Fawad - Digital Outreach Team - US State Department
محترم،
"امريکہ – عالمی دہشت گرد"۔ آپکے تھريڈ کا عنوان پڑھ کر مجھے اپنے کالج کے زمانے کا ايک واقعہ ياد آ گيا جب ايک مذہبی نما سياسی جماعت کے ليڈر نے ہمارے کالج کا دورہ کيا تھا اور ہمارے کالج کی طلبہ تنظيم نے ان کے اعزاز ميں ايک تقريب کا اہتمام کيآ تھا۔ ميں چونکہ پاکستان ميں نووارد تھا اور کسی پاکستانی ليڈر کی تقریر براہراست سننے کا يہ ميرے ليے پہلا موقع تھا اس ليے ميں بھی اس تقريب ميں چلا گيا۔
ميرا اندازہ تھا کہ شائد وہ اپنی تقرير ميں اپنی پارٹی کے منشور کی بات کريں گے اور طلبہ کے مفادات کے ليے اپنی پارٹی کے منصوبوں پر روشنی ڈاليں گے۔ ليکن ان کی پوری تقرير محض "امريکہ – دشمن اسلام"، "امريکہ کے سازشی منصوبے" اور "یہودی اور بھارتی لابی کا امريکہ کے ساتھ گٹھ چوڑ" جيسے موضوعات پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ وہ مسلئہ کشمير سميت عالم اسلام کو درپيش تمام مسائل کا ذمہ دار امريکہ کو قرار ديتے رہے۔ ان کی تقرير کے دوران پورا ہال "امريکہ کا جو يار ہے، غدار ہے، غدار ہے" کے پرجوش نعروں سے گونجتا رہا۔ اس کے علاوہ وہ نوجوانوں کو جہاد کشمير ميں شامل ہونے کی تلقين بھی کرتے رہے۔ اس حوالے سے انکی جماعت کے کارکن طلبہ سے جہاد کشمير کے نام پر مختلف فارمز بھی پر کرواتے رہے۔
اس واقعے کا سب سے دلچسپ پہلو يہ ہے کہ جس وقت يہ مذکورہ ليڈر امريکہ سے نفرت کے حوالے سے زمين آسمان ايک کر رہے تھے اس وقت ان کے اپنے دونوں بيٹے امريکہ کی يونيورسٹيوں ميں اعلی تعليم حاصل کر رہے تھے اور اپنے تابناک مستقبل کے لیے بنياديں مضبوط کر رہے تھے۔
کچھ دن پہلے ميں نے انہی سياسی ليڈر کو حاليہ انتخابات کے سلسلے ميں ٹی وی پر ايک جلسے ميں تقرير کرتے ہوئے ديکھا۔ ان کے جلسے ميں کارکنوں نے بہت سارے بينر اٹھا رکھے تھے جس پر مجھے وہی مانوس نعرہ درج دکھائ ديا۔ "امريکہ کا جو يار ہے – غدار ہے، غدار ہے"۔
يہاں يہ بھی بتاتا چلوں کہ ان ليڈر صاحب کے دونوں بيٹے آج بھی اپنی فيمليز کے ساتھ امريکہ ميں مقيم ہيں اور تعليم مکمل کرنے کے بعد اعلی اداروں ميں ملازمتيں کر رہے ہيں۔
يہ واقعہ پاکستان کے کسی ايک سياسی ليڈر کی زندگی تک محدود نہيں ہے۔آپ کسی بھی سياسی جماعت کی اعلی قيادت کا جائزہ لےليں وہ ہر پبلک فورم اور ہر عوامی اجتماع ميں "امريکہ سے نفرت" کا ٹکٹ ضرور استعمال کرتے ہيں ليکن اس کے باوجود اپنے اور اپنے خاندان کے ليئے وہ تمام آسائشيں ضرور سميٹتے ہيں جو امريکی معاشرہ اپنے ہر شہری کو ديتا ہے۔ امريکہ سے نفرت کے يہ نعرے محض عوام کی توجہ اپنی ناکاميوں سے ہٹانے کے ليے تخليق کيے جاتے ہيں۔ کسی بھی قوم کی تقدير کے ذمہ دار "بيرونی ہاتھ" نہيں بلکہ اس ملک کے سياستدان ہوتے ہيں جو اسمبليوں ميں جا کر قآنون سازی کے ذريعے اس ملک کی تقدير بناتے ہيں۔
يہی وجہ ہے کہ 1985 سے لے کر اب تک آپ کوئ بھی اسمبلی اٹھا کر ديکھ ليں، کوئ بھی سياسی جماعت اپنے کسی منشور، پروگرام اور عوامی بہبود کے کسی منصوبے کے ليے عوام کے سامنے جوابدہ نہيں کيونکہ تمام تر مسائل کا ذمہ دار تو امريکہ ہے۔
ڈیجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے پچھلے کچھ عرصے سے ميں بہت سے اردو فورمز پر امريکہ کے حوالے سے لوگوں کی آرا پڑھتا رہا ہوں۔ ان تمام فورمز پر مجھے امريکہ کے خلاف وہی جذبہ محسوس ہوا جو برسوں پہلے ميں نے کالج کی اس تقريب ميں محسوس کيا تھا۔ امريکہ کے خلاف جذبات کے حوالے سے ميں نے ديکھا ہے کہ مندرجہ ذيل ايشوز ايسے ہيں جن کو بنياد بنا کر لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہيں۔
- عراق کے تيل پر قبضے کی امريکی سازش
- افغانستان اور عراق ميں امريکہ کی کٹھ پتلی حکومتيں
-امريکہ – دشمن اسلام (نيو ورلڈ آرڈر)
-عراق پر امريکی حملہ (ڈبليو – ايم – ڈی ايشو)
- افغانستان ميں امريکہ کا کردار
- گوانتاناموبے ميں قيديوں کے ساتھ غير انسانی سلوک
ان موضوعات کے حوالے سے ميں نے امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے کچھ اعدادوشمار اکٹھے کيے ہيں۔ جو آپ کے سامنے رکھ کر آپ کو تصوير کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کروں گا۔
ميں جانتا ہوں کہ عمومی طور پر پاکستانيوں کی سوچ ميں جذباتيت کا عنصر بہت نماياں ہوتا ہے وہ چاہے سياسی يا مذہبی وابستگی ہو يا اپنی کرکٹ ٹيم سے لگاؤ، ہم متضاد سوچ يا وابستگی کے حوالے سے برداشت کے معاملے ميں زيادہ فراخدلی نہيں دکھاتے۔ ليکن ميں پھر بھی چاہوں گا کہ ميرے خيالات کو جذبات کی بجائے اعداد وشمار کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔
عراق کے تيل پر قبضے کی امريکی سازش
يہ وہ نقطہ ہے جس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا گيا ہے۔ بہت سے اردو فورمز پر رائے دہندگان عراق پر حملہ بلکہ افغان جنگ کو بھی عراق کے تیل پر امريکی قبضے کی ايک عالمگير سازش قرار ديتے ہيں۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ ايک طرف تو يہ تاثر ديا جاتا ہے کہ امريکی حکومت کے صدام حسين کے ساتھ دیرينہ تعلقات رہے ھيں۔ اور پھر يہ دليل بھی دی جاتی ہے کہ امريکہ نے عراق پر تيل کے ليے حملہ کيا۔ اگر امریکہ کے صدام کے ساتھ تعلقات اتنے ہی ديرينہ تھے تو اسےاربوں ڈالرز کی لاگت سے جنگ شروع کر کے اپنے ہزاروں فوجی جھونکنے کی کيا ضرورت تھی۔ امريکہ کے ليے تو آسان راستہ يہ ہوتا کہ وہ صدام کے توسط سے تيل کی درآمد کے معاہدے کرتا۔
اس حوالے سے ميں نے يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے جو اعداد وشمار حاصل کيے ہيں وہ آپ کے سامنے رکھ کر ميں فيصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ سچ کيا ہے اور افسانہ کيا ہے۔
2006 ميں ہاورڈ ميگزين نے ايک تحقيقی کالم لکھا جس کی رو سے عراق جنگ پر امريکہ کے مالی اخراجات کا کل تخمينہ 2 ٹرلين ڈالرز لگايا گيا ہے۔ اگر ان اخراجات کا مقابلہ عراق ميں تيل کی مجموعی پیداوار سے لگايا جائے تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ عراق پر امریکی حکومت کے اخراجات عراق کی مجموعی پيداوار سے کہيں زيادہ ہيں۔ لہذا معاشی اعتبار سے يہ دليل کہ عراق پر حملہ تيل کے ليے کيا گيا تھا، بے وزن ثابت ہو جاتی ہے۔ ہاورڈ ميگزين کے اس آرٹيکل کا ويب لنک پيش کر رہا ہوں-
http://harvardmagazine.com/2006/05/the-2-trillion-war.html
ايک اور تاثر جو کہ بہت عام ہے اور اس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا جاتا ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ میں تيل کے استعمال کا مکمل دارومدار عرب ممالک سے برامد کردہ تيل کے اوپر ہے لہذا امريکی حکومت عرب ممالک اور اس کی حکومتوں پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ اعداد وشمار پيش خدمت ہيں۔
