اس دستاويزی فلم میں جن بچوں کو دکھايا گيا ہے وہ آج کی تلخ حقیقت کی عکاسی ہے۔ ان بچوں کو ايک منظم طریقے سے بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے کی ترغيب دی جاتی ہے اور ان کے اکثر شکار مسلمان ہی ہوتے ہيں۔ يہ ايک لاحاصل، منفی بلکہ قابل مذمت امر ہے کہ تمام انسانيت کے خلاف ايسے سنگين جرائم کی توجيہہ يا وضاحت کے لیے تين دہائيوں پہلے رونما ہونے والے ان واقعات کی اپنے انداز سے تشريح توڑ مروڑ کر پيش کی جائے جو دنيا ميں رونما ہوئے تھے۔
طالبان 90 کی دہائ ميں دنیا کے سامنے نمودار ہوئے تھے جب امريکہ کی جانب سے افغانستان کے مجاہدين کی مدد ترک کيے ہوئے کئ برس گزر چکے تھے۔ يہ بھی ياد رہے کہ روس کی افواج کے مقابلے ميں افغانستان کے عوام کی مدد کے ليے صرف امريکہ اکيلا ہی سامنے نہيں آيا تھا۔ خارجہ پاليسی کے حوالے سے يہ ايک درست فيصلہ تھا جسے کئ ممالک کی حمايت حاصل تھی۔
افغان عوام کی حمايت ميں کئ ممالک پيش پيش تھے جن ميں سب سے زيادہ مالی امداد امريکہ اور سعودی عرب کی جانب سے آئ تھی۔ اس کے علاوہ برطانيہ، مصر، چين، ايران اور پاکستان بھی اس ميں شامل تھے۔
جہاں تک دہشت گردوں کی موجودہ نسل کا تعلق ہے تو اس کا آغاز طالبان کے زير اثر 1994 ميں ہوا تھا اور طالبان کی تحريک نے اس وقت زور پکڑا تھا جب اقغانستان ميں روسی انخلاء کے بعد مختلف قبائلی گروہوں کی آپس ميں خانہ جنگی کے باعث ملکی نظام تہس نہس ہو کر رہ گيا تھا۔
امريکہ اور ديگر عالمی ممالک کا کبھی بھی يہ مقصد يا خواہش نہيں تھی کہ عالمی منظر نامے پر دہشت گردی کو متعارف کروايا جائے يا اس کی رغبت دی جائے۔ جب آپ اس نظريے کا پرچار کرتے ہيں کہ امريکہ کسی حوالے سے طالبان کو استعمال کر رہا ہے يا موجودہ صورت حال سے فائدہ حاصل کر رہا ہے تو آپ يہ حقيقت فراموش کر ديتے ہيں کہ امريکہ نے عالمی برداری کو دہشت گردی کے عفريت سے محفوظ رکھنے کے ليے بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ہزاروں کی تعداد ميں ہمارے شہری، سينکڑوں فوجی اور اربوں ڈالروں کے ہمارے وسائل پوری دنيا ميں بے گناہ انسانوں کی حفاظت کو يقينی بنانے کے لیے وقف ہو چکے ہيں۔
جو دہشت گرد ان معصوم بچوں کے ذہنوں کی کايا پلٹ رہے ہيں وہ اپنے شکار ميں کسی قسم کا امتياز نہيں برتتے۔ يہ حقيقت بار بار سب پر عياں ہو چکی ہے کہ ان دہشت گردوں کی کاروائيوں کا شکار ہونے والوں ميں اکثريت مسلمانوں اور ان معصوم لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی بھی عسکری جدوجہد کا حصہ نہيں ہوتے۔
دہشت گردی کا جو مسلۂ ہميں درپيش ہے وہ آج کی زندہ حقیقت ہے اور اس سے آج کے زمينی حقائق کے تناظر ميں ہی نبٹنا ہو گا۔ آج سے 30 برس قبل جو ہوا، وہ ايک علمی بحث ہے جس کا ان دہشت گردوں اور ان کو تربيت دينے والوں کے ارادوں، ان کی نيت اور ان کے اعمال سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ ان ميں سے اکثر افغنستان ميں روسی جارحيت کے واقعے کے بعد پيدا ہوئے تھے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
اس دستاويزی فلم میں جن بچوں کو دکھايا گيا ہے وہ آج کی تلخ حقیقت کی عکاسی ہے۔ ان بچوں کو ايک منظم طریقے سے بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے کی ترغيب دی جاتی ہے اور ان کے اکثر شکار مسلمان ہی ہوتے ہيں۔ يہ ايک لاحاصل، منفی بلکہ قابل مذمت امر ہے کہ تمام انسانيت کے خلاف ايسے سنگين جرائم کی توجيہہ يا وضاحت کے لیے تين دہائيوں پہلے رونما ہونے والے ان واقعات کی اپنے انداز سے تشريح توڑ مروڑ کر پيش کی جائے جو دنيا ميں رونما ہوئے تھے۔
طالبان 90 کی دہائ ميں دنیا کے سامنے نمودار ہوئے تھے جب امريکہ کی جانب سے افغانستان کے مجاہدين کی مدد ترک کيے ہوئے کئ برس گزر چکے تھے۔ يہ بھی ياد رہے کہ روس کی افواج کے مقابلے ميں افغانستان کے عوام کی مدد کے ليے صرف امريکہ اکيلا ہی سامنے نہيں آيا تھا۔ خارجہ پاليسی کے حوالے سے يہ ايک درست فيصلہ تھا جسے کئ ممالک کی حمايت حاصل تھی۔
افغان عوام کی حمايت ميں کئ ممالک پيش پيش تھے جن ميں سب سے زيادہ مالی امداد امريکہ اور سعودی عرب کی جانب سے آئ تھی۔ اس کے علاوہ برطانيہ، مصر، چين، ايران اور پاکستان بھی اس ميں شامل تھے۔
جہاں تک دہشت گردوں کی موجودہ نسل کا تعلق ہے تو اس کا آغاز طالبان کے زير اثر 1994 ميں ہوا تھا اور طالبان کی تحريک نے اس وقت زور پکڑا تھا جب اقغانستان ميں روسی انخلاء کے بعد مختلف قبائلی گروہوں کی آپس ميں خانہ جنگی کے باعث ملکی نظام تہس نہس ہو کر رہ گيا تھا۔
امريکہ اور ديگر عالمی ممالک کا کبھی بھی يہ مقصد يا خواہش نہيں تھی کہ عالمی منظر نامے پر دہشت گردی کو متعارف کروايا جائے يا اس کی رغبت دی جائے۔ جب آپ اس نظريے کا پرچار کرتے ہيں کہ امريکہ کسی حوالے سے طالبان کو استعمال کر رہا ہے يا موجودہ صورت حال سے فائدہ حاصل کر رہا ہے تو آپ يہ حقيقت فراموش کر ديتے ہيں کہ امريکہ نے عالمی برداری کو دہشت گردی کے عفريت سے محفوظ رکھنے کے ليے بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ہزاروں کی تعداد ميں ہمارے شہری، سينکڑوں فوجی اور اربوں ڈالروں کے ہمارے وسائل پوری دنيا ميں بے گناہ انسانوں کی حفاظت کو يقينی بنانے کے لیے وقف ہو چکے ہيں۔
جو دہشت گرد ان معصوم بچوں کے ذہنوں کی کايا پلٹ رہے ہيں وہ اپنے شکار ميں کسی قسم کا امتياز نہيں برتتے۔ يہ حقيقت بار بار سب پر عياں ہو چکی ہے کہ ان دہشت گردوں کی کاروائيوں کا شکار ہونے والوں ميں اکثريت مسلمانوں اور ان معصوم لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی بھی عسکری جدوجہد کا حصہ نہيں ہوتے۔
دہشت گردی کا جو مسلۂ ہميں درپيش ہے وہ آج کی زندہ حقیقت ہے اور اس سے آج کے زمينی حقائق کے تناظر ميں ہی نبٹنا ہو گا۔ آج سے 30 برس قبل جو ہوا، وہ ايک علمی بحث ہے جس کا ان دہشت گردوں اور ان کو تربيت دينے والوں کے ارادوں، ان کی نيت اور ان کے اعمال سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ ان ميں سے اکثر افغنستان ميں روسی جارحيت کے واقعے کے بعد پيدا ہوئے تھے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
Child soldiers are subject to ill treatment and sexual exploitation. They are often forced to commit terrible atrocities, and beaten or killed if they try to escape. They are subjected to brutal initiation and punishment rituals, hard labour, cruel training regimes and torture. Many are given drugs and alcohol to agitate them and make it easier to break down their psychological barriers to fighting or committing atrocities.
Some speak of having been forced to witness or commit atrocities, including rape and murder. Others speak of seeing friends and family killed. Susan, sixteen years of age, captures the brutalisation children suffer at the hands of the Lord's Resistance Army (LRA) in northern Uganda in the following testimony:
"One boy tried to escape but he was caught. His hands were tied and then they made us, the other new captives, kill him with a stick. I felt sick. I knew this boy from before; we were from the same village. I refused to do it and they told me they would shoot me. They pointed a gun at me, so I had to do it… I see him in my dreams and he is saying I killed him for nothing, and I am crying."
Many child soldiers report psycho-social disturbances - from nightmares and angry aggression that is difficult to control to strongly anti-social behaviour and substance abuse - both during their involvement in war and after their return to civilian life.
For that reason, according to UNICEF, successful demobilisation and rehabilitation programmes not only involve taking the guns out of children's hands but finding ways to reunite and resettle the children with their families and communities, and provide for their psycho-social care and recovery.
The UN expressed particular concern early in 2003 about "horrendous episodes of terror and deprivation" against child soldiers in eastern DRC, northern Uganda, Liberia, Aceh province in Indonesia, Iraq and the occupied Palestine Territories.
Up to half of the world's child soldiers are in Africa, despite the entry into force - in 1999 - of the African Charter on the Rights and Welfare of the Child, the only regional treaty in the world that prohibits the use of child soldiers. The charter forbids member states to recruit or use children (anyone under 18 years) in a participatory role in any acts of war or internal conflicts.
Recently the UN Office of the Special Representative for Children and Armed Conflict issued a report that stated that Child Soldiers were being used by 30 Countries. Some of them are considered to be Key Allies of the United States.
Which of our Allies Made the List???
We have them below.
Liberia:
According to the Report there is no Known or Reported use of Child Soldiers by either the Liberian Government or the Opposition. That is the Good News. The Bad News is that there Have been Allegations that Groups Affiliated with the Cote D'voire and Guniea are using and recruiting Children. This has not been confirmed by UN Operations in the region however.
Uganda:
This entry was dominated by the Lord's Resistance Army and its activities in Northern Uganda. Several Groups have documented the actions of the LRA. There has been a Ceasefire in Place since August 2006 and the negotiations continue in the Sudanese City of Juba.
Burundi:
The Opposition Group FNL/Agathon Rwasa has used Children for both Combat and Logistical Roles. At this time Hundreds of Children are still reportedly Under Arms and Recruitment of Children is still an ongoing concern despite Ongoing Peace Talks.
طالبان اور القاعدہ امریکی پالیسیوں ہی کے نتیجے کی پیداوار ہیں
یا بالفاظ دیگر طالبان اور القاعدہ کے پیچھے امریکہ ہی کا ہاتھ کار فرما ہے
فواد صاحب آپ 1990 سے پہلے کی بات کر رہے ہیں
حالانکہ طالبان تو 1990 کے بعد وجود میں آئے
جس کو آپ دہشت گردی کہتے ہیں انکے نذدیک یہ آزادی کی تحریک ہے
یاد رکھیئے افغانستان کے طالبان صرف ملاء عمر کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور اگر کسی سے بات ہوسکتی ہے تو صرف ملاء عمر سے ہوسکتی ہے
اور بات بھی صرف اسی وقت ہوگی جب امریکہ افغانستان سے باہر نکلے گا
انکے نذدیک دو طرفہ بات برابری کی بنیاد پر ہونی چاہیئے آپ انکے ملک کے کچھ حصے پر قبضہ کر کے بات چیت کرنا چاہتے ہیں جو شاید ممکن نہیں
اور دوسری بات آپ ہر دوسرے قبیلے کے سردار سے بات چیت کرنے کا ڈرامہ کرتے ہیں اور باہر کہتے ہیں کہ آپ طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں
اور ہر سردار اپنی بات کرتا اور مطالبات رکھتا ہے تو آپ دنیا کو کہتے ہیں کہ طالبان میں کوئی اتحاد نہیں
بھائی صاحب کبھی آپ نے اصل طالبان سے بات بھی کی ہے یا نہیں
حل میں رکاوٹ اسلیئے نظر آتی ہے کیونکہ آپ دہشت گردی کو اپنی امریکی عینک سے دیکھتے ہیں
اور یہ بتانا پسند کرینگے کہ دہشت گردی کی کیا تعریف کرتے ہیں آپ کے امریکی تھنک ٹینک ؟؟
اس تعریف کے بعد تو یہ باآسانی کہا جاسکتا ہے کہامريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے دہشت گردی کی جو تعريف کی ہے اس کے مطابق "دانستہ، طے شدہ اور سياسی مقاصد کے حصول کے لیے مختلف گروہوں اور ايجنٹس کی جانب سے ايسے افراد کو ٹارگٹ کرنا جو مدمقابل نہ ہوں، تا کہ اپنے اثر ورسوخ ميں اضافہ کيا جا سکے"۔