محمد وارث

لائبریرین
فارسی کے "طُوطی" کے کیا معنی ہیں؟
آپ کا نکتہ بھی اچھا ہے کہ اگر فارسی طوطی ہمارا طوطا ہی ہے تو فارسی والے اسے طوے سے کیوں لکھتے ہیں۔ کیونکہ طوے عربی حرف ہے اور عربی ت اور ط کے تلفظ میں فرق کرتے ہیں لیکن فارسی اور اردو میں میں ت اور ط کی آواز قریب ایک ہی ہے ۔ سو فارسیوں کی کیا مجبوری ہے کہ وہ طوطی کو طوے سے لکھتے ہیں، "توتی" کیوں نہیں لکھتے۔ایک زمانے میں ایران میں عربی الفاظ اور حروف کے خلاف اور فارسی کو غیر ضروری عربی الفاظ سے پاک کرنے کی تحریک بہت شد و مد سے چلی تھی لیکن "طوطی" اپنی طوے بچا گیا ۔ تو کیا اردو والوں نے املا میں فارسی کا تتبع کیا ہے؟
 

زیک

مسافر
آپ کا نکتہ بھی اچھا ہے کہ اگر فارسی طوطی ہمارا طوطا ہی ہے تو فارسی والے اسے طوے سے کیوں لکھتے ہیں۔ کیونکہ طوے عربی حرف ہے اور عربی ت اور ط کے تلفظ میں فرق کرتے ہیں لیکن فارسی اور اردو میں میں ت اور ط کی آواز قریب ایک ہی ہے ۔ سو فارسیوں کی کیا مجبوری ہے کہ وہ طوطی کو طوے سے لکھتے ہیں، "توتی" کیوں نہیں لکھتے۔ایک زمانے میں ایران میں عربی الفاظ اور حروف کے خلاف اور فارسی کو غیر ضروری عربی الفاظ سے پاک کرنے کی تحریک بہت شد و مد سے چلی تھی لیکن "طوطی" اپنی طوے بچا گیا ۔ تو کیا اردو والوں نے املا میں فارسی کا تتبع کیا ہے؟
چند اور سوالات بھی اٹھتے ہیں۔ توتے، طوطی یا طوطی بر صغیر میں تو پائے جاتے ہیں لیکن عرب اور ایران و توران میں نہیں۔ پھر یہ کہ عربی میں توتے کو ببغاء کہتے ہیں جو یونانی سے ماخوذ لگتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بر صغیر سے توتا فارسی میں جاتے ہوئے عربی اثر کے تحت طوطی ہو گیا؟
 

فاتح

لائبریرین
چند اور سوالات بھی اٹھتے ہیں۔ توتے، طوطی یا طوطی بر صغیر میں تو پائے جاتے ہیں لیکن عرب اور ایران و توران میں نہیں۔ پھر یہ کہ عربی میں توتے کو ببغاء کہتے ہیں جو یونانی سے ماخوذ لگتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بر صغیر سے توتا فارسی میں جاتے ہوئے عربی اثر کے تحت طوطی ہو گیا؟
طوطی .
(اِ) ۞ پرنده ای است سبزرنگ از طایفه ٔ پسیتاسیده .
۞ و بمناسبت سهولت تقلید آوای آدمی قابل ملاحظه است .
طوطیان عموماً در نواحی گرم و رطوبی افریقا و هند زیست میکنند.
ببغاء.
طوطک .
معرب توته ٔ هندی است .
معنی طوطی | لغت نامه دهخدا
آپ کی بات میں وزن ہے۔۔۔ لغت نامہ دہخدا میں طوطی کے ترجمے کی ذیل میں سرخ عبارت کو میں فارسی سے لا علم ہونے کے باعث جس حد تک سمجھ سکا ہوں اس کا مطلب یہی سمجھا ہوں کہ طوطا ہندوستان اور افریقا سے آیا ہے اور "ہندی توتے کی عربی شکل طوطی ہے"۔
لیکن بقول وارث صاحب ایران میں چلنے والی فارسی کو عربی الفاظ و حروف سے پاک کرنے کی تحریک میں بھی کسی نہ کسی طرح
"طوطی" اپنی طوے بچا گیا۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
صحتِ زباں: توتی یا طوطی!
(ڈاکٹر روؤف پاریکھ)

کچھ عرصے قبل انہی کالموں میں لفظ’’ توتا ‘‘کا ذکر چلا تھا اور ہم نے عرض کیا تھا کہ ہرے رنگ کے اس پرندے کا درست املا ’’ت ‘‘ سے توتا ہے اور اس کو’’ط ‘‘ سے طوطا لکھنا غلط ہے اگرچہ یہ غلط املا یعنی طو ئے (ط) سے طوطا اردو میں بہت زیادہ رائج ہے۔ بقول رشید حسن خاں ، اردو کے اہم لغت نگاروں نے وضاحت کردی ہے کہ ’’طوطا‘‘ غلط املا ہے اور اس کو ہمیشہ ’’توتا‘‘ لکھنا چاہیے۔ (اردو املا،ص۱۳۱)۔

اس پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر طوطی کا کیا ہوگا ؟یعنی اگر لفظ توتا درست ہے اور اس کی مونث توتی ہوگی ، تو پھراردو کے محاورے ’’طوطی بولنا ‘‘کا کیا ہوگا؟ اسے توتی بولنا(ت سے ) لکھا جائے گایا طوطی بولنا (ط سے)؟ اسی طرح’’ نقار خانے میں توتی(ت سے) کی آوازکون سنتا ہے ‘‘لکھا جائے گا یا


’’ نقار خانے میں طوطی (ط سے) کی آواز کون سنتا ہے‘‘ لکھنا چاہیے؟ نیز یہ کہ توتی؍طوطی بولتی ہے یا توتی؍طوطی بولتا ہے میں سے کون سا استعمال درست ہے؟

عرض ہے کہ اردو کی متداول لغات میں اس ضمن میں دومختلف الفاظ درج ہیں۔ سبز رنگ کے پرندے کے مفہوم میںایک لفظ ’’توتا ‘‘ ہے (تے سے ) اور اس کی تانیث کے طور پر ’’توتی‘‘ (تے سے )کا لفظ رائج ہے۔ البتہ جو لوگ توتا کو طوئے سے طوطا لکھنے پر(غلط طور پر) اصرار کرتے ہیں وہ اس کی تانیث کوتوتی(تے سے ) نہیں بلکہ طوطی (طوئے سے )لکھتے ہیں ۔

لیکن ایک دوسرا لفظ بھی لغات میں درج ہے اوریہ طُوطی یا تُوتی ہے جوہرے رنگ کے پرندے یعنی توتا کی تانیث نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک بالکل الگ لفظ ہے اور اس کا تلفظ بھی الگ ہے۔فرہنگ ِ آصفیہ میں’’ توُتی ‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک ’’خوش آواز چھوٹی سی سبز یا سرخ رنگ کی چڑیا کا نام ہے جو تُوت کے موسم میں اکثر دکھائی دیتی اور شہتُوت کمال رغبت سے کھاتی ہے ، چنانچہ اسی وجہ سے اس کا نام تُوتی رکھا گیا ۔ اہل ِدہلی ا س کو مذکر بولتے ہیں گو بقاعدۂ اردو تانیث ہے۔ فارسی والے توتے کو بھی طُوطی کہتے ہیں۔‘‘ گویا’’تُوتی‘‘ایک الگ پرندہ ہے جس کا تلفظ تُو تی ہے یعنی اس میں واو معروف ہے اور اسے واو ِمجہول سے یعنی ’’موتی ‘‘ یا ’’دھوتی‘‘ کی طرح نہیں بلکہ واو معروف سے یعنی ’’جُوتی ‘‘کی طرح بولنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ تُوتی ( جُوتی کا قافیہ)مونث نہیں ہے اور اسے مذکر ہی کے طور پر برتا جاتا ہے ، جیسے اس میدان میں فلاں صاحب کا ’’تُوتی بولتا ہے‘‘(نا کہ تُوتی بولتی ہے ) ۔ البتہ اس کا ایک املا طوئے سے یعنی طُوطی بھی درست مانا جاتا ہے یعنی ’’طُوطی بولتا ہے‘‘ بھی درست ہے۔

اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ مولوی سید احمد دہلوی نے اپنی کتاب ’’محاکمۂ مرکز ِ اردو ‘‘ کے علاوہ اپنی لغت ’’فرہنگِ آصفیہ ‘‘ میں بھی درج کیا ہے۔جسے ہم مختصراً پیش کرتے ہیں۔واقعہ یوں ہے کہ استاد ابراہیم ذوق دہلوی نے ایک لکھنوی شاعر کی زمین میں غزل کہی جس میں ایک شعر یہ بھی تھا:

ہے قفس سے شور اک گلشن تلک فریاد کا

خوب طُوطی بولتا ہے ان دنوں صیاد کا

ایک لکھنوی شاعر نے سن کر اعتراض کیا کہ آپ نے طوطی کو مذکر باندھا ہے حالانکہ اس میں یاے معروف (یعنی چھوٹی ی)علامت ِ تانیث موجود ہے۔ ذوق نے کہا کہ محاورے میں توتی مذکر ہی ہے اورمحاورے میں کسی کا اجارہ نہیں ہوتا۔اور پھرانھیں اپنے ساتھ دہلی کی جامع مسجد کے قریب لگنے والے پرندوں کے بازار میں لے گئے ۔ ایک دہلی والے صاحب طوطی کا پنجرہ لیے آرہے تھے ۔ لکھنوی شاعر نے پوچھا ’’بھیا تمھاری طوطی کیسی بولتی ہے؟‘‘اس دہلوی نے جواب دیا ’’میاں تمھاری بولتی ہوگی، یاروں کا طوطی تو خوب بولتا ہے ‘‘۔لکھنوی شاعر بہت خفیف ہوئے اور اپنا سا منھ لے کر رہ گئے۔ گویاتُوتی بولنا یا طُوطی بولنا محاورہ ہے لیکن اس میں جو پرندہ ہے وہ مذکر ہے اوریہاںیہ لفظ توتا (یا طوطا ) کی مونث کے طور پر نہیں آتا ۔ اس لیے یوں کہا جائے گا کہ ان کا تُوتی بولتا ہے اور نقار خانے میں تُوتی(مذکر ) کی آواز کون سنتا ہے۔

فرہنگ ِ آصفیہ میں تُوتی بولنا اورتُوتی کی آواز نقار خانے میں کون سنتا ہے جیسے اندراجات میں تُوتی کو تے(ت) سے توتی لکھا ہے ۔ گویا صاحب ِ فرہنگ ِآصفیہ اس کے املے میں’’ ط‘‘ کو نہیں بلکہ ’’ت ‘‘کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہاں البتہ صاحب ِ فرہنگ ِ آصفیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ چونکہ فارسی میں اس کا املا معرّب ہوگیا ہے لہٰذا اسے طوطی (ط سے )لکھنا بھی جائز ہے۔اثر لکھنوی نے ’’فرہنگ ِ اثر ‘‘ میں لکھا ہے کہ توتی ؍طوطی بولنا میں تذکیر کے ضمن میںدہلی کی تخصیص نہیں ہے ،’’ لکھنؤ میں بھی بلا تفریق مذکر ہے ‘‘ (جلد چہارم، مقتدرہ قومی زبان، ص ۲۷۷)اور پھر سحرؔ اور برقؔ(جو لکھنوی شعرا تھے) کے اشعار مذکر کی سند کے طور پر دیے ہیں۔

اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ:

۱۔ توتا کی مونث توتی ہے اور اس کا تلفظ واو مجہول سے یعنی موتی اور دھوتی کی طرح ہے ۔

۲۔ لیکن تُوتی ایک الگ پرندہ ہے جس کا تلفظ واو معروف سے یعنی جُو تی کی طرح ہے۔

۳۔ تُوتی کامعرب املا طُوطی بھی ہے جو فارسی میں بھی رائج ہے۔

۴۔ اگرچہ طُوطی یا تُوتی ایک قسم کی چڑیا کا نام ہے لیکن اردو میں اسے مذکر ہی بولا جاتا ہے ۔ اسی لیے درست محاورہ ہوگا طُوطی (یا تُوتی) بولتا ہے۔
 

زیک

مسافر
صحتِ زباں: توتی یا طوطی!
(ڈاکٹر روؤف پاریکھ)

کچھ عرصے قبل انہی کالموں میں لفظ’’ توتا ‘‘کا ذکر چلا تھا اور ہم نے عرض کیا تھا کہ ہرے رنگ کے اس پرندے کا درست املا ’’ت ‘‘ سے توتا ہے اور اس کو’’ط ‘‘ سے طوطا لکھنا غلط ہے اگرچہ یہ غلط املا یعنی طو ئے (ط) سے طوطا اردو میں بہت زیادہ رائج ہے۔ بقول رشید حسن خاں ، اردو کے اہم لغت نگاروں نے وضاحت کردی ہے کہ ’’طوطا‘‘ غلط املا ہے اور اس کو ہمیشہ ’’توتا‘‘ لکھنا چاہیے۔ (اردو املا،ص۱۳۱)۔

اس پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر طوطی کا کیا ہوگا ؟یعنی اگر لفظ توتا درست ہے اور اس کی مونث توتی ہوگی ، تو پھراردو کے محاورے ’’طوطی بولنا ‘‘کا کیا ہوگا؟ اسے توتی بولنا(ت سے ) لکھا جائے گایا طوطی بولنا (ط سے)؟ اسی طرح’’ نقار خانے میں توتی(ت سے) کی آوازکون سنتا ہے ‘‘لکھا جائے گا یا


’’ نقار خانے میں طوطی (ط سے) کی آواز کون سنتا ہے‘‘ لکھنا چاہیے؟ نیز یہ کہ توتی؍طوطی بولتی ہے یا توتی؍طوطی بولتا ہے میں سے کون سا استعمال درست ہے؟

عرض ہے کہ اردو کی متداول لغات میں اس ضمن میں دومختلف الفاظ درج ہیں۔ سبز رنگ کے پرندے کے مفہوم میںایک لفظ ’’توتا ‘‘ ہے (تے سے ) اور اس کی تانیث کے طور پر ’’توتی‘‘ (تے سے )کا لفظ رائج ہے۔ البتہ جو لوگ توتا کو طوئے سے طوطا لکھنے پر(غلط طور پر) اصرار کرتے ہیں وہ اس کی تانیث کوتوتی(تے سے ) نہیں بلکہ طوطی (طوئے سے )لکھتے ہیں ۔

لیکن ایک دوسرا لفظ بھی لغات میں درج ہے اوریہ طُوطی یا تُوتی ہے جوہرے رنگ کے پرندے یعنی توتا کی تانیث نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک بالکل الگ لفظ ہے اور اس کا تلفظ بھی الگ ہے۔فرہنگ ِ آصفیہ میں’’ توُتی ‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک ’’خوش آواز چھوٹی سی سبز یا سرخ رنگ کی چڑیا کا نام ہے جو تُوت کے موسم میں اکثر دکھائی دیتی اور شہتُوت کمال رغبت سے کھاتی ہے ، چنانچہ اسی وجہ سے اس کا نام تُوتی رکھا گیا ۔ اہل ِدہلی ا س کو مذکر بولتے ہیں گو بقاعدۂ اردو تانیث ہے۔ فارسی والے توتے کو بھی طُوطی کہتے ہیں۔‘‘ گویا’’تُوتی‘‘ایک الگ پرندہ ہے جس کا تلفظ تُو تی ہے یعنی اس میں واو معروف ہے اور اسے واو ِمجہول سے یعنی ’’موتی ‘‘ یا ’’دھوتی‘‘ کی طرح نہیں بلکہ واو معروف سے یعنی ’’جُوتی ‘‘کی طرح بولنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ تُوتی ( جُوتی کا قافیہ)مونث نہیں ہے اور اسے مذکر ہی کے طور پر برتا جاتا ہے ، جیسے اس میدان میں فلاں صاحب کا ’’تُوتی بولتا ہے‘‘(نا کہ تُوتی بولتی ہے ) ۔ البتہ اس کا ایک املا طوئے سے یعنی طُوطی بھی درست مانا جاتا ہے یعنی ’’طُوطی بولتا ہے‘‘ بھی درست ہے۔

اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ مولوی سید احمد دہلوی نے اپنی کتاب ’’محاکمۂ مرکز ِ اردو ‘‘ کے علاوہ اپنی لغت ’’فرہنگِ آصفیہ ‘‘ میں بھی درج کیا ہے۔جسے ہم مختصراً پیش کرتے ہیں۔واقعہ یوں ہے کہ استاد ابراہیم ذوق دہلوی نے ایک لکھنوی شاعر کی زمین میں غزل کہی جس میں ایک شعر یہ بھی تھا:

ہے قفس سے شور اک گلشن تلک فریاد کا

خوب طُوطی بولتا ہے ان دنوں صیاد کا

ایک لکھنوی شاعر نے سن کر اعتراض کیا کہ آپ نے طوطی کو مذکر باندھا ہے حالانکہ اس میں یاے معروف (یعنی چھوٹی ی)علامت ِ تانیث موجود ہے۔ ذوق نے کہا کہ محاورے میں توتی مذکر ہی ہے اورمحاورے میں کسی کا اجارہ نہیں ہوتا۔اور پھرانھیں اپنے ساتھ دہلی کی جامع مسجد کے قریب لگنے والے پرندوں کے بازار میں لے گئے ۔ ایک دہلی والے صاحب طوطی کا پنجرہ لیے آرہے تھے ۔ لکھنوی شاعر نے پوچھا ’’بھیا تمھاری طوطی کیسی بولتی ہے؟‘‘اس دہلوی نے جواب دیا ’’میاں تمھاری بولتی ہوگی، یاروں کا طوطی تو خوب بولتا ہے ‘‘۔لکھنوی شاعر بہت خفیف ہوئے اور اپنا سا منھ لے کر رہ گئے۔ گویاتُوتی بولنا یا طُوطی بولنا محاورہ ہے لیکن اس میں جو پرندہ ہے وہ مذکر ہے اوریہاںیہ لفظ توتا (یا طوطا ) کی مونث کے طور پر نہیں آتا ۔ اس لیے یوں کہا جائے گا کہ ان کا تُوتی بولتا ہے اور نقار خانے میں تُوتی(مذکر ) کی آواز کون سنتا ہے۔

فرہنگ ِ آصفیہ میں تُوتی بولنا اورتُوتی کی آواز نقار خانے میں کون سنتا ہے جیسے اندراجات میں تُوتی کو تے(ت) سے توتی لکھا ہے ۔ گویا صاحب ِ فرہنگ ِآصفیہ اس کے املے میں’’ ط‘‘ کو نہیں بلکہ ’’ت ‘‘کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہاں البتہ صاحب ِ فرہنگ ِ آصفیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ چونکہ فارسی میں اس کا املا معرّب ہوگیا ہے لہٰذا اسے طوطی (ط سے )لکھنا بھی جائز ہے۔اثر لکھنوی نے ’’فرہنگ ِ اثر ‘‘ میں لکھا ہے کہ توتی ؍طوطی بولنا میں تذکیر کے ضمن میںدہلی کی تخصیص نہیں ہے ،’’ لکھنؤ میں بھی بلا تفریق مذکر ہے ‘‘ (جلد چہارم، مقتدرہ قومی زبان، ص ۲۷۷)اور پھر سحرؔ اور برقؔ(جو لکھنوی شعرا تھے) کے اشعار مذکر کی سند کے طور پر دیے ہیں۔

اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ:

۱۔ توتا کی مونث توتی ہے اور اس کا تلفظ واو مجہول سے یعنی موتی اور دھوتی کی طرح ہے ۔

۲۔ لیکن تُوتی ایک الگ پرندہ ہے جس کا تلفظ واو معروف سے یعنی جُو تی کی طرح ہے۔

۳۔ تُوتی کامعرب املا طُوطی بھی ہے جو فارسی میں بھی رائج ہے۔

۴۔ اگرچہ طُوطی یا تُوتی ایک قسم کی چڑیا کا نام ہے لیکن اردو میں اسے مذکر ہی بولا جاتا ہے ۔ اسی لیے درست محاورہ ہوگا طُوطی (یا تُوتی) بولتا ہے۔
اور یہ تُوتی یا طُوطی کونسا پرندہ ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
صحتِ زباں: توتی یا طوطی!
(ڈاکٹر روؤف پاریکھ)

کچھ عرصے قبل انہی کالموں میں لفظ’’ توتا ‘‘کا ذکر چلا تھا اور ہم نے عرض کیا تھا کہ ہرے رنگ کے اس پرندے کا درست املا ’’ت ‘‘ سے توتا ہے اور اس کو’’ط ‘‘ سے طوطا لکھنا غلط ہے اگرچہ یہ غلط املا یعنی طو ئے (ط) سے طوطا اردو میں بہت زیادہ رائج ہے۔ بقول رشید حسن خاں ، اردو کے اہم لغت نگاروں نے وضاحت کردی ہے کہ ’’طوطا‘‘ غلط املا ہے اور اس کو ہمیشہ ’’توتا‘‘ لکھنا چاہیے۔ (اردو املا،ص۱۳۱)۔

اس پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر طوطی کا کیا ہوگا ؟یعنی اگر لفظ توتا درست ہے اور اس کی مونث توتی ہوگی ، تو پھراردو کے محاورے ’’طوطی بولنا ‘‘کا کیا ہوگا؟ اسے توتی بولنا(ت سے ) لکھا جائے گایا طوطی بولنا (ط سے)؟ اسی طرح’’ نقار خانے میں توتی(ت سے) کی آوازکون سنتا ہے ‘‘لکھا جائے گا یا


’’ نقار خانے میں طوطی (ط سے) کی آواز کون سنتا ہے‘‘ لکھنا چاہیے؟ نیز یہ کہ توتی؍طوطی بولتی ہے یا توتی؍طوطی بولتا ہے میں سے کون سا استعمال درست ہے؟

عرض ہے کہ اردو کی متداول لغات میں اس ضمن میں دومختلف الفاظ درج ہیں۔ سبز رنگ کے پرندے کے مفہوم میںایک لفظ ’’توتا ‘‘ ہے (تے سے ) اور اس کی تانیث کے طور پر ’’توتی‘‘ (تے سے )کا لفظ رائج ہے۔ البتہ جو لوگ توتا کو طوئے سے طوطا لکھنے پر(غلط طور پر) اصرار کرتے ہیں وہ اس کی تانیث کوتوتی(تے سے ) نہیں بلکہ طوطی (طوئے سے )لکھتے ہیں ۔

لیکن ایک دوسرا لفظ بھی لغات میں درج ہے اوریہ طُوطی یا تُوتی ہے جوہرے رنگ کے پرندے یعنی توتا کی تانیث نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک بالکل الگ لفظ ہے اور اس کا تلفظ بھی الگ ہے۔فرہنگ ِ آصفیہ میں’’ توُتی ‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک ’’خوش آواز چھوٹی سی سبز یا سرخ رنگ کی چڑیا کا نام ہے جو تُوت کے موسم میں اکثر دکھائی دیتی اور شہتُوت کمال رغبت سے کھاتی ہے ، چنانچہ اسی وجہ سے اس کا نام تُوتی رکھا گیا ۔ اہل ِدہلی ا س کو مذکر بولتے ہیں گو بقاعدۂ اردو تانیث ہے۔ فارسی والے توتے کو بھی طُوطی کہتے ہیں۔‘‘ گویا’’تُوتی‘‘ایک الگ پرندہ ہے جس کا تلفظ تُو تی ہے یعنی اس میں واو معروف ہے اور اسے واو ِمجہول سے یعنی ’’موتی ‘‘ یا ’’دھوتی‘‘ کی طرح نہیں بلکہ واو معروف سے یعنی ’’جُوتی ‘‘کی طرح بولنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ تُوتی ( جُوتی کا قافیہ)مونث نہیں ہے اور اسے مذکر ہی کے طور پر برتا جاتا ہے ، جیسے اس میدان میں فلاں صاحب کا ’’تُوتی بولتا ہے‘‘(نا کہ تُوتی بولتی ہے ) ۔ البتہ اس کا ایک املا طوئے سے یعنی طُوطی بھی درست مانا جاتا ہے یعنی ’’طُوطی بولتا ہے‘‘ بھی درست ہے۔

اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ مولوی سید احمد دہلوی نے اپنی کتاب ’’محاکمۂ مرکز ِ اردو ‘‘ کے علاوہ اپنی لغت ’’فرہنگِ آصفیہ ‘‘ میں بھی درج کیا ہے۔جسے ہم مختصراً پیش کرتے ہیں۔واقعہ یوں ہے کہ استاد ابراہیم ذوق دہلوی نے ایک لکھنوی شاعر کی زمین میں غزل کہی جس میں ایک شعر یہ بھی تھا:

ہے قفس سے شور اک گلشن تلک فریاد کا

خوب طُوطی بولتا ہے ان دنوں صیاد کا

ایک لکھنوی شاعر نے سن کر اعتراض کیا کہ آپ نے طوطی کو مذکر باندھا ہے حالانکہ اس میں یاے معروف (یعنی چھوٹی ی)علامت ِ تانیث موجود ہے۔ ذوق نے کہا کہ محاورے میں توتی مذکر ہی ہے اورمحاورے میں کسی کا اجارہ نہیں ہوتا۔اور پھرانھیں اپنے ساتھ دہلی کی جامع مسجد کے قریب لگنے والے پرندوں کے بازار میں لے گئے ۔ ایک دہلی والے صاحب طوطی کا پنجرہ لیے آرہے تھے ۔ لکھنوی شاعر نے پوچھا ’’بھیا تمھاری طوطی کیسی بولتی ہے؟‘‘اس دہلوی نے جواب دیا ’’میاں تمھاری بولتی ہوگی، یاروں کا طوطی تو خوب بولتا ہے ‘‘۔لکھنوی شاعر بہت خفیف ہوئے اور اپنا سا منھ لے کر رہ گئے۔ گویاتُوتی بولنا یا طُوطی بولنا محاورہ ہے لیکن اس میں جو پرندہ ہے وہ مذکر ہے اوریہاںیہ لفظ توتا (یا طوطا ) کی مونث کے طور پر نہیں آتا ۔ اس لیے یوں کہا جائے گا کہ ان کا تُوتی بولتا ہے اور نقار خانے میں تُوتی(مذکر ) کی آواز کون سنتا ہے۔

فرہنگ ِ آصفیہ میں تُوتی بولنا اورتُوتی کی آواز نقار خانے میں کون سنتا ہے جیسے اندراجات میں تُوتی کو تے(ت) سے توتی لکھا ہے ۔ گویا صاحب ِ فرہنگ ِآصفیہ اس کے املے میں’’ ط‘‘ کو نہیں بلکہ ’’ت ‘‘کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہاں البتہ صاحب ِ فرہنگ ِ آصفیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ چونکہ فارسی میں اس کا املا معرّب ہوگیا ہے لہٰذا اسے طوطی (ط سے )لکھنا بھی جائز ہے۔اثر لکھنوی نے ’’فرہنگ ِ اثر ‘‘ میں لکھا ہے کہ توتی ؍طوطی بولنا میں تذکیر کے ضمن میںدہلی کی تخصیص نہیں ہے ،’’ لکھنؤ میں بھی بلا تفریق مذکر ہے ‘‘ (جلد چہارم، مقتدرہ قومی زبان، ص ۲۷۷)اور پھر سحرؔ اور برقؔ(جو لکھنوی شعرا تھے) کے اشعار مذکر کی سند کے طور پر دیے ہیں۔

اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ:

۱۔ توتا کی مونث توتی ہے اور اس کا تلفظ واو مجہول سے یعنی موتی اور دھوتی کی طرح ہے ۔

۲۔ لیکن تُوتی ایک الگ پرندہ ہے جس کا تلفظ واو معروف سے یعنی جُو تی کی طرح ہے۔

۳۔ تُوتی کامعرب املا طُوطی بھی ہے جو فارسی میں بھی رائج ہے۔

۴۔ اگرچہ طُوطی یا تُوتی ایک قسم کی چڑیا کا نام ہے لیکن اردو میں اسے مذکر ہی بولا جاتا ہے ۔ اسی لیے درست محاورہ ہوگا طُوطی (یا تُوتی) بولتا ہے۔
اس سب سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ طوطا طوے سے لکھ بھی لیں تو کچھ حرج نہیں۔ اسی ہرے پرندے یعنی ہمارے طوطے کو ایرانی بھی طوطی کہہ کر طوے سے لکھتے ہیں۔ یہ فارسی ویکیپیڈیا کا ربط ہے، ظاہر ہے اہلِ زبان ہی نے مرتب کیا ہوگا، اس میں طوطی کے ذیل میں اسی "پییرٹ" کا ذکر ہے اور اسی کی تصویر ہے۔ اور یہ بھی درج ہے کہ توتی کا معرب طوطی ہے لیکن پرندہ یہی سبز ہے۔ یہ بھی لکھا ہے اردو اور ہندی میں اسے "طوطا" کہتے ہیں۔
طوطی - ویکی‌پدیا، دانشنامهٔ آزاد
 

سید عاطف علی

لائبریرین
توتا ہمارا مر گیا کیا بولتا ہوا۔
فساہءعجائب۔از۔ رجب علی بیگ سرور۔
بن گیا آدمی سے طوطا۔
گلزار نسیم۔ از۔ دیا شنکر نسیم۔
پہلے توتا ت سے ہوتا تھا لیکن اب اس کی معیاری کتابت طوطا ہی ہے۔
رجن علی بیگ کی فسانہ میں ت کا املا ہے جبکہ دیا شنکر نسیم میں اور دیگر جدید کتب میں غالبا ط سے ہی مکتوب ہے ۔ اور اب ط ہی مقبول ہے۔ البتہ قدیم اسلوب کی بنیاد پر ت کو یکسر غلط کہنا بھی مناسب نہیں ۔
 

زیک

مسافر
ویسے تو ط کو اردو سے ختم ہی کر دینا چاہیئے۔ اردو حروف کی تنظیم نو کی شدید ضرورت ہے
 

فاتح

لائبریرین
اس سب سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ طوطا طوے سے لکھ بھی لیں تو کچھ حرج نہیں۔ اسی ہرے پرندے یعنی ہمارے طوطے کو ایرانی بھی طوطی کہہ کر طوے سے لکھتے ہیں۔ یہ فارسی ویکیپیڈیا کا ربط ہے، ظاہر ہے اہلِ زبان ہی نے مرتب کیا ہوگا، اس میں طوطی کے ذیل میں اسی "پییرٹ" کا ذکر ہے اور اسی کی تصویر ہے۔ اور یہ بھی درج ہے کہ توتی کا معرب طوطی ہے لیکن پرندہ یہی سبز ہے۔ یہ بھی لکھا ہے اردو اور ہندی میں اسے "طوطا" کہتے ہیں۔
طوطی - ویکی‌پدیا، دانشنامهٔ آزاد
اگر وکی پیڈیا کو "ظاہر ہے اہلِ زبان نے ہی مرتب کیا ہو گا" کی سند دے کر من و عن درست تسلیم کرنے کی دلیل مان لی جائے۔۔۔ تب اردو وکی پیڈیا پر تو "توتا" سرے سے موجود ہی نہیں۔۔۔ ان "اہلِ زبان مرتبین" نے اس کو صرف "طوطا" ہی لکھا ہے۔:laughing:
 

محمد وارث

لائبریرین
اگر وکی پیڈیا کو "ظاہر ہے اہلِ زبان نے ہی مرتب کیا ہو گا" کی سند دے کر من و عن درست تسلیم کرنے کی دلیل مان لی جائے۔۔۔ تب اردو وکی پیڈیا پر تو "توتا" سرے سے موجود ہی نہیں۔۔۔ ان "اہلِ زبان مرتبین" نے اس کو صرف "طوطا" ہی لکھا ہے۔:laughing:
اہلِ زبان سے مراد یہ تھا کہ کسی ایرانی یا دوسرے فارسی جاننے والے نے ہی لکھا ہوگا سو اہلِ زبان تو ہوا، ہاں اہلِ زبان میں عالم تھا یا نہیں تو اس کا پتا لگانا مشکل کام ہے۔ :)
 
Top