امریکہ اس وقت دنيا ميں تيل کی مجموعی پيداوار کے حساب سے تيسرے نمبر پر ہے۔ 1973 سے 2007 تک کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی ضروريات کا 57 فيصد حصہ خود پورا کيا ہے۔ باقی 43 فيصد ميں سے صرف 8 فيصد تيل کا استعمال گلف ممالک کے تيل پر منحصر ہے۔ مغربی ممالک سے تيل کے استعمال کا 20 فيصد حصہ پورا کيا جاتا ہے اور 15 فيصد تيل کی ضروريات توانائ کے ديگر ذرائع سے پوری کی گئ۔ ان اعدادوشمار کا گراف کچھ اس طرح ہے۔
جہاں تک تيل کی درآمد کا تعلق ہے تو 1973 سے 2007 کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی درآمد کا 47 فيصد حصہ مغربی ممالک سے درآمد کيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 20 فيصد ہے۔ اسی عرصے ميں 34 فيصد افريقہ، يورپ اور سابق سوويت يونين سے درآمد کيا گيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 15 فيصد بنتا ہے۔ گلف ممالک سے درآمد کردہ تيل کا تناسب صرف 19 فيصد رہا جو کہ مجموعی استعمال کا محض 8 فيصد ہے۔ يہی اعداد وشمار گراف کی شکل ميں پيش خدمت ہيں۔
اسی حوالے سے اگر آپ دنيا کے ديگر ممالک کا گلف مما لک کے تيل پر انحصار اور اس حوالے سے اعدادوشمار ديکھیں تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ جاپان امريکہ کے مقابلے ميں گلف ممالک کے تيل پر کہيں زيادہ انحصار کرتا ہے۔ 1992 سے 2006 کے درميانی عرصے ميں جاپان نے اوسطا 65 سے 80 فيصد تيل گلف ممالک سے درآمد کيا۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کے مقابلہ ميں جاپان کا گلف ممالک پر انحصار بتدريج بڑھا ہے۔ مندرجہ ذيل گراف سے يہ بات واضح ہے کہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کا گلف ممالک کے تيل پر انحصار مسلسل کم ہوا ہے۔
يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امريکی حکومت بذات خود تيل کی خريدوفروخت کے عمل ميں فريق نہيں ہوتی۔ بلکہ امريکہ کی نجی کمپنياں اپنے صارفين کی ضروريات کے تناسب سے سروس فراہم کرتی ہيں۔ امريکی کمپنياں انٹرنيشنل مارکيٹ ميں متعين کردہ نرخوں پر عراق سے تيل درآمد کرتی ہيں جو کہ عراق سے برآمد کيے جانے والے مجموعی تيل کا محض ايک چوتھائ حصہ ہے۔ باقی ماندہ تيل عراقی حکومت کی زير نگرانی ميں نا صرف دوسرے ممالک ميں برآمد کيا جاتا ہے بلکہ عراق کی مجموعی توانائ کی ضروريات پوری کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ عراق تيل کے توسط سے ماہانہ 2 بلين ڈالرز سے زيادہ کا زرمبادلہ حاصل کرتاہے۔
ان اعداد وشمار کی روشنی ميں يہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ يہ تاثر دينا کہ امريکہ عراق ميں تيل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے منصوبے پر عمل پيرا ہے يا امريکہ تيل کی سپلائ کے ليے سارا دارومدار عرب ممالک کے تيل پر کرتا ہے قطعی بے بنياد اور حقيقت سے روگردانی کے مترادف ہے۔
افغانستان اور عراق ميں امريکہ کی کٹھ پتلی حکومتيں
ايک اور عام تاثر جو آپ کو بے شمار اردو فورمز اور انٹر نيٹ سائٹس پر ملے گا وہ يہ ہے کہ عراق اور افغانستان کی حکومتيں امريکہ کی "کٹھ پتلی" ہيں۔ کيا آپ جانتے ہيں کہ افغانستان ميں ہونے والے انتخابات ميں 8 ملين افغان ووٹرز نے اپنا حق راہے دہی استعمال کيا جس ميں 40 فيصد خواتين شامل تھيں۔ اسی طرح عراق حکومت کے جن عہديداروں کو "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جاتا ہے وہ 12 ملين عراقی ووٹوں کی بدولت برسراقتدار آئے ہيں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ وہ 12 ملين عراقی جنھوں نے موجودہ عراقی حکومت کو منتخب کيا ہے انھيں "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جا سکتا ہے ؟
افغانستان اور عراق ميں ہونے والے انتخابات ميں ہر مذہبی فرقے اور سياسی جماعت کو نمايندگی کا برابر موقع ملا جو ان دونوں ملکوں کی تاريخ ميں ايک نئے دور کا آغاز تھا۔ دونوں ممالک کے انتخابات اقوام متحدہ کی نامزد کردہ تنظيموں کے زيرنگرانی انتہاہی غيرجانبدارماحول ميں ہوئے جن کے نتائج کی توثيق انٹرنيشنل کمیونٹی نے متفقہ طور پر کی۔ افغانستان ميں ہونے والے انتخابات يورپی يونين کی جس ٹيم کی زير نگرانی ہوئے تھے اس ميں اسپين، جرمنی، اٹلی، آئرلينڈ، پرتگال، برطانيہ، سويڈن اور ڈينمارک سے ماہرين شامل تھے۔ اس ٹيم کے ممبران کے مکمل تعارف کے ليے اقوام متحدہ کی ويب سائيٹ کا يہ لنک دے رہا ہوں۔
http://www.eueomafg.org/Coreteam.html
http://www.unv.org/en/news-resources/news/doc/un-volunteers-at-the.html
http://www.unv.org/en/what-we-do/countries/afghanistan/doc/un-volunteers-at-the.html
اسی طرح عراق ميں ہونے والے انتخابات اقوام متحدہ کے ادارے آئ – او – ايم کی زير نگرانی ہوئے۔ اس حوالے سے مزيد معلومات کے ليے يہ ويب سائٹ لنک دے رہا ہوں۔
http://www.iom-iraq.net/ocv.html
اس بات کا دعوی کوئ نہيں کر سکتا کہ ان دونوں ممالک ميں حکومت کے حوالے سے تمام مسائل حل ہو گئے ہيں۔ خاص طورپر ان حالات ميں جبکہ دونوں ممالک کی حکومتيں ان انتہا پسند تنظيموں سے مسلسل نبردآزما ہيں جو کسی جمہوری نظام پريقين نہيں رکھتيں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود ان دونوں ممالک ميں جمہوری نظام کی بنياد رکھ دی گئ ہے اورمستقبل میں بھی اس بات کا اختيار امريکہ کے پاس نہيں بلکہ افغانستان اور عراق کے عوام کے پاس ہے کہ ان کے اوپر حکمرانی کا حق کس کو دیا جائے۔ اگر آپ ان دونوں ممالک کے ماضی کا جائزہ ليں تو ان ممالک کے عوام اسلحہ بردار دہشت گرد تنظيموں اور ايک آمر کے رحم وکرم پر تھے۔ کيا جمہوری طريقے سے منتخب کردہ يہ حکومتيں زيادہ بہتر ہيں يا وہ نام نہاد انتخابات جن ميں صدام حسين نے اپنے آپ کو 99 فيصد ووٹوں سے کامياب قرار ديا تھا؟
امريکہ – دشمن اسلام (نيو ورلڈ آرڈر)
نيوورلڈ آرڈر اور مسلم ممالک کو کمزور کرنے کے ليےامريکہ کے سازشی منصوبے۔ اس حوالے سے انٹرنيٹ اور ديگر ميڈيا پر بہت کچھ لکھا گيا ہے۔ ليکن ايک بات جو اس طرح کے مواد ميں ہميشہ مشترک ہوتی ہے وہ ہے جذباتيت کا عنصر۔ تمام تر زمينی حقائق اور اعدادوشمار بالائے طاق رکھ کر صرف اس منطق پر زور ديا جاتا ہے کہ مسلم ممالک کو درپيش تمام مسائل کا پيش خيمہ بھی امريکہ ہے اور ان تمام مسائل کا حل بھی امریکہ ہی کے پاس ہے۔ اس حوالے سے دلائل کبھی بھی اعداد وشمار پر مبنی نہيں ہوتے۔ ميرا خيال ہے کہ جوش اور جذبات کی دھند کو ہٹا کر اعدادوشمار کی روشنی میں حقيقت کو ديکھنا چائيے۔
اگر امريکہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کے درپے ہے تو پھر آپ ان حقائق کو کيسے جھٹلائيں گے
اس وقت امريکہ ميں سب سے زيادہ تيزی سے پيھلنے والا مذہب اسلام ہے۔ امريکہ ميں قائم 1200 سےزائد مساجد ميں لاکھوں کی تعداد ميں مسلمان ديگر شہريوں کی طرح اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کا پورا حق رکھتے ہيں۔ يہی نہيں بلکہ مسلمانوں کو يہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ غير مذہب کے لوگوں کو مساجد ميں بلوا کر ان سے مذہب کے معاملات ميں ڈائيلاگ کر سکتے ہيں۔ مسلمانوں کو مساجد تعمير کرنے اور اسلامی تنظيموں کے قيام جيسے معاملات ميں مکمل قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس کے علاوہ سياست، تجارت اور زندگی کے دوسرے شعبہ جات ميں مسلمانوں کو مکمل نمايندگی حاصل ہے۔
يہ کيسی منطق ہے کہ امريکہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ہے اور اس کے باوجود مسلمانوں کو امريکہ کے اندر ترقی کرنے کے تمام تر مواقع ميسر ہيں۔
اگر امريکہ پاکستان اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کے درپے ہے تو اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد 267 ملين اور 1951 سے لے کر اب تک يو – ايس – ايڈ کے ادارے کی جانب سے دی جانے والی 7 بلين ڈالرز کی امداد کو آپ کيسے فراموش کريں گے۔ اس کے علاوہ امريکہ کی بےشمار نجی تنظيموں نے اس مشکل وقت ميں پاکستان کے ليے امداد کا انتظام کیا۔ اس بارے ميں مزيد تفصيلات کے ليے يہ ويب لنک دے رہا ہوں۔
http://www.usaid.gov/pk/mission/background/index.htm
امريکہ فلسطين کی امداد کرنے والے ممالک کی فہرست ميں پہلے نمبر پر ہے۔پچھلے دس سالوں ميں امريکہ کی جانب سے فلسطين کو 8۔1 بلين ڈالرز کی امداد دی جا چکی ہے۔
اگر امريکہ مسلمانوں کے خلاف ہے تو پھرايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا مطالبہ کيوں کر رہا ہے؟
اگر امريکہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کے درپے ہے تو کويت پر عراق کے قبضے کے بعد اس کی مدد کو کيوں پہنچا۔ اس کے علاوہ بوسنيا کے مسلمانوں پر سربيا کی جارحيت کے خلاف امريکہ کی کوششيں آپ کيسے نظرانداز کريں گے۔
انڈونيشيا کے مسلمانوں کو سونامی کی تباہکاريوں کے بعد سب سے زيادہ امداد امريکی حکومت کی جانب سے ہی ملی تھی۔ اس ميں صرف امريکی حکومت ہی شامل نہيں تھی بلکہ امريکہ کی بےشمار نجی تنظيموں نے بھی اس ميں حصہ ليا تھا۔
2006 ميں ايران ميں زلزلےاور2007 ميں بنگلہ ديش ميں سيلاب کی تباہی کے بعد امداد دينے والے ممالک ميں امريکہ سرفہرست تھا۔
2006 ميں صحت، تعليم اور ديگر ترقياتی کاموں کے ضمن ميں امريکی حکومت کے توسط سے يو – ايس – ايڈ اور ايم – سی – سی کے اداروں کو جو امداد دی گئ اس کا تخمينہ 12 بلين ڈالرز ہے۔ يہ سارے ترقياتی منصوبے يو – ايس – ايڈ کے زير نگرانی پايہ تکميل تک پہنچے اور ان کی تفصيل آپ اس ويب سائٹ پر ديکھ سکتے ہيں۔
http://www.usaid.gov
حقيقت يہ ہے کہ امريکہ مسلمان ممالک کو ہر سال کئ بلين ڈالرز کی امداد ديتا ہے۔ صرف يہی نہيں بلکہ ہر سال ہزاروں کی تعداد ميں مسلمانوں کو امريکہ ميں شہريت دی جاتی ہے۔ عرب دنيا اور ديگر مسلم ممالک سے ہر سال ہزاروں طالب علم امريکہ کے تعليمی اداروں ميں اعلی تعليم کے حصول کے ليے آتے ہيں ان پر اس حوالے سے کسی قسم کی کوئ پابندی نہيں ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال لاتعداد مسلمان پناہ گزين امریکہ ميں آ کر بستے ہيں اور انہيں امريکی شہريوں کے مساوی بنيادی انسانی اور آئينی حقوق ديے جاتے ہيں۔
امريکہ نہ ہی اپنی جغرافيائ حدود ميں اضافے کا خواہ ہے اور نہ ہی کسی قوم، مذہب يا گروہ کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس کا ثبوت يہ ہے امريکی آئين کے مطابق امريکی شہريوں کو بغير کسی تفريق کے اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ دنيا ميں کتنے ممالک ايسے ہيں جو يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ وہاں پر ہر قوم اور مذہب کے لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ جب امريکی حکومت نے اپنے ملک ميں کسی مذہب يا قوم پر پابندی نہيں لگائ تو پھر يہ الزام کيسے لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ پوری دنيا پر ايک خاص نظام، مذہب يا اقدار مسلط کرنے کا خواہش مند ہے ؟
عراق پر امريکی حملے کی وجہ( ڈبليو – ايم – ڈی ايشو)
امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے جانے والے سارے فيصلے مکمل اور غلطيوں سے پاک نہيں ہيں اور نہ ہی امريکی حکومت نے يہ دعوی کيا ہے کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی 100 فيصد درست ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ عراق ميں مہلک ہتھياروں کے ذخيرے کی موجودگی کے حوالے سے ماہرين کے تجزيات غلط ثابت ہوئے۔ اور اس حوالے سے امريکی حکومت نے حقيقت کو چھپانے کی کوئ کوشش نہيں کی۔ بلکل اسی طرح اور بھی کئ مثاليں دی جا سکتی ہيں جب امريکی حکومت نے پبلک فورمز پر اپنی پاليسيوں کا ازسرنو جائزہ لينے ميں کبھی قباحت کا مظاہرہ نہيں کيا۔
اس ايشو کے حوالے سے بل کلنٹن انتظاميہ اور موجودہ امريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جائے گی۔ اس حوالے سے خود صدام حسين کی مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔
1995 ميں جب صدام حسين کے داماد حسين کمل نے عراق سے بھاگ کرجارڈن ميں پناہ لی تو انھوں نے بھی صدام حسين کے نيوکلير اور کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے منصوبوں سے حکام کو آگاہ کيا۔ 2003 ميں امريکی حملے سے قبل اقوام متحدہ کی سيکيورٹی کونسل عراق کو مہلک ہتھياروں کی تياری سے روکنے کے ليے اپنی کوششوں کا آغاز کر چکی تھی۔
يہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کئ تحقيقی ٹيموں کو عراق ميں داخلے سے روک ديا گيا تو نہ صرف امريکہ بلکہ کئ انٹرنيشنل ٹيموں کی يہ مشترکہ رپورٹ تھی کہ صدام حکومت کا وجود علاقے کے امن کے ليے خطرہ ہے۔ ميں آپ کو يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ايک رپورٹ اور ايک ویب سائيٹ کا لنک دے رہا ہوں جس ميں صدام کے ظلم کی داستان تفصيل سے پڑھ سکتے ہيں۔
يہ رپورٹ پڑھنے کے بعد يہ فيصلہ ميں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ عراق کے مستقبل کے ليے کيا صورتحال زيادہ بہتر ہے صدام حسين کا وہ دوراقتدار جس ميں وہ اپنے کسی عمل کے ليے کسی کے سامنے جوابدہ نہيں تھے اور سينکڑوں کی تعداد ميں عراقيوں کو قید خانوں ميں ڈال کر ان پر تشدد کرنا معمول کی بات تھی يا 12 ملين عراقی ووٹرز کی منتخب کردہ موجودہ حکومت جو عراقی عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کے ليے جوابدہ ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حکومت سازی کے حوالے سے ابھی بھی بہت سے مسائل ہيں ليکن مستقبل کے ليے اميد افزا بنياديں رکھ دی گئ ہيں۔
عراق کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے يہ حقيقت بھی مد نظر رکھنی چاہيے کہ امن وامان کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دارامريکی افواج نہيں بلکہ وہ دہشت گرد تنظيميں ہيں جو بغير کسی تفريق کے معصوم عراقيوں کا خون بہا رہی ہيں۔ حال ہی ميں الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے جسم پر بم باندھ کر ان کے ذريعے کروائے جانے والے دھماکے اور اس کے نتيجے ميں سو سے زيادہ بے گناہ عراقيوں کی موت اس سلسلے کی تازہ مثال ہے۔
افغانستان ميں امريکہ کا کردار
افغانستان ميں امريکی حملے کے پس منظر اور اس کے اسباب سے تو سب واقف ہيں۔ ليکن يہاں پر ميں آپ کے سامنے تصوير کا وہ رخ رکھوں گا جس کا ذکر ميڈيا ميں بہت کم کيا جاتا ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانستان ميں امن وامان کے حوالے سے بہت سے مسائل ہيں ليکن جہاں امريکی افواج انتہاپسندوں کے خلاف نبردآزما ہيں وہاں امريکہ کی بہت سی سرکاری اور نجی تنظيميں افغانستان کی تعمير نو کے ليے بےشمار منصوبوں پر عمل پيرا ہيں۔ اس ضمن ميں جو اعدادوشمار ميں نے يو-ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے حاصل کيے ہيں ان کی روشنی ميں يہ تاثر غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ امريکی افواج افغانستان کو "کھنڈرات" ميں تبديل کر رہی ہيں۔۔ امريکہ ايسے بے شمار منصوبوں ميں افغان حکومت کی براہراست مدد کر رہا ہے جن کا مقصد افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے تاکہ افغان عوام دوبارہ اپنے پيروں پر کھڑے ہو سکيں۔
اس حوالے سے افغانستان ری کنسٹرکشن ٹرسٹ کے نام سے ايک فنڈ قائم کيا گيا ہے جو براہراست ورلڈ بنک کی زيرنگرانی کام کرتا ہے۔ اس فنڈ کا مقصد حکومت افغانستان کو امداد کی فراہمی کا ايک مربوط سسٹم فراہم کرنا ہے جس کا مقصد افغانستان ميں تعميراتی منصوبوں اورعوام کے ليے صحت و تعليم کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ امريکی حکومت کی جانب سے يو-ايس-ايڈ کے ادارے کے توسط سے اس فنڈ ميں جو امداد مہيا کی گئ ہے وہ 972۔24 بلين ڈالرز ہے۔ چونکہ يہ فنڈ براہراست ورلڈ بنک کے زير نگرانی افغانستان حکومت تک منتقل کيے جاتے ہيں اس ليے وہ يو –ايس – جی کے قواعد وضوابط کے عين مطابق ہوتے ہيں۔ اس کے علاوہ چونکہ اس امداد کا بڑا حصہ امريکہ کے ٹيکس دہندگان کی آمدنی پر مبنی ہوتا ہے اس ليے يو – ايس – ايڈ کا ادارہ اس بات کو يقينی بناتا ہے کہ اس امداد کے نتيجے ميں شروع کيے جانے والے تعميراتی منصوبے مکمل کيے جائيں۔
اسکے علاوہ ميں آپ کو يوايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ويب سائيٹ کا ايک لنک دے رہا ہوں جس ميں آپ ان تمام ترقياتی کاموں کی تفصيل اعدادوشمار کے ساتھ ديکھ سکتے ہيں جو امريکی حکومت کے توسط سے افغانستان ميں گزشتہ چند سالوں ميں کيے گئے ہيں۔
گوانتاناموبے ميں قيديوں کے ساتھ غيرانسانی سلوک
ميڈيا خاص طور پر انٹرنيٹ پر اس حوالے سے بے شمار تصاوير سب نے دیکھیں ہيں۔ پاکستان ميں عام تاثر يہ ہے کہ سينکڑوں کی تعداد ميں پاکستانی اس مقام پر امریکی فوجیوں کے غير انسانی سلوک کا شکار ہيں۔ يہ تاثر بھی عام ہے کہ ان قيدیوں کے تمام انسانی حقوق معطل ہيں اور انہيں کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئ کا اختيار نہيں ہے۔
اس حوالے سے ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے حال ہی ميں گوانتاناموبے کا دورہ کيا تاکہ حقائق جان سکيں۔ ہماری ٹيم نے گوانتاناموبے ميں قيدیوں کے رہن سہن اور ان کو دی جانے والی سہوليات کا ازخود مشاہدہ کيا۔
گوانتاناموبے ميں اس وقت لگ بھگ 300 قيدی ہيں جن کا تعلق مختلف ملکوں سے ھے۔ ان ميں موجود پاکستانيوں کی تعداد انگليوں پر گنی جا سکتی ہے۔ اس ليے يہ کہنا کہ وہاں پر سينکڑوں کی تعداد ميں پاکستانی موجود ہيں حقيقت کے منافی ہيں۔ اس کے علاوہ قيديوں کودو مختلف کيٹيگريوں ميں تقسيم کيا گيا ہے اور اسی حوالے سے انہیں دو مختلف رنگوں کی يونيفارم دی گئ ہيں۔ اورنج (مالٹا) يونيفارم ميں ملبوس جن قيديوں کی تصاویر آپ انٹرنيٹ پر ديکھتے ہيں وہ گوانتاناموبے ميں قيديوں کی صرف ايک کيٹيگری کی ہیں۔ يہ وہ کيٹيگری ہے جو تخريب کاری کی انتہاہی سنگين کاروائيوں ميں ملوث ہونے کے علاوہ جيل حکام پر حملے بھی کر چکے ہيں۔
وہ قيدی جو قواعد وضوابط کی پابندی کرتے ہيں انہيں دن ميں 12 گھنٹے فٹ بال، باسکٹ بال، جاگنگ اور جم کی سہوليات دستياب ہيں۔ تمام مسلمان قيديوں کو ایک مسلم کٹ دی جاتی ہے جس ميں قرآن پاک، جاہ نماز اور تسبيح شامل ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو دن ميں تين بار حلال کھانا ديا جاتا ہے جس کا يوميہ خرچہ وہاں تعنيات فوجيوں کے يوميہ خرچے سے زيادہ ہوتا ہے۔ 5 ہزار سے زائد کتابوں کی ايک لائبريری بھی موجود ہے جس ميں صحيح بخاری اور صحيح مسلم سميت بےشمار مذہبی کتابيں شامل ہيں۔ يہاں پر تعنيات فوجيوں کو قرآن پاک کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہيں ہے۔ يہ ذمہ داری وہاں پر کام کرنے والے مسلم لائيبريرين ادا کرتے ہيں- قيديوں کے ليے تعليم کی سہولت بھی ہے جہاں انہيں عربی،پشتو اور انگريزی کی تعليم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دن کے مخصوص اوقات میں قيديوں کو ٹی وی ديکھنے کی بھی اجازت ہے۔
اس کے علاوہ يہاں پر 20 بستروں پر مشتمل ايک مکمل ہسپتال بھی ہے جو کہ واشنگٹن ميں واقع امريکی نيوی کے ہسپتال سے براہراست منسلک ہے۔ يہاں پر 100 کے قريب ڈاکٹرز اور نرسز بھی تعنيات ہيں۔ اس ہسپتال کے مختلف شعبہ جات ميں ايک ريڈيالوجی ليب، فارميسی اور آپريشن تھيٹر کے علاوہ ڈينٹل کلينک بھی شامل ہيں۔
آپ کی اطلاع کے ليے يہ بھی بتا دوں کہ اس وقت امريکی سپريم کورٹ ( جو کہ امریکہ ميں قانون کا سب سے اعلی ادارہ ہے) سميت بہت سی عدالتوں ميں ايسے کئ کيس زير سماعت ہيں جن کی رو سے ان قيديوں کے قانونی حقوق کا تعين کيا جائے گا۔ ان قيديوں کی جانب سے ايک امريکی اٹارنی بھی نامزد کيا گيا ہے جو ان قيديوں کی نمايندگی کر رہا ہے۔ اس وقت بھی امريکی سپريم کورٹ ايک کيس کی سماعت سن رہی ہے جس کی رو سے ان قيديوں کے حوالے سے امريکی سول ججز کے قانونی دائرہ کار کا تعين کيا جائے گا۔
اس حوالے سے ميں ايک الجيرين قيدی احمد بيلبيچا کی مثال دیتا چلوں جس نے اپنی رہاہی کے احکامات کو نا صرف رد کر ديا بلکہ امريکی ملٹری کورٹ ميں اپيل دائر کر دی کہ اسے اس کے ملک واپس نہ بيجھا جائے۔ اسی طرح کچھ قيدی ايسے بھی ہيں جنہیں ان کی متعلقہ حکومتوں نے واپس لينے سے انکار کر ديا ہے۔
انٹرنيشنل ريڈکراس، انٹرنيشنل ميڈيا کی کئ ٹيميں اور ان قيديوں کی نمايندگی کرنے والے وکيل باقاعدگی سے گوانتاناموبے کا دورہ کرتے ہيں اور قيديوں کے حوالے سے اپنی رپورٹ پيش کرتے ہيں۔ 2006 ميں يورپی پارليمنٹ کے ارکان پر مشتمل ايک گروپ نے بھی گوانتاناموبے کا دورہ کيا اور انھوں نے جو رپورٹ پيش کی اس کے مطابق " گوانتاناموبے ميں قيدیوں کو دی جانے والی سہوليات يورپ کی کئ جيلوں سے بہتر ہيں"۔
آخر ميں ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کی جانب سے بنائے جانے والی کچھ تصاوير اور ايک فلم کا لنک آپ کو دے رہا ہوں جو کہ اگرچہ عربی ميں ہے ليکن اس ميں دکھائے جانے والے مناظر آپ کو گوانتاناموبے کے حوالے سے تصوير کا دوسرا رخ سمجھنے ميں مدد ديں گے۔
[ame]http://www.youtube.com/watch?v=7FkXmm0aF5c[/ame]
فواد - ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم - يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov