ریختہ صفحہ 28
وطن کو بڑی دلسوزی سے یاد کیا گیا ہے، اور مشرقی ترکستان کے پہاروں کی جتنی محبوب چوٹیاں ہیں، ان سب کا بڑی محبت سے اس گیت میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایک اور گیت جو مولیا کا گایا ہوا ہے "بادر بودہ" کہلاتا ہے۔ کاراملا اور اس کے ہمنواؤں نے "اطفال مکتب" کا گیت ریکارڈ کرایا جس کا مصرعہ ہے، "کرو علم حاصل بنامِ خدا۔" "یہ بدلتی ہوئی دنیا" اور "اے دنیا" جو دو گیت ہیں، غالباً چار سو سال پہلے ان کی دُھنیں بنی تھیں، لیکن جو بول ان میں گائے گئے ہیں، وہ خاص طور پر ہمارے لیے اب لکھے گئے ہیں۔ ہمیں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ قازقوں کو اپنی روایتی دھنوں پر نئے بول کہنے کا بڑا شوق ہے۔ ان کے تصور کے لیے تو یہ بات اچھی ہے لیکن سورماؤں کے کارناموں پر جو پرانی رزمیہ داستانیں لکھی گئی تھیں وہ رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔
جب بھاٹ کاراملا اپنی رزمیہ منظومات ریکارڈ کرا چکا تو ہم نے اس سے فرمائش کی کہ عربی رسم الخط میں انہیں لکھ بھی دے، کیونکہ قازق عموماً عربی ہی میں لکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نا کاراملا اور اس کے دوستوں کی دعوت کی۔ اگر الطائی کے سلسلۂ کوہ کے خیمے میں ہم اس کے مہمان ہوتے تو ہم سب کو ایک ہی گہری رکابی میں اپنی انگلیاں ڈبو ڈبو کر کھانا پڑتا اور چونکہ قازقوں کے آداب طعام سے ہم ناواقف تھے اس لیے شاید ہماری انگلیاں جھلس بھی جاتیں، لیکن دیویلی میں ہیم سب چھری کانٹے سے کھاتے تھے، اس لیے ترکی ہوٹل کا مالک رکابیوں میں کھانا لگا لگا کر لاتا رہا، حسین تجی کاراملا کے ایک طرف بیٹھا ہوا تھا اور دوسری طرف میں تھا۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہو چکے تو حسین تجی نے بھاٹ پر پُر لطف فقرے کسنے شروع کیے۔
ریختہ صفحہ 29
کاراملا خاموشی سے انہیں انگیز کرتا رہا بلکہ اور سب کی طرح بظاہر ان سے لطف اندوز ہوتا رہا، پھر ہم سب نے مل کر اسے اُکسانہ شروع کیا کہ وہ بھی کچھ بولے، اس پر اس نے دبی زبان سے کہا:
"اگر مجھے یہ اپنی ٹوپی عاریتاً دے دے تو میں اسے اس کی تگنی قیمت ادا کروں گا۔"
حسین تجی کا دبلا پتلا ناک نقشہ اور منگولی چہرہ تھا، ہلکی نیلی آنکھیں اور چھدری چگی ڈاڑھی ایک رنگ کالی تھی، اس میں ایک بال بھی سفید نہیں تھا، حالانکہ وہ ساٹھ سے اوپر تھا۔ بہت بڑے گھیر کی گول ٹوپی اس کے سر پر رکھی عجیب چیز دکھائی دیتی تھی۔
حسین تجی سے کاراملا کم از کم دس سال چھوٹا ہے مگر اپنے معمر دوست کے برعکس اس کے اگلے دانت سارے غائب ہیں۔ اس کی وجہ وہ صعوبتیں ہیں جن سے زندگی میں اسے دوچار ہونا پڑا۔ یقیناً اس کا اصلی نام کاراملا نہیں ہے جس کے معنی ہیں کالا ملا۔ بلکہ اس نام کریم اللہ ہے شاید۔ اس وجہ سے اس کا نام کاراملا پڑ گیا ہو کہ اس کا رنگ کالا تھا، یا اس وجہ سے کہ تو تعویذ گنڈے ملاؤں کی طرح کرتا ہو گا۔ بہرحال ہم وثوق سے وجہ تسمیہ نہیں بتا سکتے۔ لیکن وہ ایک سچا مسلمان ہے اور سچے مسلمان جادو ٹونے اور ٹؤٹکے نہیں کیا کرتے۔ البتہ قازقوں میں بھی ایسے نیم ملا ہوتے ہیں جو دوسرے مذاہب کے عالموں کی دیکھا دیکھی اس قسم کے ڈھونگ رچا لیتے ہیں۔
تفصیلی حالات تو آگے چل کر ہمیں معلوم ہوں گے۔ حسین تجی نے اشتراکیوں کی تاخت سے تنگ آ کر بیس سال ہوئے اپنا آبائی مقام بارکل چھوڑ دیا تھا اور غزکل – غازکول نام کی ایک جھیل کے قریب بود و باش
ریختہ صفحہ 30
اختیار کر لی تھی۔ غازکول کے لفظیمعنی ہیں ہاتھ بھر کی جھیل ڈول کی شکل کی۔ لہذا اس کا نام سُنتے ہی ہر قازق سمجھ جاتا ہے۔ یہ ایک تنگ اور لمبی سی جھیل ہے جس کی شکل ڈول جیسی ہے۔ قازق نام بامعنی ہوتے ہیں اور جنہیں ان کی زبان آتی ہے وہ نام ہی سے اس کا مفہوم سمجھ لیتے ہیں، ایک نام مجھے بہت پسند آیا۔ "چہکتی چڑیوں کی وادی" لیکن ایسے ناموں میں ایک بڑی دقت بھی ہوتی ہے، وہ یہ کہ دور دور کے علاقوں میں بھی ناموں کا توارد ہو جاتا ہے۔ سست رو خانہ بدوش کےلیے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن تیز رفتار زمانے کے باشندوں کے لیے ایک ہی جیسے نام پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔
جب حسین تجی بارکل اور غزکل میں اپنے نمدہ دار خیموں میں بیویوں اور بچوں اورو لواحقین کے ساتھ رہا کرتا تھا تو اس کا ایک دوست تھا، سلطان شریف۔ یہ بھی قریب ہی رہتا تھا۔ ہماری ملاقات سلطان شریف سے "مرکز قیام" میں ہوئی۔ یہ مرکز استنبول کے قریب ہے۔ قازق مہاجروں کو زمین دینے سے پہلے ترکی حکومت کچھ عرصہ "مرکز قیام" میں رکھتی ہے۔
سلطان شریف سے ہمارا تعارف مشرقی ترکستان کے ایک اور مہاجر محمد امین بغرا نے کرایا جس کا اب اپنا نہایت خوشنما گھر استنبول کے روبرو باسفورس کے ایشایئ علامے میں ہے۔ محمد امین قازق نہیں ہے، ترکی کا رہنے والا ہے، یہ ان ترکوں میں سے ہے جو زمیندار ہیں اور تاجر ہیں۔ اور مشرقی ترکستان میں اسی وقت سے آباد رہے ہیں جب سے قازق وہاں آباد ہوئے، ان کی تعداد بھی قازقوں سے زیادہ ہی ہے۔ لیکن محمد امین کا باپ خُتن کا امیر تھا اور خود محمد امین سنکیانگ کی علاقائی حکومت کا نائب صدر
ریختہ صفحہ 31
تھا۔ مشرقی ترکستان ہی کو چینی لوگ سنکیانگ کہتے ہیں۔ جب 1949ء میں اشتراکیوں نے اس علاقائی حکومت پر قبضہ کیا تو محمد امین وہاں سے بچ نکلا اور کشمیر پہنچ گیا۔ اس افتاد کے پڑنے کی وجہ سے وہ ان تمام سازشوں سے واقف ہے جن کی وجہ سے اسے ترک وطن کرنا پڑا۔ اور جو قازق مقاومت میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔
علی بیگ، حمزہ، کاراملا، حسین تجی، سلطان شریف اور محمد امین سب ابھی جیتے ہیں۔ مشرقی ترکستان کی جہد آزادی میں ان کے علاوہ جن لوگوں نے حصہ لیا اور جن کے ناموں اور کارناموں کا اس کتاب میں ذکر ہے، وہ سب مر چکےہیں، مگر ان کی یاد ان کے بہادر ساتھیوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
ریختہ صفحہ 32
پہلا باب
سُورما کی پیدائش
قازقوں کے نمدہ دار خیموں کے آس پاس آئے دن پیدائشیں اور موتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ نہیں ہوتا کہ اس کا کوئی باقاعدہ نقشہ رکھا جائے یا اس پر حاشیہ آرائی کی جائے۔ یہ تو ایک نظامِ قدرت ہے کہ مناسب موسم اور وقت مقررہ پر بھیڑ بکری، گائے، اونٹنی اور گھوڑیوں کے ہاں بچے ہوتے رہیں، انسانوں کے ہاں بھی اسی فطری طریقے اور تقریباً ایسی ہی پابندی کے ساتھ بچے ہوتے رہتے ہیں۔ البتہ موسم کی قید تولید انسانی میں نہیں ہوتی۔ جانوروں کے نوزائیدہ بچوں کی طرح انسانی بچوں کو بھی والدین کی خاص توجہ، محبت اور خدمت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کوہستانی قبیلوں میں والدین کو بہت کام کرنے پڑتے ہیں اس لیے بچے زیادہ سے زیادہ اپنے ہی وسائل پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ بچے متواتر تجربے کیے جاتے ہیں اور طرح طرح کی غلطیاں کرتے رہتے ہیں اور بچے
ریختہ صفحہ 33
اپنے بڑوں کے طرزِ عمل کو بڑے غور و خوض سے دیکھتے رہتے ہیں اور مفید کارآمد باتیں سیکھتے رہتے ہیں۔
بچوں کی پیدائش جیسے واقعات کو قازق خیموں میں کوئی اہم واقعہ نہیں سمجھا جاتا اس لیے ان کا کوئی نقشہ یا گوشوارہ نہیں بنایا جاتا۔ البتہ سال بھر کے تیج تہواروں کا حساب رکھا جاتا ہے، مثلاً رمضان شریف اور عیدین کا۔ ترکی میں جتنے قازق مہاجر تھے ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو ہمیں یہ بتا سکتا کہ عثمان بطور کس دن یا کس مہینے میں پیدا ہوا۔ ہاں یہ سب جانتے تھے کہ کس سال میں پیدا ہوا۔ اس کے ماں باپ کو مرے عرصہ ہو گیا۔ اس کے تین بھائی اور بہن گمان غالب یہ ہے کہ مر چکے ہیں۔ بالفرض اگر جیتے بھی ہوتے تب بھی اس کی تاریخ پیدائش سے ناواقف ہوتے کیونکہ عثمان بطور پہلونٹی کا تھا۔ اس کے دوستوں کا بیان ہے کہ وہ خود کبھی اس موضوع پر گفتگو نہیں کرتا تھا۔ سلطنت چین کے اس دُور دراز علاقے میں ایسا کوئی محکمہ نہیں تھا جس میں پیدائش و اموات کا اندارج کیا جاتا ہو۔ ہمیں بس انتا معلوم ہے کہ وہ 1899ء میں پیدا ہوا تھا۔ یعنی اسی سال جس سال بوئر جنگ شروع ہوئی۔
عثمان کا باپ اسلام باعی صرف گلہ بان یا مویشیوں کا پالنے والا نہیں تھا، وہ ایک منفرد قسم کا "خشک" کسان بھی تھا۔ اس کا مسکن کک تُغائی میں تھا۔ جو الطائی کا ایک ٖضلع ہے جہاں روسی، چینی اور منگولی علاقوں کی حدود ملتی ہیں۔ وہاں سے یہ مقام کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ "خشک" کسان ہونے کی وجہ سے اسلام باعی جب چاہے باہر جا سکتا تھا۔ اسے دوسرے "تر" کسانوں کی طرح فصل کے لیے پانی نکالنے
ریختہ صفحہ 34
کی ضرورت نہیں تھی جو میدانوں میں کھیتی باڑی کرتے اور نہری پانی کے محتاج رہتے۔
ہر موسم بہار میں اسلام باعی اپنے بیل جوت کر زمین پر ہل چلاتا اور گیہوں کا بیج ڈال دیتا۔ اس کے بعد وہ اپنے بال بچوں اور نمدہ دار خیموں اور اپنے گلوں اور ملازموں کے لے کر الطائی کی اونچی چراگاہوں میں چلا جاتا۔ کھیتوںمیں جو بیج ڈالتا، اُسے ہوا، پانی، سورج اور خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا کہ آپ ہی آپ بیج پھوٹیں، فصلیں تیار ہوں اور پک جائیں۔ وقت کا اندازہ لگا کر وہ فصلیں کاٹنے کے لیے پھر نیچے اُتر آتا۔
چنانچہ 1899ء میں بھی اسلام باعی نے اپنی بیویوں کو ساتھ لیا اور کوہ الطائی کی بلندیوں پر جا کر اس نے اسی طرح خیمے لگائے جیسے حضرت ابراہیم نے یہودیہ کی پہاڑیوں میں لگائے تھے۔ اس کی ایک بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ ہمیں یہ تو ٹھیک نہیں معلوم کہ اس نے کس مقام پر خیمے لگائے تھے لیکن توکُز تاروہی ایک ایسا مقام تھا جو اس کے لیے مناسب تھا۔ یہ ایک وادی ہے جس کے نام کے معنی ہیں "نودنتی کنگھی"۔ اس وادی کا یہ نام اس وجہ سے پڑا تھا کہ سربفلک پہاڑوں کے نو شگافوں سے چشمے اُبل کر اس وادی میں آن ملتے الطائی کی بلندیوں سے اسن کا ٹھنڈا یخ پانی جنگل اور چراگاہوں کی اس سرسبز وادی میں آتا تھا۔ اسی فراخ وادی میں اسلام باعی اور اس کے ساتھ سو خاندانوں کا قبیلہ گرمیوں بھی قیام کرتا۔
مشرقی ترکستان میں توکُز تارو نام کی کئی وادیاں ہیں۔ جیسے کلک سوما، نیلے سمندر نام کی کئی کئی جھیلیں ہیں اور کئی چشمے قزل اُزرن یا سُرخ چشمے
ریختہ صفحہ 35
کہلاتے ہیں۔ عجیب نام کا ایک درہ بھی ہے جو "درۂ بادِ مُعزز" کہلاتا ہے۔ اسے چینی لوگ لاؤ فنگ کو کہتے ہیں۔ چین کے صوبہ سنکیانگ کے دارالحکومت اُرمچی کو سویت قازقستان سے تین شاہراہیں جاتی ہیں، ان میں سے ایک اس درۂ باد مرزز میں سے گزرتی ہے۔ جب اس صوبے میں پہلا اشتراکی گورنر چن شُوجن متعین ہوا تو چینی فوجی دستے سے لدی ہوئ ایک لاری درے کے اوپر بگڑ گئی۔ لاری کا ڈرائیور اس کی خرابی دور کرنے میں لگا ہوا تھا کہ باد مُعزز نے اس پر اور لاری پر اور لاری کے مسافروں پر برف کے تودے لگانے شروع کر دیئے۔ اور سب کے سب جم کر مر گئے۔ ان کی لاشیں بھی اس وقت ملیں جب کئی مہینے بعد برف پگھلی۔ روایت یہ ہے کہ درۂ باد مرزز اکثر اس سے بھی بدتر عذاب نازل کرتا ہے۔ مثلاً ایسی ہوا بھی چلا دیتا ہے جس سے پورے پورے قافلے اڑ کر دُور نیچے گہری جھیل میں جا پڑتے ہیں۔
کچھ دنوں بعد اسلام باعی کی بیوی کے ہاں زچگی کا وقت آ پہنچا۔ جب اسے درد لگے تو اس نے ایک ملازم کو اپنی ماں کے پاس اطلاع دینے کے لیے بھیجا، ماں کا خیمہ ایک قریب کی وادی میں لگا تھا، وہ اپنے ٹٹو پر سوار ہو کر بیٹی کے ہاں آ پہنچی، آتے ہی اس نے اسلام باعی کے "عاادل" یعنی خیمے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک رسا ران دیا۔ بیٹی سے اس نے کہا کہ اس رسے کے آگے دو زانو ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اس پر اس ڈال دو کہ دونوں بغلیں رسے پر ٹک جائیں۔ پھر اپنے بدن کو ڈھیلا چھوڑ کر اس رسے پر اپنا دباؤ ڈالو۔ رُک رُک کر بس یہی کرتی رہو۔ جب درد اور بڑھ گئے تو ماں ایک برے کی کھال کا بنا ہوا چھوٹا
ریختہ صفحہ 36
مشکیرہ اٹھا لائی اور بیٹی سے بولی ":جب تم آگے کو دباؤ دیا کرو تو اس مشکیزہ میں زور سے ہوا بھرو۔" بالآخر جب ماں نے دیکھا کہ اب زچگی کا وقت آ پہنچا تو اس نے اسلام باعی سے نمدے کے چند ٹکڑے منگائے اور جوں ہی اس کی بیٹی رسے پر دباؤ ڈالنے کے لیے ذرا اونچی ہوئی اس نے جھٹ یہ نمدے اس کے نیچے رکھ دیئے۔ اس کے بعد بڑی بی نے اسلام باعی سے کہا، "اب تمہاری ضرورت نہیں ہے جب تک بچہ نہ ہو جائے، تم اندر نہ آنا۔"
اسلام باعی خیمے سے باہر نکل کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ایک تیز باریک سی آواز خیمے میں سے برآمد ہوئی اور درختوں میں بادِ شمال کی سرگوشیوں میں تحلیلہو گئی۔ سنگ ریزوں سے چشمے کی کانا پھوسی اس آواز میں جذب ہو گئی اور پھر یہ آواز مویشیوں کی آوازوں اور گھنٹیوں کی صداؤں میں گھلتی چلی گئے۔ جب اسلام باعی کے کان میں یہ آواز پڑی تو اس نے خیمے کا پردہ اُٹھایا اور اپنے کفش پوش دونوں پاؤں ٹکرا کر جھٹکے تاکہ عااول میں بچھے ہوئے قالین ان سے خراب نہ ہونے پائیں۔ اندر جاتے ہوئے وہ دروازے میں جھک کر نکلا تاکہ دروازے کی چوکھٹ سے بالکل چھونے نہ پائے ورنہ آگے چل کر یہ بُرا شگون رنگ لاتا ہے۔ اسی وجہ سے دہلیز پر سے بھی وہ بہت احتیاط سے پھلانگا۔
اندر پہنچنے کے بعد اسلام باعی نے ساس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے سر ہلا کر ظاہر کیا سب خیریت ہے۔ پھر اس نے اپنی بیوی سے کہا :
بچے کا نام کیا رکھنا چاہیے؟ اس کا فیصلہ کیا ہم اللہ پر چھوڑ دیں،
ریختہ صفحہ 37
کہ خیمے سے باہر نکل کر میری نظر سب سے پہلے جس جاندار پر پڑے اسی پر اس بچے کا نام رکھ دیا جائے۔ یا قرآن شریف میں دیکھ کر ہم خود ہی اس بچے کا نام تجویز کر دیں؟"
اسلام باعی کی بیوی کو معلوم تھا کہ اس سوال کا جواب کیا دینا ہے، کیونکہ بچے کے پیدا ہونے سے بہت پہلے ہی بارہا اس مسئلے پر گفتگو ہو چکی تھی۔ بیوی نے کہا، "قرآن شریف دیکھ کر نام رکھنا چاہیے۔" چنانچہ بچے کا نام عثمان رکھا گیا۔ نام کا دوسرا حصہ "بطور" یعنی بطل یا سورما، جس سے اس کے اہل وطن نے اسے جانا پہچانا، 1942ء تک اس کے نام کا جزو نہیں بنا تھا۔ 1942ء میں اس کی قوم نے اُسے "بطور" کا خطاب دیا۔ اور اسی کے ساتھ تمغۂ آزادی سے بھی سرفراز کیا۔ خیر یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ چپٹپن میں جب کبھی اسے چوٹ پھیٹ لگ جاتی تو اس کی ماں اسے گود میں لے کر چمکارتی اور کہتی، "آہا میرا بیٹا بڑا بہادر سورما ہے۔ سورما کہیں رویا کرتے ہیں۔"
جب عثمان کا نام رکھا جا چکا تو اسلام باعی قبیلے کے رواج کے مطابق پھر خیمے کے باہر آیا اور اس نے ایک بھیڑ حلال کی اور اس کی پیٹ چاک کر کے اس کی اوجھڑی نکالی اور اپنی ساس کو پہنچا دی۔ بڑی بی نے اُسے صاف کر کے دودھ میں پکنے کے لیے چولہے پر چڑھا دیا، جب یہ خوب پک چکی اور دودھ گاڑھا ہو گیا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے اتار کے رکھ دیا، کیونکہ اس کے پینے سے زچہ میں طاقت آتی ہے اور دودھ افراط کے ساتھ اترتا ہے۔ اس کے بعد جب اسلام باعی نے بھیڑ کی کھال اُتار لی تو اس کی ساس نے گوشت کے پارچے بنا کر اس گرم پانی کی دیگ میں انہیں ڈال دیا جو خیمے کے وسط میں آگ پر لٹکی ہوئی ہوئی تھی اس سالم بھیڑ کی یخنی اور گوشت زچہ ہی کو کھلایا پلایا گیا اور جب تک یہ ختم نہ ہو گیا۔