اکمل زیدی
محفلین
نہیں ہے کوئی بھی پارسا یہاں پریوں تو اشرف ہوں مخلوق میں مگر خطا کار ہوں
میں ہی تائب ہوں اور میں ہی گنہگار ہوں
دعا کیجیے کہ ہو سب کی خیر یارب
نہیں ہے کوئی بھی پارسا یہاں پریوں تو اشرف ہوں مخلوق میں مگر خطا کار ہوں
میں ہی تائب ہوں اور میں ہی گنہگار ہوں
آمیننہیں ہے کوئی بھی پارسا یہاں پر
دعا کیجیے کہ ہو سب کی خیر یارب
بخش دے اپنے کرم کے نام پرنہیں ہے کوئی بھی پارسا یہاں پر
دعا کیجیے کہ ہو سب کی خیر یارب
یوں بکھرے ہیں سبھی رنگ قوسِ قزح کےرنگ تصویر میں بھر کر دیکھا
پر وہ بے رنگ اداسی نہ گئی
یار تم شعر کیوں نہیں کہتےیہ بحر میں آگئے ہیں لیکن
رنگ فع باندھا جا سکتا ہے کیا؟
یوں بکھرے ہیں سارے رنگ دھنک کے
بچپن کی کوئی ہنسی ہو جیسے
یہ اور بات کہ موزوں مری طبیعت ہےیار تم شعر کیوں نہیں کہتے
طبع موزوں تو لے کے آئے ہو!
'رنگ' فع باندھنا غلط ہی ہے
اس کو کیا رگ یا رن بھی پڑھتے ہو
یہ اور بات ہے کہ دل اس پہ آگیایہ اور بات کہ موزوں مری طبیعت ہے
مگر یہ شاعری تو ایک کارِ دقت ہے
یہ دل جو درد کا مسکن بنا ہےنگاہوں ہی نگاہوں میں شرارت ہوتی جاتی ہے
دلوں میں درد اٹھتا ہے محبت ہوتی جاتی ہے
ہائے ہائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ دل جو درد کا مسکن بنا ہے
نگاہوں کی شرارت سے بنا ہے
یہاں رخصت جو پائی قافیہ پیمائی کی ہےیہ دل جو درد کا مسکن بنا ہے
نگاہوں کی شرارت سے بنا ہے
یوں تو نہیں اجازتیں بے قافیہ ہو شعریہاں رخصت جو پائی قافیہ پیمائی کی ہے
اجازت مرحمت کیا اس کی فرمائی گئی ہے