ذوالفقار نقوی
محفلین
میرے پہلے مجموعہ کلام ’’زاد ِ سفر‘‘ سے ۔۔۔۔۔۔
عبدو معبود میں اک سر کا جو سودا دیکھا
ظُلم کو دشت میں ہوتے ہوئے رُسوا دیکھا
کُفر لرزاں ، صفِ اعدا میں ہے نالہ، شیون
دستِ شبیر پہ اصغر کو جو ہنستا دیکھا
بیچ کر نفس کو لے لی ہو خُدا کی مرضی
کوئی سودا کبھی دنیا میں نہ ایسا دیکھا
آدم و خضر و براہیم و نبیِ ۖ آخر
سب کے سجدوں کا محافظ ترا سجدہ دیکھا
با ادب جھُک گئے کرنے کو وہ سجدہ یکسر
کربلا تجھ پہ فرشتوں نے جو کعبہ دیکھا
کر دئیے تو نے بچانے کے فراہم اسباب
دین کی ڈوبتی کشتی نے کنارہ دیکھا
دبدبہ کفر کا غرقاب ہوا پل بھر میں
نوکِ نیزہ پہ جو شبیر کو گویا دیکھا
حق نہیں ہوتا ہے مغلوب جفا کاروں سے
تیرا پیغام تہہِ تیغ بھی زندہ دیکھا
ریگذاروں کو بھی ملتی ہے نویدِ باراں
ظلمتوں نے ہے ترے در پہ اجالا دیکھا
جب چلا ضیغمِ داور سوئے میدانِ قتال
موت کا کفر کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا
نامِ مولا کبھی آیا جو زباں پر میرے
چشمِ تر میں نے ہر اک اپنا پرایا دیکھا
وائے مظلومیِ بیمار ترا کیا کہنا
تو نے پردیس میں اک حشر سا برپا دیکھا
مسندِ دین پہ لا دین کا قبضہ دیکھا
قتلِ ناموسِ پیمبر ۖ کا بھی فتویٰ دیکھا
بے ردا زینب و کلثوم کے سر بھی دیکھے
بے کفن سیدِ ابرار کا لاشہ دیکھا
حزن کا بار اٹھایا نہ گیا زینب سے
ایک بچی کا جو جلتا ہو ا کُرتا دیکھا
چھو کے لایا تھا جسے میں نے ترے روضہ سے
شہر میں بکتے، وہ کھوٹا سا بھی سکہ دیکھا
یہ فقط فیضِ حسین ابنِ علی ہے نقوی
ہر شبِ غم کا جو تو نے ہے سویرا دیکھا
عبدو معبود میں اک سر کا جو سودا دیکھا
ظُلم کو دشت میں ہوتے ہوئے رُسوا دیکھا
کُفر لرزاں ، صفِ اعدا میں ہے نالہ، شیون
دستِ شبیر پہ اصغر کو جو ہنستا دیکھا
بیچ کر نفس کو لے لی ہو خُدا کی مرضی
کوئی سودا کبھی دنیا میں نہ ایسا دیکھا
آدم و خضر و براہیم و نبیِ ۖ آخر
سب کے سجدوں کا محافظ ترا سجدہ دیکھا
با ادب جھُک گئے کرنے کو وہ سجدہ یکسر
کربلا تجھ پہ فرشتوں نے جو کعبہ دیکھا
کر دئیے تو نے بچانے کے فراہم اسباب
دین کی ڈوبتی کشتی نے کنارہ دیکھا
دبدبہ کفر کا غرقاب ہوا پل بھر میں
نوکِ نیزہ پہ جو شبیر کو گویا دیکھا
حق نہیں ہوتا ہے مغلوب جفا کاروں سے
تیرا پیغام تہہِ تیغ بھی زندہ دیکھا
ریگذاروں کو بھی ملتی ہے نویدِ باراں
ظلمتوں نے ہے ترے در پہ اجالا دیکھا
جب چلا ضیغمِ داور سوئے میدانِ قتال
موت کا کفر کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا
نامِ مولا کبھی آیا جو زباں پر میرے
چشمِ تر میں نے ہر اک اپنا پرایا دیکھا
وائے مظلومیِ بیمار ترا کیا کہنا
تو نے پردیس میں اک حشر سا برپا دیکھا
مسندِ دین پہ لا دین کا قبضہ دیکھا
قتلِ ناموسِ پیمبر ۖ کا بھی فتویٰ دیکھا
بے ردا زینب و کلثوم کے سر بھی دیکھے
بے کفن سیدِ ابرار کا لاشہ دیکھا
حزن کا بار اٹھایا نہ گیا زینب سے
ایک بچی کا جو جلتا ہو ا کُرتا دیکھا
چھو کے لایا تھا جسے میں نے ترے روضہ سے
شہر میں بکتے، وہ کھوٹا سا بھی سکہ دیکھا
یہ فقط فیضِ حسین ابنِ علی ہے نقوی
ہر شبِ غم کا جو تو نے ہے سویرا دیکھا