اسوہ حسینی
اپ سے قتل و فساد کی حمایت کررہےہیں۔ اس طرحتو ہر کوئی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق لوگوںکو مجرم سمجھ کر قتل کرنا شروع کردے تو زمین میںفساد پھیل جائے گا۔ معاف فرمایے گا اپ کیوںاسلام کو بدنام کرناچاہتے ہیں۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ جب حضرت عمر فاروق نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ اگر میں تمہیں اسوہ رسول کے مطابق نہ لے کر چلوں تو پھر تم کیا کرو گے۔ تو ایک شخص نے اٹھ کر جواب دیا تھا کہ اے عمر ! اس پر پھر میری تلوار ہو گی اورتمہاری گردن ہو گی۔
چنانچہ اگر حاکم ہی معاشرے میں " فساد " پھیلانے پر تل جائے اور برسر عام اسلام کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنائے تو ایسے حا کم کے خلاف بغا وت درست ہے ۔ ایسے حاکم کے خلاف اگر بغاوت درست نہ ہو تو پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے دل میں جھانک کر غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ؤرف اسی بات کا جواب دے دیجیئے
کیوں آپ حضرت حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی یزید بن معاویہ کے خلاف بغا وت کو جائز تصور کرتے ہیں ۔ کیا یزید بن معاویہ اس وقت حاکم نہیں تھا۔ اور حضرت حیسن(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا۔ بے سروسامانی کا ہی عالم تھا۔ اگر آپ انصاف پسند ہیں تو کہیئے کہ حضرت حسین نے میدان کربلا میں یزید حاکم وقت کو للکار کر جہاد نہیں بلکہ فساد کیا تھا۔ چھوڑ دیجیے میدان کربلا کے واقعے پر ناز کرنا۔ یہ آپ کی بات کے بقول فساد تھا۔ شرم کرنی پڑے گی اس واقعے پر ہمیں کہ ناجائز مسلمانوں کے درمیان خون ریزی کے مرتکب ہوئے حضرت حسین(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ۔ اس سے اچھا تھا کہ وہ گوشہ نشین ہو کر اللہ کی عبادت میں زندگی گزار دیتے۔
" خرد کا نام جنوں رکھ دیا ، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے"
اگر آپ میں ہمت ہے تو پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مت کیجیئے ان واقعات کی تاویلات ۔ بات وہی اچھی ہوتی ہے جسے گھما پھرا کر نہ کیا جائے۔ اور آپ آئندہ سے اپنی تاریخ کے ان واقعات پر شرم محسوس کیا کیجئے ۔
اور یہ کہ اگر اس طرح معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ اگر یہ فساد ہے تو پھر ہمیں ایسے فساد برپا کرنے پر فخر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم وقتی مصلحتوں کا رونا نہیں رویا کرتے ۔اور نہ ہی گرگٹ کی طرح رنگ بدلا کرتے ہیں ۔ ہمارا طرہ یہ نہیں ہوتا کہ: "چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی"
جو کوئی خلاف اسلام کرے گا انشاء اللہ اسے حضرت حسین کی طرح برسر عام للکارا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الحمدللہ علی ذالک