینی بنائيں
اگر حکومت پاکستان واقعی اس حق و ذمہ دار کو ادا کرے اوراپنے شہریوں کی حفاظت کی خاطر پاکستان سے امریکی سی آئی اے، و دیگر ہزاروں کی تعداد میں موجود دہشت گردوں کو جہاز بھر بھر کر بھیج دے تو یقین مانیئے شہریوں کی ہلاکت و دہشت گردی کے واقعات جن کے تانے بانے ریمنڈ جیسوں اور سی آئی اے سے ملتے ہیں ختم ہوجائیں گے
یہ ہزاروں کی تعداد میں دہشت گرد یہاں پر سی آئی اے کےلئے کیا امور سرانجام دیتے ہیں وہ آشکارہ ہے۔ یقینا روڈ ، سکول، گلیاں، و تعمیرات میں تو کام کرنے سے رہے۔

خون ريزی اور معصوم شہريوں کی ہلاکت کی تمام تر ذمہ داری القائدہ اور اس سے منسلک گروہوں کی ہے
جناب اعداد و شمار سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ القاعدہ نے جتنے قتل نہیں کئے امریکہ نے اس سے سینکڑوں گنا زیادہ قتل کئے۔ صرف عراق ہی میں بے گناہ دس لاکھ شہریوں کی تعداد بھی امریکہ سرکار کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں
 

فرخ

محفلین
میں طالوت اور dxbgraphics کی باتوں میں اضافہ کرتا چلوں کہ اگر دھشت گردی کی تعریف کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ اور اسرائیل سے بڑا دھشت گرد اور کون نظر آتا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟؟

فواد صاحب
آپ بہت سے کڑوی حقیقتوں سے اتفاق نہیں کر سکتے۔۔ روٹی پانی کا معاملہ ہے جناب۔۔ اتنی اچھی نوکری بار بار تو نہیں ملتی نا
 
میرا خیال ہے کہ ایک حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ایک طاقت ہے اور اپنے عوام کو سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ اس مقصد کے حصولکے لییے وہ دنیا کی ہر قوم کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔
ہر صورت میں برتری قائم رکھنا ہی امریکی تہذیب ہے۔ اس تہذیب کی دیوی انسانی خون کی متقاضی ہوتی ہے جو امریکہ بلاتاخیر مسلسل فراہم کرتا ہے۔
 
Top