آلکسیاں دے پنڈ وکھرے نئیں ہندے۔۔۔۔
یہ ایک ایسا محاورہ ہے جس میں زندگی کی بڑی حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے۔چاہے طنز ہی کی صورت ، کہ سست لوگ بھی دیکھنے میں عام لوگوں جیسے لگتے ہیں۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ یہ چنے ہوئے افراد ہوتے ہیں۔ جو کہ کسی بھی معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ سست اور کاہل لوگ سدا سے دوسروں کے لئے باعث حسد و رشک رہے ہیں۔ لوگ چاہ کر بھی سستی نہیں کر پاتے۔ کیوں کہ اس کے لئے جس حوصلہ برداشت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے عموماً وہ بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا جب جب کسی آلکسی سے آشنا ہوتی ہے اس کو سمجھتی ہے شاید یہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہے۔ وگرنہ اس قدر حوصلہ ہمت و برداشت اللہ اللہ۔۔۔ "یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔" دوسری طرف وہ لوگ جو اپنی برق رفتاری پر نازاں ہوتے ہیں وہ اس مصرعہ کی صورت "پہلے تھے تیزروی پر نازاں اب منزل پر تنہا ہیں" خود کو محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ سچا آلکسی کبھی بھی تنہائی کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ کاررواں کے اس معتبر اور ذمہ دار شخص کی طرح ہوتا ہے جو کہ پیچھے پیچھے آتا کہ اگر کسی کی کوئی چیز رہ گئی ہو اور اپنی برق رفتاری میں کچھ عوامل کو نظرانداز کر گیا ہو تو اس کو احساس دلا سکے۔ لیکن بےلوث خدمت کے جذبے کودنیا کہاں سمجھتی ہے۔ امتیازی سلوک کر کے ہر قدم پر ان کو احساس دلاتی ہے کہ تم سست ہو۔ اور یہ بھول جاتی ہے کہ دنیا تو وجود ہی سستوں سے ہے۔ کیا ایک تیزرفتار مکھی ایک کچھوے کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ کہاں کچھوے کی عمر رواں، کہاں سمندر سمندر خشکی خشکی کے تجربات اور کہاں چند دنوں کی ایک زندگی جس کا ہرکام بنا سوچے عجلت میں۔
ہمارے ایک محترم دوست کا فرمانا ہے کہ کیا دنیا میں کاہلی سے بڑا بھی کوئی سچ ہے۔ حضور کی اس بات سے ہم اسقدر متاثر ہوئے تھے کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ایک کوچہ آلکساں کی بنیاد رکھیں گے۔جو کہ عرصہ پہلے ہم نے رکھ بھی دی تھی۔ اور اس محاورے کو غلط ثابت کریں گے۔ دنیا کو بتائیں گے کہ ہر آدمی سست نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ آپ کے درمیان رہتا ہے۔ تو قدر کیجیے کہ بجائے اس کے وہ کوچہ آلکساں میں جابسے اور تمہاری بستیاں محض عجلت کی تصویر بن کر رہ جائیں۔اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ عجلت کن لوگوں کا کام ہوتا ہے۔