کچھ سوالات ایسے بھی ہیں جنکا جواب فواد سے لینا چاہوں گا
اسرائیل کی پشت پناہی ہر امریکی حکومت کی مجبوری ہے ، کوئی مانے یا نہ مانے ، مگر فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکہ برابر کا مجرم ہے ، امریکہ ہرگز نہیں چاہتا کہ اسرائیل کے برابر میں فلسطینی ریاست بنے ۔ ۔ ۔ اگر بن جائے تو اسرائیل کا مسلہ کیا رہ جائے گا ، وہ کس بنیاد پر امریکی مدد کا طالب ہو گا ؟QUOTE/]
حماس اور مسلہ فلسطين – امريکی موقف
فلسطين کے حوالے سے امريکی حکومت کا موقف بالکل واضح ہے۔ امريکہ جمہوری طريقے سے حماس کی
اليکشن ميں کاميابی اور فلسطينی عوام کی جانب سے ديے جانے والے مينڈيٹ کا احترام کرتا ہے۔ ليکن اليکشن ميں کاميابی جمہوری عمل کا صرف ايک حصہ ہے۔ يہ کيسی منطق ہے کہ آپ جمہوری اصولوں کی بنياد پر ہونے والے انتخابات ميں حصہ تو ليں مگر انتخابات ميں کاميابی کے بعد سارے جمہوری اصول پس پشت ڈال ديں۔ حماس نے فلسطين کے حوالے سے آج تک کسی بھی امن معاہدے يا اس حوالے سے شروع کيے جانے والے کسی بھی عمل ميں شرکت کے ليے آمادگی ظاہرنہيں کی اور نہ ہی آج تک کبھی کسی امن کی کوشش کی حمايت کی ہے ۔ حماس کے نزديک فلسطينی رہنماؤں کی اوسلو معاہدے کے تحت واپسی سے انکار کا عمل درست ہے مگر کيا يہ درست نہيں کہ جن اليکشن ميں حماس نے کاميابی حاصل کی تھی ان کا انعقاد اسی اوسلو معاہدے کے تحت ہوا تھا۔ امريکہ ايسی اسلامی تحريکوں اور تنظيموں کے خلاف نہيں ہے جو جمہوری عمل پر يقين رکھتی ہيں۔ شام اور ترکی ميں ہونے والے حاليہ انتخابات اور اس حوالے سے امريکہ کا کردار اس کا واضح ثبوت ہے۔ حماس نے فلسطينی ليڈروں کو اسرائيلی رہنماؤں سے ملنے کی اجازت تو دی ہے ليکن ان پر پابندی لگائ ہے کہ وہ سياسی امور پر بات چيت نہيں کر سکتے۔ کيا يہ دوہرا معيار نہيں ہے؟
حماس حکومت کا يہ موقف کہ وہ اسرائيل سے بات چيت کيے بغير فلسطين کے عوام کے مفادات کے خواں ہيں، غير حقيقی اور غير منطقی ہے۔ ايک سروے کے مطابق 70 فيصد فلسطينی امن معاہدے کی حمايت کرتے ہيں اور اس کے ذريعے1967ميں شروع ہونے والے اسرائيل کے تسلط کے خاتمے اور ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کے خواہش مند ہيں۔ ليکن حماس اس حوالے سےبات چيت کے عمل کو شروع کرنے کے ليے تيار نہيں ہے۔ اور صرف اسی بات پر بضد ہے کہ طاقت کے ذريعے اسرائيل کا خاتمہ ہی مسلئے کا واحد حل ہے۔ تشدد پر مبنی يہ پاليسی کئ دہاہيوں سے کوئ مثبت نتائج نہيں حاصل کر سکی۔
حقيقت يہ ہے کہ فلشطين کے مسلئے کےحل کے ليے يہ ضروری ہے کہ دونوں فريقين اپنے موقف سے ہٹ کر سمجھوتے کی راہ تلاش کريں۔ اس کے ليے مذاکرات کی کڑوی گولی جنگ کی تباہ کاريوں سے بحرحال بہتر ہے۔
اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ اسرائيل کو اپنا دوست سمجھتا ہے۔ اس حوالے سے ميں ايک وضاحت کر دوں کہ امريکہ ميں يہودی تنظيميں اور مختلف گروپ نظام کے اندر رہتے ہوئے امريکی حکومت کے پاليسی ميکرز اور قانون کے ماہرين کو اپنے موقف سے آگاہ کرتے ہيں اور انہيں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہيں۔ ليکن يہ کسی خفيہ سازشی عمل کا حصہ نہيں ہے۔ يہ آزادی تمام سماجی اور مذہبی تنظيميوں کو يکساں حاصل ہے۔ يہ ہی امريکی جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اور يہ کوئ ڈھکی چھپی بات نہيں ہے۔ پاکستانی میڈيا ميں اسی بات کو "یہودی لابی کی سازشيں" جيسے ليبل لگا کر ايک دوسرے انداز ميں پيش کيا جاتا ہے۔ اہم بات يہ ہے کہ جن فورمز کو يہودی تنظيميں استعمال کرتی ہيں وہ عرب کے مسلمانوں سميت سب کو ميسر ہيں۔ يہ وہ نقطہ ہے جس پر بعض عرب ليڈر اور حماس جيسی تنظيميں اپنا رول ادا کرنے ميں ناکام رہی ہيں۔ ليکن ميں آپ کو بتاتا چلوں کہ پچھلے کچھ عرصے سے اس صورت حال ميں تبديلی آ رہی ہے۔ امريکہ ميں بہت سی ایسی مسلم اور عرب تنظيميں منظر عام پر آئ ہيں جو فلسطين کے مسلئے کے حل کے ليے يہودی تنظيموں کی طرح اپنا رول ادا کر رہی ہيں۔ اور اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہيں۔
موجودہ امريکی صدر بش وہ پہلے امريکی صدر ہيں جنھوں نے ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام اور اسرائيلی تسلط کے خاتمے کے موقف کو سرکاری سطح پر تسليم کر کے اسے امريکی خارجہ پاليسی کا حصہ بنايا ہے اور اس حوالے سے عملی کوششيں بھی شروع کر دی ہيں۔ حال ہی ميں امريکی شہر ايناپوليس ميں ہونے والی کانفرنس جس ميں بے شمار عرب رہنماؤں نے شرکت کی، اس سلسلے کی ايک اہم کاميابی ہے۔ اس کانفرنس کا انعقاد ايک سال کی انتھک سفارتی کوششوں کے نتيجے ميں عمل ميں آيا۔ اسی طرح دسمبر 2007 ميں ہونے والی پيرس کانفرنس بھی ايک اہم سنگ ميل تھا جس ميں فلسطينی رياست کے قيام کےعمل کے ليے 7 بلين ڈالرز کی امداد جمع کی گئ جو کہ فلسطينی ليڈرشپ کی جانب سے کی جانے والی امداد کی درخواست سے کہيں زيادہ تھی۔صدر بش يہ واضح کر چکے ہيں کہ وہ 2008 کے آخر تک ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا خواب سچ ہوتا ديکھنا چاہتے ہيں۔
جہاں تک امريکہ کی جانب سے اسرائيل کی حمايت کا سوال ہے تو اس حوالے سے تو پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا اور کہا جاتا ہے۔ ليکن تصوير کا دوسرا رخ بھی ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی ميں جب اسرائيلی حکومت نے ابو غنام کے علاقے ميں اسرائيلی شہريوں کی آباد کاری کے منصوبے کا اعلان کيا تو امريکی سيکريٹری آف اسٹيٹ کونڈوليزا رائس نے امريکی موقف کے حوالے سے يہ بيان ديا
"ہم جس دور سے گزر رہے ہيں اس کا تقاضا ہے کہ دونوں فريقين کے درميان اعتماد کی بہترين فضا قائم کی جائے۔ اسرائيل کا يہ قدم فريقين کے درميان تعلقات کو نقصان پہنچائے گا۔ ايسا کوئ عمل نہيں ہونا چاہيے جو فريقين کے درميان بات چيت کے عمل کو سبوتاز کرے۔ خاص طور پر ان حالات ميں جب کہ ہم بات چيت کے ايک نئے دور کا آغاز کرنے جا رہے ہيں۔ ہم نے اس حوالے سے اسرائيل کی حکومت پر اپنی پوزيشن واضح کر دی ہے۔"
کونڈوليزا رائس ہی سے منسوب ايک حاليہ بيان پيش ہے
"امريکہ ايک آزاد فلسطينی رياست کے ذريعے فلسطين کے عوام کو انٹرنيشنل کميونٹی کا حصہ ديکھنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے امريکہ فلسطين کو عالمی معيشت کا حصہ بنانے کے ليے ہر ممکن مدد کرے گا"۔
صدر بش يہ واضح الفاظ ميں کہ چکے ہيں کا اس مسلے کے حل کے ليے اسرائيلی تسلط کا خاتمہ انتہائ ضروری ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں 242 اور 338 کی بنياد پر فلسطين کے مسلئے کے حل کے ليے امريکہ اپنی کوششيں جاری رکھے گا۔ 1988 ميں پی – ايل – او نے سلامتی کونسل کی ان قراردوں کی بنياد پر ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کی مکمل حمايت کی تھی۔
صدر بش کا ايک حاليہ بيان پيش ہے۔
"ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا نظريہ بالکل واضح ہے۔ 1967 سے جن علاقوں پر تسلط قائم کيا گيا ہے اس کا خاتمہ انتہائ ضروری ہے۔ ايک آزاد فلسطينی رياست کا قيام بہت پہلے ہو جانا چاہيے تھا۔ يہ فلسطين کے عوام کا حق ہے"۔
ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کے ليے موجودہ امريکی حکومت کی کوششيں ايک مسلمہ حقيقت ہے اور 2008 کے اختتام تک اس منزل کا حصول صدر بش کی خارجہ پاليسی کا حصہ ہے۔ حال ہی ميں امريکی کوششوں سے کوسوو ميں ايک مسلم حکومت کا قيام اس بات کا ثبوت ہے کہ يہ خواب حقيقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ دونوں فريقين ايناپولس کانفرنس سے شروع ہونے والے بات چيت کے عمل کو جاری رکھيں اور ماضی کی غلطياں نہ دہرائيں جب امن کے بہت سے حقيقی مواقع پر تشدد کاروائيوں کے سبب ضائع ہو گئے۔
انناپولس کانفرنس کے اختتام پرکونڈوليزا رائس کا بيان پيش خدمت ہے۔
"Annapolis was the culmination of a patient and painstaking diplomacy of almost a year. The negotiating teams have now held their first meeting. And in the year to come, the President and I will actively facilitate and support these negotiations. We will look for ways to engage positively and support the parties in turning their discussions into substantive agreement. And building on the recent Paris Donors Conference, we will continue to support President Abbas's efforts to build an effective democratic state.”
آخر ميں صدر بش کے اسٹيٹ آف يونين سے آخری خطاب سے ايک اقتتباس
“This month in Ramallah and Jerusalem, I assured leaders from both sides that America will do, and I will do, everything we can to help them achieve a peace agreement that defines a Palestinian state by the end of this year”.
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://usinfo.state.gov