آپ کی باقی ساری باتوں سے تو میں بالکل متفق ہوں۔۔۔ بلکہ آپ نے میرے منہ کی باتیں چھین لی ہیں۔
لیکن!!!!!!!!!!!!!
آپ کی یہ بولڈ شدہ عبارتیں آپس میں ٹکرا نہیں رہیں کیا؟؟؟
جب پہلے کہ چکے کہ حیض یا حمل میں تھی اور طلاق دینے سے قرآن کے قانون کی قانون شکنی ہوئی ہے۔۔۔ پس قانون شکنی والے کام سے اجتناب کرنا چاہیے یعنی ایسی حالت میں طلاق نہیں دینا چاہیے۔ ۔ ۔ پس حیض میں طلاق نہیں ہوتی والی بات بالکل غلط کیسے ہو گئی؟؟؟
ہاں البتہ حالت حمل میں ظاہرا طلاق دیا جا سکتا ہے۔۔۔ ۔
واللہ اعلم بالصواب
میں اپنی بات ذرا اور تفصیل سے بیان کرتا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق میں قرآن مجید میں طلاق کا پورا قانون بیان کیا ہے ۔ اس قانون پر اگر عمل ہو تو کوئی پیچیدگی نہیں باقی رہتی ۔ پیچیدگی وہاں پیدا ہوتی ہے ۔ جب آپ قرآن کے قانون سے انحراف کرتے ہیں ۔ ایسی صورت میں اب کیا کرنا چاہیئے ۔ اس پر بحث کی جاسکتی ہے ۔ مثال کے طور پر میری ہی بات کو لے لیں ۔ جسے آپ نے کوٹ کیا ہے ۔ ایک شخص ، حیض یا حمل کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے ۔ ظاہر ہے اس شخص سے قرآن کے قانون کی خلاف ورزی ہوئی ۔ اس صورت میں اب کیا قدم اٹھایا جاسکتا ہے ۔ سوائے اس کے کہ آپ عدالت ( قاضی ) میں جائیں ۔ قاضی یا عدالت آپ کی دی جانے والی طلاق کے محرکات دیکھے گا ۔ صورتحال کا جائزہ لے گا ۔ گواہ موجود ہیں تو گواہوں سے بیان بھی لے گا ۔ یہ بلکل وہی عمل ہوگا جیسا کہ عموماً عدالتی معاملات میں ہوتا ہے ۔ سب سے اہم بیان اُس شخص کا ہے ۔ جس نے طلاق دی ۔ اگر وہ شخص کہہ دیتا ہے کہ اس نے طلاق اپنے پورے ارادے اور عزم کی بنیاد پر دی ۔ اس کا اب ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ اس سلسلے کو مذید دراز کرے ۔ تو اب یہ قاضی یا عدالت پر منحصر ہے کہ واقعہ کے صحیح تناظر میں طلاق کا جائزہ لے اور اگر وہ سمجھتی ہے کہ حیض یا حمل کے بعد بھی یہ شخص طلاق دینے پربضد ہے تو وہ اس طلاق کا اطلاق کر سکتی ہے ۔ کیونکہ قرآن کے قانون کی خلاف ورزی کے بعد آپ کا معاملہ وہاں سے نکل گیا ۔ اب یہ عدالت کا کام ہے کہ طلاق کے صحیح محرکات کو سمجھنے کے بعد وہ کیا فیصلہ کرتی ہے ۔
اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھیں کہ اگر آپ اپنی گاڑی میں گھر سے باہر نکلتے ہیں مگر اپنے ساتھ ڈرائیونگ لائسنس لے جانا بھو ل جاتے ہیں ۔ تو آپ سے ایک قانون کی خلاف ورزی ہوئی ۔ اب اگر آپ کو کوئی پولیس والا روک لیتا ہے اور ڈرائیونگ لائسنس دیکھنے کا تقاضا کرتا ہے تو آپ کیا کریں گے ۔ ؟ آپ کچھ نہیں کرسکتے ۔۔۔۔ سوائے اس کے کہ آپ درخواست کریں کہ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنا لائسنس گھر سے لے آؤں ۔ آپ سے ایک قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اب یہ پولیس والے ( عدالت ) پر منحصر ہے کہ آیا وہ آپ کو اجازت دیتا ہے کہ آپ جائیں اور لائسنس لے آئیں ۔ یا پھر وہ آپ کا چالان کردیتا ہے ۔
بلکل اسی طرح جب آپ قرآن کے طلاق کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ تو معاملہ آپ کے ہاتھ میں نہیں رہتا اور یہ عدالت میں چلا جاتا ہے ۔ اب یہ عدالت کاکام ہے کہ وہ طلاق کا اطلاق کرتی ہے یا نہیں ۔ یعنی میں یہ کہنے کی کوشش کررہا تھا کہ جب آپ نے حیض یا حمل کی حالت میں طلاق دیدی تو قرآن کے قانون کی خلادف ورزی ہوگئی ۔ یعنی یہ طلاق دینی نہیں چاہیئے تھی مگر دیدی گئی ۔ اب یہ طلاق قابل عمل ہے کہ نہیں ۔ اس بات کے فیصلے کا اختیار اب آپ کے پاس نہیں رہا ۔ یہ معاملہ عدالت میں جائیگا ۔ اور وہاں اصولی بنیاد پر یہ مقدمہ چلے گا ۔ اگر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ فریق نے عزم کیساتھ طلاق دی ہے تو عدالت اس طلاق کو نافذ کرسکتی ہے ۔ اگر فریق عدالت مطمئن نہ کرسکا یا اس نے اس بات پر عدالت کو باور کرلیا کہ وہ طلاق نہیں دینا چاہتا تھا تو عدالت کوئی دوسرا فیصلہ بھی کرسکتی ہے ۔
یعنی اب حیض اور حمل والی شرط کا اطلاق یہاں ختم ہوگیا کہ یہ شق پہلے ہی توڑی جاچکی ہے۔ اسی اصول پر میں نے کہا کہ " قرآن میں ایک قانون موجود ہے ۔ آپ اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ خلاف ورزی کیوجہ سے کسی کی دی جانے والی طلاق کا نفاذ نہیں ہوسکتا ۔لہذا اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ "حیض یا حمل کی حالت میں طلاق " ہو ہی " نہیں سکتی ۔ کیونکہ خلاف ورزی پر عدالت محرکات دیکھ کر اس کو نافذ بھی کرسکتی ہے ۔
اسی بنیاد پر میں نے کہا کہ "
مگر یہ کہنا کہ حیض اور حمل میں طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ بلکل غلط ہے ۔"