ایچ اے خان
معطل
خبریں یہ بھی ہیں کہ پشاور سے مزید امریکی دھشت گرد پکڑے گئے ہیں۔
اور یہ رہا اس کا ثبوت
"CIA spy" Davis was giving nuclear bomb material to
Al-Qaeda, says report
يہ بات ناقابل يقين ہے کہ پاکستانی بلاگز اور فورمز پر بعض رائے دہندگان يہ مضحکہ خيز تھیوری پيش کر رہے ہيں کہ ايک امريکی سفارت کار اپنی حکومت کے ايما پر طالبان کی ايٹمی ہتھياروں تک رسائ کو يقينی بنانے کے عمل ميں ملوث ہو سکتا ہے۔ ميں نے کچھ ٹی وی ٹاک شوز بھی ديکھے ہیں جو اس بے بنياد کہانی کی تشہير کر رہے ہيں جس کی بنیاد ای يو ٹائمز نامی ويب سائٹ پر شائع ہونے والی ايک رپورٹ ہے۔
کوئ بھی شخص جو خبر کو رپورٹ کرنے کے حوالے سے اس ويب سائٹ کے پس منظر، صحافتی ساکھ اور تشخص کے حوالے سے معلومات رکھتا ہے، وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ اس ويب سائٹ پر پيش کيا جانے والا کچھ مواد سنی سنائ باتوں، افواہوں اور ناقابل يقين منظرنامے پر مبنی تخلياتی کہانيوں کی بنياد پر ہوتا ہے۔
يہاں ميں کچھ حاليہ مثاليں پيش کر رہا ہوں جہاں اس ويب سائٹ نے فلمی طرز پر بغير کسی ثبوت اور مواد کے ايسے حالات کی منظر کشی کی جو بالآخر غلط ثابت ہوئے۔
نومبر 28 2009 کو اس ويب سائٹ پر يہ دعوی کيا گيا کہ امريکی صدر اوبامہ نے ايک فوری حکم جاری کيا جس کے تحت جنوری 30 2010 تک امريکی افواج کی تعداد ميں ايک ملين کا اضافہ کر ديا جائے گا جس کی وجہ يہ بيان کی گئ کہ موسم سرما کے آخر تک امريکہ ميں خانہ جنگی کا آغاز ناگزير ہو جائے گا۔ ايسا کوئ واقعہ رونما نہيں ہوا۔
http://current.com/1e97a4c
مئ 24 2010 کو اسی ويب سائٹ نے بی پی آئل کمپنی کے تيل کے کنويں سے متعلق حادثے کے حوالے سے عوامی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے يہ دعوی کيا کہ تيل کے بہاؤ کا يہ حادثہ انسانی تاريخ کا سب سے بڑا حادثہ بننے والا ہے جس کے نتيجے ميں آدھے سے زيادہ براعظم امريکہ مکمل تبائ کا شکار ہو جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ يہ دعوی بھی محض سائنس فکشن ہی ثابت ہوا۔
http://www.eutimes.net/2010/05/toxic-oil-spill-rains-warned-could-destroy-north-america/
اپريل 6 2010 کو اپنے مخصوص طرز رپورٹنگ کے عين مطابق اس ويب سائٹ پر دعوی کيا گيا کہ امريکی حکومت اپنی 11 مغربی رياستوں ميں 300 سے زائد "ڈيتھ کيمپ" تعمير کروا رہی ہے۔ اسی رپورٹ ميں يہ بھی کہا گيا کا صدر اوبامہ کی وزارت داخلہ 13 ملين ايکٹر زمين اپنے ہی لوگوں سے چھيننے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ يہ بھی بالکل غلط ثابت ہوا۔
http://www.eutimes.net/2010/04/death-camps-warned-being-prepared-as-millions-in-us-left-hopeless/
جون 3 2010 کو ويب سائٹ پر يہ دعوی کيا گيا کہ صدر اوبامہ سال 2012 سے قبل ہی اپنی صدرات سے مستعفی ہو جائيں گے۔ اس میں بھی کوئ صداقت نہيں ہے۔
http://www.eutimes.net/2010/06/the-coming-resignation-of-barack-obama/
يہ کچھ ايسی مثاليں ہیں جن سے آپ کو اس ويب سائٹ پر کی جانے والی رپورٹنگ کی نوعيت کا اندازہ ہو جائے گا۔ ايک ايسی ويب سائٹ جو بظاہر يورپ کی خبروں کے حوالے سے اپنی شناخت ظاہر کرتی ہے، حيرت انگيز بات يہ ہے کہ اس پر شائع ہونے والی اکثر خبروں کا يورپ سے کوئ تعلق نہيں ہے بلکہ امريکہ سے متعلق واقعات پر زيادہ فوکس کيا جاتا ہے۔ اگر اس ويب سائٹ کے عنوان سے ہٹ کر اس کی تفصيل والے سيکشن کا جائزہ ليں تو يہ حقيقت آشکار ہوتی ہے کہ يہاں بھی کوئ خاطر خواہ معلومات موجود نہیں ہيں۔ نہ ہی عملے کے ناموں کا کوئ ذکر ہے، نہ ہی کوئ ايڈريس اور نہ ہی ويب سائٹ کی کوئ تاريخ۔ ويب سائٹ کے اپنے دعوے کے مطابق يہ ايک عالمی اخبار ہے جو يورپ ميں موجود ہے ليکن اس کی فعال شاخيں امريکہ اور کينيڈا ميں ہيں۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ اس ويب سائٹ کا ڈومين بھی يورپ ميں رجسٹرڈ نہیں ہے۔
اس ساری معلومات اور پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے کيا کوئ بھی محترم صحافی يا ميڈيا سے متعلق کوئ شخص کسی تعميری بحث ميں اس ويب سائٹ کی کسی رپورٹ کا ريفرنس يا حوالہ پيش کرنے کا جواز رکھتا ہے؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
اور یہ رہا اس کا ثبوت
"CIA spy" Davis was giving nuclear bomb material to
Al-Qaeda, says report
يہ بات ناقابل يقين ہے کہ پاکستانی بلاگز اور فورمز پر بعض رائے دہندگان يہ مضحکہ خيز تھیوری پيش کر رہے ہيں کہ ايک امريکی سفارت کار اپنی حکومت کے ايما پر طالبان کی ايٹمی ہتھياروں تک رسائ کو يقينی بنانے کے عمل ميں ملوث ہو سکتا ہے۔ ميں نے کچھ ٹی وی ٹاک شوز بھی ديکھے ہیں جو اس بے بنياد کہانی کی تشہير کر رہے ہيں جس کی بنیاد ای يو ٹائمز نامی ويب سائٹ پر شائع ہونے والی ايک رپورٹ ہے۔
کوئ بھی شخص جو خبر کو رپورٹ کرنے کے حوالے سے اس ويب سائٹ کے پس منظر، صحافتی ساکھ اور تشخص کے حوالے سے معلومات رکھتا ہے، وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ اس ويب سائٹ پر پيش کيا جانے والا کچھ مواد سنی سنائ باتوں، افواہوں اور ناقابل يقين منظرنامے پر مبنی تخلياتی کہانيوں کی بنياد پر ہوتا ہے۔
يہاں ميں کچھ حاليہ مثاليں پيش کر رہا ہوں جہاں اس ويب سائٹ نے فلمی طرز پر بغير کسی ثبوت اور مواد کے ايسے حالات کی منظر کشی کی جو بالآخر غلط ثابت ہوئے۔
نومبر 28 2009 کو اس ويب سائٹ پر يہ دعوی کيا گيا کہ امريکی صدر اوبامہ نے ايک فوری حکم جاری کيا جس کے تحت جنوری 30 2010 تک امريکی افواج کی تعداد ميں ايک ملين کا اضافہ کر ديا جائے گا جس کی وجہ يہ بيان کی گئ کہ موسم سرما کے آخر تک امريکہ ميں خانہ جنگی کا آغاز ناگزير ہو جائے گا۔ ايسا کوئ واقعہ رونما نہيں ہوا۔
http://current.com/1e97a4c
مئ 24 2010 کو اسی ويب سائٹ نے بی پی آئل کمپنی کے تيل کے کنويں سے متعلق حادثے کے حوالے سے عوامی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے يہ دعوی کيا کہ تيل کے بہاؤ کا يہ حادثہ انسانی تاريخ کا سب سے بڑا حادثہ بننے والا ہے جس کے نتيجے ميں آدھے سے زيادہ براعظم امريکہ مکمل تبائ کا شکار ہو جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ يہ دعوی بھی محض سائنس فکشن ہی ثابت ہوا۔
http://www.eutimes.net/2010/05/toxic-oil-spill-rains-warned-could-destroy-north-america/
اپريل 6 2010 کو اپنے مخصوص طرز رپورٹنگ کے عين مطابق اس ويب سائٹ پر دعوی کيا گيا کہ امريکی حکومت اپنی 11 مغربی رياستوں ميں 300 سے زائد "ڈيتھ کيمپ" تعمير کروا رہی ہے۔ اسی رپورٹ ميں يہ بھی کہا گيا کا صدر اوبامہ کی وزارت داخلہ 13 ملين ايکٹر زمين اپنے ہی لوگوں سے چھيننے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ يہ بھی بالکل غلط ثابت ہوا۔
http://www.eutimes.net/2010/04/death-camps-warned-being-prepared-as-millions-in-us-left-hopeless/
جون 3 2010 کو ويب سائٹ پر يہ دعوی کيا گيا کہ صدر اوبامہ سال 2012 سے قبل ہی اپنی صدرات سے مستعفی ہو جائيں گے۔ اس میں بھی کوئ صداقت نہيں ہے۔
http://www.eutimes.net/2010/06/the-coming-resignation-of-barack-obama/
يہ کچھ ايسی مثاليں ہیں جن سے آپ کو اس ويب سائٹ پر کی جانے والی رپورٹنگ کی نوعيت کا اندازہ ہو جائے گا۔ ايک ايسی ويب سائٹ جو بظاہر يورپ کی خبروں کے حوالے سے اپنی شناخت ظاہر کرتی ہے، حيرت انگيز بات يہ ہے کہ اس پر شائع ہونے والی اکثر خبروں کا يورپ سے کوئ تعلق نہيں ہے بلکہ امريکہ سے متعلق واقعات پر زيادہ فوکس کيا جاتا ہے۔ اگر اس ويب سائٹ کے عنوان سے ہٹ کر اس کی تفصيل والے سيکشن کا جائزہ ليں تو يہ حقيقت آشکار ہوتی ہے کہ يہاں بھی کوئ خاطر خواہ معلومات موجود نہیں ہيں۔ نہ ہی عملے کے ناموں کا کوئ ذکر ہے، نہ ہی کوئ ايڈريس اور نہ ہی ويب سائٹ کی کوئ تاريخ۔ ويب سائٹ کے اپنے دعوے کے مطابق يہ ايک عالمی اخبار ہے جو يورپ ميں موجود ہے ليکن اس کی فعال شاخيں امريکہ اور کينيڈا ميں ہيں۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ اس ويب سائٹ کا ڈومين بھی يورپ ميں رجسٹرڈ نہیں ہے۔
اس ساری معلومات اور پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے کيا کوئ بھی محترم صحافی يا ميڈيا سے متعلق کوئ شخص کسی تعميری بحث ميں اس ويب سائٹ کی کسی رپورٹ کا ريفرنس يا حوالہ پيش کرنے کا جواز رکھتا ہے؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
حیرت ہے کہ آپ سارے مراسلے پڑھتے ہیں اور ٹی وی ٹاک شو سنتے ہیں لیکن ہر بار میرے سوال کا جواب گول کر جاتے ہیں۔ میں اس بات پر آپ کے خلاف سخت احتجاج کرتا ہوں۔
یعنی کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ چونکہ ایک شخص کو سفارتی استثنی حاصل ہے اس لئیے اسے کھلی آزادی ہے کہ جسے چاہے قتل کرتا پھرے اور جیسی چاہے دہشت گردی کرتا پھرے اسے کچھ نہیں کہا جا سکتا ؟
کوئی بھی عقلمند اور سمجھدار شخص اس کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتا۔
اور آپ جو بار بار سفارتی استثنی کی بات کرتے ہیں تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی پاکستانی سفارتخانے کا ملازم دوچار امریکیوں کا قتل کر دے تو اسپر آپکا کیا ریکشن ہو گا؟
کیا اس صورت میں بھی آپ اس عالمی قانون کی ایسے ہی تشریح کریں گے یا پھر وہاں پر آپکی تشریح کوئی اور ہو گی؟
تو پھر امریکی حکومت ان کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں قائم کرتی۔