طلاق کا مسئلہ: برطانیہ میں عورتیں حلالہ کے نام پر عصمت لٹا بیٹھتی ہیں

arifkarim

معطل
بھائی جی۔۔۔ یہ مسائل اختلافی ہیں۔۔۔ اور یقینا جس طرح سے احادیث ہم تک پہنچی ہیں اسی طرح سے فقہی اختلاف فطری چیز ہے۔۔۔
اور ہر کسی کو اپنے فقہ پر عمل کرنے کا بھرپور اختیار حاصل ہے۔۔۔ ۔ لہذا کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہونا چاہیے۔۔
فقہ جعفری میں ، جیسے کہ پہلے ذکر ہوا، طلاق دینے کے لیے قصد اور ارادہ، دو عادل گواہ اور عربی صیغہ شرط ہے۔۔۔ اور اس کے علاوہ عورت طہر مواقع میں نہ ہو۔۔۔ یعنی عورت کو صرف اس وقت طلاق دیا جا سکتا ہے جب عادت کے ایام سے گزر کے پاک ہوچکی ہو اور شوہر نے دوبارہ اس سے مواقعت نہ کی ہو۔

ان کڑی شرائط کی موجودگی میں ان تمام بحثوں کا موضوع ہی ختم ہوجاتا ہے۔
فقہ حنفیہ اس بارہ میں کیا کہتا ہے کیونکہ زیادہ تر سنی اسی کو مانتے ہیں؟
 

قیصرانی

لائبریرین
اس خبر میں ایک بھی ایسے ادارے، مدرسے یا مسجد کا نام نہیں دیا گیا جہاں یہ کام ہوتا ہو۔ ساری خبر سنی سنائی پر مبنی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ مسئلہ یعنی حلالہ تو موجود ہے لیکن اسے فیچر میں محض سنسنی خیز بنانے کی خاطر بہت زیادہ اچھالا گیا ہے۔ اسی طرح اوپر ایک فتویٰ کوٹ کیا گیا ہے جس میں مفتی کا نام تک نہیں دیا گیا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ جب کوئی فتویٰ کوٹ کیا جائے تو اس کا حوالہ ساتھ ہونا چاہیئے کیونکہ برطانوی مسلمانوں کے ہزاروں گھر برباد ہونے کا ذکر موجود ہے جبکہ نام ایک بھی موجود نہیں (بے شک مظلومین کے نام نہ ہوں لیکن اداروں یا ان نام نہاد مولویوں کے نام تو موجود ہوتے) اس سے اس سروے یا فیچر کی افادیت کا اندازہ ہو جاتا ہے
 

arifkarim

معطل
اس خبر میں ایک بھی ایسے ادارے، مدرسے یا مسجد کا نام نہیں دیا گیا جہاں یہ کام ہوتا ہو۔ ساری خبر سنی سنائی پر مبنی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ مسئلہ یعنی حلالہ تو موجود ہے لیکن اسے فیچر میں محض سنسنی خیز بنانے کی خاطر بہت زیادہ اچھالا گیا ہے۔ اسی طرح اوپر ایک فتویٰ کوٹ کیا گیا ہے جس میں مفتی کا نام تک نہیں دیا گیا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ جب کوئی فتویٰ کوٹ کیا جائے تو اس کا حوالہ ساتھ ہونا چاہیئے کیونکہ برطانوی مسلمانوں کے ہزاروں گھر برباد ہونے کا ذکر موجود ہے جبکہ نام ایک بھی موجود نہیں (بے شک مظلومین کے نام نہ ہوں لیکن اداروں یا ان نام نہاد مولویوں کے نام تو موجود ہوتے) اس سے اس سروے یا فیچر کی افادیت کا اندازہ ہو جاتا ہے
کوئی نام اسلئے نہیں دیا گیا کہ مسلم کمیونیٹی کی مزید بدنامی ہوگی۔ جو بھی کیسز سامنےآئے ہیں وہ بے نامی کی شرط پر آئے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
میری پوسٹ میں آخری سے پہلے والی سطر میں بریکٹ والی عبارت پڑھی؟
تو جناب یہ نام نہاد مولوی بھی تو اسی برطانوی مسلم کمیونیٹی کا حصہ ہیں۔ نام دیتے ہی یہ برطانوی انکے پیچھے لگ جاتے اور میڈیا کا تو آپکو پتا ہی ہے کہ کتنا سنسنی انگیز ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ کی باقی ساری باتوں سے تو میں بالکل متفق ہوں۔۔۔ بلکہ آپ نے میرے منہ کی باتیں چھین لی ہیں۔
لیکن!!!!!!!!!!!!!
آپ کی یہ بولڈ شدہ عبارتیں آپس میں ٹکرا نہیں رہیں کیا؟؟؟
جب پہلے کہ چکے کہ حیض یا حمل میں تھی اور طلاق دینے سے قرآن کے قانون کی قانون شکنی ہوئی ہے۔۔۔ پس قانون شکنی والے کام سے اجتناب کرنا چاہیے یعنی ایسی حالت میں طلاق نہیں دینا چاہیے۔ ۔ ۔ پس حیض میں طلاق نہیں ہوتی والی بات بالکل غلط کیسے ہو گئی؟؟؟
ہاں البتہ حالت حمل میں ظاہرا طلاق دیا جا سکتا ہے۔۔۔ ۔
واللہ اعلم بالصواب
میں اپنی بات ذرا اور تفصیل سے بیان کرتا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق میں قرآن مجید میں طلاق کا پورا قانون بیان کیا ہے ۔ اس قانون پر اگر عمل ہو تو کوئی پیچیدگی نہیں باقی رہتی ۔ پیچیدگی وہاں پیدا ہوتی ہے ۔ جب آپ قرآن کے قانون سے انحراف کرتے ہیں ۔ ایسی صورت میں اب کیا کرنا چاہیئے ۔ اس پر بحث کی جاسکتی ہے ۔ مثال کے طور پر میری ہی بات کو لے لیں ۔ جسے آپ نے کوٹ کیا ہے ۔ ایک شخص ، حیض یا حمل کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے ۔ ظاہر ہے اس شخص سے قرآن کے قانون کی خلاف ورزی ہوئی ۔ اس صورت میں اب کیا قدم اٹھایا جاسکتا ہے ۔ سوائے اس کے کہ آپ عدالت ( قاضی ) میں جائیں ۔ قاضی یا عدالت آپ کی دی جانے والی طلاق کے محرکات دیکھے گا ۔ صورتحال کا جائزہ لے گا ۔ گواہ موجود ہیں تو گواہوں سے بیان بھی لے گا ۔ یہ بلکل وہی عمل ہوگا جیسا کہ عموماً عدالتی معاملات میں ہوتا ہے ۔ سب سے اہم بیان اُس شخص کا ہے ۔ جس نے طلاق دی ۔ اگر وہ شخص کہہ دیتا ہے کہ اس نے طلاق اپنے پورے ارادے اور عزم کی بنیاد پر دی ۔ اس کا اب ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ اس سلسلے کو مذید دراز کرے ۔ تو اب یہ قاضی یا عدالت پر منحصر ہے کہ واقعہ کے صحیح تناظر میں طلاق کا جائزہ لے اور اگر وہ سمجھتی ہے کہ حیض یا حمل کے بعد بھی یہ شخص طلاق دینے پربضد ہے تو وہ اس طلاق کا اطلاق کر سکتی ہے ۔ کیونکہ قرآن کے قانون کی خلاف ورزی کے بعد آپ کا معاملہ وہاں سے نکل گیا ۔ اب یہ عدالت کا کام ہے کہ طلاق کے صحیح محرکات کو سمجھنے کے بعد وہ کیا فیصلہ کرتی ہے ۔
اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھیں کہ اگر آپ اپنی گاڑی میں گھر سے باہر نکلتے ہیں مگر اپنے ساتھ ڈرائیونگ لائسنس لے جانا بھو ل جاتے ہیں ۔ تو آپ سے ایک قانون کی خلاف ورزی ہوئی ۔ اب اگر آپ کو کوئی پولیس والا روک لیتا ہے اور ڈرائیونگ لائسنس دیکھنے کا تقاضا کرتا ہے تو آپ کیا کریں گے ۔ ؟ آپ کچھ نہیں کرسکتے ۔۔۔۔ سوائے اس کے کہ آپ درخواست کریں کہ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنا لائسنس گھر سے لے آؤں ۔ آپ سے ایک قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اب یہ پولیس والے ( عدالت ) پر منحصر ہے کہ آیا وہ آپ کو اجازت دیتا ہے کہ آپ جائیں اور لائسنس لے آئیں ۔ یا پھر وہ آپ کا چالان کردیتا ہے ۔
بلکل اسی طرح جب آپ قرآن کے طلاق کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ تو معاملہ آپ کے ہاتھ میں نہیں رہتا اور یہ عدالت میں چلا جاتا ہے ۔ اب یہ عدالت کاکام ہے کہ وہ طلاق کا اطلاق کرتی ہے یا نہیں ۔ یعنی میں یہ کہنے کی کوشش کررہا تھا کہ جب آپ نے حیض یا حمل کی حالت میں طلاق دیدی تو قرآن کے قانون کی خلادف ورزی ہوگئی ۔ یعنی یہ طلاق دینی نہیں چاہیئے تھی مگر دیدی گئی ۔ اب یہ طلاق قابل عمل ہے کہ نہیں ۔ اس بات کے فیصلے کا اختیار اب آپ کے پاس نہیں رہا ۔ یہ معاملہ عدالت میں جائیگا ۔ اور وہاں اصولی بنیاد پر یہ مقدمہ چلے گا ۔ اگر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ فریق نے عزم کیساتھ طلاق دی ہے تو عدالت اس طلاق کو نافذ کرسکتی ہے ۔ اگر فریق عدالت مطمئن نہ کرسکا یا اس نے اس بات پر عدالت کو باور کرلیا کہ وہ طلاق نہیں دینا چاہتا تھا تو عدالت کوئی دوسرا فیصلہ بھی کرسکتی ہے ۔
یعنی اب حیض اور حمل والی شرط کا اطلاق یہاں ختم ہوگیا کہ یہ شق پہلے ہی توڑی جاچکی ہے۔ اسی اصول پر میں نے کہا کہ " قرآن میں ایک قانون موجود ہے ۔ آپ اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ خلاف ورزی کیوجہ سے کسی کی دی جانے والی طلاق کا نفاذ نہیں ہوسکتا ۔لہذا اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ "حیض یا حمل کی حالت میں طلاق " ہو ہی " نہیں سکتی ۔ کیونکہ خلاف ورزی پر عدالت محرکات دیکھ کر اس کو نافذ بھی کرسکتی ہے ۔
اسی بنیاد پر میں نے کہا کہ " مگر یہ کہنا کہ حیض اور حمل میں طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ بلکل غلط ہے ۔"
 

ظفری

لائبریرین
طلاق کسی بھی حالت میں دی جائے، طلاق ہو جاتی ہے۔ یہ کہنا کہ غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق، طلاق نہیں ہوتی، غلط ہے۔
طلاق دی ہی غصہ کی حالت میں جاتی ہے۔ پیار سے تو کوئی بھی طلاق نہیں دیتا۔
یہ بلکل غلط تاثر ہے کہ طلاق غصے کی حالت میں ہوجاتی ہے ۔ قرآن مجید میں طلاق دینے کا پورا ایک جامع طریقہ ہے ۔ اور ساتھ ساتھ وہاں " عزم الطلاق " کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ یعنی کہ طلاق پورے عزم اور ارادے کیساتھ دینا ضروری ہے ۔ بلکل اسی طرح جب آپ یہی عزم اور ارادہ نکاح میں استعمال کرتے ہیں ۔ میں اپنے پچھلے مراسلے میں کہہ چکا ہوں کہ پیچیدگی قرآن کے قانون سے خلاف ورزی سے پیدا ہوتی ہے ۔ غصے کی حالت میں بھی طلاق دینا قرآن کے قانون خلاف ورزی ہے ۔ اس کا فیصلہ بھی عدالت یا قاضی کرے گا کہ اس معاملے میں ارادہ اور نیت کیا تھی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک صحابی آئے اور کہا کہ " یا رسول اللہ ! مجھ سے کوتاہی ہوگئی ۔ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی " ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استفار کیا کہ " ارادہ کیا تھا ۔ " جواب ملا کہ " بخدا میرا کوئی ایسا ارادہ نہیں تھا ۔ " آپ نے فرمایا "تو پھر جاؤ اور ویسا رہو جیسے پہلے رہتے تھے ۔ "
قرآن مجید کے قانون کے خلاف ورزی پر مختلف مکتبِ فکر پر مختلف آراء موجود ہیں ۔ جس کو جو اچھی لگے ۔ وہ اس کو اپنا سکتا ہے ۔ اس پر بحث کیسی کہ یہ تو اجتہاد ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
طلاق غصے میں ہو یہ نہ ہو، ایک ہی سانس کی تین طلاقوں کو تین طلاق شمار کرنا ظلمِ عظیم ہے۔ جس کا نتیجہ اس جوڑے کے لیے اکثر ساری عمر کے پچھتاوے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور جلتی پر تیل دین میں اضافے کرنے والے فتوی دے کر چھڑک جاتے ہیں کہ ایک سانس کی تین کا مطلب تم لوگ الگ ہو چکے ہو۔
ایک سانس میں یا ایک ہی وقت میں تین طلاق دینا بھی قرآن کے طلاق کے قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ ایک وقت میں تین طلاقوں کا نفاذ کا کیا جانا ، یہ رائے ( فتویٰ) زیادہ تر احناف میں رائج ہے ۔ اس کی بنیاد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے اس حکم سے ہے ۔ جب انہوں نے معاشرے میں طلاق کے قانون کی مسلسل خلاف ورزی دیکھی ۔ لوگ آ کر کہتے تھے کہ ہم نے مذاق میں طلاق دی ، غصے میں دی ، وغیرہ وغیرہ ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے یہ صورتحال دیکھ کر حکم جاری کردیا کہ اب اگر کوئی شًخص ایک نشت میں تین طلاق دیدے گا تو اس کا نفاذ کر دیا جائے گا ۔ یہ ایک ریاستی انتظامی فیصلہ تھا ۔ مگر بعد میں اس کو جاری رہنے دیا گیا ۔
 

ظفری

لائبریرین
قانون شکنی سے یقیناً اجتناب کرنا چاہئے یعنی حالت حیض میں طلاق نہیں دینا چاہئے اور نہ ہی اس طہر میں طلاق دینی چاہئے جس میں مجامعت کی گئی ہو۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہین کہ اس صورت میں طلاق دیئے جانے کی صورت میں طلاق نافذ ہی نہیں ہوگی۔ طلاق نافذ ہوگی لیکن ایسا شوہر قانون شکنی پر گناہ گار ہوگا۔ یہی اجماع امت ہے۔ (گو کہ یہاں بھی فقہی اختلاف اپنی جگہ موجود ہے)
واللہ اعلم بالصواب
آپ یہ کیسے ثابت کریں گے کہ قانون شکنی کے بعد طلاق نافذ کی جاسکتی ہے ۔ اور اجماع امت سے کیا مراد ہے ۔ جبکہ فہقی اختلاف کی بات آپ خود کر رہے ہیں ۔
 

ظفری

لائبریرین
بصد احترام اس ”اُلٹی ترتیب“ سے اختلاف کی اجازت چاہتا ہوں :) اسلام می ہم جیسوں کی رائے کی کوئی وقعت نہیں ہے، خواہ ہم کتنے ہی بڑے عالم اور علامہ کیوں نہ ہوں۔
  1. اگر اسلام کے حوالہ سے کوئی بات، کوئی مسئلہ زیر بحث کرنا ہے تو سب سے پہلے، قرآن کی آیت اور متعلقہ حدیث پیش کی جائے گی
  2. پھر یہ بتلایا جائے گا کہ اس مسئلہ پر قرآن و حدیث کے فرمان پر دور رسالت و دور صحابہ میں کس طرح عمل کیا جاتا رہا ہے
  3. اس کے بعد تابعین، اور دینی اسکالرز، فقہا کی اکثریتی رائے (اجماع امت) پیش کی جائے گی۔
  4. اس کے بعد اپنی اپنی رائے پیش کی جاسکتی ہے کہ مجھے مندرجہ بالا ایک تا تین نکات پر فلاں فلاں سے اتفاق ہے اور فلاں فلاں سے اختلاف ہے اور میری رائے یہ ہے۔ لہٰذا جو لوگ مجھے ”مانتے“ ہیں، وہ ”میری بات“ کو فالو کریں اور جو ایک تا تین کی باتوں کو ”مانتے“ ہیں وہ انہی پر عمل کریں۔ :)
میں یہاں اپنی بات الٹی ترتیب سے شروع کی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں پہلے کسی بات کی وضاحت کسی پر صحیح طور پر واضع ہو تو پھر آپ ماخذ اور دیگر امور کی طرف آسکتے ہیں ۔ :)
 

x boy

محفلین
سارے بھائیوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک خوشخبری ہے لبرل مسلم کے لئے جسطرح نکاح طلاق حلالہ انگلینڈ میں آسان ہے اس طرح ایگریڈ پیریڈ میرج بھی آسان ہے جسٹ پے مونی ٹو گرل ایند فسکڈ پیریڈ ایس یو وش، اس میں نہ حلالہ ہے نہ ظلالہ۔ اگر پیریڈ اوور ہوجاتا ہے تو اگر پسند آگئی تو دوبارہ ایکسٹینڈ کرلیں۔۔
یہ سب آج کل انگلینڈ سے امپورٹ ہورہے ہیں۔
:laughing::grin::redheart::rollingonthefloor:
 

ظفری

لائبریرین
طلاق غصے کی حالت میں ہی دی جاتی ہے۔ پیار سے کوئی طلاق نہیں دیتا۔مذاق میں کہنے سے بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ بلکہ بعض علماء کرام کے نزدیک نشہ میں یا نیند میں بھی کہنے سے ہو جاتی ہے۔

اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک آدمی غصے میں، مذاق میں، نیند میں یا نشے میں کسی کو گولی مار دے تو گولی کھانے والا تو اپنی جان سے گیا ناں، بعد میں بھلے ہی وہ کہتا رہے کہ میں نے تو غصے میں، مذاق میں، نیند میں یا نشے میں گولی ماری تھی جبکہ میرا یہ مقصد نہیں تھا۔
شمشاد بھائی دونوں باتوں میں بہت فرق ہے ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
ماشاءاللہ بھئ یہاں تو بڑے بڑے علامے ،فہامے مفتیان کرام مجتہدین علی الاطلاق اور محدثین و مفسرین اپنے اپنے اجتھادات سے ملت اسلامیہ کی خدمت فرمارہے ہیں کسی کے نزدیک طلاق کے لیے گواہ ضروی تو کوئی طلاق کو قانونی دستاویر کے بغیر غیر مؤثر بتلارہا ہے کوئی تین کو ایک بتلارہا ہے تو کوئی تین کو تین شمار کرنے والوں کی ملامت،اور کسی کو غصہ اور حیض کی طلاق پر اعتراض ہے الغرض جتنے منہ اتنے ہی علامے فہامے ماشاء اللہ لگے رہو ۔۔والسلام
 

حسینی

محفلین
میں اپنی بات ذرا اور تفصیل سے بیان کرتا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق میں قرآن مجید میں طلاق کا پورا قانون بیان کیا ہے ۔ اس قانون پر اگر عمل ہو تو کوئی پیچیدگی نہیں باقی رہتی ۔ پیچیدگی وہاں پیدا ہوتی ہے ۔ جب آپ قرآن کے قانون سے انحراف کرتے ہیں ۔ ایسی صورت میں اب کیا کرنا چاہیئے ۔ اس پر بحث کی جاسکتی ہے ۔ مثال کے طور پر میری ہی بات کو لے لیں ۔ جسے آپ نے کوٹ کیا ہے ۔ ایک شخص ، حیض یا حمل کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے ۔ ظاہر ہے اس شخص سے قرآن کے قانون کی خلاف ورزی ہوئی ۔ اس صورت میں اب کیا قدم اٹھایا جاسکتا ہے ۔ سوائے اس کے کہ آپ عدالت ( قاضی ) میں جائیں ۔ قاضی یا عدالت آپ کی دی جانے والی طلاق کے محرکات دیکھے گا ۔ صورتحال کا جائزہ لے گا ۔ گواہ موجود ہیں تو گواہوں سے بیان بھی لے گا ۔ یہ بلکل وہی عمل ہوگا جیسا کہ عموماً عدالتی معاملات میں ہوتا ہے ۔ سب سے اہم بیان اُس شخص کا ہے ۔ جس نے طلاق دی ۔ اگر وہ شخص کہہ دیتا ہے کہ اس نے طلاق اپنے پورے ارادے اور عزم کی بنیاد پر دی ۔ اس کا اب ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ اس سلسلے کو مذید دراز کرے ۔ تو اب یہ قاضی یا عدالت پر منحصر ہے کہ واقعہ کے صحیح تناظر میں طلاق کا جائزہ لے اور اگر وہ سمجھتی ہے کہ حیض یا حمل کے بعد بھی یہ شخص طلاق دینے پربضد ہے تو وہ اس طلاق کا اطلاق کر سکتی ہے ۔ کیونکہ قرآن کے قانون کی خلاف ورزی کے بعد آپ کا معاملہ وہاں سے نکل گیا ۔ اب یہ عدالت کا کام ہے کہ طلاق کے صحیح محرکات کو سمجھنے کے بعد وہ کیا فیصلہ کرتی ہے ۔
اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھیں کہ اگر آپ اپنی گاڑی میں گھر سے باہر نکلتے ہیں مگر اپنے ساتھ ڈرائیونگ لائسنس لے جانا بھو ل جاتے ہیں ۔ تو آپ سے ایک قانون کی خلاف ورزی ہوئی ۔ اب اگر آپ کو کوئی پولیس والا روک لیتا ہے اور ڈرائیونگ لائسنس دیکھنے کا تقاضا کرتا ہے تو آپ کیا کریں گے ۔ ؟ آپ کچھ نہیں کرسکتے ۔۔۔ ۔ سوائے اس کے کہ آپ درخواست کریں کہ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنا لائسنس گھر سے لے آؤں ۔ آپ سے ایک قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اب یہ پولیس والے ( عدالت ) پر منحصر ہے کہ آیا وہ آپ کو اجازت دیتا ہے کہ آپ جائیں اور لائسنس لے آئیں ۔ یا پھر وہ آپ کا چالان کردیتا ہے ۔
بلکل اسی طرح جب آپ قرآن کے طلاق کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ تو معاملہ آپ کے ہاتھ میں نہیں رہتا اور یہ عدالت میں چلا جاتا ہے ۔ اب یہ عدالت کاکام ہے کہ وہ طلاق کا اطلاق کرتی ہے یا نہیں ۔ یعنی میں یہ کہنے کی کوشش کررہا تھا کہ جب آپ نے حیض یا حمل کی حالت میں طلاق دیدی تو قرآن کے قانون کی خلادف ورزی ہوگئی ۔ یعنی یہ طلاق دینی نہیں چاہیئے تھی مگر دیدی گئی ۔ اب یہ طلاق قابل عمل ہے کہ نہیں ۔ اس بات کے فیصلے کا اختیار اب آپ کے پاس نہیں رہا ۔ یہ معاملہ عدالت میں جائیگا ۔ اور وہاں اصولی بنیاد پر یہ مقدمہ چلے گا ۔ اگر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ فریق نے عزم کیساتھ طلاق دی ہے تو عدالت اس طلاق کو نافذ کرسکتی ہے ۔ اگر فریق عدالت مطمئن نہ کرسکا یا اس نے اس بات پر عدالت کو باور کرلیا کہ وہ طلاق نہیں دینا چاہتا تھا تو عدالت کوئی دوسرا فیصلہ بھی کرسکتی ہے ۔
یعنی اب حیض اور حمل والی شرط کا اطلاق یہاں ختم ہوگیا کہ یہ شق پہلے ہی توڑی جاچکی ہے۔ اسی اصول پر میں نے کہا کہ " قرآن میں ایک قانون موجود ہے ۔ آپ اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ خلاف ورزی کیوجہ سے کسی کی دی جانے والی طلاق کا نفاذ نہیں ہوسکتا ۔لہذا اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ "حیض یا حمل کی حالت میں طلاق " ہو ہی " نہیں سکتی ۔ کیونکہ خلاف ورزی پر عدالت محرکات دیکھ کر اس کو نافذ بھی کرسکتی ہے ۔
اسی بنیاد پر میں نے کہا کہ " مگر یہ کہنا کہ حیض اور حمل میں طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ بلکل غلط ہے ۔"

ہمارا یہ موقف ہے چونکہ یہ طلاق قرآن کے احکام کے مخالف ہے اور حالت حیض میں دیا گیا ہے لہذا درست ہی نہیں ہوگا۔۔۔۔ درست اس وقت ہوتا جب قرآن کے حکم کو مد نظر رکھا جاتا۔
جس طرح سے قرآن کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی نکاح میں ولی کی اجازت نہ لے۔۔۔۔ یا لڑکی، لڑکے کی رضایت نہ لے، تو وہ نکاح درست نہیں۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
ماشاءاللہ بھئ یہاں تو بڑے بڑے علامے ،فہامے مفتیان کرام مجتہدین علی الاطلاق اور محدثین و مفسرین اپنے اپنے اجتھادات سے ملت اسلامیہ کی خدمت فرمارہے ہیں کسی کے نزدیک طلاق کے لیے گواہ ضروی تو کوئی طلاق کو قانونی دستاویر کے بغیر غیر مؤثر بتلارہا ہے کوئی تین کو ایک بتلارہا ہے تو کوئی تین کو تین شمار کرنے والوں کی ملامت،اور کسی کو غصہ اور حیض کی طلاق پر اعتراض ہے الغرض جتنے منہ اتنے ہی علامے فہامے ماشاء اللہ لگے رہو ۔۔والسلام
بس جناب آپ کی کمی تھی ۔۔۔۔۔۔ والسلام
 

ظفری

لائبریرین
ہمارا یہ موقف ہے چونکہ یہ طلاق قرآن کے احکام کے مخالف ہے اور حالت حیض میں دیا گیا ہے لہذا درست ہی نہیں ہوگا۔۔۔ ۔ درست اس وقت ہوتا جب قرآن کے حکم کو مد نظر رکھا جاتا۔
جس طرح سے قرآن کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی نکاح میں ولی کی اجازت نہ لے۔۔۔ ۔ یا لڑکی، لڑکے کی رضایت نہ لے، تو وہ نکاح درست نہیں۔۔۔
یعنی یہ بلکل اسی طرح ہوا کہ آپ نے ٹریفک کے کسی قانون کی خلاف ورزی کی اور آپ سے کہا جائے کہ آپ نے سرخ بتی توڑ دی ہے ۔ مگر آپ واپس جائیں اور وہیں کھڑے ہوجائیں اور پھر ہری بتی کے روشن ہونے پر دوبارہ آئیں ۔ یعنی خلاف ورزی پر کسی قسم کی کوئی سزا نہیں ۔کوئی مقدمہ نہیں ۔
 

حسینی

محفلین
یعنی یہ بلکل اسی طرح ہوا کہ آپ نے ٹریفک کے کسی قانون کی خلاف ورزی کی اور آپ سے کہا جائے کہ آپ نے سرخ بتی توڑ دی ہے ۔ مگر آپ واپس جائیں اور وہیں کھڑے ہوجائیں اور پھر ہری بتی کے روشن ہونے پر دوبارہ آئیں ۔ یعنی خلاف ورزی پر کسی قسم کی کوئی سزا نہیں ۔کوئی مقدمہ نہیں ۔

دیکھیے سزا ملنا یا نہ ملنا اور بحث ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
بحث اس میں ہے کہ ایسا طلاق درست ہے یا نہیں؟؟؟ نافذ ہے یا نہیں؟؟ جب قرآن کے صریح حکم کی مخالفت ہوئی تو درست کیسی ہوئی۔۔۔ اگر مخالفت پر بھی کام درست ہوتا ہو تو قرآن کو منع کرنے ٰ کی ضرورت ہی کیا تھی۔
ایک اور مثال سے سمجھاتا ہوں۔۔۔۔ قرآن نے کہا ہے کہ جب کوئی جانور ذبح کیا جا رہا ہو تو غیر خدا کے نام کے ساتھ ذبح نہ کرو۔۔۔۔ بلکہ اسم خدا پر ذبح ہونا چاہیے۔۔۔
اب اگر کوئی اس حکم کی مخالفت کرے۔۔۔۔ تو نہیں کہ سکتے کہ جانور تو اس کا حلال ہے۔۔۔ لیکن اس کو اس مخالفت کی صرف سزا ملے گی۔۔ یا اس پر مقدمہ ہوگا۔
بلکہ وہ جانور ہی مردار اور اس کا گوشت حرام ہے۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
یہی میں کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ کہ قرآن کے قانون پر عمل ہو تو کوئی پیچیدگی نہیں ۔ پیچیدگی وہاں سے پیدا ہوتی ہے جہاں آپ یہ قانون توڑ دیتے ہیں ۔ اس خلاف ورزی کے بعد آپ اجتہاد کی طرف آتے ہیں ۔ کیونکہ اس بارے میں قرآن میں کوئی احکام موجود نہیں ہیں ۔ جو آپ کہہ رہے ہیں ۔ میں کہہ رہا ہوں ۔ شمشاد بھائی کہہ رہےہیں ۔ یوسف بھائی کہہ رہے ہیں اور دیگر حضرات جو کچھ کہہ رہے ہیں ۔ فقہہ کے رائے کا ہی اظہار کر رہے ہیں ۔ اس میں اختلاف موجود ہے ۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ کون سے بات زیادہ قرآن کے قریب ہے اور کس کے دلائل اور استدلال قوی ہیں ۔ کوئی نیک نیتی سے کسی بھی رائے کو اپنا چاہے تو اپنا سکتا ہے ۔ کیونکہ بہرحال یہ ساری آراء ہیں ۔ کوئی حکمِ خداوندی تو نہیں ہے ۔
 
آخری تدوین:
Top