طالبان کی جانب سے پاکستان سے انتقام لینے کا عزم

طالوت

محفلین
اور شاید امریکی عوام صرف سفید فام ہیں ۔ کیونکہ دیگر لوگوں کا چاہے وہ امریکی ہوں استحصال بھی خوب کرتا ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

آج افغانستان سے باعزت انخلا کا امریکی خواب چکنا چور ہونے کو ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے لئے نت نئے طریقے اختیار کئے جارہے ہیں۔ لیکن انشااللہ افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت ضرور رنگ لائے گی اور امریکہ کو ویت نام سے بھی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آج کل جب کسی سينير امريکی اہلکار کی جانب سے طالبان کی قيادت کے ساتھ کسی امن معاہدے کے امکانات کے بارے ميں کوئ بيان سامنے آتا ہے تو بعض تجزيہ نگار اور رائے دہندگان چٹی پٹی شہ سرخياں اور طويل کالم لکھنا شروع کر ديتے ہيں۔ جو تجزيہ نگار سياسی مفاہمت اور بات چيت کے آپشن کو افغانستان ميں امريکی شکست قرار ديتے ہيں ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکام کی جانب سے تو اس آپشن کا استعمال افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل کيا گيا تھا۔

حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے 911 کے واقعات کے بعد طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا اور دہشت گردوں کو پناہ دينے کی پاليسی کا اعادہ کيا۔

امريکی حکومت نے ہميشہ يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ہمارے فوجی اہداف کی اہميت سے قطع نظر افغانستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ ہمارے مشترکہ مقاصد کی تکميل محض قوت کے استعمال سے ممکن نہيں ہے

طالبان سے سياسی مفاہمت کے حوالے سے امريکی حکومت کا موقف واضح اور مستقل ہے۔ يہ موقف ايک اصول اور ضابطہ کار کے عين مطابق ہے۔ اس ضمن ميں مختلف اشخاص کی انفرادی حيثيت اور گروہوں کی اہميت نہيں ہے۔

امريکہ افغان قيادت کے زير اثر مفاہمت اور بحالی کے ايسے عمل کی حمايت کرتا ہے جس کا مقصد ان عناصر کو دوبارہ معاشرے ميں شامل کرنا ہے جو تشدد کو ترک کريں، القائدہ اور ان سے ملحق گروہوں سے تعلقات کو ختم کريں اور افغان آئين کے تحت زندگی گزارنے کو ترجيح ديں جس ميں افغان مردوں اور عورتوں کے حقوق کا تحفظ شامل ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

dxbgraphics

محفلین
آج کل جب کسی سينير امريکی اہلکار کی جانب سے طالبان کی قيادت کے ساتھ کسی امن معاہدے کے امکانات کے بارے ميں کوئ بيان سامنے آتا ہے تو بعض تجزيہ نگار اور رائے دہندگان چٹی پٹی شہ سرخياں اور طويل کالم لکھنا شروع کر ديتے ہيں۔ جو تجزيہ نگار سياسی مفاہمت اور بات چيت کے آپشن کو افغانستان ميں امريکی شکست قرار ديتے ہيں ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکام کی جانب سے تو اس آپشن کا استعمال افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل کيا گيا تھا۔

حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے 911 کے واقعات کے بعد طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا اور دہشت گردوں کو پناہ دينے کی پاليسی کا اعادہ کيا۔

امريکی حکومت نے ہميشہ يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ہمارے فوجی اہداف کی اہميت سے قطع نظر افغانستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ ہمارے مشترکہ مقاصد کی تکميل محض قوت کے استعمال سے ممکن نہيں ہے

طالبان سے سياسی مفاہمت کے حوالے سے امريکی حکومت کا موقف واضح اور مستقل ہے۔ يہ موقف ايک اصول اور ضابطہ کار کے عين مطابق ہے۔ اس ضمن ميں مختلف اشخاص کی انفرادی حيثيت اور گروہوں کی اہميت نہيں ہے۔

امريکہ افغان قيادت کے زير اثر مفاہمت اور بحالی کے ايسے عمل کی حمايت کرتا ہے جس کا مقصد ان عناصر کو دوبارہ معاشرے ميں شامل کرنا ہے جو تشدد کو ترک کريں، القائدہ اور ان سے ملحق گروہوں سے تعلقات کو ختم کريں اور افغان آئين کے تحت زندگی گزارنے کو ترجيح ديں جس ميں افغان مردوں اور عورتوں کے حقوق کا تحفظ شامل ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

جب مذاکرات جاری تھے تو حملہ کیوں کیا گیا۔ کیا یہ امریکی حکومت کی دوغلی پالیسی نہیں۔ لیکن امریکہ سرکار اپنی بدنامی کے ڈر سے زمینی حقائق تسلیم نہیں کرسکتا زمینی حقائق یہی ہیں کہ طالبان افغانستان میں اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کی حکمت عملی موثر ہے اور یہی وجہ سے کہ مذاکرات کے پروپیگنڈے کئے جارہے ہیں اور حقیقت میں ایسے کوئی مذاکرات نہیں ہوئے۔ اور اس کی طالبان کئی مرتبہ تردید بھی کر چکے ہیں۔اور وہ وقت بھی دور نہیں کہ افغانستان امریکی افواج کے لئے ویت نام سے بھی بدتر ثابت ہوگا۔

9/11 امریکہ و اسرائیل کا رچایا ایک کھیل تھا جو ثبوت کے ساتھ یو ٹیوب پر تجزیوں کی شکل میں محفوظ ہیں۔ جس کا مقصد 9/11 بہانہ ہے۔ افغانستان ٹھکانہ ہے اور پاکستان نشانہ ہے۔اور ظاہر بات ہے کہ پاکستان پر براہ راست حملے کی جرات تو تھی نہیں تو افغانستان میں اسامہ اور القاعدہ کا بہانہ بنایا گیا۔ جب طالبان حکومت نے اسامہ کے خلاف ثبوت مانگے تو ثبوت امریکہ سرکار فراہم تو نہ کر سکتا لیکن اپنی جارحیت کو جاری رکھتے ہوئے افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ اور چونکہ طالبان کی حکومت تسلیم شدہ تھی اور ان ثبوت مانگنا ان کا حق تھا لیکن امریکہ سرکار سے کسی نے ہیروشیما کا نہیں پوچھا تو یہاں کون پوچھنے والا۔

امریکی موقف شہریوں پر بمباری کی صورت میں بہت واضح ہے۔ اور یہی اس کی ناکامی ظاہر کرتی ہے کہ شکست نظر آتی گھبرائی ہوئی فوج کو افغانستان میں شادی کی تقریب بھی دہشت گردوں کا مجمع نظر آتا ہے۔ لیکن ناکامی چھپانے کے لئے میڈیا کے ذریعے دہشت گردوں کی ہلاکتوں کی خبروں کو شائع کروایا جاتا ہے۔ اور اپنی عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ جس دن امریکی عوام کے سامنے فری میسن کے ایجنٹ حکمرانوں کا پردہ کھلے گا لیکن یقینا بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

رہی بات افغان قیادت کے زیر اثر مفاہمت کی تو افغان قیادت ایک کٹھ پتلی حکومت ہے جس کی بیساکھیاں امریکی افواج کا افغانستان میں وجود ہے جس دن امریکہ سرکار بے عزت ہوکر یا باعزت ہوکر یا فرار اختیار کر کے افغانستان سے جائیگا اسی دن افغان حکومت کا وجود بھی ختم ہوجائے گا۔
 

dxbgraphics

محفلین
ایک بات میں بھول گیا۔ وہ یہ کہ افغانستان سے انخلا سے پہلے پاکستان کے ایٹمی اثاثے اڑانا امریکہ کو اسرائیل کا دیا گیا اصل مقصد ہے
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

دنیا بھر میں اگر امریکہ جنگوں کا متمنی نہ ہو تو امریکہ سے دفاعی سازو سامان و اسلحہ کون بے وقوف خریدے گا

دلچسپ امر يہ ہے کہ انھی فورمز پر بعض رائے دہندگان نے انتہائ جذباتی انداز ميں مجھ سے اس دليل کے ساتھ بحث کی ہے کہ امريکہ کے پاس طالبان سے مذاکرات اور اس خطے سے نکلنے کے سوا کوئ چارہ نہيں ہے کيونکہ امريکی کی معيشت تباہ ہو چکی ہے اور ہماری دنيا ميں سوپر پاور کی حيثيت خطرات سے دوچار ہے۔ ليکن آپ کا يہ دعوی ہے کہ امريکہ دانستہ دنيا بھر ميں جنگوں کا آغاز کرتا ہے تا کہ معاشی استحکام حاصل کر سکے۔

اگر امريکہ کی عراق اور افغانستان ميں فوجی کاروائ محض معاشی خوشحالی اور اسلحے کی صنعت کے فروغ کے لیے تھی تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ يہ مبينہ معاشی وسائل اور خزانے کيوں منظرعام پر نہيں آئے؟

کيا آپ ديانت داری کے ساتھ يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ آج امريکہ افغانستان اور عراق ميں فوجی کاروائ کے بعد معاشی فوائد حاصل کر رہا ہے؟ يقينی طور پر نہيں۔

ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی معيشت ترقی کے ليے دفاع کی صنعت پر انحصار نہيں کرتی۔ يہ بھی ياد رہے کہ صرف اسلحہ سازی ہی وہ واحد صنعت نہيں ہے جس ميں امريکہ عالمی درجہ بندی ميں سبقت لیے ہوئے ہے۔ چاہے وہ تعليم ،زرعات، آئ – ٹی ،جہاز سازی يا تفريح کی صنعت ہو، امريکی معيشت کسی ايک صنعت پر مخصوص نہيں ہے۔

يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ امريکہ جنگ يا تشدد سے متاثرہ علاقوں کو معاشی اور سازوسامان پر مبنی امداد مہيا کرنے والوں ممالک ميں سر فہرست ہے۔

اس بات کی کيا منطق ہے کہ امريکہ دانستہ فوجی کاروائيوں اور جنگوں کی ترغيب اورحمايت کرے اور پھر متاثرہ علاقوں کی مدد کے ليے اپنے بيش بہا معاشی اور انسانی وسائل بھی فراہم کرے؟

اعداد وشمار اور عملی حقائق اس تھيوری کو غلط ثابت کرتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

عسکری

معطل
پہلے کون سا کمی کر رکھی تھی ظالمان نے جو اب بدلہ لیں گے ِ جاؤ جو کرنا ہے کر لو موت تمھاری جی-3 کوبرے یا میراج کے ہاتھ لکھی ہے یا ڈرون سے ۔ کہتے ایسے ہیں جیسے پہلے ہمیں فلودہ کھلا رہے تھے اب بدلہ لیں گے ہہہہہہہہہہہہہ
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ایک بات میں بھول گیا۔ وہ یہ کہ افغانستان سے انخلا سے پہلے پاکستان کے ایٹمی اثاثے اڑانا امریکہ کو اسرائیل کا دیا گیا اصل مقصد ہے

امريکہ کے اسرائيل سميت دنيا کے بے شمار ممالک کے ساتھ طويل المدت بنيادوں پر اسٹريجک تعلقات قائم ہیں ليکن ہماری خارجہ پاليسياں اور عالمی تعلقات ان ميں سے کسی کے بھی کنٹرول يا ہدايات کے تابع نہيں ہيں۔ اگر آپ ايک جمہوری رياست ميں پاليسی کی تشکيل کے مراحل سے واقف ہوں تو آپ پر يہ واضح ہو جائے گا کہ اس قسم کے نظام ميں محدود سوچ کا معاملات پر غلبہ حاصل کرنا ممکن نہيں رہتا۔

ہمارے دورس عالمی روابط اور تعلقات کے پائيداری اور ان کی مضبوطی کا تقاضا ہے کہ وسيع بنيادوں پر باہم مفادات اور مشترکہ اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے محدود پيمانے پر موجود خواہشات اور مقاصد کے مقابلے ميں انھی کو ترجيح دی جائے۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو يہ ہمارے اپنے بہترين مفاد ميں ہے کہ ملک استحکام کی جانب گامزن ہو اور خطے ميں معاشی مواقعوں سے مزين ہمارا طويل المدت اتحادی ہو۔ ہمارے تمام اتحاديوں اور خطے ميں تمام فريقين کا مشترکہ مفاد بھی يہی ہے کہ دہشت گردوں گروہوں کا قلع قمع کيا جائے۔

جہاں تک مقبول عام "امريکہ پاکستان کے ايٹمی ہتھياروں پر قبضہ کرنے کے درپے ہے" جيسے الزامات کا سوال ہے تو اس معاملے ميں امريکی حکومت نے واشگاف الفاظ ميں متعدد بار يہ واضح کيا ہے کہ امريکہ کو مکمل اعتماد ہے کہ پاکستان کے ايٹمی ہتھيار عسکريت پسندوں کی جانب سے درپيش خطرات کے باوجود محفوظ ہيں۔

جب کچھ تجزيہ نگار انتہائ جذباتی انداز ميں يہ دليل ديتے ہيں کہ امريکہ پاکستان کو کمزور کر کے اس کے ايٹمی اساسوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو وہ يہ بھول جاتے ہيں کہ جو امر پاکستان کو کمزور کر رہا ہے وہ دہشت گردی کی وہ لہر ہے جس نے پورے ملک کو اپنی لپيٹ ميں لے رکھا ہے۔ نا کہ امريکی حکومت جو کہ اب تک حکومت پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے ليے کئ ملين ڈالرز کی امداد دے چکی ہے

اگر امريکہ پاکستان کا خير خواہ نہيں تو امريکہ پاکستان کو امداد دينے والا سب سے بڑا ملک کيوں ہے؟

پاکستان کو کمزور کرنے کی امريکہ کی مبينہ سازش تمام منطقی اصولوں کے منافی ہے۔ کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کے ليے اگر آپ متضاد سمت ميں کاوشيں کر رہے ہوں تو کبھی بھی کامياب نہيں ہو سکتے۔

جہاں تک پاکستان کے ايٹمی اثاثوں کے حوالے سے شکوک وشبہات، خدشات اور بے بنياد سازشی کہانيوں کا تعلق ہے تو اس ضمن ميں ميڈيا رپورٹس اور قياس آرائيوں سے ہٹ کر اس ايشو پر صدر اوبامہ کا بيان پيش ہے۔

"مجھے اس بات پر اعتماد ہے کہ حکومت پاکستان نے ايٹمی اثاثوں کی حفاظت کا مکمل انتظام کر رکھا ہے۔ يہ ايٹمی اثاثے پاکستان کی ملکيت ہيں۔"


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

عسکری

معطل

اسلحہ بیچنا کوئی اتنا بڑا بزنس نہیں ہے اور میں یہ جانتا ہو سرکار ِ جنگیں کرانا اور پھر اسلحہ لوجسٹکس اور سپلائی بیچنا اصل بزنس ہے ِ اور امریکہ کو دھکیلا جاتا ہے جنگ میں خود امریکی اسلحہ بیچنے والی لوبی کی طرف سے تب ان کو مزہ آتا ہے ِFMSیعینی Foreign Military Sales سے کچھ یتنی کمائی نہیں ہوتی دیکھ لیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں4۔4 ٹریلیینز لگ گئے امریکہ کے جبکہ بڑی بڑی FMS بھی 10 -15 بلیین کی ہوتی ہے جو کہ جھونگا بھی نہیں بنتا ۔ فرق سمجھیں اس کا :grin:
 

ساجد

محفلین
Every gun that is made, every warship launched, every rocket fired signifies, in the final sense, a theft from those who hunger and are not fed, those who are cold and are not clothed. The world in arms is not spending money alone. It is spending the sweat of its laborers, the genius of its scientists, the hopes of its children… This is not a way of life at all, in any true sense. Under the cloud of threatening war, it is humanity hanging from a cross of iron.
درج بالا الفاظ ہیں سابق امریکی صدر آئزن ہاور کے۔ آئزن ہاور نے یہ الفاظ 16 اپریل 1953 میں ادا کئیے تھے۔ آج امریکہ ان الفاظ کی جس طرح دھجیاں بکھیر رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
 

عسکری

معطل
Every gun that is made, every warship launched, every rocket fired signifies, in the final sense, a theft from those who hunger and are not fed, those who are cold and are not clothed. The world in arms is not spending money alone. It is spending the sweat of its laborers, the genius of its scientists, the hopes of its children… This is not a way of life at all, in any true sense. Under the cloud of threatening war, it is humanity hanging from a cross of iron.
درج بالا الفاظ ہیں سابق امریکی صدر آئزن ہاور کے۔ آئزن ہاور نے یہ الفاظ 16 اپریل 1953 میں ادا کئیے تھے۔ آج امریکہ ان الفاظ کی جس طرح دھجیاں بکھیر رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔


آپ بھی نا ساجد بھائی آئزن ہاور خود تو جیسے فرشتہ تھا عمر بھر اس نے جنگیں گی فوجی تھا وہ اور کئی جنگوں اور آپریشنز میں حصہ لے چکا تھا ویتنام پر ایٹمی حملے کا بہت بڑاحامی تھا ۔ اور موت کو قریب دیکھ کر سدھر گیا تھا جیسے نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ۔1915 سے لے کر 1951 تک خود جنگیں کی اس نے نیٹو کا کمانڈر بھی رہا تھا وہ ۔یو ٹو اسی نے استمال کرائے تھے سوویت کے خلاف ہہہہہہہہہہہہہہہ یہی کافی ہے اسے سمجھنے کے لیے ِ

h71005k.jpg


eisenhower_d-day.jpg
 

ساجد

محفلین
جی ہاں یہی بات میں کہنا چاہ رہا تھا لیکن امن کے "علم برداروں" کو کسی ایک نقطے پہ لا کر مگر آپ نے معاملہ جلدی سمجھ لیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جن کی تاریخ منافقت سے عبارت ہے ان پہ کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟۔
 

عسکری

معطل
جی ہاں یہی بات میں کہنا چاہ رہا تھا لیکن امن کے "علم برداروں" کو کسی ایک نقطے پہ لا کر مگر آپ نے معاملہ جلدی سمجھ لیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جن کی تاریخ منافقت سے عبارت ہے ان پہ کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟۔
کس نے کہا اعتبار کرو ؟ انہوں نے جن کو پے پر پوسٹ ملتی ہے ؟ یہ تو بوگ ہین بھائی جان سپیم میل کی طرح۔ انٹرنیشنل افئیرز یا ملٹری افیئرز میں کیسا اعتبار؟ بین القوامی معاملات میں کوئی دوست نہیں ہوتا ترپ کا ایک پتا لازمی چھپا کر رکھنا پڑتا ہے جناب کبھی آپ نے پاکستان امریکہ کی گھری یاری کو پڑھا یا ویڈیوز میں دیکھا ہے؟ اگر نہیں تو یہ دیکھیں



اب یہی امریکہ ہمیں برباد کر رہا ہے ہماری خود مختیاری پر روز بم گرا رہا ہے صرف اسی وجہ سے کہ ہم نے اعتبار کیا تھا دوستی کو ایسے سمجھا جیسے دو انسانوں کی دوستی حالانکہ ایسا کرنا فاش غلطی تھی 1971 میں سوویت کا جارہانہ طرز عمل اسی ہماری نادانی کی وجہ سے تھا کہ میج-21 کا پورا فلیٹ بمعہ پائلٹس اور گراؤنڈ کریو انہوں نے انڈیا کو دے دیا ۔ ہم دوستی کو نادانوں کی طرح سب کچھ نچھاور کرنے تک لے جاتے ہیں حالانکہ انٹرنیشنل معاملات میں یہ خود کشی ہے ۔ ہمیں حد رکھنی نہیں آئی ۔ فوجی یا سول سب نے حدیں پار کی اور اب نتیجہ سامنے ہے۔نا جانے کب عقلمندوں کی حکومت بنے گی اب تک تو مسخرہ پن چل رہا ہے ۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

میرا خیال ہے کہ ایک حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ایک طاقت ہے اور اپنے عوام کو سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ اس مقصد کے حصولکے لییے وہ دنیا کی ہر قوم کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔
ہر صورت میں برتری قائم رکھنا ہی امریکی تہذیب ہے۔ اس تہذیب کی دیوی انسانی خون کی متقاضی ہوتی ہے جو امریکہ بلاتاخیر مسلسل فراہم کرتا ہے۔


اس میں کوئ شک نہيں کہ امريکی شہريوں کی حفاظت اور ان کی فلاح و بہبہود امريکی حکومت کی اہم ذمہ داريوں اور فرائض میں شامل ہے۔ ہماری خارجہ پاليسيوں سے متعلق اہم فيصلے ہماری شہريوں کی حفاظت کے بنيادی اسلوب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کيے جاتے ہیں۔ مگر کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ اس بنيادی مقصد کے حصول کے لیے دنيا میں زيادہ سے زيادہ دشمنوں کی تعداد ميں اضافہ سود مند ہے يا ديگر ممالک کے ساتھ عالمی سطح پر طويل المدت بنيادوں پر ايسے تعلقات استوار کرنا زيادہ فائدہ مند ہے جس سے تمام فريقین کے ليے باہم مفادات پر مبنی يکساں مواقعوں کا حصول ممکن ہو سکے؟

يہ دعوی کرنا کہ امريکی حکومت دنيا کے مفادات کو پس پشت ڈال کر صرف اپنے شہريوں کے مفادات کو ملحوظ رکھتی ہے خود ايک واضح تضاد کو اجاگر کر رہا ہے، کيونکہ حقيقت يہ ہے کہ ہماری شہريوں کی بہتری معاشی صورت حال اور اقتصادی مواقعوں کی دستيابی ہماری اس صلاحيت سے مشروط ہے کہ ہم عالمی سطح پر بہتر اور پائيدار تعلقات کس حد تک استوار کر سکتے ہيں۔ عالمی اقتصاديات کی بنيادی سمجھ بوجھ بھی يہ حقيقت آشکار کر ديتی ہے کہ ہمارا ملک اس وقت تک ترقی نہيں کر سکتا جب تک کہ پوری دنيا ميں بھی معيشت کا پہيہ بہتری کی جانب گامزن نہ ہو۔

گزشتہ برس پاکستان ميں سيلاب کے دوران ہماری بروقت اور اہم مدد ہو، سال 2005 کے زلزلے کے بعد پاکستان کے شہريوں کی بحالی کے لیے ہمارے وسائل کی دستيابی ہو يا پھر کیری لوگر بل کے ذريعے ہمارے ٹيکس دہندگان کے کئ بلين ڈالرز، جو پاکستانی معاشرے ميں درجنوں کے حساب سے جاری ترقياتی منصوبوں کی مد میں امداد کی شکل ميں فراہم کيے جا رہے ہیں – ہمارے اعمال، زمين پر موجود حقائق اور اعداد وشمار دنيا بھر ميں شراکت داری کے فروغ اور ہماری جانب سے زيادہ سے زيادہ مدد فراہم کرنے کے ہمارے مصمم ارادے اور جذبے کی غمازی کرتے ہيں۔

بيرونی امداد، ہمارے عالمی معاملات سے متعلق بجٹ کا اہم ترين جزو تصور کيا جاتا ہے اور امريکہ کی خارجہ پاليسی کا ايک اہم ستون ہے۔

امريکہ کی عالمی مدد کو پانچ مختلف حصوں میں تقسيم کيا جاتا ہے جن ميں باہم ترقياتی منصوبوں کے حوالے سے امداد، سياسی اور سيکورٹی کے ضمن میں امريکی اہداف کے ضمن میں امداد، انسانی بنيادوں پر دی جانے والی امداد، فوجی امداد اور مشترکہ بنيادوں پر دی جانے والی امداد شامل ہے۔

اس وقت امريکہ 150 سے زيادہ ممالک کو کسی نہ کسی مد ميں امداد فراہم کر رہا ہے۔ يہی نہيں بلکہ اس وقت امريکہ کم آمدنی والے ترقی پذير ممالک کو دی جانے والی خوراک سے متعلق امدادی منصوبوں ميں سب سے کليدی کردار ادا کر رہا ہے۔

عالمی گرينز کونسل سے حاصل شدہ اعداد وشمار کے مطابق سال 1995 سے 2008 کے درميانی عرصے میں خوراک کی مجموعی امداد کا 58 فيصد امريکہ کی جانب سے ديا گيا تھا۔

امريکہ کی خوراک کے ضمن میں دی جانے والی امداد کا بڑا حصہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت مہيا کیا جاتا ہے۔ سال 1996 سے سال 2010 کے درميالی عرصے کے دوران ورلڈ فوڈ پروگرام کو دی جانی والی کل امداد کا 48 فيصد امريکہ کی جانب سے مہيا کيا گيا۔

http://www.freeimagehosting.net/uploads/af13d04533.jpg


http://www.freeimagehosting.net/uploads/7c77329320.jpg

اس ميں کوئ شک نہيں کہ دنيا کے کسی بھی ملک کی طرح ہماری تاريخ ميں مسلح جدوجہد سے عبارت ہے۔ ليکن ايک قوم کی حيثيت سے ہم ان تجربات کے نتيجے ميں بہتری کی جانب گامزن ہيں۔ متوازن اور يکساں مواقعوں کی دستيابی کے ضمن ميں ہماری صلاحيت کا اعتراف تو امريکہ کے سخت ترين نقاد بھی کرتے ہيں۔ يہ حقيقت اس بات سے بھی واضح ہے کہ آج بھی امريکہ دنيا بھر ميں تارکين وطن کے لیے سب سے زيادہ پسنديدہ ملک تصور کيا جاتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
Top