عالمی دھشت گرد: امریکہ

شمشاد

لائبریرین
لگتا کچھ ایسے ہی ہے کہ پاکستانی حکومت کو تھوڑی سی عقل آ گئی ہے اور انہوں نے امریکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔
 
درست فرماتے ہیں اپ
میرا مطلب تھا کہ ان سی ائی اے کے ایجنٹز کو پکڑاجائے جھنوں نے پاکستانیوں کی زندگی عذاب کردی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اور یہ رہا اس کا ثبوت

"CIA spy" Davis was giving nuclear bomb material to
Al-Qaeda, says report


يہ بات ناقابل يقين ہے کہ پاکستانی بلاگز اور فورمز پر بعض رائے دہندگان يہ مضحکہ خيز تھیوری پيش کر رہے ہيں کہ ايک امريکی سفارت کار اپنی حکومت کے ايما پر طالبان کی ايٹمی ہتھياروں تک رسائ کو يقينی بنانے کے عمل ميں ملوث ہو سکتا ہے۔ ميں نے کچھ ٹی وی ٹاک شوز بھی ديکھے ہیں جو اس بے بنياد کہانی کی تشہير کر رہے ہيں جس کی بنیاد ای يو ٹائمز نامی ويب سائٹ پر شائع ہونے والی ايک رپورٹ ہے۔

کوئ بھی شخص جو خبر کو رپورٹ کرنے کے حوالے سے اس ويب سائٹ کے پس منظر، صحافتی ساکھ اور تشخص کے حوالے سے معلومات رکھتا ہے، وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ اس ويب سائٹ پر پيش کيا جانے والا کچھ مواد سنی سنائ باتوں، افواہوں اور ناقابل يقين منظرنامے پر مبنی تخلياتی کہانيوں کی بنياد پر ہوتا ہے۔

يہاں ميں کچھ حاليہ مثاليں پيش کر رہا ہوں جہاں اس ويب سائٹ نے فلمی طرز پر بغير کسی ثبوت اور مواد کے ايسے حالات کی منظر کشی کی جو بالآخر غلط ثابت ہوئے۔

نومبر 28 2009 کو اس ويب سائٹ پر يہ دعوی کيا گيا کہ امريکی صدر اوبامہ نے ايک فوری حکم جاری کيا جس کے تحت جنوری 30 2010 تک امريکی افواج کی تعداد ميں ايک ملين کا اضافہ کر ديا جائے گا جس کی وجہ يہ بيان کی گئ کہ موسم سرما کے آخر تک امريکہ ميں خانہ جنگی کا آغاز ناگزير ہو جائے گا۔ ايسا کوئ واقعہ رونما نہيں ہوا۔

http://current.com/1e97a4c

مئ 24 2010 کو اسی ويب سائٹ نے بی پی آئل کمپنی کے تيل کے کنويں سے متعلق حادثے کے حوالے سے عوامی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے يہ دعوی کيا کہ تيل کے بہاؤ کا يہ حادثہ انسانی تاريخ کا سب سے بڑا حادثہ بننے والا ہے جس کے نتيجے ميں آدھے سے زيادہ براعظم امريکہ مکمل تبائ کا شکار ہو جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ يہ دعوی بھی محض سائنس فکشن ہی ثابت ہوا۔

http://www.eutimes.net/2010/05/toxic-oil-spill-rains-warned-could-destroy-north-america/

اپريل 6 2010 کو اپنے مخصوص طرز رپورٹنگ کے عين مطابق اس ويب سائٹ پر دعوی کيا گيا کہ امريکی حکومت اپنی 11 مغربی رياستوں ميں 300 سے زائد "ڈيتھ کيمپ" تعمير کروا رہی ہے۔ اسی رپورٹ ميں يہ بھی کہا گيا کا صدر اوبامہ کی وزارت داخلہ 13 ملين ايکٹر زمين اپنے ہی لوگوں سے چھيننے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ يہ بھی بالکل غلط ثابت ہوا۔

http://www.eutimes.net/2010/04/death-camps-warned-being-prepared-as-millions-in-us-left-hopeless/

جون 3 2010 کو ويب سائٹ پر يہ دعوی کيا گيا کہ صدر اوبامہ سال 2012 سے قبل ہی اپنی صدرات سے مستعفی ہو جائيں گے۔ اس میں بھی کوئ صداقت نہيں ہے۔

http://www.eutimes.net/2010/06/the-coming-resignation-of-barack-obama/

يہ کچھ ايسی مثاليں ہیں جن سے آپ کو اس ويب سائٹ پر کی جانے والی رپورٹنگ کی نوعيت کا اندازہ ہو جائے گا۔ ايک ايسی ويب سائٹ جو بظاہر يورپ کی خبروں کے حوالے سے اپنی شناخت ظاہر کرتی ہے، حيرت انگيز بات يہ ہے کہ اس پر شا‏ئع ہونے والی اکثر خبروں کا يورپ سے کوئ تعلق نہيں ہے بلکہ امريکہ سے متعلق واقعات پر زيادہ فوکس کيا جاتا ہے۔ اگر اس ويب سائٹ کے عنوان سے ہٹ کر اس کی تفصيل والے سيکشن کا جائزہ ليں تو يہ حقيقت آشکار ہوتی ہے کہ يہاں بھی کوئ خاطر خواہ معلومات موجود نہیں ہيں۔ نہ ہی عملے کے ناموں کا کوئ ذکر ہے، نہ ہی کوئ ايڈريس اور نہ ہی ويب سائٹ کی کوئ تاريخ۔ ويب سائٹ کے اپنے دعوے کے مطابق يہ ايک عالمی اخبار ہے جو يورپ ميں موجود ہے ليکن اس کی فعال شاخيں امريکہ اور کينيڈا ميں ہيں۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ اس ويب سائٹ کا ڈومين بھی يورپ ميں رجسٹرڈ نہیں ہے۔

اس ساری معلومات اور پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے کيا کوئ بھی محترم صحافی يا ميڈيا سے متعلق کوئ شخص کسی تعميری بحث ميں اس ويب سائٹ کی کسی رپورٹ کا ريفرنس يا حوالہ پيش کرنے کا جواز رکھتا ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
تو پھر امریکی حکومت ان کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں قائم کرتی۔

حیرت ہے کہ آپ سارے مراسلے پڑھتے ہیں اور ٹی وی ٹاک شو سنتے ہیں لیکن ہر بار میرے سوال کا جواب گول کر جاتے ہیں۔ میں اس بات پر آپ کے خلاف سخت احتجاج کرتا ہوں۔
 

سویدا

محفلین
آپ کو احتجاج کا قانونی اور شخصی حق حاصل ہے نیز امریکہ آپ کے احتجاج کو وقعت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔:)
 

عسکری

معطل
اور یہ رہا اس کا ثبوت

"CIA spy" Davis was giving nuclear bomb material to
Al-Qaeda, says report


يہ بات ناقابل يقين ہے کہ پاکستانی بلاگز اور فورمز پر بعض رائے دہندگان يہ مضحکہ خيز تھیوری پيش کر رہے ہيں کہ ايک امريکی سفارت کار اپنی حکومت کے ايما پر طالبان کی ايٹمی ہتھياروں تک رسائ کو يقينی بنانے کے عمل ميں ملوث ہو سکتا ہے۔ ميں نے کچھ ٹی وی ٹاک شوز بھی ديکھے ہیں جو اس بے بنياد کہانی کی تشہير کر رہے ہيں جس کی بنیاد ای يو ٹائمز نامی ويب سائٹ پر شائع ہونے والی ايک رپورٹ ہے۔

کوئ بھی شخص جو خبر کو رپورٹ کرنے کے حوالے سے اس ويب سائٹ کے پس منظر، صحافتی ساکھ اور تشخص کے حوالے سے معلومات رکھتا ہے، وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ اس ويب سائٹ پر پيش کيا جانے والا کچھ مواد سنی سنائ باتوں، افواہوں اور ناقابل يقين منظرنامے پر مبنی تخلياتی کہانيوں کی بنياد پر ہوتا ہے۔

يہاں ميں کچھ حاليہ مثاليں پيش کر رہا ہوں جہاں اس ويب سائٹ نے فلمی طرز پر بغير کسی ثبوت اور مواد کے ايسے حالات کی منظر کشی کی جو بالآخر غلط ثابت ہوئے۔

نومبر 28 2009 کو اس ويب سائٹ پر يہ دعوی کيا گيا کہ امريکی صدر اوبامہ نے ايک فوری حکم جاری کيا جس کے تحت جنوری 30 2010 تک امريکی افواج کی تعداد ميں ايک ملين کا اضافہ کر ديا جائے گا جس کی وجہ يہ بيان کی گئ کہ موسم سرما کے آخر تک امريکہ ميں خانہ جنگی کا آغاز ناگزير ہو جائے گا۔ ايسا کوئ واقعہ رونما نہيں ہوا۔

http://current.com/1e97a4c

مئ 24 2010 کو اسی ويب سائٹ نے بی پی آئل کمپنی کے تيل کے کنويں سے متعلق حادثے کے حوالے سے عوامی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے يہ دعوی کيا کہ تيل کے بہاؤ کا يہ حادثہ انسانی تاريخ کا سب سے بڑا حادثہ بننے والا ہے جس کے نتيجے ميں آدھے سے زيادہ براعظم امريکہ مکمل تبائ کا شکار ہو جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ يہ دعوی بھی محض سائنس فکشن ہی ثابت ہوا۔

http://www.eutimes.net/2010/05/toxic-oil-spill-rains-warned-could-destroy-north-america/

اپريل 6 2010 کو اپنے مخصوص طرز رپورٹنگ کے عين مطابق اس ويب سائٹ پر دعوی کيا گيا کہ امريکی حکومت اپنی 11 مغربی رياستوں ميں 300 سے زائد "ڈيتھ کيمپ" تعمير کروا رہی ہے۔ اسی رپورٹ ميں يہ بھی کہا گيا کا صدر اوبامہ کی وزارت داخلہ 13 ملين ايکٹر زمين اپنے ہی لوگوں سے چھيننے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ يہ بھی بالکل غلط ثابت ہوا۔

http://www.eutimes.net/2010/04/death-camps-warned-being-prepared-as-millions-in-us-left-hopeless/

جون 3 2010 کو ويب سائٹ پر يہ دعوی کيا گيا کہ صدر اوبامہ سال 2012 سے قبل ہی اپنی صدرات سے مستعفی ہو جائيں گے۔ اس میں بھی کوئ صداقت نہيں ہے۔

http://www.eutimes.net/2010/06/the-coming-resignation-of-barack-obama/

يہ کچھ ايسی مثاليں ہیں جن سے آپ کو اس ويب سائٹ پر کی جانے والی رپورٹنگ کی نوعيت کا اندازہ ہو جائے گا۔ ايک ايسی ويب سائٹ جو بظاہر يورپ کی خبروں کے حوالے سے اپنی شناخت ظاہر کرتی ہے، حيرت انگيز بات يہ ہے کہ اس پر شا‏ئع ہونے والی اکثر خبروں کا يورپ سے کوئ تعلق نہيں ہے بلکہ امريکہ سے متعلق واقعات پر زيادہ فوکس کيا جاتا ہے۔ اگر اس ويب سائٹ کے عنوان سے ہٹ کر اس کی تفصيل والے سيکشن کا جائزہ ليں تو يہ حقيقت آشکار ہوتی ہے کہ يہاں بھی کوئ خاطر خواہ معلومات موجود نہیں ہيں۔ نہ ہی عملے کے ناموں کا کوئ ذکر ہے، نہ ہی کوئ ايڈريس اور نہ ہی ويب سائٹ کی کوئ تاريخ۔ ويب سائٹ کے اپنے دعوے کے مطابق يہ ايک عالمی اخبار ہے جو يورپ ميں موجود ہے ليکن اس کی فعال شاخيں امريکہ اور کينيڈا ميں ہيں۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ اس ويب سائٹ کا ڈومين بھی يورپ ميں رجسٹرڈ نہیں ہے۔

اس ساری معلومات اور پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے کيا کوئ بھی محترم صحافی يا ميڈيا سے متعلق کوئ شخص کسی تعميری بحث ميں اس ويب سائٹ کی کسی رپورٹ کا ريفرنس يا حوالہ پيش کرنے کا جواز رکھتا ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

ابھی تک سفارت کار؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ او بھائی مرنا بھی ہے تم نے کہ نہیں؟؟ کچھ اپنی عاقبت کا سوچو
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

حیرت ہے کہ آپ سارے مراسلے پڑھتے ہیں اور ٹی وی ٹاک شو سنتے ہیں لیکن ہر بار میرے سوال کا جواب گول کر جاتے ہیں۔ میں اس بات پر آپ کے خلاف سخت احتجاج کرتا ہوں۔



ميں نے اس سوال سے فرار کی کوشش نہيں کی ہے۔ اس ميں کوئ شک نہیں کہ ميں نے اس کيس کے حوالے سے جو امريکی موقف اور تسلسل کے ساتھ نقطہ نظر فورمز پر پيش کيا ہے وہ آپ کی سوچ، نقطہ نظر اور اس کيس سے متعلق مخصوص سوالات کے مخالف ہے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ ہم 27 جنوری کو پيش آنے والے تمام واقعات کے اس سلسلے کو اپنی جان کی حفاظت کے ليے کيے جانے والے اقدامات کے تناظر میں ايک ہی پيرائے ميں ديکھتے ہیں جو مقامی عدالتوں، ٹريفک پوليس اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دسترس سے باہر ہے۔ آپ ميڈيا رپورٹس اور قياس آرائيوں کے بنياد پر جو سوال اٹھا رہے ہیں وہ ايک عام عدالتی کيس کے پیمانے کے مطابق تو درست ہے جس ميں تمام فريقين کو اس بات کے يکساں مواقع ملتے ہيں کہ وہ اپنا کيس پيش کريں اور پھر شواہد کی بنياد پر جج يہ حتمی فيصلہ کرتا ہے کہ آيا کسی مخصوص واقعے کو ايسا حادثہ قرار ديا جا سکتا ہے جس سے بچاؤ ممکن نہيں تھا يا پھر اسے مجرمانہ غفلت گردانا جائے۔

ميں نے بارہا يہ کہا ہے کہ سفارتی حيثيت سے متعلق رائج عالمی قوانين اور ضوابط بالکل واضح ہيں اور امريکہ سميت دنيا بھر میں کام کرنے والے غیر ملکی سفارت کاروں کو تحفظ مہيا کرتے ہیں۔

دنيا بھر کے مختلف ممالک ميں ايسی درجنوں مثاليں موجود ہیں جہاں سفارت کاروں کی جانب سے ٹريفک قوانين اور ديگر واقعات کے نتيجے ميں کوئ کاروائ نہیں کی جا سکی کيونکہ انھيں سفارتی استثنی حاصل تھی۔

يہاں ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ ميزبان ملک کو يہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ سفارتی استثنی کے باوجود کسی بھی غیر ملکی شخص کو ناپسنديدہ قرار دے کر ملک بدر کر دے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

میم نون

محفلین
یعنی کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ چونکہ ایک شخص کو سفارتی استثنی حاصل ہے اس لئیے اسے کھلی آزادی ہے کہ جسے چاہے قتل کرتا پھرے اور جیسی چاہے دہشت گردی کرتا پھرے اسے کچھ نہیں کہا جا سکتا ؟
کوئی بھی عقلمند اور سمجھدار شخص اس کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتا۔
اور آپ جو بار بار سفارتی استثنی کی بات کرتے ہیں تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی پاکستانی سفارتخانے کا ملازم دوچار امریکیوں کا قتل کر دے تو اسپر آپکا کیا ریکشن ہو گا؟
کیا اس صورت میں بھی آپ اس عالمی قانون کی ایسے ہی تشریح کریں گے یا پھر وہاں پر آپکی تشریح کوئی اور ہو گی؟
 

شمشاد

لائبریرین
کیا کسی غیر ملکی کو اس ملک کے، جہاں وہ رہ رہا ہے، قانون کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کرنا بھی سفارتی استثنیٰ میں آتا ہے۔ وہ ڈرائیور جو ون وے کی خلاف ورزی کر کے اس سڑک پر آیا اور اس نے ایک بے گناہ راہگیر کو کچل دیا، یہ بھی سفارتی استثنیٰ میں آتا ہے، کیا اس ڈرائیور کو یہ جانتے بوجھتے کہ وہ مجرم ہے اس ملک سے فرار کروا دینا بھی سفارتی آداب میں آتا ہے۔

آج ہمارے ملک کی عدالت نے طرفین کی طرف سے پیش کیئے گئے شواہد کی بنا پر یہ فیصلہ دیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ کیا آپ ہمارے عدالتی فیصلے کا احترام کریں گے کہ ابھی بھی آپ اس ہٹ دھرمی پر قائم رہیں گے کہ اُسے سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔

ہمارے ملک میں گزشتہ دنوں ایک وفاقی وزیر کو قتل کر دیا گیا، جس پر صدر اوبامہ نے بیان دیا ہے کہ قاتلوں کو فوراً گرفتار کر کے ان پر بین الاقوامی طرز کا مقدمہ چلایا جائے اور انہیں فی الفور کیفر و کردار تک پہنچایا جائے۔ آپ کے صدر کو ان چار مقتولین پر جو امریکی شہریوں کے ہاتھوں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان کے مقدمے کے متعلق ایسا بیان دینے میں کیوں عار ہے کہ ان قاتلوں پر بھی ایسا ہی مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

خدارا آپ بھی “میں نہ مانوں“ والا رویہ چھوڑیئے۔ امریکہ ہی سب کچھ نہیں ہے۔ کل کلاں کو ہر ایک نے اپنے کیئے کا حساب دینا ہے، وہاں امریکہ بھی کچھ نہیں کر سکے گا۔

آخر میں اللہ تعالٰی سے دعا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ۔
 

شمشاد

لائبریرین
یعنی کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ چونکہ ایک شخص کو سفارتی استثنی حاصل ہے اس لئیے اسے کھلی آزادی ہے کہ جسے چاہے قتل کرتا پھرے اور جیسی چاہے دہشت گردی کرتا پھرے اسے کچھ نہیں کہا جا سکتا ؟
کوئی بھی عقلمند اور سمجھدار شخص اس کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتا۔
اور آپ جو بار بار سفارتی استثنی کی بات کرتے ہیں تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی پاکستانی سفارتخانے کا ملازم دوچار امریکیوں کا قتل کر دے تو اسپر آپکا کیا ریکشن ہو گا؟
کیا اس صورت میں بھی آپ اس عالمی قانون کی ایسے ہی تشریح کریں گے یا پھر وہاں پر آپکی تشریح کوئی اور ہو گی؟

نوید توبہ کرو توبہ۔ امریکیوں کو مارنے کی بات کرتے ہو اور پھر استثنیٰ کی بات کرتے ہو۔ امریکی تو سیدھے آسمان سے اُترے ہوئے ہوتے ہیں، وہ کوئی ہماری تمہاری طرح تھوڑے ہی ہیں۔ وہ کچھ بھی کرتے رہیں، کیونکہ ابھی “ڈنڈا“ ان کے پاس ہے۔
 

سویدا

محفلین
تیس سال پہلے کے ”ریمنڈ ڈیوس“ کا فکر افروز بیان... گریبان …منوبھائی
تیس سال پہلے لاؤس میں ریمنڈ ڈیوس جیسے ”فرائض“ سر انجام دینے والے رابرٹ اینڈرسن بتاتے ہیں کہ انہیں لاہور میں ریمنڈ کی کارکردگی سے اپنا لاؤس میں موجودگی کا زمانہ یاد آ گیا ہے جہاں وہ سفارتی عملے کے بہروپ میں لوگوں کے اجرتی قاتلوں کا کردار ادا کرتے رہے ہیں مگر آج کے ریمنڈ ڈیوسوں کے لئے یہ کام بہت مشکل ہو گیا ہے کیونکہ ”دنیا نے ہماری اصل شکل دیکھ لی ہے، ہمارے اصل کردار کو پہچان لیا ہے، ہمارا اعتبار اٹھ گیا ہے“۔ رابرٹ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ ویت نام کی جنگ کے دوران لاؤس کی کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور ویت نام میں وہی جغرافیائی پوزیشن اور اہمیت تھی جو افغانستان کے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کی ہے۔ لاؤس میں ہمارے ملک امریکہ نے وہاں کے امریکہ مخالف عناصر کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا جو سی آئی اے کی رہنمائی اور نگرانی میں کی گئی۔
رابرٹ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اس ”خفیہ کارروائی“ میں ایئرفورس کے آگ برسانے والے ٹیکنیشن کے طور پر حصہ دار بنے تھے۔ ہمیں فوجی شناختی کارڈوں کے علاوہ ”دفتر خارجہ“ کے شناختی کارڈ بھی فراہم کئے گئے تھے بتایا گیا تھا کہ اگر زندہ پکڑے جائیں تو اپنے آپ کو سفارتی عملے کا حصہ ظاہر کریں۔ ہم روزانہ لاؤس، کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور ویت نام میں تباہی مچانے اور خون بہانے والی کارروائیاں کرتے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ اگر پکڑے گئے یا مارے گئے تو ہماری کوئی تلاش نہیں ہو گی، ہمارے پس ماندگان ، ہمارے گھرانوں کو امریکہ میں بتایا جائے گا کہ ہم ٹریفک کے حادثے میں مارے گئے ہیں۔ ہمارے بچوں اور عزیزوں کو ہماری لاشیں دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوگا۔
ہماری ٹیم کو بتایا گیا تھا کہ جب اقوام متحدہ کے انسپکٹرز یا عالمی میڈیا سے تعلق رکھنے والے آئیں تو ہم اپنے ”نہاں خانوں“ سے باہر نہ آئیں۔ کہیں بھی دکھائی نہ دیں تاکہ کوئی ہم سے سوال نہ پوچھ لے۔ ساٹھ سال پہلے یہ سب بہت ہی منصوبہ بندی سے کیا جاتا تھا جس میں محکمہ دفاع اور دفتر خارجہ برابر کے شریک اور شامل ہوتے تھے۔ 1968ء میں ، میں لاؤس میں تھا اور یہی کچھ کر رہا تھا۔ یہ سب کچھ طویل عرصہ تک جاری رہا جب تک ہم پوری طرح ذلیل ہو کر ویت نام سے بھاگنے پر مجبور نہیں ہوئے۔
میں ایک ٹیم میں شامل تھا جس کو باقاعدہ ”ٹارگٹ کلنگ“ کے لئے فہرست فراہم کی گئی تھی۔ اس پروگرام کو ”ققنس پروگرام“(Phoenix Programme) کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے تحت ہند چینی کے ساٹھ ہزار لوگوں کو قتل کرنا تھا ہم نے لاؤس کو شدید نقصان پہنچانے والی کارروائی کی اس کے باوجود جنگ ہار گئے کیونکہ بے گناہوں کو مارنے والے کبھی کوئی جنگ نہیں جیت سکتے۔ میں ایک ایسی ٹیم کی موجودگی کا علم بھی رکھتا ہوں جس کی میں تربیت کر رہا تھا۔ اس کو ہدایت تھی کہ وہ جس کو قتل کرے اس کے کان کاٹ کر ثبوت کے طور پر محفوظ کر لے بعد میں کان کاٹنے کا یہ حکم واپس لے لیا گیا اور صرف فوٹو گراف پر اکتفا کیا گیا۔ ”میل گبسن “ نے اس موضوع پر ”ریز امریکہ“ کے عنوان سے ایک فلم بنائی ہے اس کے پس منظر میں یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ سی آئی اے نے منشیات کی غیرقانونی تجارت کی اجازت دے دی تھی کہ اس آپریشن میں شامل ہونے والوں کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ امریکہ کے اخلاقی دیوالیہ پن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا؟
رابرٹ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کی آئین دشمنی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ہم ویت نام ، لاؤس، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ میں جو کچھ کر رہے تھے اس کی کانگریس سے کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی۔ ”میں نے اپنے سامنے منشیات کا کاروبار اور سمگلنگ ہوتے دیکھتی ہے۔ “ ساؤتھ ایسٹ ایشیا میں ہیروئن کی سیاست میں الفریڈ میکائے نے اس کی تفصیلات بیان کی ہیں اور آلیور نارتھ اس کی تائید کرتے ہیں ۔ آلیور نارتھ ہمارے لاؤس آپریشن کے ایک سرکردہ رہنما تھے۔
رابرٹ کے مطابق امریکہ کی تاریخ اس نوعیت کے پروگراموں کی ایک طویل فہرست سے ترتیب پاتی ہے جن کا آغاز دوسری عالمی جنگ سے بھی پہلے سے ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم نے یہ پروگرام نازی جرمنی سے مستعار لئے ہیں اور سرد جنگ کے دنوں میں ان پروگراموں کو آزمایا ہے۔ ان پروگراموں کے ذریعے ہی امریکی سی آئی اے ہر اس تحریک کو گمراہ کرنے یا غلط راہوں پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے جو امریکہ کے مفادات کے خلاف جانے کے خدشات لئے ہوئے ہوتی ہے۔ 1953ء میں ایران کی جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش وہاں کے تیل پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی۔ عالم اسلام آج جس دہشت گردی کی زد میں ہے اس کا آغاز 1953ء کی اس حماقت سے ہی ہوا تھا۔
رابرٹ اینڈرسن نے سی آئی اے کے سابق عہدیدار کالمرز جانسن کی کتابوں کو بھی حقائق بیان کرنے والی امریکہ کے خوفناک ارادوں اور انتہائی گھناؤنے کردار کی نشاندہی کرنے والی دستاویزات قرار دیا ہے اور آج کے دور کو سامنے رکھیں تو یہ حقائق عراق میں امریکہ کی شکست اور افغانستان میں مشکلات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ تمام کوششیں امریکہ کے خود کش حملوں کی کوششیں ہیں جن کے ذریعے نقصان سب سے زیادہ خودکشی کرنے والوں کا ہواہے۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=510157
 

سویدا

محفلین
سینٹر فارسیکورٹی اینڈ سائنس کے فیلو اور پاکستان میں انتخابی مبصر کے طور پر آنے والے معروف تجزیہ کار تھامس ہولہانہ(THOMAS HOULHANA) نے اپنے ایک آرٹیکل میں نہایت مدلل انداز میں واضح کیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کسی استثنیٰ کا استحقاق نہیں رکھتا۔ تھامس کا کہنا ہے۔ ” کسی ملک کی طرف سے ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرنے سے خودبخود معاہدہ اس ملک کے داخلی قانون پر حاوی نہیں ہوجاتا۔ یہ بات امریکہ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ امریکی سپریم کورٹ‘ میڈیلین بنام ٹیکساس‘(200US-491 میں قرار دے چکی ہے کہ بین الاقوامی معاہدے خود بخود امریکی وفاقی قانون کے لئے باعث پابندی نہیں ہوجاتے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ امریکی کانگریس قانون سازی کرے۔ پاکستانی سپریم کورٹ بھی 2002ء میں ایسا ہی فیصلہ دے چکی ہے کہ کسی بین الاقوامی عہدنامے کی شرائط اس وقت تک موثر نہیں ہوں گی جب تک پارلیمنٹ انہیں کسی ملکی قانون میں نہیں سموتی۔ پاکستان نے 1972ء میں ویانا کنوینشنز کے تحت ایک قانون بنایا۔ ویانا کنونشن کے تحت یہ اختیار سفارتکار بھیجنے والے ملک کو ہے کہ وہ اپنے کس اہلکار کو استثنیٰ دیتا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس یکطرفہ اختیار کے غلط استعمال کی پیش بندی کرتے ہوئے 1972ء میں بنائے گئے قانون میں کہا کہ سفارتی عملے کے کسی رُکن کو استثنیٰ کا حق دار قرار دینے کا اختیار پاکستانی دفتر خارجہ کے پاس ہوگا جو اس ضمن میں باقاعدہ کارڈ جاری کرے گا۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 4 ‘ پاکستان میں مقیم ہر شخص کی جان کو تحفظ دیتا ہے (ان دو افراد سمیت جنہیں ریمنڈ نے قتل کرڈالا)۔ آرٹیکل 5 کے تحت (ڈیوس سمیت) پاکستان میں مقیم ہر شخص کو پاکستان کے قانون کی پاسداری کرنا ہوگی“۔
ان دلائل ک ساتھ تھامس نے مزید لکھا ” پاکستان کی حکومت اس آشوب میں مبتلا ہے کہ یہ معاملہ مستقبل میں امریکی امداد کے امکانات پر کتنا اثر انداز ہوگا لہٰذا وہ کہتی پھرتی ہے کہ ہمارے قوانین کے تحت ہمیں ریمنڈ کا استثنیٰ تسلیم کرنا ہوگا۔ پھر پی پی پی کی ترجمان فوزیہ وہاب نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ ”پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریاں ہیں اور ہمیں ان ذمہ داریوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی تقریباً یہی لائن لیتے ہوئے کہا ”بعض بین الاقوامی ضابطے اور معاہدے ایسے ہیں جنکی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی“۔ رحمان ملک اور دوسرے سرکاری اہلکار یہ کہنا نہیں بھولتے کہ ”فیصلہ عدالت کریگی لیکن یہ بات کوئی راز نہیں کہ پی پی پی حکومت کسی بہانے کی تلاش میں ہے‘ کوئی بھی بہانہ جسکی آڑ میں وہ ڈیوس کو رہا کرسکے“۔
یہ ایک مغربی مبصر کے خیالات ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا مقدمہ کتنا مضبوط ہے۔ دو دن قبل معروف اخبار گارڈین میں ایک سابق برطانوی سفارت کار‘ کریگ مرے (CRAIG MURRAY) کا مضمون شائع ہوا جس کا ٹائٹل ہے "This CIA agent is no diplomat" ( سی آئی اے کا یہ ایجنٹ سفارت کار نہیں ہے)۔ فرصت ملے تو حکومت کو اس پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہئے۔ کریگ مرے لکھتا ہے۔ ” میں ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر بات کرتے ہوئے بے حد محتاط رہنا چاہتا ہوں کیوں کہ سی آئی اے کے اس ایجنٹ پر دہرے قتل کا الزام ہے اور اُسے سزائے موت کا سامنا ہے… لیکن ایک بات جو میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں‘ یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نہ تو سفارت کار ہے اور نہ ہی اسے سفارتی استثنیٰ حاصل ہے… باہمی سفارتی تعلقات میں استثنیٰ نہایت ہی محدود تعداد کے افراد کو حاصل ہوتا ہے۔ مکمل سفارتی استثنیٰ صرف اُن سفارتی اہلکاروں کو حاصل ہوتا ہے جن کا ذکر ویانا کنونشن کے آرٹیکل (C) میں کردیا گیا ہے۔ اس کے مطابق استثنیٰ کا اہل صرف مشن کا سربراہ یا سفارتی عملہ ہوتا ہے۔ اس سفارتی عملے کی وضاحت بھی اگلے آرٹیکل میں کردی گئی ہے‘ جس کی رو سے یہ درجہ بہ درجہ تھرڈ سیکریٹری سے سفیر یا ہائی کمشنر تک جاتا ہے۔ دوسری کیٹیگری ”ایڈمنسٹریٹو اینڈ ٹیکنیکل اسٹاف“ کی ہے۔ اس اسٹاف کو محدود استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ اس استثنیٰ میں وہ کام شامل نہیں جو کوئی شخص اپنی سفارتی ذمہ داریوں کے دائرہ کار سے نکل کرکرتا ہے۔ ڈیوس کے حوالے سے امریکہ کو بتانا ہوگا کہ کیا کوئی سفارت کار اپنی سفارتی ذمہ داریوں کے دوران ایک گلاک ہینڈ گن‘ ماتھے پہ لگانے والی ایک فلیش لائٹ اور دوربین ساتھ رکھتا ہے؟ اور آخری بات یہ کہ ڈپلومیٹک پاسپورٹ کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس شخص کو سفارتی استثنیٰ بھی حاصل ہوجاتا ہے“۔
یہ ایک سابق برطانوی سفارت کار کا نقطہٴ نظر ہے لیکن اسلام آباد کے حکمرانوں کو کون سا کشتہ فولاد کھلایا جائے کہ اُن کی گنگ ہوجانیو الی زبانوں میں بھی حرکت پیدا ہو اور وہ بھی اُس حرف حق کو ہونٹوں پرلاسکے جو اب زبان خلق بنتا جارہا ہے۔
عرفان صدیقی
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=510148
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

تو پھر امریکی حکومت ان کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں قائم کرتی۔


کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی حکومت کے پاس اتنی افرادی قوت، وسائل اور يہاں تک خواہش بھی موجود ہے کہ وہ ايسی ہر کتاب، کالم، ويب سائٹ اور ٹی وی پروگرام اور ان کے تخليق کاروں کے خلاف قانونی کاروائ کرے جن ميں امريکی حکومت کے اعلی عہديداروں کے خلاف الزامات لگائے جاتے ہیں؟

اگر آپ امريکی ميڈيا اور اور انٹرنيٹ کا سرسری جائزہ ليں تو آپ ديکھيں گے کہ ہر روز يہاں پر ايسی کہانياں سامنے آتی ہيں جن ميں حکومتی عہديداروں پر شديد نقطہ چينی کی جاتی ہے۔ ان ميں سے کبھی کسی کے خلاف مقدمے نہيں بنائے گئے۔

يہ بھی ياد رہے کہ اگر امريکی حکومت اس قسم کے اقدامات اٹھائے تو يہ عمل براہراست امريکہ ميں آزادی رائے اور افراد کی آزاد سوچ کے اظہار کے حق کی نفی کر دے گا۔ اس کے برعکس امريکی حکومت ميں ہر شخص اپنے اعمال کے ليے جواب دہ ہے۔ ميں آپ کو ماضی قريب اور بعيد ميں سے ايسی کئ مثاليں دے سکتا ہوں جب امريکی صدر سميت کئ سينير امريکی اہلکاروں پر عدالت میں مقدمے بھی چلے اور انھيں اپنے اعمال کے لیے جواب دہ بھی ہونا پڑا۔

ليکن امريکی حکومت عمومی طور پر افراد کو اس بات کے ليے مجبور نہيں کرتی کہ وہ پرنٹ اور ميڈيا کے مختلف فورمز پر حکومت کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ثابت کريں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
جب امریکہ ہر ملک اور بیشتر ملکو ں کے ہر شہر میں “پنگے“ لے رہا ہے تو اس کے کے لیے کیا مشکل ہے۔

فواد آپ میرے سوال کا سیدھا جواب دیں، گول مول بات نہ کریں کہ وہ امریکی ڈرائیور اور گاڑی اب تک پنجاب پولیس کے سامنے کیوں نہیں پیش کی گئی جس نے ایک بیگناہ کو کچل دیا تھا اور کئی ایک کو زخمی کیا تھا؟
 

سویدا

محفلین
برادرم فواد! امریکی حکومت کی طرف سے ابھی تک شمشاد صاحب کے سوال کی وضاحت نہیں کی گئی:
سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا اصل جرم کیا ہے؟ پنجاب پولیس نے دو ایشوز پر فردِ جرم عائد کی ہے یعنی دو پاکستانی نوجوانوں کا جان بوجھ کر اور بلاجواز قتل (naked and deliberate murder)، اور دوسرا ناجائز اسلحہ کا قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلحہ رکھنا اور استعمال کرنا۔ اسی طرح خواہ بڑی تاخیر کے بعد اور عدالت کے حکم پر امریکی قونصل خانہ کی اس گاڑی کے چلانے والوں پر غیرحاضری میں فردِ جرم، جو غلط سمت سے گاڑی لاکر ایک معصوم نوجوان عبیدالرحمن کی ہلاکت کا باعث ہوئی۔ پھر اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرکے لاہور میں امریکی قونصل خانے میں پناہ گزین ہوئے اور امریکی حکام کے مجرمانہ تعاون سے غالباً ملک سے باہر روانہ بھی کردیئے گئے ہیں۔ اس تیسرے قتل کے مجرموں کے باب میں پنجاب پولیس اور حکومت کا رویہ واضح طور پر نہایت غیرتسلی بخش ہے۔(جاری ہے)
پروفیسر خورشید احمد
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=511705
 

سویدا

محفلین
آج کی خبر قابل توجہ ہے :
ریمنڈکے فون کا ریکارڈ:300 پاکستانیوں سے پوچھ گچھ
جن زیادہ تر لوگوں سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق تو مذہبی گروپوں سے ہے ۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=511856

ان نام نہاد مذہبی تنظیموں کے پیچھے کن کا ہاتھ ہے فیصلہ خود کرلیجیے
 
Top