فہد، یہ مطلع اگر فی البدیہہ کہا ہے تو سنبھال کر رکھنا، اس پر اچھی غزل ہو سکتی ہے.وارفتگئ شوق نے کیا دن دکھائے ہیں
ملنا تھا کس سے اور کسے مل کے آئے ہیں
شکریہ راحل بھائی۔میرے سارے ہی شعر فی البدیہہ ہیں، میں نے اس لڑی سے پہلے کبھی کوئی شعر نہیں کہا تھا۔فہد، یہ مطلع اگر فی البدیہہ کہا ہے تو سنبھال کر رکھنا، اس پر اچھی غزل ہو سکتی ہے.
نادیدنی تھی دوستوں کی کج ادائیاںیوں بھی اکثر کئی اشعار سے بن جاتے ہیں
کئی غصے سے کئی پیار سے بن جاتے ہیں
نادیدنی تھی دوستوں کی کج ادائیاں
ہم بزمِ دوستاں سے ابھی اٹھ کے آئے ہیں
نے کج ادائیاں تھیں نہ یاروں کی بے رخینادیدنی تھی دوستوں کی کج ادائیاں
ہم بزمِ دوستاں سے ابھی اٹھ کے آئے ہیں
لوٹا مرے یاروں نے یوں ہر بار مجھی کونے کج ادائیاں تھیں نہ یاروں کی بے رخی
ہم بزم سے اٹھے تھے کہ آنے لگا تھا بل
یوں ہاتھ اپنا سب ہی بڑھاتے ہیں جیب تکبل کی خبر پہ کیوں ہیں سبھی بلبلا اٹھے
کیا مالِ مفت سوچ کے دعوت اڑائی تھی
نیا موضوع سخن ایجاد کیا جائےیوں ہاتھ اپنا سب ہی بڑھاتے ہیں جیب تک
لیکن جو بل بڑا ہو تو لاچار کیا کریں
میں کہ رات جو بھی غزل کہوں، اسے لوگ اس کی ادا کہیںیوں بدل لیتے ہیں اپنی بات ہم
یاد کر لیتے ہیں سُر کی رات ہم
یہ رات اپنا خراج لے گی، ضرور لے گیمیں کہ رات جو بھی غزل کہوں، اسے لوگ اس کی ادا کہیں
جسے شہر کہتا ہے پارسا، مرے کتنے شعر چرائے گی؟
واہ، ذوقافیتین! ویسے خراج اور بیاج کا قافیہ خوب ملایا ہے آپ نےیہ رات اپنا خراج لے گی، ضرور لے گی
یہ رت جگوں کا بیاج لے گی، حضور لے گی
یکسو ہوں بظاہر بکھرا ہوا ہوں لیکنیہ رات اپنا خراج لے گی، ضرور لے گی
یہ رت جگوں کا بیاج لے گی، حضور لے گی
نہیں سمٹتا تصور میں تیرا بکھرنا مجھ سے
بکھرا تو سمٹ جائے پر ٹوٹے کو جوڑوں کیسے