طنزومزاح ۔ قلابازیاں

سید رافع

محفلین
طنزومزاح۔ قلابازیاں۔بڑے منصوبے چھوٹا گٹر – قسط 1

میں نے پروگرامنگ کے ایک ون پوانٹ فائو بلین ڈالر کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ نارتھ امریکا ،کینڈا اور یورپ کے تقریبا پانچ ہزار سے زائد سافٹ ئیر کمپنیز اپنی پروگرامنگ کی لاگت کم کرنے کے لیے کراچی میں بحریہ ٹاون کی طرز پر سافٹ ٹاون کھولنے پر شدید اصرار کر رہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت چائینا سے اشیإ اسی لیے منگوا رہی ہیں کہ یہاں لاگت سو گنا زائد ہے۔ سو ہم چاہتے ہیں کہ آپ یعنی بقلم خود میں بیس ہزار سافٹ ویر انجینیر سافٹ ٹاون میں بساوں۔ مایکروسافٹ کے کیمپس کی طرز پر۔ ہر سال بیس ملین یو ایس ڈالر کے پراجیکٹ باآسانی ہم یہاں سے بھیج سکتے ہیں۔ اپنے پاور پلانٹ اور سیکیورٹی ہو گی۔ پورے پاکستان کا بہترین ٹیلنٹ دن رات سافٹ ٹاون میں سی ،جاوا، اوریکل ،سیپ ،پی ایچ پی ،جاوا اسکرپٹ، پایتھون اور اندازا بارہ ہزار دیگر ٹیکنالوجیز پر کام کرے گا۔

ابتدائی طور پر کل شام سے ہمارے برابر میں چیس ڈیپارمینٹل اسٹور کی دکان کھلی ہے اور مین گٹر بلاک ہو گیا۔ میں نے فلیٹ یونین سے رابطہ کیا تو ایم کیو ایم کے صدر کو نکال دیا گیا جب میں ملایشیا میں تھا۔ غبن وغیرہ کے الزامات تھے۔ گٹر ریورس ہوا اور سارے گھر میں میں اوپری فلورز کا پانی قدرتی والا اور لہسن قدرتی والا تیر رہا ہے۔میں نے اسے پراجیکٹ میں ڈیڈ لاک سمجھا اور فورا جمعدار کوفون کھڑکھایا تو اس نے کہا کہ وہ اتوار کو بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے اور وہ بھی ایم کیو ایم کی وجہ سے ہم سب سے کھٹی ہے۔ میں نے عقاب کی طرح برابر والے اسکوئیر کے جمعدار کو پکڑا تو اس نے کہا آپ جیسے منہنی شخص کے کہنے سے میں آپکے ایم کیو ایم کے صدر کے حکم کے برخلاف توکرنے سےرہا۔ سو میں نے چوکیدار کو فون کھڑکھایا اور ملا بھی لیکن وہ بھی ساتھی نکلا۔اس نے کہا اب جائیں نہ ذرا کے ایم سی کی کوڑا صاف کرنے والی گاڑیوں کو پکڑیں وہ فری کام کر دیں گی۔ اسکو بھی صدر کے ساتھ نکالا گیا تھا۔سو کل صبح تک اوپر والے جو کھائے پیں گے مجھے پتہ ہو گا۔

بس کل سے بڑے پراجیکٹ پر کام شروع کروں گا ذرا یہ چھوٹا گٹر کھل جائے۔
 

سید رافع

محفلین
طنزومزاح۔ قلابازیاں۔ جان ایلیا– قسط 2

ہر جگہ بچے پیدا ہوتے ہیں اور بڑے بن جاتے ہیں۔ ایک امروہہ ہی واحد جگہ ہے جہاں پیدا ہی بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ اس میں قصور جگہ کا نہیں امروہہ کے لوگوں کی نظر کا کمال ہے۔ اب جان بھائی کو ہی دیکھ لیں۔ امروہہ کے لوگ تو رہتے ہی دھن میں ہیں، ایک دن جان بھائی کو اکڑوں بیٹھے دیکھا تو سمجھے کہ اکڑوں بیٹھ کر شاعری کر رہے ہیں۔حالانکہ بچپن میں کھیل کود رہے تھے اور پچو کی پتھر اکڑوں بیٹھ کر ایک کے اوپر ایک رکھ رہے تھے تاکہ کرمچ کی بال سے نشانہ لگائیں۔ لیکن امروہہ کے لوگوں کی ضد تھی کہ اسطرح اکڑوں بیٹھنا صرف نایاب شاعر ہی کرتے ہیں۔ اب لوگوں نے شاعر سمجھ ہی لیا تو جان بھائی نے اپنے محلے کے سیکٹر انچارج سے مشورہ کیا کہ شعر کیسے نکالا جائے۔ وہ اکثر مخالفین کو اغواء کرتا اور چماٹ لگانے سے قبل بلا اختلاف جنس کہتا۔

کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ تم مر جاو گے

یہ کہنے کے بعد سیکٹر انچارج منہ کھول کر ہنسا اور ایک چماٹ لگایا۔ بس کیا تھا یک دم جان بھائی کے سوئےہوئے ذہن میں ایک چمک سے اٹھی اور تم مر جاو گے کی تصیح کی اور اپنا شعر بنا لیا۔

کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

رفتہ رفتہ جان بھائی کی دوستی سیکٹر انچارج سے بڑھتی جا رہی تھی۔ایک دن وہ جان بھائی کو لائنز ایریا لے کر گیا اور اپنے دوست سے ملاقات کرائی۔ وہ کن کٹا تھا۔ وہ بھی ہر واردات سے پہلے گنگناتا تھا۔


مجھے غرض ہے مری جان کان کاٹنے سے
نہ تیرے آنے سے مطلب نہ تیرے جانے سے

جان بھائی کے لیے یہ دوستی گویا سونے کی کان ثابت ہو رہی تھی۔ انکو امید ہو چلی تھی کہ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو ایک دن وہ امروہہ والوں کے منہ پر پورا دیوان دے ماریں گے جنہوں نے بچپن میں انکی پچو باری چھڑا کر شاعری جیسے اوکھے کام پر لگا دیا۔بہرحال جان بھائی نے اس شعر کو بھی تصیح کر کے اپنا بنا لیا۔


مجھے غرض ہے مری جان غل مچانے سے
نہ تیرے آنے سے مطلب نہ تیرے جانے سے

امروہہ والے جان بھائی کے اس ہنر پر فریفتہ ہوئے چلے جارہے تھے اور جان بھائی نڈھال۔
 

سید رافع

محفلین
طنزومزاح۔ قلابازیاں۔ امریکہ اور پاکستان میں فرق– قسط 3

امریکہ اور پاکستان میں فرق صرف ختنہ کا ہے۔ پاکستان کی اپنی پیدائش کے بعد ہی قرار داد مقاصد کے ذریعے آئینی ختنہ کرا لی جبکہ امریکہ بدستور اس عمدہ تحفے سے محروم ہے۔ امریکہ میں کاغذکو لکھنے کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں صرف لکھنے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے ، طہارت اب بھی پانی ہی سے ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بڑے بڑے ڈیم بنائے جاتے ہیں جبکہ امریکہ میں جنگلات لگائے جاتے ہیں جہاں آئے دن آگ لگی رہتی ہے اور کاغذ کی کمی رہتی ہے۔ امریکہ کے لوگ 12 سال کی عمر سے بیوی کی تلاش شروع کر دیتے ہیں اور بالآخر 36 سال کی عمر میں ایک بیوی مل ہی جاتی ہے جس کے بعد بھی بیوی کی تلاش جاری رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی گورے رہتے ہیں۔جبکہ پاکستان میں بیوی کی تلاش 24 سال کی عمر سے شروع ہو کر 24 سال اور 2 مہینے میں ختم ہو جاتی ہے ۔یہاں کے لوگوں کے سیاہ ہونے کا سبب تلاش کے بجائے اکتفاء کی عافیت میں پناہ حاصل کرنا ہے اور تلاش بھی پھپو کرتیں ہیں۔پاکستانی بیوی کی ایٹم بم کی طرح حفاظت کرتے ہیں چاہے کتنی وار آن ٹیرر ان پر مسلط کی جائیں۔ امریکی کھانے میں پیزا اور پاکستانی کھانے میں نلی پریانی پسند کرتے ہیں اسی وجہ سے امریکی موٹے اور پاکستانی دبلے لیکن ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
طنزومزاح۔ قلابازیاں۔ ہادی – قسط 4

یہ کوئٹہ عنابی ہوٹل رائل ڈھاکہ والی گلی میں ہے؟

آپ کس طرف سے آئیں گے؟ اگر ائیرپورٹ کی سمت سے نیپا آ رہے ہیں تو سر سید سے مڑ سکتے ہیں یا پھر نیپا کی طرف سے مڑ کر ائرو کلب۔ اگر سوک سینٹر سے آ رہے ہیں تو صادقین سے ائرو کلب ورنہ سیدھا اردو کالج کے پل پر لے لیں پھر ائرو کلب۔ اگر ناگن چورنگی سے آ رہے ہیں تو پہلے سھراب گوٹھ پھر گلشن چورنگی آئے گا۔ وہاں سے ڈھاکہ سوئٹس کی پچھلی گلی سے سیدھا ائرو کلب۔ ویسے گوگل میپ پر ایپ بتاتی جاتی ہے۔ ورنہ رکشہ کر لیں اسکو پتہ ہوتا ہے۔ کریم والے کے پاس تو جی پی ایس ہوتا ہی ہے سو وہ ہائر کر لیں۔ خود ہی گاڑی یا موٹر سائکل چلانی ہے تو ایک چھوٹی منرل واٹر رکھ لیں مبادا کہ راستہ بھٹک جائیں اور پیاس لگے، ویسے تو آجکل ہر ہی دکان میں چھوٹی منرل واٹر ملتی ہے۔

ویسے ہے رائیل ڈھاکہ والی گلی میں۔
 

سید رافع

محفلین
طنزومزاح۔ قلابازیاں۔ عارف دوست – قسط 5

وہ کراچی میں جاں گزاں ماحول میں جاب کر چکا تھا، شادی کر چکا تھا اور وہ بھی صرف ایک، کھلونے مانگتے اور موبائل توڑتے بچے سنبھال رہا تھا، میٹھے رشتے داروں اور رسیلے دوستوں سے ملتا رہتا تھا۔ وہ کراچی کے زندہ رہنے کے تمام امتحانات سے کامیابی سے گزار چکا تھا۔ وہ ایک عارف تھا۔ اسے دور و قریب، ماضی اور حال، آفس و رشتہ دار، محلے اور محلے والوں کے رشتے داروں سب کی خبر تھی۔ وہ سیاست دانوں کی بچیوں کے فون نمبر سے لے کر مصنفین کی قومیتوں اور زبانوں سب سے واقف تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے موجودہ جائے حیات سے لے کر انکے یورنیورسٹی رول نمبر سب سے واقف تھا۔ وہ کمال کا شخص تھا کہ اسکا ایک قدم دنیا میں ہوتا تو دوسرا وراء الوراء پر ہوتا اور اگلا اپنے ساتھ کام کرنے والے فٹر کی جیب میں۔ وہ سکڑ کر اپنی باری کا انتظار کرتا اور پھیل کر ہر مرد سے آگے ایک جست لگاتا اور ایک پپی ادھر اور ایک پپی ادھر کرتا۔ وہ ایک مہیب شیر تھا جو کبھی کبھی اپنی دم سے لطف اندوز ہوتا تاکہ کراچی کا جاں گسل ماحول اس پر حاوی نہ آسکے۔ ہر مرد اسکے آگے نامرد تھا۔ وہ برق رفتاری سے اپنے اردگرد کے لوگوں کو ایک باکس میں بند کرتا اور لیبل چسپاں کرتا اور پھر جیسے چاہتا کبھی تکہ کبھی فیرنی کبھی ملائی بوٹی بنا کر نوش جاں کرتا۔ وہ کسی سے دھوکہ نہیں کھانا چاہتا تھا کیونکہ وہ امیر نہیں تھا۔ وہ گیس کے گیزر کے بجائے شمسی توانائی سے چلنے والا گیزر استعمال کرتا۔ ہر وہ شخص جو گیس کے گیزر کی موافقت میں بولتا وہ اسے دسمبر کی سرد شاموں میں مقابلہ کرنے کی دعوت دیتا۔ وہ پٹھان کے ہوٹل کا دیوانہ اور پیزا کھانے کے آداب سے بے خبر تھا۔ اسکو خوابوں والی کتابوں اور شخصیات سے حد درجہ عناد تھا کہ خواب بندے کا بلاوجہ ہی واٹ لگا دیتے ہیں اور ماموں بنانے کے لیے اکثیر کا درجہ رکھتے ہیں۔ بس اب اس عارف دوست کےکمالات اور کہاں تک ضبط تحریر میں لائیں جائیں کہ ہر تحریر گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مانند ہے۔
 

سید رافع

محفلین
طنزومزاح۔ قلابازیاں۔ تقریبا نورا کشتی اور کچن کا گٹر– قسط 6
نوازے اور بوٹیے میں گہری دوستی تھی۔ دونوں چچا پمپ کے پاس یتیمی کی زندگی عالیشان انداز میں گزار رہے تھے۔ یہ دونوں ملکہ سے ہوئے تھے ۔ فنون حرب کے ماہر تھے۔ نورا کشتی ایسی لڑتے کہ لوگوں کو لگتا کہ اب انصاف ہوا کہ تب۔ دونوں کشتی کے بعد کھی کھی ہنستے۔ لیکن دیکھنے والے منہ میں انگلی ڈال کر دانتوں سے چبا ڈالتے۔ کمال کا فن تھا۔ دونوں پڑھے تھے لیکن لکھے نہیں چنانچہ حکومت کے رسیا تھے۔ زمین ایک تھی لیکن نوازے اور بوٹیے ملا کر کل دو تھے۔ نوازے کو دھماکے کرنے میں ملکہ حاصل تھا اور بوٹیے کو ڈیم کےچندے میں الجھانے میں یدطولی حاصل تھا۔بحیرہ عرب کے قریب نوازے کے بحیرے دوستوں کو فن جمعداری میں سے خاص حصہ ملا تھا۔ جونہی بوٹیے پانی بند کرتے، بحیرےجمعداروں کو آنکھ مار دیتے۔ یوں ملک خداداد میں انتظام کے ساتھ تماشا کامیابی کے ساتھ جاری تھا۔ بوٹیےسخت مزاج کے تھے سو ان کی نوازے اور بحیرے سے ہٹی رہتی تھی ۔وقت یونہی گزر رہا تھا کہ ایک دن نوازے نے ڈان کو آنکھ ماری اور اس نے کچھ لیک کر دیا۔ بوٹیے کے پیمپر نہیں بندھا تھا سو لیک کی گندگی باہر آگی۔ اچھا خاصا سوٹ خراب ہو گیا۔ بوٹیے نے نوازے کو آنکھ ماری اور کہا دھت تیرے کی سوہنیے ذرا 10 سال کے لیے بامشقت آرام تو فرما سانوں کسی ہور نال میچ فکس ہے۔ چچا پمپ نے بھی اسکی توثیق کر دی۔ نوازے کو یہ بات بری لگی اور اس نے ثناء کی تو بلوچستان میں رئیسانی ایک سو تیس لوگوں سمیت بوٹیے کی طرفداری سے برطرف ہوگئے۔ اسی قسم کی آنکھ نوازے نے اس سے قبل بوٹیے کے بچوں کے ایک اسکول میں بھی ماری تھی تو ثناء نے لبیک کہا تھا۔ ثناء ایسے کاموں کو حج سے بڑھ کر عبادت جانتا تھا۔

ابھی نوازے اور بوٹیے پر عظیم فکر جاری تھی کہ گھر کے کچن کا گٹر بھرا اور پانی گھر میں آنے لگا۔ اس سے قبل بھی لڑکا کامیابی سے بیت الخلاء کے گٹر سے کامیابی سے نمٹ چکا تھا۔اس قسم کے ہتھکنڈے لڑکے کے عزائم کو متزلزل نہیں کر سکتے تھے۔ جونہی گھر میں صدائے گٹر کی غوں غاں بلند ہوئی لڑکے نے دیگرتگ و دو چھوڑی اور ایک جست لگا کر موبائل سے یونین کے ایک سرکردہ کو فون لگایا۔ کیونکہ اسکے پاس ایک ناکارہ جمعدار تھا سو اس نے کہا جی آیا نوں۔ ناکارہ جمعدار بے پکی کیری کی طرح جھولتا لیکن اڑیل گٹر سانس روکے کھڑا تھا۔ وہ یوں ہار ماننے والے نہیں تھا۔ گٹر بھر اہے ۔ سب چھپ چھپ کر کے کام کر رہے ہیں۔ ہر گٹر ایک ذی شعور جمعدار کی محبت کا منتظر ہوتا ہے جو اس میں اتر کر گندگی صاف کرنے کے عشق کو امر کر دے۔ وہ دن و رات ایک ایسے جمعدار کا خواب دیکھتا ہے جو اسے رواں کر دے۔ لڑکے نے گٹر کا وسیع تجربہ رکھنے والے جمعدار کو فون لگایا تو لگا کہ وہ پتبگ اڑانے میں مصروف ہے۔ ایک منجھے ہوئے جمعدار کو گٹر کے سانس روکنے کا علم ہوا۔ اسکو ایسے گٹر کو گدگدانے میں خاص ملکہ حاصل تھا۔اس نے جونہی ہاتھ لگایا گٹر کھل کھلا کر ہنس پڑا۔
 

سید رافع

محفلین
طنزومزاح۔ قلابازیاں۔ اب میں ووٹ دوں یا نہ دوں – قسط 7

ووٹ ایک ایسی حماقت ہے جو آپ کے پاس بطور امانت آپ کی حماقت کی سبب رکھی گئی ہے۔ اب چند ایسے معتبر لوگ بھی ہیں جو اس امانت کو پوری طرح ادا کرتے ہیں مطلب ثابت کرتے ہیں کہ ہم واقعی ہیں۔ امانت رکھنے والے عموما مسکراتے ہیں لیکن امانت ادا کرنےکے اس جوش پر منہ کھول کر ، کبھی کنارہ لے کر اور کبھی منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہیں۔ کچھ نے یہ پکڑ لیا ہے کہ بھائی کچھ ہو نہ ہو ہمیں بنایا جا رہا ہے سو وہ کینسل والا ووٹ ڈال کر آتے ہیں تاکہ کوئی یہ اہم امانت چرا کر کسی اور کو نہ دے ۔ مطلب بنتے بنتے نہ بنے لیکن پھر بن گئے۔ اس میدان کے اصل ہیرو وہ ہیں جو ووٹ بالکل استعمال نہیں کرتے بلکہ وقار کے ساتھ گھر میں تشریف فرما رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں حکومت ووٹ سے نہیں رعب سے بنتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر وہ ہوتا تو ووٹ دیتا یعنی وہ بھی بن گئے کہ اگر وہ ہوتا تو میں بھی بن جاتا۔ کیونکے وہ نے نہ کبھی پیدا ہونا ہے اور نہ ووٹ مانگنا ہے سو کبھی بنتے نہیں لیکن بنے ہوئے رہتے ہیں۔

سب انسانوں کی خواہشات ایک جیسی ہی ہیں جان بچی رہے اور شادی ہو جائے۔ اہل و عیال کھالیں جسکو دینا چاہیں دیں۔ مال بڑھے اور بھتہ نہ دینا پڑے۔ آسائش بڑھے یہاں تک کہ ممی ڈیڈی برگر افراد کے مقابلے تک جا پہنچیں۔ سو ووٹ دینے کی ضرورت ہی نہیں۔ جو ووٹ دیتا ہے اسکا آئی کیو ووٹ نہ دینے والے کے مقابلے میں100 پوائنٹ کم ہو جاتا ہے۔ اب کی بار فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
 

سید رافع

محفلین
طنزومزاح۔ قلابازیاں۔اٹینڈنٹ – قسط 8

آج وہ دو خرگوش خرید کر لائی تھی ۔ وہ جلدی سے اسکے گھر کے لان میں دونوں خرگوشوں کو ڈال کر بھاگی۔ وہ سامنے والے گھر میں ایک خوبرو خاتون کی تیمارداری میں مصروف رہتی اور پردے کے پیچھے سے بستر کی چادر تبدیل کرتے ہوئے روز اس لڑکے کو کووں کی تصاویر کھینچتے دیکھتی۔ وہ عموما کووں کو دانہ ڈالتا اور کھڑکی کی اوٹ سے دیکھ دیکھ کر محذوز ہوتا۔ آج جب حسب معمول وہ کووں کا ذہن بنا کر جب کھڑکی پر آیا تو اسکےمن کی ایک کلی سی کھل گئی۔ تین کووں کے ساتھ دو خرگوش بھی برف کے اوپر پڑی اسٹابیرز کھانے میں مشغول تھے۔ وہ اسے دل سے چاہتی تھی۔ وہ جہاں جاتا اسکا پیچھا کرتی۔

ایک دن وہ امریکہ کی خوبصورت سنہری دوپہر میں گاڑی چلاتا جا رہا تھا۔ وہ گنگنا رہا تھا ۔۔۔ سانوں نہر والے پل تے بلا کہ چن ماہی کتھے رہ گیا ۔۔۔ اٹینڈنٹ اسکے پیچھے پیچھے ہو لی تھی جس کی اسکو خبر نہ تھی۔ اس نے اپنی کار قریب کی اور ہائی دیفی نیشن کیمرہ اور ایمپلی فائر نائکون کیمرے سے اسکی ویڈیو بنائی۔ اسے معلوم تھاکہ اسکا ہر ساز اور سرگم اسکے لیے ہے۔ یہ ویڈیو اس نے پیسے دے کر ایک پینجابی جٹ سے انگریزی میں ترجمہ کرائی تو پتہ چلا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ اٹینڈینٹ وئیر ہیو یو بین آفٹر کالنگ می آن بریج۔

جب جب وہ نیلی ٹی شرٹ پر اسکائی بلیو ہیٹ لگا کر اپنے بیٹے کے ساتھ کرکٹ کھیلتا تو وہ تھرڈ ایمپائیر کی طرح کھڑکی سے اسکو دیکھتی۔ اسکو بھی کچھ کچھ اندازہ ہو گیا تھا سو وہ ہلکی بال اپنے بیٹے کو کراتا اور زور سے شاٹ اسکے گھر کی طرف مارنے کو کہتا۔ پھر خوشی خوشی خود ہی بال لینے کے لیے اسکے گھر تک جاتا۔ اسکا بیٹا لاکھ اسکو کہتا کہ پاپا آپ بھی بیٹنگ کریں نا تو اس پر وہ نفی میں سر ہلا دیتا اور کہتا بیٹا آپ اس کاونٹی میں واحد مسلم بیٹس مین ہیں۔ پہلے بیٹ کو سنبھالنا سیکھ لیں پھر بال پر آئیے گا۔ اسکا بیٹا اسکا انتہائی فرماں بردار تھا وہ کہتا اوکے پاپا۔ وہ اپنے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہتا کہ اس پر ایک نظم ضرور لکھنی ہے اوکے۔ اسکا بیٹا کندھے گراتے ہوئے جواب دیتا اوکے پاپا۔

دن یونہی گزرتے جا رہے تھے۔ جب بھی وہ پراجیکٹ کی بات کرتا اٹینڈینٹ سمجھتی کہ وہ اس کا تذکرہ کر رہا ہے۔ وہ اس کی وائس ٹیپ کرتی تھی اور اپنے جٹ بنجابی دوست سے ترجمہ کر کے دن رات سنتی۔ اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ آخر وہ اسے اپنا کیوں نہیں لیتا جبکہ وہ اس کے لیے دن رات چائے بنانے کو بھی تیار ہے۔ رقم آل ریڈی اسکے پاس اتنی ہے کہ ہر براعظم میں اسکا ایک گھر ہے۔ آخر وہ کیوں ایک چائے تک حاصل کرنے کی خواری جھیل رہا ہے؟ وہ نسرین، مہ جبین اور کلثوم کے فرضی ناموں کو استعمال کر کے اٹینڈینٹ کے بارے میں ایسے ایسے عشقیہ اشعار کہتا کہ جہاں وہ اپنا کلام سنا دیتا تین تین دن تک وہاں سے واہ واہ کی صدائیں بلند ہوتی رہتں۔

اب کی باری وہ بھی سنجیدہ تھا ۔ اس نے پاکستان آ کر کوئٹہ عنابی ہوٹل پر اپنے دوستوں کے ساتھ ایک آخری میٹنگ کا اہتمام کیا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ پٹھان کی چائے کی خاطر اسکے دوست اسکو ایسے ایسے قیمتی مشوروں سے نوازیں گے کہ وہ دن دور نہیں جب کرکٹ دو نہیں تین لوگوں کے ساتھ ہو گی اور خرگوش پالتو ہو جائیں گے۔ اسکی دوست چائے کے ساتھ پراٹھوں کے دیوانے تھے یہاں تک کہ انکے اکاونٹ پٹھان کے ہوٹل میں کھلے تھے۔ اسنے پاکستان آنے سے پہلے ہی بھارت میں بنی ادھیڑ عمر کے مردوں کی نو عمر لڑکی سے شادی پر فلمیں بھی دیکھنا شروع کر دیں تھیں تاکہ کچھ مومینٹم بنے۔ وہ ڈگریوں سے بے زار اور ہاتھ سے بنی چائے کا طلبگار تھا۔ اسنے اے سے لے کر زیڈ تک ہرہر قسم کی ڈگری دیکھ لی تھی لیکن اب وہ لانگ ڈرائیو پر ایک گرم پیالی چائے کی طرح کے ساتھی کا متمی تھا۔ اس نے مسجد میں دعا اور گرومندر پر پانی کی سبیل بھی اسی لیے لگائی تھی۔ وہ عراق کے متبرک مقامات کے سفر کر کے گڑگڑا کر دعا کر اور اپنے ہاتھ سے تبرک تقسیم کرتا کہ شاید گرم چائے کی پیالی اسکی ہو جائے۔ وہ دن دور نہیں جب ایک نہیں دو اٹینڈینٹ اسکی ہوں گی۔
 

سید رافع

محفلین
طنزومزاح۔ جان ایلیا کے پکوڑے– قسط 9

کم ہی لوگوں کو معلوم ہو کہ جان بھائی پکوڑوں کے عاشق تھے۔ جب سے لیاقت آباد کے سیکٹر انچارج طاہر کمانڈو سے رسم و راہ بڑھی تھی یہ شوق دو چند بلکہ سہہ چند ہو گیا تھا۔ بارہا اسکے ساتھ جان بھائی نے لیاقت آباد پل کے گول گپے اور الحرمین الآصف اسکوائر کی نمکین بوٹی کھینچ ڈالی تھی۔اب کی بار طاہر کمانڈو نے جان بھائی کو پکڑ لیا اور کہابابو کچھ پکوڑوں پر ہو ہی جائے آج اپن کا پیٹ سیٹ نہیں۔ اگر کھا نہ سکوں تو سن ہی لوں ۔ میرا شوق پورا ہو گا اور امروہہ والے سمجھیں گے کہ ایک غزل نکال دی۔ وہ ایک قہقہ لگاتے ہوئے بولا۔ جان بھائی نے گلا قدرے صاف کر کے گگھی دور کی اور کہا۔

سارے پکوڑے کھا کر آیا
پیٹ فل اپنے گھر آیا

آخرش کارمینا کھانے سے میاں
گڑگڑ میں تیری کیا اثر آیا

تھا پکوڑے میں زیاں ہاضمے کا
ہر طرف سے میں اک آدھ اٹھاتا آیا

اب یہاں پکوڑے میں کبھی اپنے
نہیں کھاوں گا میں اگر آیا

میں رہا عمر بھر کھاتا پکوڑے
یاد رکھتا چورن کو عمر بھر آیا

وہ جو وان ٹان نام تھا ایک پکوڑے کا
آج میں اسے بھی کھا آیا

مدتوں بعد گھر گیا تھا میں
جاتے ہی میں پکوڑا کھا آیا

جان بھائی پر آمد تھی سو پکوڑوں کے بعد دیگر اصناف غذائیہ پر طبع آزمائی کی۔ ایک انت دن تھا وہ۔

اب بھی پراٹھے میں آلو پڑتے ہیں
اب بھی کھوکے کی چائے ہےجاناں

جو زندگی بچی ہے اسے مت گنوائیے
بہتر یہی ہے آپ ہڈی گڈی کھائیے

کچھ تو بوٹی چھوڑو کم بختو
کچھ نہیں۔۔کوئی ہڈی ہی چھوڑو

طاہر کمانڈو خوش ہوا اور کہا جان بھائی کچھ ہمارا بھی تو تذکرہ کرو۔ پکوڑے پراٹھے ہی کھاو گے کیا آج۔ اس نے ایک بلند قہقہ لگایا۔

ساتھیوں کی راہ پر اگر چلیے
چار جانب سے بھتہ لیتے چلیے
اِک عجب لہر جی میں آئی ہے
اُس کی گدی پر چماٹ دھر چلیے
ہم پاپی سدا کے ہیں لیکن
حسبِ منشا کوئی جرم نہیں

ایک اور شعر ہو جائے، طاہر نے جان بھائی کے گال پر انگلی لگاتے ہوئے کہا۔

پرچی بہ پرچی ، بھتہ بہ بھتہ ، کھال بہ کھال ، رسید بہ رسید
میں بھی ساتھیوں میں ہوں تو بھی ساتھیوں میں ہے

جان بھائی نے طاہر کمانڈوکو خوش ہوتے دیکھا تو عافیت اسی میں سمجھی کہ اجازت لی جائے۔ طاہر بولا جانو ابھی کدھر جاتے ہو، رات کا ایک ہی تو بجا ہے۔ تھوڑا حسینوں کا تذکرہ ہو جائے۔ جان بھائی نے کہا پھر تو اجازت ہو گی۔ وہ ہنسا۔ جان بھائی بولے۔

تم نہیں چاہتے حسین ہونا
چلو اچھا ہے،میک اپ نہیں کرنا

میں کیا ہوں بس دال روٹی
اُس شخص کو شیرمال چاہیے تھا

وہ شوخِ رمیدہ مجھ کو اپنی
پتی کے پان میں نڈھال چاہیے تھا

ہمارے منگیتر کے محلے کی گلی سے
ہمارے حصے کی فیرنی لائی جا رہی ہے

کہاں لذت وہ شور ڈھکن و جستجو میں
یہاں انگلی چھوڑ چمچے سے کھیر کھائی جا رہی ہے

یوں رات کے ایک پہر جان بھائی رکشہ کر کے اپنے گھر پہنچے۔
 
Top