ظل ہما قتل، ملزم کو سزائے موت

نبیل

تکنیکی معاون
گوجرانوالہ میں پنجاب کی صوبائی وزیر ظل ہما کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے الزام میں ایک شخص غلام سرور کو انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے دو مرتبہ سزائے موت کی سزا سنائی ہے۔

مکمل خبر
 

Muhammad Naeem

محفلین
میری دعائیں محمد سرور کے ساتھ ہیں ۔ اللہ اس کی حفاظت فرمائے۔ اس نے بہت بہت ہی اچھا کیا۔
 

حسن علوی

محفلین
میری دعائیں محمد سرور کے ساتھ ہیں ۔ اللہ اس کی حفاظت فرمائے۔ اس نے بہت بہت ہی اچھا کیا۔

نعیم آپکو اتنا غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیئے۔ اسلام میں بھی قتل کی مذمت کی گئی ھے اور ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ھے۔ نہایت ہی فضول بات کی ھے آپ نے۔
 

ساجد

محفلین
نعیم ، اللہ آپ کو ہدایت نصیب فرمائے۔ انسان کے قتل کی حرمت پہ قرآن پاک کی آیات کے حوالے تو یاد ہوں گے آپ کو؟
بہر حال طالبان کی حمایت اور قاتل کی سلامتی کی دعا کرنے پر میں آپ کا اس لئیے ممنون ہوں کہ آپ کے ایک جملے نے قارئین کو طالبان کا وہ مکروہ چہرہ دکھا دیا کہ جس کے لئیے ہم طویل مضامین لکھتے ہیں۔
 

Dilkash

محفلین
کسی کی زندگی ختم کرنا واقعی بہت ہی ناگوار فعل ہے اور اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ غلام سرور کو بھی وہی کچھ ہو جیسا کہ مرحومہ کے ساتھ ہوا۔۔البتہ اللہ سبحانہ و تعالی کا اپنا نظام ہے۔۔وہی حاکم ہے اور سزا اور جزا کا اختیار ان ہی کے پاس ہے۔جو موت ہم مرحومہ کے لئے پسند نہیں کرت تھے وہی موت ملزم کے لئے بھی ہماری جانبداری کے ساتھ نہ ہو تو بہتر ہے۔
ہم لوگ اگر ایسے معاملات میں کچھ نہ کہے تو بہتر ہے کیونکہ ہماری تھوڑی سی جانبداری ظالم یا مظلوم کی طرف ہوسکتی ہے لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔
بے شک اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
محترم ! میں کوئی مذہبی جنونی نہیں ہوں۔ اور نہ ہی مجھے مذہب کی ذاتی تعبیر کرنے کا اسلام نے
کوئی حق دیا ہے۔ میں تو صرف یہی جانتا ہوں کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعا لٰی ہے کہ " جو لوگ اہل
ایمان میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ہم انہیں عنقریب دردناک سزا دیں گے" اور محترمہ ظل ہما صاحبہ کا
یہ کارنامہ کوئی کم نہیں ہے کہ اس نے معاشرے میں بے حیائی کے فروغ کے لئے "تحفظ بدکاری آرڈیننس" کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر تقریریں کیں اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں اس قانون کی حمایت میں قرارداد جمع کروائی۔
بلکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے بقول ظل ہما پنجاب میں اس آرڈیننس کے حق میں چلائی جانے
والی مہم کی روح رواں تھیں۔ اور اس عورت نے وزیر اعلیٰ کو اس سلسلے میں کئی "قابل قدر" مشورے
دئیے۔
اور یہ بات تو ایک مبتدی بھی جانتا ہے کہ اس آرڈیننس میں اسلام کی چودہ سو سال سے چلی آرہی متفقہ
حدود کو ترمیم کیا گیا ہے ۔ حالانکہ حدود الہی میں ترمیم کا ہلکے سے ہلکا مطلب براہ راست خدا کو للکارنا
ہوتا ہے کہ اپنے مسائل اور قوانین کے بارے میں ہم خدا کی نسبت زیادہ جانتے ہیں۔

افسوس صد ہا افسوس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا کی قسم مجھے تو آپ لوگوں پر ترس آرہا ہے۔ کیا آپ یہ بات نہیں جانتےکہ حضرت اسامہ بن زید نے جب چوری کرنے والی عورت کی سفارش کی تھی تورحمت اللعٰلمین ( صلی اللہ علیہ وسلم) غصےمیں آگئے اور فرمایا کہ اےا سامہ کیا تو مجھ سے اللہ کی حدوں کے بارے میں ایک حدکی
سفارش کرتا ہے۔ خدا کی قسم اگر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا
ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔لیکن یہاں تو حد لگانے یا نہ لگانے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی نافذ کردہ حدود کو تبدیل کرنے کے جرم عظیم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور اس جرم عظیم کی ایک روح رواں اپنے اخروی انجام کو پہنچنے والی یہ "معصوم" وزیر ظل ہما بھی تھی ۔ جسے اپنے ہی نفاذ کردہ حدود آرڈیننس کے "
ثمرات "دیکھنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ جس طرح اس سے قبل شداد کو اللہ کے مقابلے میں اپنی تیار کی ہوئی
جنت کا "وزٹ" کرنے کا موقع نصیب نہ ہو سکاتھا { جو اللہ کے ساتھ محاذ آرائی کرتا ہے وہ اسی ہی ناکام
ہوتا ہے۔ ویسے بھی میں محترمہ کوشداد کی طرح کافر تسلیم نہیں کروں گا بلکہ وہ کلمہ گو تھیں۔ کوئی بھائی
غلط نہ سمجھ لے}
اب میرا ایمان اور ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ جس عورت نے اپنی زندگی میں احکام خداوندی کو ،حکومت اور طاقت کے نشے میں آکر للکارا ہو ، اس کی موت کے بعد میں اسے بے گناہ اور معصوم تسلیم کرلوں۔ کیونکہ احکامات خداوندی بالکل واضح ہیں۔ یا تو میں ان کا منکر بنوں گا یا ان پر ایمان لانے والا۔

مجھے اور آپ کو بھی ایک دن اس قہار و جبار کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ وہاں پر ہم کیا جواب دیں گے کہ
اے اللہ ہم تیرے احکامات کا مذاق اڑانے والوں اور ان میں ترمیم و تبدل کرنے والوں کے ساتھی بنے رہے؟؟؟
اور ہم نے بھی بالواسطہ طور پر تیری حدود کا مذاق اڑایا ؟؟؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں آپ سے کہوں گا واللہ اس قہار و جبار کے غضب سے ڈر جائیے ۔ جب وہ پکڑتا ہے تو ظل ہما کی
طرح کوئی اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا۔
مت طعنہ دیجیے طالبان کو ۔ آپ طالبان کو نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کو طعنہ دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

" حذر اے چیرہء دستان ! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں " (اقبال)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھے راستے پر عمل پیراہونےکی توفیق عطا فرمائے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
نعیم، میں نے مذہبی جنونی آپ کو نہیں بلکہ مولوی سرور کو کہا تھا لیکن آپ کی اس پوسٹ کے بعد مجھے آپ کے ذہنی مریض ہونے میں بھی کوئی شک باقی نہیں رہا ہے۔ ویسے آپ نے جس بات سے خبردار کیا ہے وہ کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے واقعی ایک حقیقی خطرہ ہے۔ مولوی سرور کی طرح کے کئی مذہبی جنونی عورتوں کو قتل کرنے کے لیے گھات لگائے ہوئے ہیں۔ طالبان ویسے بھی عورتوں کو انسان کی سطح پر کب سمجھتے ہیں۔ وہ عورتوں کو بھیک مانگتے اور جسم فروشی کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں لیکن عورتوں کا تعلیم حاصل کرنا ان کے نزدیک خلاف شریعت ہے۔
 

