شکیب

محفلین
اس مصرع میں " کے سے" کی بجائے "سے وہ" اچھا ہوتا
سب ہے! بس تجھ میں مجاہد سے وہ اوصاف نہیں​
اچھی رائے کا شکریہ۔ محمد وارث بھائی سے مراسلہ اول میں تبدیلی کی درخواست ہے۔ میں نے اپنے پاس تبدیل کر لیا ہے۔
مقطع والا آخری مصرع بہت خوبصورت ہے لیکن معانی سے خالی ہے۔
کیا خوب فتوی ہے صاحب۔:)
 

شکیب

محفلین
بہت خوب شکیب احمد بھائی ۔ زبردست غزل ہے ۔ ماشاء اللہ ۔ اس پر لہجے کی توانائی کا کیا کہنا ! ٹیگ کرنے کا بہت شکریہ! میں کسی طرح بھی اس قابل نہ تھا ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے آمین ۔
بہت آداب۔ جزاک اللہ پیارے بھائی۔
 
پسندیدگی کے لیے بہت شکریہ تابش بھائی۔

لگے ہاتھوں اس جملے کی تاریخ سے بھی آگاہ کرتے جائیے۔ میں نے ہمیشہ اس پر ”پر مزاح“ کی ریٹنگ دیکھی ہے۔:)
ایک پاکستانی اینکر پرسن ہیں سہیل وڑائچ۔ جو مختلف اہم شخصیات کے ساتھ ایک دن گزارتے ہیں "ایک دن جیو کے ساتھ" پروگرام کے تحت۔ اور ان کی روز مرہ کی کارووائی کے ساتھ ساتھ انٹرویو جاری رکھتے ہیں۔
تو یہ سوال ایک طرح سے ان کا تکیہ کلام ہے جو کسی نہ کسی طرح وہ ہر فرد سے ضرور پوچھتے ہیں، اور ان کے منفرد لہجے کے باعث یہ مشہور ہو گیا ہے۔ :)
 

شکیب

محفلین
مطلع دو لخت محسوس ہو رہا ہے شاید یہ میری کوتاہ نظری کا شاخسانہ ہو جسے آپ نظر انداز بھی کر سکتے ہیں
دولختگی مجھے تو محسوس نہیں ہوئی۔
الف عین محمد یعقوب آسی اس براہ کرم رائے دیں تاکہ سچ میں روانی مجروح ہو رہی ہو تو تبدیلی کروں۔
پسندیدگی کے لیے ممنون ہوں ابن رضا بھائی۔
 

شکیب

محفلین
شکیب بھائی ! بہت خوب ! اچھی غزل ہے !!!
بش والے شعر کو پھر دیکھ لیجئے ۔ بش سے بہتر کوئی مقابل لا سکیں تو وہ میری رائے میں بہتر ہوگا۔ :)
جزاک اللہ ظہیر بھائی۔
مذکورہ شعر میں سارا emphasis ہی بش پر ہے۔ اسے نہ بدل سکنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
حوصلہ افزائی کے لیے ایک مرتبہ پھر شکریہ۔
 

شکیب

محفلین
ایک پاکستانی اینکر پرسن ہیں سہیل وڑائچ۔ جو مختلف اہم شخصیات کے ساتھ ایک دن گزارتے ہیں "ایک دن جیو کے ساتھ" پروگرام کے تحت۔ اور ان کی روز مرہ کی کارووائی کے ساتھ ساتھ انٹرویو جاری رکھتے ہیں۔
تو یہ سوال ایک طرح سے ان کا تکیہ کلام ہے جو کسی نہ کسی طرح وہ ہر فرد سے ضرور پوچھتے ہیں، اور ان کے منفرد لہجے کے باعث یہ مشہور ہو گیا ہے۔ :)
جزاک اللہ بھائی۔
 
آہ! یہ عشق بھی کیسا ہے ترا جس میں شکیبؔ
عشق کا عین نہیں شین نہیں قاف نہیں
دولخت تو یہ نہیں لگتا، تاہم ع، ش،ق کی تاویلات قاری جو جی چاہے کر لے (جیسے نایاب اور ابن رضا نے کیا ہے، ظاہر ہے وہ قاری کی اپنی سوچ ہے)، شعر تو کچھ بھی نہیں سجھا رہا۔
اس لحاظ سے یہ شعر برائے شعر ہے بس!
 

شکیب

محفلین
جب سے تو عاملِ فرمودۂ اسلاف نہیں
نام انصاف کا باقی ہے پہ انصاف نہیں
بات ہمارے ناقد کی بھی بے وزن نہیں ہے۔ اس کو دو لخت نہ بھی کہئے تو معنوی سطح پر کسی کَڑی کے رہ جانے کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ میر کے مگس والے شعر کی مثال نہ دیجئے گا۔ کیوں کہ اس کی معروف شرح جو اساتذہ نے کر دی اس تک عام قاری کی رسائی مشکل تھی۔
ایک نکتہ اور دیکھ لیجئے، اگر اچھا لگے: امت کے حوالے سے بات کریں تو عمومی فکری رویہ "فرمودہء اسلاف" سے زیادہ "فکر و عملِ اسلاف" کو اہم سمجھا جاتا ہے۔
 

شکیب

محفلین
بات ہمارے ناقد کی بھی بے وزن نہیں ہے۔ اس کو دو لخت نہ بھی کہئے تو معنوی سطح پر کسی کَڑی کے رہ جانے کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ میر کے مگس والے شعر کی مثال نہ دیجئے گا۔ کیوں کہ اس کی معروف شرح جو اساتذہ نے کر دی اس تک عام قاری کی رسائی مشکل تھی۔
ایک نکتہ اور دیکھ لیجئے، اگر اچھا لگے: امت کے حوالے سے بات کریں تو عمومی فکری رویہ "فرمودہء اسلاف" سے زیادہ "فکر و عملِ اسلاف" کو اہم سمجھا جاتا ہے۔
اتنی ذہنی جمناسٹک تو میں اپنے شعر میں خود پسند نہیں کروں گا۔
بہتر ہے استاد محترم۔ دیکھتا ہوں کیا بہتر صورت نکل سکتی ہے۔
جزاک اللہ۔
 
ایک بات غزل کی مجموعی فضا کے حوالے سے کرنے کی ہے (اس سے قطع نظر آپ اس کو کتنی اہمیت دیتے ہیں)، اسے آپ میری خواہش سمجھ لیجئے:
غزل کے اشعار میں ریزہ خیالی بالکل بجا، مگر ان اشعار میں ایک زیریں رو ہوتی ہے جس کی بدولت ایک غزل اکائی پاتی ہے۔ یہ زیریں رو فکری، محسوساتی، اسلوبی، لسانی یا کسی اور حوالے سے بھی ہو سکتی ہے؛ کوئی خاص عنصر ہی مقصود نہیں۔
میری رائے میں ایک تو کرچیوں والا شعر اور ایک بش والا؛ یہ دونوں اس غزل کے ماحول سے ہٹے ہوئے ہیں۔ مشورہ ہے کہ ان کو الگ رکھ لیجئے، کسی اور فن پارے کا حصہ بن جائیں گے۔
 
Top