طالبان کے بچے - children of the taliban

arifkarim

معطل
اسمیں طالبان کا کیا قصور ہے۔ جو انکو اسلحہ اور دولت فراہم کر رہے ہیں انکا پیچھے کریں۔
 

arifkarim

معطل
The mujahideen were significantly financed and armed (and are alleged to have been trained) by the United States Central Intelligence Agency (CIA) during the administrations of Carter[6] and Reagan, and also by Saudi Arabia, Pakistan under Zia-ul-Haq, Iran, the People's Republic of China and several Western European countries. Pakistan's secret service, Inter-Services Intelligence (ISI), was used as an intermediary for most of these activities to disguise the sources of support for the resistance. One of the CIA's longest and most expensive covert operations was the supplying of billions of dollars in arms to the Afghan mujahideen militants. The arms included Stinger missiles, shoulder-fired, antiaircraft weapons that they used against Soviet helicopters and that later were in circulation among terrorists who have fired such weapons at commercial airliners. Osama bin Laden is alleged to have been among the recipients of U.S. arms, though this is highly debatable.[7] Between $3–$20 billion in U.S. funds were funneled into the country to train and equip troops with weapons, including Stinger surface-to-air missiles.[8][9]

Under Reagan, U.S. support for the mujahideen evolved into an official U.S. foreign policy, known as the Reagan Doctrine, which included U.S. support for anti-Soviet movements in Afghanistan, Angola, Nicaragua, and elsewhere.[10] Ronald Reagan praised mujahideen as "freedom fighters".
http://en.wikipedia.org/wiki/Mujahideen
مجاہدین و طالبان، امریکہ، پاکستان، ایران، سعودی عرب اور چائنہ کی مشترکہ پیدا وار ہیں۔ جب مذہب کے نام پر روسیوں کیخلاف جہاد پر مائل کرنا “جائز“ ہو گیا تو اب پاکستانی ہو یا امریکی یا کسی اور علاقے کا فرد، کیا فرق پڑتا ہے؟ تمام کافروں اور انکے حمایتیوں کیخلاف جہاز جائز ہے۔ اور چونکہ جہاد ہمارے علما کے مطابق محض بم پھاڑنے تک محدود ہے، یوں 1980 کے دہائی میں بننے والی سی آئی اے پالیسی کے نتائج ہم سب کو بھگتنے ہوں گے۔ انسان غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے۔ لیکن امریکہ غلطیوں کو بھی استعمال کر لیتا ہے۔ جیسا کہ طالبان ، جو کہ اپنی غلطی تھی ،کو آج اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ سازی کیلئے استعمال کر رہا ہے۔
بیوقوف خود مسلمان اور انکی حکومتیں ہیں۔ الزام غیروں کو لگا دیتے ہیں :)
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس دستاويزی فلم میں جن بچوں کو دکھايا گيا ہے وہ آج کی تلخ حقیقت کی عکاسی ہے۔ ان بچوں کو ايک منظم طریقے سے بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے کی ترغيب دی جاتی ہے اور ان کے اکثر شکار مسلمان ہی ہوتے ہيں۔ يہ ايک لاحاصل، منفی بلکہ قابل مذمت امر ہے کہ تمام انسانيت کے خلاف ايسے سنگين جرائم کی توجيہہ يا وضاحت کے لیے تين دہائيوں پہلے رونما ہونے والے ان واقعات کی اپنے انداز سے تشريح توڑ مروڑ کر پيش کی جائے جو دنيا ميں رونما ہوئے تھے۔

طالبان 90 کی دہائ ميں دنیا کے سامنے نمودار ہوئے تھے جب امريکہ کی جانب سے افغانستان کے مجاہدين کی مدد ترک کيے ہوئے کئ برس گزر چکے تھے۔ يہ بھی ياد رہے کہ روس کی افواج کے مقابلے ميں افغانستان کے عوام کی مدد کے ليے صرف امريکہ اکيلا ہی سامنے نہيں آيا تھا۔ خارجہ پاليسی کے حوالے سے يہ ايک درست فيصلہ تھا جسے کئ ممالک کی حمايت حاصل تھی۔

افغان عوام کی حمايت ميں کئ ممالک پيش پيش تھے جن ميں سب سے زيادہ مالی امداد امريکہ اور سعودی عرب کی جانب سے آئ تھی۔ اس کے علاوہ برطانيہ، مصر، چين، ايران اور پاکستان بھی اس ميں شامل تھے۔

جہاں تک دہشت گردوں کی موجودہ نسل کا تعلق ہے تو اس کا آغاز طالبان کے زير اثر 1994 ميں ہوا تھا اور طالبان کی تحريک نے اس وقت زور پکڑا تھا جب اقغانستان ميں روسی انخلاء کے بعد مختلف قبائلی گروہوں کی آپس ميں خانہ جنگی کے باعث ملکی نظام تہس نہس ہو کر رہ گيا تھا۔

امريکہ اور ديگر عالمی ممالک کا کبھی بھی يہ مقصد يا خواہش نہيں تھی کہ عالمی منظر نامے پر دہشت گردی کو متعارف کروايا جائے يا اس کی رغبت دی جائے۔ جب آپ اس نظريے کا پرچار کرتے ہيں کہ امريکہ کسی حوالے سے طالبان کو استعمال کر رہا ہے يا موجودہ صورت حال سے فائدہ حاصل کر رہا ہے تو آپ يہ حقيقت فراموش کر ديتے ہيں کہ امريکہ نے عالمی برداری کو دہشت گردی کے عفريت سے محفوظ رکھنے کے ليے بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ہزاروں کی تعداد ميں ہمارے شہری، سينکڑوں فوجی اور اربوں ڈالروں کے ہمارے وسائل پوری دنيا ميں بے گناہ انسانوں کی حفاظت کو يقينی بنانے کے لیے وقف ہو چکے ہيں۔

جو دہشت گرد ان معصوم بچوں کے ذہنوں کی کايا پلٹ رہے ہيں وہ اپنے شکار ميں کسی قسم کا امتياز نہيں برتتے۔ يہ حقيقت بار بار سب پر عياں ہو چکی ہے کہ ان دہشت گردوں کی کاروائيوں کا شکار ہونے والوں ميں اکثريت مسلمانوں اور ان معصوم لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی بھی عسکری جدوجہد کا حصہ نہيں ہوتے۔

دہشت گردی کا جو مسلۂ ہميں درپيش ہے وہ آج کی زندہ حقیقت ہے اور اس سے آج کے زمينی حقائق کے تناظر ميں ہی نبٹنا ہو گا۔ آج سے 30 برس قبل جو ہوا، وہ ايک علمی بحث ہے جس کا ان دہشت گردوں اور ان کو تربيت دينے والوں کے ارادوں، ان کی نيت اور ان کے اعمال سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ ان ميں سے اکثر افغنستان ميں روسی جارحيت کے واقعے کے بعد پيدا ہوئے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

arifkarim

معطل
اس دستاويزی فلم میں جن بچوں کو دکھايا گيا ہے وہ آج کی تلخ حقیقت کی عکاسی ہے۔ ان بچوں کو ايک منظم طریقے سے بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے کی ترغيب دی جاتی ہے اور ان کے اکثر شکار مسلمان ہی ہوتے ہيں۔ يہ ايک لاحاصل، منفی بلکہ قابل مذمت امر ہے کہ تمام انسانيت کے خلاف ايسے سنگين جرائم کی توجيہہ يا وضاحت کے لیے تين دہائيوں پہلے رونما ہونے والے ان واقعات کی اپنے انداز سے تشريح توڑ مروڑ کر پيش کی جائے جو دنيا ميں رونما ہوئے تھے۔

طالبان 90 کی دہائ ميں دنیا کے سامنے نمودار ہوئے تھے جب امريکہ کی جانب سے افغانستان کے مجاہدين کی مدد ترک کيے ہوئے کئ برس گزر چکے تھے۔ يہ بھی ياد رہے کہ روس کی افواج کے مقابلے ميں افغانستان کے عوام کی مدد کے ليے صرف امريکہ اکيلا ہی سامنے نہيں آيا تھا۔ خارجہ پاليسی کے حوالے سے يہ ايک درست فيصلہ تھا جسے کئ ممالک کی حمايت حاصل تھی۔

افغان عوام کی حمايت ميں کئ ممالک پيش پيش تھے جن ميں سب سے زيادہ مالی امداد امريکہ اور سعودی عرب کی جانب سے آئ تھی۔ اس کے علاوہ برطانيہ، مصر، چين، ايران اور پاکستان بھی اس ميں شامل تھے۔

جہاں تک دہشت گردوں کی موجودہ نسل کا تعلق ہے تو اس کا آغاز طالبان کے زير اثر 1994 ميں ہوا تھا اور طالبان کی تحريک نے اس وقت زور پکڑا تھا جب اقغانستان ميں روسی انخلاء کے بعد مختلف قبائلی گروہوں کی آپس ميں خانہ جنگی کے باعث ملکی نظام تہس نہس ہو کر رہ گيا تھا۔

امريکہ اور ديگر عالمی ممالک کا کبھی بھی يہ مقصد يا خواہش نہيں تھی کہ عالمی منظر نامے پر دہشت گردی کو متعارف کروايا جائے يا اس کی رغبت دی جائے۔ جب آپ اس نظريے کا پرچار کرتے ہيں کہ امريکہ کسی حوالے سے طالبان کو استعمال کر رہا ہے يا موجودہ صورت حال سے فائدہ حاصل کر رہا ہے تو آپ يہ حقيقت فراموش کر ديتے ہيں کہ امريکہ نے عالمی برداری کو دہشت گردی کے عفريت سے محفوظ رکھنے کے ليے بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ہزاروں کی تعداد ميں ہمارے شہری، سينکڑوں فوجی اور اربوں ڈالروں کے ہمارے وسائل پوری دنيا ميں بے گناہ انسانوں کی حفاظت کو يقينی بنانے کے لیے وقف ہو چکے ہيں۔

جو دہشت گرد ان معصوم بچوں کے ذہنوں کی کايا پلٹ رہے ہيں وہ اپنے شکار ميں کسی قسم کا امتياز نہيں برتتے۔ يہ حقيقت بار بار سب پر عياں ہو چکی ہے کہ ان دہشت گردوں کی کاروائيوں کا شکار ہونے والوں ميں اکثريت مسلمانوں اور ان معصوم لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی بھی عسکری جدوجہد کا حصہ نہيں ہوتے۔

دہشت گردی کا جو مسلۂ ہميں درپيش ہے وہ آج کی زندہ حقیقت ہے اور اس سے آج کے زمينی حقائق کے تناظر ميں ہی نبٹنا ہو گا۔ آج سے 30 برس قبل جو ہوا، وہ ايک علمی بحث ہے جس کا ان دہشت گردوں اور ان کو تربيت دينے والوں کے ارادوں، ان کی نيت اور ان کے اعمال سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ ان ميں سے اکثر افغنستان ميں روسی جارحيت کے واقعے کے بعد پيدا ہوئے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

ہاں ہاں۔ امریکہ سے زیادہ شریف اور نیک صفت ملک تو شاید ہی کبھی تاریخ میں آیا ہوگا۔ طالبان برے، روسی برے،، عراقی برے، کورین برے، ویت نامی برے۔ ہر وہ ملک جس سے امریکہ خوش نہیں۔ وہ برے۔ امریکہ زندہ باد۔
طالبان اگر دہشت گرد ہیں۔ برین واشنگ کرتے ہیں۔ تو ذرا امریکی خفیہ انسانی دماغ ریسرچ اور ٹارچر پروگرام: ایم کے الٹرا سے متعلق ہمیں آگاہ کر دیجئے؛
http://en.wikipedia.org/wiki/Project_MKULTRA
 

گرائیں

محفلین
اس دستاويزی فلم میں جن بچوں کو دکھايا گيا ہے وہ آج کی تلخ حقیقت کی عکاسی ہے۔ ان بچوں کو ايک منظم طریقے سے بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے کی ترغيب دی جاتی ہے اور ان کے اکثر شکار مسلمان ہی ہوتے ہيں۔ يہ ايک لاحاصل، منفی بلکہ قابل مذمت امر ہے کہ تمام انسانيت کے خلاف ايسے سنگين جرائم کی توجيہہ يا وضاحت کے لیے تين دہائيوں پہلے رونما ہونے والے ان واقعات کی اپنے انداز سے تشريح توڑ مروڑ کر پيش کی جائے جو دنيا ميں رونما ہوئے تھے۔

طالبان 90 کی دہائ ميں دنیا کے سامنے نمودار ہوئے تھے جب امريکہ کی جانب سے افغانستان کے مجاہدين کی مدد ترک کيے ہوئے کئ برس گزر چکے تھے۔ يہ بھی ياد رہے کہ روس کی افواج کے مقابلے ميں افغانستان کے عوام کی مدد کے ليے صرف امريکہ اکيلا ہی سامنے نہيں آيا تھا۔ خارجہ پاليسی کے حوالے سے يہ ايک درست فيصلہ تھا جسے کئ ممالک کی حمايت حاصل تھی۔

افغان عوام کی حمايت ميں کئ ممالک پيش پيش تھے جن ميں سب سے زيادہ مالی امداد امريکہ اور سعودی عرب کی جانب سے آئ تھی۔ اس کے علاوہ برطانيہ، مصر، چين، ايران اور پاکستان بھی اس ميں شامل تھے۔

جہاں تک دہشت گردوں کی موجودہ نسل کا تعلق ہے تو اس کا آغاز طالبان کے زير اثر 1994 ميں ہوا تھا اور طالبان کی تحريک نے اس وقت زور پکڑا تھا جب اقغانستان ميں روسی انخلاء کے بعد مختلف قبائلی گروہوں کی آپس ميں خانہ جنگی کے باعث ملکی نظام تہس نہس ہو کر رہ گيا تھا۔

امريکہ اور ديگر عالمی ممالک کا کبھی بھی يہ مقصد يا خواہش نہيں تھی کہ عالمی منظر نامے پر دہشت گردی کو متعارف کروايا جائے يا اس کی رغبت دی جائے۔ جب آپ اس نظريے کا پرچار کرتے ہيں کہ امريکہ کسی حوالے سے طالبان کو استعمال کر رہا ہے يا موجودہ صورت حال سے فائدہ حاصل کر رہا ہے تو آپ يہ حقيقت فراموش کر ديتے ہيں کہ امريکہ نے عالمی برداری کو دہشت گردی کے عفريت سے محفوظ رکھنے کے ليے بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ہزاروں کی تعداد ميں ہمارے شہری، سينکڑوں فوجی اور اربوں ڈالروں کے ہمارے وسائل پوری دنيا ميں بے گناہ انسانوں کی حفاظت کو يقينی بنانے کے لیے وقف ہو چکے ہيں۔

جو دہشت گرد ان معصوم بچوں کے ذہنوں کی کايا پلٹ رہے ہيں وہ اپنے شکار ميں کسی قسم کا امتياز نہيں برتتے۔ يہ حقيقت بار بار سب پر عياں ہو چکی ہے کہ ان دہشت گردوں کی کاروائيوں کا شکار ہونے والوں ميں اکثريت مسلمانوں اور ان معصوم لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی بھی عسکری جدوجہد کا حصہ نہيں ہوتے۔

دہشت گردی کا جو مسلۂ ہميں درپيش ہے وہ آج کی زندہ حقیقت ہے اور اس سے آج کے زمينی حقائق کے تناظر ميں ہی نبٹنا ہو گا۔ آج سے 30 برس قبل جو ہوا، وہ ايک علمی بحث ہے جس کا ان دہشت گردوں اور ان کو تربيت دينے والوں کے ارادوں، ان کی نيت اور ان کے اعمال سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ ان ميں سے اکثر افغنستان ميں روسی جارحيت کے واقعے کے بعد پيدا ہوئے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

اس میں کوئی شک نہیں کہ جن بچوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہئے تھی، یا اپنی عمر کے مطابق تتلیوں کے پیچھے بھاگنا چاہئے تھا، ان کو اس بہیمانہ طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، ان کو کیا علم کیا درست کیا غلط ہے۔ ان کو جس ماحول میں رکھا جائے گا وہ ویسی ہی تربیت حاصل کریں گے۔ بچوں کو خنزیر کا گوشت کھلائیں، وہ ساری عمر کھاتے رہیں گے، بچوں کو شراب پینا اچھا عمل بتائیں وہ یہی کریں گے۔

ذمہ داری بڑوں پر آتی ہے۔ رہ گئی بات اس موضوع کی، تو کیا دنیا میں صرف طالبان نے بچوں کو استعمال کیا ہے؟ سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان جب بہت سے افریقی ممالک میں مفادات کی جنگ لڑی جا رہی تھی تو چائلڈ سولجرز وہیں بننا شروع ہوئے تھے۔

آج بھی بر اعظم افریقہ میں جہاں جہاں پر گوریلے کسی حکومت سے لڑ رہے ہیں وہاں یا تو ہیرے کی کانیں ہیں، یا پھر تیل کا ذخیرہ موجود ہے۔ کیا آپ لوگوں کو یاد ہے سابق برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کا بیٹا اور ایک سابق برطانوی میرین ایک افریقی ملک کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں زمبابوے میں گرفتار ہوئے تھے۔ طیارے سے بیس کے قریب اور بھی لوگ گرفتار ہوئے تھے۔ مجھے بدقسمتی سے اب اس ملک کا نام یاد نہیں آ رہا، ورنہ وہ بھی لکھ دیتا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تو ایک بھونڈی کوشش تھی۔ جتنی بھی تحاریک اس وقت چل رہی ہیں، جیسے سوڈان میں دارفر ، کانگو کے گوریلے، لائیبیریا میں تو ہیروں کی کانیں اصل وجہ تھیں، زائرے اور دوسرے وسطی افریقی ممالک سب خانہ جنگی کا شکار اس لئے ہوئے کہ وہاں کے وسائل پر اختیار ہی جھگڑے کی اصل وجہ تھی۔ چونکہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے، لہذا بچوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اور یہ ریت وہاں سے شروع ہوئی اور اب ساری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ سب جانتے ہیں افریقی ملکوں کے قیمتی وسائل " نام نہاد گوریلوں" نے اسلحے کے حصول کے لئے کس کو بیچے ہونگے۔ کم از کم القاعدہ یا طالبان کو تو نہیں۔

فواد صاحب، اپنی حکومت کو اپنے سپروائزر کے ذریعے میرا یہ مشورہ پہنچا دیجئے کہ اپنے گریبان میں پہلے جھانک لے۔ آج بھی افریقہ لہو لہان ہے۔ سوویت یونین یا آج کا روس اور امریکہ آج بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے افریقہ کا لہو بہا رہے ہیں۔ افغانستان میں بھی یونوکول ، تیل اور پائپ لائن نہ ہوتے تو کس نے طالبان کو پوچھنا تھا، اور القاعدہ کس کھیت کی مولی تھی۔

کچھ روابط پیش ہیں ورنہ انٹرنیٹ بھرا پڑا ہے آپ سب روشن خیالوں کے مربی کی کارستانیوں سے::

http://www.irinnews.org/IndepthMain.aspx?IndepthId=24&ReportId=66280
اسی ربط کا ایک اقتباس:
Child soldiers are subject to ill treatment and sexual exploitation. They are often forced to commit terrible atrocities, and beaten or killed if they try to escape. They are subjected to brutal initiation and punishment rituals, hard labour, cruel training regimes and torture. Many are given drugs and alcohol to agitate them and make it easier to break down their psychological barriers to fighting or committing atrocities.

Some speak of having been forced to witness or commit atrocities, including rape and murder. Others speak of seeing friends and family killed. Susan, sixteen years of age, captures the brutalisation children suffer at the hands of the Lord's Resistance Army (LRA) in northern Uganda in the following testimony:

"One boy tried to escape but he was caught. His hands were tied and then they made us, the other new captives, kill him with a stick. I felt sick. I knew this boy from before; we were from the same village. I refused to do it and they told me they would shoot me. They pointed a gun at me, so I had to do it… I see him in my dreams and he is saying I killed him for nothing, and I am crying."

Many child soldiers report psycho-social disturbances - from nightmares and angry aggression that is difficult to control to strongly anti-social behaviour and substance abuse - both during their involvement in war and after their return to civilian life.

For that reason, according to UNICEF, successful demobilisation and rehabilitation programmes not only involve taking the guns out of children's hands but finding ways to reunite and resettle the children with their families and communities, and provide for their psycho-social care and recovery.

The UN expressed particular concern early in 2003 about "horrendous episodes of terror and deprivation" against child soldiers in eastern DRC, northern Uganda, Liberia, Aceh province in Indonesia, Iraq and the occupied Palestine Territories.

Up to half of the world's child soldiers are in Africa, despite the entry into force - in 1999 - of the African Charter on the Rights and Welfare of the Child, the only regional treaty in the world that prohibits the use of child soldiers. The charter forbids member states to recruit or use children (anyone under 18 years) in a participatory role in any acts of war or internal conflicts.

وکی پیڈیا تو "مہذب مغربی معاشرے " کے بارے میں بھی لکھتا ہے۔
سیرا لیون کے چائلڈ سولجرز :: پتہ نہیں ان کو بھی طالبان نے بھرتی کروایا ہوگا:

child%20soldiers%20squad%20Sierra%20Leone.jpg


ان کو فنڈز کون دیتا ہے؟؟

ChildSoldiers-childsoldier.jpg


child_soldiers_africa.jpg


physical-map-africa.gif


اسی تصویر سے متعلق ایک اقتباس
id26.html
سے لیا گیا ہے:۔

Recently the UN Office of the Special Representative for Children and Armed Conflict issued a report that stated that Child Soldiers were being used by 30 Countries. Some of them are considered to be Key Allies of the United States.

Which of our Allies Made the List???

We have them below.

Liberia:
According to the Report there is no Known or Reported use of Child Soldiers by either the Liberian Government or the Opposition. That is the Good News. The Bad News is that there Have been Allegations that Groups Affiliated with the Cote D'voire and Guniea are using and recruiting Children. This has not been confirmed by UN Operations in the region however.

Uganda:
This entry was dominated by the Lord's Resistance Army and its activities in Northern Uganda. Several Groups have documented the actions of the LRA. There has been a Ceasefire in Place since August 2006 and the negotiations continue in the Sudanese City of Juba.

Burundi:
The Opposition Group FNL/Agathon Rwasa has used Children for both Combat and Logistical Roles. At this time Hundreds of Children are still reportedly Under Arms and Recruitment of Children is still an ongoing concern despite Ongoing Peace Talks.

واضح رہے کہ میں کسی طور پر بھی بچوں کو جنگ میں استعمال کرنے کا حامی نہیں۔ چاہے وہ طالبان ہوں یا امریکی دونوں غلط ہیں، مگر طالبان پر تنقید کرنے والے اپنے گریبان میں بھی تو جھانکیں۔ اتنا تو انصاف کریں یہ لوگ بھی۔ افسوس تو یہ ہے کہ طالبان کاہوا کھڑا کر کے پر امن اسلام پسندوں کو ذلیل کرنے کا کوئی بھی موقع ضائے نہیں جانے دیا جاتا مگر اپنی حرکتوں کو خاموشی سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

مجھے امید ہے فواد آپ اپنی حکومت کی اس منافقت کی بھی پرزور الفاظ میں مذمت کریں گے اور جیسے آج کل کیتھولک چرچ جنسی استحصال کے شکار لوگوں کو معاوضے دے رہا ہے ، اسی طرح امریکی حکومت بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال شدہ چائلڈ سولجرز، ہلاک شدگان کے لواحقین اور زندہ رہ جانے والے جسمانی یا ذہنی معذور بچوں کی ری ہے بیلیٹےشن کے لئے کوئی عملی قدم اٹھائے گی۔

شکریہ۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

دو غلط رويے مل کر کسی عمل کو درست يا قابل قبول نہيں بنا سکتے۔ اگر افریقی ممالک ميں بچوں کو فوجيوں کے طور پر استعمال کرنے کا گھناؤنا کام ہوتا ہے تو اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ طالبان کا بچوں کو خودکش حملہ آوروں کے طور پر استعمال جائز ہو جاتا ہے۔ اگر امريکی حکومت طالبان کے زير اثر بچوں پر ہونے والے مظالم کی مذمت کرتی ہے اور ان کے اس عمل کو اجاگر کرتی ہے تو اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ ہم افريقہ ميں اسی عمل کو نظرانداز کر ديتے ہيں يا کسی بھی حوالے سے اس عمل کی حمايت ميں شامل ہوتے ہيں۔

آپ نے افريقہ ميں جاری تنازعوں کے حوالوں سے بچوں کو استعمال کرنے کی کچھ مثاليں اور تصاوير پوسٹ کی ہيں اور يہ تاثر ابھارنے کی کوشش کی ہے کہ جيسے اس سب کا ذمہ دار امريکہ ہے۔

حقیقت يہ ہے کہ امريکی حکومت اس وقت ايسے کئ منصوبوں کی پشت پناہی اور اعانت کر رہی ہے جن کا بنيادی مقصد لاکھوں کی تعداد ميں ايسے بچوں کی مدد کرنا ہے جن کو جبری مشقت کا سامنا ہے، ان ميں زيادہ بدقسمت وہ بچے ہيں جنھيں زبردستی فوجيوں کے طور پر استعمال کيا جاتا ہے۔

سال 1999 ميں اقوام متحدہ کی جانب سے ائ – ايل – او کنونشن 182 کے موقع پر بچوں کو فوجيوں کے طور پر استعمال کرنے کے عمل کو جبری مشقت کی بدترين شکل قرار ديا گيا تھا۔ يہ قرارداد 163 ممالک کے متفقہ فیصلے سے منظور کی گئ تھی جس ميں امريکہ بھی شامل تھا۔ امريکہ کی جانب سے ايسے بچوں کی مدد اور بحالی کے ضمن ميں کی جانے والی کاوشيں مسلسل اور جامع ہيں جن ميں کئ ايجنسيوں کا مشترکہ تعاون شامل ہے۔

اس ضمن ميں امريکی ليبر ڈيپارٹمنٹ نے سال 1995 سے اب تک جبری مشقت کا شکار بچوں کی بحالی کے لیے 595 ملين ڈالرز کی رقم فراہم کی ہے۔ محکمے کے تخمينے کے مطابق ان منصوبوں کے نتيجے ميں لگ بھگ 1 ملين بچوں کی زندگی ميں بہتری لائ گئ ہے۔ سال 2003 ميں امريکی ليبر ڈيپارٹمنٹ نے بچوں کو فوجيوں کے طور پر استعمال کرنے کے مسلئے پر ايک جامع کانفرنس بھی منعقد کی تھی جس کے دوران زمين پر براہراست معاونت کو يقينی بنانے کے لیے کئ اقدامات اور منصوبوں کا اعلان کيا گيا۔

امريکی حکومت کی جانب سے 13 ملين ڈالرز کی لاگت سے ايک گلوبل منصوبے کا بھی اعلان کيا گيا جس کا مقصد ان بچوں کی تعليم، بحالی اور معاشرے ميں انھيں دوبارہ فعال بنانا تھا۔ اس منصوبے ميں 7 ملين ڈالرز لاگت کا وہ پراجيکٹ بھی شامل تھا جس کی فنڈنگ ائ – ايل – او کے بين الاقوامی پروگرام کے ذريعے کی گئ جس کا مقصد افريقہ ميں ايسے بچوں کی مدد کے لیے حکمت عملی وضع کرنا تھا جنھيں ماضی ميں فوجيوں کے طور پر استعمال کيا جاتا رہا ہے۔

اس وقت امريکی ليبر ڈيپارٹمنٹ 19 ايسے منصوبوں کی براہراست سرپرستی کر رہی ہے جن کا مقصد ايسے ممالک ميں بچوں کی حفاظت اور تعلیم کو يقينی بنانا ہے جہاں پر جنگی صورت حال رہی ہے۔ سال 2007 میں امريکی ليبر ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے يوگنڈہ اور کانگو ميں جنگ سے متاثرہ علاقوں ميں بچوں کی بحالی کے لیے دو مزيد منصوبوں کا آغاز کيا گيا۔

يوگنڈہ ميں امريکی ليبر ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے اس ايشو کی جانب توجہ مبذول کروانے اور ايسے بچوں کو تعلیم کے مواقع مہيا کرنے کے لیے جو مہم چلائ گئ اس کے نتيجے ميں قريب 11000 بچوں کو جبری مشقت کی اس سب سے خطرناک قسم سے بچانے ميں مدد ملی۔ اسی منصوبے سے بلاواسطہ مزيد 14725 افراد کو بھی فائدہ پہنچا جو ان سکولوں کو حصہ بنے اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کی ان کاوشوں سے مستفيد ہوئے۔

ريپبلک آف کانگو ميں قريب 12000 نوجوان ان منصوبوں سے مدد حاصل کريں گے جنھيں ايک ايسے علاقے ميں جنگ کی ہولناکيوں سے بچانے ميں مدد ملے گي جو کئ دہائيوں سے مختلف تنازعات کا شکار ہے۔

اسی طرح افراد کی سمگلنگ کے حوالے سے ايک صدارتی کاوش کے تحت 5۔2 ملين ڈالرز کی رقم فراہم کی گئ جس کا مقصد جنگ سے متاثرہ علاقوں میں زمين پر براہراست مدد فراہم کرنا ہے۔ يو – ايس – ايڈ کا ادارہ فوجی بچوں کی بحالی کے ضمن ميں منصوبوں کی فنڈنگز کا سب سے بڑا ذريعہ رہا ہے جس کے تحت سال 2003 سے سال 2006 کے دوران 1875000 ڈالرز کی رقم فراہم کی گئ۔

يہ ان منصوبوں اور وسائل کا ايک سرسری جائزہ ہے جو امريکی حکومت کی جانب سے اس ايشو پر صرف کيے گئے ہيں۔ يہ منصوبے اور اعداد وشمار امريکی حکومت کے اس عزم اور ارادے کو واضح کرتے ہیں جس کے تحت عالمی برادری کے ساتھ مل کر جنگی معرکوں میں بچوں کو فوجيوں کے طور پر استعمال کرنے اور انھيں دہشت گردوں کے طور پر استعمال کرنے کے گھناؤنے جرم کو روکنا مقصود ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

سویدا

محفلین
طالبان اور القاعدہ امریکی پالیسیوں ہی کے نتیجے کی پیداوار ہیں
یا بالفاظ دیگر طالبان اور القاعدہ کے پیچھے امریکہ ہی کا ہاتھ کار فرما ہے
معصوم مسلمان طالبان کے ہاتھوں بھی مر رہے ہیں اور امریکی ڈرون حملوں سے بھی موت کا شکار ہورہے ہیں
کتنی عجیب بات ہے
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

طالبان اور القاعدہ امریکی پالیسیوں ہی کے نتیجے کی پیداوار ہیں
یا بالفاظ دیگر طالبان اور القاعدہ کے پیچھے امریکہ ہی کا ہاتھ کار فرما ہے

آپ نے يہ سطحی رائے اس تاثر اور مقبول عام سوچ کی بنياد پر دی ہے جس کی پاکستانی میڈيا کے کچھ عناصر نے غير جانبدارانہ تحقيق اور تجزيہ کیے بغير دانستہ تشہير کی ہے۔

ماضی ميں 80 کی دہائ ميں امريکہ کے کردار اور پوزيشن کو واضح کرنے کے لیے ميں نے درجنوں سرکاری امريکی رپورٹس، دستاويزات اور ريکارڈ پر موجود بيانات اسی فورم پر پوسٹ کیے ہيں۔ آپ اسی فورم پر وہ دستاويزات پڑھ سکتے ہيں۔

اس ضمن ميں چاہوں گا کہ آپ سينیر پاکستانی اہلکاروں کے بيانات پر بھی غور کريں۔ آج کل ميڈيا پر ان ميں سے اکثر امريکہ کے شديد ترين نقاد گردانے جاتے ہيں۔ ليکن اس کے باوجود يہ نقاد بھی ان واقعات کے تسلسل سے انکاری نہيں ہيں جن کے متعلق ميں نے دستاويزات پوسٹ کی ہيں۔

مثال کے طور پر آئ – ايس – آئ کے سابق افسر خالد خواجہ جو کرنل امام کے نام سے جانے جاتے ہيں اور ماہرين کی نظر ميں انھيں بجا طور پر طالبان کا گاڈ فادر قرار ديا جا سکتا ہے۔ اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں جب ان سے 80 کی دہائ ميں افغان جنگ ميں امريکی کردار کے حوالے سے سوال کيا گيا تو ان کا جواب قابل توجہ تھا۔

اس ويڈيو ميں 4:38 منٹ پر ان کا جواب موجود ہے۔

http://www.siasat.pk/forum/showthread.php?46939-KHALID-KHAWAJA-INTERVIEW..-Must-Watch-all-parts

"وہ ہماری جنگ تھی۔ جرنل ضيا کی يہ بہت بڑی کاميابی تھی کہ انھوں نے امريکہ کو اس جنگ ميں شامل کروايا۔ جب ہم انھيں منانے ميں کامياب ہو گئے تو پھر ہميں امريکہ اور سعودی عرب دونوں سے امداد موصول ہوئ"

ميں نے يہ بات ہميشہ تسليم کی ہے کہ امريکی حکومت نے افغانستان ميں سويت حملے کے بعد مجاہدين کی مکمل حمايت کی تھی۔ اس حقیقت سے کوئ انکار نہيں کر سکتا۔ حالات کے تناظر ميں وہ ايک درست اور منصفانہ فيصلہ تھا۔

کيا آپ کے خيال ميں افغانستان کے لوگوں کی مدد نہ کرنا ايک درست متبادل ہوتا؟

يہاں يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ افغانستان پر سوويت افواج کے حملے کے بعد صرف امريکہ ہی وہ واحد ملک نہيں تھا جس نے امداد مہيا کی تھی بلکہ اس ميں مسلم ممالک جيسے سعودی عرب اور شام سميت ديگر بہت سے ممالک بھی شامل تھے۔ دنيا کے مختلف ممالک سے آنے والی فوجی اور مالی امداد براہ راست پاکستان منتقل کی جاتی رہی۔ اور پھر پاکستان کے توسط سے يہ امداد افغانستان پہنچتی

اس ضمن ميں آئ – ايس – آئ کے سابق چيف جرنل حميد گل کا حاليہ انٹرويو آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہیں۔

http://pakistankakhudahafiz.wordpress.com/2009/06/14/loud-clear-episode-3-hamid-gul/

انھوں نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح کيا کہ يہ پاکستانی افسران ہی تھے جنھوں نے يہ فيصلہ کيا تھا کن گروپوں کو اسلحہ اور ديگر سہوليات سپلائ کرنا ہيں۔ انٹرويو کے دوران انھوں نے يہ تک کہا کہ "ہم نے امريکہ کو استعمال کيا"۔

يہ کسی امريکی اہلکار کا بيان نہيں بلکہ شايد پاکستان ميں امريکہ کے سب سے بڑے نقاد کا ہے۔

اور يہ واحد شخص نہيں ہيں جنھوں نے اس ناقابل ترديد حقيقت کو تسليم کيا ہے۔

برگيڈير محمد يوسف 1983 سے 1987 تک آئ– ايس - آئ ميں افغان بيرو کے انچارج تھے۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب "بير ٹريپ" کے صفحہ 81 پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ افغان جہاد کے دوران جتنی مالی امداد امريکہ نے دی تھی اتنی ہی سعودی عرب نے بھی دی تھی۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ساری امداد افغانستان تک منتقل کرنے کی ذمہ داری پاکستان نے لی تھی۔

کچھ عرصہ قبل اس وقت کے پاکستانی صدر ضياالحق کے صاحبزادے اعجازالحق نے بھی ايک ٹی وی پروگرام ميں يہ تسليم کيا تھا کہ پاکستان افغانستان ميں بيرونی امداد منتقل کرنے ميں واحد کردار تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے اہلکار جو اس تناظے کے اہم کردار تھے، انھوں نے بھی اس حقيقت کی تصديق کی ہے۔

ان حقاۂق کی روشنی ميں افغان جہاد کے دوران دی جانے والی فوجی اور مالی امداد کو موجودہ دور کی دہشت گردی کی وجہ قرار دينا سرار غلط ہے۔ يہ مسخ شدہ تاريخ دانستہ آج کے مخصوص سياسی ايجنڈے کی تکميل کے لیے تخليق کی گئ ہے۔افغان جہاد کے دوران امريکہ اور سعودی عرب سميت ديگر ممالک نے جو فوجی اور مالی امداد کی تھی وہ افغان عوام کو روسی جارحيت سے نجات دلانے کے ليے تھی ۔ اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ القائدہ کی بنياد امريکہ نے نہيں رکھی تھی اس کے ذمہ دار وہ عرب جنگجو تھے جو اس جنگ کا حصہ بنے تھے اور اس بات کا اظہار القائدہ کی ليڈرشپ بارہا کر چکی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

وجی

لائبریرین
فواد صاحب آپ 1990 سے پہلے کی بات کر رہے ہیں
حالانکہ طالبان تو 1990 کے بعد وجود میں آئے اور میں نے خود اسی شخص جرنل حمید گل کو یہ کہتے سنا تھا کہ
طالبان کو ہمارے مدد کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ وہاں سوویت افواج نے وہاں اتنا اسلحہ جمع کر رکھاتھا کہ جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا
اور وہی اسلحہ طالبان کے ہاتھ لگا۔
 

سویدا

محفلین
کرنل خالد خواجہ یا جنرل حمید گل دونوں کے بیان اس تناظر میں دیکھا جائیں کہ دونوں کا تعلق پاکستان آرمی سے رہا ہے۔
ظاہر سی بات ہے یہ پاک فوج اور پاکستان کے لیے اقدامی سوچ رکھیں گے اور کسی طور یہ تسلیم نہیں کریں گے اور نہ ہی انہیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ پاک فوج یا پاکستان امریکی مقاصد کے لیے استعمال ہوا ہے
اور جبکہ یہ دونوں حضرات ان حالات میں پیش پیش رہے ہوں۔
ان دونوں کی فوج سے وفاداری کا تقاضا یہی ہے کہ یہ کہیں کہ ہم نے امریکہ کو استعمال کیا جبکہ یہ بے چارے خود استعمال ہوگئے۔
اور ویسے اس قسم کے کئی بیان اور کتابیں امریکی شہری،صحافی اور سرکاری ارکان کے بھی نیٹ پر موجود ہیں جو آپ کے موقف کے خلاف ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

فواد صاحب آپ 1990 سے پہلے کی بات کر رہے ہیں
حالانکہ طالبان تو 1990 کے بعد وجود میں آئے

ميں نے جو دستاويزات اس فورم پر پوسٹ کی ہيں، ان سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ طالبان اور امريکی انتظاميہ کے درميان سب سے بڑا ايشو اور رکاوٹ دہشت گردی اور خطے ميں امن کی غير يقينی صورت حال کے ضمن ميں طالبان کا کردار رہی ہے۔ طالبان کا انسانی حقوق کے حوالے سے رويہ اور ريکارڈ بھی کسی بھی قسم کے تعلقات کی راہ ميں رکاوٹ تھا۔ طالبان کے قائدين کی جانب سے بے شمار يقين دہانيوں اور وعدوں کے باوجود افغانستان کی سرزمين کو القائدہ سميت کئ دہشت گروں کو امريکہ اور دنيا کے مختلف ممالک کے خلاف دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور براہراست حملے کے ليے استعمال کيا جاتا رہا۔

يہ درست ہے کہ کئ انتظامی چينلز کے ذريعے ملاقاتيں، بات چيت اور پيغام رسانی کا سلسلہ جاری رہا ليکن طالبان کسی بھی موقع پر امريکہ کے کنٹرول ميں نہيں تھے۔ امريکہ نے طالبان کی انتظاميہ پر يہ واضح کر ديا تھا کہ دونوں ممالک کے مابين تعلقات اگلے مرحلے پر صرف اسی صورت میں پہنچ سکتے ہیں جب طالبان کی جانب سے دہشت گردی کی سپورٹ کو ترک کيا جائے گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

وجی

لائبریرین
جس کو آپ دہشت گردی کہتے ہیں انکے نذدیک یہ آزادی کی تحریک ہے
یاد رکھیئے افغانستان کے طالبان صرف ملاء عمر کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور اگر کسی سے بات ہوسکتی ہے تو صرف ملاء عمر سے ہوسکتی ہے
اور بات بھی صرف اسی وقت ہوگی جب امریکہ افغانستان سے باہر نکلے گا
انکے نذدیک دو طرفہ بات برابری کی بنیاد پر ہونی چاہیئے آپ انکے ملک کے کچھ حصے پر قبضہ کر کے بات چیت کرنا چاہتے ہیں جو شاید ممکن نہیں
اور دوسری بات آپ ہر دوسرے قبیلے کے سردار سے بات چیت کرنے کا ڈرامہ کرتے ہیں اور باہر کہتے ہیں کہ آپ طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں
اور ہر سردار اپنی بات کرتا اور مطالبات رکھتا ہے تو آپ دنیا کو کہتے ہیں کہ طالبان میں کوئی اتحاد نہیں
بھائی صاحب کبھی آپ نے اصل طالبان سے بات بھی کی ہے یا نہیں
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

جس کو آپ دہشت گردی کہتے ہیں انکے نذدیک یہ آزادی کی تحریک ہے
یاد رکھیئے افغانستان کے طالبان صرف ملاء عمر کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور اگر کسی سے بات ہوسکتی ہے تو صرف ملاء عمر سے ہوسکتی ہے
اور بات بھی صرف اسی وقت ہوگی جب امریکہ افغانستان سے باہر نکلے گا
انکے نذدیک دو طرفہ بات برابری کی بنیاد پر ہونی چاہیئے آپ انکے ملک کے کچھ حصے پر قبضہ کر کے بات چیت کرنا چاہتے ہیں جو شاید ممکن نہیں
اور دوسری بات آپ ہر دوسرے قبیلے کے سردار سے بات چیت کرنے کا ڈرامہ کرتے ہیں اور باہر کہتے ہیں کہ آپ طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں
اور ہر سردار اپنی بات کرتا اور مطالبات رکھتا ہے تو آپ دنیا کو کہتے ہیں کہ طالبان میں کوئی اتحاد نہیں
بھائی صاحب کبھی آپ نے اصل طالبان سے بات بھی کی ہے یا نہیں



کسی بھی سياسی حل کے ضمن ميں ہميشہ سے سب سے رکاوٹ دہشت گردی کا ايشو رہا ہے۔

ميں يہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ افغانستان ميں فوجی آپريشن سے پہلے خود طالبان کی بھی يہ خواہش تھی کہ امريکہ ان کی حکومت کو تسليم کر لے۔ انھوں نے بہت سے انتظامی چينلز کے توسط سے يہ ايشو اٹھايا۔ ليکن اس ضمن ميں وہ دہشت گردی کے ايشو اور امريکہ کے جائز خدشات دور کرنے کے لیے تيار نہيں تھے۔

امريکی حکومت اپنے اس اصولی موقف پر قائم ہے کہ ايسے کسی فرد يا گروہ کے لیے دروازے کھلے ہيں جو دہشت گردی کو ترک کر دے اور سياسی سسٹم کے اندر معاملات کو طے کرنے کے ليے کوشش کرے۔

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ افغانستان ميں امريکی اور نيٹو افواج کی فوجی کاروائ اور حکمت عملی کسی مخصوص سياسی گروپ يا قوم کے خلاف نہيں ہے۔ يہ مشترکہ عالمی کوشش ان دہشت گردوں اور مجرموں کے خلاف ہے جو روزانہ بے گناہ شہريوں کو دانستہ ہلاک کر رہے ہيں۔ ان کی دہشت اور بربريت کی تازہ مثال

http://edition.cnn.com/2010/WORLD/asiapcf/11/09/afghanistan.school.torched/index.html?hpt=T2

امريکی حکومت نے ہميشہ يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ہمارے فوجی اہداف کی اہميت سے قطع نظر افغانستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ ہمارے مشترکہ مقاصد کی تکميل محض قوت کے استعمال سے ممکن نہيں ہے۔ يہ ايک عالمی چيلنج ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے ليے گلوبل سطح پر کوششيں کی جارہی ہيں۔ اس وقت سب سے اہم ضرورت اور مقصد ايسی حکمت عملی ہے جسے افغان قيادت اور عوام ليڈ کريں۔ اس ضمن میں امريکی حکومت نے نيٹو کے تيارہ کردہ پلان کی حمايت کی ہے جس کے تحت افغان حکومت کے تعاون سے صوبہ وار مشروط بنيادوں پر سيکورٹی کی منتقلی کے عمل کو يقينی بنايا جا سکے۔ اس حکومت عملی کی بنياد افغان عوام کی مدد اور ان کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دينا ہے۔

اس ضمن ميں بہت سے پروگرامز سامنے لائے گئے ہيں جن کے تحت افغانستان مرحلہ وار سيکورٹی کی ذمہ دارياں، بہبود و ترقی اور حکومت سنبھالنے کے ايجنڈے کی جانب پيش رفت کر رہا ہے جو افغانستان کے مستقبل کے ليے انتہائ اہم ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

وجی

لائبریرین
حل میں رکاوٹ اسلیئے نظر آتی ہے کیونکہ آپ دہشت گردی کو اپنی امریکی عینک سے دیکھتے ہیں
اور یہ بتانا پسند کرینگے کہ دہشت گردی کی کیا تعریف کرتے ہیں آپ کے امریکی تھنک ٹینک ؟؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

حل میں رکاوٹ اسلیئے نظر آتی ہے کیونکہ آپ دہشت گردی کو اپنی امریکی عینک سے دیکھتے ہیں
اور یہ بتانا پسند کرینگے کہ دہشت گردی کی کیا تعریف کرتے ہیں آپ کے امریکی تھنک ٹینک ؟؟

امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے دہشت گردی کی جو تعريف کی ہے اس کے مطابق "دانستہ، طے شدہ اور سياسی مقاصد کے حصول کے لیے مختلف گروہوں اور ايجنٹس کی جانب سے ايسے افراد کو ٹارگٹ کرنا جو مدمقابل نہ ہوں، تا کہ اپنے اثر ورسوخ ميں اضافہ کيا جا سکے"۔

ستمبر 15 2001 کو امريکی کانگريس نے دہشت گردی کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کيا تھا۔ سينٹ ميں ايک مشترکہ قرارداد پيش کی گئ تھی جسے متفقہ طور پر سينيٹ ميں اور 420-1 کی اکثريت سے ہاؤس ميں منظور کيا گيا تھا۔ اس قرارداد کے ذريعے امريکی صدر بش کو ان ممالک، تنظيموں، اور افراد کے خلاف تمام ممکنہ اور ضروری طاقت کے استعمال کا اختيار ديا گيا تھا جو امريکہ کے خلاف دہشت گردی کی منصوبہ بندی، معاونت يا براہ راست کاروائ ميں ملوث ہوں۔ اس ميں وہ عناصر بھی شامل تھے جنھوں نے ان دہشت گردوں کو پناہ دی تھی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

وجی

لائبریرین
امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے دہشت گردی کی جو تعريف کی ہے اس کے مطابق "دانستہ، طے شدہ اور سياسی مقاصد کے حصول کے لیے مختلف گروہوں اور ايجنٹس کی جانب سے ايسے افراد کو ٹارگٹ کرنا جو مدمقابل نہ ہوں، تا کہ اپنے اثر ورسوخ ميں اضافہ کيا جا سکے"۔
اس تعریف کے بعد تو یہ باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ
"امریکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے "
 
Top