ساجد

محفلین
نعیم صاحب ،
یہاں یہ بات بتا دوں کہ آپ کو سب سے پہلے " بے حیائی "اور "فحاشی" کے مکمل معانی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فحاشی اور بے حیائی صرف جسم کے ننگے پن ہی کا نام نہیں ہوتا۔
آپ کے باقی خیالات پر لکھنا سوائے وقت کی بربادی کے کچھ بھی نہیں۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
برادر!
میں نے زبردستی کسی پر اپنے خیالات مسلط نہیں کرنا چاہے ۔ بلکہ میں نے جوابا وہ آیت قرآنی اور مشہور واقعہ پیش کیا تھا ۔ لیکن افسوس کہ مجھے صحیح طور پر ان کا دلائل سے جواب نہیں مل سکا۔ صرف خالی کسی کو معصوم اور بے گناہ کہہ دینے سے بات نہیں بنتی۔
فحاشی اور عریانی کے معانی کاجہاں تک تعلق ہے تو میں اسے وسیع تر معنوں میں ہی استعمال کر رہاہوں ۔
اور جہاں تک ایک بھائی کا طالبان پر "عورتوں کی جسم فروشی اور عورتوں کو انسانی درجہ" سے کمتر سمجھنا ہے تو یہ محض ان کی اپنے دل کی طالبان سے کدورت ہے۔ وگرنہ کبھی طالبان پر ایسا الزام ثابت کر کے تو دکھایئں۔
میراچیلنج ہے ۔ ۔۔۔ اگر وہ قبول کریں۔
وگرنہ میرے برادر ایسے کسی پر کیچڑ نہیں اچھالنا چاہیئے۔
 

ساجد

محفلین
محمد نعیم صاحب ،
آپ دوبارہ سے پڑھئیے ،کہا یہ گیا ہے کہ جب عورتوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دئیے گئے اور جنگ نے ان کو بیوہ بنا دیا تو طالبان نے ان عورتوں کو اپنے یتیم بچوں کی روح و جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئیے بھیک مانگتے اور جسم بیچتے دیکھنا تو گوارہ کر لیا لیکن ان کو ان کے حقوق ( تعلیم اور روزگار ) دینے کا کبھی خیال نہ آیا۔
 
افسوس صد ہا افسوس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا کی قسم مجھے تو آپ لوگوں پر ترس آرہا ہے۔ کیا آپ یہ بات نہیں جانتےکہ حضرت اسامہ بن زید نے جب چوری کرنے والی عورت کی سفارش کی تھی تورحمت اللعٰلمین ( صلی اللہ علیہ وسلم) غصےمیں آگئے اور فرمایا کہ اےا سامہ کیا تو مجھ سے اللہ کی حدوں کے بارے میں ایک حدکی
سفارش کرتا ہے۔ خدا کی قسم اگر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا
ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔

اپ نے جو یہ واقعہ کوٹ کیا ہے یہ ظل ہما کے قتل کے واقعے سے متعلق نہیں ہے۔ اپ کس طرح خود فیصلہ کرکے لوگوں کو خود سزا دے سکتے ہیں؟
یہ توایک ذھنی مریض کا ایک عمل ہے۔ اس واقعے کی جسٹیفیکشن حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے نہ دیں۔

اپ سے قتل و فساد کی حمایت کررہےہیں۔ اس طرح‌تو ہر کوئی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق لوگوں‌کو مجرم سمجھ کر قتل کرنا شروع کردے تو زمین میں‌فساد پھیل جائے گا۔ معاف فرمایے گا اپ کیوں‌اسلام کو بدنام کرناچاہتے ہیں۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
اسوہ حسینی

اپ سے قتل و فساد کی حمایت کررہےہیں۔ اس طرح‌تو ہر کوئی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق لوگوں‌کو مجرم سمجھ کر قتل کرنا شروع کردے تو زمین میں‌فساد پھیل جائے گا۔ معاف فرمایے گا اپ کیوں‌اسلام کو بدنام کرناچاہتے ہیں۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ جب حضرت عمر فاروق نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ اگر میں تمہیں اسوہ رسول کے مطابق نہ لے کر چلوں تو پھر تم کیا کرو گے۔ تو ایک شخص نے اٹھ کر جواب دیا تھا کہ اے عمر ! اس پر پھر میری تلوار ہو گی اورتمہاری گردن ہو گی۔
چنانچہ اگر حاکم ہی معاشرے میں " فساد " پھیلانے پر تل جائے اور برسر عام اسلام کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنائے تو ایسے حا کم کے خلاف بغا وت درست ہے ۔ ایسے حاکم کے خلاف اگر بغاوت درست نہ ہو تو پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے دل میں جھانک کر غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ؤرف اسی بات کا جواب دے دیجیئے

کیوں آپ حضرت حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی یزید بن معاویہ کے خلاف بغا وت کو جائز تصور کرتے ہیں ۔ کیا یزید بن معاویہ اس وقت حاکم نہیں تھا۔ اور حضرت حیسن(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا۔ بے سروسامانی کا ہی عالم تھا۔ اگر آپ انصاف پسند ہیں تو کہیئے کہ حضرت حسین نے میدان کربلا میں یزید حاکم وقت کو للکار کر جہاد نہیں بلکہ فساد کیا تھا۔ چھوڑ دیجیے میدان کربلا کے واقعے پر ناز کرنا۔ یہ آپ کی بات کے بقول فساد تھا۔ شرم کرنی پڑے گی اس واقعے پر ہمیں کہ ناجائز مسلمانوں کے درمیان خون ریزی کے مرتکب ہوئے حضرت حسین(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ۔ اس سے اچھا تھا کہ وہ گوشہ نشین ہو کر اللہ کی عبادت میں زندگی گزار دیتے۔

" خرد کا نام جنوں رکھ دیا ، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے"

اگر آپ میں ہمت ہے تو پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مت کیجیئے ان واقعات کی تاویلات ۔ بات وہی اچھی ہوتی ہے جسے گھما پھرا کر نہ کیا جائے۔ اور آپ آئندہ سے اپنی تاریخ کے ان واقعات پر شرم محسوس کیا کیجئے ۔


اور یہ کہ اگر اس طرح معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ اگر یہ فساد ہے تو پھر ہمیں ایسے فساد برپا کرنے پر فخر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم وقتی مصلحتوں کا رونا نہیں رویا کرتے ۔اور نہ ہی گرگٹ کی طرح رنگ بدلا کرتے ہیں ۔ ہمارا طرہ یہ نہیں ہوتا کہ: "چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی"
جو کوئی خلاف اسلام کرے گا انشاء اللہ اسے حضرت حسین کی طرح برسر عام للکارا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الحمدللہ علی ذالک
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں اس بحث میں حصّہ نہیں لینا چاہ رہا تھا- بقول حالی

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں

مگر محمد نعیم صاحب جو تشدد پسندی کے دلائل دے رہے ہیں میرے ان سے کچھ سوالات ہیں جس کے آج تک مجھے جواب نہیں ملے - اور بقول اقبال

مجھ کو بھی نظر آتی ہے یہ بوقلمونی
وہ چاند، یہ تارا ہے، وہ پتھر، یہ نگیں ہے
دیتی ہے مری چشم بصیرت بھی یہ فتوی
وہ کوہ ، یہ دریا ہے ، وہ گردوں ، یہ زمیں ہے
حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا
تو ہے، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے، نہیں ہے!

١- ہم مسلمانوں میں ماشااللہ کافی بو قلمونیاں پائی جاتی ہیں ایک فرقہ کے خیالات دوسرے سے نہیں ملتے اور ایک ہی فرقے میں مزید فرقے پائے جاتے ہیں - ہم آج تک قرآنِ مجید کے کسے ایک ترجمے کو سٹینڈرد نہیں مان سکے اور تقریبا“ ہر فرقہ ایک مخصوص عالم کے ترجمے کے علاوہ کسی اور ترجمے کو نہیں مانتا - ہم کب اس قابل ہوں گے کہ ایک ترجمے پر متفق ہو سکیں؟

٢- ہم قرآن کے ترجمے پر متفق نہیں ہیں تو تواریخ، روایات اور احادیث یہ سب تو قرآن کے بعد ہی درجہ رکھتے ہیں - اور ان چیزوں کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ نے نہیں لیا - لہٰذا ان سب میں بھی فرقے کے لحاظ سے اختلافات پائے جاتے ہیں-

٣- اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر امیر مسلمین کفار کے ساتھ مل جائے تو جہاد فرض ہو جاتا ہے تو اس بات کے فیصلے کا اختیار کس کے پاس ہوگا؟ کیا ایک فرد یا چند افراد جو حق سمجھیں اپنی من مانی کرتے رہیں؟
اگر ایسا ہوگا تو مسلمانوں میں سوائے انتشار کے کچھ جنم نہیں لے سکے گا اور جیسا کہ آج کل کی صورت حال میں ہو بھی رہا ہے-

کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے؟
فقیہہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی

اس سلسلے میں دو حوالے ایک قرآن اور دوسرا رسولِ اکرم کی حیاتِ طیبہ سے جس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں

١- جب حضرت موسیٰ وحی کے لیے کوہِ طور پر گئے تو حضرت ہارون کو بنی اسرائیل کی نگہداشت کے لیے مامور کر گئے - لیکن جب وہ واپس آئے تو دیکھا کہ تمام قوم سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کی پوجا میں مصروف ہے - حضرت موسیٰ طیش میں آ گئے اور ہارون سے کہا کہ یہ تم نے کیا کیا- تو حضرت ہارون نے کہا کہ میں تمہارا انتظار کر رہا تھا کہ تم آؤ تو ہم دونوں مل کر انہیں سیدھی راہ پر لے آئیں - یعنی وقتی طور پر کفر کو برداشت کیا گیا لیکن تفرقے اور انتشار کو نہیں -

٢- جب رسول اکرم کے ساتھ کافی لوگ مسلمان ہو چکے تھے اس وقت بھی کفار نے اپنے ظلم و ستم جاری رکھے - لیکن رسولِ اکرم نے اف تک نہ کی اور کسی قسم کا انتشار اور تفرقہ مکے میں نہ پھیلنے دیا- تاوقتیکہ مدینے میں ایک سٹیٹ قائم کی اور مدینے کے کفار کو بھی اس ملک یا سٹیٹ کی حفاظت کے لیے اپنے ساتھ ملانا چاہا-

ہمیں تو اسلام یہ درس دیتا ہے - اور ہم ایک فرد یا افراد کے فیصلے کو حق سمجھتے ہیں- اور سمجھتے ہیں کہ ہم یہ سب اسلام کے لیے کر رہے ہیں -

اسلام کو نافذ کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ایک اسلامی سٹیٹ بنانا - دور حاضر کے قانونی تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے ایک اسلامی ریاست کا قیام اور پھر اگر وہ اسلامی سٹیٹ جہاد کا اعلان کرے تو جنگ کرنا جو کہ ایک سٹیٹ کو دوسری غیر اسلامی سٹیٹ کے ساتھ ہوگی - رسولِ اکرم کی زندگی میں کبھی ایسی بات نہیں ہوئی کہ کبھی انہوں نے اس بات کی اجازت دی ہو کہ ایک فرد یا ایک جماعت کفار کے سامنے کھڑی ہو جائے - ورنہ مکے کی زندگی کے دوران وہ یہ کر سکتے تھے -
 

Dilkash

محفلین
مجھے ایک بات کا جواب نہیں ملتا۔
۔1۔کیا اس ملک میں مسلمانوں کے اندر دہریے موجود ہیں؟جو اللہ اور رسول کو سرے سے مانتے نہیں۔۔
کیا مسلمانوں میں ایسے لوگ نہیں جو دوسرے مسلمانوں کو گمراہی کی طرف لے جارہے یں؟
اگر بقول انلائٹین موڈریٹڈ حضرات ان شدت پسند(بقول) مسلمانوں کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ اپنے سخت گیر اسلامی تعلیمات دوسروں کے او پر ٹھونسے ،
تو پھر ان (مغرب زدہ) عناصر کو کس نے حق دیا ہے؟ کہ غیروں کی نظریات دوسروں پر ٹھونسےکی کوشش کریں اور دوسروں کو ماڈرن بے حیا یئ کی ترغیب دیں ،اور اسلامی تعلیمات سے دوری کی تعلیم دیں؟
میرے خیال میں اب یہ منافقت ختم ہونی چاہئے کہ ہم ایک دوسروں کی نظریات کو برا بھلا کہدیں۔۔جو جس طرح کریں ، اسکو انکی حال پر چھوڑ دیں


ایک طرف اگر علم دین شہید کسی ھندو کو مارتا ہے تو ہم سب مسلمان انکو غیرت ایمانی کہتے ہیں اور اس فعل کو جائز سمجھتا ہیں اور پھر یہ فعل اسلامی ریاست کا معاملہ اور قضیت نہیں ہوتا بلکہ اس کام کو تو ہر شخص جسٹیفایڈ کرتا ہے کہ اچھا کیا کہ اس کو شاتم رسول اور منکر خدا کو ماردیا۔۔ یا دوسرے لفظوں میں ہر شخص‌دل میں یہی سوچتا ہے کہ اچھا کیا ، یہی ہونا چاہئے تھا۔۔ایسی طرح سلمان رشدی اور کارٹوں چھاپنے والوں کے لئے بھی ہم لوگ قانون اور انصاف اپنے ھاتھ میں لیکر تمام ملکی و غیر ملکی املاک کو جلانے پر تلے ہوئےہوتے ہیں۔۔۔وہاں پر پھر موڈریٹ اور شدت پسند کیوں ایک ہوجاتے ہیں؟۔۔۔اور یہاں پر تضادات کا شکار نظر اتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟
 
کیا آپ کو یاد ہے کہ جب حضرت عمر فاروق نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ اگر میں تمہیں اسوہ رسول کے مطابق نہ لے کر چلوں تو پھر تم کیا کرو گے۔ تو ایک شخص نے اٹھ کر جواب دیا تھا کہ اے عمر ! اس پر پھر میری تلوار ہو گی اورتمہاری گردن ہو گی۔
چنانچہ اگر حاکم ہی معاشرے میں " فساد " پھیلانے پر تل جائے اور برسر عام اسلام کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنائے تو ایسے حا کم کے خلاف بغا وت درست ہے ۔ ایسے حاکم کے خلاف اگر بغاوت درست نہ ہو تو پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے دل میں جھانک کر غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ؤرف اسی بات کا جواب دے دیجیئے

کیوں آپ حضرت حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی یزید بن معاویہ کے خلاف بغا وت کو جائز تصور کرتے ہیں ۔ کیا یزید بن معاویہ اس وقت حاکم نہیں تھا۔ اور حضرت حیسن(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا۔ بے سروسامانی کا ہی عالم تھا۔ اگر آپ انصاف پسند ہیں تو کہیئے کہ حضرت حسین نے میدان کربلا میں یزید حاکم وقت کو للکار کر جہاد نہیں بلکہ فساد کیا تھا۔ چھوڑ دیجیے میدان کربلا کے واقعے پر ناز کرنا۔ یہ آپ کی بات کے بقول فساد تھا۔ شرم کرنی پڑے گی اس واقعے پر ہمیں کہ ناجائز مسلمانوں کے درمیان خون ریزی کے مرتکب ہوئے حضرت حسین(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ۔ اس سے اچھا تھا کہ وہ گوشہ نشین ہو کر اللہ کی عبادت میں زندگی گزار دیتے۔

" خرد کا نام جنوں رکھ دیا ، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے"

اگر آپ میں ہمت ہے تو پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مت کیجیئے ان واقعات کی تاویلات ۔ بات وہی اچھی ہوتی ہے جسے گھما پھرا کر نہ کیا جائے۔ اور آپ آئندہ سے اپنی تاریخ کے ان واقعات پر شرم محسوس کیا کیجئے ۔


اور یہ کہ اگر اس طرح معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ اگر یہ فساد ہے تو پھر ہمیں ایسے فساد برپا کرنے پر فخر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم وقتی مصلحتوں کا رونا نہیں رویا کرتے ۔اور نہ ہی گرگٹ کی طرح رنگ بدلا کرتے ہیں ۔ ہمارا طرہ یہ نہیں ہوتا کہ: "چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی"
جو کوئی خلاف اسلام کرے گا انشاء اللہ اسے حضرت حسین کی طرح برسر عام للکارا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الحمدللہ علی ذالک

مجھے اپکی ذھنی کیفیت پر جو شبہ تھا وہ اب دور ہوگیا ہے۔
 
Top