ایم اے راجا
محفلین
عمدہ ملاقات نگاری کی نیرنگ خیال صاحب
یہ کوئی شک و شبہ کی بات تھی نایاب سئیں۔۔۔ ۔ مجھے تو ڈر تھا کہ ان کی جیکٹ سے بھی وکی پیڈیا کے ایک دو ربط نہ برآمد ہوجائیں۔واہہہہہہہہہہ
بہت خوب روداد
محترم عارف کریم دوران گفتگو بھی " وکی پیڈیا " کا ذکر کرتے رہے تھے ۔؟
لگتا ہے کچھ زیادہ ہی جلدی ہوگئی تبصرہ میں ۔۔
بہت دعائیں
ذرہ نوازی سرکار آپ کی۔عمدہ ملاقات نگاری کی نیرنگ خیال صاحب
ہائیں آپ تو اتنے چھوٹے سے نکلے!! ہم تو تصور میں آپ کے ہاتھ میں لاٹھی بھی دیکھ چکے تھے ۔ بڑے بڑوں سے ایسی تگڑی سیاسی لڑائیاں آپ کیسے لڑ لیتے ہیں۔2014 میں تو یوں لگتا تھا کہ میں نے قسم کھا لی ہے کہ اب کوئی روداد نہ لکھوں گا۔ فلک شیر بھائی سے ملاقات ہو یا فاتح صاحب کے ڈیرے پر حاضری۔ محب علوی بھائی سے ملاقات ہو یا چاہے زبیر مرزا بھائی سے ملاقات کا قصہ۔ یا سید زبیر صاحب کے دولت کدے پر تلمیذ سر سے کی گئی باتیں ہوں۔ میں نے ہر تفصیل کو ادھارپر اٹھائے رکھا اور بعد ازاں ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ہمارے سیاستدان قومی خزانے سے لیے گئے قرضے کے ساتھ کرتے ہیں۔ میں تو شاید 2015 میں بھی اس روایت کو جاری رکھتا لیکن اللہ بھلا کرے ملاقات میں شامل محفلین کا، جنہوں نے محتسب کا کردار ادا کیا اور میں ایک مہینے کے اندر (کیوں کہ ابھی ایک مہینہ آج پورا ہو رہا ہے) ہی رودار پیش کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
میں صادق آباد میں اپنے بستر پر دراز تھا کہ فون کانپنے لگا۔ میرے فون کو کانپنا ہی پڑتا ہے، کیوں کہ میں آزادی آواز پر زیادہ یقین نہیں رکھتا۔میں نے فون کا رعشہ دیکھتے ہوئے اٹھایا تو کوئی انجان نمبر تھا۔ پہلے تو سوچا میں بھی انجان بن جاؤں۔ پھر سوچا کہ فارغ بیٹھا کون سا تیر مار رہا ہوں تو کیوں نہ فون کرنے والے کو ہی سرفراز کر دیا جائے۔ اپنی بھاری آواز میں ہم نے سلام جڑا تو دوسری طرف ایک جاننے والا تھے جو شاید کریم کا لاحقہ ابھی عارف کے ساتھ لگانا نہ بھولتا تھے۔ بعد از سلام و استفسار مزاج انہوں نے کہا کہ کوئی مل بیٹھنے کا منصوبہ گر ممکن ہو۔ میں نے عرض کی کہ میں تو اس وقت صادق آباد ہوں۔ جیسے ہی واپس اسلام آباد پہنچتا ہوں تو رابطہ کروں گا۔
اسلام آباد پہنچا تو امجد میانداد صاحب کا بھی فون آیا کہ عارف کے ساتھ مل بیٹھنے کا کوئی منصوبہ بنایا جائے۔ قصہ مختصر ایک پروگرام طے پا گیا اور مؤرخہ تین جنوری بروز ہفتہ لیک ویو پارک میں ڈیرہ ریستوران کو مقامِ ملاقات ٹھہرایا گیا۔
مقررہ مقام پر جب میں پہنچا تو وہاں الو بھی نہیں بول رہے تھے۔ ظاہر ہے عوامی پارک میں الو کا کیا کام۔ فون ملانے پر پتا چلا کہ موصوف امجد میانداد صاحب تشریف لاچکے ہیں۔ تاہم وہ باہر کھڑے رنگین آنچلوں کے دھنک رنگ دیکھنے میں مصروف ہیں۔ ان کو اس ویرانے میں کھینچا ہی تھا کہ بیرا کسی جن کی طرح ہمارے سر پر آکھڑا ہوا۔ اور آرڈو آرڈر کی آواز لگانے لگا۔ ایک لمحے کو تو یوں محسوس ہوا جیسے میں کسی عدالتی کارروائی کا حصہ ہوں۔ امجد بھائی نے اس کو ٹال دیا اور اگلے رکن کی آمد تک آرڈر کو مؤخر کر دیا۔ ایک عدد مزید فون کرنے پر معلومات میں اضافہ ہوا کہ مہمان خصوصی بھی پارک میں پدھار چکے ہیں اور کسی بھی پل تشریف لایا چاہتے ہیں۔
دیکھتے کیا ہیں کہ دو خوبرو لڑکے ہماری طرف بڑھے چلے آتے ہیں۔ ایک شوخ چہرے کے ساتھ اور دوسرا چہرے پر آنے والے لمحوں کی فکر سجائے۔ بعد از سلام و معانقہ و حال دیگراں و دیگراں ایک دوسرے سے تشریف رکھنے کا کہا گیا۔ پہلے آپ اِدھر آپ اُدھر آپ کی صدائیں بلند ہوئیں اور آخر کار سب لوگ تشریف رکھنے میں کامیاب ہوگئے۔ عارف کے ساتھ ان کا چھوٹا بھائی رافع بھی تھا۔ جو خوش مزاج و خوش اخلاق تھا۔ یہاں میری مراد ہرگز یہ نہیں کہ خدانخواستہ عارف کا مجلسی تاثر وہاں بھی قائم رہا۔ عارف بھی خوش مزاج نوجوان ثابت ہوا۔ امجد میانداد سے معلوم ہوا کہ ابھی ایک اور نوجوان عمر کم تجربہ زیادہ عباس اعوان بھی آنے کو ہیں۔ ہم نے آنے والے کی راہ میں دیدے بچھانے کی کوشش کی۔ لیکن ٹھنڈ بڑی تھی۔ سو دیدوں کو چہرے پر ہی بچھائے رکھا۔ عباس اعوان صاحب کی آمد پر پھر دوبارہ وہی معانقہ و سلام و احوال دیگراں و دیگراں۔ ہمیں تعارف کروانا پڑا کہ ہم ذوالقرنین ہیں۔ لیکن موصوف کی آنکھوں میں آشنائی کی رتی برابر جھلک بھی نہ دیکھنے کو ملی تو مجبورا اپنی محفلی شناخت کا ڈھول بجانا پڑا۔ اس پر انہوں نے کہا۔ اوہ اچھا۔۔ تےاو تسی او۔۔۔ ہم ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس جملے میں کیا رمز مستور تھی۔
اب دوبارہ سے گپ شپ کا سلسلہ جڑا۔ قریب قریب ایک ہی شعبہ ہائے روزگار سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہماری زیادہ تر گپ شپ آئی ٹی اور اس میں پاکستان میں درپیش مسائل سے جڑی رہی۔ امجد میانداد اس قدر ٹھنڈ میں ایک باریک سا کوٹ پہن کر آئے تھے۔ اتنے باریک کوٹ عموما وہ خواتین پہنتی ہیں جو کسی شادی پر جا رہی ہوں۔ امجد سے ہمیں یہ امید نہ تھی۔ اب جب ٹھنڈ بڑھی تو پہلے امجد ہلکا ہلکا کانپے۔ اور پھر باقاعدہ کانپنے لگے۔ اس پر ہم کھلے دالان سے اٹھ کر اندر ہال میں تشریف لے آئے۔ اس بیرے کی دعا بھی بر آئی جو ہمیں اب یوں دیکھ رہا تھا جیسے ہم اگر اب کھانا کھائے بغیر اٹھ کر چلے گئے تو ہمارا ٹینٹوا دبا دے گا۔ دورانِ کھانا بھی ہم دیسی و بدیسی کا فرق قائم رہا۔ رافع اور عارف کی خوراک کسی نازک اندام حسینہ سے زیادہ نہ تھی۔ جبکہ ہم وہی جٹ تے رو (گنے کا رس) والا حساب تھا۔
کھانے کے بعد ہم نے سوچا کہ ایک آدھی تصویر تو لازمی ہونی چاہیے تو اس پر عباس اعوان صاحب نے کہا کہ وہ تصویر نہیں کھنچوا سکتے۔ ان کے اس پر کچھ تحفظات ہیں۔ ہم نے کہا کہ اگر آپ کھنچوا نہیں سکتے تو کھینچ تو سکتے ہیں۔ یوں بھی ہم کو ایک عکاس کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہم سب اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوئے۔ یوں ایک شاندار ملاقات اختتام پذیر ہوئی۔
بائیں سے دائیں
رافع، خاکسار، امجد میانداد اور عارف کریم
جبکہ عباس اعوان کو کیمرا الٹا کر کے دیکھا جا سکتا ہے
محفل پر ان کی عمر کافی زیادہ ہے۔ سات کیا درجن بھر جنم تو ہوں گے ہی۔ار
ہائیں آپ تو اتنے چھوٹے سے نکلے!! ہم تو تصور میں آپ کے ہاتھ میں لاٹھی بھی دیکھ چکے تھے ۔ بڑے بڑوں سے ایسی تگڑی سیاسی لڑائیاں آپ کیسے لڑ لیتے ہیں۔
ایسی ویسی لڑائی وہ بھی پوری جنگی تیاریوں کے ساتھ اور ہوم ورک بھی پورا کرکے رکھتے ہیں ۔۔۔اتنے سے ہیںار
ہائیں آپ تو اتنے چھوٹے سے نکلے!! ہم تو تصور میں آپ کے ہاتھ میں لاٹھی بھی دیکھ چکے تھے ۔ بڑے بڑوں سے ایسی تگڑی سیاسی لڑائیاں آپ کیسے لڑ لیتے ہیں۔