ميڈيا ميں امريکی انتظاميہ کی جانب سے مبينہ خطرناک نتائج کی دھمکيوں کے حوالے سے جن خبروں کو اجاگر کيا جا رہا ہے، وہ بالکل درست نہيں ہيں۔ بلکہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے نے اس ضمن میں باقاعدہ پريس ريليز بھی جاری کر دی ہے جس ميں واضح الفاظ ميں يہ بيان ديا گيا ہے کہ مختلف ميڈيا فورمز پر مذاکرات کی جو تفصيل بيان کی جا رہی ہے وہ حقائق پر مبنی نہيں ہيں۔
يہ پہلا موقع نہيں ہے کہ امريکی حکومت کے عہديدران اور ان کے پاکستانی ہمعصروں کے مابين کسی معاملے پر اتفاق رائے موجود نہيں ہے۔ ماضی ميں ايسی کئ مثالیں موجود ہيں جب باہم ڈائيلاگ اور تعميری گفتگو کے ذريعے دونوں ممالک کے حکام کے مابين افعام وتفہيم کے ساتھ معاملات کو دونوں ممالک کے دور رس اسٹريجيک مفادات کے ليے حل کر ليا گيا۔ يہ کيس بھی ان تعلقات کے حوالے سے مختلف نہيں ہے۔
ہم نے حکومت پاکستان پر اپنی پوزيشن واضح کر دی ہے جو کہ عالمی قوانين اور باہم اتفاق سے منظور شدہ ضوابط کے عين مطابق ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ دونوں حکومتيں اس معاملے ميں ابھی تک کسی حل تک نہيں پہنچ پائ ہيں۔ ليکن يہ امر کسی بھی صورت ميں پاکستان کے عوام کے ساتھ ہمارے ديرينہ تعلقات اور خطے ميں ہمارے سب سے مضبوط اتحادی کے ساتھ طويل المدت اسٹريجک تعلقات کا آئینہ دار نہيں ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
پاکستان میں روزآنہ بے شمار لوگ قتل کیئے جا رہے ہیں ۔ کوئی زمینداروں اور جاگیرداروں کی عقوبت خانوں میں مصلوب ہو رہا ہے ۔ سڑکوں پر دن دھاڑے ڈاکے پڑ رہے ہیں اور زیادہ تر لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ خود کش حملوں سے مسجدیں ، امام بارگاہیں ، زیارتیں محفوظ نہیں ہیں ۔ ٹارگٹ کلنگ میں روز لوگ لقمہِ اجل بن رہے ہیں ۔ کمسن بچیوں کو زیادتی اور پھر قتل کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ لوگ بچوں سمیت یا تو خود کشی کررہے ہیں یا پھر اپنے ہاتھوں سے ان کا سودا کر رہے ہیں ۔ غیرت ، کاروکری پر روز قتل ہو رہے ہیں ۔ سیاسی جنازے روز اٹھائے جا رہے ہیں ۔ کہیں کسی کی بہن ، بیٹی کے سر کی چادر سرعام بازار میں اتاری جا رہی ہے ۔ اور ہمت علی کو صرف تین پاکستانی کا قتل میں ملک کی عزت ، وقار اور خود مختاری نظر آرہی ہے ۔ جواب نہیں ہمت علی تمہارا ۔۔۔ ذرا اپنا ویژن بڑھاؤ ہمت علی ۔۔۔۔ کیا سعودی عرب سے یہ مناظر نظر نہیں آرہے ہیں ۔ ؟
۔
برادرم فواد
آپ بھائی شمشاد کے سوال کا واضح الفاظ میں جواب کیوں نہیں دیتے جس طرح تحقیقی جواب آپ نے ملا ضعیف کے بارے میں دیا
يہ بات توجہ طلب ہے کہ سفارتی استثنی کے حوالے سے قوانين اور ضوابط کی تشکيل امريکہ کی جانب سے نہيں کی گئ تھی۔ اس کے علاوہ صرف امريکی سفارت کار ہی دنيا بھر ميں سفارتی تحفظ کے تحت خدمات انجام نہيں ديتے ہیں۔ اسی طرز کی سہوليات امريکہ ميں بھی پاکستانی سفارت کاروں سميت تمام غيرملکی سفارت کاروں کو حاصل ہوتی ہیں۔
سفارتی استثنی کو ايک ادارے کی طرح پروان چڑھانے کا مقصد يہ رہا ہے کہ اس کی بدولت حکومتوں کے مابين تعلقات کو برقرار رکھنے ميں مدد ملتی ہے خاص طور پر ان حالات ميں جب کہ ممالک کے مابين تعلقات کشيدہ ہوں يا باقاعدہ جنگی صورت حال کا سامنا ہو۔ سفارت کاروں کو وصول کرتے وقت ميزبان حکومت ايسی خصوصی مراعات اور تحفظ کا يقين دلانے کی مجاز ہوتی ہے جن کی موجودگی ميں سفارت کار فعال انداز ميں اپنی ذمہ دارياں پوری کر سکيں، اس يقين دہانی کے بدلے ميں ايسی ہی سہوليات اور تحفظ ميزبان ملک کے سفارت کاروں کو بھی مہيا کيا جاتا ہے۔
سفارت کاروں کو سہوليات اور تحفظ فراہم کرنا عالمی قوانين کی بڑی پرانی روايات ميں شامل ہے۔ يہ روايات جنھيں اس سے پہلے بھی اختيار کيا جاتا رہا ہے سال 1961 ميں سفارتی تعلقات سے متعلق ويانا ميں ہونے والے کنويشن ميں باقاعدہ قانونی شکل اختيار کر گئيں۔ جن ممالک نے ان ضوابط کو تسليم کيا ہے وہ اس بات پر متفق ہيں کہ اس طرح کی روايات متنوع معاشرتی نظاموں اور آئينی اقدار سے قطع نظر قوموں کے مابين دوستانہ روابط کی تشکيل ميں اہم کردار ادا کرتی ہيں۔ اس سوچ کا باقاعدہ اظہار ويانا کنونشن کے پیراگراف 3 ميں باقاعدہ درج ہے۔
ميں يہ بھی نشاندہی کر دوں کہ پاکستان کا نام ان ممالک ميں شامل ہے جن کی جانب سے اقوام متحدہ کے سيکرٹری جرنل کو ويانا ميں سفارتی تعلقات کے حوالے سے اجلاس کے انعقاد کے لیے کہا گيا تھا۔
ويانا کنونشن ميں سفارتی سہولیات، تحفظ اور استثنی کے حوالے سے جو مقصد بیان کيا گيا ہے اس کے مطابق انفرادی سطح پر مفادات نہیں بلکہ مجموعی طور پر رياستوں کی ترجمانی کرنے والے سفارتی مشنز کی فعال کارکردگی کو يقينی بنانا ملحوظ رکھا گيا ہے۔ اس کے علاوہ ميزبان ملک کو يہ اختيار بھی حاصل ہے کہ وہ سفارتی مشن ميں شامل عملے کے کسی بھی رکن کو ناپسنديدہ قرار دے سکتا ہے۔ يہ قدم کسی بھی موقع پر اٹھايا جا سکتا ہے اور اس فيصلے کے ليے کسی وضاحت کی بھی کوئ ضرورت نہيں ہوتی۔ ايسی صورت حال ميں سفارتی مشن بھيجنے والی رياست قانونی طور پر پابند ہے کہ وہ اس شخص کو واپس بلوا لے يا سفارتی مشن کے ساتھ اس کے تعلق کو ختم کر دے۔ مجموعی طور پر سفارتی استثنی اور اس ضمن ميں دی جانے والی سہوليات کی بدولت رياستوں کے مابين تعلقات استوار کرنے ميں بہت مدد ملی ہے۔
يہ بات بھی غور طلب ہے کہ اقوام متحدہ کے کسی بھی ممبر ملک نے اس کنونشن کو ترک کرنے يا اس ميں درج قوانين کو تبديل کرنے کے لیے کبھی باضابطہ قرارداد پيش نہیں کی۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
اپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا دھشت گرد ریمنڈ پر کوئی حملہ ہوا تھا؟ ۔
ريمنڈ ڈيوس پاکستان ميں کام کرنے والا واحد سفارت کار نہيں ہے۔ کچھ رائے دہندگان کی جانب سے يہ مضحکہ خيز سوچ سامنے آ رہی ہے کہ امريکی سفارت کار پاکستان کی سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہيں اور اندھا دھند پاکستانی شہريوں کو ہلاک کر رہے ہيں۔ اس سوچ کی نا تو کوئ منطق ہے اور نہ ہی کوئ توجيہہ۔ ميں چاہوں گا کہ آپ دنيا ٹی وی کے پروگرام دنيا ٹو ڈے کا جنوری 27 کو نشر ہونے والے شو کا يا حصہ سنيں جس ميں ايس پی سيکورٹی لاہور رانا فيصل نے ٹی وی اینکر معيد پيرزادہ کے سوالات کے جواب ميں واقعے کی تفصيل واضح کی تھی۔
يہ ياد رہے کہ واقعے کے حوالے سے يہ معلومات محض چند گھنٹوں بعد سامنے آ گئی تھيں لہذا کسی سرکاری دباؤ يا اثرورسوخ کا ان معلومات پر اثرانداز ہونے يا تبديل کرنے کا کوئ امکان موجود نہيں ہے۔ وہ اپنی سرکاری حيثيت ميں موقع پر موجود معلومات کی بنياد پر اپنا بيان دے رہے تھے۔
اس کے علاوہ يہ بيان کئ عينی شاہدوں کے بيانات کو بھی درست ثابت کرتا ہے جنھوں نے يہ واضح بيان ديا تھا کہ ريمنڈ ڈيوس نے اپنے دفاع میں اس وقت کاروائ کی تھی جب دو مسلح افراد نے موٹر سائيکل پر ان کا سامنا کيا۔ ہم يہ بھی سمجھتے ہيں ان افراد کے پاس سے چوری کا مال بھی برآمد ہوا اور پوليس کے بيان کے مطابق ان کے پاس اسلحہ بھی موجود تھا۔
ميں چاہوں گا کہ آپ مسلم ليگ کے رہنما خواجہ سعد رفيق کے بيانات پر بھی غور کريں۔ باوجود اس کے کہ وہ اس ايشو کے حوالے سے امريکہ کے موقف کی تائيد نہيں کرتے، انھوں نے بھی اس حقيقت کو تسليم کيا کہ موٹر سائيکل پر موجود افراد مجرمانہ پس منظر رکھتے تھے۔
ہميں اس بات پر افسوس ہے کہ پاکستانی حکام نے جب يہ بيان جاری کيا کہ امريکی سفارت کار نے اپنے دفاع ميں کاروائ نہيں کی تھی تو انھوں نے نا صرف يہ کہ عينی شاہدوں کے بيانات کو نظرانداز کيا بلکہ موقع پر موجود شہادتوں کو بھی پس پش ڈال ديا۔
اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کے انتظامی اور تکنيکی عملے کی حيثيت سے ريمنڈ ڈيوس کو سال 1961 کے سفارتی تعلقات کے حوالے سے ويانا کنونشن کے تحت پاکستان ميں کسی بھی قسم کی قانونی کاروائ سے مکمل استثنی حاصل ہے۔ پاکستان اور امريکہ سميت تمام ممالک نے اپنی مرضی سے ان قوانين اور ضوابط کو تسليم کيا ہے۔ ان قوانين کی موجودگی ميں اس کو فوری طور پر رہا کيا جانا چاہيے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall