شکیب
محفلین
میرے استاد اور نہایت پیارے چچا جان الف عین کی دعائیں چاہتے ہوئے ایک غزل آپ کی بصارتوں کے حوالے...
جب سے تو عاملِ فرمودۂ اسلاف نہیں
نام انصاف کا باقی ہے پہ انصاف نہیں
ضربِ شمشیر، بجا! نعرۂ تکبیر درست!
سب ہے! بس تجھ میں مجاہد سے وہ اوصاف نہیں
کیا بہانہ ہے مرے قلب کو ٹھکرانے کا
کرچیاں دیکھ کے کہتے ہیں کہ ”شفاف نہیں!“
بش کی مانند مجھے اپنا عمل لگتا ہے
ظاہراً صاف ہے، اندر سے مگر صاف نہیں
یا خدا! امتِ احمد بھی وہی تو بھی وہی
کیا سبب ہے کہ وہ پہلے کے سے الطاف نہیں
آہ! یہ عشق بھی کیسا ہے ترا جس میں شکیبؔ
عشق کا عین نہیں شین نہیں قاف نہیں
دعاگو و دعاجو
شکیبؔ احمد
جب سے تو عاملِ فرمودۂ اسلاف نہیں
نام انصاف کا باقی ہے پہ انصاف نہیں
ضربِ شمشیر، بجا! نعرۂ تکبیر درست!
سب ہے! بس تجھ میں مجاہد سے وہ اوصاف نہیں
کیا بہانہ ہے مرے قلب کو ٹھکرانے کا
کرچیاں دیکھ کے کہتے ہیں کہ ”شفاف نہیں!“
بش کی مانند مجھے اپنا عمل لگتا ہے
ظاہراً صاف ہے، اندر سے مگر صاف نہیں
یا خدا! امتِ احمد بھی وہی تو بھی وہی
کیا سبب ہے کہ وہ پہلے کے سے الطاف نہیں
آہ! یہ عشق بھی کیسا ہے ترا جس میں شکیبؔ
عشق کا عین نہیں شین نہیں قاف نہیں
دعاگو و دعاجو
شکیبؔ احمد
مدیر کی آخری تدوین: