Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
میرا خیال ہے کہ ایک حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ایک طاقت ہے اور اپنے عوام کو سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ اس مقصد کے حصولکے لییے وہ دنیا کی ہر قوم کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔
ہر صورت میں برتری قائم رکھنا ہی امریکی تہذیب ہے۔ اس تہذیب کی دیوی انسانی خون کی متقاضی ہوتی ہے جو امریکہ بلاتاخیر مسلسل فراہم کرتا ہے۔
اس میں کوئ شک نہيں کہ امريکی شہريوں کی حفاظت اور ان کی فلاح و بہبہود امريکی حکومت کی اہم ذمہ داريوں اور فرائض میں شامل ہے۔ ہماری خارجہ پاليسيوں سے متعلق اہم فيصلے ہماری شہريوں کی حفاظت کے بنيادی اسلوب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کيے جاتے ہیں۔ مگر کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ اس بنيادی مقصد کے حصول کے لیے دنيا میں زيادہ سے زيادہ دشمنوں کی تعداد ميں اضافہ سود مند ہے يا ديگر ممالک کے ساتھ عالمی سطح پر طويل المدت بنيادوں پر ايسے تعلقات استوار کرنا زيادہ فائدہ مند ہے جس سے تمام فريقین کے ليے باہم مفادات پر مبنی يکساں مواقعوں کا حصول ممکن ہو سکے؟
يہ دعوی کرنا کہ امريکی حکومت دنيا کے مفادات کو پس پشت ڈال کر صرف اپنے شہريوں کے مفادات کو ملحوظ رکھتی ہے خود ايک واضح تضاد کو اجاگر کر رہا ہے، کيونکہ حقيقت يہ ہے کہ ہماری شہريوں کی بہتری معاشی صورت حال اور اقتصادی مواقعوں کی دستيابی ہماری اس صلاحيت سے مشروط ہے کہ ہم عالمی سطح پر بہتر اور پائيدار تعلقات کس حد تک استوار کر سکتے ہيں۔ عالمی اقتصاديات کی بنيادی سمجھ بوجھ بھی يہ حقيقت آشکار کر ديتی ہے کہ ہمارا ملک اس وقت تک ترقی نہيں کر سکتا جب تک کہ پوری دنيا ميں بھی معيشت کا پہيہ بہتری کی جانب گامزن نہ ہو۔
گزشتہ برس پاکستان ميں سيلاب کے دوران ہماری بروقت اور اہم مدد ہو، سال 2005 کے زلزلے کے بعد پاکستان کے شہريوں کی بحالی کے لیے ہمارے وسائل کی دستيابی ہو يا پھر کیری لوگر بل کے ذريعے ہمارے ٹيکس دہندگان کے کئ بلين ڈالرز، جو پاکستانی معاشرے ميں درجنوں کے حساب سے جاری ترقياتی منصوبوں کی مد میں امداد کی شکل ميں فراہم کيے جا رہے ہیں – ہمارے اعمال، زمين پر موجود حقائق اور اعداد وشمار دنيا بھر ميں شراکت داری کے فروغ اور ہماری جانب سے زيادہ سے زيادہ مدد فراہم کرنے کے ہمارے مصمم ارادے اور جذبے کی غمازی کرتے ہيں۔
بيرونی امداد، ہمارے عالمی معاملات سے متعلق بجٹ کا اہم ترين جزو تصور کيا جاتا ہے اور امريکہ کی خارجہ پاليسی کا ايک اہم ستون ہے۔
امريکہ کی عالمی مدد کو پانچ مختلف حصوں میں تقسيم کيا جاتا ہے جن ميں باہم ترقياتی منصوبوں کے حوالے سے امداد، سياسی اور سيکورٹی کے ضمن میں امريکی اہداف کے ضمن میں امداد، انسانی بنيادوں پر دی جانے والی امداد، فوجی امداد اور مشترکہ بنيادوں پر دی جانے والی امداد شامل ہے۔
اس وقت امريکہ 150 سے زيادہ ممالک کو کسی نہ کسی مد ميں امداد فراہم کر رہا ہے۔ يہی نہيں بلکہ اس وقت امريکہ کم آمدنی والے ترقی پذير ممالک کو دی جانے والی خوراک سے متعلق امدادی منصوبوں ميں سب سے کليدی کردار ادا کر رہا ہے۔
عالمی گرينز کونسل سے حاصل شدہ اعداد وشمار کے مطابق سال 1995 سے 2008 کے درميانی عرصے میں خوراک کی مجموعی امداد کا 58 فيصد امريکہ کی جانب سے ديا گيا تھا۔
امريکہ کی خوراک کے ضمن میں دی جانے والی امداد کا بڑا حصہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت مہيا کیا جاتا ہے۔ سال 1996 سے سال 2010 کے درميالی عرصے کے دوران ورلڈ فوڈ پروگرام کو دی جانی والی کل امداد کا 48 فيصد امريکہ کی جانب سے مہيا کيا گيا۔
http://www.freeimagehosting.net/uploads/af13d04533.jpg
http://www.freeimagehosting.net/uploads/7c77329320.jpg
اس ميں کوئ شک نہيں کہ دنيا کے کسی بھی ملک کی طرح ہماری تاريخ ميں مسلح جدوجہد سے عبارت ہے۔ ليکن ايک قوم کی حيثيت سے ہم ان تجربات کے نتيجے ميں بہتری کی جانب گامزن ہيں۔ متوازن اور يکساں مواقعوں کی دستيابی کے ضمن ميں ہماری صلاحيت کا اعتراف تو امريکہ کے سخت ترين نقاد بھی کرتے ہيں۔ يہ حقيقت اس بات سے بھی واضح ہے کہ آج بھی امريکہ دنيا بھر ميں تارکين وطن کے لیے سب سے زيادہ پسنديدہ ملک تصور کيا جاتا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall