طیاروں کی محفوظ پرواز کے لیے بکرے کا صدقہ

کعنان

محفلین
طیاروں کی محفوظ پرواز کے لیے بکرے کا صدقہ
ایڈیٹوریل، پير 19 دسمبر 2016
684745-pia-1482172505-946-640x480.jpg

یہ اطلاع ملکی اور بین الاقوامی ایوی ایشن حلقوں اور فلائٹ آپریشن کے حوالہ سے بے حد دلچسپی کی حامل ہے کہ پی آئی اے نے اپنے طیارہ اے ٹی آر کی محفوظ پروازکے لیے صدقہ دینا شروع کر دیا ہے اور وہ بھی کالے بکرے کا۔ میڈیا کے مطابق اسلام آباد سے ملتان جانے والی اے ٹی آر طیارے کی پرواز سے پہلے کالے بکرے کا صدقہ دیا گیا تاکہ جہاز اپنی منزل پر خیر وعافیت سے پہنچ جائے، یہ طیارہ حادثے کے بعد پہلا اے ٹی آر تھا جسے کلیئر قرار دے کر فلائٹ آپریشن شروع کیا گیا، جس کے لیے بکرے کا صدقہ اے ٹی آر طیارے کے بحفاظت اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچنے پر دیا گیا۔

دوسری جانب پروازوں کی عدم دستیابی کے باعث پی آئی اے کے مزید 5 طیارے گراؤنڈ کر دیے گئے جن میں ایئر بس اے 320 اور بوئنگ 777 شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حویلیاں کے قریب پیش آنے والے طیارے کے حالیہ دردانگیز سانحہ کے بعد پی آئی اے انتظامیہ کی جانب سے فلائیٹ آپریشن اور انجینئرنگ شعبوں سمیت قومی ایئر لائن کے پورے آپریشنل نظام کی اوورہالنگ کا اعلان کیا جاتا، جہازوں کے باقی فلیٹ کے بارے میں قیاس آرائیوں اور افواہوں کے سدباب کے لیے تکنیکی سطح پر جامع اور نتیجہ خیز تحقیقاتی رپورٹ جلد جاری کی جاتی اور مستقبل میں ایسے سانحات سے تحفظ کے شفاف میکنزم کا یقین دلایا جاتا لیکن اس کے برعکس دنیا کو کالے بکرے کے صدقہ کا عجیب پیغام دیا گیا جو جگ ہنسائی کا باعث بنے گا۔

چنانچہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ یہ روحانی تجویز کس کے ذہن زرخیز کی اختراع تھی کیونکہ اگر اکیسویں صدی میں بھی ہم ایوی ایشن اور جہازوں کی درستگی اور تکنیکی اور مشینی فالٹ کو دور کرنے کے لیے توہم پرستانہ نسخوں پر عمل کرتے رہے تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ آخر کتنے کالے بکرے ملکی سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لیے قربان کرنا پڑیں گے، کیونکہ یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ سانحہ کے بعد بھی آپریشنل صورتحال قابو میں نہیں ہے، پروازوں میں تاخیر ، مسافروں کا عدم اطمینان اور فنی خرابی کی شکایتیں قومی ایئر لائن کے وقار اور عالمی ساکھ کے منافی ہیں، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی ایئر لائن کے لوگو ’’ باکمال لوگ لاجواب سروس‘‘ کی ساکھ کی بحالی ہو اور جہازوں کی منٹیننس اور فالٹ فری پرواز کی یقینیت ہر شک و شبہ سے بالاتر ہونی چاہیے۔

ح
 

کعنان

محفلین
کالے بکروں کی نہیں، کالی بھیڑوں کی قربانی دیجیے
خوشنود زہرا، منگل 20 دسمبر 2016

1267467-copy-1482096769-516-640x480.jpg

اگر قومی ادارہ کالے بکروں کے بجائے اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو
دل پر پتھر رکھ کر صدقہ کر دے تو یہ کالے بکروں کی نسل پر احسان ہوگا۔

یوں تو ہم صدقہ و خیرات پر صدقِ دل سے قائل ہیں اور اس کے ثمرات سے آگاہ بھی، لیکن اِس کے کرامات کا فیض جس انداز میں قومی ائیرلائن نے اٹھایا اُس نے تو بہت سے بدعقیدہ لوگوں کا قبلہ بھی سنوار دیا۔ جدید ٹیکنالوجی کے اخراجات سے بچنے اور پی آئی اے کی ترقی سے جلنے والوں کا منہ کالا کرنے کے لئے کالے بکروں سے بہتر توڑ کیا ہو سکتا ہے؟ اور یقیناً اگر ہم غلطی نہیں کر رہے تو ایوی ایشن کی تاریخ میں اس رسم کے اجراء کا سہرا پی آئی اے کے سر ہی سجے گا، لیکن اگر قومی ادارہ بجائے کالے بکروں کے اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو دل پر پتھر رکھ کر صدقہ کرے تو میرا خیال ہے کہ یہ کالے بکروں کی نسل پر احسان ہو گا۔

قصہ مختصر کریں تو 7 دسمبر کو پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے کو انجن میں خرابی کی وجہ سے حادثہ پیش آیا جس میں جنید جمشید اور ڈی سی او چترال سمیت 47 مسافر پوری قوم کو سوگوار چھوڑ کر کبھی نہ لوٹ کر آنے والے سفر پر روانہ ہو گئے۔ اس واقعہ نے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کی ایوی ایشن انتظامیہ میں ہلچل مچا دی۔ اس خوفناک سانحہ کے بعد ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ حکومت، وزارت ہوا بازی اور اس طیارے کو اڑان کی اجازت دینے والے بااختیار افراد سے دو دو ہاتھ کرتی اور جو اس سانحہ کا ذمہ دار ہے اُس کو ٹھکانے لگاتی لیکن ایسا کچھ نہ ہو سکا اور فرانسیسی تحقیقاتی کمیشن پر ذمہ داری ڈال کر حکومت تو اپنے فرض سے سبکدوش ہو گئی اور جہاں تک بات رہی پی آئی اے انتظامیہ کی تو اُس نے بہترین حل تلاش کرتے ہوئے طیارے کی اڑان سے پہلے سیاہ بکروں کو صدقہ کرنے کا آغاز کر دیا۔

اگر پی آئی اے نے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو یوں ہی پسِ پشت ڈال کر صدقہ کرتی رہی تو سچ پوچھیے تو خدشہ ہوچلا ہے کہ ایسی صورت میں کالے بکرے روئے زمین پر ناپید ہو جائیں گے، کیوںکہ اب تو شاید ہی قومی ائیرلائن کی کوئی ایسی پرواز ہو جس میں کوئی خرابی نہ پائی جاتی ہو۔ کوئی ایک کہانی ہو تو بیان کی جائے، کبھی پرواز میں گھنٹوں کی تاخیر، کبھی مسافر ائیرپورٹ پر رات گزارنے پر مجبور، کبھی پرواز مسافر لے گئی تو سامان چھوڑ گئی، کبھی دوران پرواز مسافر بھوکے رہے تو کبھی مسافروں کو باسی اور ناقص غذا کھانے کو پیش کر دی۔ اس کا سیدھا حل خصوصاً پی آئی اے کے مالی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہی تھا کہ غلطیوں کے کفارے کے طور پر بکروں کو ذبح کرنے کے بجائے لاپرواہ، بدعنوان اور 47 افراد کی موت کے براہ راست ذمہ دار افراد کو نکال باہر کیا جائے۔

ویسے تو یہ بھی عین ممکن ہے کہ پی آئی اے انتظامیہ باسی کھانوں کے آرڈر ہوٹل سے کینسل کر دے اور عوام کے ادا کی گئی رقوم سے بکرے خرید کر بخیر و عافیت پرواز کی نیت سے صدقہ کرے اور پھر اسی تازہ مٹن سے تیار کردہ سوپ اور پلاؤ سے مسافروں کی خاطر مدارات بھی کی جائے۔ اس طرح باکمال لوگ اپنی لاجواب سروس کی بدولت ایک تیر سے دو شکار بھی نبٹالیں گے۔

حالات کا تقاضہ تو یہی ہے کہ رویا جائے مگر اداروں کی حرکتوں نے ہر ہر معاملہ کو غیر سنجیدہ رنگ دے دیا ہے۔ لیکن ہم کوشش کرتے ہیں کہ اب کچھ سنجیدگی سی بات کر لیں۔ تو بنیادی طور سوال تو یہ ہے کہ 13 دن گزر جانے کے باوجود بھی آخر حکومت نے اس معاملے میں آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں؟ کیوں جدید ٹیکنالوجی اپنانے کے بجائے اپنی خامیوں کو صدقے کے جانور کے خون سے دھونے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ اگر طیارے ناقص ہیں تو انہیں گراؤنڈ کرنے کے بجائے کیوں پرواز کی اجازت دی گئی؟ شاید وہ یہی معاملات تھے جن کے سدھار کیلئے حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کیا تھا اور اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے والے تین ملازمین انجانی گولیوں کا نشانہ بن گئے تھے، جن کے قاتل بھی اب تک نامعلوم ہی ہیں، البتہ اگر نجکاری کا مقصد ادارے کی ساکھ بحال کر کے منافع خوری اور عوامی مفاد نہ ہو بلکہ پھر ذاتی مفاد ہو تو بات دیگر ہے۔ یہ بات یہاں اِس لیے کہی جا رہی ہے کہ اب تک جتنے بھی اداروں کی نجکاری ہوئی ہے اُن کے نزدیک عوام کو سہولت دینے سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے، بات پھر چاہے کے الیکٹرک کی ہو یا پی ٹی سی ایل کی۔

خدارا! ذرا تو ہوش مندی کا مظاہرہ کیجئے، دوا چھوڑ کر محض دعا پر بھروسہ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ بکروں کا صدقہ اپنی جگہ لیکن اُس کے ساتھ پی آئی اے طیارے حادثے کی فی الفور تحقیقات اور کارروائی کے ساتھ ایوی ایشن کے جدید تقاضوں کو اپنائیے اور طیاروں کی مینٹینس کو اولین ترجیح دیجئے۔ مسافر کی جان کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے، مسافروں کو اُن کے منزل پر پہنچائیے نہ کہ آخری آرام گاہ۔

نوٹ: بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

ح
 

حسیب

محفلین
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ۔۔۔
۔۔۔۔
1pgzso.png
یہ خبر سچی ہے؟؟؟؟؟؟
مجھے تو سچی خبر نہیں لگ رہی۔ کیونکہ جہاز کا روٹ فکس ہوتا ہے اور جہازوں کو ریڈار پہ چیک بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی جہاز روٹ سے ہٹے فورا پتا چل جاتا ہے۔ اور ویسے بھی کسی ملک میں لینڈنگ کے لیے بھی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ۔۔۔

یہ خبر سچی ہے؟؟؟؟؟؟
مجھے تو سچی خبر نہیں لگ رہی۔ کیونکہ جہاز کا روٹ فکس ہوتا ہے اور جہازوں کو ریڈار پہ چیک بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی جہاز روٹ سے ہٹے فورا پتا چل جاتا ہے۔ اور ویسے بھی کسی ملک میں لینڈنگ کے لیے بھی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے

جی یہ خبر درست ہے، یہاں سے آپ چیک کر سکتے ہیں اور کچھ مسافروں اور ان کے گھر والوں کی طرف سے کمنٹس بھی۔ رپورٹر نے شائد اسے دلچسپی کے لئے اضافی الفاظ کا شمار کیا، حسیب صاحب نے درست فرمایا، اس پر اجازت کے ساتھ ہی اس کا رخ موڑا گیا ہو گا۔

2akeg61.png

والسلام
 
آخری تدوین:
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ۔۔۔
۔۔۔۔
1pgzso.png

یہ خبر سچی ہے؟؟؟؟؟؟
مجھے تو سچی خبر نہیں لگ رہی۔ کیونکہ جہاز کا روٹ فکس ہوتا ہے اور جہازوں کو ریڈار پہ چیک بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی جہاز روٹ سے ہٹے فورا پتا چل جاتا ہے۔ اور ویسے بھی کسی ملک میں لینڈنگ کے لیے بھی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے

السلام علیکم





جی یہ خبر درست ہے، یہاں سے آپ چیک کر سکتے ہیں اور کچھ مسافروں اور ان کے گھر والوں کی طرف سے کمنٹس بھی۔ رپورٹر نے شائد اسے دلچسپی کے لئے اضافی الفاظ کا شمار کیا، حسیب صاحب نے درست فرمایا، اس پر اجازت کے ساتھ ہی اس کا رخ موڑا گیا ہو گا۔

2akeg61.png

والسلام
سول ایوی ایشن نے اس پر ایک وضاحت بھی جاری کی تھی شاید وہ کسی کی نظر سے نہیں گزر سکی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جہاز کو پانی میں اتارتے ہوئے شراب کی بوتل توڑنا بہت سائنسی عمل ہے
اور کسی کے پیچھے ہاتھ، شراب سے نہیں بلکہ عرقِ گلاب سے، دھو کر پڑ جانا تو ایک اخلاقی فعل و عمل ہے۔
اس قول کی زیادہ تر دوستوں کی سمجھ نہیں آئے گی لیکن حقدار تک حق پہنچ جائے گا :)
 

محمد وارث

لائبریرین
میں کئی دنوں تک اس قربانی والی تصویر کر نقلی اور فوٹو شاپ کا کرشمہ سمجھتا رہا، یا للعجب، اب اداروں کو صدقے کے بکرے کی قربانیوں سے چلائیں گے۔ صدقے اور قربانی کی ایک اپنی شرعی حیثیت ہے اور جہازوں کے حادثے بھی کم ازکم انوکھے یا نادر نہیں ہیں۔ حادثے ہوتے رہتے ہیں ہر طرح کی احتیاط اور اعلیٰ ترین پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے باوجود لیکن پی آئی اے کےحالیہ حادثے کی خبر جس جس نے دیکھی ہے وہ وہ جانتا ہے کہ واللہ صرف ان بکروں کو قربان کر کے ان حادثات کو نہیں ٹالا جا سکتا۔
 
اور کسی کے پیچھے ہاتھ، شراب سے نہیں بلکہ عرقِ گلاب سے، دھو کر پڑ جانا تو ایک اخلاقی فعل و عمل ہے۔
اس قول کی زیادہ تر دوستوں کی سمجھ نہیں آئے گی لیکن حقدار تک حق پہنچ جائے گا :)

احترام و عزت کو آپ پیچھے پڑ جانا کہتے ہیں
 

arifkarim

معطل
میں کئی دنوں تک اس قربانی والی تصویر کر نقلی اور فوٹو شاپ کا کرشمہ سمجھتا رہا، یا للعجب، اب اداروں کو صدقے کے بکرے کی قربانیوں سے چلائیں گے۔ صدقے اور قربانی کی ایک اپنی شرعی حیثیت ہے اور جہازوں کے حادثے بھی کم ازکم انوکھے یا نادر نہیں ہیں۔ حادثے ہوتے رہتے ہیں ہر طرح کی احتیاط اور اعلیٰ ترین پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے باوجود لیکن پی آئی اے کےحالیہ حادثے کی خبر جس جس نے دیکھی ہے وہ وہ جانتا ہے کہ واللہ صرف ان بکروں کو قربان کر کے ان حادثات کو نہیں ٹالا جا سکتا۔
وہ فوٹوشاپ یہ رہی:
15542224_10209499093566689_6549865334808236246_n.jpg
 
Top