اسکین دستیاب عثمان بطور

عثمان بطور گفتگو دھاگہ

عثمان بطور کمیونسٹ چین سے قازق مسلمانوں کی داستان ہجرت پر مشتمل ہے۔ اس کے مصنف گوڈفرے الیاس ہیں اور مترجم شاہداحمد دہلوی ہیں۔ دیباچہ محمد عثمان فارقلیط نے لکھا ہے۔

عثمان بطور 12 ابواب پر مشتمل ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ریختہ صفحہ 28
وطن کو بڑی دلسوزی سے یاد کیا گیا ہے، اور مشرقی ترکستان کے پہاروں کی جتنی محبوب چوٹیاں ہیں، ان سب کا بڑی محبت سے اس گیت میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایک اور گیت جو مولیا کا گایا ہوا ہے "بادر بودہ" کہلاتا ہے۔ کاراملا اور اس کے ہمنواؤں نے "اطفال مکتب" کا گیت ریکارڈ کرایا جس کا مصرعہ ہے، "کرو علم حاصل بنامِ خدا۔" "یہ بدلتی ہوئی دنیا" اور "اے دنیا" جو دو گیت ہیں، غالباً چار سو سال پہلے ان کی دُھنیں بنی تھیں، لیکن جو بول ان میں گائے گئے ہیں، وہ خاص طور پر ہمارے لیے اب لکھے گئے ہیں۔ ہمیں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ قازقوں کو اپنی روایتی دھنوں پر نئے بول کہنے کا بڑا شوق ہے۔ ان کے تصور کے لیے تو یہ بات اچھی ہے لیکن سورماؤں کے کارناموں پر جو پرانی رزمیہ داستانیں لکھی گئی تھیں وہ رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔

جب بھاٹ کاراملا اپنی رزمیہ منظومات ریکارڈ کرا چکا تو ہم نے اس سے فرمائش کی کہ عربی رسم الخط میں انہیں لکھ بھی دے، کیونکہ قازق عموماً عربی ہی میں لکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نا کاراملا اور اس کے دوستوں کی دعوت کی۔ اگر الطائی کے سلسلۂ کوہ کے خیمے میں ہم اس کے مہمان ہوتے تو ہم سب کو ایک ہی گہری رکابی میں اپنی انگلیاں ڈبو ڈبو کر کھانا پڑتا اور چونکہ قازقوں کے آداب طعام سے ہم ناواقف تھے اس لیے شاید ہماری انگلیاں جھلس بھی جاتیں، لیکن دیویلی میں ہیم سب چھری کانٹے سے کھاتے تھے، اس لیے ترکی ہوٹل کا مالک رکابیوں میں کھانا لگا لگا کر لاتا رہا، حسین تجی کاراملا کے ایک طرف بیٹھا ہوا تھا اور دوسری طرف میں تھا۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہو چکے تو حسین تجی نے بھاٹ پر پُر لطف فقرے کسنے شروع کیے۔


ریختہ صفحہ 29
کاراملا خاموشی سے انہیں انگیز کرتا رہا بلکہ اور سب کی طرح بظاہر ان سے لطف اندوز ہوتا رہا، پھر ہم سب نے مل کر اسے اُکسانہ شروع کیا کہ وہ بھی کچھ بولے، اس پر اس نے دبی زبان سے کہا:

"اگر مجھے یہ اپنی ٹوپی عاریتاً دے دے تو میں اسے اس کی تگنی قیمت ادا کروں گا۔"

حسین تجی کا دبلا پتلا ناک نقشہ اور منگولی چہرہ تھا، ہلکی نیلی آنکھیں اور چھدری چگی ڈاڑھی ایک رنگ کالی تھی، اس میں ایک بال بھی سفید نہیں تھا، حالانکہ وہ ساٹھ سے اوپر تھا۔ بہت بڑے گھیر کی گول ٹوپی اس کے سر پر رکھی عجیب چیز دکھائی دیتی تھی۔

حسین تجی سے کاراملا کم از کم دس سال چھوٹا ہے مگر اپنے معمر دوست کے برعکس اس کے اگلے دانت سارے غائب ہیں۔ اس کی وجہ وہ صعوبتیں ہیں جن سے زندگی میں اسے دوچار ہونا پڑا۔ یقیناً اس کا اصلی نام کاراملا نہیں ہے جس کے معنی ہیں کالا ملا۔ بلکہ اس نام کریم اللہ ہے شاید۔ اس وجہ سے اس کا نام کاراملا پڑ گیا ہو کہ اس کا رنگ کالا تھا، یا اس وجہ سے کہ تو تعویذ گنڈے ملاؤں کی طرح کرتا ہو گا۔ بہرحال ہم وثوق سے وجہ تسمیہ نہیں بتا سکتے۔ لیکن وہ ایک سچا مسلمان ہے اور سچے مسلمان جادو ٹونے اور ٹؤٹکے نہیں کیا کرتے۔ البتہ قازقوں میں بھی ایسے نیم ملا ہوتے ہیں جو دوسرے مذاہب کے عالموں کی دیکھا دیکھی اس قسم کے ڈھونگ رچا لیتے ہیں۔

تفصیلی حالات تو آگے چل کر ہمیں معلوم ہوں گے۔ حسین تجی نے اشتراکیوں کی تاخت سے تنگ آ کر بیس سال ہوئے اپنا آبائی مقام بارکل چھوڑ دیا تھا اور غزکل – غازکول نام کی ایک جھیل کے قریب بود و باش


ریختہ صفحہ 30
اختیار کر لی تھی۔ غازکول کے لفظیمعنی ہیں ہاتھ بھر کی جھیل ڈول کی شکل کی۔ لہذا اس کا نام سُنتے ہی ہر قازق سمجھ جاتا ہے۔ یہ ایک تنگ اور لمبی سی جھیل ہے جس کی شکل ڈول جیسی ہے۔ قازق نام بامعنی ہوتے ہیں اور جنہیں ان کی زبان آتی ہے وہ نام ہی سے اس کا مفہوم سمجھ لیتے ہیں، ایک نام مجھے بہت پسند آیا۔ "چہکتی چڑیوں کی وادی" لیکن ایسے ناموں میں ایک بڑی دقت بھی ہوتی ہے، وہ یہ کہ دور دور کے علاقوں میں بھی ناموں کا توارد ہو جاتا ہے۔ سست رو خانہ بدوش کےلیے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن تیز رفتار زمانے کے باشندوں کے لیے ایک ہی جیسے نام پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔

جب حسین تجی بارکل اور غزکل میں اپنے نمدہ دار خیموں میں بیویوں اور بچوں اورو لواحقین کے ساتھ رہا کرتا تھا تو اس کا ایک دوست تھا، سلطان شریف۔ یہ بھی قریب ہی رہتا تھا۔ ہماری ملاقات سلطان شریف سے "مرکز قیام" میں ہوئی۔ یہ مرکز استنبول کے قریب ہے۔ قازق مہاجروں کو زمین دینے سے پہلے ترکی حکومت کچھ عرصہ "مرکز قیام" میں رکھتی ہے۔

سلطان شریف سے ہمارا تعارف مشرقی ترکستان کے ایک اور مہاجر محمد امین بغرا نے کرایا جس کا اب اپنا نہایت خوشنما گھر استنبول کے روبرو باسفورس کے ایشایئ علامے میں ہے۔ محمد امین قازق نہیں ہے، ترکی کا رہنے والا ہے، یہ ان ترکوں میں سے ہے جو زمیندار ہیں اور تاجر ہیں۔ اور مشرقی ترکستان میں اسی وقت سے آباد رہے ہیں جب سے قازق وہاں آباد ہوئے، ان کی تعداد بھی قازقوں سے زیادہ ہی ہے۔ لیکن محمد امین کا باپ خُتن کا امیر تھا اور خود محمد امین سنکیانگ کی علاقائی حکومت کا نائب صدر


ریختہ صفحہ 31
تھا۔ مشرقی ترکستان ہی کو چینی لوگ سنکیانگ کہتے ہیں۔ جب 1949؁ء میں اشتراکیوں نے اس علاقائی حکومت پر قبضہ کیا تو محمد امین وہاں سے بچ نکلا اور کشمیر پہنچ گیا۔ اس افتاد کے پڑنے کی وجہ سے وہ ان تمام سازشوں سے واقف ہے جن کی وجہ سے اسے ترک وطن کرنا پڑا۔ اور جو قازق مقاومت میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔

علی بیگ، حمزہ، کاراملا، حسین تجی، سلطان شریف اور محمد امین سب ابھی جیتے ہیں۔ مشرقی ترکستان کی جہد آزادی میں ان کے علاوہ جن لوگوں نے حصہ لیا اور جن کے ناموں اور کارناموں کا اس کتاب میں ذکر ہے، وہ سب مر چکےہیں، مگر ان کی یاد ان کے بہادر ساتھیوں کے دلوں میں زندہ ہے۔


ریختہ صفحہ 32
پہلا باب

سُورما کی پیدائش

قازقوں کے نمدہ دار خیموں کے آس پاس آئے دن پیدائشیں اور موتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ نہیں ہوتا کہ اس کا کوئی باقاعدہ نقشہ رکھا جائے یا اس پر حاشیہ آرائی کی جائے۔ یہ تو ایک نظامِ قدرت ہے کہ مناسب موسم اور وقت مقررہ پر بھیڑ بکری، گائے، اونٹنی اور گھوڑیوں کے ہاں بچے ہوتے رہیں، انسانوں کے ہاں بھی اسی فطری طریقے اور تقریباً ایسی ہی پابندی کے ساتھ بچے ہوتے رہتے ہیں۔ البتہ موسم کی قید تولید انسانی میں نہیں ہوتی۔ جانوروں کے نوزائیدہ بچوں کی طرح انسانی بچوں کو بھی والدین کی خاص توجہ، محبت اور خدمت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کوہستانی قبیلوں میں والدین کو بہت کام کرنے پڑتے ہیں اس لیے بچے زیادہ سے زیادہ اپنے ہی وسائل پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ بچے متواتر تجربے کیے جاتے ہیں اور طرح طرح کی غلطیاں کرتے رہتے ہیں اور بچے


ریختہ صفحہ 33
اپنے بڑوں کے طرزِ عمل کو بڑے غور و خوض سے دیکھتے رہتے ہیں اور مفید کارآمد باتیں سیکھتے رہتے ہیں۔

بچوں کی پیدائش جیسے واقعات کو قازق خیموں میں کوئی اہم واقعہ نہیں سمجھا جاتا اس لیے ان کا کوئی نقشہ یا گوشوارہ نہیں بنایا جاتا۔ البتہ سال بھر کے تیج تہواروں کا حساب رکھا جاتا ہے، مثلاً رمضان شریف اور عیدین کا۔ ترکی میں جتنے قازق مہاجر تھے ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو ہمیں یہ بتا سکتا کہ عثمان بطور کس دن یا کس مہینے میں پیدا ہوا۔ ہاں یہ سب جانتے تھے کہ کس سال میں پیدا ہوا۔ اس کے ماں باپ کو مرے عرصہ ہو گیا۔ اس کے تین بھائی اور بہن گمان غالب یہ ہے کہ مر چکے ہیں۔ بالفرض اگر جیتے بھی ہوتے تب بھی اس کی تاریخ پیدائش سے ناواقف ہوتے کیونکہ عثمان بطور پہلونٹی کا تھا۔ اس کے دوستوں کا بیان ہے کہ وہ خود کبھی اس موضوع پر گفتگو نہیں کرتا تھا۔ سلطنت چین کے اس دُور دراز علاقے میں ایسا کوئی محکمہ نہیں تھا جس میں پیدائش و اموات کا اندارج کیا جاتا ہو۔ ہمیں بس انتا معلوم ہے کہ وہ 1899ء؁ میں پیدا ہوا تھا۔ یعنی اسی سال جس سال بوئر جنگ شروع ہوئی۔

عثمان کا باپ اسلام باعی صرف گلہ بان یا مویشیوں کا پالنے والا نہیں تھا، وہ ایک منفرد قسم کا "خشک" کسان بھی تھا۔ اس کا مسکن کک تُغائی میں تھا۔ جو الطائی کا ایک ٖضلع ہے جہاں روسی، چینی اور منگولی علاقوں کی حدود ملتی ہیں۔ وہاں سے یہ مقام کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ "خشک" کسان ہونے کی وجہ سے اسلام باعی جب چاہے باہر جا سکتا تھا۔ اسے دوسرے "تر" کسانوں کی طرح فصل کے لیے پانی نکالنے


ریختہ صفحہ 34
کی ضرورت نہیں تھی جو میدانوں میں کھیتی باڑی کرتے اور نہری پانی کے محتاج رہتے۔

ہر موسم بہار میں اسلام باعی اپنے بیل جوت کر زمین پر ہل چلاتا اور گیہوں کا بیج ڈال دیتا۔ اس کے بعد وہ اپنے بال بچوں اور نمدہ دار خیموں اور اپنے گلوں اور ملازموں کے لے کر الطائی کی اونچی چراگاہوں میں چلا جاتا۔ کھیتوںمیں جو بیج ڈالتا، اُسے ہوا، پانی، سورج اور خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا کہ آپ ہی آپ بیج پھوٹیں، فصلیں تیار ہوں اور پک جائیں۔ وقت کا اندازہ لگا کر وہ فصلیں کاٹنے کے لیے پھر نیچے اُتر آتا۔

چنانچہ 1899؁ء میں بھی اسلام باعی نے اپنی بیویوں کو ساتھ لیا اور کوہ الطائی کی بلندیوں پر جا کر اس نے اسی طرح خیمے لگائے جیسے حضرت ابراہیم نے یہودیہ کی پہاڑیوں میں لگائے تھے۔ اس کی ایک بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ ہمیں یہ تو ٹھیک نہیں معلوم کہ اس نے کس مقام پر خیمے لگائے تھے لیکن توکُز تاروہی ایک ایسا مقام تھا جو اس کے لیے مناسب تھا۔ یہ ایک وادی ہے جس کے نام کے معنی ہیں "نودنتی کنگھی"۔ اس وادی کا یہ نام اس وجہ سے پڑا تھا کہ سربفلک پہاڑوں کے نو شگافوں سے چشمے اُبل کر اس وادی میں آن ملتے الطائی کی بلندیوں سے اسن کا ٹھنڈا یخ پانی جنگل اور چراگاہوں کی اس سرسبز وادی میں آتا تھا۔ اسی فراخ وادی میں اسلام باعی اور اس کے ساتھ سو خاندانوں کا قبیلہ گرمیوں بھی قیام کرتا۔

مشرقی ترکستان میں توکُز تارو نام کی کئی وادیاں ہیں۔ جیسے کلک سوما، نیلے سمندر نام کی کئی کئی جھیلیں ہیں اور کئی چشمے قزل اُزرن یا سُرخ چشمے


ریختہ صفحہ 35
کہلاتے ہیں۔ عجیب نام کا ایک درہ بھی ہے جو "درۂ بادِ مُعزز" کہلاتا ہے۔ اسے چینی لوگ لاؤ فنگ کو کہتے ہیں۔ چین کے صوبہ سنکیانگ کے دارالحکومت اُرمچی کو سویت قازقستان سے تین شاہراہیں جاتی ہیں، ان میں سے ایک اس درۂ باد مرزز میں سے گزرتی ہے۔ جب اس صوبے میں پہلا اشتراکی گورنر چن شُوجن متعین ہوا تو چینی فوجی دستے سے لدی ہوئ ایک لاری درے کے اوپر بگڑ گئی۔ لاری کا ڈرائیور اس کی خرابی دور کرنے میں لگا ہوا تھا کہ باد مُعزز نے اس پر اور لاری پر اور لاری کے مسافروں پر برف کے تودے لگانے شروع کر دیئے۔ اور سب کے سب جم کر مر گئے۔ ان کی لاشیں بھی اس وقت ملیں جب کئی مہینے بعد برف پگھلی۔ روایت یہ ہے کہ درۂ باد مرزز اکثر اس سے بھی بدتر عذاب نازل کرتا ہے۔ مثلاً ایسی ہوا بھی چلا دیتا ہے جس سے پورے پورے قافلے اڑ کر دُور نیچے گہری جھیل میں جا پڑتے ہیں۔

کچھ دنوں بعد اسلام باعی کی بیوی کے ہاں زچگی کا وقت آ پہنچا۔ جب اسے درد لگے تو اس نے ایک ملازم کو اپنی ماں کے پاس اطلاع دینے کے لیے بھیجا، ماں کا خیمہ ایک قریب کی وادی میں لگا تھا، وہ اپنے ٹٹو پر سوار ہو کر بیٹی کے ہاں آ پہنچی، آتے ہی اس نے اسلام باعی کے "عاادل" یعنی خیمے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک رسا ران دیا۔ بیٹی سے اس نے کہا کہ اس رسے کے آگے دو زانو ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اس پر اس ڈال دو کہ دونوں بغلیں رسے پر ٹک جائیں۔ پھر اپنے بدن کو ڈھیلا چھوڑ کر اس رسے پر اپنا دباؤ ڈالو۔ رُک رُک کر بس یہی کرتی رہو۔ جب درد اور بڑھ گئے تو ماں ایک برے کی کھال کا بنا ہوا چھوٹا


ریختہ صفحہ 36
مشکیرہ اٹھا لائی اور بیٹی سے بولی ":جب تم آگے کو دباؤ دیا کرو تو اس مشکیزہ میں زور سے ہوا بھرو۔" بالآخر جب ماں نے دیکھا کہ اب زچگی کا وقت آ پہنچا تو اس نے اسلام باعی سے نمدے کے چند ٹکڑے منگائے اور جوں ہی اس کی بیٹی رسے پر دباؤ ڈالنے کے لیے ذرا اونچی ہوئی اس نے جھٹ یہ نمدے اس کے نیچے رکھ دیئے۔ اس کے بعد بڑی بی نے اسلام باعی سے کہا، "اب تمہاری ضرورت نہیں ہے جب تک بچہ نہ ہو جائے، تم اندر نہ آنا۔"

اسلام باعی خیمے سے باہر نکل کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ایک تیز باریک سی آواز خیمے میں سے برآمد ہوئی اور درختوں میں بادِ شمال کی سرگوشیوں میں تحلیلہو گئی۔ سنگ ریزوں سے چشمے کی کانا پھوسی اس آواز میں جذب ہو گئی اور پھر یہ آواز مویشیوں کی آوازوں اور گھنٹیوں کی صداؤں میں گھلتی چلی گئے۔ جب اسلام باعی کے کان میں یہ آواز پڑی تو اس نے خیمے کا پردہ اُٹھایا اور اپنے کفش پوش دونوں پاؤں ٹکرا کر جھٹکے تاکہ عااول میں بچھے ہوئے قالین ان سے خراب نہ ہونے پائیں۔ اندر جاتے ہوئے وہ دروازے میں جھک کر نکلا تاکہ دروازے کی چوکھٹ سے بالکل چھونے نہ پائے ورنہ آگے چل کر یہ بُرا شگون رنگ لاتا ہے۔ اسی وجہ سے دہلیز پر سے بھی وہ بہت احتیاط سے پھلانگا۔

اندر پہنچنے کے بعد اسلام باعی نے ساس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے سر ہلا کر ظاہر کیا سب خیریت ہے۔ پھر اس نے اپنی بیوی سے کہا :

بچے کا نام کیا رکھنا چاہیے؟ اس کا فیصلہ کیا ہم اللہ پر چھوڑ دیں،


ریختہ صفحہ 37
کہ خیمے سے باہر نکل کر میری نظر سب سے پہلے جس جاندار پر پڑے اسی پر اس بچے کا نام رکھ دیا جائے۔ یا قرآن شریف میں دیکھ کر ہم خود ہی اس بچے کا نام تجویز کر دیں؟"

اسلام باعی کی بیوی کو معلوم تھا کہ اس سوال کا جواب کیا دینا ہے، کیونکہ بچے کے پیدا ہونے سے بہت پہلے ہی بارہا اس مسئلے پر گفتگو ہو چکی تھی۔ بیوی نے کہا، "قرآن شریف دیکھ کر نام رکھنا چاہیے۔" چنانچہ بچے کا نام عثمان رکھا گیا۔ نام کا دوسرا حصہ "بطور" یعنی بطل یا سورما، جس سے اس کے اہل وطن نے اسے جانا پہچانا، 1942ء؁ تک اس کے نام کا جزو نہیں بنا تھا۔ 1942ء؁ میں اس کی قوم نے اُسے "بطور" کا خطاب دیا۔ اور اسی کے ساتھ تمغۂ آزادی سے بھی سرفراز کیا۔ خیر یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ چپٹپن میں جب کبھی اسے چوٹ پھیٹ لگ جاتی تو اس کی ماں اسے گود میں لے کر چمکارتی اور کہتی، "آہا میرا بیٹا بڑا بہادر سورما ہے۔ سورما کہیں رویا کرتے ہیں۔"

جب عثمان کا نام رکھا جا چکا تو اسلام باعی قبیلے کے رواج کے مطابق پھر خیمے کے باہر آیا اور اس نے ایک بھیڑ حلال کی اور اس کی پیٹ چاک کر کے اس کی اوجھڑی نکالی اور اپنی ساس کو پہنچا دی۔ بڑی بی نے اُسے صاف کر کے دودھ میں پکنے کے لیے چولہے پر چڑھا دیا، جب یہ خوب پک چکی اور دودھ گاڑھا ہو گیا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے اتار کے رکھ دیا، کیونکہ اس کے پینے سے زچہ میں طاقت آتی ہے اور دودھ افراط کے ساتھ اترتا ہے۔ اس کے بعد جب اسلام باعی نے بھیڑ کی کھال اُتار لی تو اس کی ساس نے گوشت کے پارچے بنا کر اس گرم پانی کی دیگ میں انہیں ڈال دیا جو خیمے کے وسط میں آگ پر لٹکی ہوئی ہوئی تھی اس سالم بھیڑ کی یخنی اور گوشت زچہ ہی کو کھلایا پلایا گیا اور جب تک یہ ختم نہ ہو گیا۔
 

سیما علی

لائبریرین
ریختہ صفحہ -26

کہیں زیادہ حیثیت رکھتی ہے کہ ایک پوری قوم کے کارناموں پر مشتمل ہے۔
جب کوئی بھاٹ اپنے گیت سناتا تو ساتھ ساتھ ڈمبری بھی بجاتا۔ڈمبری ایک لمبا سا ساز ہے ستار کی طرح کا ، مگر اس میں صرف دو ہوتے ہیں۔اس لیے اسے ایک قسم دو تارہ سمجھنا چاہیئے، کارا ملا جیسےاستاد ان تاروں کو اس انداز سے چھیڑتے ہیں کہ ہر تارایک زخمے سے دوآوازیں دیتا ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ ایک زخمے میں دو سرُکیسے پیدا ہو جاتے ہیں اور پھر مشتاق استاد کے زخمےسے پیدا ہونے
والے سرُاس وقت تک گونجتے رہتے ہیں۔ جب تک دوسرا زخمہ نہ لگا یاجائے ۔ دیویلی میں کئی دفعہ میں نے اس ساز کو بجاتے دیکھا ہے۔ سازگار کبھی تو بڑے انہماک سے اسے بجاتے ہیں اور کبھی بڑی بے توجہی سے۔
کا را مّلا ایک دھن بڑی دلکش بجاتا ہے یہ دھن بہت موثر اور دکھ بھری تھی،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اپنے وطن واپس جانے کی آرزو اس میں تڑپ رہی ہے۔
اس نے بتا یا تھاکه یہ دھن الطائی کی ہے مگر اس کا نام اس نے نہیں بتایا ۔
بہت سے قازق ڈمبری بجانا جانتے ہیں اور ترکی میں جن سے ہماری ملاقات ہوئی نہ صرف گانا جانتے تھے بلکہ دھن پر اپنے بول بھی کہہ لیتےتھے سینکڑوں سال پرانی دھنوں پر انھوں نے اپنے نئے بول اُٹھالیے تھے۔ اس قسم کے بہت سے نو ساختہ گانوں کے ریکارڈ بھر ہم اپنےساتھ لے آئے لیکن عموماً یہ نئے بول ان لوگوں کے کہے ہوئے ہیں،جو ہمیں اپنا گانا سنایا کرتے تھے مثلاً کا رملاّ ، علی بیگ کی تینوں بیویاں ، پندرہ سولہ برس

ریختہ صفحہ۔27

کے لڑکے لڑکیاں یہ گانے بناتے اور گاتے ۔ایک دھن ہم سلحیل سے بھی ریکارڈ کرکے لائے تھے۔ یہ دھن ایک عجیب شکل کے ساز پر بجائی گئی ہے۔ یہ سیدھی سادی سی بانسری ہے جس میں صرف تین سوراخ ہوتے میں اس بانسری کا نام سیبز کا ہے ۔ بانسری بجانے والا بانسری کے او پری سرےکے اندر اپنی زبان اس طرح داخل کرتا ہے کہ اس سے سیٹی کی آواز پھونک
مارنے پر پیدا ہوتی ہے۔ یہ بانسری ایک کلے کی طرف رہتی ہے اور دوسرےکلے سے مشک باجے کی طرح ایک بانسری صرف آس دیتی رہی ہے ۔اِس پرُسرار طریقےسے وہ ایک ایسا غیرمعمولی نغمہ پیدا کرتا ہے جو کارا کی روانی کی عکاسی کرتا ہے۔ کارا - کالا - ارتعش وہ بڑا دریاہے جو کوہ الطائی سےنکل کر سوویت قازقستان اور سائبیریا کے چوڑےبنجر میدانوں کے
بیچ میں سے ہوتا ہوا دریائے اوب میں جاملتا ہے جوآگے چل کر بحر منجمد شمال میں جا گرتا ہے .
جہاں تک ہمیں علم ہے ہم نے جتنے قازقی نغمے دیویلی اور سلحیلی ميں
ریکارڈ کیے وہ پوری آزاد دنیا کے لیےبالکل ناشنیده ہیں سوائے شایدایک گیت کے جسے روسی فوج نے جنگ کے زمانے میں اپنا کوچ کا گیت بنالیا تھاہمارے ریکارڈ کیے ہوئےسرمائے میں ایک گیت کا عنوان ہے “بگلے کی پرواز” یہ گیت علی بیگ کی دو بیویوں خدیجہ اور مولیا نے گایا ہےبگلوں کو قازق بُرےشگون کے پرندوں میں شمارکرتے ہیں اس لیےیہ گیت غمناک
ہے۔ اسی طرح ایک اور درد ناک گیت "نوحہ ہے ۔ یہ گیت ایک دس سال کی لڑکی نے بتا یا ہے اور اس میں اپنے مرحوم باپ کی یاد کو تازہ کیا ہے
“پریم تاؤ میرے وطن کےپہاڑ” ایک ایسا گیت ہے جس میں اپنے
 

اوشو

لائبریرین
عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 51

دوسرا باب

گھر سے عثمان کی جدائی

چالیس سال پہلے جب کوئی مہمان کسی قازق کے گھر آتا بلکہ اس زمانے تک جب اشتراکیوں نے یہ طے نہیں کر لیا تھا کہ ان کی قدیم تہذیب کو مٹا دیا جائے تو اس کا خیر مقدم اسی قدیم روایت کے مطابق کیا جاتا جو زمانہ قدیم سے قبل تاریخ سے چلی آتی تھی۔ اس میں اس وقت بھی کوئی فرق نہیں آیا جب گیارہویں اور چودھویں صدی کے درمیان قازق مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اسلام باعی کے خیمے میں بوکو بطور کی پذیرائی کیسے کی گئی؟ اس کا کوئی مصدقہ بیان ہمارے پاس نہیں ہے لیکن چونکہ قزاقوں کے دستوں اور روایتوں میں کوئی فرق نہیں آیا ہے اس لیے ہم بغیر کسی دشواری کے اس منظر کو پیش کر سکتے ہیں ہیں۔
بوکو بطور جب جھک کر خیمے میں داخل ہوا تو اس نے بڑی احتیاط برتی کہ دہلیز سے اس کا پاؤں نہ ٹکرانے پائے اور داخل ہونے میں اس کا لمبا چوغہ دروازے کی چوکھٹ سے نہ ٹکرانے پائے۔ "سلام علیکم"
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 52

کہہ کر وہ خیمے میں داخل ہوا اور دونوں پیروں کو ٹکرا کر اس نے کفش پوشوں کو دروازے کے قریب ایک پہلو میں اتار دیا اور پھر آگے جائے نشست کی طرف بڑھا۔
اسلام باعی نے "وعلیکم السلام" کہہ کر بوکو بطور کے پھیلے ہوئے ہاتھ کو پہلے اپنے داہنے ہاتھ میں لیا اور پھر دونوں ہاتھوں میں لے کر مصافحہ کیا۔ اس کے بعد مہمان اور میزبان دونوں نے اپنے اپنے ماتھوں، لبوں اور سینوں کو سیدھے ہاتھ سے چھوا۔ اس کے بعد دونوں دروازے کی طرف رخ کر کے بیٹھ گئے گئے سب ملا کر کوئی 16 کلمات خیر کرے گئے جب میزبان اور مہمان ان تکلفات سے فارغ ہوئے اور ان کے ملازمین خاص سے بھی رسوم ادا ہو چکیں تو آگ کے چاروں طرف گھیرا بنا کر حسب مراتب دوزانو یا آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ پھر سب نے مل کر دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے اور کوئی قرآنی دعا پڑھی۔ آخر میں سب نے ایک ساتھ آمین کہا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو چہرے اور داڑھیوں پر پھیر لیا۔
دعا کے ختم ہوتے ہیں اسلام باعی نے کہا "آپ کے تشریف لانے سے ہماری نہایت عزت و حوصلہ افزائی ہوئی۔" عثمان اس کے پیچھے ہی کھڑا ہوا تھا اس کی طرف رخ کر کے اور لہجہ بدل کر کے اسلام بعی نے کہا۔ "ارے شریر شیطان اس لڑکے کو کبھی کوئی تمیز نہ آئے گی۔ اسے یہ تک نہیں معلوم کہ باپ کے مہمان کا استقبال بیٹا بھی اس کے شایان شان کرتا ہے"
عثمان اس دستور سے واقف تھا وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ باپ کی
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 53

یہ تہدید صرف ایک نمائشی چیز ہے۔ اس پر بھی وہ جھجکتا ہوا آگے بڑھا کیوں کہ بوکو بطور بہت مشہور سورما تھا جس کے کارنامے وہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک برابر سنتا رہا تھا آگے آکر اس نے بوکو بطور سے آنکھیں چار کر کے بالکل اپنے باپ کی طرح خیر مقدم کے الفاظ کہے اور آخر میں جب اس نے اللہ اکبر کہا تو اس کی آواز بالکل ماند پڑ گئی تھی۔
عثمان کا بایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بوکو بطور نے اسے آگے کھینچا اور اس پر نظریں جما کر بولا " غالباً یہ وہی لڑکا ہے جس کا ذکر میں نے اپنے دوستوں کے خیموں میں اکثر سنا ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں اپنی عمر سے زیادہ قوت و دانش ہے اور اس کے لئے ایک شاندار مستقبل مقدر ہو چکا ہے۔"
باپ نے کہا "یہ لڑکا کم عقل ہے کسی کام کا نہیں ہے بے ہودہ بھاگ جا احمق ہمارے مہمان کے گھوڑے کو ذرا دیکھ بھال کر۔"
عثمان نے ہمت کر کے کہا "کیا وہ مہمان زیادہ توجہ کے لائق نہیں جس کا گھوڑا اس قدر قابل توجہ ہو اگر اجازت ہو تو میں یہیں ٹھہرا رہوں اور اس بات کا خیال رکھوں کہ گھوڑے کے مالک کو کسی قسم کی زحمت نہ ہونے پائے؟"
بوکو بطور کی گرجدار آواز سنائی دی۔ "واللہ! تم نے سنا لڑکے نے کیا کہا؟ وئ! وئ! اور ابھی وہ بچہ ہی ہے۔"
اسلام باعی نے کہا "مہمانوں کا خیال رکھنا باپ کا فرض ہے اس شریر کی طرح جو چھوٹے لڑکے ہوتے ہیں انہیں نسبتا ہلکے کام کرنے
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 54

چاہییں اور مناسب یہ ہے کہ جو کچھ ان سے کہا جائے وہ کریں۔"
عثمان تو جانتا ہی تھا کہ باپ بظاہر ناراض ہو رہا ہے مگر دل میں اس طرز عمل سے خوش ہے ادھر بوکو بطور کی تعریف سے بھی وہ بہت خوش تھا لہذا فورا خیمے سے باہر بھاگا تاکہ اونچے شبدیز کی خبر گیری کرے۔
باہر نکل کر اس نے دیکھا کہ بوکو بطور کا ایک ملازم قازقوں کے اصولوں کے مطابق گھوڑے کو ٹہلا رہا تھا تا کہ اتنے لمبے سفر میں سواری دینے کے بعد اس کی ٹانگیں کہیں اکڑ کر نہ رہ جائیں۔ عثمان نے ملازم سے گھوڑے کی لگام لے لی اور نڈر ہو کر اس کی زین پر چڑھ بیٹھا۔
سائیس قریب ہی کھڑا ہوا تھا۔ وہ حیران رہ گیا اور بے اختیاری میں اس کے منہ سے نکلا "وایا پرامائی! یہ تو اعجاز ہے اعجاز! آقا کا گھوڑا اسے نہیں پھینکتا! میں نے تو پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ اس نے اپنے اوپر کسی اور کو سوار ہونے دیا ہو۔ اس لڑکے کے مقدر میں لوگوں کا رہنما بننا ضرور ہے۔ اور تمام منہ زور گھوڑوں کی سواری کرنا بھی اس کے لئے مقسوم ہو چکا ہے۔"
اپنے ملازم کی حیرت زدہ باتیں بوکو بطور نے خیمے کے اندر سن لیں اور وہ اتھ کر خیمے کے دروازے پر آ گیا۔
عثمان کو دیکھ کر بولا۔ "آہا! شریر لڑکے، تو میرے گھوڑے پر بھی سوار ہو گیا۔ "
عثمان نے جھجکتے ہوئے کہا۔ "میں نے سوچا کہ اسے کھلانے پلانے سے پہلے ذرا ٹھنڈا کر لوں۔"
بوکو بطور ہنسا۔ بولا۔ "غنیمت ہے کہ جب تو نے اس کی رکاب میں پاؤں رکھا تو اس نے تجھے چبا نہیں ڈالا۔ اس نے چونکہ تجھے نہیں کاٹا
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 55

اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میرا یہاں آنا ٹھیک رہا۔"
اب عثمان نے ہمت کر کے پوچھا۔ "اگر آپ اجازت دیں تو میں اب اسے کھلانے پلانے لے جاؤں؟"
بوکو بطور نے کنکھیوں سے اپنے میزبان کی طرف دیکھا کہ وہ بھی سن لے اور اونچی آواز میں بولا۔ "ہر گز نہیں، اسے نہ تو پانی پلانا اور نہ کچھ کھلانا، کیونکہ رات ہونے سے پہلے مجھے یہاں سے روانہ ہو جانا ہے۔ "
اسلام باعی نے گھبرا کر کہا "نہیں نہیں! آپ کا اتنی جلدی رخصت ہونا میری مہمان نوازی کو شرمندہ کرنا ہو گا۔۔۔۔۔۔" پلٹ کر اس نے آواز دی۔ "بیوی! جلدی سے چائے اور نان لاؤ۔ اس میں تاخیر ہونے کی وجہ سے ہمارےمہمان بد دل ہو رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں جلدی لاؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے چلے جانے سے ہمیں شرمندگی کا منہ دیکھنا پڑے۔ "
یہ سنتے ہی اسلام باعی کی "باعی بی شا" یعنی زوجۂ اول نمکین چائے سے بھر ئے تانبے کے پیالے اٹھا لائی اور ان کےساتھ روایتی نمکین نان پارے بھی۔ یہ نان پارے ایک رومال میں تھے۔ جس کے چاروں کونوں کو یک جا کر کے گرہ لگا دی گئی تھی۔ ان چیزوں کو دیکھ کر بوکو بطور کو پھر خیمے میں آ کر اپنی مقررہ جائے اعزاز پر بیٹھنا پڑا۔ اب وہ کھانے کے لئے تیار ہو رہا تھا۔ مگر بار بار عذر کرتا جاتا تھا کہ میں ایسی نوازش کا مستحق نہیں ہوں، میں اس اعزاز کے لائق نہیں ہوں۔ اس نے اسلام باعی کی بیوی کے ہاتھ سے پیالہ لے کر چائے پینی شروع کر دی۔ دانت بند کئے وہ شڑکے لگا رہا تھا، اور غٹر غٹر گھونٹ گلے
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 56

میں اتار رہا تھا۔ ایک گھونٹ اور دوسرے گھونٹ کے درمیان جو وقفہ ملتا اس میں وہ سخت نان کے ٹکڑے کو منہ میں رکھنے سے پہلے چائے میں ڈبو لیتا۔
جب قازقوں کے دستور کے مطابق بوکو بطور نے روٹی کھا لی اور چائے پی لی تو اسلام باعی نے بوکو بطور سے کہا۔ "کیا اب اجازت ہے کہ میں عثمان کو بھیج کر گھوڑے کو دانہ پانی دلواؤں کیونکہ کہا یہ گیا ہے کہ جب گھوڑے سے دن بھر محنت لے لی جائے تو پہلے اسے پانی پلایا جائے اور اس کے بعد اسے کھلایا جائے تاکہ اگلے دن پھر اس سے محنت لینے کے لئے طاقت آ جائے۔ "
بوکو بطور نے نیچی آواز میں کہا۔ "ایسے میزبان کی نوازشوں کی تعریف نہیں ہو سکتی۔"
اسلام باعی نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا۔ "اگر زحمت نہ ہو تو ریوڑ کا معائنہ فرما لیا جائے تاکہ پسندیدہ جانور حلال کر لیا جائے اور میری بیویاں طعام شب تیار کر دیں۔"
بوکو بطور نے ازراہِ کسرِ نفسی کہا۔ "اس خانہ بدوش کے لئے کوئی جانور حلال نہ کیا جئے۔ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ رات ہونے سے پہلے مجھے روانہ ہو جانا چاہیے۔"
اسلام باعی نے اسے یہ کہہ کر یاد دلایا کہ "میں نے بھی تو عرض کیا تھا کہ آپ کے اس طرح رخصت ہونے سے میری مہمان نوازی شرمندہ ہو گی۔ اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ گھوڑے کو کھلا پلا دینے کے بعد اس سے محنت نہیں لینی چاہیے۔"
بوکو بطور نے گھوڑے کے متعلق جو کچھ کہا گیا تھا اسے تو اڑا دیا اور بولا۔ "ایسے میزبان کو شرمندہ کرنا اپنے آپ کو نقصان پہنچانا ہے۔ اچھا تو میزبان
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 57

کو جس بات میں سب سے کم زحمت ہو وہ کی جائے۔"
اسلام باعی لپک کر خیمے کے دروازے پر گیا اور آواز دے کر کہا۔ "لڑکے! شب دیز کو دانہ پانی دے دو۔ اس کے آقا کا آج رات کو یہیں قیام رہے گا۔ بوری میں سے دانہ نکال لاؤ، مگر پہلے اسے دریا پر لے جاؤ تاکہ وہ تازہ پانی پی لے۔ اتنے گھوڑے کو دانہ پانی ملے۔ سب سے عمدہ یک سالہ بّرے خیمے کے دروازے پر لائے جائیں تاکہ ان میں سے طعامِ شب کے لئے مہمانِ گرامی خود انتخاب فرما لیں۔"
عثمان شب دیز کو دریا کی طرف لے چلا۔ باپ نے کہا تھا کہ اس کی لگام پکڑ کر لے جانا مگر وہ اس پر بڑے فخر کے ساتھ سوار جا رہا تھا اور بوکو بطور کے ملازم حیران ہو رہے تھے کیونکہ اس گھوڑے نے ان میں سے کسی کو بھی اپنے اوپر سوار ہونے نہیں دیا تھا اور نہ اس پر سوار ہونے کی کسی میں ہمت ہی تھی۔ اس پر اب تک سوائے بوکو بطور کے اور کوئی سوار ہی نہیں ہوا تھا۔
خیمہ بوکو بطور کے خدم و حشم سے خالی ہو چکا تھا۔ خیمے میں واپس اپنی جگہ آ کر چھاپہ مار سردار اب بھی اصرار کئے جا رہا تھا۔
"دایا پرامائی! میرے لئے کوئی جانور حلال نہ کیا جائے۔ کیا میں نے اور میرے محافظوں نے جب اپنے دوست کے ہاں آنے کا ارادہ کیا صبح تڑکے اپنے پڑاؤ سے روانہ ہونے سے پہلے خوب ڈٹ کر کھایا نہیں تھا؟"
اسلام باعی نے اپنی ضد جاری رکھی۔ "کھانا تو کھانے کے لیے ہی ہوتا ہے اور پیٹ اس لیے ہوتا ہے کہ اسے بھرا جائے۔ موقع ملنے پر جو شخص اپنا پیٹ نہیں بھرتا اسے روزوں میں اور بھی زیادہ بھوک لگتی ہے۔"
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 58

بوکو بطور نے کہا۔ "لیکن میزبانوں کے گھر والوں کے لیے باعثِ زحمت بننا بڑی ناشائستہ حرکت ہے۔"
اسلام باعی کی زوجۂ اول بیچ میں بول اٹھی "کام ان آنسوؤں سے کہیں اچھا ہے جو مہمان کے، اور ایسے جلیل القدر مہمان کے خالی پیٹ جانے پر ہم عورتوں کو بہانے پڑیں، یا اگر وہ پیٹ بھر کر بھی جائے مگر کھانا اس کے لائق نہ ہو۔"
بالآخر بوکو بطور کو اس پر رضامن ہونا پڑا کہ خیمے کے دروازے پر جائے۔ جہاں ایک سالہ بّروں کا ایک ریوڑ کھڑا ممیا رہا تھا۔
اسلام باعی نے کہا۔ "انتخاب کرنا مہمان کا کام ہے۔ مگر میری بیوی حاتانم نے بڑی سچی بات کہی ہے۔ اگر کوئی مہمان ازراہ تکلف ایسے جانور کا اتخاب کرے جو اس کے لائق نہ ہو اور میزبان کے لائق بھی نہ ہو تو اس صورت میں میزبان کو اس وقت تک اپنی آنکھیں بند کیے رہنا چاہیے جب تک کوئی اور بہتر جانور انتخاب نہ کر لیا جائے۔"
بوکو بطور کی آنکھوں میں اطمینان کی چمک پیدا ہوئی۔ بولا "جب میزبان ایسا ہو تو مہمان کے لئے اس کے سوا اور کیا چارہ رہ جاتا ہے کہ ریوڑ کا بہترین جانور چن لے۔"
یہ کہہ کر ایک بڑے تیار بّرے کے سر پر اس نے ہاتھ رکھ دیا اسے فوراً لے جا کر حلال کیا گیا اور رات کے کھانے کے لئے اسے بنا ڈالا گیا۔
اسلام باعی نے کہا۔ "ان کے لئے بھی پسند کیجیئے جو آپ کے ساتھ آئے ہیں۔ ساتھیوں کی تعداد چونکہ بیس تھی اس لیے بوکو بطور نے تین اور بّروں پر اپنا ہاتھ رکھا اور جب اسلام باعی نے شکایت کی کہ یہ ناکافی ہیں تو اس نے
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 59

تین اور بّروں کے سروں پر ہاتھ رکھ دیا۔ اور جب کھانے سے فارغ ہوئے تو ان چھ میں سے کچھ بھی نہیں بچا تھا کیونکہ قازق کھانے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔
میزبانی اور مہمانی کے نہ بدلنے والے دستور جب دونوں جانب سے اس طرح ادا ہو چکے تو اسلام باعی اپنے مہمان کو پھر خیمے میں لے آیا اور خیمے کے دروازے کے سامنے گھر کے بنے اور رنگے ہوئے شوخ رنگ کے قالینوں پر رکھی ہوئی گدیوں پر دونوں آدمی پہلو بہ پہلو بیٹھ گئے اور عورتوں نے منتخب بّروں کے پارچوں کو ایک ایک کر کے بری دیگ میں ابلنے کے لئے ڈالنا شروع کیا۔ سری علیحدہ رکھ لی تاکہ پارچے کھا لینے کے بعد اسے بھون کر چاولوں کے ساتھ کھایا جائے۔ تھوری دیر بعد گھوڑے کو دانہ پانی دے کر عثمان خاموشی سے اندر آ گیا۔ آگ کی دوسری جانب خیمے کے دروازے کے قریب وہ اس طرح بیٹھ گیا کہ کسی طرح بھی اس کا وجود حائل نہ ہونے پائے۔ لیکن بغیر ان کی نظروں پر چڑھے ان دونوں بزرگوں کو دیکھتا بھی رہے اور ان کی باتیں سنتا بھی رہے۔ لیکن اسے اندر آئے کچھ زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ اسے اچانک معلوم ہوا کہ وہ دونوں خود اسی کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔
بوکو بطور کہہ رہا تھا "لڑکا جو خیمے کے دروازے کے پاس بیٹھا ہے میں جانتا ہوں کہ کس قسم کا ہے۔"
عثمان کے باپ نے کہا۔ "بہت سے لڑکوں سے کم عقل ہے۔ وادی میں شاید ہی کوئی ایسا لڑکا ہو جو کم عقلی میں اس سے برھ کر ہو۔ کھیلوں میں مثلاً سر پٹ بھاگتے گھوڑے کی پیٹھ پر کمالات دکھانے میں، زین پر سے پھسل کر گھوڑے کے پیٹ کے نیچے آ جانے اور پھر زین پر
-------------------------------------------------------
 

اوشو

لائبریرین
عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 60

پہنچ جانے جمیں یا چڑھے ہوئے دریا میں تیرنے میں، یا عااوُل میں ملّا کے پس پشت مضحکہ خیز اشعار کہنے میں، ان سب حماقتوں میں اس سے کوئی بازی نہیں لے جا سکتا۔"
بوکو بطور زور سے ہنسا۔ "وئ وی! واقعی یہ سب حماقتیں ہیں۔ ایسے اور بھی بہت ہوں گے جو سر پٹ دوڑتے گھوڑے کی زین سے پھسل کر پیٹ سے چمٹ جاتے ہیں اور پورے قدو قامت کی بھیڑ کو گھوڑا دوڑا کر زمین سے اٹھا لیتے ہیں، ایسے بہت ہوں گے جو تیر سکتے ہیں اور جو شعر کہہ سکتے ہیں، لیکن ایسے شاذ ہی ہوتے ہیںجو یہ ساری باتیں ہنر مندی سے کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ عثمان یہاں آؤ، میرے پاس آ کر بیٹھو، ہاں، اب مجھے بتاؤ تمہیں اور کیا کیا آتا ہے؟ بندوق سے نشانہ لگانا آ گیا۔ تلوار کے ایک وار میں بھیڑ کا سر اڑا سکتے ہو؟ زحل کے گرد تم کتنے حلقے دیکھ سکتے ہو یا مشتری کو کتنے چاند اپنے حلقے میں لیے ہوئے دیکھتے ہو؟"
اسلام باعی نے کچھ بولنے کا ارادہ کیا تو اس نے کہا "نہیں دوست لڑکے کو خود بولنے دو، تبھی میں جان سکوں گا کہ جو قصے میں نے اس کے بارے میں سنے ہیں کہاں تک ان میں صداقت ہے۔"
عثمان نے کہا "یہ کام تو ایسے ہیں جو کئے جاتے ہیں۔ صرف ان کا تذکرہ بے کار ہے اور جب تک کوئی صحیح استاد نہ ملے کوئی لڑکا کیسے انہیں کر سکتا ہے؟"

یا اللہ! میں اس کے باپ کے سامنے کہتا ہوں اور خود اس کے سامنے بھی کہ اس کا مثل اس کے بعد کبھی پیدا نہیں ہو گا، افواہ کم از کم
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 61

ایک بار تو سچی ثابت ہوئی، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اس موضوع پر مزید گفتگو کروں گا۔"
اتنے کم سن لڑکے کے لیے بوکو بطور جیسے آدمی کے م نہ سے ایسی باتیں کچھ مبالغہ آمیز نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ ثابت ہے کہ بوکو بطور نےیہی الفاظ متعدد بار مختلف مواقع پر کہے ہیں۔ ہمیں یہ تو صحیح نہیں معلوم کہ بوکو بطور نے اسلام باعی سے کس ملاقات میں اپنی تجویز کا تذکرہ کیا لیکن اتنا ہم ضرور جانتے ہیں کہ جو تجویز آگے بیان کی جائے گی وہ بوکو بطور نے ہی پیش کی تھی۔
قازقوں کی یہ سدا کی عادت ہے کہ کھانے سے پہلے سنجیدہ معاملات پر گفتگو نہیں کرتے۔ اس لیے جب بوکو بطور نے یہ کہا مجھے سنجیدگی سے گفتگو کرنی ہے تو اس کے بعد معمولی واقعات پر بات چیت ہونے لگی۔ اور عثمانیہ محسوس کر کے کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی، چپکے سے اٹھا اور پھر دروازے کے قریب مقام خاکسارانہ پر جا بیٹھا۔ وہاں وہ بیٹھا توجہ سے سنتا رہا اور اس کے بزرگوں نے اسے یکسر فراموش کر کے کچھ اور ہی باتیں شروع کر دیں۔ اپنے گلوں کی، شکار کی، آنے والی فصل کی، اپنے قبیلے والوں کے معاملات کی، ناسازگار بیرونی دنیا کی جو انہیں گھیرے لے رہی تھی۔ یہ آخری موضوع ان کی گفتگو کو چینیوں کی طرف لے آیا۔
اسلام باعی نے اپنے مہمان سے نظریں چرا کر پوچھا۔ "کیا یہ سچ ہے کہ خطائیوں نے بوکو بطور کے سر کی قیمت لگا رکھی ہے؟"

بوکو بطور نے بے پروائی سے جواب دیا۔ "مجھ سے یہی کہا گیا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو اچھا ہے۔ جو خطرے میں ہوتے ہیں ہمیشہ لمبی عمر پاتے ہیں۔"
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 62

"کیا قیمت لگائی ہے؟"
" میں نے سنا ہے کہ دس ہزار تائل۔"
1911 ء کے بھاؤ سے یہ رقم ڈھائی ہزار پونڈ کے قریب بنتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مشرقی ترکستان میں تس تائل میں گھوڑا خریدا جا سکتا تھا۔
" یہ تو بڑی رقم ہے۔ کیا اسے اس کا خوف نہیں ہے کہ کوئی اتنی بڑی رقم کے لالچ میں اسے دغا دے جائے گا؟"
بوکو بطور ہنسا۔
"میرے اپنے آدمی تو ایسا نہیں کریں گے وہ جانتے ہیں کہ خطائی اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے یہ رقم تو ادا کر دیں گے، مگر انعام پانے والے دروازے تک نہیں پہنچیں گے کہ گلے میں رسی کا پھندا پڑ جائے گا۔ خون کی اس رقم کو کوئی اور مرد یا عورت حاصل کرنے کا موقع ہی نہیں پا سکے گی۔ یا اگر کسی نے یہ روپیہ لے بھی لیا تو اس میں اسے خرچ کرنے کی ہمت کہاں سے آئے گی؟"
"کتنے آدمیوں کو معلوم ہے کہ آج کی رات وہ کہاں بسر کر رہا ہے؟"
بوکو بطور نے جواب دینے سے پہلے احتیاط سے چاروں طرف دیکھا پھر بہت نیچی آواز میں بولا۔ "صرف وہ جانتے ہیں جنھوں نے اسے اپنے خون شریک بھائی کے خیمے میں داخل ہوتے دیکھا۔"

اسلام باعی نے چوک کر اب چاروں طرف دیکھا اور بولا۔ "خاموش! اگر کسی کن سنیاں لینے والے نے ہمارے اس عہد کا ذکر سن لیا جو راز ہے ہم دونوں کے درمیان، یا جسے صرف وہ ملّا جانتا ہے جس نے ہمارے باہمی عہد کا حلف اٹھاتے وقت ہم دونوں کے خون کو ایک پیالے میں ملایا
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 63

تھا تو سمجھ لو کہ ہمارے لیے روزِ بد آ پہنچا۔"
"ایک شخص ایسا ہے جسے میں چاہتا ہوں کہ اس کا علم ہو جائے۔ میری یہ خواہش کیوں ہے اس کی وضاحت میں بعد میں کروں گا۔"
" وہ کون ہے؟"
" وہ لڑکا جو سامنے خیمے کے دروازے کے قریب بیٹھا اپنے دونوں کان ہماری باتوں پر لگائے ہے۔ لیکن اب کھانے کے بعد کے لیے اس موضوع کو اٹھا رکھو۔ جب پیٹ بھرا ہوتا ہے تو دل ہرا ہوتا ہے۔ دوست سے دل کی بات کہنے کا وقت یہی ہوتا ہے۔ لفظ زیادہ بڑے اور شیخی بھرے ہوتے ہیں، جب پیٹ کی ہوا سے پھولنے کے لیے ان کے لیے ضرورت سے زیادہ جگہ موجود ہوتی ہے۔"
ہماری کہانی کے اب پھر کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہیں لیکن یہ بات بھی کچھ انہونی سی ہے کہ جب دو شخص نہایت مقدس قربت میں منسلک ہو جائیں تو اس کے لیے کوئی دستاویز بھی تیار کی جائے۔ اگر یہ صورت ہوا کرتی تو اس تعلق خاص کی افادیت ہی ختم ہو جاتی۔ بوکو بطور اور اسلام باعی تو ایسے آدمی تھے کہ ان کے بارے میں یہ سوچا ہی نہ جا سکتا تھا کہ ان کے خون شریک بھائی نہیں ہوں گے۔ اور یہ بھی قطعی نا ممکن تھا کہ بوکو بطور کا اگر اسلام باعی سے خون بندھن نہ ہوتا تو عثمان کے ساتھ بوکو بطور کا اس نوع کا رویہ ہوتا۔

قازق معاہدوں میں خون کا بھائی چارہ دو آدمیوں میں سب سے پکا بندھن سمجھا جاتا ہے، ایک ماں کے پیٹ کی اولاد سے بھی زیادہ، زن و شوہر کے تعلقات سے بھی قوی تر، کیونکہ اسلامی قانون کے مطابق ان میں تین دفعہ
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 64

طلاق دینے پر علیحدگی ہو جاتی ہے۔ دراسل یہ ایک ایسا بندھن ہے جو جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی۔ زندگی بھر ایک دوسرے کی مادی خدمات تو لازم و ملزوم ہوتی ہی ہیں، مرنے کے بعد بھی ان دونوں کی روحیں جنت میں یکجا ہو جائیں گی۔ کیونکہ بہ اعتبار مسلمان ہونے کے قازق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب جسم مر جاتے ہیں تو روحیں اپنی اصل کی طرف رجوع کرتی ہیں اور مدغم ہو کر ایک ہو جاتی ہیں۔

اچھا تو اب ہمیں یہ تصور کرنا چاہیے کہ ادھر عورتیں کھانا پکانے میں لگی ہوئی تھیں اور ادھر یہ دونوں خون شریک بھائی خاموش ہو کر ماضی کا وہ خواب دیکھ رہے ہیں جب ان کی جوانی میں ملا ایک پیالہ لایا تھا، پھر اس نے ان دونوں کی کلائیوں میں شگاف دیے تھے اور اپنے ساتھ ساتھ ان دونوں سے عہد کے الفاظ کہلوائے تھے۔ مرغ کا ایک پٹھا پاس ہی حلقوم کی کھال سے بندھا ہوا ایک ساں شور ممچائے جا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ خون شریک کرنے کی کارروائی بھی ہو رہی تھی اور خیمے کے باہر مرغ کی اس چیخ پکار کی طرف کسی کا دھیان بھی نہیں جاتا تھا۔ کیونکہ مرغ کے پٹھوں کی تو یہ عادت ہی ہوتی ہے کہ شور مچاتے رہیں۔ آخر میں دونوں خون شریک بھائیوں نے پیالے میں اپنے اپنے انگوٹھے ڈبوئے اور آپس میں گلے ملے، ان میں سے ایک نے مرغ کے پٹھے کو آزاد کر دیا اور خیمے کا پردہ اٹھتے ہی وہ پھڑ پھڑا کر بھاگ گیا۔ یہ دونوں آدمی اپنے اپنے کام پر اس طرح چلے گئے گویا کوئی غیر معمولی بات ہوئی ہی نہیں، لیکن اس عہد کے بعد ان دونوں میں سے ہر ایک کو حق حاصل ہو گیا تھا کہ اگر کبھی دشمنوں کے نرغے میں پھنس جائے تو اپنے خون شریک بھائی سے ایک رات کے لیے سر چھپانے کی جگہ طلب کرے اور اگلے دن صبح کو ایک
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 65

صبا رفتار گھوڑا اسے تیار مل جائےاس کے علاوہ خطرات اور میدان جنگ میں ایک دوسرے کی مدد کرنا بھی جانبین پر فرض ہو جاتا تھا۔ پھر ان دونوں خون شریک بھائیوں میں کوئی راز نہیں رہتا تھا ایک کے دریافت کرنے پر دوسرے کو سب کچھ بے دریغ کہہ دینا پڑتا تھا۔ بشرطیکہ وہاں کوئی تیسرا موجود نہ ہو۔

شاید یہ دونوں ایسے ہی خواب دیکھ رہے ہوں گے کہ عورتیں گرما گرم شوربے کے بھرے ہوئے پیالے اور بّرے کے پارچے لے کر آ گئیں اور پہلے بوکو بطور کو، پھر اسلام باعی کع یہ چیزیں پیش کرنے لگیں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے خیمے کے دروازے پر گرم پانی سے ان کے ہاتھ دھلوائے گئے، پھر اپنی اپنی جگہ واپس آ کر انہوں نے برکت کے لیے کوئی دعا پڑھی۔ سپاٹ روٹی کے بڑے بڑے ٹکڑے پیش کیے گئے۔ جس کے بعد بڑی سی گہری رکابی میں اپنے سیدھے ہاتھ ڈبو ڈبو کر انہوں نے گوشت کے پارچے نکالنے اور کھانے شروع کیے۔ گوشت چباتے جاتے اور شوربے کے پیالے منہ سے لگا کر شڑپے لگاتے جاتے تاکہ گوشت حلق سے نیچے آسانی سے اتر جائے۔ یہ بالکل وہی طریقہ تھا جو آتے ہی بوکو بطور نے چائے اور نان خوری میں اختیار کیا تھا۔ جب خو3ب پیٹ بھر کر کھایا جا چکا تو ملازم نے گرم پانی سے پھر ان کے ہاتھ دھلائے اور کھانے والوں کے زانوؤں پر جو لمبا سا تولیہ پڑا ہوا تھا، اس سے دونوں نے ہاتھ پونچھے۔ ملازمین نے باقی ماندہ کھانا اتھا کر جگہ صاف کر دی، اتنے میں عورتیں تازہ چائے کے پیالے لے آئیں، ان میں سے دار چینی کی خوشبو اڑ رہی تھی۔ ذائقہ کے لیے اس چائے میں شکر بھی ڈالی گئی تھی اور نمک بھی گرم چائے کو وہ
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 66

زور زور سے شڑکتے رہے اور درمیانی وقفوں میں غیر مسلسل گلوئی صدائیں خارج کرتے رہے، جن کا مطلب قازقوں کے آدام اکل و شرب میں یہ لیا جاتا ہے کہ کھانا بہت تھا اور مزے دار بھی۔
جب دونوں بزرت اپنی اپنی گدیوں پر سستانے کے لیے بیٹھ گئے تو اسلام باعی نے چیخ کر کہا۔ "ارے کاہل لڑکے ایندھن لا۔ جب ہوتا ہے جب مجھے تجھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آگ جوڑ اور دھونکنی سے شعلے اٹھا۔ جانور تک جان گئے ہوں گے کہ رات ہو گئی اور چاروں طرف اندھیرا پھیل گیا ہے۔ "
عثمان نے چپکے سے اپنے بھائیوں سے کہا اور وہ خیمے کے باہر جو لکڑیوں کا ڈھیر لگا تھا اس میں سے کولیاں بھر بھر کر لکڑیاں لانے لگے۔ جن اپلوں کے انگاروں پر ابھی بّرے کا گوشت چکا تھا ان پر ایک نے احتیاط سے لکڑیاں چنیں اور دوسرے نے دھونکنی سے ہوا دینی شروع کی۔ یہاں تک کہ خیمے میں شعلوں کی زبانیں لہرانے لگیں اور ان کے عجیب و غریب سائے خیمے میں اس طرح ناچنے لگے جیسے آسمان پر بجلی کے کالے کوڑے بن رہے ہوں اور یہ سائے خیمے کی نمدے دار دیواروں سے ٹکرا کر خاموشی سے پاش پاش ہونے لگے۔
اسلام باعی نے جب دیکھا کہ شعلے خوب بھڑک اٹھے ہیں، تو اس نے عثمان بطور کو آواز دے کر منع کیا کہ اب اور آگ نہ بھڑکائی جائے۔ اب بوکو بطور نے عثمان کو بلایا۔ عثمان آگے آ کر نہایت ادب سے کھڑا ہو گیا۔

بوکو بطور نے کہا۔ "یہاں بیٹھ جاؤ ، میرے پاس۔"
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 67

چنانچہ عثمان بیٹھ گیا اور منتظر رہا۔ دیر تک خاموشی رہی، کچھ دیر بعد بوکو بطور نے لڑکے کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولا:
"کھانا کھانے سے پہلے ہم گفتگو کر رہے تھے کہ میرے سر کی قیمت لگا دی گئی ہے۔" پھر اسلام باعی کی طرف رخ کر کے کہا "کیوں بھائی، یہی بات ہو رہی تھی۔"
اسلام باعی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا۔ "جی ہاں، یہی بات ہو رہی تھی۔"
"ہو جو خطرے میں پیدا ہوتے ہیں لمبی زندگی پاتے ہیں، یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، کیونکہ خدا کی مرضی یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگ ہوشیار رہیں لیکن جب اللہ کا حکم ہوتا ہے تو موت سبھی کو آتی ہے۔"
اسلام باعی نے کہا "خدا نہ کرے کہ موت ان کو آئے جو اس خیمے میں ہمارے ساتھ ہیں اور خدا کرنے ان میں کوئی عمر دراز پائے بغیر نہ مرے۔"
اور اس کی بیویوں نے کہا۔ "آمین"
بوکو بطور نے کہا۔ "اس کا اختیار اللہ کو ہے لیکن جو دانشمند ہوتے ہیں۔ خصوصاً ایسا شخص جو ہزاروں کی رہنمائی کرتا ہو، مثلاً میں ، ایسا شخص پیش بینی کرتا ہے اور اپنے منصوبے بناتا ہے تاکہ اچانک وہ روز بد نہ آ جائے کہ اس کے پیرو بغیر رہنما کے رہ جائیں۔ کیوں بھائی یہی بات ہے نا؟"
"جی ہاں۔ یہی بات ہے۔"

بوکو بطور نے کہا۔ "رہنمائی خدا کرتا ہے، انسان نہیں کرتا۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ رہنما کا لڑکا بھی باپ کی خوبیوں سے متصف ہو۔ یہ ہو سکتا
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 68

ہے کہ کسی شخص کا لڑکا یا اس کی لڑکی باپ کے دستے یا پورے قبیلے کی رہنمائی امن کے زمانے میں کرے۔ مگر جنگ کے زمانے میں اپنی قسمتیں اسے سونپ دینا، جب تک وہ اس کا اہل نہ ہو، گناہ ہے۔ خدا کا گناہ۔"
اسلام باعی بولا۔ "جیوٹ گھوڑے کو خدا ہی ہدایت کرتا ہے کہ پہاروں میں جب کوئی خطرہ قریب ہو تو اپنی گھوڑیوں اور بچھروں کی حفاظت کے لیے تیار ہو جائے۔ "
بوکو بطور نے کہا۔ "تم نے اچھی مثال دی، اگر مجھے نکال لیا جائے تو میرے پاس اور کوئی گھوڑا نہیں ہے جو میرے گلے کی حفاظت کرے۔ "
یہ کہہ کر اس نے عثمان کا چہرہ اپنی طرف پھیرتے ہوئے پوچھا۔ "یہ لڑکا ہے ایسے دم خم کا گھوڑا؟ کیا خیال ہے تمہارا ابو عثمان؟"
اسلام باعی اچانک اور غیر متوقع طور پر مسکرانے لگا۔ اس کی مسکراہٹ میں کچھ شرارت بھی تھی۔ بولا:
"اتنا تو میں جانتا ہوں کہ یہ آختہ گھوڑا ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ کہنا، میرا یعنی اس کے باپ کا کہنا مناسب نہیں ہے، پھر یہ کہ ابھی اس کی عمر مشکل سے بارہ سال کی ہو گی۔"
بوکو بطور نے کہا۔ "مگر وہ اتنا بڑا ضرور ہے کہ میرے ساتھ چلے، تاکہ میں اس کے متعلق کچھ معلوم کر سکوں۔"
باپ نے بیٹے سے پوچھا۔ "لڑکے تم کیا چاہتے ہو؟"
"اگر میرے باپ کی مرضی ہو اور بوکو بطور کی بھی ، تو میں بہ خوشی جاؤں گا۔"

بوکو بطور نے کہا۔ "مجھے جو کچھ تجھ سے کہنا ہے اسے غور سے سن۔
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 69

کیونکہ ہم جس موضوع پر گفتگو کر رہے تھے، وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، تیرا باپ اچھی طرح جانتا ہے کہ چنگیز خاں کے زمانے سے نہیں بلکہ شروع سے ہی ہم قازق ان پہاڑوں پر گھومتے رہے ہیں، ہم نے کبھی کسی کو خراج نہیں دیا اور نہ کبھی کسی کی اطاعت قبول کی سوائے خدا کے اور اپنے منتخب سرداروں کے۔ پھر صحرائے گوبی کے پیچھے سے غیر ملکی کافر آئے اور ہمیں غلام بنانے کی تدبیریں کرنے لگے۔ تیرا باپ جانتا ہے اور اس سے زیادہ ہمارے دشمن جانتے ہیں کہ میں جہاد کرتا رہا ہوں۔ پچھلے بیس سال سے ان اہل خطا سے مقدس لڑائیاں لڑتا رہا ہوں اور اپنے لوگوں کو ابھارتا رہا ہوں کہ وہ بھی جہاد کریں۔ ایک نہ ایک دن ہم انہیں اسی صحرا میں واپس دھکیل دیں گے جہاں سے وہ آئے تھے اور ہم انہیں بربارد کر دیں گے، چاہے ان کی تعداد تکلا مکان کے ذروں کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔"
بوکو بطور ایک ذرا کی ذرا چپ ہوا اور بولا:

"اے عثمان تیرا باپ امن پسند آدمی ہے اور میں ان میں سے ہوں جو لڑ کر زندہ رہتے ہیں اور جنہیں لڑائی سے محبت ہوتی ہے۔ لیکن ہم دونوں کو اپنی قوم سے محبت ہے، اس کا طور اور ہے اور میرا کچھ اور۔ جتنی محبت اسے امن سے اور مجھے جنگ سے ہے اس سے برھ کر ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اس وقت سے جب ہم تیرے برابر کے لڑکے تھے۔ کل رات کو سوتے میں یہ بات میرے دل میں آئی کہ اس خیمے میں کوئی اور ایسا موجود ہے جو امن کے طریقوں میں اپنے باپ کی سلیقہ مندی رکھتا ہے تا ہم وہ اس لائق ہے کہ میں اسے اپنی جنگ کرنے کی ہنر مندی سکھا دوں۔ پھر جب میں رخصت ہو جاؤں تو ہمارے سدا کے
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 70

دستور کے مطابق جنگ بجائے دو یا دو سےبھی زیادہ دماغوں کے ، صرف ایک دماغ کے تحت آئندہ جاری رہ سکتی ہے۔ اور جب میری آنکھ کھلی تو پو پھٹ رہی تھی اور میرے دل میں آئی کہ میں یہاں آؤں اور بہ چشم خود دیکھوں۔ چنانچہ میں یہاں آیا۔ "
اب پھر ایک ذرا دیر کے لیے خاموشی ہو گئی اور اب اس کے اس سکوت کو عثمان کی ماں نے توڑا۔
"آنے والے زمانے میں لوگ میرے بیٹے کو اس ی طرح بطور کہیں گے جیسے آج کسی اور کو کہتے ہیں، آپ اسے لے جائیے اور سکھائیے اور اگر یہ نا اہل ثابت ہو تو اسے اس کے باپ کے خیمے میں واپس بھیج دیجیے۔"
عثمان بولا۔ " اگر میں نا اہل ثابت ہوا تو میں ہر گز واپس نہیں آؤں گا۔ مر جانا پسند کروں گا۔"
یہ طے ہو گیا کہ بوکو بطور عثمان کو اپنے ساتھ لے جائے گا اور اسے چھاپہ مار سردار کی تربیت دے گا۔ رات گئے تک بزرگ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اس دوران میں عثمان خاساری سے اپنے بھائیوں میں جا بیٹھا۔ اور جب ضرورت ہوتی تو آگ دہکا دیتا، مگر بڑوں کی باتوں میں پھر شریک نہیں ہوا۔ انہیں تمام پہلوؤں پر غور کرنا تھا، خصوصاً اس پر کہ اس شبہ سے اسلام باعی کو کیسے بچایا جائے کہ اس کا بیٹا چینیوں سے لڑ رہا ہے۔ چینیوں کو اس سے کیسے باز رکھا جائے کہ وہ اسلام باعی کو گرفتار کر کے طرح طرح کے عذاب دے کر یہ دریافت نہ کر لیں کہ بوکو بطور کہاں پوشیدہ ہے؟

عثمان بڑے اشتیاق اور خاموشی سے باتیں سن رہا تھا۔ جن میں چینی
-------------------------------------------------------
 

اوشو

لائبریرین
عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 71

افسروں سے نفرت بھری ہوئی تھی۔ ان کے مظالم، قازق وطن کی سرزمین کے نیچے سونے اور دوسری معدنیات کی جو دولت دبی پڑی تھی اس کے لیے چینیوں کی حرص و انا ، چینیوں کے چنگل میں پھنس جانے والوں پر ان کی اذیتیں، اور ذی استطاعت قازقوں کا زر رستگاری ادا کر کے ان کے قبضے سے رہائی حاصل کرنا اور اس کے بعد بوکو بطور نے ان چینی سوداگروں کو برا بھلا کہا جو جابرانہ قیمتیں وصول کرتے، ان چڑھ آنے والے چینیوں کی برائی کی جو الطائی کی زمینوں کو دباتے چلے جا رہےتھے، یہاں تک کہ اس کے حقیقی آتا تنگ حدود میں گھر کر رہ گئے تھے اور اپنے آبا و اجداد کی طرح سب حسب مرضی آزادی سے گھوم پھر بھی نہیں سکتے تھے۔
عثمان ان باتوں کو سنتا رہا اور سینے میں اس کا دل جلتا رہا بوکو بطور کے زیر اثر اسے چینیوں سے نفرت ہو گئی اور یہ نفرت زمانے کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ جب چینی خطرہ 1930 ء کے لگ بھگ وسیع اشتراکیوں کے خلاف قومیت پسند چینیوں کا حلیف بن جائے۔ مگر پھر اس نے سوچا کہ قازق طرز زندگی کے دشمن تو دونوں ہی ہیں اس لیے ان سے بھی میل نہیں ہو سکتا۔

عثمان پر اعتراض کرنا مشکل ہے۔ جو قومیں چینیوں کے ماتحت تھیں اپنا کوئی مستقبل سوائے اس کے نظر نہ آتا تھا کہ چینی بن جائیں۔ چالیس سال بعد جون 1952ء میں چین کے ایک سابق نائب صدر ڈاکٹر چو چیا ہوا اپنی فارموسا کی جلاوطنی سے استنبول میں مہاجر ترکی رہنما محمد امین بغرا
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 72

کو لکھ رہا تھا :
"نہ صرف سنکیانگ (مغربی ریاست) خود چین میں ہے بلکہ بہت سا وہ علاقہ بھی جو اس کے پیچھے ہے کبھی چینی سلطنت میں شامل تھا، یہی وجہ ہے کہ چین کے کل باشندے اسے ایک مقدس ورثہ سمجھتے ہیں۔۔۔۔ چینی خون کئی قوموں کے خون کا آمیزہ ہے۔۔۔۔۔ آسمان تلے صرف ایک خاندان کا نظریہ محض ایک شاعرانہ نمود نہیں ہے۔۔۔۔۔ بلکہ ہمارے روز مرہ کے طرز عمل کے لیے ایک معیار بھی ہے۔"
" عظیم راہبوں کے سوانح میں ایک دلچسپ قصہ سنگیانگ کے ایک راہب جمولوش کا لکھا ہے کہ بربری حملہ آوروں کے زمانے میں وہ ایک عسیر المدت بادشاہت میں پہنچا، بادشاہ نے اسے دس حسین چینی دوشیزائیں دیں، تاکہ راہب کی اعلیٰ صفات ذہنی اور ہب* اور ان دوشیزاؤں سے جو اولاد پیدا ہو، ان میں منتقل ہو کر دائم و قائم ہو جائیں ۔
۔۔۔۔۔ اگر جمولوش کی کوئی اولاد ان حسین بیویوں سے ہوئی ہو گی تو چینیوں کے معاشرے ہی میں جذب ہو کر چینی باشندوں کا حصہ بن گئی ہو گی۔۔۔۔"

جدید چینی نسل کئی نسلی عناصر سے مرتب ہوئی ہے۔ چینی ثقافت اور چینی عوام کی مسلسل قوت کا سبب یہی ہے۔۔۔۔۔"
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 73

محمد امین بغرا نے جواب میں لکھا کہ "وہ ترکی، منگولی اور تبتی قومیں جو اب چینیوں کے زیر اقتدار رہیں، ان کی زبان، مذہب، رسم الخط اور دوسرے خصائص چینیوں سے کوئی مماثلت نہیں رکھتے۔ترکستان چین کی قدرتی حد کے پیچھے ایک علیحدہ جغرافیائی رقبے میں واقع ہے اور اس کی چھیانوے فی صدی آبادی ترکی ہے، لہذا اسے خود مختار ہونا چاہیے۔۔۔۔ وہاں اسی لاکھ سے زیادہ ترک ہیں جن میں ترکی بھی ہیں اور قازق وغیرہ بھی۔ دنیا میں دس سے زیادہ ایسی آزاد قومیں ہیں جن کے افراد کی تعداد ترکستان سے کم ہے۔"
عثمان کا چینیوں سے نفرت کرنا اور ان سے لڑتے رہنا، مختصراً انہی وجوہ سے تھا۔ اور یہی سبب ہے کہ علی بیگ، حمزہ اور دوسرے قازق بعد میں بھی ان روسی اور چینی اشتراکیوں سے لڑتے رہے جو قازق انفرادیت کو مٹا دینے کے در پے تھے۔
جس رات کو بوکو بطور نے عثمان کو جہاد کرنے میں اپنا جانشین بنانے کی تربیت دینے کی پیش کش کی، اس کے اگلے دن علی الصباح اسلام باعی، اس کے گھر والوں اور مہمان سب نے اٹھ کر نماز فجر ادا کی اور کوئی گھنٹہ بھر بعد عثمان نے اپنا ضروری سامان ایک بغچی میں باندھا اور اپنے نئے نگراں و استاد کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو کر پڑاؤ سے روانہ ہو گیا۔ عا اول سے وہ فارغ التحصیل ہو چکا تھا اوراب سے اسے عملی تجربے کے مکتب میں سبق حاصل کرنا تھا۔

اس کے احساسات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ جب سے وہ بڑوں کی باتیں سننے لگا تھا وہ بوکو بطور کے کارنامے سنتا چلا آ رہا تھا۔
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 74

جب کبھی بھی اسلام باعی کے خیمے میں کوئی مہمان آتا تو ہر پھر کے تذکرہ اس چھاپہ مار سردار کا ہی ہوتا رہتا۔ گھومتے پھرتے بھاٹ اس کی شان میں اپنے لکھے ہوئے گیت گاتے اور طویل رزمیہ نظمیں سناتے اور عثمان کے مکتب کے ملا نے خود عثمان کو شعر لکھنے اور انہیں قدیم دھنوں میں گانے سکھائے تھے جو سب کومحبوب تھیں۔
لہذا عثمان کی آنکھیں بوکو بطور کے سر کے گرد ضرور نور کا ایک دائرہ دیکھ رہی ہوں گی اور جب وہ دونوں ایک ساتھ اوپر الطائی کی وادیوں کی جانب سوار چلے جا رہےہوں گے تو عثمان کی ناک میں جہاد کے مقدس مقصد کی خوشبو آ رہی ہو گی۔ اگرچہ ہمیں یہ ٹھیک نہیں معلوم کہ یہ کب کا واقعہ ہے اور وہ کہاں گئے، تاہم ہمیں اس کا یقین ہے کہ خزاں کا آخر آ پہنچا تھا اور برف کی تہہ اس مقام کی جانب اترتی چلی تھی جہاں اسلام باعی کا پڑاؤ ہوتا تھا۔ بہر حال جب بھی یہ واقعہ ہوا ہو اور جہاں کہیں بھی یہ گئے ہوں، ان کا رخ برف کی تہہ کی طرف تھا۔ کیوں کہ بوکو بطور پہاڑوں کے اندر چھپنے کے ایسے مقام تلاش کرتا تھا جنہیں ڈھونڈھ نکالنا دشمن کے لیے مشکل ہو۔

لہذا کچھ ہی عرصے بعد وہ برف کی تہہ کی جانب چلے جا رہے تھے۔ بوکو بطور آگے تھے۔ گھوڑوں کا رخ وہ ران کے دباؤ کے اشاروں سے ہی بدل لیتے۔ پتلی پتلی لگاموں کے کھنچاؤ سے گھوڑے کے سر اونچے ہو جاتے۔ ان ہی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قازق اپنے گھوڑوں کو کس قدر عزیز رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں ایک کہاوت ہے کہ "بھلے گھوڑے کو چابک کی ضرورت نہیں ہوتی۔"
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 75

ان کا راستہ بھوری خشک چراگاہوں اور ایسے گنجان درختوں سے ہو کر جا رہا تھا کہ کسی کو سان گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ ان میں سے کسی کا گزر ہو سکتا ہے۔ بوکو بطور نے پلٹ کر دیکھا کہ عثمان پر کیا گزر رہی ہے ۔ اور مسکرا کر کہا:
"کیا یہاں سے اپنے گھر واپس پہنچ سکتے ہو؟"
"نہیں صاحب۔ مگر میرا گھوڑا مجھے لے جا سکتا ہے۔"
بوکو بطور نے کہا "ٹھیک" تھوڑی دیر بعد اس نے پھر پلٹ کر کہا:
"گھوڑے پر اعتماد اسی وقت کرنا چاہیے جب وہ راستے سے واقف ہو۔ مگر ایک وقت ایسا آتا ہےجب کوئی نیا راستہ تلاش کرنا پڑتا ہے یا کوئی پرانا راستہ نئے گھوڑے کو دکھانا پڑتا ہے، جو شخص میرے نقش قدم پر چلے اسے یہ سیکھنا چاہیے کہ نئی راہ کیسے تلاش کی جاتی ہے۔ یہ بات اسے دوسروں کو بھی بتانی چاہیے اور اپنے گھوڑے کو بھی۔"

عثمان نے یہ ڈھنگ بھی سیکھ لیا۔ جب وہ جوان ہو گیا اور بوکو بطور کا چغہ اسے مل گیا تو وہ فخریہ کہا کرتا کہ لڑائی کے بعد میں اپنی پوشیدہ کمیں گاہوں میں اس طرح چپکے سے پوشیدہ ہو سکتا ہوں کہ سنکیانگ، شنگھائی اور کن سو تینوں صوبوں کی چینی فوجیں میری ہوا بھی نہ پائیں۔ حالانکہ وہ اتنے قریب پہنچ جاتی ہیں کہ میرے کانوں میں ان کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ اور میں ان کی گولیوں کی زد میں ہوتا ہوں۔ لیکن رفتہ رفتہ زمانہ بدل گیا، اور اس کی زندگی کے اختتام سے پہلے اس کے دشمنوں نے
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 76

ہوائی جہازوں سے اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا اور ان سے بچنا خاصا دشوار ثابت ہونے لگا تھا۔ مگر اکثر ایسا ہوتا کہ ہوائی جہاز بھی اس کا پتا چلانے میں ناکام رہتے۔ یوں بھی دوسری عالمی جنگ تک ہوائی جہازوں کی بہت کمی تھی۔
عثمان اپنے گھوڑے پر سوار بوکو بطور کے پیچھے پیچھے چلا جا رہا تھا۔ کبھی کبھی اس کے پہلو بہ پہلو بھی ہو جاتا۔ عثمان کی تیز نگاہوں نے ان نظر نہ آنے والی علامتوں کو بھی دیکھ لیا جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ پڑاؤ قریب آ رہا ہے۔ چٹانوں کے بعض حصے بہت سے جانوروں کے گزرنے کی وجہ سے گس کر چکنے ہو گئے تھے، کسی کسی خار دار جھاری میں بھیڑوں کے اون کے ریشے اٹکے رہ گئے تھے اور کہیں کہیں بھیڑوں کی مینگنیاں پڑی دکھائی دے رہی تھیں۔
بوکو بطور نے پوچھا "تم پہلے کبھی یہاں آئے ہو؟"
"کبھی نہیں"
"تمہارا باپ آای ہے۔"

اور عثمان کی سمجھ میں پہلی دفعہ یہ بات آئی کہ کبھی کبھی اس کا باپ صبح سویرے ہی اٹھ کر پڑاؤ سے کیوں چلا جاتا تھا اور اگلے دن یا اس سے بھی اگلے دن تک واپس کیوں نہ آتا تھا۔ اس انکشاف سے بھی اسے ایک سبق حاصل ہوا ۔ وہ یہ کہ اپنا راز اپنے تک رکھنا چاہیے، ورنہ دوست یا عزیز ذرا سی بے احتیاطی سے بھانڈا پھوڑ دیتا ہے۔ راز داری قازقوں کی ایک مخصوص صفت ہے، جو ان کے حالاتِ زندگی کی وجہ سے ناگزیر ہو گئی ہے۔ مگر اس کی وجہ سے دوسروں کے لیے دشوار ہوتا جاتا
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 77

کہ ان کی رضا جوئی کریں، یا خود آپس ہی میں انہیں سلوک رکھنا مشکل ہو جا تا ہے۔ عثمان کے لیے یہ مشکل اور بھی سخت ہو گئی تھی۔ کیونکہ جھوٹ بولنے پر وہ خاموش رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔ حالانکہ اسی کے ساتھ کے دوسرے جی دار قازق اس اصول پر کاربند نہیں تھے۔
اس کے بعد جو اٹھارہ مہینے گزرے ان میں بوکو بطور بہت سے حملوں میں عثمان کو اپنے ساتھ لے گیا اور اسے بہت سی وہ باتیں سکھائیں جو کسی چھاپہ مار سردار کو معلوم ہونی چاہییں۔ گولی کا نشانہ کیسے بنایا جائے۔ پہلے جنگلی خرگوشوں اور پھر انسانوں کو اور اس وقت جب گھوڑا پوری رفتار سے دوڑ رہا ہو بندوق کو کمر تک اٹھا کر ہی گولی چلا دی جائے۔ مسلسل بیس گھنٹے تک گھوڑے پر ٹانگیں ڈھیلی چھوڑ کر آرام سے کیسے سوار رہا جائے، اور چار گھنٹے دم لینے کے بعد اسی گھوڑے پر پھر بیس گھنٹے کے لیے روانہ ہوا جائے۔ بعد کے حصہ عمر میں اپنے محافظوں کے ساتھ ایک ہفتہ میں تین سو میل گھوڑے پر طے کرنا عثمان کے لیے معمولی بات تھی۔

عثمان میں ہمت و وقتِ برداشت بڑھاتے رہنے کے علاوہ بوکو بطور نے اسے یہ بھی بتایا کہ کامیاب حملوں کی رہنمائی کیسے کی جاتی ہے، کہ اپنے دستے کے افراد کے جوش و خروش کو شروع میں ٹھنڈا کیا جائے اور جببے فکر ہو کر دشمن کی زیادہ تعداد آگے نکل جائے تب ایک دم سے حملہ کر کے باقی ماندہ فوج کو کاٹ ڈالا جائے اور اس سے پہلے کہ اگلی فوج لوٹ کر آئے الطائی کی جانی پہچانی کمیں گاہوں میں بعجلت تمام روپوش ہو جانا چاہیے۔ پہاڑوں میں جب درے برف سے تنگ ہو جاتے تو بوکو بطور دشمن کے دستے یا کارواں کی راہ بند کر دیا کرتا اور
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 78

اوپر سےبڑے بڑے پتھر لڑھکانا شروع کر دیتا۔ دشمن پلٹ کر بھاگتا، مگر آگے چل کر اسے معلوم ہوتا کہ ابھی جہاں سے وہ گزر کر آیا ہے وہ راہ بھی مسدود ہو چکی ہے۔
بوکو بطور عثمان سے اکثر کہا کرتا، "یہ ایک اچھی زندگی ہے بیٹا عثمان۔" پھر اس زور سے قہقہ لگاتا کہ زین پر سے پھسلتا پھسلتا بچتا۔ "چپکے سے دشمن کے عقب میں پہنچ گئے اور اس سے وہ سامان جنگ چھین لیا جسے وہ تمہارے جسم میں داخل کرنا چاہتا تھا اتنے میں کہ وہ اپنی رائفل بھرے اور گلی چلائے تم اپنے گھوڑے اڑا کر اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ تمہیں اس میں بڑا لطف آئے گا عثمان۔"

چھاپہ اور شب خون مارنے کا بوکو بطور کو اس قدر شوق تھا اور اس کے حملے سے ایسی سنسنی پھیلتی تھی کہ اس کے متعلق سینکڑوں قصے اور داستانیں مشہور ہو گئی ہیں۔ جب اس نے عثمان کو اپنی شاگردی میں لیا تو وہ دور دور چینی ترکستان اور اس کے پیچھے تک تاخت کر رہا تھا۔ سالہا سال تک وہ مینچو حکومت والوں کی چوٹیاں مروڑنے اور ٹانگیں کھینچنے میں لگا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بے حد قوی تھا اور اسے چینیوں نے اگرچہ کئی بار گرفتار کیا لیکن زیادہ عرصہ تک اسے اپنی قید و بند میں نہ رکھ سکے۔ بعض دفعہ وہ اس کے بیڑیاں ڈال دیتے اور ہتھکڑیاں لگا دیتے، لیکن وہ انہیں توڑ لیتا اور اس کے گرفتار کرنے والے یا قید خانے کے محافظ رائفلیں ہی اٹھاتے رہ جاتے اور بوکو بطور فرار ہو جاتا۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حسب دستور اسے بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر تازہ اتری ہوئی کھال میں سی دیا۔ اتنی بڑی کھال کا جانور ہی تلاش کرنے میں خاصی دیر ہو گئی۔ بوکو بطور اس
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 79

نفرت انگیز ماحول میں دنوں قید رہا۔ بعض کا بیان ہے کہ مہینوں سلا پڑا رہا۔ لیکن ایک دن صبح جب قید خانے کے محافظ اسے کھانا دینے گئے تو دیکھا کہ کھال خالی پڑی ہے۔
ہم تصور میں دیکھ سکتے ہیں کہ عا اول میں آگے کے سامنے دونوں بیٹھے ہوئے ہیں اور سو رہنے سے پہلے بوکو بطور عثمان کو اپنے بچ نکلنے کے قصے سنا رہا ہے۔ عثمان دم بخود سن رہا ہے اور اس کے دل میں امنگیں اٹھ رہی ہیں۔ عثمان بھی اس کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے لیکن وہ اس بات کو بھی سمجھ رہا ہے کہ بوکو بطور کی جرات مندی میں مآل اندیشی کی کمی ہے۔ آزادی کے لیے کشمکش کرنے میں حوصلے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ہوشیاری کی بھی۔ عثمان نے اس اہم اصول کو گرہ میں باندھ لیا تھا کہ اپنا راز کسی سے کہہ کر غیر ضروری خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔ اور اس افسوسناک حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ یہ واقعہ کہ بوکو بطور بیل کی کھال میں اسماعیل نامی ایک ترکی بدکردار کی دغا بازی کے باعث سیا گیا تھا۔ عثمان کی نظر میں زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ بہ نسبت اس واقعے کے کہ بوکو بطو رنے اپنی قوت کی وجہ سے دوبارہ آزادی حاصل کی۔ عثمان کے نزدیک قوت ایک عطیہ خدا وندی ہے، اسی طرح دانشمندی بھی، اور جس کے پاس یہ دونوں ہوں اسے اپنا اطمینان کر لینا چاہیے کہ وہ دونوں کو اچھی طرح استعمال کر رہا ہے یا نہیں اور جو ان کا صحیح استعمال کرتا ہے اس کی حفاظت اللہ کرتا ہے۔

بوکو بطور کے جنگ کرنے کے طریقے سیکھنے کے علاوہ عثمان نے یہ بھی
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 80

سیکھ لیا کہ چینی سرحد کے محافظوں کے بغیر روکے ٹوکے چینی سرحد کو کس طرح پار کیا جائے۔ ان دنوں سرحد پار کا علاقہ زاری روس کہلاتا تھا اور بوکو بطور اسے "رشّی" کہا کرتا تھا۔ اسے پار کر لینے کے بعد وہ بے خوب و خطر آگے سفر کر سکتے تھے۔ کیونکہ روسی افسروں میں بہت سے دوست تھے۔ بعض اوقات وہ شمال کی جانب بارہ سنگھے کے علاقے میں پہنچ جاتے جو جنوبی سائبیریا میں تھا، کم از کم ایک بار وہ آلما آتا تک بھی جا پہنچے جو آج کل کے سویت جمہوریہ قازقستان کا صدر مقام ہے،ک اور جہاں کے ثمرستان اور عمدہ موسم سارے ایشیا میں مشہور ہیں۔

جب وہ الطائی واپس آئے تو اپنے ساتھ نئے حاسل کئے ہوئے اونٹوں کی ایک لمبی قطار بھی لائے۔ ان اونٹوں پر وہ ہتھیار اور گولہ بارود لدا ہوا تھا جو روسیوں نے انہیں دیا تھا۔ اس وقت اور بعد میں جب سرخوں نے سفیدوں سے اقتدار لے لیا، روسیوں کی حکمت عملی یہ تھی کہ سنکیانگ میں چینیوں کے لیے جتنی خرابیاں پیدا کی جا سکیں کی جائیں۔ کیونکہ اس صوبے پر روسیوں کی نظر تھی اور اب بھی ہے۔ اس سرحد کے ساتھ ساستھ دو سو میل چوڑی پٹی ہے جس کے مطالبے سے زاروں کے زمانے سے اب تک ماسکو نے دست برداری نہیں کی ہے۔ سوویت حکومت نے 1946-47ء میں اس پ ٹی کا ایک حصہ دبا لیا تھا اور ا ب تک اس پر انہی کا قبضہ ہے۔ سویت روس کا مطالبہ دوسرے حصوں کے لیے اب تک سرکاری طور پر واپس نہیں لیا گیا ہے۔ بلکہ اسے اب بھی التواء میں ڈال رکھا ہے۔ اس علاقے میں سونا ہے اور قیمتی خام دھاتیں ہیں، اور اگر ترکی کے قازق مہاجروں کا کہنا صحیح سمجھا جائے تو وہاں یورینیم
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 81

بھی ہے، ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ روسی وہاں ایٹمی کارخانہ بنانا چاہتے ہیں اور بعض کا بیان ہے کہ روسیوں نے کارخانہ کھول بھی لیا ہے۔
روسیوں نے جو ہتھیار بوکو بطور کو دیے تھے، ان سے بوکو بطور نے بڑے پیمانے پر چینیوں پر حملہ کر دیا۔ اس نے سب سے پہلے "حرا لطائی" طلب کی۔ جنگی مشورتی مجلس کا یہ قازقی نام چنگیز خاں کے زمانے سے چلا آتا ہے۔ الطائی تئین شن، اور بارکل کیئری قازقوں کے جتنے ہزاری اور دہ ہزار سردار تھے ان سب کو اس نے بلا بھیجا۔ ان بلائے جانے والوں میں سے بہت سے رقابت یا بے تعلقی کی وجہ سے نہیں آئے، یہ لوگ وہ تھے جو خراج لینے والے چینیوں میں اب تک نہیں پھنسے تھے۔ اور انہیں ابھی اس کا خوف محسوس نہیں ہوا تھا کہ "آسمان کے نیچے ایک خاندان" میں وہ جذب ہو جائیں گے۔ تاہم دس ہزار کی جمعیت تیار کرنے میں بوکو بطور کامیاب ہو گیا۔
اس جنگ میں اسے شکست اٹھانی پڑی اور سخت نقصان ہوا۔ تئین شان پہاڑوں کے جنوبی ڈھلانوں پر کیو کلوک کے قریب ایک لڑائی ہوئی جو پیش خیمہ تھی ایک اور ایسی ہی لڑائی کا۔ اس کا حال مناسب مقام پر بیان ہو گا۔ پھر کارا شہر میں تشنہ پہاڑوں کو عبور کرنے کا خطرہ مول لینے سے پہلے بوکو بطور نے اپنے چہار دہ سالہ شاگرد کو اپنے پاس بلا کر کہا:
"میں تم سے استدعا کر تا ہوں کہ تم اب واپس چلے جاؤ۔ کیونکہ تمہارے قبیلے والوں کو اب تمہاری ضرورت ہے۔"

اور عثمان نے ایک قدیم پیغمبر کی طرح کہا:
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 82

میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ جب تک اس دنیا میں میری روح میرے جسم میں رہے گی میں آپ کو ہر گز نہیں چھوڑوں گا۔"
اور بوکو بطور نے محبت سے جواب دیا۔:
"نہیں تمہارے قبیلے والوں کو تمہاری ضرورت ہے۔ اور جیسا کہ میں پیشین گوئی کر چکا ہوں: تمہارے بعد تم جیسا کوئی اور پیدا نہیں ہو گا۔ اگر تم مر گئے تو تمہارے قبیلے والے ان بھیڑوں کے گلے کی طرح رہ جائیں گے جن کا کوئی گلہ بان نہ ہو۔"
عثمان نے التجا کرتے ہوئے کہا کہ "میرے ساتھ آپ بھی چلیے میرے باپ، کیونکہ میں آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔"
"نہیں میرے بیٹے۔ میرا کام ختم ہو گیا۔ اب میں اس سرزمین کا پتہ چلانے جاتا ہوں جہاں وقت پڑنے پر، جب تمہاری زمین تم پر تنگ ہونے لگے ، تم پناہ لے سکو۔ میں تمہیں اتنی دور اس لیے لایا تھا کہ تمہیں راستہ دکھا دوں۔"

استاد اور شاگرد کے جدا ہو جانے کے بعد بوکو بطور خطرناک تشنہ پہاڑوں کو عبور کر کے غزکل کی جھیل پر پہنچا جو رول کی طرح سیدھی اور سکڑی ہے۔ اس کی آخری لڑائی ایک اور قریب کی جھیل کے کنارے ہوئی جس کا نام اجیک کل ہے۔ جب گھمسان کا رن پڑا تو اس کی بے قاعدہ فوج چینیوں کی باقاعدہ فوج کے آگے نہ ٹھہر سکی اور انجام کار وہ اس بری طرح منتشر ہوئے کہ پھر نہ سنبھل سکے۔ مارے جانے والوں میں بوکو بطور کی پہلی بیوی تھی اور بوکو بطور کا سب سے چھوٹا بھائی شوکو بطور۔ یہ دونوں میدانِ جنگ کے قریب ہی دفن کیے گئے۔ بوکو بطور اور
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 83

ان کے دوستوں نے ان قبروں پر لوحیں نصب کیں جو 1950ء تک قائم تھیں۔ اگر اس کے بعد انہیں ہٹا نہ دیا گیا ہو تو خانہ بدوش قازقوں میں سے جو اب بھی وہیں قرب و جوار میں رہتے ہیں، ادھر جانے والوں کو یہ یادگاریں دکھا سکیں گے، کیوں کہ بوکو بطور اور اس کے خاندان والوں کی عزت و تکریم اب بھی ان کے دلوں میں جوں کی توں قائم ہے۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ اشتراکیوں نے ان قبروں کو ضرور مٹا دیا ہو گا تاکہ ان کی یاد مٹ جائے جو ان میں آسودہ تھے۔
جنگ کے بعد بوکو بطور نے اپنی قوم کے پانچ ہزار افراد، ان کے گلے اور ریوڑ اور خاندانوں کو جمع کیا اور انہیں غیر آباد علاقوں میں لے گیا، تاکہ ایسے نئے مسکن تلاش کریں جن تک چینی مرکزی حکومت کی رسائی نہ ہو سکے۔ بنی اسرائیل کی طرح یہ سب کے سب اکٹھے روانہ نہیں ہوئے بلکہ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں ، لیکن ان میں وہی تنظیم کار فرما تھی جو حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو منظم کرنے میں اختیار کی تھی، یعنی گروہ بندی کر دی تھی۔ ہزار ہزار، سو سو، پچاس پچاس اور دس دس افراد کی۔

استاد کے حکم کے مطابق عثمان نودنتی کنگھی کی وادی میں اپنے باپ کے خیمے میں پہنچ گیا۔ اور بوکو بطور اپنے ساتھیوں سمیت جنوب کی طرف چلتا رہا اور تکلا مکان صحرا اور پر خطر تشنہ پہاڑوں کو عبور کرتا رہا۔ اس سفر میں کتنے ہی مر گئے، لیکن بوکو بطور اور اس کے ساتھیوں کی ایک خاصی بڑی تعداد صحرا کی صعوبتیں جھیلتی، پہلے اچیک کل پہنچی اور پھر لڑائی کے بعد کنلون کے زبردست پہاڑوں کو پار کر کے تبت جا پہنچی۔ انہوں نے سب سے پہلے وہ طویل سفر طے کیا جس کے بعد کم سے کم تین مرتبہ قازقوں
-------------------------------------------------------

عثمان بطور ر۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 84

کو ہر بار اتنی ہی مصیبتیں جھیل کر طے کرنا پڑا۔
بوکو بطور کا ارادہ ترکی جانے کا تھا لیکن جب وہ لاسا پہنچا تو چینی اژدہے نے اپنے پنجے بڑھا کر اسے دبوچ لیا۔ اس کا سر تن سے جدا کر کے کئی دن بعد سنکیانگ کے صدر مقام ارمچی کے دروازوں میں سے ایک پر لمبے سے بانس پر چڑھا کر لٹکا دیا گیا۔ جہاں سر کاٹا گیا تھا اس سے یہ مقام ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہے۔ بوکو بطور کا سر وہاں لگا رہا۔ اور چیلیں جھپٹ جھپٹ کر اس کے گوشت کے آخری ریشے تک نوچتی رہیں اور دھوپ اور ہوا نے اسے خشک کر کے سکیڑ دیا۔ یہاں تک کہ صرف کھوپڑی ہی کھوپڑی رہ گئی۔ پھر ایک وقت آیا کہ اہل اختیار نے اسے بھی اتار کر پھینک دیا اور اس کے بدلے کسی اور کا سر اس بانس پر چڑھا دیا۔

اور ان لوگوں میں سے جو بوکو بطور کے ساتھ تھے، کچھ تبت ہی میں رہ پڑے اور وہیں کے لوگوں میں انہوں نے شادیاں کر لیں اور ان کے خاندان بڑھ گئے اور اب بھی وہیں رہتے ہیں۔ کچھ نہ ہمالیہ عبور کیا اور ہندوستان میں پہنچ گئے۔ لیکن ان میں سے بیشتر تھوڑے تھورے کر کے اپنے وطن کو لوٹ گئے۔
------------------------------
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 10

پیش لفظ
افراد قصّہ

بحرقطب شمالی اور بحرہند، بحرِمتوسط اور بحر جاپان کے درمیان پہاڑوں کا ایک سلسلہ چلا گیا ہے جو الطائی کہلاتا ہے ۔ اس کی ہری بھری وادیوں اور سرسبز بلندیوں سے وہ قومیں اور وہ راه نما اُبھرے جو ایشیا میں دور دور تک پھیل گئے۔ پیکنگ، دہلی ،سمرقند تک اور یورپ کے قلب تک بھی۔ ان میں بہت سے ایسے نام شامل ہیں جو نقطہ نظر کے اختلاف کے ساتھ دلوں میں خوف اور نفرت۔ تعظیم اور فخرکے جذبات پیدا کرتے ہیں، چنگیزخان، تیمورلنگ ، مغل شہنشاہ اور ایطلا تک ان میں شریک ہیں جنھیں الطائی کے قازق اورمنگول اپنے پرکھوں میں شمار کرتے ہیں۔
ایسے رہنماوں کے نقش قدم پر جو چلے وہ خود بھی رہنماؤں کی طرح سخت کوش، پر اعتماد ، حوصلہ مند، نڈر اور مہماں نواز لوگ تھے اور آج بھی اُن کی آس اولاد میں یہی خصائص پائے جاتے ہیں. وہ ہروقت کمربستہ


ص11

رہتے ہیں کہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر دنیا کے دوسرے سرے پرپہنچ جائیں ۔ کسی جنگجو سردار کی رہنمائی میں ایسے کارنامے انجام دیں جن سے شہرت حاصل ہو۔ اپنی کلائیوں پرشکرے بٹھائے اپنے محبوب پہاڑوں میں بے دھڑک گھوڑ ے دوڑاتے پھریں۔ ہر بہار اور خزاں کے موسم میں اپنے نمده دار خیموں کوحسب ضرورت وا دیوں میں بلندی یا پستی میں نصب کریں اور بیرونی دنیا سے بےخبر رہ کر اپنے گلّوں کو چراتے رہیں اوریہ بے خبری اس حد تک ہو کہ اس عظیم "راہ ریشمی" کی بھی انہیں پرواہ نہ ہوجو چین اور یورپ کے درمیان پھیلی پڑی ہے اور جس پر سے پانچ سو سال پہلے مارکو پولو اپنے گھوڑے پر سواربالکل ان کے خیموں کے دروازوں کے سامنے سے گزرا تھا۔
لیکن مارکوپولو کے زمانے کو صدیاں بیت گئیں اور جیسے جیسے یہ صدیاں الطائی کے قریب سے گزرتی گئیں دنیا چھوٹی ہوتی چلی گئی اور الطائی کے بسنے والوں کو دنیا کے سمٹنے کی اس وقت تک نہ تو اطلاع ہوئی اور نہ انھیں اس کی کوئی پروا ہوئی جب تک کہ انیسویں صدی کے آخر میں بیرونی دنیا نے رفتہ رفتہ انھیں اپنے گھیرے میں نہ لے لیا۔ اس اثنا میں خود ان کی آبادی بڑھتی چلی گئی اور وہ بجائے سمٹنے کے پھیلنے لگے۔ انہی کی طرح ان کے مویشی، دوکوہان والے اونٹ ،دنبے ، بھیڑ، بکریاں اور پسندیدہ گھوڑے بھی بڑھتے چلے گئے۔ منگول بیشتر مشرق کی طرف پھیلے ۔ قازقوں کی بڑی تعداد مغرب کی طرف چلی اور اس علاقہ میں پھیل گئی جوسویت قازقستان کہلاتا ہے۔ آہنی پردے کی سیدھی جانب یہ علاقہ تقریباً اتنا ہی بڑا ہے جتنا کہ پورا یورپ لیکن ان کی کچھ تعداد مشرق کی طرف زنگاریہ کے علاقہ میں اور ایک بڑے پہاڑی سلسلے میں پھیل گئی جو تئیں شان یا کوہ ملکوتی کہلا تا ہے۔

ص 12



یہ سچی کہانی قازقوں کے ایسے جنوبی گروہ سے متعلق ہے جس کا روایتی مسکن اسی علاقہ میں ہے جس پر روسی اورچینی شہنشاہیت میں صدیوں سے تنازعہ چلا آتا ہے۔ اسی صدی کے شروع میں ان دونوں کے درمیان جو خطِ تقسیم تھا وہ الطائی سلسلہ کوہ کے ساتھ ساتھ اور ملکوتی سلسلہ کوہ کے شمال میں تھا لیکن اس تقسیم پر نہ تو روسی قانع تھے نہ چینی - اس متنازعہ سرحد کے دونوں طرف مٹی میں سونا تھا ، خام دھاتیں تھیں، کوئلہ تانبا وغیرہ تھا اور یورنیم دهات بھی۔ یہ وہی علاقہ تھا جس پرکبھی قازق آزادی کے ساتھ گھومتے پھرتے تھے اور اس کے حقیقی مالک بھی تھے۔ بیش قیمت معدنیات کے علاوہ کوہِ الطائی اور کوہِ ملکوتی اور دوسرے زیریں سلسلہ ہاے کوہ مویشیوں اور بھیڑوں کے لیے عمدہ چراگاہیں بھی اپنےدامن میں رکھتے ہیں ۔
زمانہ ماضی میں قازق یہ کرتے کہ ان دونوں لالچی شہنشاہیت پسندوں کوآپس میں لڑوا دیتے، یہ طریقہ ابتدا میں کامیابی سے چلتا رہا لیکن بالشویک چیرہ دستی نے زار کی بالا دستی کو غصب کر لیا تو یہ چال ناکا م ہوگی، روس میں اشتراکی حکومت کے قائم ہونے کے پندرہ سال کے اندرہی اشتراکیوں نے چین کے صوبہ سنکیانگ پر اقتصادی اور اس کے بعد سیاسی قبضہ کرلیا۔ اسی صوبے میں ہماری کہانی کے آٹھ لاکھ قازق آباد تھے، ایک ذرا سے وقفے کے علا وہ اسی زمانے سے اشتراکیوں کا قبضہ چلا آتا تھا۔
گزشتہ ربع صدی سے الطائی اور کوہ ملکوتی کے قازق بڑی دلیری سے مگر نا کام لڑائی لڑ رہے ہیں۔ جب حملہ آور ان کے وطن میں گھس آئے تو بجائے نگوں ساری سے شکست قبول کرنے کے قازقوں نے انہیں لڑ کر نکال دینا چاہا ۔ جنگجوئی قازقوں کے خون میں رچی ہوئی ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں

ص 13

کیا جاسکتا کہ انہیں جنگ سے محبت ہے۔ مگر اب ان کی جنگ کسی مفاد یا ناموری کے حصول کے لیے نہیں تھی بلکہ اپنے طرززندگی کو بچانے کے لیے تھی اور جب ان میں تاب مقاومت باقی نہ رہی تو بچے کچھے قازق تکلا مکان اورتبّت کے تپتے ہوئے صحراؤں اور بے برگ وگیاہ پہاڑوں میں نکل گئے مگر انھوں نے شکست قبول نہیں کی ۔ راہ میں بہت سے مر گئے لیکن ان کی کچھ تعداد کوئی دو ہزار کے قریب صعوبتیں جھیل کر کشمیر پہنچ گئی اور تھوڑے عرصہ بعد ترکی نے انھیں دعوت دی کہ آکر ان کے ملک میں آباد ہوجائیں۔ یہیں انھوں نے ہمیں اپنی کہانی سنائى۔ بلکہ دراصل ہم خاص طور سے ان کے پاس گئے اور انہیں اس پر آمادہ کیا کہ ہمیں اپنی کہانی سنائیں۔ کیونکہ ادھر تویہ واقعات پیش آرہے تھے اورادھراشتراکی ان واقعات کو بیرونی دنیا سے چھپائے ہوئے تھے ۔ پھر ہماری سمجھ میں اس کی وجہ فوراً آ گئی کہ اسے وہ کیوں پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔
جب ہم قازقوں سے ان کے واقعات سن رہے تھے توہمارا تخیّل بار بار ماضی کے دھندلکوں میں ابراہیمؑ۔ اسحقؑ۔ یوسفؑ۔ موسٰیؑ۔ داؤدؑ - یوحناؑ اور الیاسؑ پیغمروں کی طرف جانا تھا ۔ قازقوں اور قدیم عبرانیوں کے طرز زندگی میں بے حد مشابہت ہے یا تھی۔ حالانکہ قازق ترکوں کی طرح مسلمان ہیں اور چودھویں صدی سے بھی پہلے سے مسلمان چلے آتے ہیں ۔ وہ اس کے بھی مدعی ہیں کہ ان کی اور ترکوں کی نسل ایک ہی ہے اور ان میں سے بعض واقعی ترکوں سے مشابہ ہوتے ہیں مگربیشتر ان میں سے منگولی ناک نقشے کے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا طرزِ زندگی اس زمانے سے چلا آتاہے جب سارے ایشیا میں گھومتے پھرتے قبیلوں نے ایک عام انداز کی زندگی کا ڈول ڈالا ۔ یہ طرززندگی ان بزرگوں کے طرززندگی سے بہت ملتا جلتا ہے جن کا ذکر عہد نامہ قدیم میں آیاہے۔

ص 14

اور آج کل کے بدوی قبائل کی زندگی سے بھی ، اور ان گا تھ اور ہن قوموں سے بھی جوازمنہ تاریک میں یورپ کو تخت و تا راج کر رہی تھیں۔ مگر ہمیں اکثرحیرت ہوتی ہے اس خیال سے کہ ہم اس زمانے کو اگرعہد تار یک سے موسوم کرتے ہیں تو آنے والی نسلیں ہمارے زمانے کو کس نام سے پکاریں گی۔
جہاں تک مجھے علم ہے قازقوں کی خانہ بدوش زندگی کے حالات اب تک کسی نے نہیں لکھے لہذا ہم نے ان کے کارناموں اور صعوبتوں کی داستانِ پاستان لکھنے کی کوشش کی ہے مگر کسی غیر کے نقطہ نظر سے نہیں، بلکہ خود انہی کے نقطۂ نظر سے۔ اس سے پہلے کہ ان کا طرزِزندگی فراموش ہو جائے ہم یہ دکھا نا چا ہتے ہیں کہ وہ کسی قسم کے لوگ تھے اوراب بھی دل و جان سے ہیں اور ان پر اشتراکیت کا عذاب نازل ہونے سے پہلے وہ کس قسم کی زندگی بسرکرتے تھے جب انہیں ایک گھٹیا نوآباد قوم قرار دے کران کے ساتھ جارحانہ سلوک کیا گیا ترانھوں نے اسی طرح مدافعت کی جیسے ہم نے ہٹلر کے تفوق جتانے پرکی تھی۔ چین کے صوبہ سنکیانگ - یا جسے غیر چینی باشندے مشرقی ترکستان کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں- میں بسنے والے آٹھ لاکھ قازقوں میں سے کم ازکم ایک لاکھ اب مر چکے ہیں۔
جب یہ بچے کچھے تارکین وطن کشمیرپہنچے تو جوکچھ بھی مختصر حالات ہیں اس عظیم قازقی داستانِ پاستان کے اخباروں میں پیش کیے گئے ان سے ایک غیرمعمولی اخلاقی توانائی اور جرات مندانہ سرتابی کا اظہارہوتا تھا۔ اس واقعہ میں بہ انداز دگر وہی عزم صمیم کارفرما نظرآتا ہے جوان پیشرو اور زائرین ہیں موجزن تھا جنھوں نے انگلستان کو ترک کے بحراوقیانوس کے اس پار ایک نئی جماعت کے قیام کی ٹھانی تھی یا ان بضد اور باہمت بنی اسرائیل میں


ص 15

پایا جاتا تھا جنہوں نے فرعون سے سرتابی کی اور حضرت موسٰیؑ کی سرکردگی میں صحرامیں نکل کھڑے ہوئے اور ان دس ہزار یونانیوں میں بھی کارفرما تھا جن کے ایشیا کے ایک اور علاقے سے بچ نکلنے کے واقعے کو زینوفون نے لافانی بنا دیا جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ قازق محسوس کرتے ہیں کہ کشمیر میں وہ سکون سے نہیں رہ سکیں گے اور حکومت ترکیہ کے مدعو کرنے پر ترکی جانے والے ہیں تو ہم نے طے کر لیا کہ ہم خود ترکستان جائیں گے اوران سے معلوم کریں گے کہ انہوں نے اس درجہ خوفناک سفر کو طے کرنے کے لیے اپنی جان کو جوکھم میں کیوں ڈالا اور پھر آزادی تک پہنچنے کے لیے انہوں نے جو دوہزارمیل کی مسافت طے کی اس میں ان پر کیا گزری۔
یہ داستان دراصل انیسویں صدی کے اختتام پر ۱۸۹۹ء سے شروع ہوتی ہے یہ وہ سال ہے جس سال عثمان بطور یعنی عثمان سورما پیدا ہوا ۔ چینی تقویم کے مطابق جس کی پیروی قازق کرتے تھے۔ یہ سال "جنگی سورما" کا سال شمارکیا گیا ۔ اس زمانے میں قاذق قبائلی ہمیشہ کی طرح زندگی بسر کررہے تھے۔ چنگیز خان ہی کے زمانے سے نہیں بلکہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسحاقؑ کے زمانے سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے حضرت لوطؑ سے یہ طے کیا کہ کس کے خیمے دائیں ہاتھ کو اورکسں کے خیمے بائیں ہاتھ کو لگائے جائیں گے چا ہے میدان ہوں چاہے یہودیہ کی پہاڑیاں۔ بالکل اسی طرح قازقوں نے اپنے درمیان اور منگولی پڑوسیوں کے درمیان کوه الطائی اور کوہ ملکوتی اور ان کے پہاڑوں کے بیچ کی زمین جو زنگاریہ کہلاتی ہے، عبرانی بزرگوں کی طرح تقسیم کرلی۔ کچھ اور لوگ جو اس حصّہ زمین پر رہتے تھے اور کھیتی باڑی کرتے تھے وہ بھی رہتے رہے۔ عبرانی بزرگوں ہی طرح موسموں کے مطابق قازق اپنے

ص 16

خیموں کی جگہ بدلتے رہے۔
موسم بہار اور موسم گرما میں یہودیہ سے کہیں اونچے پہاڑوں میں قازق چڑھ جاتے، پہاڑوں کی چراگاہیں سطح سمندر سے دس دس بارہ باره ہزار فٹ بلندی پرہوتیں۔ برف کی تہ تک جہاں برف ہمیشہ جمی رہتی ہے ان میں رس بھرا سبزہ لہلہاتا رہتا۔ جب خزاں کی سرد ہوائیں برف بدوش آتیں تو یہ قبائل وسطی ایشیا کے وسیع صحراؤں اورلق دق میدانوں کے کنارے اُتر آتے یہاں انہیں اپنی روزی بلکہ رہائش اور لباس کے لیے بھی خدا ہی کا آسرا ہوتا یا پھر اپنے مویشیوں کا۔ اس سارے علاقہ میں قازق جہاں جاتے گھومتے پھرتے۔ اکثر ان کی کلائیوں پر شکرے بیٹھے ہوتے جیسے کسی زمانے میں ہمارے بڑوں کو ان کا شوق تھا وہ اپنے گھوڑوں پر سوار چلتے رہتے اور کئی کئی مصرعوں کے بند گاتے جاتے اور بند کسی لمبی آکار پر ختم ہوتا اور یہ آکار وادیوں میں دیر تک ارغنوں کی طرح گونجتی چلی جاتی۔
ترکی میں جو قازق مہاجر اب موجود ہیں ان میں سے سب نہیں بیشتر وہ ہیں جن کا تعلق کیرائی قبیلے سے ہے، یہ قبیلے والے اُلّو کے پروں کا ایک طرہ اپنی تمک یا ٹوپی میں لگاتے ہیں تاکہ قازقوں کے دوسرے قبیلوں میں ممیّز رہیں۔ پورے کیرائی قبیلے کے افراد کی تعداد لاکھوں پر ہے لیکن اشتراکیوں کی عملداری سے پہلے عموماً وہ چھوٹے چھوٹے قبیلوں کی شکل میں رہتے تھے، ہر چھوٹے قبیلے میں کوئی سو خاندان ہوتے تھے ، تین چار سو افراد۔ ان کا ایک سردار ہوتا تھا، دولت کے اعتبار سے وہ چاہے مالدار نہ ہوں لیکن جانوروں کے لحاظ سے وہ آسودہ حال ہوتے تھے۔ ایک اوسط قبیلے کے پاس کچھ انفرادی اور کچھ شرکتی سب ملا کر کوئی دس ہزار بھيڑیں، دو ہزار مویشی، دو ہزار گھوڑے


ص 17

اور ایک ہزار اونٹ ہوتے لہذا جب ان کا پڑاؤ ہوتا وہاں شور مچا رہتا۔ بے شماربھیڑیں اوران کے بچے ممیاتے، مویشی ڈکراتے، اونٹ بلبلاتے، ان آوازوں میں اونٹ کے گھنگھرؤں کی جھنکار، مویشیوں کے گلے میں لٹکے ہوئے گھنٹوں کی آواز اور بھیڑوں کی چھوٹی چھوٹی گھنٹیوں کی صدائیں شامل ہو کر عجب شور برپا کرتیں۔
جب قازق پڑاؤ بدلتے توجتنے تندرست جا نور ہوتے سب پر قبیلے والوں کا طرح طرح کا سامان لادا جاتا اور چھوٹے بچے بھی لاد د یے جاتے ۔ بچے جب ذرا بڑے ہو جاتے تو انہیں پہلے بھیڑ پر سوار کیا جاتا ،پھر گائے پر اور آخر میں گھوڑے پر ۔ یوں چھوٹی سی عمر ہی میں ہرقازق لڑکا اور لڑکی عمدہ شہسوار بن جاتی۔ چینیوں یا اشتراکیوں سے بہت سے لڑکوں نے اپنی پہلی لڑائی دس سال کی عمرمیں لڑی حالانکہ جدید قازق رہنماؤں میں سب سے مشہور رہنما عثمان بطورجن کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے بارہ سال کی عمرسے پہلے کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوا ۔
لڑائی کے فن میرعثمان بطور کا استاد ایک چھاپہ ماررہنما بوکو بطور تھا۔ یہ قازقوں میں اسی طرح مشہورتھا جیسے انگلستان میں رابن ہڈ ، البتہ مشرقی ترکستان کے باہر اسے بہت کم لوگ جانتے تھے بوکو بطورکے زمانے میں مانچوحکومت تھی۔ ٹیکس لینے والے چینی حکام قازقوں کے علاقوں میں در آتے اور ان کے مویشی زبردستی لے جاتے، اسے وہ ٹیکسں وصول کرنا کہا کرتے ، اسی طرح چینی کسان گھس آتے اور قازقوں سے ان کی کھیتی باڑی کرنے کی زمین چھین لینے کی کوشش کرتے۔ ان دونوں حملہ آوروں سے قازق لڑتے رہتے ۔ بعد کے زمانے میں چینی اور روسی اشتراکیوں نے کوشش

ص 18

کی کہ قازق مارکس کے بتائے ہوئے طریقوں پراپنی زندگی بسرکریں ۔ وہ قازقوں کو پکڑ لے جاتے اور ان سے زمینوں پرغلاموں کی طرح کام لیتے یا روسی مالکوں کی کانوں اورکارخانوں میں ان سے جانوروں کی طرح سلوک کرتے۔ قازق ان اشتراکیوں سے مسلسل لڑتے رہے۔
قازقوں کا ایک سردار حسین تجی آج کل ترکیہ میں دیویلی کے قریب رہتا ہے، ہم نے جب اس سے دریافت کیا کہ تم نے اپنا وطن کیوں چھوڑا ؟ تو اس نے کہا:۔
” جانوروں کی طرح زندہ رہنے سے تو بہتر ہے کہ انسان مرجائے جانور انسان کو خدا سمجھتا ہے، یہ بالکل لغو بات ہے کہ ایک انسان دوسرے انسانوں کو خدا سمجھنے پر مجبور کیا جائے۔“
اس سے تقریباً ایک صدی پیشتر ایک اور قازق رہنما كائن سری نے بھی اسی سے ملتی جلتی بات اس وقت کہی تھی جب روسیوں نے ایک قازق کو رشوت دے کر صلح کی شرطیں منوانی چا ہی تھیں۔
اس کا قصہ یہ ہے کہ روسی قاصد نے قازق سے جب پوچها :۔
”مضبوط سینگوں والا مینڈھا چاہے کتنے ہی بڑے گلے کا رہنما کیوں نہ ہو کیا شیر کا مقابلہ کر سکتا ہے؟“
کائن سری نے کہا:-
” وہ شخص جو کسی بڑے مقصد کے لیے جال بچھاتا ہے اپنی مردانگی کو جال ہی میں چھوڑ جاتا ہے ۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ انسان لڑ کرمرجائے یا بے آب و صحرا میں دم توڑ دے، بجائے اس کے کہ بےعزتی کو قبول کر لے اور غلام بن کر زندہ رہے؟“


ص 19

اس عقیدہ کے ساتھ ہمارے ہی زمانے کے قازق کمرمیں تلوار لگاتے ہتھ گولے پیٹی میں لٹکاتے، رائفل یا مشین گن شانے پر آویزاں کرتے اور گھوڑوں پر سوار ہو کر میدان جنگ میں کود پڑتے، اب ان میں چنگیزخاں اوراطّلا اور تیمورلنگ کی طرح ملک گیری یا کشورکشائی کا جذبہ نہیں تھا وه اب آخری لڑائی لڑ رہے تھے اپنے محبوب طرززندگی کو بربادی سے بچانے کے لیے۔ دونہایت قوی شہنشاہیاں۔ سوویت یونین اورچین۔ چنگیز خان سے بھی زیادہ قوی اور زیادہ بے رحم، اسے ہٹا دینے پر تلی ہوئی تھیں۔ قازقوں کو اس کا احساس تھا کہ اتنے زبردست غنیموں سے وہ کبھی جیت نہ سکیں گے ۔ مگر اس کے باوجود ایک لمحہ کے لیے بھی ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ حسین تجی اور کائن سری کی طرح وہ بھی محسوس کرتے تھے کہ جانوروں کی طرح زندہ رہنے تو یہ بہتر ہے کہ انسان مر جائے۔
وه لڑائی جوچینی قومی تحریک کے خلاف شروع ہوئی اور بعد میں چینی اور روسی متفقہ اشتراکیت کے خلاف جاری رہی ۱۹۳۰ء اور ۱۹۵۱ء کے درمیا نی وقفوں کے ساتھ نہایت شدّت سے بڑھتی رہی۔ ۱۹۵۶ء میں یہ جنگ اپنے پورے عروج پر تھی تکلا مکان کے لق و دق صحرا اور شمالی تبت نے سنگلاخ پہاڑوں میں قازق تارکینِ وطن کشمیر پہنچنے کے لیے راه تلاش کررہے تھے ۔ جہاں تک ہمارے قصے کا تعلق ہے اس ہجرت کا انجام پندرہ مہینے کے بعد ۱۹۵۳۫،۵۴ء میں ہوا : یعنی کشمیر سے ترکی کا ہوائی، بّری اور بحری سفر۔ یہاں ترکی حکومت کی مہربانی سے ان قازق مہاجرین کو مسکن ملا اگرچہ شائد وہ پکی چھتوں وانے مکانوں پر اپنے خیموں ہی کو ترجیح دیتے ہوں۔

ص 20


قازقوں کا قصّہ سنانے سے پہلے ان خاص خاص اشخاص کا تعارف کرا دینا ضروری ہے جن سے ہمیں حالات معلوم ہوئے۔ پہلا شخص علی بیگ ہے۔ یہ اپنے وطن میں ایک سردار تھا ۔ ترکی قانون کسی ایسے عہدے کی تسلیم نہیں کرتا۔ کیونکہ شائد اعلیٰ افسروں کے علاوہ ترکیہ میں سب انسانوں کو برابر سمجھا جاتا ہے لیکن علی بیگ ان افراد میں سے ایک ہے جو برابر ہوتے ہوئے بھی اوروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ جس کسی نے بھی سلیحلی میں علی بیگ سے اُس کے گھر پر ملاقات کی ہے اس نے خود دیکھ لیا ہو گا کہ وہ اب بھی کوئی تین سو خاندانوں کے قبیلے کا سردار ہے۔ اسی کے پڑوس میں اس کا زمانہ جنگ کا رفیق و معاون حمزہ رہتا ہے علی بیگ اور حمزہ، انہی دونوں نے قازقوں اور اشتراکیوں کی طویل کش مکش کے واقعات ہم
سے بیان کیے ہیں جنہیں ہم اس کتاب میں درج کر رہے ہیں ۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصّہ اسی جدال و قتال میں نمایاں طور پر بسر ہوا ہے، ہم ان کے بے حد شکر گزارہیں اور دل سے مدّاح ہیں۔ اور اگر ہم سے سمجھنے میں کہیں کوتاہی ہو گئی ہو یا نادانستگی میں ہم سے کوئی غلط بیانی ہوگئی ہوتو ہم صمیم قلب سے ان سے معافی کے خواستگارہیں۔ اس موقع پر ہم اپنے اس انگریز دوست کی بھی ستائش کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے ساتھ ترکی گیا اورترجمان کے متفرق فرائض ادا کرتا رہا۔ ہم ڈگلس کیروتھرزرائل جیوگرافیکل سوسائٹی کے طلائی تمغہ یافتہ کے بھی شکر گزارہیں جنہوں نے وسطی ایشیا کے متعلق اپنی بے مثل جغرافیائی معلومات نہایت کشادہ دلی سے ہمارے سامنے پیشں کر دیں اور اپنی نادر تصاویر کا قیمتی ذخیرہ بھی ہمارے حوالے کردیا۔ آخرمیں حسن علی بیگ کے بیٹے کا شکریہ بھی ہم پر واجب ہے کہ
 
آخری تدوین:

اوشو

لائبریرین
عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -123


پانچواں باب


قازقوں کا طرزِ جنگ


ممالک متحدہ سویت روس سے لال داڑھی والوں کی آمد ان قازق قبیلوں کی آمد سے بالکل مختلف تھی، جو سویت یونین سے اپنے خیمے اور سامان اونٹوں پر لاد کر قافلوں کی صورت میں نکلے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے بے شمار مویشی، بھیڑ بکریاں اور لمبے لمبے بالوں والے گھوڑے تھے۔ اور وہ ایسی چراگاہوں کو تلاش کر رہے تھے جن پر کسی اور کا قبضہ نہ ہو، سرخ داڑھی والے منظم اور تربیت یافتہ فوجی تھے۔ سویت کی بنی ہوئی وردیاں پہنے اور سویت قسم کی رائفلوں اور مشین گنوں سے لیس، اس پر بھی سالہا سال بعد م قامی آبادی نے سویت حکومت سے ان کی موجودگی پر احتجاج کیا۔ سرخ داڑھی والے بہر حال چینی تھے اور وہ اس صوبیدار کی ملازمت میں تھے جو خود چینی تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے روسی مشیر اس کے سارے کام کرتے تھے، لہذا ابتدا میں سرخ داڑھی والوں سے قازق یہ سمجھ کر لڑتے رہے کہ ان بدترین قسم کے ڈاکوؤں کو چینی حکومت نے ان کے ملک میں بھیج دیا ہے، یہ وحشی جانور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -124


تھے جو بڑی بے رحمی سے نہ صرف مزاحمت کرنے والوں کو گولی سے اڑا دیتے تھے بلکہ بے قصور لوگوں کو بھی گولی مار دیتے تا کہ انہیں مرتے دیکھ کر اپنا جی خوش کریں۔

ترکی میں جو قازق مہاجر تھے ان میں سے ایک نے بتایا کہ وہ ہمارے جانور چرا لے جاتے اور قتل کرنے سے پہلے ہماری بیویوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کرتے۔ مقامی چینی بھی نہیں سمجھ سکتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ وہ منچوریا سے آئے تھے اور وہاں کے لوگ ایک اکھیڑ غیر مہذب بولی بولتے ہیں۔ یہ لوگ چور تو تھے ہی، خونی اور قاتل بھی تھے۔ اگر وہ کسی کے مسکرانے میں ایک دانت پر بھی سونے کا پترا چڑھا ہوا دیکھ لیتے تو اتنے ذرا سے سونے کے لیے اسے قتل کر دیتے۔

اسمٰعیل حّجی، جی جن اور باعی مّلا بیٹھے ملٹ کے سرے والے لمبے روسی سگریٹ پیتے رہتے اور چائے کے پیالے پر پیالے خالی کرتے رہتے اور بڑی گرم جوشی سے لال داڑھی والوں کو ختم کرنے کے مسئلے پر طول طویل بحثیں کرتے رہتے۔ سارے ملک میں ان کے خلاف شورش برپا تھی، اس صورت حال سے صوبہ دارشنگ سخت پریشان تھا لیکن اس کے روسی مشیر دل ہی دل میں بہت خوش تھے۔ تینوں سردار نہایت افسوس کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچے کہ سرخ داڑھی والوں کا مقابلہ میدانِ جنگ میں نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا ان سازش کرنے والوں نے کچھ اور منصوبے بنائے اور خفیہ طور پر انہیں الطائی، خلدزا، تار باغتائی، طرفان کے علاقوں میں بھیجا۔ ان کے علاوہ حسین تجی اور سلطان شریف کے پاس غزکل بھی انہیں بھیجا۔ غزکل پر سرخ داڑھی والوں نے ابھی تاخت نہیں کی تھی۔ جب کبھی بھی سرخ داڑھی والے اپنی بارکوں سے نکلتے تو باغی سرداروں کو اطلاع دی جاتی کہ کس کس راستے سے جائیں گے تا کہ ان پر چھاپہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -125


مارا جا سکے۔ جب بھی کوئی سرخ داڑھی والا اکیلا دکیلا کسی آباد مقام سے گزرتا تو اس کا پیچھا کیا جاتا۔ اور اس کے چھرا بھونک دیا جاتا یا اگر اس کا موقع نہ ملتا تو اوپر سے پتھر برسا کر اسے مار ڈالا جاتا۔

اس قسم کی چالیں کامیاب ہوئیں لیکن ان کا رد عمل بھی ہوا۔ خنجر زنی اور سنگ باری کی وبا سارے علاقے میں پھیل گئی اور تھوڑے ہی عرصے میں وہ پر امن چینی سوداگر اور کسان جو مدتوں سے مشرقی ترکستان کے باشندوں میں رہتے چلے آئے تھے، بلکہ پشتہا پشت سے ۔۔۔۔ وہ بھی سرخ داڑھی والوں کے خلاف اس خونی معرکے میں اپنے آپ کو مبتلا پانے لگے۔

جس رفتار سے چینیوں اور مقامی قوموں کے تعلقات خراب ہو رہے تھے، اسی رفتار سے مشرقی ترکستان پر قبضہ ہو جانے کی امیدیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ 1939ء میں روسیوں نے مختلف مقامات پر اپنی چھوٹی چھوتی چھاؤنیاں بنا لی تھیں، خصوصاً نئی شاہراہ کے کنارے کنارے، مثلاً حامی میں جو لمبے شئین شان سلسلۂ کوہ کے جنوب میں ہے اور سویت سرحد سے کوئی سات سو میل کوے کی سیدھی پرواز۔ اسی سال مارچ میں عالمی جنگ کے شروع ہونے سے چند مہینے پہلے روسیوں نے چینی صوبائی حکومت کو ہدایت دی کہ مشرقی ترکستان سے پہلے تمام غیر ملکیوں کو سوائے روسیوں کے نکل جانے کا حکم جاری کرے۔ عملاً اس حکم کی زد یا تو انگریزوں پر پڑتی تھی یا ہندوستانیوں پر۔ ان میں نو عورتیں اور بارہ بچے ایسے بھی تھے جنہیں پامیر کے سولہ ہزار فٹ بلند درّوں میں سے سال کے سرد ترین موسم میں پا پیادہ گزرنا پڑا۔ ٹائمز اخبار کا بیان ہے کہ جب وہ گلگت پہنچے تو برف نے ان کے زخم ڈال دیے تھے اور ان کے چیتھڑے لگے ہوئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -126


لیکن 1936ء روسی یا سویت ارادے مشرقی ترکستان میں راز ہی تھے۔ اور قازق سرخ داڑھی والوں کے عذاب سے نجات پانے کی تدبیروں میں کلیتاً منہمک تھے۔ مضافات میں جو قازق آباد تھے ان کی مخصوص ذمہ داری تھی کہ جب سرخ داڑھی والے ادھر سے کوچ کریں تو ان پر چھاپہ ماریں ان پر جو چھاپے مارے گئے ان میں سے کسی کی مفصل کیفیت ہمیں معلوم نہ ہو سکی۔ لیکن حمزہ نے بتایا کہ اس کے بھائی یونس حجی نے اس قسم کی لڑائی کی تربیت اسے کیسے دی تھی، یونس نے اس فن کو بوکو بطور سے سیکھا تھا جس نے عثمان کو سکھایا تھا۔ عثمان کا بیٹا شیر درماں 1953ء تک اس قسم کے چھاپے سویت اور چینی اشتراکیوں پر مارتا رہا اور یہ باور کر لینے کے چند اسباب ہیں کہ اس وقت 1955ء میں بھی جب ہم یہ واقعات لکھ رہے ہیں وہ ایسے ہی چھاپے مار رہا ہو گا۔

"ہماری جنگی چالیں ہمیشہ زمین کے مطابق ہوتی تھیں۔ کھلے میدانوں میں ہم اپنی کمیں گاہوں سے گھوڑوں پر سوار ہو کر دشمن کے عقب میں سرپٹ گھوڑے دوڑا کر پہنچ جاتے اور اسی دوران میں زمین کی سطح ہی سے گولیاں چلاتے رہتے۔ پہاڑوں میں ہم اپنے گھوڑے، عورتوں اور بچوں کے پاس چھوڑ جاتے اور چٹانوں اور جھاڑیوں کے پیچھے دبک کر بیٹھ رہتے۔ حملہ کرنے کے لیے میں آدمیوں کا انتخاب کرتا اور ان کے گھوڑوں کا بھی ۔ ان سے کہہ دیا جاتا کہ گولی چلاؤ مار ڈالنے کے لیے۔ گھوڑوں کو نہیں بلکہ سواروں کو، اگر لاریاں ہوں تو ان میں جو سوار ہوں انہیں نہیں بلکہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -127


لاریاں چلانے والوں کو۔ قیدی ہم کبھی نہ بناتے تھے کیونکہ ہمیشہ چلتے پھرتے رہنے کی وجہ سے قیدیوں کو اپنے ساتھ رکھنا ہمارے لیے مشکل تھا۔

پہاڑوں میں ہم اپنی راءفلوں میں دو لمبے سریے لگا لیا کرتے تھے۔ اس سے صحیح نشانہ لگانے میں بری مدد ملتی تھی۔ کھلے میدان میں ہم زین کی سطح سے گولیاں چلاتے۔ ہم اگرچہ اپنا پہلا حملہ عقب سے کرتے لیکن اس حملے کے بعد ہم اس کا بھی انتظام رکھتے کہ جتنی بھی سمتوں سے حملے ہو سکیں، کیے جائیں۔ لڑنے والوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ دشمن کے قریب ہوتے چلے جائیں اور تلواروں سے دشمن کا صفایا کر دیں۔ بعد کے زمانے کی لڑائیوں میں تلواروں کی کمی ہو گئی تھی۔ اس لیے ہم نے خار دار گرز استعمال کرنے شروع کر دیے تھے۔ ان کی ضرب لگانی جسے آ جاتی تھی تو وہ اسے تلوار کے برابر ہی مہلک بنا لیتا تھا۔

پہاڑوں میں ہمیشہ ہم اس کوشش میں رہتے تھے کہ دشمن پر وار اس وقت کریں جب وہ کسی تنگ وادی میں سے گزر رہا ہو۔ الطائی اور تئین شان میں ایسی وادیاں بہت ہیں۔ دشمن کے گزر جانے کے بعد ہم اس کے بچ نکلنے کے راستے کو پانچ چھو آدمیوں کے متحرک دستے سے ہی بند کر لیتے تھے۔ کھلے میدان میں ہم سواروں کا ایک چھوٹا دستا ان ہدایات کے ساتھ بھیجتے تھے کہ جب دشمن ان کا پیچھا کرے تو پلٹ کر اس سمت میں فرار ہوں جہاں ہم گھات لگائے بیٹھے ہوں۔ اگر دشمن ان کی چال میں آ جاتا تو ہم اسے اپنے سامنے سے گزر جانے دیتے اور پھر عقب سے ان پر گولیاں چلاتے اور حملہ کر دیتے۔ ایک اور چال ہم اکثر یہ چلا کرتے کہ کسی چینی کھلیان میں آگ لگا دیتے اور جب ہمیں معلوم ہوتا کہ چینی فوجی دستہ ہمیں پکڑنے کے لیے آ رہا ہے تو ہم فوراً وہاں سے ٹل جاتے۔ جب وہ ہمیں گرفتار کرنے میں ناکام ہو کر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -128


لوٹتا تو ہم اس پر شب خون مار دیتے۔"

حمزہ کا یہ بیان تھا کہ "جب میں لاریوں پر چھاپہ مارتا تو ہر لاری کے لیے صرف ایک آدمی متعین کرتا۔ دستے کو سخت احکام دے دیے جاتے کہ جب تک میں گولی نہ چلاوں کوئی گولی نہ چلائے اور جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں ہم سواریوں کو نہیں مارتے تھے صرف ڈرائیوروں کو، ہم سڑک کے کنارے لیٹ جاتے تاکہ ہمارا نشانہ خطا نہ ہونے پائے۔ حالانکہ اس قسم کے حملے ہم صرف رات ہی کو کرتے تھے،جب ڈرائیوروں کے گولی لگ جاتی تو ٹرک بے قابو ہو کر ڈگمگاتا چلا جاتا اور کچھ فاصلے کے بعد الٹ جاتا۔ ان میں جو لوگ سواور ہوتے ان میں کئی مر جاتے یا اپاہج ہو جاتے۔ جو صحیح سلامت بچ رہتے ہم انہیں ایک ایک کر کے چھانٹ لیتے اور جو باقی رہ جاتے انہیں چھوڑ دیتے۔ ایسے حملوں میں ہمارے آدمیوں میں سے شاذ ہی کوئی مارا جاتا۔ اگر اتنے زیادہ ہتھیار ہمارے ہاتھ آتے کہ ہم ان سب کو اٹھا کر نہ لے جا سکتے تو ہم انہیں گڑھے کھود کر دبا دیتے۔ اور جو چیزیں ہمارے کام کی نہ ہوتیں انہیں ہم کچل ڈالتے یا ان میں آگ لگا دیتے۔ بری توپیں، بھاری سامان حرب جو بگیر گاڑیوں پر لادے ہوئے نہ لے جایا جا سکتا ہو وہ ہمارے کسی کام کا نہیں تھا۔ کیونکہ پہاڑوں میں ہم اسے نہیں لے جا سکتے تھے۔

حملے کے انتظامات بڑی احتیاط کے ساتھ کیے جاتے تھے۔ پہلے تو قازق دنوں دشمن کی نقل و حرکت کا مشاہدہ کرتے رہتے تاکہ اس کی عادتوں سے واقف ہو جائیں اس کے بعد کبھی پچاس میل دور ایک چھوٹا سا چھاپہ مار دیتے۔ اور ساری رات گھوڑوں پر سوار ہو کر جہاں اصلی چھاپہ مارنا ہو اس مقام پر آ جاتے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ قازق، چھاپہ مار ایک ہی گھوڑے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -129


پر سوار ضرورت پڑنے پر چار ہفتے میں ایک ہزار میل طے کر لیتا تھا۔

حمزہ کے بیان میں دشمن کی نقل و حرکت کی نگرانی رکھنے کو بہت اہمیت دی گئی تھی۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ جب یہ معلوم کر لیا کہ دشمن کیا کارروائی کرے گا تو سمجھ لو آدھی لڑائی تم نے جیت لی۔

آخر میں اس نے کہا۔ " جنگلی جانوروں کا شکار ہم اسی طرح کھیلتے ہیں اور ہم اپنے دشمنوں کو جنگلی جانور ہی سمجھتے ہیں۔ لیکن شاید دشمنوں سے نمٹنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ جنگلی جانوروں کا شکار کھیلنا ہر قازق کو پسند ہے۔ کبھی پہلے وہ جنگ کو بھی ایک کھیل ہی سمجھتا تھا جس میں افراد کی ذہانت اور چالاکی کی سنسنی خیز ٹکر ہوا کرتی تھی۔ لیکن چینیوں نے خصوصاً اشتراکیوں نے ایک اور قسم کی جنگ شروع کی جس کی بنیاد پروپیگنڈا اور اذیت رسانی پر تھی، وہ بے گناہوں کو یرغمال بطور پکڑ لے جاتے اور ان کے دباؤ میں بہادروں کو مجبور کرتے کہ شکست قبول کر لیں۔ کنوؤں میں زہر ڈال دیتے تاکہ جانور اور انسان جو بھی پانی پیے تکلیف سے مر جائے یا پھر پیاس سے سسک سسک کر مرے یا اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کر کے اپنا سر کٹوائے۔

تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حمزہ اور علی بیگ اور یونس حجی اور عثمان اپنی لڑائیوں سے اسی قدر لطف اندوز ہوتے ہوں گے جتنے شکار کھیلنے سے۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکیوں کے لیے یہ لوگ زبردست حریف ثابت ہوتے تھے۔ حمزہ جب 1951ء میں 29 سال کی عمر میں کشمیر پہنچا ہے تو اس وقت تک وہ ایک سو سولہ لڑائیاں لڑ چکا تھا ان میں بیشتر لڑائیاں دست بدست مقابلوں پر ختم ہوئیں جن میں رائفلیں اور خودکار ہتھیار بے کار ہو جاتے ہیں اور صرف تلواریں ہی کام آتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -130


قازقوں کا سب سے مرغوب شوق شکرے سے شکار کھیلنا تھا مگر ان کے شکاری پرندے شکرے، بہری وغیرہ نہ تھے بلکہ شاہین جو دو دو تین تین فٹ اونچے ہوتے اور ان کے کھلے ہوئے پروں کی لمبان چھ فٹ سے بھی زیادہ ہوتی۔ آسودہ حال قازق اور بہت سے ایسے بھی جو زیادہ آسودہ نہ ہوتے شاہین کی آنکھیں پر ٹوپیاں چڑھائے، چمڑے کے لمبے دستانے پہلے، کلائی پر شاہین کو بٹھائے، گھوڑوں پر سوار ، زین میں لگے ہوئے لکڑی کے اڈے پر کلائی ٹکائے، شکار کھیلنے نکلتے تھے۔

شاہین کا شکار ایسا شوق نہیں تھا جس سے تنہا کوئی لطف اندوز ہو لے۔ تماشہ دیکھنے کے لیے اکثر دوستوں کو دعوت دی جاتی تھی۔ اگر شاہین سے شکار کھیلنے والوں کا ذکر نہ کیا جائے تو قازقوں کی یہ کہانی مکمل نہیں ہوی گی۔ ایک تو اس وجہ سے کہ یہ ان کے طرزِ زندگی کا ایک نمایاں رخ ہے، دوسرے اس سے قازقوں کے چھاپہ ماری کے اصول بڑی حد تک مشابہت رکھنے کی وجہ سے سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ اچھا تو آئیے علی بیگ، یونس حجی اور نوجوان حمزہ کے ساتھ بھی تئین شان میں شاہین کے شکار کا تماشا دیکھنے چلیں۔

سورج نکلا ہی تھا کہ گھڑ سواروں کا ایک دستہ ہنستا بولتا روانہ ہوا اور شاہین کے مالک کے پیچھے ایک ٹیڑھی میڑھی قطار بنا کر پہاڑی راستے پر چل پڑا۔ پہاڑ کی تین چوٹیاں جو "تین بہنیں" کہلاتی ہیں، کمر کمر سفید بادلوں میں چھپی ہوئی ہیں اور ان کے سروں پر برف کے تاج دھرے ہیں، یہ چوٹیاں اب بالکل گھڑ سواروں کے سروں پر ہیں۔ شاید آگے کسی وقت دن میں بارش ہو گی۔ تئین شان کے شمالی ڈھلانوں پر عموماً بارش ہوتی رہتی ہے۔ یہاں گرمیوں میں خوب گرج چمک کے ساتھ بارش ہوتی ہے اور جاڑوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -131


میں خوب برف پڑتی ہے۔ اسی سلسلہ کوہ کے دوسری طرف بمشکل ڈیڑھ سو میل جنوب کی طرف خوفناک "کوہ تشنہ" کا سلسلہ ہے جہاں بارش کی ایک بوند بھی نہ پڑتی۔

بل کھائے ہوئے راستوں پر گھوڑے اپنے سواروں کو لیے چڑھے چلے جاتے ہیں اور کوئی منچلا گانے لگتا ہے۔ گانے کی آواز سنتے ہی شاہین اپنے آقا کی کلائی پر کچھ بے چین ہونے لگتا ہے لیکن اس کی آنکھوں پر ٹوپی چڑھی ہوتی ہے اس لیے اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا کہ اڑ جائے اس کے علاوہ اتنے دن سے مقید ہے کہ اسے اپنا آقا پر بھروسہ کرنا آ گیا ہے اس لیے وہ صرف یہ کرتا ہے کہ جس چمڑے کی کلائی پر وہ بیٹھا ہو اس پر اپنے پنچے ذرا اور زور سے جما دیتا ہے اور زیادہ توجہ سے اپنے جسم کو سنبھالے رہتا ہے تاکہ گھوڑے کی جنبش سے اس کا جھونک نہ بگڑنے پائے۔

چونکہ خوشی کا موقع ہے اس لیے گیت عموماً شگفتہ اور رومانی ہوتا ہے یا کوئی چھوٹی داستان نظم ہوتی ہے اور پھر ایک ایک کر کے گانے والے کے ساتھ سب اپنی اپنی آوازیں ملانے لگتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ گانے والا کوئی ایسا گیت گاتا ہے جو خود اسی کا بنایا ہوتا ہے ۔ دھن نہیں صرف الفاظ۔ اس صورت میں سب خاموشی سے اس ہنسی کی بات کے منتظر رہتے ہیں جس کا ہر بند میں آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ جب یہ ٹیپ آتی ہے تو سب کے سب خوشدلی سے مل کر گانے لگتے ہیں:


کائی ۔ لی ۔ لی ۔ لیھ

دائی ۔ ون ۔ یا ۔ آ ۔ آ۔ آ


ان کی یہ آواز تنگ ہوتی ہوئی وادی کے اس طرف کی بڑی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -132


بڑی چٹانوں اور جنگلوں میں گونجتی چلی جاتی ہے اور ٹکرا کر پھر واپس آتی ہے اور صدا اور عکس صدا کا یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوتا ہے جب دوسرا بند شروع ہو جاتا ہے۔

جب یہ ٹولی خوب جی بھر کے گا چکتی ہے تو ان میں سے کوئی ایک قطار کے آخر سے آواز دے کر پوچھتا ہے۔ "ابھی اور کتنی دور ہمیں لے جاؤ گے۔ میرے گھوڑے کے نعل ایسے نہیں ہیں کہ وہ برف کے تودوں پر سواری دے۔ خاص کر سال کے اس حصے میں۔"

کوئی اور کہتا ہے۔ "دیکھتے نہیںاس کے شاہین کو اتنی ناکامیاں ہو چکی ہیں کہ اسے ہمیں اتنے اوپر لے جانا پڑے گا جہاں کے خرگوشوں اور لومڑیوں کو اس سے پہلے کبھی سابقہ نہ پڑا ہو ورنہ اس کا شاہین ہر گز نہیں جھپٹے گا۔"

تیسرا کہتا ہے ۔ "ارے تم سمجھے نہیں وہ ہمیں بادلوں کے اوپر لے جانا چاہتا ہے تاکہ ہم اس کے شاہین کی ناکامی کو نہ دیکھ سکیں۔"

شاہین کا مالک مسکراتا رہتا ہے مگر منہ سے کچھ نہیں کہتا کیونکہ پچھلی پورے ہفتے شاہین کے سدھانے والے پہاڑوں کی وادیوں کا اپنی تیز نظر سے جائزہ لیتے رہے اور دل ہی دل میں ان مقامات کو یاد رکھتے رہے جہاں کوئی لومڑی یا شاید کوئی بھیڑیا دن کو اچھے وقت سے کھلے میں دکھائی دے جائے۔

جب وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا مقام ان کی نظر میں آ گیا ہے تو آ کر آقا کو اس کی اطلاع دیتے ہیں۔

"چہکنے والی چریوں کی وادی میں ک ھلی چراگاہ کے پیچھے، نیلی چھوٹی جھیل کے کنارے روزانہ صبح کو سورج نکلنے کے دو گھنٹے بعد ایک لومڑی اپنے بچوں کو لے کر پانی کے کنارے جایا کرتی ہے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -133


وادی زاغ میں جہاں ایک اونچا چیڑ کا درخت کھلی جگہ میں کھڑا ہے ایک بھیڑیا دوپہر سے ایک گھنٹہ پہلے تک اکیلا دھوپ میں پڑا رہتا ہے۔"

شاہین کا مالک پوچھتا ہے۔ "بھیڑیا کتنا بڑا ہے؟"

"ناک کی پھننگ سے دم کے سرے تک آٹھ بالشت کا ہے۔ اچھا تیار جانور ہے اور اس کھال کھردری اور داغدار ہے۔"

آقا خفگی سے کہتا ہے۔ "تم یہ سمجھتے ہو کہ میں ایسے گھٹیا جانور یا بچدار لومڑی پر اپنا شاہین چھوڑوں گا؟ شرم نہیں آتی تم دونوں کو؟ کوئی اور بہتر شکار تلاش کرو۔ ورنہ تم دونوں کے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔ "

لہذا سدھانے والے پھر سے تلاش شروع کرتے ہیں۔ اب کے ان میں سے ایک یہ خبر لاتا ہے کہ ایک پوار اونچا بھیڑیا جس کے ساتھ اس کا جوڑا نہیں ہوتا روزانہ صبح کو وادی کی تہہ میں جو سبزہ زار ہے اس میں سے گزرتا ہے اور جہاں وادی تنگ ہو جاتی ہے اور اس پر چٹانیں اور جھاڑیاں آ جاتی ہیں وہاں جا کر غائب ہو جاتا ہے۔"

شاہین کا مالک کہتا ہے۔ "یہ اچھا شکار ہے میں جا کر اسے خود دیکھوں گا۔"

اور اس موقع پر پہنچ کر احتیاط سے وہ وقت یاد کر لیتا جب بھیڑیا دکھائی دیتا ہے اور یہ بھی ذہن میں رکھتا ہے کہ وہ کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے۔ اس کےب عد وہ سبزہ زار کے اوپر ایک چٹان کی دراڑ تلاش کر لیتا ہے جہاں سے وہ شاہین کو ٹھیک اس وقت چھوڑ سکے جب بھیڑیا پہاڑی کے پیچھے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ آخر میں وہ اس جگہ کا تعین بھی کر لیتا ہے جہاں اسے گھوڑا چھوڑنا ہو گا تاکہ بھیڑیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -134


نہ تو اسے دیکھ سکے اور نہ اس کی بو پا سکے۔ اس وقفے کا بھی صحیح اندازہ کر لیتا ہے جس میں گھوڑے باندھے جائیں گے اور مقررہ چٹان پر بھی پہنچ جانا ہو گا۔ ان سب باتوں سے فارغ ہو کر وہ گھر واپس آتا ہے اور دن اور وقت مقرر کر کے اپنے دوستوں کو دعوت دیتا ہے۔ جیسے ہی یہ ٹولی شاہین والے کے منتخب مقام پر پہنچتی ہے اور وہ اپنے گھوڑے پر سے اترتا ہے تو گانا وانا سب بند کر دیا جاتا ہے اور سب اس کی دیکھا دیکھی گھوڑوں پر سے اتر پڑتے ہیں۔ وہ انگلی کے اشارے سے وہ مقام دکھاتا ہے جہاں سے شاہین کو چھوڑنا ہوتا ہے اور سب کے سب پہاڑی پر اتر چڑھ کر بغیر کسی آواز کے اس چٹان پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے جائے شکارصاف دکھائی دیتی ہے۔

کچھ دیر بالکل خاموشی رہتی ہے۔ صرف کبھی کبھی اونچی اڑتی ہوئی کسی چڑیا کی چہکار یا پہاری بکرے کی آواز یا جنگلی گلہری کی کرخت تیز سیٹی سنائی دیتی ہے۔ پھر یکا یک ایک لمبا سایہ ہری ہری گھاس پر آہستہ آہستی سرکتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور دور سے بل کھاتے ہوئے راستے پر وادی کے سرے سے آتا ہوا نظر آتا ہے۔ تماشائی دل میں کہتے ہیں "یا اللہ بھیڑیا ہے بچہ نہیں ہے ۔ پورا بڑا نر ہے۔ جوان، رفتار میں کوئی جلدی نہیں ہے۔ دس بالشت سے ایک انگل بھی کم نہیں ہے۔ واقعی زبردست جانور ہے۔ کیا ایسے صید پر شاہین چھوڑا جائے گا اگر چھوڑا گیا تو دونوں میں سے کون جیتے گا؟"

انہیں زیادہ دیر تک تذبذب میں نہیں رہنا پڑتا، آنکھوں پر سے ٹوپی ہٹتے ہی شاہین ایک دم سے ہوا میں بلند ہو جاتا ہے اور فوراً

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -135


چاروں طرف نظر دوڑا کر بھیڑئیے کو دیکھ لیتا ہے۔ یہ بڑا پرندہ دو دن کے فاقے سے ہے اور بھوک سے اس کا برا حال ہے، ذرا توقف نہیں کرتا اور نیچے ہی نیچے جھپٹا چلا جاتا ہے۔ پتھر یا گولی کی طرح نہیں بلکہ خاموشی سے پر مارتا بے رحمی سے، بغیر کوئی غلطی کیے، پردار دشمن ، نڈر، پر اعتماد، فریب نہ کھانے والا، خطرے سے بے خطر۔ بھیڑیا جب آگے بڑھتا ہے تو شاہین اپنے بڑے بڑے پنجے اس کے سر کے نیچے اتار دیتا ہے۔ شاہین کی جھپیٹ میں آ کر بھیڑیا گر کر لڑھک جاتا ہے منہ مارتا ہے اور دانت چباتا ہے، اپنے پنجے اور دانت حملہ آور پر جمانے کی کوشش کرتا ہے مگر اتنے ہی میں شاہین اپنی مڑی ہوئی چونچ سے بھیڑیے کی آنکھیں پھوڑ ڈالتا ہے۔ چند لمحوں کی لڑائی ختم ہو جاتی ہے اور بھیڑیا مر جاتا ہے۔

تماشائی دیوانہ وار دوڑ پڑتے ہیں اور اپنے گھوڑوں کا رخ کرتے ہیں، ڈھلان پر بھاگنے کے باوجود بعض کے سانس پھول جاتے ہیں کیونکہ قازق اپنے پیروں سے زیادہ گھوڑوں پر آرام محسوس کرتے ہیں، بہر حال چٹکی بجاتے میں وہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑائی کے منظر پر پہنچ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ شاہین کا مالک وہاں پہنچ کر شاہین کی آنکھوں پر ٹوپی چڑھا رہا چکا ہے اور بھیڑیے کی کھال اتارنے میں مصروف ہے جب وہ اس سے فارغ ہو جاتا ہے تو شاہین کی آنکھیں دوبارہ کھول دیتا ہے تاکہ خوب سیر ہو کر بھیڑیے کی لاش کو کھا لے۔

ایک تماشائی کہتا ہے۔ "خوب پرند ہے۔ دائی یا پرامائی، بھیڑیا تین منٹ میں مر گیا اور شاہین نے تنہا ہی اسے ہلاک کر دیا۔ شکاری کتوں کی مدد کے بغیر ہی!"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -136


کوئی اور تائید کرتے ہوئے کہتا ہے۔ "بے شک پرند کے ساتھ اس کے سدھانے والے کی بھی تعریف کرنی چاہیے مگر ذرا بھیڑیے کا قد و قامت تو دیکھو کھال کا ناپ تھوتھنی سے دم کی نوک سارے نو بالشت ہے۔"

ایک اور نے حاسدانہ طور پر کہا۔ "شاہین تک کے پر بھی تو ناپ میں اس سے کچھ کم نہیں ہیں۔" مگر دل میں قائل تھا کہ اگر میرا پرند ہوتا تو لومڑی سے بڑے جانور پر اسے نہ چھوڑتا۔"

کسی نے ہنس کر جواب دیا۔ "تمہارے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے تو زیادہ ہی ہے اگر یہ جانور تم پر چھوڑا جاتا تو میں خوب جانتا ہوں کہ کس کی جیت ہوتی۔ چاہے تمہارے ہاتھ میں تلوار ہی کیوں نہ ہوتی؟"

اس کے جواب میں ایک اور بولا "جو شخص اپنی انگلی کی ایک پور شاہین کی چونچ کی نظر کر چکا ہو اس کے منہ سے ایسی بات بھلی نہیں لگتی۔"

ایسے سانحے تو بہت کم ہوتے ہیں لیکن بے احتیاطی کی وجہ سے ہوتے ضرور ہیں۔ نوگرفتہ شاہین صرف ایک ایسے مالک کا لحاظ کرتا ہے جو پہلے جان بوجھ کر اس سے بے رحمی سے پیش آئے اور پھر جب اسے سدھا لیا جائے تو بہت احتیاط اور توجہ سے رکھے۔ اس طرح دونوں میں ایک طرح کی مفاہمت پیدا ہو جاتی ہے اور کم از کم انسان کی طرف سے یہ مفاہمت محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے لیکن پرند اپنے آقا کو قبول کر لینے پر بھی اور سب سے بھڑکتا رہتا ہے، دوسروں کے لیے یہ شاہین اب بھی جنگلی، بے قابو، وحشی اور خطر ناک ہی ہوتا ہے۔

شاہین جاڑوں میں پکڑے جاتے ہیں، شکاری سفید ڈوریوں کا جال اس طرح کا بناتا ہے کہ بیس ڈوریوں میں بیس اور ڈوریوں کے پھسلنے والے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -137


پھندے لگاتا ہے۔ اس جال کو وہ زمین پر ڈال دیتا ہے اور جب اس پر پہلی برف پڑ جاتی ہے اور اسے پوری طرح چھپا لیتی ہے تو ایک زندہ چوزہ اس کے قریب باندھ دیتا ہے۔ یہ چوزہ چیختا ہے۔ شاہین جھپٹ کر آتا ہے مگر جب وہ مرے ہوئے چوزے کو پنجوں میں دبا کر اوپر اڑتا ہے تو پھندے اس کی ٹانگوں میں الجھ جاتے ہیں اور وہ مجبور ہو جاتا ہے۔ جال لگانے والا دوڑ کر آتا ہے ، پھڑپھڑاتے ہوئے پرند پر ایک کپڑا ڈال دیتا ہے اور چمڑے کے دستانے پہنے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اسے دبوچ کر آنکھوں پر ٹوپی چڑھا دیتا ہے تاکہ جب اسے کپڑے اور جال سے نکالے تو دکھائی نہ دینے کی وجہ سے وہ اڑنے سے معذور رہے۔

اس کے بعد یہ کیا جاتا ہے کہ زمین میں دو لکڑیاں گاڑ دی جاتی ہیں اور ان کے درمیان ایک رسی تان دی جاتی ہے ایک اور چھوتی رسی کا ایک سرا شاہین کے پاؤں میں بندھا ہوتا ہے اور دوسرا سرا دونوں میں سے کسی لکڑی میں باندھ دیا جاتا ہے۔ پاؤں کی رسی اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ بدنصیب پرند زمین پر اتر نہیں سکتا اس لیے مجبور ہوتا ہے کہ پہلی رسی پر اپنا توازن قائم کیے بیٹھا رہے ورنہ سر نیچے اور ٹانگیں اوپر لٹکتا رہے گا۔

ٹوپی چڑھی ہوتی ہے اور ایسی حالت میں اسے مسلسل کئی دن رات تک رکھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ کوئی دس دن ۔۔۔۔۔ پھر سدھانے والے کو یقین ہو جاتا ہے کہ اب یہ اڑنے کے قابل نہیں رہا۔ اب کبھی کبھی اس کا سدھانے والا اس کی آنکھیں کھولتا ہے اور اسے چوہیا یا خرگوش کھانے کو اور تھوڑا سا پانی پینے کو دیتا ہے، اتنا کھانا اور پانی نہیں دیا جاتا کہ وہ سیر ہو جائے بلکہ صرف اتنا کہ وہ زندہ رہے اور اسے زیادہ بھوک لگنے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -138


جب اس کا سدھانے والا سمجھ لیتا ہے کہ اب کوئی اندیشہ نہیں رہا تو وہ اسے پھر ٹوپی پہنا دیتا ہے اور اس کی رسی پکڑ کر اپنے چمڑے کی کلائی پر بٹھا لیتا اور اپنے پڑاؤ میں سوار ہو کر گھومتا پھرتا رہتا ہے۔ اگر پرند تمیز سے بیٹھا رہتا ہے تو گھر جانے پر اسے ذرا موٹی رسی بیٹھنے کو ملتی ہے اس کے بعد لکڑی پر اسے بٹھایا جاتا ہے اور آخر میں کسی درخت کی ٹہنی پر۔ لیکن وہ شاہین کو ہمیشہ بندھا رکھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سوائے سدھانے والے کے وہ ہر ایک پر جھپٹ پڑے گا اور عموماً وہ چاہتا بھی ہے کیونکہ اس کی اس خو کی وجہ سے اسے کوئی چرا بھی نہیں سکتا اس کے علاوہ اس کی وحشت باقی رہنی چاہیے ورنہ وہ کسی کو بھی شکار نہیں کرے گا۔

وہ دن بھی بالآخر آ پہنچتا ہے جب شاہین کا مالک اسے پہلا شکار کھلانے پہاڑوں میں لے جاتا ہے اسے پورے دو دن تک بھوکا رکھا جاتا ہے اور اسے کسی ایسے شکار پر چھوڑا جاتا ہے جو بہت فاصلے پر نہ ہو ، اس طرح مالک اس مقام پر شاہین کے پیٹ بھر کے کھا لینے سے پہلے جا پہنچتا ہے جب تک وہ پہنچتا ہے شاہین اپنے شکار کو نوچ نوچ کر اس کا کچا گوشت بھوک بجھانے کے لیے نگلتا رہتا ہے لیکن چونکہ وہ اپنے مالک کو پہچانتا ہے اور خود کھانے میں مصروف ہوتا ہے اس لیے اسے قریب آ جانے دیتا ہے۔ مالک جلدی سے اس کی آنکھوں پر ٹوپی چڑھا دیتا ہے۔ جانور کی کھ ال جلدی سے اتار لیتا ہے کیونکہ اسے استر کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پھر شکار کی لاش شاہین کو کھنے کے لیے دے دیتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ شاہین اس بات کو جلدی سمجھ جاتا ہے کہ جو کچھ بھی وہ شکار کرتے گا اسے کھانے کو مل جایا کرے گا اور اسی وقت ہم سے انسان اور پرند میں ایک معاہدہ ہو جاتا ہے جو کسی ایک کے مرنے پر ہی ختم ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد عمر

لائبریرین
37

زچہ کو سوائے بچّہ کی نگہداشت کے کوئی اور کام نہ کرنے دیا گیا۔

دیگ کے ساتھ ہی تانبے کی ایک بڑی سی کیتلی آگ پر لوہے کے تپائے میں لٹکی کھول رہی تھی۔ اس میں سے پانی سے لے لے کر عثمان کی نانی نے بچّے کو نہلایا۔ پھر سوتی کپڑے سے پونچھ پانچھ کر اسے ایک موٹا سا روئی بھرا لمبا کرتا پہنا دیا جس کا گریبان پیچھے کی طرف تھا۔ اس کے بعد اسے ایک لکڑی کے پنگوڑے میں لٹا دیا جس میں ملائم نمدے کے ٹکڑے بچھے ہوئے تھے۔ یہ نمدے بعد میض حسبِ ضرورت یا تو دہو ڈالے جاتے یا جلا دیئے جاتے، صرف دودھ پلانے کے وقت تو عثمان کو گود میں لیا جاتا ورنہ سارے وقت پنگوڑے ہی میں پڑا جھولتا رہتا۔ یوں ہی پڑے پڑے وہ اتنا بڑا ہو گیا کہ پیٹ کے بل کھسکنے اور رینگے لگا۔ اس عمر کو پہنچنے کے کچھ عرصے بعد جب وہ اپنی کھٹولی پر لیٹا ہوتا تو اس کے ہاتھ اس سے پہلوؤں میں باندھ دیے جاتے۔ اگر آپ اس کی ماں سے پوچھتے کہ بچے کو انگوٹھا چوسنے یا اپنے ہاتھوں کو سر کے اوپر کیوں نہیں رکھنے دیا جاتا تو وہ ترس کھانے کے انداز میں کہتی۔ سبھی جانتے ہیں کہ اگر ہاتھ پہلوؤں میں رہیں تو بچہ آرام سے سوتا ہے اگر اس کے ہاتھ سوتے میں سر کے اوپر ہوں گے تو اسے دورے پڑنے لگیں گے، اگر آپ کہیں اس سے یہ کہہ بیٹھیں کہ وہ سوتے میں بچے کے پاس کوئی ایسی چیز رکھ دینا چاہیے جسے وہ اپنی ماں سمجھے تو شاید یہ سن کہ وہ خوف سے آپ کا منہ تکنے لگے گی۔

پرورش کے ان معاملات میں وہ چاہے راستے پر ہو چاہے غلطی پر عثمان اچھی طرح بڑا ہوتا چلا گیا۔ اس کی ماں کا دودھ بہ افراط سے تھا اس لیے اس کا پیٹ بھرنے کے لیے اسے کسی بکری کے تھنوں سے لگانے کی ضرورت

38

پیش نہ آئی بلکہ ہوا یہ کہ اس کی ماں اسے دو سال سے بھی اوپر دودھ پلاتی رہی اور یہ شاید غلط فہمی میں پلاتی رہی کہ ان ایّام رضاعت میں دودھ ضامن ہو جائے گا اور دوسرا بچہ جلدی پیدا نہ ہو گا۔ لیکن اس کی یہ توقع بعد میں غلط ثابت ہوئی۔ جب عثمان کے دو دانت نکل آئے تو اس کی ماں نے اسے بھنبھوڑنے کے لیے گوشت لگی ہڈی دینی شروع کر دی اور جب اس کی انگلیوں میں پکڑنے کی سکت آ گئی تو اسے روٹی کا ٹکڑا بھی ملنے لگا، جب وہ ذرا اور بڑا ہوا تو اس کی ماں اسے گود میں لے کر اس کے منہ سے پیالہ لگا دیتی اور وہ بکری اور گائے کا دودھ پی لیتا، کبھی اس کی ماں اور اکثر اس کا باپ ایک لمبی سی میٹھی روٹی میں سے ایک ٹکڑا اپنی چھری سے کاٹ کر دے دیتا۔ یہ روٹی ایک چینی پھیری والے سے خریدی جاتی تھی مگر دراصل یہ روٹی زاری روس سے آیا کرتی تھی۔

جب عثمان نے رینگنا شروع کیا تو پلنگڑی کی طرح اب بھی اس کی ماں نے اسے اسی کے حال پر چھوڑ دیا۔ گھر کے کام میں اتنے زیادہ تھے کہ وہ اس کی نگرانی نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے باپ کا زیادہ وقت گھر سے باہر گزرتا تھا۔ بیشتر تو وہ اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کرتا اور کبھی کبھی اینی چھرّے دار بندوق لے کر شکار کھیلنے نکل جاتا۔ جاڑوں میں وہ اپنے شکاری شاہین سے شکار کھیل کرتا، ایسا بھی ہوتا کہ دو دو تین تین دن کے لیے گھر سے چلا جاتا۔ لہٰذا تمام قازق بچوں کی طرح عثمان کو اپنی احتیاط خود ہی کرنی پڑتی۔ شرارتوں کے نتائج اور خطرات میں پڑنے کے عواقب اسے خو د ہی انگیز کرنے پڑتے۔ پیدا ہونے کے بعد نانا نے جو تعویذ اس کے گلے میں ڈالے تھے اس نے ماں باپ سمجھتے تھے کہ یہ تعویذ عثمان کو ہر گناہ سے محفوظ رکھیں گے ۔ان تعویذوں

39

میں عثمان کا نام لکھا ہوا تھا اور قرآن مجید کی میتیں لکھی ہوئی تھیں۔ کپڑے کے دو ٹکڑوں میں تعویذ سلے ہوئے تھے اور ان میں ایک ڈوری پڑی تھی۔ عثمان زندگی بھر ان تعویذوں کو اپنے گلے میں پہنے رہا۔ قازقوں کے عام رواج کی طرح اس کے مرنے پر یہ تعویذ بھی شاید اس کے ساتھ ہی دفن ہوتے، لیکن جن اشتراکیوں نے اس کا سر تن سے جدا کیا، نہ تو سر کو دفن کیا اور نہ دھڑ کو۔

جب عثمان خودبخود کھڑا ہونا اور چلنا سیکھ گیا تو اسے سب سے زیادہ خطرہ اس کھلی ہوئی آگ سے تھا کو الاؤ کے وسط میں متواتر جلے جاتی تھی اور اس دیگ اور کیتلی سے بھی جو اس آگ پر لٹکتی رہتی تھی، اگر وہ لوہے کے اونچے تپائے کی بے خیالی میں جا پڑتا یا گرنے سے بچنے کے ہے ان کھولتے ہوئے ظروف کو پکڑ لیتا تو پانی یا آگ سے جل جاتا بلکہ شاید جل کر مرجاتا۔ اسلام باعی کے قبیلے میں اس قسم کے حادثے اکثر پیش آ چکے تھے۔ لیکن یہ اللہ کا کرم تھا یا پھر تعویذوں کی برکت کہ وہ اس مصیبت سے بچا ہی رہا۔

جب وہ چل کر خیمے کے دروازے کے باہر جانے کے قابل ہو گیا تو اس کی ماں نے ایک اور حفاظتی تدبیر کی، وہ یہ کہ اس کے سینے پر کوٹ کے نیچے حفاظت سے ایک ٹکڑا روٹی کا رکھ دیا کرتی کہ اگر پڑاؤ سے دور نکل جائے اور راستہ بھول جائے تو بھوکا نہ مرنے پائے۔ یہی سوچ کر اس کی بہن کے گلے میں ایک تھیلی ڈال دی گئی تھی جس میں بھُنے ہوئے چنے یا مٹر کے دانے بھرے ہوئے تھے۔ آج کل ترکی میں بھی قازق مائیں اسی پرانے دستور پر عمل کرتی ہیں۔ بھنا ہوا غلّہ زمانی قدیم سے خانہ بدوشوں کا احتیاطی کھاجا سمجھا جاتا ہے۔ حضرت داؤد کے زمانے تک میں اس کی مثال موجود ہے کہ

40

وہ اپنے بھائیوں کے لیے محاذ جنگ پر بھُنا ہو غلّہ اور سردار کے لیے پنیر کے ٹکڑے لے کر گئے تھے۔

جب عثمان اپنی ماں کے خیمے سے باہر نکل کر چلنے کے قابل ہو گیا تو پہلا کام اس نے یہ کیا کہ ان پالتو کتّوں سے دوستی گانٹھی جو خیمے کے باہر بیٹھے حفاظت کرتے تھے اور جب کبھی کسی انجانے آدمی کو آتا دیکھتے تو بھونکنے لگتے۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر اس کے ماں باپ کو اس دوستی کا علم ہو جاتا تو وہ عثمان کو اس خلا ملا سے باز رکھتے، کیونکہ مسلمان کتے کو نجس سمجھتے ہیں اور دنیا کے اس حصے میں تو بے قیاس نسلوں سے یہ چلا آ رہا تھا کہ کتے ہی سارے خیمے کی گندگی ٹھکانے لگاتے۔ لیکن عثمان کے ماں باپ کو اپنے ہی کاموں سے کب فرصت تھی کہ یہ بھی دیکھتے کتے کیا کر رہے ہیں اور کہیں ان کے بچے کے ہاتھ پاؤں تو نہیں چاٹ لیتے۔

کچھ دنوں بعد عثمان اور آگے بڑھ کر کے کھیتوں میں نکل جاتا جہاں اس کے باپ کے بھیڑوں کے گلّے چرتے ہوتے۔ کبھی ان سے کھیلنے پہنچ جاتا اور کبھی ان کے کے لیے ماں باپ کا دیا ہوا دانہ چارہ لے جاتا۔ جب ذرا جی کھل گیا تو ان پر سوار ہونے لگا۔ اسی میں اگر گر پڑتا تو کبھی ہنستا اور کبھی روتا اور پھر سوار ہو جاتا۔

لیکن ادھر تو عثمان اس قابل ہوا کہ ایسے کام کر سکے، ادھر گرمیاں اختتام پر آ پہنچیں اور اسلام باعی کو نو دنتی کنگھی کی وادی سے اتر کار ارتعش کی وادی میں آ کر یہ دیکھنا تھا کہ اس کی عدم موجودگی میں فصلیں کیسی ہوئیں۔ اسلام باعی کہ لیے سال کی اچھی فصل یہ ہوتی تھی کہ اس کا بویا ہوا غلّہ سو گنا ہو جائے یا اس سے کچھ زیادہ۔ کیونکہ یہاں

41

گیہوں کا پودا ایک فٹ سے اونچا نہیں ہوتا۔ اگر کسی سال فصل خراب ہو جاتی تو اسے اپنے جانور منڈی میں بیچ کر پن چکی والوں سے غلّہ خریدنا پڑتا کیونکہ شہر میں انہی پن چکی والوں سے وہ آٹا پِسوایا کرتا تھا۔ بعض قازقوں نے کہیں کہیں پن چکیاں لگا رکھی تھیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اسلام باعی بھی ایک آدھ چکی کا مالک ہو جاتا۔

عثمان بطور کے سال اول میں یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ لڑکا کتنا نیک قدم پیدا ہوا ہے اور اللہ نے فصلوں میں کتنی برکت دی ہے، اسلام باعی اور اس کی بیویوں اور اس کے ملازموں نے نمدے دار خیموں کو جلدی جلدی اتارا اور ان کے تمام حصوں کو لپیٹ کر سڈول پلندے لگا دیئے۔ عورتوں نے لکڑی کے بڑے صندوقوں میں اپنے بسترے، قالین، لباس، دستاویزات اور کتابیں احتیاط سے رکھیں۔ ان چوبی صندوقوں کے اوپر تانبے اور پیتل کے پترے چڑھے ہوئے تھے تا کہ ان سے لدے ہوئے جانور اگر پانی میں سے گزرتے ہوئے پانی میں گِر بھی پڑیں تو ان کے اندر کے سامان تک پانی نہ پہنچ سکے۔ لوہے کی بڑی دیگ جو کوئی من بھر کی تھی خود اسلام باعی کے چھانٹے ہوئے ایک مضبوط اونٹ پر لادی گئی، جب سارا سامان لد چکا تو ایک اونٹ کے دونوں کوہانوں کے درمیان عثمان کی پلنگڑی جکڑ دی گئی اور خود عثمان کو بھی تسموں سے اس پلنگڑی میں باند دیا گیا۔ راستے مین خبھی کبھی ایسا ہوتا کہ اس کی ماں اسے اپنے گلے میں پڑی جھولی میں ڈال لیا کرتی۔ افراد خاندان کا اور جو سامان تھا وہ بقیہ جانوروں پر لاد دیا گیا اونٹ، گائے، بیل، بھیڑ، بکریاں اور گھوڑے سب بار برداری کی سکت کے مطابق لدے ہوئے تھے۔ جب یہ سارے مرحلے طے ہو گئے

42

اور انہیں اطمینان سے طے کرنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ نہ لگتا تھا۔۔۔ تو اسلام باعی، اس کی بیویاں اور اس کے ملازم اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور قافلہ روانہ ہو گیا۔ یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اسلام باعی کے قبیلے کے اور کتنے خاندان اس قافلے میں شریک ہوئے۔ صرف وہ شریک ہوئے ہوں گے جو اسلام باعی کی طرح "خشک" کسان ہوں گے، وہ لوگ جن کا کام صرف گلے چرانا ہے نو دنتی کنگھی کی وادی میں اس وقت تک ٹھہرے رہے ہوں گے جب تک خزاں کی زمہریری ہوائیں نہ چلنے لگی ہوں گی، اور پالا اور برف باری سے انہیں یہ اندازہ نہ ہو گیا ہو گا کہ اسلام باعی کی طرح اپنے سرمائی مقام پر واپس پہنچ جانا چاہیے۔

اسلام باعی کی کچھ ساتھی اور ملازم بھی اوپر کی وادی میں اس لیے رُکے رہ گئے ہوں گے کہ چرنے کے لیے کچھ جانور کچھ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے۔ جب ان کے گلے بان مناسب وقت پر ان جانوروں کو نچلی وادی میں لے کر پہنچے تو قازقوں کے پرانے دستور کے مطابق اسلام باعی نے انہیں گنا نہیں، بلکہ یہ دریافت کیا :۔

"وہ کالی بھیڑ کہاں ہے جس کی اگلی ٹانگیں سفید تھیں اور وہ پھیکے بھورے رنگ کی گائے کہاں ہے جس کا سیدھا سینگ اوپر کو اٹھا ہوا تھا اور وہ دھبیلی بکری کدھر ہے جس کے بال چھلے دار تھے؟"

اس کے ملازموں میں نے کہا :۔

"کالی بھیڑ کو بھیڑیا اٹھا لے گیا اور گائے نے اگلا بایاں پاؤں ایک چٹان کے شگاف میں اس بری طرح پھنسایا کہ اس کی ہڈی ٹوٹ گئی اور ہمیں اسے حلال کر دینا پڑا۔ اب رہ گئی دھبیلی چھلّے دار بالوں والی

43

بکری، وہ بڑھیا ہو چکی تھی، ہمیں جب گوشت کی ضرورت پڑی تو ہم نے اسے حلال کر لیا۔"

اگر بیان پر اسلام باعی کو یقین آ جاتا تو وہ کہتا "اللہ کی مرضی یوں ہی تھی۔" اور اگر یقین نہ آتا تو کہتا۔ "ہم اس معاملے کو بعد میں طے کریں گے۔" پھر اس کے بعد یہ ہوتا کہ کبھی زبانی جھگڑا ہوتا، کبھی مار پیٹ تک نوبت پہنچتی۔ شاید قضیہ قاضی تک پہنچتا یا پنچ اس کا فیصلہ کرتے۔

جیسے جیسے عثمان بڑا ہوتا گیا اس کا گھومنا پھرنا بھی بڑھتا گیا اور ہمّت اور دلیری کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ اس کے پاس بہت کم کھلونے تھے یا شاید ایک چھُری کے علاوہ اس کے پاس اور کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ چھُری اس کے لیے سارے کھلونوں سے زیادہ دقیع تھی۔ وہ ایک لکڑی کا گھوڑا بنائے خیموں کے چاروں طرف بھاگتا تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنے کسی ساتھی کی کمر ہاتھ ڈالتا اور ساتھی اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اور دونوں اس طرح دوڑ لگاتے۔ ایسے کھیل عموماً کُشتی پر ختم ہوتے۔ یہ مذاق کا مذاق ہوتا اور طاقت کی آزمائش بھی۔ اس طرح لڑکے آپس میں اپنا اپنا مقام بناتے۔ عثمان کو خاندانی لحاظ سے بھی قدرے فوقیت حاصل تھی۔ کیونکہ اس کا باپ جوزباشی یعنی سو خاندانوں کا سردار تھا لیکن لڑکپن اور نوجوانی میں اس کی اطاعت و عزّت کا سبب اس کی اپنی شخصیت تھی۔ اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی نو عمری ہی میں سب نے تسلیم کر لیا تھا کہ یہ لڑکا غیر معمولی ہے۔

تمام قازق بچوں کی طرح عثمان کی پرورش بھی سختی سے ہوئی تھی۔ اپنے باپ کے خیمے میں وہ کھانا کھاتا اور اپنا بیشتر وقت بسر کرتا،

44

سوتا وہ ماں کے خیمے میں تھا۔ اسے بہت کم حققق حاصل تھے۔ باپ کی بات کو سننا اور اس کے حکم کی فوراً تعمیل کرنا اس کے فرائض میں داخل تھا۔ اگر وہ کبھی غصے سے بے تاب ہو جاتا اور آپ ہی اس کی زبان چلنے لگتی تو اس کا باپ اس ہنٹر کی طرف ہاتھ بڑھاتا جو خیمے کے دروازے کے بائیں جانب خاندان والوں کی لگاموں اور زینوں کے ساتھ لٹکا رہتا۔

لیکن اکثر یہ ہوتا کہ اس کا باپ اس کی ماں کو بلا کر کہتا۔

"عورت! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سؤر یا شاید کتّا میرے عااوں کے آس پاس اس وقت تھا جب میں اس بیٹے کی پیدائش سے نو مہینے پہلے اپنے گلوں کی نگرانی کر رہا تھا ورنہ اس میں یہ جانوروں کے سے انداز کہاں سے آئے کہ بے اجازت بولے جا رہا ہے؟"

جب ایسی کوئی بات ہوتی تو عثمان رات کو بے کھائے پئے سو رہتا۔ پچاس سال پہلے جھوٹے لڑکے عموماً یہی کرتے تھے ۔ وہ لڑکے بھی جن کے گھر نمدے دار خیموں کے بدلے گارے اور اینٹ پتھر کے ہوتے اور جو خیمے کے دروازے کے پاس زمین پر تہہ دار گدّے پر پڑے رہنے کے بجاتے لوہے اور تار کی مسہریوں پر موٹے موٹے گبھّوں پر سویا کرتے تھے۔

باوجود اس قسم ی کی تنبیہوں کے ہمیں معلوم ہوا کہ عثمان اپنے باپ سے محبت کرتا اور اس کی عزّت کرتا تھا۔ جب دونوں باپ بیٹے سوار ہو کر یا پیدل پہاڑوں میں گھومتے پھرتے، تو باپ طرح طرح کی باتیں بیٹے کو سمجھایا کرتا، ایسے مواقع پر عثمان جو بات بھی چاہے آزادی سے اپنے باپ سے پوچھ سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ بیشتر سوالات جانوروں ہی کے

45

بارے میں ہوتے ہوں گے، ان سب جنگلی جانوروں کے متعلق اس نے پوری معلومات حاصل کر لی جو اس کھلی زمین میں قازقوں ہی کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے آباو اجداد ان دیہاتوں کی عام زمینوں پر زندگی بسر کرتے تھے جو بعد میں شخصی ملکیتوں میں تبدیل ہو گئیں۔

جب عثمان کی عمر نو یا سات یا پانچ سال کی ہوئی۔ یہ ہیمں یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ وہ آٹھ یا چھ ہا چار سال کا نہیں تھا تو ملّا بلایا گیا اور عثمان کی ختنہ کرا دی گئی۔ اس موقع پر بہت بڑی دعوت ہوئی کہ بچے کی زندگی کا پہلا سنگ میل تھا۔ ایک اور سنگ میل اس وقت آیا جب عثمان آٹھ سال کا ہوا اور اس کے باپ نے اسے قازقوں کے ایک مکتب کے خیمے میں داخل کرا دیا۔ عثمان کے خیمے کی طرح مکتب کا خیمیہ بھی عااول ہی کہلاتا تھا۔

جس مکتب میں عثمان نے جانا شروع کیا وہ انہی کے قبیلے کا تھا اور اس کے چلانے کا ذمّہ دار یہی قبیلہ تھا جس کا سردار اسلام باعی تھا۔ اس مین ڈیسک یا میز یا کرسی نہیں تھی بلکہ زمین پر چند چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں اور اس میں کم سے کم تعلیمی سامان تھا۔ تقریباً قازقوں کے ہر پڑاؤ میں ایک مکتب ضرور ہوتا تھا تا کہ بچوں کو چینیوں کے کسی اسکول میں جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ کیونکہ ان کے اسکولوں میں پڑھائی چینی زبان میں ہوتی تھی اور پڑھانے والے مسلمان نہیں ہوتے تھے۔ یہ نظریہ زبان نہ صرف قازقوں ہی کا تھا بلکہ ان تمام دوسرے نسلی گروہوں کا بھی جو مشرقی ترکستان میں آباد تھے۔ ،مثلاً ترک، منگول، کرغی تاتاری، ازبک

46

جن سے قازق عموماً علیحدہ رہتے تھے، بالخصوص بیسویں صدی کے آغاز سے۔

چنانچہ آٹھ سال کی عمر میں عثمان نے مکتب جانا شروع کیا جہاں اس کی ختنہ کرنے والا ملّا مذہبی رہنمائی بھی کرتا اور بچوں کو پڑھانا بھی۔ سب سے پہلے عثمان کو قرآن مجید شروع کرایا گیا اور چونکہ قرآن شریف عربی زبان میں ہے اس لیے عربی پڑھنا اور لکھنا بھی اسے سکھایا گیا۔ آگے چل کر بچوں نے اور چیزیں بھی پڑھیں مثلاً چنگیز خاں اور ایطّلا کی تاریخ کے علاوہ زمانۂ حال کے سورماؤں مشلاً بوکو بطور کے حالات، جو زندہ تھا اور بہادری کے کارنامے کر رہا تھا۔ پھر حساب اور جغرافیہ تھا اور سب سے اہم شاعری کہ شعر کیسے کہا جائے اور کیسے پڑھا جائے۔ بہت پرانے گیت اور نظمیں ایسی تھیں جن میں ماضی کی تاریخ درج تھی۔ ان مکن بے شمار اشعار تھے جنھیں عثمان اور اس کے ساتھی طلبا سے شام کے وقت خیموں میں باری باری سے سنا جاتا اور بچوں کے والدین بیٹھے سنتے رہتے۔ اور کبھی یاد دلانے کے لیے اشارے بھی دیئے جاتے جو سب سے زیادہ اشعار سناتا اس کی سب سے زیادہ تعریف ہوتی۔ یاد کرنے میں لڑکیوں کا حافظہ لڑکوں سے بہتر ہوتا تھا۔ لیکن عثمان لڑکیوں سے بھی بازی لے جاتا تھا۔

مكتبی علیم کے آغاز ہی سے قازقوں کی دل پسند قدیم موسیقی پر بچے اپنے بنائے ہوئے بول بٹھانے کی مشق کرنے لگتے تھے۔ ان نئے اشعار میں پرانے گانوں کی تلمیحات اور عہد رفتہ کے رسم و رواج کی طرف اشارے اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ انہیں سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ترکی میں قازق لڑکے لڑکیوں کو جب میں ان کے بنائے ہوئے

47

بول گاتے سنتا تو اس سوچ میں پڑ جاتا کہ اگر ہم اپنے کھیل سے قدیم دھنوں پر ہول کہنے کی فرمائش کریں تو وہ کیا کریں گے؟

عثمان اور اس کے ساتھیوں نے پہلا گیت جو مکتب میں سیکھا وہ " اطفال کا گیت" تھا جس کا مفہوم یہ تھا:۔

"اے عالم! بنام خدا ہم تیرا خیر مقدم کرتے ہیں، تیری تعلیم کا ایک لفظ بھی غلط نہیں ہے، تیرے شاگردوں کو ایک لفظ نھی غلط یاد نہیں ہے ۔"

عثمان کو جو ملّا پڑھایا کرتا تھا بڑا سخت آدمی تھے۔ لیکن عثمان خود برای شوتی شاگرد تھا۔ تھوڑے ہی عرصے میں وہ گیت گا کر سنانے لگا تھا۔ نظم گا کر لکھنے لگا تھا۔ گھوڑے کی سواری ایسی عمدہ کرنے لگا تھا کہ اسلام باعی کے قبیلے میں جتنے بھی نو عمر اور جوان تھے سب سے بازی لے گیا تھا۔ ان ہنر مندوں میں اس کی شہرت الطائی کے دوسرے قبیلوں میں بھہ پھیل گئی۔ کارا ملا جیسے گھومنے پھرنے والے بھاٹوں اور اسلام باعی کے ہاں آنے والے مہمانوں نے عثمان کی شہرت کو دور دور تک پہنچا دیا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں علاقے کے اس سرے سے اس سرے تک وہ ایک "روحانی" لڑکا مشہور ہو گیا۔ یہ خوبی بڑی عجیب سی لگتی تھی، خصوصاً ان خیموں میں رہنے والوں کی زبانی جن کی پوری پوری زندگی جانوروں کی پرورش میں گزر رہی ہو اور جنہیں نہ تو ما بعد الطبیعات کا کوئی علم ہو اور نہ روحانیت سے کوئی دلچسپی ہو۔ ان کے دلوں میں اپنے روایتی طرز زندگی کو محفوظ رکھنے کی جو ایک وجدانی خواہش اور ایک ناگفتہ عزم صمیم تھا اس کی البتہ ما بعد الطبیعاتی بنیاد ضرور

48

تھی لیکن لفظ روحانی کا استعمال عثمان کے تمام سابقہ ساتھی جو ترکی میں تھے جان بوجھ کر کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب وہ اس لفظ کو استعمال کرتے تو ان کا اشارہ اس قسم کی باتوں کی طرف ہوتا تھا۔ جیسے قازق طرز زندگی سے اس کی محبت، اپنے خاندان والوں اور اپنے متعلقین کی ذمہ داری اور اپنے پیروکاروں میں اعتماد پیدا کرنے کی صلاحیت۔ اسی میں غالباً وہ اس بے رحم نفرت کو بھی شامل کرتے تھے جو اسے اپنی قوم کے دشمنوں سے تھی، زمانے کے لحاظ سے اسے اس سے چینیوں سے نفرت تھی۔ لیکن شدت کے لحاظ سے اسے سب سے زیادہ نفرت اشتراکیوں سے تھی۔ یہ اشتراکی چاہے چینی ہوں چاہے روسی، کیونکہ قوم پرست چینیوں کی طرح وہ قازقوں کو گائے بکری سمجھ کر صرف ان کا دودھ نہیں نکال لیتے تھے بلکہ ان کی انفرادیت ہی کو مٹا دینا چاہتے تھے۔

لیکن نوجوانی میں عثمان کو صرف چینیوں سے نفرت تھی کیونکہ اس زمانے میں اشتراکی تھے ہی نہیں، وہ بڑے اشتیاق سے ان قازق سورماؤں کی داستانیں سنا کرتا جس ماضی میں چینیوں سے لڑ چکے تھے۔ اور جیسا کہ ایسی داستانوں اور رزمیہ نظموں میں عموماً ہوتا ہے، دشمنوں پر ہمیشہ غالب آتے تھے۔ انہیں کے نقش قدم پر چلنے کے خواب عثمان بھی ضرور دیکھتا ہو گا۔

ایک دن کا ذکر ہے عثمان کوئی گیارہ بارہ سال کا ہو گا۔ اس کے باپ کے خیمے کے باہر کچھ بے چینی پھیلی اور عثمان کا ایک چھوٹا بھائی بے تحاشا بھاگتا ہوا خیمے کے اندر کھس آیا۔ وہ جانتا تھا کہ ایسے مواقع پر یوں بے اجازت خیمے میں گھُس آنا تہدید کا باعث نہیں ہو گا وہ زور زور

49

سے کہے جا رہا تھا۔ "بوکو بطور آ رہا ہے۔ بوکو بطور آ رہا ہے ۔"

اسلام باعی نے پوچھا "ارے اُدھمی، تجھے کیسے معلوم ہوا کہ بوکو بطور آ رہا ہے۔ تو نے اسے کبھی دیکھا ہی نہیں۔"

"اس کا گھوڑا۔ جس کا ذکر ہم نے داستانوں میں سنا ہے۔ وہ شبدیز جس کا ایک بال بھی سفید نہیں ہے اور اس پر جو شخص سوار ہے اس کے سر پر بوکو بطور کی زرد تمک ہے اور اس میں کرئی الّو کے پروں کا طرہ لگا ہوا میں لہرا رہا ہے اور اس کے پیچھے بہت سے ہتھیار بند سوار ہیں، بوکو بطور کے سوا اور کون ہو سکتا ہے جو اس سج دھج سے آئے اور اس کا ارادہ حملہ کرنے کا بھی نہ ہو۔"

اب خیمے کے محافظ کتّے بھی زور زور سے بھونکنے لگے تھے۔ اسلام باعی جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور اس کی بیویاں بڑے بڑے چوبی صندوقوں میں اپنے شوہر کی رواجی تمک اور لمبا زرکار چغہ تلاش کرنے لگیں۔ خود انہیں بھی اپنے بہترین فرق پوشوں کی اس وقت ضرورت تھی۔

اسلام باعی نے اپنا لباس زیب تن کرتے ہی خیمے کے دروازے سے باہر نکل کر پردہ اوپر کو اٹھایا اور بولا :

"خوش آمدید۔ اندر تشریف لے چلیے۔ آپ کا آنا ہمارے لیے باعثِ تقویت ہے۔"

یہ کہہ کر وہ منتظر کھڑا رہا کہ بوکو بطور گھوڑے پر سے نیچے اُترے اور خیمے میں داخل ہو۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 85
تیسرا باب

عثمان بطور کا آغازِ شباب

عثمان بطور اگرچہ صرف چودہ سال کا تھا، تاہم جب نودنتی کنگھی کی وادی میں وہ اپنے باپ کے خیموں میں واپس پہنچا تو نہ صرف پکا چھاپہ مار بن چکا تھا بلکہ اپنے وقت کے سب سے مشہور چھاپہ مار سردار کو متوقع جانشین بھی سمجھا جانے لگا تھا۔ بوکو بطور کی اٹھارہ مہینے کی تربیت میں اس نے میدانِ جنگ میں دیوانہ وار گھوڑے کو سرپٹ دوڑانے کی سنسنی خیز سرخوشی کا تجربہ بھی حاصل کر لیا تھا۔ کولہے کے قریب رائفل رکھے وہ گولیاں بھر بھر کر چلاتا رہتا اور اپنے گھوڑے کو اپنے جسم اور ٹانگوں سے قابو میں رکھتا بلکہ اپنے تعاقب کرنے والوں پر زین ہی پر گھوم کر گولیاں چلاتا۔ اور جب حملہ ختم ہونے کا اشارہ کیا جاتا تو دشمن کے نرغے میں سے صاف نکل جاتا اور گھوڑا دوڑا کر پہاڑی کمیں گاہوں میں پہنچ جاتا۔ کئی بار یہ ہو چکا تھا کہ اسے دس دس بلکہ پچا س پچاس افراد کے دستوں کی کمان دی گئی۔ لیکن اکثر یہ ہوتا کہ وہ بوکو بطور کے شبدیز کے قریب سے قریب لگا رہتا تاکہ یہ جان جائے کہ


صفحہ 86
بوکو لڑائی میں اپنے آدمیوں کی رہنمائی کس طرح کرتا ہے۔ اور ان پر اپنا اثر کیسے قائم رکھتا ہے۔

جنگی چالوں کے لحاظ سے بوکو بطور کی پسندیدہ حکمت عملی یہ تھی کہ دشمن کو پریشان کیا جائے۔ بجلی کی طرح حملہ کیا اور پہاڑوں میں غائب ہو گئے، تاکہ دوسرا حملہ کہیں اتنی دور کیا جائے کہ چینیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتا ہو۔ جب یہ صورت حال ہوتی تو ان کے لڑنے والے آدمیوں کے ساتھ نہ ان کے بیوی بچے ہوتے اور نہ ریوڑ۔ اور ان کے پاس کوئی سامان بھی نہیں ہوتا تھا، سوائے سامان جنگ کے، جو کوتل گھوڑوں پر لدا رہتا۔ لہذا جب یہ ضرورت محسوس کرتے تو ایک ایک دن میں سو سو میل طے کر لیتے۔ اور چینی اگر تیس میں بھی دن بھر میں طے کر لیتے تو سمجھتے کہ انہوں نے کوئی بڑا کارنامہ کر لیا۔ لیکن آخر میں غالباً روسیوں کی شہ پر بوکو بطور نے ایک ایسی جنگ کا اقدام کیا جس کے لئے اس کے پاس نہ تو مناسب سامان جنگ تھا، نہ ذرایع رسل و رسائل ٹھیک تھے۔ اور نہ صحیح قسم کے لڑنے والے آدمی ہی تھے۔ اپنے وطن کے پہاڑوں میں قازق سوار ایک زبردست دشمن ثابت ہوتے تھے۔ ابھی یہاں، ابھی وہاں، نڈر، پھرتیلے اور اپنے علاقے کے چپے چپے سے پوری طرح واقف، مگر گھمسان کی لڑائی میں وہ اتنے کامیاب نہ تھے اور فصیل دار شہر کا محاصرہ کرنا تو سرے سے ان کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔ اور مشرقی ترکستان میں ایسے ہی شہر زیادہ ہیں۔

یہی وجہ تھی ھہ 1913ء؁ میں ہی بوکو بطور کو کچھ ایسی ہزیمت اُٹھانی پڑی کہ اس کے لیے صرف دو صورتیں باقی رہ گئیں، یا تو اپنے آپ کو دشمن


صفحہ 87
کے حوالے کر دے، جس کے معنی یہ تھے کہ یقیناً قتل کر دیا جائے یا پھر راہ فرار اختیار کرے۔ اس کے ساتھیوں کے لیے ایک صورت تو یہ تھی کہ چپکے سے کھسک کر کمین گاہوں میں روپوش ہو جائیں اور اس وقت تک چھپے رہیں جب تک چینی انہیں بھول نہ جائیں، یا پھر یہ کریں کہ جہاں کہیں بھی ان کا سردار جائے یہ بھی اسی کے ساتھ لگے رہیں۔ قازقوں کا طریقہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔ ہر لڑنے والے کو فرداً فرداً مکمل آزادی تھی کہ ان دونوں باتوں میں سے ایک کو پسند کر لے۔ ہر شخص جانتا تھا کہ اگر اس نے دوسری بات کو پسند کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اپنے خیمے اور فصلیں اکھاڑے اور اپنے پورے خاندان، بیوی بچوں، اپنے گلوں اور ریوڑوں کو ساتھ لےکر کم از کم ایک ہزار میل کے سفر پر روانہ ہو جائےئ، اور اس سفر میں ہر وقت خطرے سے دوچار ہونے کے لیے تیار رہے۔ یہ خطرہ چینوں کی طرف سے بھی ہو سکتا تھا اور تبتیوں کی طرف سے بھی۔ اور سب سے زیادہ اندیشہ بنجر صحراؤں اور پہاڑوں کی طرف سے ہو سکتا تھا کیونکہ ان کا راستہ انہی میں سے ہو کر جاتا تھا۔

بوکو بطور بہت بدقسمت تھا کہ وہ لاسا ایسے وقت میں پہنچا، جب تبت کی تاریخ میں اس سے زیادہ چینیوں کا اقتدار پہلے کبھی نہیں تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ اس نے اس خطرے کا احساس کر لیا تھا، جبھی تو اس نے عثمان کو الطائی واپس جانے کا حکم دیا تھا۔ ورنہ وہ اس لڑکے کو گھر واپس بھیج دینے کے بدلے ٹھیک ارض موعود تک اپنے ساتھ لے جاتا۔

عثمان نے اپنے گھر کی جانپ سفر کارا شہر کے قریب سے شروع کیا تھا۔ یہ ایک فصیل دار شہر ہے۔ تئین شان پہاڑوں کے جنوبی دامنوں میں ایک جھیلکے کنارے، عثمان کے مسکن سےکارا شہر تین سو میل کے


صفحہ 88
فاصلے پر ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ گھوڑے پر اس نے یہ سفر ایک ہفتے میں طے کیا۔ اس سفر میں وہ مشہور شہر طرفان میں سے گزرا جو سطح سمندر سے 960 فٹ نیچےایک وادی میں ہے۔ طرفان میں اتنی گرمی ہوتی ہے کہ یہاں کے عورت مرد صرف رات ہی کو کھیتی باڑی کر سکتے ہیں لیکن طرفان کے انگور دو انچ لمبے اور ایشیا بھر میں سب سے میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں۔ تربوز بھی یہاں کے اتنے ہی بڑے اور شیریں ہوتے ہیں۔

راستہ جیسا کچھ بھی تھا، کچھ تو مزروعہ زمینوں میں سے تھا اور کچھ لق و دق میدانوں اور صحراؤں میں سے بعض مقام ایسے تھے کہ ان میں پتھریلی زمین پر سے گزرنا ہوتا تھا اور راہ کا تلاش کرنا مشکل ہو جاتا۔ لیکن اس کی نشاندہی اونٹ، گھوڑے اور دوسرے جانوروں کے وہ پنجر کرتے تھے جو تھوڑے تھوڑے سے فاصلے پر پڑے ہوتے۔ چیلوں اور گیدڑوں کی خوش نصیبی سے یہ جانور بیدم ہو کر گرتے اور مرتے رہتے۔ کبھی کبھی راستے کے کنارے پتھروں کا ایک ڈھیر سا نظر آتا جو زبان حال سے کہتا کہ میں تمہارے ہی طرح کے ایک انسان کی ڈھیری ہوں۔ اس راہ میں جو مسافر مر گیا وہ یہاں دفن ہے۔ تنہا مسافر کو خواہ وہ تجربہ کار ہی کیوں نہ ہو، جب ایسی راہ سفر اختیار کرنی پڑتی تو اسے اپنے ہوش و حواس ہر وقت قائم رکھنے پڑتے۔ اور عثمان کو جو ابھی صرف چودہ سال ہی کا تھا، اور بھی زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت تھی۔ اس کی کچھ شہرت بھی ہو چلی تھی۔ اگر کوئی چینی افسر یا فوجی اسے دیکھ لیتا اور پوچھ بیٹھتا کہ تم اتنی کم عمر کے قازق اپنے گھر سے اتنی دور یہاں کیا کررہے ہو؟ تو شاید اس سے کوئی جواب نہ بن پڑتا۔ لہذا جب بھی وہ کسی فصیل دار شہر یا


صفحہ 89
بازار میں اپنے اور گھوڑے کے لیے کھانا دانا خریدنے جاتا ہو گا تو ضرور اس کا دل لرزتا ہو گا، مگر جب دن گزرتے رہے ہوں گے اور وہ کسی ایسی پریشانی میں مبتلا نہ ہوا ہو گا تو اس کی خوف روز بروز کم ہوتا چلا گیا ہو گا۔

جب عثمان اپنے باپ کے خیمے پر پہنچا تو کوئی اچھا فربہ برہ اس کے لیے حلال نہیں کیا گیا، کیونکہ قازقوں کا یہ دستور نہیں ہے۔ اتنا لمبا سفر دشمنوں سے بچتے ہوئے طے کر لینے پر بھی اس کے باپ نے اسے مبارکباد نہیں دی۔ بلکہ اگر وہ سلامتی سے اس سفر کو طے نہ کرتا تو اسلام باعی اسے احمق قرار دیتے۔ اس کے علاوہ اسلام باعی کو اس کی احتیاط بھی رکھنی تھی کہ لوگ اس کے بیٹے کی غیر حاضری پر چہ میگوئیاں نہ شروع کر دیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی دغاباز یا محض افواہ باز چینیوں کو اس راز سے آگاہ کر دے۔

چنانچہ عثمان پھر اپنے باپ کے خیموں میں پہلے کی طرح رہنے لگا۔ گویا پچھلے بیس مہینوں میں کوئی غیر معمولی بات اسے پیش نہیں آئی تھی۔ اس کے واپس آ جانے کے بعد اکثر ایسا ہونے لگا کہ پڑاؤ میں اکثر انجانے آدمی آ جایا کرتے۔ انہیں عثمان پہچان جاتا لیکن اپنی واقفیت کا کوئی اظہار نہ کرتا۔ اس کا باپ قازقوں کی روایتی مہمان نوازی کے مطابق ان کی خاطر مدارت کرتا اور وہ اگلے دن صبح سویرے اس طرح رخصت ہو جاتے جیسے عثمان سے ان کی پہلے کوئی ملاقات نہیں ہے۔ لیکن عثمان کو وہ یہ باور کرا جاتے کہ وقت آنے پر وہ سب اس کی ایک آواز پر اس کے گرد جمع ہو جائیں گے اور چینیوں پر ٹوٹ پڑیں گے۔ عثمان ان کے نام اور مقام اپنے حافظے میں محفوظ کر لیتا اور انہیں کاغذ پر نہ لکھتا، تاکہ پرچول کرنے


صفحہ 90
والی آنکھوں سے یہ راز بچا رہے۔ اسے کاغذ کا اعتبار نہیں تھا۔

ایسے ہی ایک مسافر وے عثمان نے پہلی بار سُنا کہ اس کے پیارے استاد کا سر قلم کر دیا گیا۔ اس کا کوئی ثبوت تو نہیں ہے لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ عثمان نے جب یہ خبر سُنی تو اس نے قسم کھائی کہ میں بوکو بطور کی موت کا ہزار گُنا بدلہ لوں گا۔ اپنی زندگی کے بعد کے حصے میں اس نے اپنا یہ اصول بنا لیا تھا کہ مشرقی ترکستان سے چینیوں کا نام و نشان تک مٹا دینے کی کوشش میں لگا رہے۔ بوڑھے، بچے، عورتیں کسی پر ترس نہ کھائے اور ان سے کسی قسم کا معائدہ نہ کرے۔

یہ امر مشتبہ ہے کہ اس جارحانہ اصول کو عثمان نے پہلے اختیار کیا یا چینیوں نے، لیکن یہ ایک ایسا اصول ہے جسے دونوں فریقوں نے 1944ء؁ کے بعد بھی ترک نہیں کیا۔ جب مشرقی ترکستان اور خود چین حصول خود مختاری کے لیے چینی اور روسی اشتراکیوں کی ملی جلی فوجوں سے برسرِ پیکار تھا۔

واپس آنے کے چند سال بعد تک عثمان ایک نوجوان قازق کی سی عام زندگی بسر کرتا رہا۔ وہ اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا۔ اپنی عمر کے نوجوانوں کے کھیلوں اور مقابلوں میں شریک ہوتا، نیم وحشی گھوڑوں کو پہاڑوں پر سے گھیر لاتا اور مقامی چینی افسروں کے دیئے ہوئے نشان سے انہیں داغتا اور ان کا اندراج کراتا۔ شکاری شاہین جو اس کے گھر میں الطائی لومڑیوں کو شکار کرنے کے لیے پالے جاتے، ان کو سدھانا اس نے سیکھ لیا تھا۔ لومڑیوں کی کھالیں انہیں اپنے کپڑوں میں استر لگانے کے لیے درکار ہوتیں۔ وہ اپنے باپ کی بھیڑوں کا اون بھی کاٹتا، ترقی یافتہ


صفحہ 91
ملکوں کی طرح نہیںکہ سال میں ایک دفعہ اون کاٹا جائے جب اون خوب اچھی طرح بڑھ آئے بلکہ جب بھی مقامی بازار میں اون کے دام چڑھے ہوئے ہوں یا جب گھر والوں کو نمدے کی ضرورت ہو، اس کام کے لیے عثمان اپنے ایک ملازم سے کوئی ایسی بھیڑ پکڑواتا جس کا اون عرصے سے کاٹ انہ گیا ہو، اور ایک بڑی سی قینچی سے، جس سےہمارے ہاں مالی گھاس کے چھوٹے قطعے تراشتے ہیں، اس کا اون کاٹ لیتا۔ ہمارے نقطۂ نظر سے یہ طریقہ بڑا سست اور نفع بخش بھی کم ہے، کیونکہ ایک بھیڑ کا اون کٹنے میں عثمان کو ایک گھنٹہ صرف ہو جاتا تھا۔ لیکن ہماری ضرب المثل کی طرح قازقوں میں وقت اور دولت ہم معنی لفظ نہیں ہیں۔

جب عثمان سولہ برس کا ہوا، اس کی تاریخ پیدائش کسی کو معلوم نہیں ہے، تو اس کے باپ نے کہا، "اب تمہیں اپنی شادی کی فکر کرنی چاہیے۔"

اسلام باعی نے کہا، "میں نے اور تمہاری ماں نے اس معاملے پر بہت غور کیا ہے۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ تم پہلونٹی کے ہو۔ تمہیں اس عمر میں شادی کر لینی چاہیے، جب تم بالغ ہو جاؤ تاکہ ہماری نسل ختم نہ ہونے پائے۔"

عثمان نے پوچھا۔ "کیا کوئی مناسب رشتہ آپ کی نظر میں ہے؟"

اسلام باعی نے کہا، "ہمارے پڑاؤ میں تو نہیں ہے، یہ تم بھی جانتے ہو، لیکن ایک لڑکی ہے جس کی تعریف سُنی ہے۔ باعی ملا کی بیٹی۔ وہ ہے تو ہمارے قبیلے ہی کا، مگر ہمارا ہم خیال نہیں ہے۔ اس کی اور بھی کئی لڑکیاں ہیں، اس لیے وہ زر شادی زیادہ طلب نہیں کرے گا۔"

عثمان نے پوچھا، "کیا قائنی میری محرم نہیں ہے؟ اگر ہے تو


صفحہ 92
اس سے شادی نہیں ہو سکتی۔ شرع نے ایسے رشتے کو حرام قرار دیا ہے۔"

اسلام باعی نے کہا، "تم جانتے ہی ہو، ہمارے قبیلے کا یہ رواج چلا آتا ہے کہ اگر چار پشتوں تک بھی ایک جد نہ ہو جاتا ہو تو نکاح جائز سمجھا جاتا ہے اور وہ کیا مثل ہے۔ "وہ جو اپنی سات پشتوں کے اجداد کے نام نہ بتا سکتا ہو، جھوٹا اور کافر ہے۔" آٹھ پشتوں تک باعی ملا کا اور میرا کوئی جد مشترک نہیں ہے۔"

عثمان کی ماں خاموش بیٹھی اس کی باتیں سُن رہی تھی، اب وہ بولی : "جب میں نے تمہارے باپ سے شادی کی تو میں نے ملازمہ کی حیثیت سے ان کی والدہ کے خیمے میں پورے سال بھر شادی سے پہلے خدمت کی۔ پھر جب ملا نے ہم دونوں سے پوچھا، "بتاؤ کیا تم دونوں کو یقین ہے کہ تم دونوں یک جا خوش و خرم رہ سکو گے، تو ہم دونوں نے سچے دل سےکہا، "ہاں"

اسلام باعی نے کہا، "میری باعی بی شا، یہی تمہارے بیٹے کو بھی کرنا ہو گا۔ شادی ہونے تک لڑکی تمہارے خیمے میں ملازمہ کی طرح کام کرے گی۔ مگر ذرا اس کا خیال رکھان کہ ون دونوںمیں کوئی بے وقوفی کی حرکت نہ ہونے پائے، ورنہ مجھے تمہارے فرض کی عدم ادائیگی کی قیمت زر شادی کی صورت میں بھرنی پڑ جائے گی۔ اگر اس لڑکی نے خوشنودی حاصل نہیں کی تو وہ جیسی آئے گی اپنی ماں کو لوٹا دی جائے گی۔ اس سے آپس میں کسی قسم کا بگاڑ نہیں ہونے پائے گا۔ اور اگر اس لڑکی نے رضامندی حاصل کرلی تو ان دونوں کی شادی کر دی جائے گی۔"

لہذا شادی کرانے کے لیے ایک مناسب آدمی تلاش کر لیا گیا۔ اس نے


صفحہ 93
پہلے عثمان باعی سے طویل اور مفصل گفتگو کی۔ اس کے بعد لڑکی کے باپ کے خیمے میں گیا اور یہ معلوم کیا کہ اپنی لڑکی دینے کے لیے اسے کتنے اونٹ، مویشی، بھیر، بکریاں یا گھوڑے لینے ہیں۔ باعی ملا کوئی تیس میل دور رہتا تھا اور رشتہ کرانے والے کو بڑی ہوشمندی اور سلیقہ شعاری کی ضرورت تھی، کیونکہ لڑکی والا ڈرتا تھا کہ لابانؔ کی طرح مرے گرے مویشی پر کہیں لڑکی کا سودا نہ ہو جائے۔ اس لیے شرائط طے ہونے میں خاصی دیر لگ گئی۔ بہرحال یہ معاملہ بھی ختم ہو گیا۔ مگر صرف آزمائش کی حد تک، کیونکہ قازقوں میں یہ رواج ہے کہ ناپسندیدگی کی صورت میں فریقین میں سے کوئی بھی رشتہ واپس لے سکتا ہے۔

لیکن قائنی شروع ہی سے ہر دلعزیزی حاصل کرنے لگی۔ عثمان کی خوشنودی بھی اس نے حاصل کر لی اور اس کے خیموں میں رہنے والوں کی بھی۔ وہ لکھنا پڑھنا جانتی تھی اور شعر کہنا اور گانا بھی جانتی تھی۔ اس کے علاوہ محنت مشقت سے جی نہیں چراتی تھی اور نہ صرف دستکاریوں میں ہوشیار تھی بلکہ ایک پُرانی گھسی گھسائی سنگر کی سلائی مشین سے بھی سی لیتی تھی۔ یہ مشین کسی قازق سردار نے کوئی چالیس سال پہلے اپنی بیویوں کے استعمال کے لیے منگائی تھی۔

ہمیں اس کا علم نہیں ہے کہ جب عثمان کی شادی ہوئی تو اس کی پہلی بیوی کی کیا عمر تھی اور نہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں اور کتنی شادیاں کیں۔ اس کا البتہ ہمیں یقین ہے کہ کسی ایک وقت میں بھی، اس کی چار سے زیادہ بیویاں نہیں تھی، کیونکہ شریعت اسلامی میں ایک وقت میں اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے اور عثمان اپنے


صفحہ 94
مذہبی اصولوں پر سختی سے کاربند تھا، اس کی ایک بیوی اس کے ساتھ خیمہ میں رہتی تھی، باقی بیویوں کے اپنے الگ الگ خیمے تھے۔ قازقوں میں یہ بُرا سمجھا جاتا تھا کہ ایک خیمے میں دو بیویاں رہیں۔

قائنی یہاں آتے ہی بستر کی توشکیں، قالین، کشیدہ کاری کے پردے اور خاص خاص موقعوںپر پہننے کے لیے نفیس لباس تیار کرنے میں مصروف ہو گئی۔ اس عرصہ میں عثمان کے باپ اور ماں اور ملازم ان چیزوں کی فراہمی میں لگے رہے جو رواج کے مطابق دولہا کے ماں باپ کو مہیا کرنی پڑتی ہیں۔ انہوں نے کئی بھیڑوں کا اون اُتروایا، خیموں کے قریب جو چشمہ بہتا تھا اس میں اس اون کو دھو دھلا کر صاف کیا اور اسے زمین پر پھیلا دیا تاکہ اسے پیروں سے مالیدہ کر کے کوئ ¾ انچ موٹا نمدا بنا لیا جائے۔ اس نمدے کی ضرورت عثمان کے نئے خیمے کےلیے تھی۔ خیمے کے ہر حصے کے لیے اس کے فرش کے مطابق نمدا تھوڑا تھوڑا سے بنانا تھا۔تاکہ خشک ہونے پر اس کے سکڑنے کی گنجائش رہے، اون کو پانی میں بھگو کر خوب اونچا اونچا فرش پر پھیلایا گیا۔ پھر دونوں روزانہ کئی کئی گھنٹے ملازم ننگے پیروں سے اسے مالیدہ کرتے رہے اور حسب ضرورت اس میں اون کا اضافہ کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ دب دبا کر خوب دبیر ہو گیا اور ایسا کہ ہوا اور بارش کا س میں گزر نہ ہو۔ عثمان چونکہ ایک سردار کا بیٹا تھا اور اپنے حلقے کا خود بھی سردار تھا اس لیے وہ سفید خیمے میں رہتا تھا۔ جو اس سے کمتر درجے کے لوگ تھے وہ سیاہ یا مٹیالے خیموں میں رہتے تھے۔

جب شادی کا دن آیا تو ملا نے دولہا اور دلہن سے پوچھا، "کیا تم


صفحہ 95
دونوں یکجا خوش رہ سکو گے۔" اس پر دونوںنے کہا "ہاں"۔ ملا نے ان دونوں کے میاں بیوی ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس رات ایک بڑی ضیافت ہوئی جس میں دلہن واے اور دولہا واے اور یقیناً ملا جی بھی شریک ہوئے۔ اور دولہا دلہن پہلی بار ایک علیٰحدہ خیمے میں سوئے۔ اگلے دن سے اسلام باعی کے ذاتی ملازم اور کارکن عثمان کے ماتحت نہیں رہے اور عثمان نے بھی ان سے کام لینا چھوڑ دیا۔ جب تک باپ جیتا رہا، عثمان کو ان پر کوئی اختیار نہیں رہا۔

عثمان کی شادی کو چند مہینے ہی ہوئے تھے کہ الطائی کے پہاڑی دروں پر خفیف سی بدلیاں چھا گئیں۔ یہ بدلیاں اس دھماکے سے اٹھی تھیں جس نے چار پانچ ہزار میل دور، نرار کے ظلم و ستم کو برباد کر دیا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر جبر و تعدی کی ایک اور حکومت قائم کر دی تھی۔ 1917ء؁ کے اکتوبر میں جو انقلاب ہوتا تھا (ہماری تقویم کے مطابق یہ مُبینہ انقلاب نومبر میں ہوا تھا) اس میں قازقستان کے تارکین وطن نائمان قازق قطار در قطار روسی چینی سرحد کو عبور کر کے آنے لگے۔ یہ مہاجر اپنے گلے اور ریوڑ لیے گروہ در گروہ آتے رہے۔ ان میں سے کچھ لوگ الطائی کے جنوب مغرب میں خلدزاکی سرحد کو مصائب جھیل کر پار کر گئے۔ کچھ تارباغتائی پہاڑوں کو گرتے پڑتے پار کر گئے، جہاں سے زنگاریہ کو راستہ جاتا ہے۔ بعض ارتعشِ اسود کی وادی میں سے ہو کر آئے اور بعض خود الطائی کے بلند و پست کو طے کر کے آئے۔

مہاجروں کی یہ آمد اونٹ کی رفتار یعنی تین میل گھنٹہ کے حساب سے ہوتی رہی اور ایک سال سے زیادہ تک جاری رہی۔ یوں کوئی


صفحہ 96
ایک لاکھ قازق موجودہ ممالک سویت سے اٹھ کر مشرقی ترکستان میں داخل ہو گئے۔ کیونکہ اشتراکیت ان کے روایتی طرز زندگی کےلیے ایک خطرہ ثابت ہونے لگی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کے لاکھوں مویشی بھی تھے۔ اونٹ، گائے، بیل، بھیڑ بکریاں اور گھوڑے۔ آخر میں ترکِ وطن کی یہ تحریک رُک گئی، کیونکہ لینن کے ماتحت اشتراکیوں نے ایک دم سے یہ ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ روس چھوٹی قوموں اور وسطی ایشیا کی مقبوضہ آبادیوں کا پشت پناہ ہے۔ جب دس سال بعد اسٹالین نے اجتماعی زراعت کی تحریک شروع کی اور ناپسندیدہ کسانوں کو زبردستی کانوں اور کارخانوں میں دھکیلنا شروع کر دیا تو قازقوں نے پھر اپنے وطن سے نکلنا شروع کر دیا۔ اس دفعہ کوئی ڈھائی لاکھ قازق قافلے بنا بنا کر جنوب مشرق کی طرف چل کر اپنے خاندانوں، گلوں اور ریوڑوں سمیت مشرقی ترکستان میں پہنچ گئے۔ اس سے قازقستان جو ممالک متحدہ سویت روس کی دوسری سب سے بڑی جمہورت ہے، جانوروں سے تقریباً بالکل محروم ہو گیا۔ 1933ء؁ میں جب شنگ شی تسائی کی صوبہ داری میں روسی اشتراکیوں نے ان تارکین وطن کا بہت پیچھا لیا تو ان کے اکثر خاندان چند سالے کے عرصہ میں دوبارہ سویت قازقستان میں واپس آ گئے۔ لیکن کچھ مشرقی ترکستان ہی میں رہ پڑے۔ ان میں سے کچھ لوگ تبت اور ہندوستان نکل گئے اور کسی نے ان کی روک ٹوک نہیں کی۔ جو ہندوستان پہنچ گئے وہ یہاں کے موسم کی تاب نہ لا سکے اور ان میں سے بہت سے مر گئے۔

عثمان نے یقیناً ان خانہ بربادوں کو چینی عملداری میں گھسٹتے دیکھا


صفحہ 97
ہو گا اور وہ یہ بھی جانتا ہو گا کہ اشتراکی مظالم سے اپنے طرز زندگی کو بچانے کے لیے یہ مہاجر ایک امید موہوم پر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی آمد اور ترک وطن کے سبب نے عثمان کو کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا اور نہ ان سب قازقوں پر ان کا کوئی اثر ہوا جو ایک اور یعنی چینی جبر و تشدد کا شکار تھے۔ عثمان کی نظروں میں وہ چینی جن سے انہیں ہمیشہ سے سابقہ رہا تھا اب بھی قازقوں کے دشمن ہی تھے اور قازقوں کے دوست روسی تھے۔ مگر دوست کس قسم کے تھے یہ آگے چل کر انہیں معلوم ہوا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
----------
صفحہ 116
----------
نظریات کو ہر گز قبول نہ کرنا کیونکہ ایسی باتیں کفر ہوتی ہیں۔

حمزہ سے اس نے کہا ک" تم خود میدان میں جا کر دیکھ لو۔ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ دنیا سپاٹ ہے اگر کوئی سیدھا چلتا چلاجائے تو کئی دن بعد وہ کنارے پر پہنچ جائے گا اور اگر وہ پھر بھی نہ رکا تو نیچے گر پڑے گا۔"
عندالعزیز کے شاگردوں بلکہ بلکہ ان کے بزرگوں میں بھی اس موضوع پر بحث مباحثے ہوتے رہے اس وقت یعنی سن 1935 ع میں کچھ مغربی یورپ میں رہنے والے اور چند ہندوستانی مشرقی ترکستان میں آباد تھےان میں ایک مناس میں بھی تھا اس کے قازق اور ترک دوستوں نے اس مسئلے کے متعلق اس کی رائے مولوم کرنی چاہی اس نے انہیں بتایا کہ میں کچھ ایسے لوگوں کسے واقف ہوں جو جہاز میں سوار ہو کر پوری دینا گھوم آئے اور جہاں سے روانہ ہوئے پھر اسی مقام پر لوٹ آئے، یہ سن کر مقامی مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ نصاب کی کتابوں نے بالکل صحیح بات بتائی ہے اس طرح کی تصدیقوں سے قازقوں کا اعتماد سویت کی صدق بیانی میں بڑھتا چلا گیا۔

مناس کے مکتب میں حمزہ دو سال رہا یعنی سن 1736ع تک۔ اسی سال حسین تجی اور سلطان شریف بارکل سے نکل کر اس جھیل کے کنارے جا کر خیمہ زن ہوئے اور گھمسان کے رن میں حمزہ بھی شامل ہو گیا۔

علی بیگ جو اس وقت تک اس قبیلے کے ٹیکسوں کے مسائل طے کرنے کا افسر تھا اب وہ بھی حملہ آوروں میں شامل ہو کر یونس حجی کی سرکردگی میں دس ہزاری سردار بن گیا۔ جب صوبیدار شنگ نے یہ خبر سنی
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
----------
صفحہ 117
----------
تو اس نے علی بیگ پر دس لاکھ تائل جرمانہ کر دیا۔ اس رقم کا مطلب ہوا کہ پانچ ہزار گھوڑے دوہزار اونٹ یا چار ہزار مویشی یا تیس ہزار بھیڑیں، ظاہر ہے کہ علی بیگ اتنا بڑا جرمانہ ادا نہیں کر سکتا تھا لیکم مناس کے مسلمانوں نے جن میں ترک بھی شامل تھے اور قازق بھی باغیوں سے ہمدردی کی اور آپس میں چندہ کر کے علی بیگ کی طرف سے یہ جرمانے کی رقم ادا کی۔

دوسیوں کی خفیہ امداد کی وجہ سے یہ بغاوت دور دور پھیل گئی، اب کے اس میں الطائی کا عثمان بھی شریک ہو گیا، بغاوت کا ایک مرکز مناس بھی تھا۔ یہاں سے تین شخص جنگی سرگرمیوں کی رہنمائی کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک قازق تھا جس کا نام باعی ملا تھا (عثمان بطور کا خسرنہیں) دوسرا ایک منگول تھاجس کا نام جی جن یعنی "زندہ بدھ" تھا جو کوہستان الطائی کا رہنے والا تھا اور تیسرا ایک ترک کسان اسمٰعیل حجی نامی تھا جس کا :چو آنگ تسو" یعنی بڑا کھلیان ان سڑکوں پر تھا جو سویت ازقستان کتو آتی جاتی تھیں اور پل مناس کے قریب ملتی اور جدا ہوتی تھیں۔

اسمٰعیل حجی کے گھر میں شاہراہوں کا مقام اتصال صاف دکھائی دیتا تھا جتنی آر جار ارمچی سے پچاس میل جنوب مشرق کی جانب اور سویت سرحد کو دو سو میل مغرب اور شمال مغرب کی جانب ہوتی سب کو وہ اپنے گھر سے دیکھ سکتا تھا، اس کے علاقہ اونچے سرکنڈوں کے جنگل قریب ہی تھے اگر ذرا بھی خطرہ محسوس کرتے تو اسمٰعیل حجی اور اس کے دونوں شریکِ بغاوت ان سرکنڈوں میں فوراً آسانی سے جا چھپتے۔ یہاں اندیشہ صرف جنگلی سؤر ہی کا ہو سکتا تھا لہذا صوبیدار شنگ کے سپاہی اکثر اس باغیوں کے صدر مقام کے ﷺریب آتے رہے مگر باغیوں سے سرداروں کو گرفتار نہ کر سکے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ139
چھٹا باب

اشتراکیوں کی پسپائی

سُرخ ڈاڑھی والوں سے لڑائی پورے مشرقی ترکستان میں سالہا سال تک چلتی رہی، لیکن 1938ء؁ تک اس کے شعلے تئین شان کے علاقہ میں اتنے فرو ہو گئے تھے کہ حمزہ پھر اپنے مکتب جا سکے۔ لیکن الطائی میں جنگ کچھ تیز ہو گئی تھی۔ عثمان پہاڑوں میں تاخت کرتا پھر رہا تھا۔ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی اسے موقع ملتا وہ چینیوں پر چھاپہ مار دیتا۔ اپنے منتخب چھاپہ ماروں کے ساتھ وہ چھاپے پر چھاپہ مارتا، یہاں تک کہ وہ اپنے دشمنوں کے لیے کابوس بن گیا۔ الطائی کی بلندیوں میں ایسی بے شمار کمین گاہوں کا اسے بے مثل علم تھا جنہیں سوائے چند قازقوں اور منگولوں کے اور کسی نے دیکھا تک نہیں تھا۔ جب چینی اسے گرفتار کرنے کے لیے اپنے دستے اس کے تعاقب میں بھیجتے، تو وہ اُن کی گرفت سے بچ نکلتا اور جب چینی واپس جاتے ہوئے کسی تنگ وادی یا سکڑے پہاڑی راستے میں پھنس جاتے تو ان میں سے بیشتر کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ور کُھلے میدانوں میں ان پر اچانک حملہ کر کے ان کا قلع قمع کر دیا جاتا۔ حملے کی رہنمائی


صفحہ140
خود عثمان کرتا، اپنے ساتھیوں سے بہت آگے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا دشمنوں کی صفوں پر ٹوٹ پڑتا اور اپنی زین کی سطح ہی سے مشین گن سے گولیاں برساتا رہتا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اندھا دھند گولیاں چلا رہا ہے لیکن درحقیقت وہ چار ہی گولیوں میں وہ افسروں یا سربرآوردہ لوگوں کو ڈھیر کر دیتا۔ اس کی نشانہ بازی اس قدر مہلک تھی کہ مشرقی ترکستان کے قازقوں میں اور ترکی میں بھی اس کی شہرت ویسی ہی تھی جیسی سوئٹزرلینڈ میں ولیم ٹیل کی۔ ان لڑائیوں میں وہ ہمیشہ زندہ سلامت نکل آیا۔ کوئی ہلکا سا زخم کبھی آ گیا تو آ گیا۔

عثمان مے ساتھی جیسا کہ قازقوں کا ہمیشہ سے شعار رہا ہے اپنے سردار کی فائیانہ خدمات انجام دیتے تھے۔ وہ اسے نہ صرف بوکو بطور کا سچا جانشین سمجھتے تھے بلکہ خود چنگیز خاں کا بھی۔ حوصلہ مند، بے رحم، شجاع، محتاط، نازاں، وہ کبھی کسی سے ایسےکام کو نہیں کہتا تھا جسے وہ خود نہ کر سکتا ہو، اس کے ساتھی جانتے تھے کہ جس کام کو وہ ٹھیک سمجھتا ہے پھر اس سے مُنہ نہیں موڑتا، نہ تو اپنے دشمنوں پر ترس کھاتا ہے نہ اپنے آپ پر۔ کبھی کسی حریف، دوست، مقصد یا اپنے ضمیر سے سمجھوتہ نہیں کرتا تھا۔ اس کے ساتھی یہ محسوس نہیں کرتے تھے کہ تاریخ کے اسٹیج پر وہ نصف صدی تاخیر سے رونما ہوا ہے۔ گُھڑ سواروں کی رہنمائی کرنے میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتا تھا، لیکن آخر میں اسے اپنے آدمیوں کو بکتر بند گاڑیوں، ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کے مقابلے میں لے جانا پڑا، اس صورت حال میں بھی اس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس کا بیان اس کے مناسب موقع پر آئے گا۔

اس عرصے میں تئین شان میں یونس حجی، باعی ملا، علی بیگ اور دوسرے قازق سردار سیاسیات کی طرف متوجہ تھے۔ ابتدا میں اس کے باعث بڑی


صفحہ141
تباہی آئی۔ 1939ء؁ میں دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کا زمانہ تھا۔ صوبہ دار شنگ نے جو بدستور روسی مشوروں پر عمل کر رہا تھا ایک دم سے اپنی دہشت انگیزی کم کر دی اور پیشکش کی کہ مقامی افسر قازق خود مقرر کریں تاکہ اپنے امور کے انتظامات وہ خود کریں، مثلاً اپنے اسکول چلانا، ٹیکس لگانا اور چراگاہوں کا تقسیم کرنا۔ بہت سے قازقوں نے اس پیشکس کو جلدی سے قبول کر لیا اور یہ نہ سمجھ سکے کہ صوبہ دار شنگ ان عہدوں کو محض بطور چارہ پیش کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے قازق خود شاہین پکڑنے کے لیے جال میں چوزے لگایا کرتے تھے۔ جب نئے افسروں نے عہدے سنبھال لیے تو شنگ نے اپنی خفیہ پولیس بھیج کر ان سب کو حراست میں لے لیا اور ان پر الزام یہ لگایا کہ وہ سب "حلق آزادلگ الاری مو" عوامی آزاد پارٹی کے ممبر ہیں، حالانکہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ یہ پارٹی اور خود صوبہ دار شنگ بھی سویت کے زیر اثر تھے۔

ان گرفتاریوں کا انداز خاص اشتراکی تھا۔ رات ڈھلے خفیہ پولیس کی ایک پارٹی مطلوبہ شخص کے گھر یا خیمے میں پہنچتی اور اس میں رہنے والوں کو زور زور سے آوازیں دیتی کہ باہر نکل آئیں۔ ان میں سے اکثر اپنے شب خوابی کے کپڑے پہنے ہی باہر نکل آتے تھے۔ عورتوں اور بچوں کو نہایت بدتمیزی سے واپس اندر دھکیل دیا جاتا اور مطلوبہ شخص کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگا کر پولیس کی گاڑی میں دھکا دے دیا جاتا۔ اسے کپڑے تک نہ بدلنے دیا جاتا اور جیل پہنچا دیا جاتا۔ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ پولیس والوں نے گھر کی تلاشی لی، عورتوں کی عصمت دری کی اور گرفتار کرانے کے لیے باغیانہ کاغذات خود اس کے گھر میں رکھ کر برآمد کر لیے۔ لیکن اس زمانے میں عوامی پارٹی کا ممبر ہونا


صفحہ142
خلاف قانون نہیں تھا۔ آخر کو تو یہ پارٹی سویت کی سرپرستی ہی میں قائم ہوئی تھی۔ اس لیے اس حقیقت کو چھپانے کی کوئی ممبر کوشش نہیں کرتا تھا لہذا بغاوتی سرگرمیوں کی شہادت صرف اس وقت مہیا کی جاتی جب مطلوبہ شخص کو واقعی خطرناک سمجھا جاتا۔

ان گرفتاریوں میں قازقوں کے علاوہ دوسری قوموں کے لوگ بھی شامل کر لیے جاتے، مثلا ترک، منگولی، ازبکی وغیرہ۔ لیکن ایسے رہنما بھی ان میں موجود تھے جو اس جال میں پھنس جانے سے بچے رہے کیونکہ جب صوبہ دار شنگ نے عہدوں کی پیشکس کی اور غیر محتاط لوگوں نے جھٹ اُسے قبول کر لیا تو یہ لوگ نہایت دانشمندی سے دور ہی رہے۔ جو لوگ قید و بند سے بچے رہے ان میں علی بیگ اور یونس حجی دونوں تھے اور اسمٰعیل حجی ترک کسان بھی۔ جس کا گھر لال داڑھی والوں کے خلاف پیکاری منصوبے بنانے کا اڈا بنا ہوا تھا۔ لیکن آخر آخر میں شنگ نے اسمٰعیل حجی کو گرفتار کر لیا۔ اُسے گرفتار کیا گیا پھر چھوڑ دیا گیا اور پھر گرفتار کر کے اس قدر تکلیفیں دیں کہ وہ مر گیا۔ اس کے دونوں ساتھیوں جی جن منگولی "زندہ بدھ" اور باعی ملا قازق کو دعوت نامہ ملا کہ صوبہ دار شنگ کے مہمان ہونے کے لیے ارمچی آئیں، دوسروں کی طرح بغیر کسی بات کا شبہ کیے انہوں نے دعوت منظور کر لی اور جب مہمانوں کے اعزاز میں بظاہر خوشیاں منائی جا رہی تھیں، جلاد ان پر جھپٹ پڑے اور ان کا کام تمام کر دیا۔

باعی ملا کا چغہ خفیہ طور پر علی بیگ کو پہنایا گیا لیکن 1940ء؁ میں تقریباً سقوط فرانس کے وقت وہ بھی گرفتار کر کے اُرمچی لے جایا گیا جہاں اسے اٹھارہ مہینے ایک گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ اس زمانۂ نگرانی میں جہاں


صفحہ143
کہیں وہ جاتا، چینی نگراں اس کے ساتھ رہتے۔ یہاں تک کہ رات کو بھی اسی کمرے میں رہتے جس میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ سوتا۔ کمرے میں صرف ایک پلنگ تھا اس پر نگران سوتے۔ لیکن علی بیگ چونکہ اپنے خیمے کے فرش پر سونے کا ساری عمر سے عادی تھا اس لیے یہاں بھی فرش پر سونے میں اُسے کسی قسم کی زحمت نہیں ہوتی تھی۔

علی بیگ کی گرفتاری سے کچھ ہی پہلے شنگ کی بُلائی ہوئی ایک کانفرنس میں ایک مندوب کی حیثیت سے یونس حجی ارمچی گیا تھا، وہ حمزہ کو اپنے ساتھ لیتا گیا۔ تاکہ اُرمچی میں اس کی تربیت جاری رہے۔ یہاں وہ پورے دو سال مقیم رہے، حالانکہ چاروں طرف دہشت کا راج تھا۔ گلیوں کے نکڑ پر سفید بکس رکھے ہوئے تھے کہ لوگ کسی پر اتہامات لگا کر گم نام درخواستیں ان میں ڈال دیں۔ شنگ کی خفیہ پولیس یہ معلوم کرنے کی ذھمت نہیں کرتی تھی کہ جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ صحیح ہیں یا غلط، اس لیے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ کس دن کس گھڑی خفیہ پولیس آکر اس کا دروازہ پیٹنے لگے گی اور اسے کسی ایسے جرم میں پھانس کر لے جائے گی جو اس نے نہیں کیا۔ گرفتاری کے بعد ملزم کو تکلیفیں پہنچائی جاتیں اور وہ غریب یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتا کہ کس دشمن نے اس کے خلاف درخواست دی ہو گی۔ پھر خود ہی کسی کا نام دل میں سوچ کر اس کے خلاف گمنام درخواست ڈال دیتا۔ یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ ہزاروں بے گناہ اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ علی بیگ اور حمزہ کا اندازہ یہ ہے کہ صوبہ دار شنگ کے دہشتناک راج میں نو سال تک ہر سال دس ہزار بے قصور آدمی موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔


صفحہ144
ستمبر 1939ء؁ میں حمزہ کے ارمچی جانے سے کچھ ہی پہلے شنگ کے روسی مشیروں نے فیصلہ کیا کہ صوبےمیں مذہبی تعلیم ختم کر دی جائے۔ چنانچہ صدر مقام میں دو سال تک حمزہ کو صرف غیر مذہبی تعلیم ہی ملتی رہی۔ وہ اس تبدیلی کو پسند نہیں کرتا تھا لیکن تبدیلی کا ذمہ دار وہ چینیوں کو ٹھہراتا تھا، روسیوں کو نہیں۔ لیکن روسیوں کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہو چلے تھے۔ جو کتابیں حمزہ پڑھ رہا تھا وہ روسیوں کی نگرانی میں مرتب کی گئی تھیں۔ سویت یونین ایک اشتراکی ریاست تھی۔ حمزہ کے بعض مکتب کے ساتھی اب اشتراکی بن چکے تھے بلکہ ان میں چند قازق بھی شامل ہو چکے تھے اور جب مکتب سے فارغ التحصیل ہو کر نکلے تو ان کو شنگ کی صوبائی حکومت میں اچھی ملازمتیں مل گئیں۔ حمزہ، اشعر، تیز دماغ۔ اس تذبذب میں پڑ گیا کہ کیا اشتراکیت دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو چینی جر بُری ہوتی ہے اور دوسری روسی جو اچھی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو چینیوں کے خلاف مقامی قوموں کہ پشت پناہی کر رہی تھی اور دوسری وہ جو جابر و ظالم شینگ کی پیٹھ ٹھونک رہی تھی اور محکوم قوموں کے سر اس سے کچلوا رہی تھی۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ عوام کے سامنے اشتراکی دو منہ سے بولتے ہوں اور خفیہ طور پر ان کا مقصد ایک ہو ہو، اگر وہ دو مونہوں سے بولتے ہیں تو کس مُنہ کا اعتبار کیا جائے؟

ان دنوں واقعی میں کسی کے لیے یہ جان لینا مشکل تھا کہ کس پر یقین کیا جائے۔ مثال کے طور پر جب اگست 1939ء؁ میں شنگ نے صوبے میں بسنے والی مختلف قوموں کو دعوت دی تھی کہ اپنے اپنے مندوب اُرمچی بھیجیں تاکہ نیا بنیادی دستور بنایا جائے جس کی رو سے


صفحہ145
ہر شخص کے ساتھ انصاف کیا جائے تو اس وقت شنگ کی نیت نیک تھی یا بد، یہ ایک ایسا دعوت نامہ ضرورت تھا جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا، ورنہ بعد میں شنگ کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ دیکھو میں نے تو تمہیں آزادی دینے کےلیے بلایا تھا مگر تم آئے ہی نہیں۔"

لہذا مناسب وقفے میں کوئی تین ہزار مندوبین جن میں یونس حجی بھی تھا، مقررہ تاریخ پر اُرمچی پہنچ گئے اور صوبہ دار شنگ نے اعلیٰ پیمانے پر ان کی خاطر مدارت کی۔ پھر مذاکرات کی ابتدائی کاروائی بطور اور (بقول شنگ) یہ یقین کرنے کے لیے کہ تمام مذاکرات امن کے ماحول میں جاری رہیں گے، شنگ نے ہر مندوب کو حکم دیا کہ جنہوں نے اُسے چُن کر بھیجا ہے انہیں ایک خط لکھے کہ جتنے بھی ہتھیار موجود ہوں، وہ سب فوراً حکومت کے حوالے کر دیے جائیں۔

ہمیں اس کا علم نہیں کہ مندوبین میں سے کتنوں نے شنگ کے حکم کی تعمیل کی۔ ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ بہت کم نے اور قازقوں میں سے شاید کسی نے بھی یہ خط نہیں لکھا۔ اور اگر ایسے خطوط لکھے بھی جاتے تب بھی اپنے ہتھیار حکومت کے حوالے کوئی نہ کرتا۔ بہرحال یہ تین ہزار مندوبین اگلی اپریل تک اُرمچی ہی میں تھ اور نئے بنیادی دستور پر غور و خوض شروع نہیں ہوتا تھا۔ پھر اپریل 1940ء؁ میں ان تین ہزار مندوبین میں اے اٹھارہ کو شنگ نے گرفتار کر لیا۔ ان میں یونس حجی بھی شامل تھا اور جب بالآخر 41-1940ء؁ میں ان مندوبین کو اپنے گھروں کو واپس جانےکی اجازت ملی تو وہ اٹھارہ ان کے ساتھ نہیں گئے۔ اور نہ ہی اس کے بعد کسی نے انہیں زندہ دیکھا۔


صفحہ146
اُرمچی میں صرف ایک قازق ایسا تھا جو بتا سکتا تھا کہ ان کا کیا حشر ہوا۔ شنگ کی خفیہ پولیس میں یہ شخص لاری ڈرائیور تھا۔ اس کا ایک کام یہ بھی تھا کہ جن کو مار ڈالا گیا ہو، ان کی لاشوں کو لاد کر لے جایا کرے۔ جسے مارنا ہوتا اس کی گُدی پر گولی مار دی جاتی اور اس کی لاش فصیل شہر سے باہر پھنکوا دی جاتی۔ اس شخص کی تنخواہ تو کچھ زیادہ نہیں تھی لیکن جو لوگ لاپتہ ہو جاتے، ان کے ورثا کو یہ بتا کر کہ ان کی لاشیں کہاں پھینکی گئی ہیں، وہ خاصی رقمیں کما لیتا تھا۔

گرمیوں کے موسم میں ایک دن وہ بجائے مقتولین کی لاشیں لادنے کے، ان کے قاتلوں یعنی شنگ کے مقرر کردہ جلادوں کو اپنی لاری میں سوار کر کے چھوڑنے جا رہا تھا کہ ایک اُجاڑ مقام پر لاری کا انجن کچھ خراب ہو گیا۔ اس نے انجن کا ڈھکنا کھول کر ٹھونک بجا کر خرابی کا پتہ چلانا شروع کیا۔ مشرقی ترکستان میں سارے ڈرائیور بڑے شوق سے انجنوں پر جھکے رہتے ہیں کیونکہ اس طرح انہیں اپنی فوقیت جتانے کا کچھ موقع مل جاتا ہے۔ ادھر تو ڈرائیور اپنے کام میں لگا ہوا تھا، ادھر اس کے نو 9 مسافروں نے ایک ٹھنڈی سایہ دار جگہ تلاش کی اور پڑ کر سو رہے۔ ڈرائیور نے انجن ٹھیک کر لیا اور جب ان نو جلادوں کو بے غل و غش سوتے دیکھا تو ایک ایک کر کے سب کے گلے کاٹ دیئے۔ اس طرح سے فارغ ہو کر وہ اُرمچی اپنی لاری واپس لے آیا اور یہاں رپٹ درج کروائی کہ پہاڑوں میں قازق لٹیروں نے لاری کو روک لیا اور سارے مسافروں کو اپنی تلواروں سے مار ڈالا۔ مجھے اس لیے چھوڑ دیا کہ میں قازق ہوں اور جب اس کے مالکوں نے مقام واردات پر اس واقعہ کی تصدیق کرنے کے لیے کچھ اور آدمیوں کو بھیجا تو چیلوں، گدھوں اور گیدڑوں نے اس کام کی تکمیل کر دی تھی جس کا آغاز ڈرائیور نے کیا تھا۔ لہذا جو


صفحہ147
کچھ ڈرائیور نے کہا تھا اس کی تردید کسی طرح بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اور تو کسی کو یقین نہیں آیا، لیکن ڈرائیور کے مالکوں کو اس کے بیان کا یقین آ گیا۔

اس بھیانک شخص کا نام قالی تھا اور اس کے ہم قوم قازق بھی اس سے دُور رہتے تھے۔ بعض کہتے تھے کہ وہ جاسوس ہے کیونکہ شنگ کا کام کرتا ہے اور اُجرت پاتا ہے۔ اور بعض کا کہنا یہ ہے کہ :

"اگر وہ جاسوس تھا، محض اس وجہ سے کہ شنگ سے اُجرت لیتا تھا تو اس وقت کیا تھا جب ہم سے پیسے لیے کر یہ بتاتا کہ شنگ کے ہاتھوں ہمارے پیاروں کا کیا حشر ہوا، اور اس وقت کس کے لیے جاسوسی کر رہا تھا، جب اس نے کسی سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا اور شنگ کے جلادوں کے گلے کاٹ ڈالے۔ مقتولوں کی جیبوں میں سے ظاہر ہے کہ اس کے ہاتھ کچھ زیادہ رقم نہیں آئی ہو گی۔"

قالی کے کردار کا اندازہ کرنے کے لیے آگے چل کر ہمیں ایک مختصر سا موقع اور ملے گا، جب وہ قازقوں کی کشمکش میں ایک بڑے نازک موقع پر اچانک کہیں سے اُبھر آتا ہے۔ یہ بات اور ہے کہ اس واقعہ کے مشاہدے کے بعد بھی ہم اس کے سمجھنے میں کچھ زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔

جب حمزہ کا بھائی گرفتار کر لیا تھا تو حمزہ ارمچی کے مدرسہ میں پڑھ رہا تھا۔ اس نے قالی سے اپنے بھائی کے انجام کے متعلق دریافت نہیں کیا بلکہ جیسے ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ یونس حجی کو قتل کر دیا گیا، وہ خاموشی سے قزل ازون واپس چل دیا۔ حمزہ اس وقت انیس سال کا نوجوان تھا۔ اس لیے شنگ کی خفیہ پولیس بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ روسی پوگوڈن کی طرف سے سخت خطرے میں تھا، اس کے بھائی کو شبہ میں گرفتار کر کے مار ڈالا گیا تھا۔ تو حمزہ کو مُبہم کرنے میں اسے کیا دیر لگتی۔ خوش بختی سے حمزہ نے اپنےخیالات کا اظہار اپنے


صفحہ148
مکتب میں نہیں کیا، اس کے علاوہ یہ بھی تو ایک واقعہ تھا کہ حمزہ ایک ایسے مکتب میں پڑھ رہا تھا جس اشتراکیوں کا قبضہ تھا اور اسی مدرسے کی سیاسی تعلیم حاصل کر رہا تھا، یہ باتیں بھی حمزہ کے حق میں تھیں۔ لہذا یونس حجی کا چھوٹا بھائی ہونے کے باوجود اسے گرفتار نہیں کیا گیا اور اسے اپنے گھر واپس جانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔

قزل ازون سیدھے جانےکے بدلے حمزہ مشورہ کرنے کےلیے پہلے اسمٰعیل حجی کے پاس بیا۔ اس نے پہلے دیکھ لیا، تینوں سڑکیں خالی پڑی ہیں، بڈھا اسمٰعیل اب بھی وہیں موجود تھا لیکن شنگ کے آدمیوں کے ہاتھوں اس نے جو تکلیفیں اٹھائی تھیں ان سے بالکل نڈھال ہو گیا تھا، اس نے حمزہ کو مشورہ دیا کہ مناس سے دُور رہے کیونکہ وہاں بھی اُرمچی کی طرح ہر گلی کے نکڑ پر سفید بکس رکھےہوئے تھے۔ جب رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیل گیا تو حمزہ اس کے گھر نے نکل کر قزل ازون کے کنارے اپنے خیمے میں پہنچ گیا۔ یہاں اس کے دوستوں نے فوراً دن اور رات کا پہرہ لگا دیا تاکہ مناس سے آنے والے راستے کی نگرانی رکھیں اور اگر کسی انجانے آدمی کو آتا دیکھیں تو اسی وقت اس کی خبر کریں لیکن کوئی نہیں آیا۔

کچھ عرصہ بعد علی بیگ اچانگ مناس واپس آ گیا۔ حمزہ نے ایک قاصد بھیج کر اس سے پوچھا کہ کیا بغیر کسی خطرے میں مبتلا ہئے ہماری ملاقات ہو سکتی ہے؟ وہ دوست جو پیغام لے کر گیا تھا، جب واپس آیا تو کچھ مذبذب تھا، اس نے حمزہ سے کہا :

"وہ مناس میں منگ باشی یعنی ایک ہزاری سردار بن کر آیا ہے اور قصائی شنگ کو تنخواہ دار ملازم ہے۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں خطائیوں


صفحہ149
نے اسے اپنے اصولوں پر نہ لگا لیا ہو۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ان کی تنخواہ پاتا ہے۔ مگر جب اصولوں کا تسلیم کرنا ایک طرف ہو اور شدید اذیتیں دوسری طرف ہوں تو پھر اصول مان لینے پر کسی کو دوش کیسے دیا جا سکتا ہے؟"

حمزہ نے حقارت سے کہا، یہ بازاری غپ ہے اور اس پر کسی سچے مسلمان کو یقین نہیں کرنا چإہیے۔ میں اس وقت ارمچی ہی میں تھا، جب شنگ کے اذیت دینے والوں نے اسے ایک گھر میں نظر بند کر رکھا تھا۔ اور نماز پڑھنے میں بھی وہ مداخلت اس لیے کرتے تھے کہ کہیں خدا سے ہم کلام ہونے کے پردے میں وہ کسی قریب ہی چھپے ہوئے ساتھ سے باتیں نہ کر رہا ہو۔

دوست نے مشتبہ اندزا میں پوچھا، "تو اس وقت کیا تم خود ایک خطائی مدرسے میں زیر تعلیم نہیں تھے، ہو سکتا ہے کہ انہوں نے خطائی زبان کے ساتھ ساتھ خطائی اصول بھی تمہیں سکھائے ہوں۔۔۔"

حمزہ نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا "اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے میرے بھائی یونس حجی کو خرید لیا ہو اور شاید اسی قصور میں اُسے گرفتار کیا ہو۔"

دوست نے کہا، "نہیں۔ تمہارے بھائی پر کوئی بھی شبہ نہیں کر سکتا۔ رہے تم تو کیا تم اس کے بھائی نہیں ہو، لیکن یہ علی بیگ ہے۔ کیا اس کا باپ رحیم بیگ ہمارے لوگوں اور خطائیوں میں بیچ کا بچولی نہیں تھا۔ اس کے بعد کیا اس کے بیٹے نے اس کی جگہ نہیں سنبھال لی۔ کیا وہ اب اس قصائی شنگ کا ملازم نہیں ہے جس نے تمہارے بھائی کو گرفتار کیا اور ایسا غائب کیا کہ آج تک اس کا پتہ نہیں چلا؟"

حمزہ بولا، "تم نے میرے بھائی کے بارے میں جو کچھ کہا بالکل ٹھیک کہا، لیکن علی بیگ کو گرفتار کر کے اُرمچی لے جانے سے پہلے جب ہم لال داڑھی


صفحہ150
والوں سے لڑ رہے تھے، تو کیا اس زمانے میں یہی علی بیت اس کا نائب تمن باشی، دہ ہزاری سردار نہیں تھا۔ کیا سارے علاقے میں علی بیگ ایک سچا محب وطن مشہور نہیں ہے جس شنگ نے دس لاکھ کا جرمانہ کیا تھا اور یہ رقم لوگوں نے خود ہی بخوشی ادا کر دی تھی کیونکہ علی بیگ اس کی ادائیگی کے قابل ہی نہیں تھا۔ لہذا تم سے نہیں بلکہ خود اس کے منہ سے میں یہ سنوں گا کہ وہ قصائی شنگ کا سفیر بن کر مناس کیوں آیا ہے۔"

حمزہ نے دوبارہ کسی کو مناس بھیجنا مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن کچھ ہی عرصے میں نئے منگ باشی نے خود ہی پیغام بھیجا کہ آ کر ملاقات کرے۔ اس دعوت نامے کی مزید تفصیلات قاصد کو معلوم نہیں تھیں، اس لیے حمزہ فوراً ملنے کے لیے روانہ ہو گیا۔ جب حمزہ اور علی بیگ ملے تو گرمجوشی سے گلے ملے اور قازقوں کے روایتی اخلاق کے مطابق انہوں نے دائیں رخسار ملائے اور جدا ہو کر مصافحہ کیا اور "اللہ اکبر، اللہ اکبر" کہتے رہے۔ پھر داہنے ہاتھ سے اپنی اپنی پیشانی ، لب اور سینے کو چھوا۔ مسلمانوں میں عام طور پر یہی رواج ہے۔ دونوں ابھی نوجوان ہی تھے۔ حمزہ اُنیس اور علی بیگ چونتیس سال کا تھا۔ اس ملاقات کے بعد سے ان دونوں کے مقدر ایسے ایک ہوئے کہ مرتے دم تک جُدا نہیں ہوئے۔

اس طرف سے اطمینان کر کے کہ کوئی کن سنیاں تو نہیں لے رہا، چھپا ہوا مائیکروفون اس زمانے تک دنیا کے اس دور دراز حصے میں نہیں پہنچا تھا، علی بیگ نے اپنے منصوبے بیان کیے۔ اس نے صاف صاف بتایا کہ مجھے ہوشیاری سے ایک ایک قدم اٹھانا ہو گا۔ اُرمچی میں جو اٹھارہ مہینے میں نے گھر کی قید میں کاٹے ہیں، مجھے دن بھر اور رات کو بھی اشتراکیت ہی کے سبق
 

اوشو

لائبریرین
عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -171


ساتواں باب


آنکھیں کھل گئیں


سویت حکومت نے اس تہدید پر فوراً کوئی کارروائی نہیں کی، جو عثمان بطور نے ان کے سفیر کو کی تھی۔ جرمنوں میں سویت حکومت اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ عثمان کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے روسیوں نے صوبے کے دوسرے حصوں کی طرف توجہ کی اور چین کی صوبائی حکومت کے خلاف رکاوٹ پیدا کرنے کی خفیہ کوششیں پھر شروع کر دیں۔ اس میں انہیں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ صدر ویو نے جو مقامی خود مختاری کے وعدے کیے تھے وہ اب تک پورے نہیں ہوئے تھے۔ لہذا مشرقی ترکستان میں پھر ویسی ہی شورش پھیل گئی جیسی قصائی شنگ کے زمانے میں پھیلی تھی۔

یہ دبی ہوئی آگ 1944ء میں ایک دم سے خلدزا علاقوں کے قازقوں میں بھڑک اتھی۔ سویت جمہوریہ قازقستان کے صدر مقام الماعطا اور ارمچی کی درمیانی سڑک پر جو سویت سرحت ہے، اس سے خلدزا کوئی پچاس میل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -172


کے فاصلے پر ہے۔ یہاں قازقوں کی بری تعداد آباد تھی۔ چین سے انہیں آزادی دلانے کے جو وعدے ان سے روسی ایجنٹ کرتے انہیں یہ قازق بڑے شوق سے سنتے ۔ خلدزا ایک اچھے آباد رقبے کا مرکز تھا۔ جس کی آبادی کوئی ایک لاکھ ساٹھ ہزار کی تھی۔ خلدزا صوبے کو ایلی بھی کہتے ہیں اور کبھی اسے اننگ بھی کہتے ہیں۔ دستاویزوں میں کبھی ان میں سے کوئی نام درج ہے، کبھی کوئی۔ کانفرنسیں کرنے کے لیے یہ مقام نہایت مناسب ہے۔ اس پچاس سال میں جس سے ہمارے اس قصہ کا تعلق ہے، ایلی میں کم از کم چار معاہدے ضرور کیے گئے۔ زیادہ کئے گئے ہوں تو ان کا تذکرہ علی بیگ اور حمزہ نے ہم سے نہیں کیا۔ ایلی میں گفت و شنید عموماً چینی صوبائی حکومت اور روزی مرکزی حکومت کے درمیان ہوئی تھی۔ مثلاً جب صوبہ دارشنگ نے صوبے کا اختیار 1934ء میں روسیوں کے حوالے کیا۔ لیکن ایلی کا ایک معاہدہ ایسا تھا جس سے غیر متوقع نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ تھا۔ یہ معاہدہ چینی حاکموں نے مشرقی ترکستان کی مقامی قوموں سے کیا۔ کیونکہ 1944ء میں روسیوں نے جس بغاوت کو ہوا دی تھی وہ زور پکڑ گئی تھی۔

اس بغاوت کا سردار ایک شخص تھا علی ہن طور ، جس نے روسیوں کی مدد سے کوئی پچیس ہزار آدمی جمع کر لیے تھے۔ ان میں سے بیشتر قازق تھے مگر خود علی ہن طور قازق نہیں تھا۔ ماسکو کی شہ پر خلدزا اور الطائی کے درمیان جو خلدزا اور تارباغتائی کے صوبے ہیں، ان کی آزادی کا اعلان اس نے کر دیا۔ اس کے بعد اس نے دور دور اپنے ایلچی بھیجے، عثمان بطور کے پاس، مناس میں علی بیگ کے پاس اور دوسرے قازق سرداروں کے پاس اور غزکل جیسے دور دراز مقام پر حسین تجی کے پاس۔ ان سب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -173


سے کہلوایا کہ تم بھی میری طرح اپنے اپنے علاقوں کی خود مختاری کا اعلان کر دو۔

چند ہی مہینوں میں تئین شان پہاڑوں کے شمال مین سارا مشرقی ترکستان چین کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور چینیوں کو اپنے فصیل دار شہروں کو بچائے رکھنا بھی مشکل ہو گیا۔ عثمان بطور نے اس عرصے میں الطائی کو خود مختار بنا لیا تھا لیکن خلدزا کی بغاوت سے اس کا امکان پیدا ہو گیا کہ پورا مشرقی ترکستان آزادی حاصل کر لے گا اور یہ معاملہ یقیناً بہت زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔

علی ہن طور کی تجویزوں کے پہنچ جانے کے بعد علی بیگ کچھ عرصے تک انتظار کرتا رہا لیکن 19 مئی 1945ء کو یورپ میں جنگ کے ختم ہونے کے دو ہفتے بعد ہی اس نے عثمان بطور کے مشورے سے علم بغاوت بلند کر دیا۔ حمزہ نے چینی حکومت میں اپنے عہدے سے فوراً استعفیٰ دے دیا اور علی بیگ سے آ ملا۔ علی بیگ نے اسے بہ عجلت تمام خلدزا روانہ کر دیا تاکہ مستقبل کے منصوبوں پر علی ہن طور سے بات چیت کرے۔ یہاں سے خلدزا کا فاصلہ اگرچہ تین سو میل سے کم ہی تھا مگر پھر بھی حمزہ کو وہاں پہنچنے میں تقریباً چار ہفتے گزر گئے۔ پورے درمیانی علاقے میں شورش برپا تھی اور جگہ جگہ جھڑپیں ہو رہی تھیں حالانکہ یہ بیشتر علاقہ بنجر تھا اور اس میں کوئی دلکشی نہیں تھی۔ پہلی لمبی سڑک دلدلی علاقے میں سے ہو کر جاتی تھی۔ اس کے بعد کی رہزگزر پہاڑوں میں سے تھی۔ انہیں عبور کرنے کے بعد حمزہ ایلی دریا کے ک نارے پہنچا جو خلدزا کے قریب سے بہتا ہوا سویت قازقستان میں جھیل بل کش میں شامل ہو جاتا ہے۔

علی ہن طور سے حمزہ کی گفتگو ایک سیدھے سادے سے سوال پر ہی مرکوز رہی۔ وہ یہ کہ ہم چینیوں کو کیسے نکال باہر کریں۔ دونوں نے بغیر کسی بحث مباحثے کے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ چینی اشتراکیوں اور چینی قومیت پسندوں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -174


بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں تھا۔ مشرقی ترکستان کے باشندوں کے دونوں ہی دشمن تھے۔ اس لیے دونوں کو خارج کرنے کی ضرورت تھی۔

علی ہن طور جو عمر میں حمزہ سے کئی سال بڑا تھا، روسیوں کا مامور کیا ہوا تھا۔ اس لیے اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ چینیوں کو نکال باہر کرنے کی پالیسی کا علم روسیوں کو ضرور تھاا ور انہوں نے اس پالیسی کو منظور کر رکھا تھا۔ یہ البتہ کہا جا سکتا ہے کہ روسی اس تحریک کے بانی مبانی نہیں تھے لیکن چینی اشتراکی شنگ کے مظالم نے قازقوں میں نفرت کا جو جذبہ پیدا کر دیا تھا اس کے محرک دو طرح روسی ہی تھے۔ اول یہ کہ شنگ اگرچہ بظاہر چین کی قومی حکومت کا نمائندہ تھا لیکن دراصل وہ ارمچی میں رہنے والے سویت قونصل جنرل امیری سوف کی ہدایات پر چلتا تھا۔ دوئم یہ کہ 1934ء بلکہ اس سے بھی پہلے سے مقامی قوموں کو روسی برابر اکسا رہے تھے کہ چینیوں کو جڑ بنیاد سے کھود کر باہر پھینک دیں۔

یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ ادھر تو سویت حکومت علی ہن طور اور قازقوں کو چینی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے میں مدد دے رہی تھی اور ادھر چیانگ کائی شیک سے اگست 1945ء کا چینی روس معاہدہ کر رہی تھی۔ مذاکرات کے دوران سویت نمائندوں نے تسلیم کیا تھا کہ سنکیانگ کا صوبہ چین کا حصہ ہے۔

علی ہن طور سے مناس میں بات چیت کر کے حمزہ کے واپس آتے ہی اور چینی روسی معاہدے پر دستخط ہونے سے پانچ ہفتے پہلے 3 جولائی 1945ء کو خلدزا میں چینیوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ چند ہی روز میں خلدزا، تارباغتائی اور مناس کے درمیانی تکون میں ایک بھی خطائی باقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -175


نہیں رہا۔ چینی سپاہی، شہری، کسان، سرکاری افسر، تاجر، دستکار، مرد، عوعرت، بچہ ، ایکوں ایک چھانٹ کر قتل کر دیا گیا۔

مناس شہر پر چینی فوجوں کا قبضہ تھا۔ اور علی بیگ اور حمزہ کی سرکردگی میں قازق دریا کے مغربی رخ پر تھے۔ شہر والے جو تقریباً سبھی مسلمان تھے شہر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ صرف چینی فوج کا ایک دستہ شہر کی حفاظت کر رہا تھا۔ قازق حملہ آور اپنے آپ میں اتنی قوت نہ پاتے تھے کہ مناس کے بڑے پل کو عبور کر کے شہر پر قبضہ کر لیں بلکہ الٹا انہیں یہ اندیشہ تھا کہ کہیں چینی اس پل کو پار کر کے ہم پر حملہ نہ کر دیں۔

اب ہوا یہ کہ قالی جو جلادوں کا قاتل تھا، اس وقت مناس میں موجود تھا۔ وہ اب بھی چینی پولیس ہی کا ملازم تھا حالانکہ روسی سربراہ پوگودن جا چکا تھا۔ اور سویت کی تربیت دی ہوئی پاؤ ان چو یعنی خفیہ پولیس اب یکسر قومیت پسند ہو چکی تھی۔ قالی کو حکم ملا کہ اپنی لاری میں روسی پٹرول کے پیپے اٹا اٹ بھر کے مناس میں پڑے ہوئے چینی دستے کو پہنچا دے۔

جب قالی کو معلوم ہوا کہ چینی کمانڈر کو اندیشہ ہے کہ کہیں قازق پل پار کر کے حملہ نہ کر دیں تو قالی اس کے پاس گیا اور بولا میں پل کو جلا ڈالنے کو تیار ہوں یعنی ان مضبوط پایوں کو نہیں جو پتھر کے بنے ہوئے ہیں بلکہ ان موٹے موٹے شہتیروں کو کو جن سے پل کی سڑک بنائی گئی ہے۔ لیکن آپ فوجی سپاہیوں کو حکم دے دیجیے کہ جب میں جب اس کام میں لگوں تو وہ گولی نہ چلائیں۔ کماندار اس بات سے بہت خوش ہوا کہ ایک قازق ہی نے یہ تجویز پیش کی۔

جب اس نے گولی نہ چلانے کا حکم اپنی فوج کو دے دیا تو قالی اپنی لاری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -176


پل سے گزار کر دوسری طرف قازقوں میں جا پہنچا۔ قازقوں نے جو دیکھا کہ قالی اکیلا چلا آ رہا ہے اور اس کی لاری میں پٹرول کے پیپے لدے ہوئے ہیں تو انہوں نے اس پر گولی نہیں چلائی اور اسے آنے دیا۔

پل پار کرتے ہی قالی نے لاری کا انجن بند کر دیا اور اپنی جگہ سے اتر کر اس نے پل کی نگرانی کرنے والے قازق کماندار سے ملنے کی درخواست کی۔ کماندار سے اس نے کہا "اگر آپ کی مرضی ہو تو اللہ اور اس پٹرول کی مدد سے میں اس پل کو جلا ڈالوں گا تاکہ چینی اسے عبور کر کے ادھر نہ آنے پائیں۔ یوں قازق فوجیں محفوظ ہو جائیں گی اور ان کی نظروں میں میری وقعت بڑھ جائے گی، اس کے علاوہ چینی اس پٹرول سے بھی محروم ہو جائیں گے جو روسیوں نے ان کے لیے بھیجا ہے۔"

ہمیں اس قازق کماندار کا نام معلوم نہیں ہے اس نے حکم دیا کہ پل جلا ڈالا جائے۔

چنانچہ قالی اپنی لاری پر پھر سوار ہو گیا اور لاری کو موڑ کر پل پر روانہ کر ہو گا۔ ہر چند قدم کے بعد وہ ایک پیپا کھولتا اور اس کا پچاس گیلن پٹرول لکڑی کے شہتیروں پر انڈیل دیتا۔ اور جب وہ چینیوں کی طرف پل کے سرے پر پہنچا تو صرف ایک بھرا ہوا پیپا بچا رہ گیا تھا۔ باقی سب خالی ہو چکے تھے۔ اس پیپے میں وہ چیتھڑے بھگو بھگو کر آگ سلگاتا اور پل پر پھینکتا رہا۔ باقی کام تیز ہوا نے کیا۔ دونوں حریف بھی خوش ہو گئے اور قالی بھی اپنے اس کارنامے پر پھولا نہ سمایا۔

اس کے بعد قالی کے متعلق ہم نے کچھ اور نہیں سنا سوائے اس کے کہ جب 1949ء میں اشتراکیوں نے دوبارہ ارمچی میں اقتدار حاصل کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -177


تو پھر وہ ان کے ملازموں میں شامل ہو گیا۔

ستمبر 1945ء میں عثمان بطور نے خلدزا کی طرح الطائی کو چینیوں سے پاک کرنے کا سلسلہ شروع کیا لیکن یہ کام کچھ زیادہ بڑے پیمانے پر نہیں کیا گیا۔ کیونکہ لال داڑھی سے جنگ کرنے کے زمانے میں وہاں کے رہنے والے چینیوں میں بہت سوں کا صفایا کیا جا چکا تھا۔ لیکن بعد میں کچھ نئے چینی آ کر بس گئے تھے۔ جو سمجھتے تھے کہ اب اس علاقے میں کسی قسم کی شورش نہیں ہو گی۔ صوبہ دارشنگ کے کونتانگ حکومت میں واپس چلے جانے اور پھر 1943ء میں چینی صدر مقام پہنچ جانے پر ہونان کے قحط زدہ علاقے سے 1938ء میں جاپانیوں کی تاخت سے بچ نکلنے والے، تارکین وطن ایک سیلاب کی صورت میں امنڈ پڑے۔ صحرائے گوبی میں سے وہ اس نو ساختہ سویت شاہراہ پر پیدل، اونٹوں پر، رکشاؤں اور گاڑیوں میں اس امید پر چلے آ رہے تھے کہ جس طرح امریکنوں نے انیسویں صدی کے نصف آخر میں مغرب وسطیٰ کو آباد کیا تھا، انہیں بھی چین کے سب سے مغربی علاقے میں آباد ہونے کا موقع مل جائے گا۔ ارمچی کے چینی حکام نے مقامی آبادی سے استفسار کیے بغیر، ان ہی کی زمینیں اور روپیہ ان تارکینِ وطن کو دینا شروع کر دیا۔ مقامی آبادی خود مختاری کا مطالبہ پہلے ہی کر رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ جب ان نفرت انگیز خطائیوں کا سیلاب آنے لگا تو ان کا رد عمل کیا ہوا ہو گا۔ ۔ واقعہ یہ ہے کہ علی ہن طور کو بغاوت کر کے جو کامیابی حاسل ہوئی اس کی ایک بری وجہ ان تارکین وطن کا یوں در آنا بھی تھا۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی کئی اسباب تھے جو نتیجہ تھے گزشتہ دس سالہ بدنظمیوں کا ۔ مثلاً شکایتیں کرنے کے لیے شنگ کے سفید بکس، سویت شاہراہ بنانے کے لیے شنگ کا عائد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -178


کردہ بیگاری طرز کا نام نہاد خمت عوام جس سے اشتراکیوں کے مقصد پورے ہوتے اور روپیہ عوام کی جیبوں سے جاتا۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں مقامی حکومت خود اختیاری کے جھوٹے وعدے اور ان سب پر مستزاد لال داڑھی والوں کے مظالم و جرائم۔

علی بیگ اور حمزہ نے جو مظالم بہ چشم خود دیکھے ان میں سے چند ہم نے بیان کیے۔ مثلاً جب چینی تارکین وطن نے لال داڑھی والوں کی مدد سے مناس کے مسلم علاقوں پر حملہ کیا تو انہوں نے تمام مردوں کو قتل کر ڈالا اور عورتوں اور بچوں کی ٹانگیں توڑ دڈالیں تاکہ بھاگ کر دوسروں کو اطلاع نہ دے سکیں۔ اس کے بعد بے دست و پا عورتوں کی عصمت دری کی اور ان کے ٹوٹے ہوئے اعضا اور درد کی چیخوں کی بھی پروا نہیں کی۔ آخر میں ان کے گھروں کا مال و اسباب سب لوٹ کر لے گئے۔

ادھر تو اس ظلم و ستم کے ساتھ لال داڑھی والے صبے میں گھوم پھر کے قازقوں اور منگولوں کے پڑاؤ اور ترکی دیہاتوں کو اجاڑ رہے تھے۔ ادھر شنگ کی روسی تربیت یافتہ خفیہ پولیس شہروں میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے شکار پکڑ رہی تھی۔ اور ان میں سے کوئی ایک لاکھ کو موت کے گھاٹ اتار چکی تھی۔ اور ان سے بھی زیادہ لوگوں کو طرح طرح کی اذیتیں دے رہی تھی۔ ان مظالم کے بعد جو بغاوت ہوئی تو شہری آبادیوں پر اس سے بھی زیادہ بربادی آئی پورے پورے علاقے اجاڑ دیے گئے اور ہزاروں فاقوں اور بیماریوں سے مر گئے۔ یہ وہ بھیانک پس منظر ہے جس پر 1945ء میں قازقوں کے ہاتھوں چینیوں کے قتل عام کو جانچنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -179


علی ہن طور اور حمزہ کی بات چیت میں چینیوں کا نام و نشان مٹانے کی تاریخ مقرر کرنے کے علاوہ کچھ اور بھی فیصلے ہوئے علی ہن طور نے حمزہ سے صاف صاف کہہ دیا کہ روسی میری مدد کر رہے ہیں، اسے یقین تھا کہ حمزہ اس بات کو سن کر مطمئن ہو جائے گا۔ حمزہ نے اسے دھوکا نہیں دیا۔ لیکن حمزہ اور علی بیگ اور غالباً عثمان بطور بھی اپنے طور پر سبھی اس کوشش میں تھے کہ مشرقی ترکستان کی پرانی بسنے والی قوموں کی ایک جمہوری اور متحدہ خود مختار حکومت قائم ہو جائے، اس کے لیے ضروری تھا کہ روسیوں سے بھی چھٹکارا حاسل کیا جائے اور چینیوں سے بھی۔ قازق سرداروں کو اعتماد تھا کہ جنگ ان دونوں حکومتوں کو اس قدر کمزور کر دے گی کہ وہ مداخلت نہیں کر سکیں گے۔ لیکن اگر علی ہن طور نے محض روسیوں کے احکام پر بغاوت کی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ روسی اپنے اندر اتنی طاقت موجود پاتے تھے کہ شنگ کے زمانے میں ہٹلر کے حملے کی وجہ سے جو صبہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اسے اب دوبارہ اپنے قبضے میں لا سکتے تھے۔ اگر یہ صحیح تھا تو مشرقی ترکستان کو خود مختاری حاسل کرنے کے مواقع کچھ زیادہ امید افزا نہیں تھے۔

خلدزا سے مناس واپس آنے کے بعد حمزہ نے اس صورت حال پر غور کیا۔ کیا آزاد دنیا ہماری مدد کر سکے گی۔ ارمچی میں امریکی اور برطانوی قونصل خانے کھل گئے تھے لیکن یہ دونوں ملک بہت دور تھے۔ دنیا کے سب سے اونچے پہاڑوں کے پیچھے یا وسیع صحرائے گوبی کے اس پار۔ اس کے برعکس سویت مملکت اس مقام سے صرف پچاس میل کے فاصلے پر تھی جہاں اس نے اور علی ہن نے مشورے کیے تھے۔ اسے یاد تھا کہ روسیوں نے کچھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -180


عرصہ تک خلدزا کو اپنے علاقہ میں شامل کر لیا تھا۔ یہ جنرل بڑے گھوڑے ماکے عہد میں ہوا تھا۔ اس کےب عد روسیوں نے اشتراکی شنگ کو یہ علاقہ واپس دے دیا تھا۔

جولائی کے قتل عام میں جو حصہِ ملک چینیوں سے آزاد کرا لیا گیا تھا اس میں تین علاقے شامل تھے۔ ان تینوں کا مجموعی رقبہ اتنا تھا جتنا انگلینڈ، ویلز اور اسکاٹ لینڈ کا۔ خلدزا سے الطائی تک یہ خبر نہایت مسرت کے ساتھ سنی گئی اور سب کو امید ہو گئی کہ خود مختاری حاصل کرنے کی جانب یہ فیصلہ کن اقدام کیا گیا ہے۔ ہر شہر نے اپنے اپنے آزادی کے تمغے بنائے جن پر وجود میں آنے والی مشرقی ترکستان کی جمہوریہ کے پانچ تارے اور ہلال منقش تھے۔ علی ہن طور نے ایک خاص تمغہ علی بیگ کو دیا جس نے جواب میں فوراً ایک تمغہ علی ہن طور کو پیش کیا۔ مناس، تارباغتائی اور دوسرے شہروں نے ایسے ہی امتیازی نشان علی بیگ، حمزہ اور علی ہن طور کی خدمت میں پیش کیے۔

ستمبر میں جب عثمان بطور الطائی کو چینیوں سے پاک کر رہا تھا حمزہ نے ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ کانفرنس ایک نہایت اہم مسئلے پر بلائی گئی تھی، وہ یہ کہ مشرقی ترکستان کے دوسرے حصوں میں سے چینیوں کو کیسے خارج کیا جائے۔ علی ہن طور کی نمائندگی اس کے بھائی نے کی ۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عثمان بطور جان بوجھ کر اس میں شریک نہیں ہوا۔ چار دن کی گفت و شنید کے بعد مندوبین بادلِ نا خواستہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مخالفانہ کارروائی کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا اس وقت تک دس ہزار باقاعدہ چینی فوج صوبے میں جمع ہو چکی تھی۔ اور بوجوہ اچھے ہتھیاروں سے لیس۔ ادھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -181


قازقوں کے پاس اس کے تین چوتھائی آدمی تھے اور وہ بھی بے قاعدہ اور بے ہتھیاروں کے۔ جدید اسلحہِ جنگ ان کے پاس نہیں تھا۔ اگر کچھ تھا تو علی ہن طور کی فوجوں کے پاس، روسیوں نے پورے ہتھیار اسے بھی نہیں دیے تھے۔ اس اندیشے سے کہ کہیں یہ لوگ روس پر ہی نہ پلٹ پڑیں۔ لہذا قازقوں کے پاس وہ ہتھیار تھے جو ان کے پاس لڑائیوں میں ہاتھ آئے تھے۔ انہوں نے کہیں سے چرائے تھے یا کسی اور ذریعے سے حاصل کیے تھے۔ بعض کے پاس نل کے ٹکڑوں کی خانہ ساز بندوقیں تھی اسی طرح کا خانہ ساز گولہ بارود تھا۔ اکثر قازقوں کے پاس ہتھ گولے اور تلواریں تھیں یا لمبے سونٹے تھے جن میں کیلیں لگی ہوئی تھیں ۔ وردی ایک کے پاس بھی نہیں تھی۔ دوران جنگ میں بھی وہ زمانہ امن کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ اپنے گلے اور ریوڑ بڑھاتے رہتے۔ جہاں جہاں لڑنے جاتے ان کے جلو میں یہ جانور بھی جاتے یا اگر انہیں پیچھے چھوڑ دیا جاتا تو انہیں سے پنیر اور جما ہوا دہی انہیں مہیا ہوتا اور ان کی کھالوں سے ان کے کپڑے تیار ہوتے۔

چینیوں پر التوائے تاخت کے منفی فیصلے کے علاوہ ایک مثبت فیصلہ بھی کیا گیا۔ سب نے اس پر رضا مندی ظاہر کی کہ عثمان بطور کو کماندار اعلیٰ بننے کی دعوت دی جائے۔ اس تجویز کے بارے میں علی ہن طور کے دل میں کیا تھا۔ یہ نہ معلوم ہو سکا کیونکہ اس کے زیر کمان پچیس ہزار آدمی تھے یعنی عثمان بطور سے کم سے کم دوگنے۔ لیکن اس نے اس فیصلے کو قبول کر لیا اور دونوں سرداروں نے اب اس پر غور و خوض شروع کیا کہ حملہ کرنے سے پہلے اس مسئلے کو طے کرنا چاہیے کہ جن علاقوں کو آزاد کرایا گیا ہے ان کا اور ان کے ساتھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -182


الطائی کا تحفظ کیسے کیا جائے۔

جب ان کا آمنا سامنا ہوا تو دونوں سرداروں نے ایک دوسرے کو ناپسند کیا۔ عثمان بطور ایک سچا فدائی وطن تھا۔ نہایت مذہبی خیالات کا آدمی اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس خدمت پر مامور فرمایا ہے کہ میں خطائیوں کو اپنے ملک سے خارج کر دوں۔ علی ہن طور قازق نہیں تھا اور نہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ مجھے من جانب اللہ کسی خدمت پر مامور کیا گیا ہے۔ سوائے ذاتی ترقی کے اس کا کوئی مقصود زندگی نہیں تھا۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ چینیوں سے مل جانے اور آسمان کے نیچے ایک خاندان میں شامل ہو جانے سے چینی اسے فوقیت نہیں دیں گے لہذا وہ اس کوشش میں لگا ہوا تھا کہ روسیوں کی مدد سے کسی طرح سنکیانگ کا صدر یا کم سے کم نائب صدر بن جائے۔ قصین نے بلغن میں اسے جو باتیں بتائی تھیں ان کی وجہ سے عثمان بطور روسیوں کے مقاصد کو مشتبہ نظروں سے دیکھتا تھا۔ لیکن اس پر بھی وہ سمجھتا تھا کہ چینیوں سے اپنی اس لڑائی میں روسیوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ لہذا عثمان اور علی ہن طور میں قدر مشترک بہت ہی کم تھی۔

تاہم فوری جنگی معاملات کے بہ اتفاق کیے گئے کہ گھمسان کی لڑائی سےبچتے رہیں۔ جب اور جہاں بھی ممکن ہو دشمن کو پریشان کیا جائے اور چند ایسے مضبوط مقام بنائے جائیں جن سے تینوں کے آزاد کرائے ہوئے علاقے محفوظ رہیں۔ حمزہ کو دونوں پسند کرتے تھے اس لیے اسے ترقی دے کر کرنل بنا دیا اور مناس اور یلذر پہاڑوں کے درمیانی علاقے کا اسے کماندار بنایا۔ اس علاقے کا وہ سیاسی افسر بھی متعین کیا گیا۔ علی بیگ کو شادان یا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -183


خمِ خاکی کا افسر بنا دیا گیا۔ یہ علاقہ الطائی کی سڑک پر مناس کے شمال مغرب میں ہے۔

لیکن سب کو اس بات پر تعجب ہوا کہ قتل عام کا خون بہا وصول کرنے کے بدلے چینیوں نے مشرقی ترکستانیوں کو ایلی میں ایک کانفرنس میں شریک ہونے کی دعوت دی، انفرادی طور پر قازق رہنماؤں نے اس کے متعلق کیا رائے قائم کی یہ تو معلوم نہیں لیکن انہیں سوائے اس دعوت کو قبول کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیونکہ جتنی اور مقامی قومیں تھیں وہ سب اپنے مندوبین بھیجنے پر فوری رضامند ہو گئیں۔ چینیوں کے ساتھ ایک مشروط معاہدہ 2 جنوری 1946ء کو ہو گیا لیکن اسے مرکزی چینی حکومت سے بھی منظور کرانا تھا۔ چنانچہ ایلی کے گیارہ نکاتی معاہدہ پر 6 جون سے پہلے دستخط نہیں ہو سکے اس کے بعد یکا یک۔۔۔۔ کم از کم کاغذ پر مقامی قومیں اپنے معاملات کی ذمہ دار ہو گئیں۔ صوبائی صدر اب بھی چینی ہی تھا لیکن وزیروں اور نائبوں میں اٹھارہ مقامی قومیت کے اور صرف بارہ چینی ہوتے تھے۔ ایک صوبائی اسمبلی بھی بنانی تھی جس میں مقامی قوموں کو نمائندے بھیجنے تھے۔ آگے چل کر ان سب باتوں پر عمل ہوا۔ نئے صوبائی دستور کے ساتھ انہیں چاسردیو کے بدلے ایک نیا چینی صدر جنرل چانگ چی شنگ بھی ملا۔ اور انہیں ایک مقامی فوج بنانے کا حق بھی ملا جس میں چھ رجمنٹیں تھیں بیشتر قازقوں کی۔

یہ باتیں اتنی عمدہ تھیں کہ ان پر کسی کو یقین نہ آتا۔ مگر یہ حقیقت تھی 16 اگست کو خورغوث کے سرحدی شہر سے چار سویت افسر وردیاں پہنے سرحد پار کر کے آئے اور خلدزا میں علی ہن طور کے گھر پر نہایت اخلاق کے ساتھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -184


ملنے گئے۔ اس ملاقات کے ختم ہونے پر انہوں نے بڑی شائستگی سے علی ہن طور کو خور غوث آ کر ان کے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی۔ علی ہن طور نے دعوت منظور کر لی اور افسروں کے ساتھ ان کی کار میں بیٹھ کر چلا گیا وہاں سے پھر وہ واپس نہیں آیا۔

ترکی میں جو قازق مہاجر تھے ہمیں نہیں بتا سکے کہ اس کا کیا حشر ہوا۔ وہ صرف یہ جانتے تھے کہ اس پر تورانیوں کو ایک کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اس کوشش میں پہلی عالمی جنگ کے ختم ہونے کے بعد ترکی جنرل انور پاشا نے سویت قفقاز میں اپنی جان دے دی تھی۔ لیکن قازق مہاجر کچھ نہیں بتا سکے کہ علی ہن طور کو قید کیا گیا یا وہ اب زندہ ہے یا مر چکا ہے۔

یہ بالکل صحیح ہے کہ مشرقی ترکستان کے نوے فی صدی سے زیادہ باشندے چینی مملکت میں ہوتے ہوئے ایک ترکی زبان بولتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے بحیرہ روم کے شمالی ساحلوں پر رہنے والوں میں سے نوے فی صدی لوگ ایک لاطینی زبان بولتے ہیں۔ سویت یونین کے ایک حصے مغربی ترکستان کے نوے فی صدی باشندے بھی ترکی النسل ہیں لیکن قازقوں کو اس کا یقین ہے کہ ذرا سی بھی شہادت اس امر کی موجود نہیں ہے کہ علی ہن طور سویت حکومت سے ترکی باشندوں کو آزاد کرانے کی سازش کر رہا تھا وہ صرف انہیں آزاد کرانا چاہتا تھا جو چینی حکومت کے مظالم سہہ رہے تھے اور اس کی یہ کوشش بھی خود سویت حکومت کے اشارے اور مدد پر تھی۔ لیکن اس کی کامیابی نے مشرقی ترکستانیوں، ترک، منگو، ازبک اور قازقوں کو خود مختاری حاسل کرنے کے اتنے قریب کر دیا تھا کہ سویت حکومت اس حد تک اسے گوارا نہیں کر سکتی تھی، اس سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -185


یہ قومیں نہ صرف سویت حکومت کی زیادہ محتاج نہ رہتیں بلکہ سویت قازقستان اور قفقاز میں جو نو آباد قومیں روسیوں کے زیر اقتدار ہین ان کے دلوں میں دبی ہوئی آرزوئیں اور ولولے ابھر آتے۔

علی ہن طور کی بڑھتی ہوئی خود مختاری روسیوں کی اس پالیسی کے خلاف بھی پڑ رہی تھی کہ وہ ایک اور کٹھ پتلی چینی حکومت کو برسرکار لانا چاہتے تھے جو صبہ سنکیانگ میں شنگ کی حکومت سے مشابہ ہو، ایسی حکومت کے قیام سے سویت مشیر، نصابی کتابیں، خفیہ پولیس اور غیر ملکی تجارت کی اجارہ داری یہ سب باتین دوبارہ وجود میں آ جاتیں اور یہ صوبہ یا تو سویت نوآباد مملکت میں شامل کر لیا اجتا یا چوئی بلسان کے تحت بیرونی منگولیا کی طرح ایک کٹھ پتلی ریاست میں تبدیل کر دیا جاتا۔ علی ہن طور نے ایسی کسی پالیسی کو ترقی دینے کے بدلے ایک ایسا معاہدہ کر لینے میں مدد دی۔ جس کی رو سے قومی چین کی سرپرستی میں مشرقی ترکستان خود مختاری حاصل کرنے میں بہت کچھ آگے بڑھ چکا تھا۔ لہذا علی ہن کو ختم کر دیا گیا۔

چینیوں اور ترکستانیوں میں ایلی معاہدہ ہونے کے صرف ڈھائی مہینے بعد ہی علی ہن طور کو غائب کر دیا گیا اور دو ہفتے بہ مشکل گزرے ہوں گے کہ روسی اور منگول فوجوں نے الطائی پر چڑھائی کر دی۔ جہاں تک منگولوں کا تعلق تھا تو شاید چڑھائی کرنے میں وہ کسی حد تک حق بجانب تھے کیونکہ صبہ الطائی بیرونی منگولیا کا 1922ء تک ایک حصہ تھا اس کے بعد منگول چین سے الگ ہو گئے۔ بہت سے منگول اب بھی وہیں رہتے تھے اسی طرح سنکیانگ کے دوسرے حصوں میں بھی ان کی رہائش تھی ۔ جب 1945ء میں چینی سویت معاہدے کی بات چیت ہو رہی تھی تو سویت حکومت نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -186


از خود تسلیم کر لیا تھا کہ یہ صوبہ چین میں شامل ہے۔ الطائی پر چڑھائی کرنے سے سال بھر پہلے اس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ چینیوں اور ترکستانیوں نے قدرتی طور پر یہ سمجھ لیا کہ سویت کے اعلان میں اس صوبے سے وہی صوبہ مراد ہے جس صورت میں کہ 1945ء میں موجود تھا۔ سویت کارگزاروں نے انہیں دھوکا نہ دینے کی یقیناً کوشش نہیں کی اور یہ بات جلدی ہی ظاہر ہو گئی کہ سنکیانگ کی سرحدوں کے تعین کے متعلق ماسکو کے اپنے مخصوص تصورات تھے۔ اور پھر صرف الطائی ہی اس معاملے میں ان کے پیش نظر نہیں تھا۔

روسیوں کے مخصوص طرزِ کار کے مطابق الطائی میں روسی اور منگولی فوجوں کے در آنے سے پہلے کوئی پانچ سو لاریاں روزانہ سرحد پار کر کے آتیں اور خام دھات دلفرام بغیر کسی کی اجازت اور لڑے جھگڑے بغیر کھود کر لے جاتیں۔ اس کے قرب و جوار میں جو مقامی قازق قبیلے والے اپنے جانور چرایا کرتے تھے انہوں نے ایک دن دیکھا کہ مزدوروں کے بدلے ان لاریوں میں سے سپاہی اتر رہے ہیں۔ قبیلے والوں نے جلدی جلدی اپنے جانوروں کو سمیٹا اور انہیں ہنکا کر اپنے پڑاؤ پر لے گئے۔ بعجلت تمام انہوں نے اپنے نمدہ دار خیمے اتارے اور اپنے دوسرے اثاثے کے ساتھ انہیں اپنے اونٹوں اور مویشیون پر لاد کر جنوب کی طرف روانہ ہو گئے اور بادپا گھوڑوں پر قاصد روانہ کر دیے تاکہ عثمان بطور کو ان گھس آنے والوں کی اطلاع کر دیں۔ یہ قبیلے والے اور ان کے ساتھ ہزاروں اور، بائتک بوغدد کے سلسلہِ کوہ میں کیری قازقوں کی مشرقی شاخ سے جا ملنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس علاقے میں گدھے کے برابر جنگلی بھیڑیے ہوتے ہیں جن کے بڑے اور بل کھائے ہوئے سینگ ہوتے ہیں۔ ایک ایک فٹ قطر کے۔ بائتک بوغدد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -187


کے شمالی ڈھلان جنگلوں سے خوب ڈھکے ہوئے ہیں۔ پانی کی ان میں افراط ہے اور چراگاہیں بہت عمدہ ہیں ان کے برعکس جنوبی ڈھلان بالکل بے آب اور بنجر ہیں۔

7 ستمبر 1946ء کو الطائی میں گھس آنے اور علی ہن طور کو غائب کر دینے نے کل قازق رہنماؤں کی آنکھیں کھول دیں بلکہ سویت کے ارادوں سے پورا ترکستان واقف ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ میں پہلی بار قازقوں اور دوسرے مقامی باشندوں نے چین کو اپنا حلیف قرار دینے پر رضا مندی ظاہر کی اور سویت حکومت اور چوئی بلسان کے ماتحت بیرونی منگولیا کی کٹھ پتلی ریاست کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ چینیوں کے شانہ بشانہ کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اب دریائے مناس پر سے گزرنے میں قازق چینی فوجوں سے مزاحم نہیں ہوتے تھے اور طرفین فوراً اس پر تل گئے کہ جلے ہوئے پل کی مرمت کر لی جائے۔

لیکن چینیوں میں خود اتحاد نہیں تھا۔ ان کے بہت سے افسر اب بھی یہی سمجھتے تھے کہ قازق صرف لٹیرے اور گھڑ چور ہیں جن سے کوئی شریف آدمی دوستی نہیں کر سکتا۔ بعض مقامی افسر قازقوں کے بدلے اشتراکیوں سے جا ملے۔ بعض نے معاہدہِ ایلی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ ان کی حکومت نے اس پر دستخط کیے تھے۔ صرف مٹھی بھر چینی اس پر قائم رہے اس وقت تک چینی اشتراکیوں کا ستارہ آہستہ آہستہ عروج پر آ رہا تھا۔ اور صرف شمال مغربی صوبہ سنکیانگ ہی میں نہیں بلکہ سارے چین میں سویت حکومت اب ان کی کھلم کھلا مدد کر رہی تھی حالانکہ چین سویت معاہدہ صرف ایک سال قبل ہی ہو چکا تھا۔

یہاں سے قازقوں کی کہانی کا اگلا رخ سامنے آتا ہے وہ اب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -188


تک چینیوں سے برسرِ جنگ تھے لیکن اب انہیں یقین ہو گیا کہ ان کا حقیقی دشمن اشتراکیت ہے۔ چاہے یہ چینی ہو چاہے روسی اشتراکیت، آئندہ کے لیے انہوں نے اسی طرح اسے اپنا دشمن قرار دے لیا جیسے پہلے چینی قوم پرستوں اور چینی اشتراکیوں دونوں کو اپنا دشمن قرار دے لیا تھا۔ 1946ء کے بعد سے قازق مشرق کے بجائے شمال اور مغرب کے حملوں سے اور اس کے بعد مشرق ہی کی جانب سے چین پر اشتراکیت کی یلغار سے اپنے طرز زندگی کو بچائے رکھنے کے لیے جان توڑ کوششوں میں لگے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی فوجوں میں تیس ہزار سے زیادہ آدمی کبھی نہیں ہوئے اور ان کی لڑائیاں بیشتر گشتی ہوتی تھیں جن میں عورتیں اور بچے اور جانور بھی مبتلا ہوتے تھے کیونکہ ان خانہ بدوشوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ انہیں پیچھے چھوڑ جائیں۔ ان کے ہتھیاروں کو ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ ان کے پاس چند رائفلیں تھیں، چند مشین گنیں اور کچھ تعداد ہتھ گولوں کی، مگر یہ ہتھیار بھی اس قدر ناکافی تھے کہ بہت سے قازقوں کے پاس صرف تلواریں تھیں یا میخی سونٹے۔ اشتراکیوں کے پاس توپ خانے، بکتر بند گاڑیاں، ٹینک اور ہوائی جہاز تھے لیکن اس پر بھی قازق لڑتے رہے۔

چینی حکمرانوں نے ارمچی سے کوئی روک تھام کا انتظام نہیں کیا مگر محبوب وطن الطائی پر جب سویت منگول تاخت ہوئی تو عثمان بطور اسے روکے کے لیے فوراً جانب شمال روانہ ہو گیا لیکن عثمان کے چھاپہ مار جو شنگ کے لال داڑھی والوں سے بخوبی نمٹ لیتے تھے اس نئے لشکر کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتے تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں قازق لڑنے والوں کو مجبور ہو کر اسی طرح بوئتک بوغدو پہاڑوں میں پسپا ہونا پڑا جیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -189


روسی سپاہیوں کو دلفرام کھود کر لے جاتے دیکھ کر قازق قبیلے والے پیچھے ہٹ آئے تھے۔ اب عثمان ایسے مقام پر کھڑا ہوا تھا کہ اس کے لیے پیچھے ہٹنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس کے پیچھے تیرہ چودہ ہزار فٹ اونچے برفیلے پہاڑ کھڑے تھے اور اس کے سامنے وہ راستہ تھا جس پر سے دشمن پیش قدمی کر سکتا تھا۔ دشمن کو اس نے بار بار منتشر کر کے پسپا کیا لیکن جب وہ دشمن کا پیچھا کر کے ان پر حملہ آور ہوتا تو دشمن کو اتنا قوی پاتا کہ ناچار اسے لوٹ جانا پڑتا۔ ایک سال تک یہی کیفیت جاری رہی۔

اس دوران میں روسی خلدزا میں ذرا گہری چالیں چل رہے تھے۔ علی ہن طور کے غائب ہو جانے کی خبر پھیلنے سے بہت سے روسی افسر اور اشتراکی سرحد پار کر کے علی ہن طور کی فوج پر قابض ہو گئے اور بظاہر اسے ایک قازق اسحٰق بیگ کی کمان میں دے دیا ۔ جو ان کا تنخواہ دار تھا۔ چند ہی روز میں انہوں نے ناقابل اعتماد عناصر سے قازقوں کو پاک کرنا شروع کر دیا اور جو باقی رہ گئے انہیں اپنے اصول ٹسانے لگے۔ روسیوں نے ان سے وعدہ کیا مگر جب یہ وعدے پورے کیے گئے تو قازق تیزی سے ان کی طرف رجوع ہونے لگے۔ ایک سال کے اندر ہی علی ہن طور کے بے قاعدہ اور بے ترتیب قازق چھاپہ مار باقاعدہ منظم فوج میں تبدیل ہو گئے اور اس ابتدائی منزل ہی میں روسی ہائی کمان نے یہ مناسب سمجھا کہ انہیں خاصی تعداد میں ہتھیار دے دیے جائیں۔

جب یہ اقدامات کیے جا رہے تھے تو روسیوں نے معاہدہِ ایلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -190


سے بھی فائدہ اٹھا کر صوبے کے دوسرے حصوں میں اپنے اثر و اقتدار کو پھیلایا۔ اس معاہدہ کی رو سے جو صوبائی اسمبلی بنائی جانے والی تھی وہ اب بن چکی تھی۔ اس لیے روسیوں نے اپنے منتخب کردہ نمائندے خلدزا سے ان ہدایات کے ساتھ بھیجے کہ نئی سیاسی مشین میں ریت جھونک دیں۔ یہی چال اشتراکی ممبر پہلے بھی کہیں مجلس قانون ساز میں چل چکے تھے اور کامیاب رہے تھے۔ ارمچی میں ان کی کامیابی کے مواقع اور بھی زیادہ تھے کیونکہ خلدزا صوبے اور باقی صوبے میں علی ہن طور کے غائب ہو جانے سے قانونی تعلقات میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ اس سے اشتراکیوں کو برسرکار حکومت کو تباہ کرنے کا ایک قانونی ذریعہ مل گیا تھا لیکن خلدزا اگرچہ سویت کے زیر اقتدار آ گیا تھا پھر بھی سنکیانگ کے چینی صوبے کا وہ ایک حصہ ہی تھا اس سے یہ ہوا کہ جو قازق یہاں آباد تھے انہیں اجازت تھی کہ ان کے رشتے کنبے کے جو لوگ کہیں اور تھے ان سے وہ اپنا تعلق قائم رکھیں۔ لہذا حمزہ اپنی مرضی کے مطابق آ جا سکتا تھا۔ کم از کم اس وقت تک تجب تک اس کی آرجار پر روسیوں کو کسی قسم کے خطرے کا شبہ نہ ہو ۔ روسی یہ تو جانتے ہی تھے کہ حمزہ کو اشتراکی تعلیم ملی ہے۔ شاید اس سے انہیں یہ خیال ہوا کہ وہ ان کی پاسداری کرنے لگے گا۔ لیکن اگر ان کا یہ خیال غلط تو تھا اس تعلیم نے اس پر الٹا اثر کیا تھا۔ یلدوز پہاڑوں میں جب وہ اپنے عہدے کے سلسلے میں اپنے آدمیوں کی نگرانی کرنے کبھی آگے اور کبھی پیچھے جاتا تو وہ ان دوروں سے فائدہ اٹھا کر یہ بھی دیکھ لیتا کہ علی ہن طور کی فوج کے ساتھ کیا کارروائی کر رہے ہیں۔ اس کے بھائی یونس حجی نے قازق قبیلے والوں کو مرتب ہو کر لڑنے کی ترتیب دینی چاہی تھی مگر اسے کامیابی نہیں ہوئی تھی اور قازق ایک جتھے کی صورت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -191


ہی میں لڑتے رہے۔ حمزہ کے دل میں بار بار یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ جس کام میں میرا بھائی ناکام رہا کیا اسی کام میں روسی کامیاب ہو جائیں گے۔ کچھ عرصے بعد حمزہ کو تسلیم کرنا پڑا کہ روسی کامیاب ہو جائیں گے۔ اس سے وہ بہت پریشان ہوا۔ اس کے اپنے آدمی وفادار تھے لیکن ان کے پاس جدید اسلحہ نہیں تھا، انہیں تنخواہیں نہیں دی جاتی تھیں اور نہ وردیاں دی جاتی تھیں۔ روسیوں کے تربیت دیے ہوئے قازقوں کے پاس یہ تینوں چیزیں تھیں اور ظاہر ہے کہ وہ ان سے بہت خوش تھے۔

اگر روسیوں کو معلوم ہو جاتا کہ حمزہ کیوں بار بار خلداز آتا ہے تو یقیناً وہ اسے آزاد نہ چھوڑتے۔ علی ہن طور کے غائب ہو جانے کے بعد علی بیگ نے قازق سرداروں کو مشورے کے لیے مناس کے اوپر پہاڑوں میں جمع ہونے کی دعوت دی۔ مشورہ اس بات کا کرنا تھا کہ اشتراکیت کے بڑھتے ہوئے خطرہ کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ 21 اکتوبر 1946ء کو تمام نمائندے یکجا ہوئے اور سب نے رضا مندی سے طے کیا کہ پہلی بات تو یہ کہ ہمیں قومیت پسند چینیوں سے، اگر وہ منظور کریں تو پوری طرح مل کر کام کرنا چاہیے اور دوسری بات یہ کہ جو قازق روسی اثر قبول کر چکے ہیں ان میں اشتراکیوں کے خلاف جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔

پہلی بات پر گفت و شنید کرنے کا کام ایک قازق سردار جانم خاں کے سپرد کیا گیا۔ اس کا ذکر آگے بھی آئے گا۔ فروری 1947ء کے اختتام تک ارمچی میں چینی فوجوں کے کماندار جنرل سنگ ہسی لین کو جانم خاں نے اس پر کسی نہ کسی طرح رضامند کر لیا کہ قازقوں کو پانچ سو رائفلیں، چار مشین گنیں، چالیس ہزار گولیاں، دو ہزار ہتھ گولے اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -192


ایک وائرلیس سیٹ بطور تحفہ دے دے ۔ حمزہ سے جب علی بیگ نے اس کا ذکر کیا تو مسکرا کو بولا کہ وائرلیس سیٹ دینے کے ساتھ جنرل سنگ نے یہ شرط لگائی ہے کہ ایک چینی سیٹ چلانے والا بھی ساتھ جائے گا۔

حمزہ نے علی بیگ کو بتایا کہ اسحٰق بیگ کے تمام آدمیوں کے پاس اب رائفلیں اور مشین گنیں کتنی ہیں اس کا مجھے علم نہیں اسحٰق بیگ کے پاس کم از کم پچیس ہزار آدمی ہیں جن میں سے بیشتر قازق ہیں۔ ان میں سے بعض مشرقی ترکستان کے ہیں اور باقی سرحد پار سویت قازقستان کے۔

جہاں تک اسلحہ کی کمی کا تعلق ہے قازق اس باب میں لاچار تھے۔ جنرل سنگ کی بھی یقیناً وہی کیفیت تھی جو ان قازقوں کی، اس وقت امریکی اسلحہ چین میں دھڑا دھڑ آ رہے تھے اور ان میں سے بعض ہوائی جہازوں میں ارمچی میں سے ہو کر آ رہے تھے لیکن ان کو اسلحہ دینے کا اختیار چینی مرکزی حکومت اور اس کے امریکن مشیر کو تھا جو نانکنگ میں تھے۔ ارمچی سے ہزاروں میل دور۔، پھر یہ بھی تھا کہ بہت سے چینی افسر قازقوں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ جب جنرل سنگ نے ایسے لوگوں کو ہتھیار دے دیے جنہیں اس کے ساتھی چور اور ڈاکو سمجھتے تھے تو اس نے بڑی ہمت سے کام لیا اور وہ اپنے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے سے بھی نہیں چوکا۔

پروپیگنڈے کے میدان میں علی بیگ اور اس کے دوست اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتے تھے کہ وہ متعدد اشاعتیں ایک اخبار ریویو کی شائع کر سکے اس کی وہ بہت ساری کاپیاں چھاپتے اور بڑی رازداری سے اس علاقے میں تقسیم کر دیتے جس پر اسحٰق بیگ کی فوجیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -193


قابض تھیں۔ اس اخبار کا چھپنا اور تقسیم ہونا مخفی رہا۔ خلداز کے علاقہ میں اس کی اشاعت کا ذمہ دار حمزہ تھا اور تارباغتائی کے علاقہ کا ذمہ دار ایک اور قازق قائنیش تھا۔ دونوں کے لیے یہ ایک نہایت خطرناک خدمت تھی لیکن ان میں سے ایک بھی نہیں پکڑا گیا۔

مارچ 1943ء میں یلذر پہاڑوں کے علاقے سے حمزہ ارمچی گیا تاکہ نئے صوبائی صدر کی تعیناتی کی رسم میں شرکت کرے۔ علی بیگ اور جانم خان بھی وہاں موجود تھے لیکن عثمان بطور نہیں تھا۔ وہ سویت منگول تاخت کا مقابلہ کرنے میں اتنا مصروف تھا کہ یہاں نہیں آ سکتا تھا۔ اور چینی فوجی سربراہ اس مہم کی طرف بالکل متوجہ نہیں تھے۔ صوبائی حکومت کا نیا حاکم چینی نہیں تھا بلکہ مقامی قوموں کا ایک نمائندہ تھا۔ یہ ایک ترکی تھا جس کا نام محسود صابری تھا۔ اس تاجر کو آبادی کے ہر قسم کے لوگ پسند کرتے تھے اور اس کی عزت کرتے تھے۔ ایک اور ترکی محمد امین بغرا، جس کا نام ہم پہلے بھی سن چکے ہیں، ڈپٹی سیکریٹری جنرل بن گیا۔ دو قازق سعالی جن کے نام ہمارے لیے نئے ہیں اور جانم خان سیکریٹری جنرل اور وزیر مالیات بن گئے۔ کوئی اور وزیر ہماری کہانی سے تعلق نہیں رکھتا۔ حالانکہ اب سب ملا کر پچیس وزیر اور نائب وزیر تھے۔ پندرہ ان میں سے مقامی آدمی تھے اور دس چینی ۔ علی بیگ اور حمزہ دونوں کو پورا یقین ہے کہ ان دونوں گروہوں میں کچھ لوگ ایسے شامل تھے جو روس کے تنخواہ دار ہیں مگر نام انہوں نے کسی کا نہیں لیا۔ نئی وزارت کا اچھا آغاز کرنے کے لیے تمام سیاسی قیدیوں کو آزاد کر دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ جتنے سرحدی تنازعات ہوں گے انہیں دبانے کے لیے چینی فوجوں سے مدد حاصل کی جا سکے گی۔ سرحدی تنازعات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -194


مگھم اصطلاح سے مراد ایسی مداخلت بے جا تھی جیسی کہ سویت منگول تاختِ الطائی

دوسرے اعلان پر شاید سب سے عمدہ تبصرہ یہ واقعہ ہے کہ جانے والا چینی صدر جنرل چانگ اب شمال مغربی چین کے لیے صدر اعظم کے مصالحتی دفتر کا ناظم اعلیٰ ہو کر جا رہا تھا۔ صدر اعظم اس معاملے میں چیانگ کائی شیک تھا۔ اس خطاب سے اگر کسی کو اسٹالن کا مغالطہ ہو جائے تو وہ قابل درگزر ہے کیونکہ بعد میں یہ خطاب اسٹالن نے اختیار کر لیا تھا۔ اس وقت سارا زور مصالحت پر تھا۔

مصاالحت کے ناظم اعلیٰ چانگ نے قریب کے صوبہ کنسو کے صدر مقام لانچاؤ میں اپنا صدر دفتر بنایا تھا۔ اسی شہر تک روسیوں اور شنگ نے 1938ء میں ایک شاہراہ صحرائے گوبی میں سے نکالی تھی۔ اس طرح ارمچی اور دینی صدر مقام نان کنگ کے درمیان جو تنہا سیدھا راستہ ہے اس پر لانچاؤ واقع تھا۔ قازقوں کو کچھ ہی عرصہ میں یقین ہو چلا تھا کہ سنکیانگ آنے جانے والوں پر چانگ نگرانی رکھتی ہے۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ وہ کس قسم کی مصالحت کے طالب ہیں۔ فوراً نہیں تھوڑے عرصے بعد چانگ نے ان لوگوں کی آمد و رفت بند کر دی جو ترکستانیوں اور چینیوں میں اتحاد چاہتے تھے۔ جب اس نے یہ بندش لگا دی تو صوبہ سنکیانگ باقی چین سے کٹ گیا لیکن روس سے نہیں کٹا۔

نئی وزارت کے قائم ہوتے ہی علی بیگ اور حمزہ اپنی اپنی جائے ملازمت پر بہ عجلت واپس پہنچ گئے اور چند روز بعد حمزہ ایک بار پھر خلداز گیا۔ یہاں اس نے روسیوں اور ان کے پٹھوؤں کو بظاہر دوست پایا لیکن زیادہ نہیں۔ دو سو میل ہی کے فاصلے پر عثمان بطور سے بری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -195


طرح برسرپیکار تھے۔ حمزہ کو یقین آ گیا کہ دیر سویر روسی علاقہ مناس پر حملہ کر دیں گے۔ لیکن آزاد قازق سوائے اس کے اور کر بھی کیا سکتے تھے کہ اس حملے کی روک تھام کے لیے چینیوں سے اسلحہ جنگ کی آس لگائے بیٹھے رہیں۔

خلداز سے حمزہ کے واپس آنے کے کچھ دنوں بعد علی اور حمزہ ارمچی جا پہنچے تاکہ جنرل سنگ اور دو قازق وزیروں سعای اور جانم خان سے حصول اسلحہ پر بات چیت کریں۔ وائر لیس سیٹ چلانے والے قضیے کے باوجود قازقوں کو جنرل سنگ پر بھروسہ تھا، اس لیے انہوں نے اس سے کہا کہ بےقاعدہ قازق سپاہیوں کو چینی باقاعدہ افواج میں شامل کر لیا جائے۔ اس طرح ایک ہی وار میں ہتھیاروں، وردیوں اور تنخواہوں تک کا فیصلہ ہو گیا۔ ان اخراجات کی کفالت کے لیے جانم خان بحیثیت وزیر مالیات بالکل آمادہ تھا۔ جنرل سنگ کا رویہ ہمدردانہ تھا اور بلا شبہ وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ یہ پیش کش تقویت بخش ہے۔ لیکن اصول سے اتنا بڑا بنیادی انحراف چونکہ پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا، اس لیے وہ اسے حیطہِ امکان سے باہر سمجھتا تھا۔ وہ اس پر رضامند ہو گیا کہ اپنی سفارش کے ساتھ اس تجویز کو نانکنگ بھیج دے اور اہل اختیار سے درخواست کرے کہ اس منظور میں اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ پانی سر سے اونچا ہو جائے۔

لہذا علی بیگ اور حمزہ اپنے اپنے مقام پر واپس چلے گئے اور انہیں اس کا پریشان کن احساس رہا کہ اگر روسیوں نے اپنے سکھائے پڑھائے قازقوں کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا تو ارمچی تک وہ بغیر کسی مزاحمت کے جا پہنچیں گے۔ ہاں اگر ان قازقوں نے ایک زبان ہو کر اپنے ہم وطنوں سے لڑنے سے انکار کر دیا تو بات ہی کچھ اور ہو گی۔ مگر دونوں محسوس کرتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -196


تھے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ منظم فوجیں عموماً اتنی آسانی سے حکم عدولی نہیں کرتیں بلکہ اس کے بدلے یہ ہو سکتا تھا کہ آزاد قازق اپنے بھائی بندوں سے لڑنے سے انکار کر دیں۔ خصوصاً اس صورت میں کہ وہ ہتھیاروں سے لیس ہوں اور یہ ہتھیاروں سے عاری۔

عثمان بطور کی جو خبریں آ رہی تھیں ان سے صورت حال اور بھی زیادہ خراب ہو گئی، الطائی اور بائتک بوغدو کے درمیانی علاقے میں جو حملے اور جوابی حملے ہو رہے تھے ان سے تنگ آ کر روسیوں نے منگولیا سے ایک نئی سڑک بنانی شروع کی جو اجاڑ علاقے میں سے ہو کر عثمان کے مغربی پہلو تک پہنچ جائے۔ اس سے اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ اپنے مناس اور ارمچی کے دوستوں سے بالکل کٹ جائے گا۔ اب سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ عثمان بطور بائتک بوغدہ کو بھی الطائی کی طرح خالی کر دے۔ چنانچہ قازق خانہ بدوشوں نے ایک با ر پھر اپنے جانوروں کو جنوب کی جانب ہنکایا۔ اب کی دفعہ تئین شان سلسلہِ کوہ میں جا پہنچے۔ عثمان نے اپنا صدر مقام قزل چالابیل یا کمرِ سرخ میں بنایا جو کیوچنک کے قریب ہے لیکن اس علاقے میں بیشتر ریت کے تودے ہیں اور پانی صرف جاڑوں میں میسر آتا ہے۔ وہ بھی جب ریت سے برف ڈھک جائے۔

قازقوں کی عظیم پسپائی میں یہ دوسری منزل تھی۔ پہلی منزل وہ تھی جب حسین تجی بارکل سے ہٹ کر غزکل پہنچا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ بعض قبیلے والے اپنے سرداروں کے مارے جانے پر الطائی میں اپنے روایتی مسکنوں کو لوٹ گئے ہوں، لیکن بیشتر قازق منگولوں کی طاقت کی وجہ سے نگھرے ہو گئے اور انہوں نے اس اقتدار کو قبول کر لیا جسے چوئی بسان جیسوں نے زبردستی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -197

مسلط کر رکھا تھا۔ بہت سے قازق بائتک پہاڑوں کو بھی چھوڑ کر چلے گئے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان علاقوں میں منگولی اور سویت سرحدیں جنوب کی جانب بڑھ کر چین کو غصب کرتی رہیں۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ انہوں نے کتنا چینی علاقہ دبا لیا۔ کیونکہ آج تک اس کا اعلان عام نہیں کیا گیا کہ ان فوجوں نے کوئی نقل و حرکت بھی کی ہے یا نہیں۔ کم سے کم علی بیگ اور حمزہ کے علم میں ایسا کوئی اعلان نہیں ہے۔ یہ سرحدیں قانوناً نہیں بلکہ درحقیقت اس وقت پھیلیں جب عثمان بطور اپنی لڑائیوں کے ساتھ از خود چین کی لڑائیاں بھی لڑ رہا تھا۔ اور جب 1946ء میں اسے الطائی سے پسپا ہونا پڑا تھا اس وقت چین کے دوسرے حصوں میں روسیوں کی تحریک پر چینی اشتراکی چینی قوم پرستوں سے برسرپیکار نہیں ہوئے تھے۔ عثمان بطور کو چینی اشتراکیوں سے نے پیچھے نہیں ہٹایا تھا بلکہ سویت اور منگولی باقاعدہ فوجوں نے الطائی کے چینی علاقہ پر جبریہ قبضہ ہوائی حملوں کی مدد سے کیا تھا اور یہ سب کچھ چین سویت معاہدہ دوستی کے تیرہ مہینے کے اندر ہی ہو گیا تھا۔ حالانکہ طرفین میں سے کسی نے بھی اس معاہدہ کو کالعدم قرار نہیں دیا تھا۔ علی بیگ اور حمزہ کا بیان یہ ہے کہ چینی قوم پرستوں نے روسیوں اور منگولوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس وقت جتنی بھی مخالفت ہوئی وہ صرف عثمان بطور اور اس کے چھاپہ ماروں کیط رف سے ہوئی۔

دسمبر 1947ء میں آزاد اور بہکائے ہوئے قازقوں میں مناس کے قریب ایک ٹکر ہوئی جس کا اندیشہ بہت عرصے سے تھا۔ مگر اشتراکیوں کو اس میں متوقع کامیابی نہیں ہوئی۔ مادی فائدوں کا لالچ دے کر اشتراکیوں نے قازقوں کو جس طرح توڑ لینا چاہا تھا اس میں وہ بری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -198


طرح سے ناکام ہوئے۔ کیونکہ قازقوں کو اپنے طرز زندگی سے زیادہ محبت تھی۔ ریویو کی منقول کاپیوں سے متاثر ہو کر جنہیں حمزہ اور قائنیش نے مخفی طور پر تقسیم کیا تھا کوئی آٹھ ہزار بہائے ہوئے قازق ۔۔۔ نو میں سے تین رجمنٹیں۔ بغاوت کر بیٹھے اور بجائے اپنے آزاد بھائی بندوں پر حملہ کرنے کے ہتھیاروں سمیت ان سے جا ملے۔ حمزہ نے بڑی مسرت سے ان کا استقبال کیا اور انہیں مناس دریا کے اس پار پہنچا دیا۔ یہاں باقی چھ رجمنٹوں نے علی بیگ پر اچانک جو حملہ کیا، اسے انہوں نے پسپا کر دیا۔ ان کے پسپا ہونے سے پہلے کئی دن تک جنگ جاری رہی اور دونوں طرف کشتوں کے پشتے لگ گئے۔

ہم لوگوں کے لیے جو زیادہ سلجھے ہوئے انداز جنگ کے عادی ہیں ، یہ بات سمجھ لینی آسان نہیں ہے کہ صوبائی حکومت سے اس وقت اور بعد میں بھی، آزاد اور بہکائے ہوئے قازقوں، دونوں کے تعلقات استوار رہے۔ خلداز نے اپنے چنے ہوئے نمانئندے ارمچی کی صوبائی اسمبلی میں بھیجنے بند نہیں کئے۔ حالانکہ چین اور سویت حکومت کی درمیانی سرحد آگے پھیل چکی تھی۔ اور جن علاقوں کی نمائندگی یہ نمائندے کرتے تھے، وہ فی الحقیقت اب چین میں نہیں رہے تھے۔ بعض بعض جگہ تو یہ سرحد ڈھائی ڈھائی سو میل آگے بڑھ گئی تھی۔ چینی اشتراکیوں نے جب قوم پرست رہنماؤں کو فارموسا میں دھکیل دیا تو اس وقت بھی یہ سرحد وہیں قائم رہی اور علی بیگ اور حمزہ کا بیان ہے کہ اب تک وہی سرحد قائم ہے۔

لیکن اس عرصے میں خلداز کے مندوبین صوبائی اسمبلی ارمچی میں اسی مستقل مزاجی سے شریک ہوتے رہے۔ یہ لوگ "ایلی کے باغی" مشہور ہو گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -199


تھے وہ اب بھی اپنے آپ کو اشتراکی کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن ان کا تعلق ہمراہیوں سے کم نہیں تھا۔

جب یہ واقعات پیش آ رہے تھے تو خلداز اور تارباغتائی علاقوں سے تمام قازق باشندے ترک وطن کر کے نہیں چلے گئے تھے کچھ تعداد ان کی ضرور چلی گئی تھی۔ آزاد قازق تئین شان پہاڑوں کے شمال ڈھلانوں پر اب بھی قابض تھے۔ اور آزادی سے عثمان بطور سے ان کے نئے صدر مقام قزل چالابیل میں اپنا تعلق قائم کیے ہوئے تھے۔ لیکن اب پورا الطائی ان کے لیے کھلا ہوا نہیں تھا اور دریائے مناس کے مشرق کے علاوہ تئین شان کی پہاڑیوں سے آگے نہیں جا سکتے تھے۔ اس علاقے میں بہت سے قازقوں کے پڑاؤ تھے اس لیے اس کا چھن جانا ان کے لے بہت اہم معاملہ تھا۔

اس حقیقت کے باوجود کہ ان کی رہائش کی جگہ سکڑتی چلی جا رہی تھی۔ آزاد قازق مستقبل کی طرف سے مطمئن اور خوش تھے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ نانکنگ سے بالآخر اجازت آ گئی تھی کہ چین کی باقاعدہ افواج میں قازق لشکروں کو شامل کر لیا جائے۔ قازق لشکر عثمان بطور کی کمان میں دے دیا گیا تھا۔ اور عثمان نے حمزہ کو فوراً طلب کیا تھا کہ وہ ان تین رجمنٹوں کو لے کر آ جائے جو روسیوں سے بغاوت کر کے ان میں آن ملی تھیں۔ حمزہ کی عمر اس وقت صرف پچیس سال کی تھی اور وہ چینی باقاعدہ فوج میں کرنل بن چکا تھا۔

اس طرح تقویت پا کر عثمان بطور اب اتنا قوی ہو گیا تھا کہ روسیوں اور منگولوں کو بائتک بوغدو اور الطائی سے نکال باہر کنے کی ایک اور کوشش کر دیکھے۔ جاڑے کا زمانہ تھا اور قازقوں کو عادت تھی کہ موسم چاہے کیسا ہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -200


ہو اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر علاقے میں گھومتے پھریں۔ یہی عادت ان قازقوں کی بھی تھی جو روسیوں کی تربیت پانے کے باوجود روسیوں سے باغی ہو کر آ گئے تھے۔ عثمان نے اپنے آدمیوں کو آگے بھیج دیا تاکہ جتنے علاقے کو اپنے قبضے میں لے سکیں لے لیں اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جب گرمیاں آنی شروع ہوں گی تو اس کے ساتھی اوپر کے پہاڑی علاقوں میں جانا چاہیں گے کیونکہ وہ اپنے جانوروں کو نیچے کی زمینوں میں صرف جاڑے میں ہی چرا سکتے تھے۔

یہ پہلا اتفاق تھا کہ اس نے اپنے آدمیوں کی رہنمائی جنگ میں خود نہیں کی بلکہ اس کی کمان اپنے بیٹے شیر درماں کو سونپی۔ 7 دسمبر 1947ء کو جب یہ فوج آٹھ دن کی گھڑ سواری کے فاصلے پر دشمن کی ایک چوکی پر حملہ کر رہی تھی، دشمن کے تقریباً سو سواروں کے ایک دستے نے خود عثمان پر کیوچنگ کے قریب اچانک چھاپہ مار دیا۔

یہ واقعہ قازقوں کا ایک کارنامہِ شجاعت بن گیا ہے۔ عثمان بطور اس وقت اپنے نمدہ دار خیمے میں مقیم نہیں تھا بلکہ ایک گھر میں رہتا تھا۔ یہ ایک منزل عمارت تھی جس کے چاروں طرف مٹی کی کچی دیوار کھینچی گئی ہوئی تھی۔ دیوار ایک گز موٹی تھی اور اس میں ایک مضبوط سیخوں کا پھاٹک لگا ہوا تھا۔ عثمان نے اتفاقاً ایک صبح کو 9 بجے کھڑکی میں سے دیکھا کہ چند مسلح آدمی اس پھاٹک کو کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت تک اسے سان گمان بھی نہیں تھا کہ دشمن کہیں قریب ہی موجود ہے اور جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا سوائے اس دستے کے اس سارے علاقے میں دشمن کہیں بھی نہیں تھا۔ عثمان خود اس قسم کے متعدد حملے دشمنوں پر کر چکا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -201

اس لیے رائفل اس کے قریب ہی ہمیشہ رکھی رہتی تھی۔ داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کو بھاگ کھڑے ہونے کا بھی وقت نہیں ملا۔ اور ان میں سے دو آدمی سر میں گولی کھا کر مر گئے۔ جو باقی بچے وہ جلدی سے منتشر ہو گئے۔

عثمان کے ساتھ اس وقت اس کے گھر میں اس کی بیوی تھی ان کے چھ سال کی ایک بچی تھی۔ اور ایک ملازم۔ یہ ملازم بھی مشین گن چلانے میں مشاق تھا اور خوش بختی سے اس کی مشین گن بھی اس کے پاس ہی تھی۔ یہ مکان ایک تنہا مقام پر تھا اور یہاں مدد پہنچنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ عثمان کی بیوی کے پاس ایک خود کار طمنچہ تھا۔ خود عثمان کے پاس اپنی رائفل تھی اور بہت ساری گولیاں تھیں۔ دن کی روشنی میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ دشمن دیوار پھلانگ کے یا پھاٹک توڑ کر اندر آ جائے۔ رات پڑے پیچھے البتہ اس کا اندیشہ ہو سکتا تھا۔

مٹی کی دیوار میں سے گولی آر پار نہیں جا سکتی تھی اسلیے دونوں مرد، عورت اور لڑکی سب مل کر گھومتے پھرے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد دیوار پر سے جھانک لیتے کہ دشمن دیوار پر چڑھنے کی کوشش تو نہیں کرتا یا کوئی سرنگ تو نہیں بنا رہا۔ جب ان میں سے کوئی دشمن کو دکھائی دے جاتا تو ادھر سے گولیاں چلنے لگتیں اور دو گولیاں ایسی بری چلیں کہ ایک سے مشین گن چلانے والا بری طرح زخمی ہو گیا اور دوسری گولی سے لڑکی مر گئی۔ انہوں نے لڑکی کو دفن کر دیا مگر گہری قبر نہیں کھود سکے کیونکہ برف جمی ہوئی تھی اور زخمی مشین گن چلانے والے کو ایسی جگہ سہارے سے بٹھا دیا جہاں سے وہ اب بھی پھاٹک میں سے آنے والے پر گولی چلا سکتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -202


اسی عرصے میں عثمان اور اس کی بیوی نے اپنے گھوڑوں کے خاردار نعل باندھ دیے تاکہ جمی ہوئی برف پر ان کے پاؤں نہ پھسلنے پائیں۔ٹھہر ٹھہر کر عثمان دیوار کے اس پار دیکھ لیتا اور اگر کوئی اسے نظر آ جاتا تو اس پر تڑا تڑ گولیاں چلا دیتا۔ عثمان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اس کا نشانہ کبھی خطا نہ ہوتا تھا اور ہمیں یہ مان لینے میں کوئی پس و پیش نہیں ہونا چاہیے کہ ایسے موقعوں پر تو عثمان چوکتا ہی نہیں ہو گا۔

جب عثمان اور اس کی بیوی نے جانچ لیا کہ کافی اندھیرا ہو گیا ہے تو انہوں نے مشین گن چلانے والے کو خدا حافظ کہا۔ وہ بے چارہ اتنا شدید زخمی ہو گیا تھا کہ ہل جل بھی نہیں سکتا تھا۔ دونوں نے اپنے گھوڑوں پر زینیں کسیں اور ایک دم سے پھاٹک کھول کر برف جمی ہوئی زمین پر سرپٹ روانہ ہو گئے۔ چند دشمنوں نے ان کا پیچھا کیا لیکن عثمان نے اپنے زین پر گھوم کر ان میں سے کئی ایک کو گولی کا نشانہ بنایا اور جو باقی بچے وہ واپس چلے گئے۔ جب وہ دشمنوں کی زد سے باہر ہو گئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے۔

چند روز بعد عثمان واپس آیا تو اسے جلے ہوئے کھنڈر کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اسی میں اسے مشین گن چلانے والے کی جلی ہوئی لاش ملی۔ لیکن نہ معلوم کیوں دشمن کا دستہ اب بھی قرب و جوار میں موجود تھا۔ عثمان بطور کے محافظوں نے دستے کا پیچھا کیا اور بہت سوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ ان میں سے بعض منگول تھے بعض روسی وردیاں پہنے قازق تھے اور بعض روسی تھے۔

قازق سردار کو مار ڈالنے یا زندگہ گرفتار کر لینے کی کوشش ناکام رہی لیکن اس حملے کی خبر سنتے ہی اس کے لوگ اس کی حفاظت کرنے کے لیے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -203


الطائی سے جلدی جلدی آنے لگے۔ اس امر پر یقین کرنے کے وجوہ ہیں کہ اس حملے کا منصوبہ ارمچی میں روسی طرفداروں نے بنایا تھا۔ جس دن عثمان کے گھر پر حملہ ہوا تھا اسی دن ارمچی میں اعلان کر دیا گیا تھا کہ عثمان بطور مارا گیا ۔ معمولی حالات میں یہ خبر دارالحکومت میں کئی دن میں پہنچتی۔ اس واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اشتراکی جاسوس بہت باخبر رہتے تھے۔ مناس میں علی بیگ کو بھی یہی اندیشہ ہو چلا تھا اور اسے اور عثمان بطور کو یقین ہو چلا تھا کہ جو تین رجمنٹیں آزاد قازقوں سے آ ملی تھیں ان میں بہت سے جاسوس بھی شامل ہیں۔

قازقوں کو جن پر اشتراکی ہونے کا شبہ ہوتا ان سے گڈھے کھدواتے اور ان میں انہیں قید کر دیتے۔ جب وہ کیچڑ پانی میں ہتھکڑیاں لگے پڑے رہتے اور انہیں کئی دن اسی طرح سے گزر جاتے تو انہیں رسیاں ڈال کر باہر نکالا جاتا تاکہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اپنے ساتھیوں کا نام بتائیں۔ سزا کا یہ بڑا پرانا طریقہ تھا جس میں گناہگار کے ساتھ بے گناہ بھی پھنس جاتا۔ لیکن ان کے مخالفین اشتراکی جو طریقے اختیار کرتے تھے وہ بھی ان سے کچھ کم بہتر نہیں تھے۔ وہ جسمان اذیت کے ساتھ ذہنی اذیت بھی دیتے تھے۔ اس کے علاوہ اشتراکیوں کا عام وطیرہ یہ تھا کہ ملزم چاہے اقرار کرے یا نہ کرے۔ چاہے گناہگار ہو چاہے بے گناہ ، آخر میں اس کی گدی میں گولی مار دی جاتی ۔ مردہ باتیں نہیں کرتا جنہیں قازق گڑھوں میں قید کرتے ان میں سے چند کو مار ڈالتے یا انہیں بھی مار ڈالتے جنہیں خود کچھ کرتے دیکھ لیتے۔ اور ان پر مقدمہ چلانے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -204


کی ضرورت نہ سمجھتے، جو باقی بچتے انہیں چھوڑ دیتے۔ جو لوگ سخت مصیبتوں میں پھنس جاتے ہیں وہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کا تدارک سختی سے کریں۔ قازق جانتے تھے کہ اگر ہم نے ہتھیار ڈال دیے تو ہمارا حشر کیا ہو گا۔ قازقوں کو علم تھا کہ اشتراکی جاسوس ہمارے طرزِ زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اس لیے انہوں نے بہت سے جاسوسوں کا پتہ چلا لیا مگر سب کا پتہ پھر بھی نہ چلا سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ151
پڑھائے جاتے تھے۔ میرے معاملے میں فرق صرف اتنا تھا کہ مجھے کسی قسم کی جسمانی اذیت نہیں دی جاتی تھی۔ آمادہ کرنے کے لیے شنگ کو جارحانہ طریقہ پسند نہیں تھا۔ یہ وہی ڈھنگ تھا جو بعد میں کوریا میں گرفتار ہونے والے فوجیوں کے ساتھ برتا گیا، یعنی لکچر دیے جاتے، ان سے مضامین لکھوائے جاتے، اشتراکی پالیسی کے طول طویل فقرے زبانی یاد کرائے جاتے۔ اشتراکی نظریہ اور عمل پر سوالات کی مسلسل بوچھاڑ کی جاتی۔ پچھلی فروگزشتوں کے جبری "اعترافات" کرائے جاتے۔ اس طرح کی باتیں گھنٹوں، دنوں، ہفتوں اٹھارہ مہینے تک جاری رہیں۔ عام قازقوں کی طرح علی بیگ کا حافظہ نہایت عمدہ تھا اور اس کا چہرہ جذبات سے عاری بالکل سپاٹ رہتاتھا۔ علی بیگ نے اپنے سکھانے پڑھانے والوں کو بالآخر یقین دلا دیا کہ ان کی کل تعلیم اس میں رچ گئی ہے۔

اب وہ وقت آ پہنچا جب مشرقی ترکستان سے ہزاروں میل دور بہت کچھ تبدیلیاں دنیا میں ہو رہی تھیں۔ ان سے شنگ پریشانرہنے لگا تھا۔ اکتوبر41ء؁ کا زمانہ تھا اور یورپ میں سویت فوجیں فتح مند جرمنوں کے آگے بھاگی چلی جا رہی تھیں، ہزاروں لاکھوں روسی حیران و پریشان ہو کر جرمنوں کی اطاعت قبول کرتے چلے جا رہے تھے۔ اور متوقع تھے کہ ہٹلر انہیں اشتراکی وحشت سے چھٹکارا دلائے گا۔ شنگ نے دیکھا کہ ہٹلر کی فوجیں روز بروز ایشیا کی طرف بڑھتی چلی آ رہی ہیں اور پورا سویت نظام ڈھا جا رہا ہے۔

ان حالات کو دیکھ کر شنگ نے بھی رُخ بدلنے میں دیر نہیں لگائی۔ اب اس نے ایک نئی پالیسی اختیار کی۔ مقامی قوموں کے لیے بھی اور قومیت پسند چین کے لیے بھی۔ سب سے پہلا کام اس نے یہ کیا کہ علی بیگ کو بلا بھیجا، وہ اس طلبی پر یہ سوچ کر روانہ ہوا کہ اب دوبارہ اپنے وطن زندہ واپس آنا نصیب نہ ہو گا، کیونکہ


صفحہ 152
اسے یاد تھا کہ جب باعی ملا اور جی جن کو بڑے سرپرستانہ انداز میں شنگ نے بلایا تھا تو ان کا کیا حشر ہوا، ان کے بعد یونس حجی پر کیا گزری۔ یہ بھی اسے یاد تھا۔ لیکن بے اطلاع گدی میں گولی مار دیے جانے کی بجائے اس نے دیکھا کہ شنگ اسے منگ باشی کا عہدہ پیش کر رہا ہے۔ جو مقامی گورنر کے برابر ہوتا ہے۔ اور وہ بھی صوبۂ مناس کے لیے جو اس کا جنم بھوم تھا۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آتا تھا۔ ادھر یہ اندیشہ بھی تھا کہ کہیں یہ کوئی جال نہ ہو، پھر بھی اس نے ہمت کر کے پوچھ لیا کہ "میرے فرائض کیا ہوں گے؟" شنگ نے کہا، "تمہیں پوری آزادی ہو گی کہ جس طرح چاہو مقامی باشندوں کی شکایتیں رفع کرو اور حکومت سے انہیں برسرپیکار نہ ہونے دو۔" علی بیگ جانتا تھا کہ یہ ایک ناممکن کام ہے۔ لیکن زندہ رہنا بہرحال گھرمیں مقید رہنے اور اُرمچی میں اشتراکیت کو اپنے اندر سما لینے سے بہتر تھا۔ پھر اُسے اس کا موقع بھی مل رہا تھا کہ شنگ کی مخالفت کی تنظیم کرے، اس لیے اس نے اس پیشکش کو قبول کر لیا۔

قوم پرست چینیوں کی سربراہی سے شنگ مسلسل سات سال سے سرتابی کرتا چلا آ رہا تھا۔ ان سے مصالحت کرنے میں بھی شنگ اب کامیاب ہو گیا۔ اور جب اس صوبہ کو دوبارہ چین میں شامل کر دینے پر شنگ نے خوشیاں منانے کا اعلان کیا تو مادام چیانگ کائی شیک خود بہ نفس نفیس اس میں شریک ہونے کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز اُرمچی پہنچیں۔ واقعہ یہ ہے کہ صوبہ سنکیانگ میں اس وقت اشتراکیت پوری طرح پسپا ہو رہی تھی۔ سویت اثرات بھی دور ہوتے جا رہے تھے۔ مگر کچھ زیادہ دور بھی نہیں۔


صفحہ 153
شنگ کی اس بازآمد کو قبول کرنے میں مقامی آبادی کومینٹگ سے پیچھے ہی رہی۔ ایک دن علی بیگ نے بعجلت تمام حمزہ کو بلا بھیجا۔ اس وقت علی بیگ مناس میں مقیم تھا۔ جب حمزہ وہاں پہنچ گیا تو اس نے گلے ملکے اور روایتی آداب سے فارغ ہونے کے بعد احتیاط سے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیں۔

درست اور مناسب یہی تھا کہ حمزہ خاموش رہے اور پہلے اپنے سے بڑوں کو بولنے دے۔

علی بیگ نے حمزہ دے کہا، "شنگ کا بھائی مارا گیا۔ کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کی بیوی کا بھی۔"

حمزہ نے کہا، "یہ رضائے خداوندی ہے۔ جل جلالہ۔ مگر شنگ خود کیسے بچ گیا۔ اس کے مظالم تو اپنے بھائی اور بھاوج سے کہیں زیادہ ہیں۔"

علی بیگ بولو، "اس میں کیا شک ہے۔ شاید وہ اپنی حفاظت زیادہ کر رہا ہو گا۔"

حمزہ نے صمیم قلب سے کہا، "خدا کرے کہ اس کا روز جزا بھی جلد آ جائے۔ وہ تو لاکھوں انسانوں کا قاتل ہے۔ ایسوں پر اللہ تعالٰی کے انعام و اکرام سدا جاری نہیں رہتے۔"

خود چینی اشتراکی لیڈر ماؤ ذی تنگ کا بھائی اس وقت شنگ کی ماتحتی میں افسر تھا اور 1942ء؁ میں اس کی موت بھی اسی طرح واقع ہوئی۔ شنگ اور ایک سال تک صوبہ دار رہا۔ اس کے بعد اسے چُنگ گنگ واپس بلا لیا گیا تاکہ مرکزی حکومت میں وزیر زراعت بن جائے۔ نہ تو علی بیگ ہمیں بتا سکا نہ حمزہ کہ وہ کب تک اس عہدے پر مامور رہا۔ ان کا بیان یہ ہے کہ کچھ عرصہ

صفحہ 154
بعد وہ "غائب" ہو گیا۔ یہ چونکہ شنگ کی کہانی نہیں ہے، اس لیے اس قصے کو ہم یہیں چھوڑتے ہیں۔

دو سال کے عرصے میں جب علی بیگ شنگ کے متعین کیے ہوئے مناس کے منگ باشی کی حیثیت سے کام کرتا رہا، وہ خفیہ طور پر قازق قومی تحریک کو فروغ دینے میں پوری طرح ساعی رہا اور قومیت سے قطع نظر ترکوں، منگولوں، وغیرہ سے بھی دوستی کرتا رہا کیونکہ وہ بھی مخالفین میں سے تھے۔ اس وقت علی بیگ اور ان سب کا ایک ہی مقصد تھا۔ اور وہ یہ کہ سیاسی اتحاد باہمی کے ذریعہ مشرقی ترکستان کو آزادی دلوائی جائے۔ اگر کچھ چینی ہم خیال مل جائیں تو انہیں بھی اس تحریک میں شامل کر لیا جائے۔ اس کے برعکس الطائی میں عثمان بطور ہتھیاروں سے تیزی کے ساتھ راہ آزادی اپنے لیے کھول رہا تھا۔ اُسے اس کی مطلق پرواہ نہیں تھی کہ جن چینیوں سے وہ لڑ رہا ہے، وہ اشتراکی ہیں یا قومیت پسند۔ بس ان کا چینی ہونا ہی کافی تھا۔ تاہم متوازی راہیں نہ ہونے کے باوجود بھی عثمان بطور اور علی بیگ عموماً حمزہ کے ذریعہ مسلسل ایک دوسرے سے مشورہ کرتے رہتے تھے۔

اور پس منظر میں ہٹلر کی تاخت کے باوجود روسیوں کو اتنا وقت اب بھی مل جاتا تھا کہ قازقوں، ترکوں اور منگولوں کو چینیوں کے خلاف اُبھارتے رہیں اور چینیوں کو مقامی باشندوں کے خلاف اُکساتے رہیں۔ لیکن دونوں سمتوں میں ان کے اثرات زائل ہوتے چلے جا رہے تھے اور جب اسٹالن گراڈ سے جنگ کا رخ پلٹا اور ایشیائی روسی حکومت سے جنگ کا چڑھا ہوا طوفان اُترنے لگا، اس کے بعد تک اشتراکی جوڑ توڑ ناکام ہی ہوتا رہا۔ 1943ء؁ میں ماسکو کے احکام پر سامراجی اثرات کو مٹانے کے لیے جو لیگ شنگ نے قائم کی


صفحہ 155
تھی وہ ختم کر دی گئی اور تاریخ میں پہلی بار برطانوی اور امیریکی قونصل خانے چینی حکومت کی درخواست پر اُرمچی میں گھل گئے۔

بہت سے قازقوں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ روسی اقتدار کے زوال پر انہیں کیا کرنا چاہیے۔ چینیوں کے خلاف اپنی قومی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے وہ سالہا سال سے روسی امداد پر تکیہ کیے ہوئے تھے اور مخالفین میں وہ چینی اشتراکی بھی شامل تھے جنہیں شنگ نے ان پر مسلط کر رکھا تھا۔ انہیں روسی ایجنٹوں نے بڑی احتیاط سے سکھایا تھا کہ روسیوں کو اپنا دوست سمجھیں۔ سویت یونین ہی سے چینی تاجروں کے ذریعہ انہیں جانوروں، اون، اور کھالوں کے بدلے ایسی چیزیں ملتی تھیں جیسے چائے، شکر، تمباکو وغیرہ۔ مقامی قوموں کی طرح قازق بھی روسی لاری چلانے والوں اور سڑکیں بنانے والے انجینیروں سے دوستانہ تعلق رکھتے تھے اور سرخ ڈاڑھی والے چینیوں کے مقابلے میں ان روسی فوجی دستوں کو ترجیح دیتے تھے جو بہت سے شہروں میں چھاونیاں بنائے پڑے تھے۔ جب یہ روسی فوجی دستے 1943ء؁میں شہر چھوڑ کر جانے لگے تو اکثر لوگوں کو اندیسہ ہوا کہ اب پھر لال ڈاڑھی والوں کا بھیانک راج شروع ہو جائے گا۔ تین سال اور گزر گئے، تب ان کی سمجھ میں آیا کہ روسی محض ان پر اشتراکیت کا جُوا رکھنے کے لیے آئے تھے۔ اور اشتراکیت اور سُرخ ریشیت دراصل ایک ہی چیز ہے۔

چنانچہ 1943ء؁ میں چُنگ کنگ سے شنگ کی جگہ پر ویوچنگ ہن آیا تو باوجود بہتر سلوک اور اصلاح کے وافر وعدوں کے اکثر قازقوں نے سرد مہری سے اس کا استقبال کیا۔ شنگ کا خطاب "توپان" یا فوجی گورنر تھا۔ ویو چُنگ ہن صرف صوبائی صدر کہلاتا تھا۔ اس نے انگریزی تعلیم حاصل کی


صفحہ 156
تھی اور اسی وجہ سے اُسے اکثر چوسر دیو کہا جاتا تھا۔ اس نے آتے ہی اعلان کیا کہ میں قازقوں، ترکوں، منگولوں، ازبکوں کو مقامی آزادی دینے آیا ہوں۔ وہ اپنے اپنے افسروں کا انتخاب کر لیں۔ حمزہ بھی ان لوگوں میں شریک تھا۔ جنہوں نے اس اعلان کو قابل غور قرار دیا۔ وہ اس سے کچھ ہی پہلے اشتراکیت کے خلاف ایک سخت کتابچہ شائع کر چکا تھا۔ بڑی امیدوں اور جوش و خروش کے ساتھ اس نے فوراً عہدہ کی پیش کش قبول کر لی۔ چونکہ وہ ان کمیاب قازقوں میں سے تھا، جو چینی زبان روانی کے ساتھ بول سکتے تھے اور لکھ بھی سکتے تھے، وق قازقوں اور چینیوں دونوں کے لیے ناگزیر تھا یا اسے ناگزیر ہونا چاہیے تھا۔

مشرقی ترکستان کے باشندوں پر چینی اشتراکیوں نے خصوصاً لال ڈاڑھی والوں نے جو مظالم کئے تھے، ان پر حمزہ کے دل میں غم و غصہ کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ حمزہ نے انہیں نہایت شدت کے ساتھ بُرا بھلا کہا تھا۔ انہوں نے مہماں نوازی کے ان لکھے قدیم دستور کو اس طرح غارت کیا تھا کہ ابھی جن مہمانوں کو کھلایا پلایا، انہی کو قتل کر ڈالا اور جن میزبانوں کے ہاں خود مہمان ہوئے انہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ حمزہ نے انہیں ملزم ٹھہرایا تھا کہ وہ ٹیکس وصول کرنے کے بہانے لوٹ رہے تھے۔ مسافروں کو ذرا ذرا سے فائدے کے لیے لوٹ لیتے اور قتل کر دیتے۔ روپیہ وصول کرنے یا معلومات حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو ناقابل بیان اذیتیں دیتے، بے گناہوں کے خلاف غلط الزامات قبول کرتے اور جھوٹے گواہ بناتے۔ حمزہ نے آخر میں اپنے ہم وطنوں سے زور دے کر کہا تھا کہ دنیا کے پردے پر سے چینی اشتراکیوں کا نام و نشان تک مٹا دیں۔

حمزہ کا کتابچہ دراصل مروجہ اشتراکیت کے خلاف ایک پُرزور دعوتِ


صفحہ 157
عمل تھی۔ اسے نظریۂ اشتراکیت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اس کا اندازہ اس نے اس کے نتائج سے لگایا تھا۔ اور اس نے اب بھی اس بات کو نہیں سمجھا تھا کہ صوبہ دار شنگ کی نو سال کی دہشتناک حکومت کے باوجود اشتراکیت کے ثمر پختہ ہونے سے ابھی بہت دُور تھے۔

کچھ قازق ایسے تھے جو حمزہ کے برعکس صدر ویو کے پیچھے اس امید پر ہو لیے کہ مشرقی ترکستان کی آزادی درجہ بدرجہ امن کے ساتھ حاصل کریں۔ نتیجے کے طور پر ہماری کہانی میں نئے نئے نام آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے چونکہ بیشتر نام ایسے ہیں جنہیں وسطی ایشیا کے باہر کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے ہم صرف ان ناموں کو لیں گے جو ہمارے لیے ناگزیر ہیں۔ پھر بھی یہ نئے آنے والے اتنے غیر اہم نہیں ہیں، کیونکہ ان کے ہاتھوں میں ایک ایسے ملک کی قسمت تھی جو برطانیہ عظمیٰ، فرانس اور جرمنی سب کے یکجائی رقبے کے برابر ہے۔ اگرچہ اس کے باشندوں کی تعداد صرف اسی لاکھ ہے، لیکن شاید یہ بتائی ہوئی تعداد غلط ہے۔ مشرقی ترکستان کی قسمت کا فیصلہ بالآخر ماسکو اور نانکنگ میں ہوا، لیکن اس فیصلے میں بڑی حد تک مشرقی ترکستان کے باشندوں کا بھی ہاتھ تھا۔

ادھر تو سیاستدانوں، خصوصاً چینی، اُرمچی میں گفت و شنید کر رہے تھے، اُدھر عثمان کی لڑائیاں جاری تھیں۔ لال ڈاڑھی والوں سے اپنے آدمیوں کو بچائے رہنے کے باعث اسے لوگوں نے "بطور" کا خطاب دیا تھا۔ اور اب اس خطاب کو عام طور سے سب نے تسلیم کر لیا تھا۔ یہ محض اسی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ الطائی چینیوں سے پاک ہو چکا تھا۔ اور 22 جون 1943ء؁ کو الطائی کے باشندوں نے جن میں منگول بھی شامل تھے اور قازق بھی، عثمان کو اپنا


صفحہ 158
خان یا شہزادہ بنا لیا تھا۔ اس طرح اسے چنگیز خان اعظم کا جائز جانشین قرار دیا تھا۔ یوں بوکو بطور کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہو گئی کہ اللہ نے اسے اپنی قوم کو آزادی دلانے کے لیے منتخب فرمایا ہے۔

عثمان بطور کو خان کا خطاب بل غُن میں ایک خاص جلسے میں دیا گیا۔ الطائی کو سویت روس، منگولیا اور اُرمچی سے جو تین سڑکیں آتی ہیں، ان تینوں کے یکجا ہونے والے مقام پر بل غُن واقع ہے۔ اس میں سے ہو کر ایک دریا بہتا ہے جو قریب کی ایک جھیل میں گرتا ہے۔ اس جھیل کے کناروں پر خانہ بدوشوں کے مویشیوں کے لیے نہایت عمدہ چراگاہیں ہیں، یہ مقام یقیناً اس لیے انتخاب کیا گیا تھا کہ جلسے میں شرکت کےلیے مندوبین نہ صرف مشرقی ترکستان سے آئے تھے بلکہ سویت روس اور منگولیا سے بھی۔

منگولی مندوب ماشل چوئی بلسان تھا۔ جو بیرونی منگولیا کی اشتراکی جمہوریت کا صدر تھا۔ سویت روس کے دو نمائندے قازقستان کے دو قازق سردار تھے۔ ان تینوں کے ساتھ شاندار محافظ دستے تھے جن سے سویت حکومت کی قوت اور کشادہ دلی کا مظاہرہ اور عثمان بطور کو مرعوب کرنا مقصور تھا۔

چوئی بلسان کا بیان ہم سے یوں کیا گیا کہ وہ ایک گول چہرے کا آدمی تھا بلکہ گول مٹول آدمی تھا۔ میانہ قد، ڈاڑھی مونچھ صاف، اس موقع پر اس نے مارشل کی فوجی وردی نہیں پہن رکھی تھی بلکہ ایک لمبا نارنجی رنگ کا چُغہ جو گردن سے تخنوں تک چلا گیا تھا۔ کمر میں ایک پٹکا بندھا ہوا تھا۔ منگولی سرداروں کے رواج کے مطابق اس نے اپنے سر پر اونچی باڑ کی ہومبرگ ٹوپی پہن رکھی تھی جو انگلستن کی بنی ہوئی تھی اور وسطی ایشیا میں کلکتہ سے آئی تھی۔ ہندوستانی سوداگر یہ ٹوپیاں اونٹوں پر لاد کر نیپال میں سے ہو کر لاسہ


صفحہ 159
لے جاتے اور وہاں سے تبت اور سنکیانگ کی سرحد پر۔ یہاں مقامی سوداگر انہیں خرید لیتے۔ اس قسم کا لین دین پہلے ختن اور دوسرے مشرقی ترکستان کے شہروں میں ہوتا تھا۔ لیکن 1939ء؁ میں اشتراکیوں نے اس سرحد کو بند کر دیا۔ وہ سوداگر جو ہندستانیوں سے یہ ٹوپیاں خریدتے انہیں پھر اونٹوں پر لاد کر منگولیا لے جاتے۔

قازق نمائندوں کے نام قصین اور سلطان تھے۔ ان کے لباس عثمان بطور کے لباس سے ملتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ارغوانی بھورے رنگ کی جو مخملیں تُمک اُن کے سروں پر تھیں، ان میں پروں کے طرے لگے ہوئے نہیں تھے۔ کیونکہ تعیمان قبیلے سے ان کا تعلق تھا اور ان کے ہاں اس کا رواج نہیں تھا۔ تُمک کے چوڑے گردے پر لومڑی کی ملائم کھال کی گوٹ لگی ہوئی تھی۔ کانوں کو ڈھانکنے والے پاکھے ان تینوں مندوبوں نے نیچے اتار کر ٹھوڑیوں کے نیچے باندھ رکھے تھے۔ ان کے پھولدار ریشم کے چغے بھی ایک جیسے تھے۔ ان کی استر سمور کے تھے اور ان پر نفیس سوزن کاری کی ہوئی تھی۔ تینوں قازقوں کی ڈاب میں لمبی کٹاریں تھیں۔ یہ بڑے قیمتی ہتھیار تھے جو نسلاً بعد نسل ان تک پہنچے تھے، ان کا فولاد بہت عمدہ تھا اور ان پر سونے چاندی کا کام کیا ہوا تھا۔ ان کی وضع دمشق کی تلواروں جیتی تھی، مگر یہ تلواریں ان قازق آہنگروں کی کاریگری ہی کے بے مثل نمونے تھے جو پراؤ پڑاؤ پھر کر اپنے بھدے اوزاروں ہی سے اتنا نفیس کام کر جاتے تھے۔ قازق سردر گھٹنوں تک اونچے چمڑے کے جوتے پہنے ہوئے تھے اور ان کے اوپر ڈھیلے ڈھالے کفش پوش تھے۔ ان کی وجہ سے ان کے چلنے میں عجب بھدا پن ان کی چال میں آ جاتا تھا۔ لیکن جب وہ گھوڑوں پر سوار پچاس ساٹھ محافظوں کو


صفحہ 160
جلو میں لیے، جو اپنے سرداروں سے ملتے جلتے شاندار لباس پہنے اور ہتھیاروں سے لیس تھے، دندناتے ہوئے آئے تو دور دور تک کہیں بھی بھدا پن نہیں تھا۔

چاروں سرداروں کے مابین جو رسمی ادب آداب برتے گئے اور پھر ان کے خدم و حشم میں جو تکلفات بروئے کار آئے ان کی تفصیل بخوف طوالت نظر انداز کی جاتی ہے۔ ان میں مزید پیچیدگی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ چوئی بلسان مسلمان نہیں تھا وہ بدھ مذہب کا پیرو تھا، اس لیے تینوں قازق سردار اس خیر مقدم اس انداز سے نہیں کر سکتے تھے جیسے کہ آپس میں ایک دوسرے کا کہ السلام علیکم کہا اور جواب ملا و علیکم السلام۔ اس کے بعد جو سولہ روایتی آداب تھے وہ صرف قازقوں ہی سے مخصوص تھے۔ لہذا انہیں چوئی بلسان سے خوش اخلاقی اور شائستگی سے کچھ ایسی باتیں کہنی پڑیں مثلاً خوش آمدید۔ بخیر آمدید۔ مزاج شریف؟" جب وہ ان رسمیات سے فارغ ہو لیے تو عثمان بطور نے چوئی بلسان سے اس وسیع خیمے میں داخل ہونے کو کہا جس میں کانفرنس ہونے والی تھی اور اس کے بعد دعوت۔

اس نے نہایت شائستگی سے کہا، "ہمارے مہمان خصوصی کو پہلے اندر تشریف لے جانی چاہیے۔"

چوئی بلسان نے اصرار کیا، "نہیں نہیں، یہ دونوں حضرات مجھ سے زیادہ لائق تعظیم ہیں۔ میں سبقت نہیں کر سکتا۔"

قصین جو دونوں قازق مہمانوں میں معمر تھا، بولا، "جی نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں پہلے داخل ہوں۔" اس کے ساتھی سلطان نے بھی فوراً یہی الفاظ دہرائے۔

کچھ دیر یہی تکلف جاری رہا۔ آخر چوئی بلسان نے دونوں قازقوں


صفحہ 161
کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر مسکراتے ہوئے خیمے کے اندر قدم رکھا۔ خیمے کا دروازہ کافی چوڑا تھا، ورنہ ان تینوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گزرنے میں ادھر اُدھر چھو جانے کا اندیشہ تھا اور یہ ایک بُرا شگون ہوتا۔ شاید چھو بھی گیا ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

جب چاروں سردار اندر صلاح و مشورے کر رہے تھے، تو باہر مسلح آدمی پہرہ دے رہے تھے، لیکن بات چیت شروع ہونے سے پہلے عثمان بطور کے ملازموں نے روایتی چائے اور نمکن نان سے تواضع کی۔ یہ چائے ایک عجیب و غریب آمیزہ تھی۔ چائے، دودھ، نمک اور مکھن کا۔ سب نے ایک ایک شکر کی ڈلی کلے میں رکھی اور چسکیاں لینی شروع کیں اور چائے میٹھی ہو کر گلے میں اُترتی رہی۔ اس سے فارغ ہو کر سب نے چوڑے مُنہ والے روسی سگریٹوں کو جلانے سے پہلے ان کے سروں کو مروڑی دیدی تاکہ خشک تمباکو باہر نہ نکلنے پائے۔

بلغن میں عثمان بطور کے نمدے دار خیمے میں کیا کیا باتیں طے ہوئیں، اس کے متعلق کوئی سرکاری اطلاع نامہ جاری نہیں کیا گیا، بلکہ دراصل یہ پہلا موقع ہے کہ ہم وہاں کی کاروائی شائع کر رہے ہیں۔ چوئی بلسان نے جو عقیدت کے لحاظ سے نہیں بلکہ پیشے کے اعتبار سے اشتراکی تھا، سب سے پہلے اپنے میزبان کو گرمجوشی سے مبارکباد دی کہ اس نے لاطائی قازقوں اور منگولوں کو چینیوں سے چھٹکارا دلایا۔ اس نے بڑی عمدگی سے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ جن چینیوں کو عثمان بطور نے نکال باہر کیا وہ اشتراکی صوبہ دار شنگ کے ملازم تھے اور شنگ خود سویت حکومت کا پٹھو تھا۔ چوئی بلسان نے اس کے بعد تجویز پیش کی کہ


صفحہ 162
عثمان کو اس آزادی پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے جو اس نے حاصل کی ہے۔ بلکہ اُسے یوں پکا کر لینا چاہیے کہ خود مختار جمہوریت الطائی قائم کر کے اس کا پہلا صدر خود بن جانا چاہیے۔ اس نے بڑی احتیاط سے اس بات کا بھی اشارہ کیا کہ شاید سویت حکومت اس پر بھی رضامند ہو جائے کہ اس نئی ریاست میں سائبیریا کا صوبہ الطائی بھی شریک کر لیا جائے۔ یوں روسی حکومت عثمان کو تمام سامان حرب بھی دے گی تاکہ چینی قوم پرستوں کی تاکٹ سے یہ نئی جمہوریت محفوظ ہو جائے، اس منگول نے دبی زبان سے یہ بھی کہا کہ جب الطائی خود مختار ریاست بن جائے گا تو اس کے وسیع ذرائع صرف الطائی باشندوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے جا سکیں گے، جن میں قازقوں اور منگولوں کی اکثریت ہے، اس نے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ چونکہ یہ نئی جمہوریت چاروں طرف سے گھری ہوئی ہو گی، اس لیے اس کی ساری تجارت سویت حکومت کے رحم و کرم پر موقوف ہو گی۔ کیونکہ قدرتی طور پر چین الطائی کے حق خود مختاری کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا۔ اور اپنی پوری کوشش کرے گا کہ کسی طرح بیرونی دنیا سے اس کی تجارت کا گلا گھونٹ دے۔

عثمان بطور نے اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ کاروائی کی اس نوبت پر اس نے کوئی حتمی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن یہ بات صاف ظاہر تھی کہ جو تجویز چوئی گلسان نے پیش کی تھی اس میں عثمان بطور کشش محسوس کر رہا تھا۔ یہ حقیقت تھی کہ اس نی چینیوں کو نکال باہر کیا تھا۔ یہ محسوس کر کے اُسے خوشی ہوتی ہو گی کہ چنگیز خاں کا وطن اب اس کا اپنا تھا۔ اس کے ساتھ جو جی چاہے سو کرے۔ خطاب چاہے صدر ہو، خان ہو یا شہنشاہ۔ اس سے کوئی


صفحہ 163
فرق نہ پڑتا تھا۔ کیا چنگیز خاں نے آدھی جانی پہچانی دنیا کو الطائی ممالک بن جانے کے بعد فتح نہیں کیا تھا۔ پہلے کی طرح اب بھی وہی الطائی تھا جو ایک محور تھا، جس کے گرد دنیا گھوم رہی تھی۔ سپاٹ یو لٹو کی طرح گول، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

اگر چنگیز خاں ایسے کارنامے کر گیا تو عثمان کیوں نہیں کر سکتا؟ پھر کیا بوکو بطور نے اس کی پیشین گوئی نہیں کی تھی۔ اپنی زندگی کے اس بلند مقام پر عثمان بطور بادشاہوں جیسے چہرے مہرے کا انسان دکھائی دیتا تھا۔ تمرد اور آسودہ حالی کے آثار اس کے چہرے پر البتہ نہین تھے۔ قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا۔اسی نسبت سے پھیلاؤ بھی تھا۔ کوتاہ گردن، گھٹا ہوا رنگ، نیم وا آنکھوں کے درمیان گہری شکنیں، اس کا کردار اس کے چہرے سے عیاں، عزم و عمل کا پتلا، کسی کی باتوں میں نہ آنے والا، مشتبہ، خود سر، بے رحم اور نڈر، ایسا شخص جس پر دوست اور دشمن دونوں اعتماد کر سکیں۔ ایسا انسان کو کسی خاص کام کو انجام دینے آیا ہو۔ جس کا کوئی ذاتی عزم بلند نہ ہو سوائے اس کے کہ اپنی زندگی کے مقصد کر سخت کوشی سے پورا کرنے پر تُلا ہوا ہو۔

ایسا آدمی فطرتاً ہتھیاروں کی لڑائی لڑنے سے زیادہ الفاظ کی لڑائی لڑنے میں زیادہ محتاط ہوتا ہے لہذا جب چوئی بلسان اس کے سامنے مستقبل کی ایک درخشاں مثال پیش کر چکا، جن میں اسٹالن کی دریا دلی پر اعتماد کرنا ضروری تھا۔ تو عثمان بطور نے کوئی حتمی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد چوئی بلسان نے ان ضروریات زندگی کی بڑی بڑی مقداروں کا تذکرہ کیا جنہیں سرحد کے اس پاس سویت حکومت نے کھالوں، اون، مویشیوں اور الطائی کی معدنی دولت سے تبادلہ کرنے کے لیے روک رکھا ہے۔ یہ تبادلہ اس وقت شروع


صفحہ 164
ہو جائے گا جب اس بات کا یقین ہو جائے کہ اس کا فائدہ صرف الطائی کے باشندوں کو پہنچے گا، چینی سامراجیوں کو نہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ چینیوں کے اثرات زائل ہو جانے کے بعد الطائی کے قازق اور منگول اپنے حالات کو خود ہی بے روک ٹوک سنوار سکیں گے۔ یہ دلیل بڑی چالاکی کی تھی، دونوں خانہ بدوش قوموں میں مویشی چرانے کے حقوق پر آئے دن جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔

عثمان شاید یہ جھلکا دیتا کہ قصین اور سلطان چونکہ سویت قازقستان کے نمائندے ہیں، اس لیے جو ضروریات زندگی ان کے ملک میں تبادلے کے لیے موجود تھیں، ان پر گفتگو کرنے کے حقدار وہ دونوں ہیں مگر وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے اور جب چوئی بلسان نے سویت روس کے بارے میں اپنی باتوں کی تائید ان سے چاہی تو انہوں نے رضا مندی سے اپنے سر ہلا دیئے۔ لیکن اس رات کو جب دعوت ختم ہوئی، قصین نے اپنے میزبان سے مہمانوں کے رخصت ہونے کے وقت چپکے سے کہا کہ جب چوئی بلسان یہاں سے چلا جائے گا تو میں تم سے اکیلے میں بات کروں گا۔

نہ معلوم اس کی مذہبی وجہ تھی یا کیا کہ جن خیموں میں منگول ٹھہرائے گئے تھے، وہ مسلمان مہمانوں کے خیمے سے نسبتاً زیادہ فاصلے پر تھے۔ اس لیے رات کی تاریکی میں قصین کا خفیہ طور پر عثمان کے ہاں جانا کوئی دشوار مرحلہ نہیں تھا۔ جب یہ دونوں ملے تو قصین کچھ گھبرایا ہوا تھا۔ چوئی گلسان کی طرح سویت علاقے سے باہر نکل کر عثمان بطور سے سرکاری ملاقات کرنے سے پہلے، اسے بھی سویت حکومت نے کچھ ہدایات دی تھیں، مگر وہ قازق تھا اور صرف یہی نہیں، وہ ایک مشہور قازق سورما ابلائی خان کا پوتا تھا جو ابتدائی


صفحہ 165
انیسویں صدی میں روسیوں سے لڑا تھا اور شکست کھانے سے پہلے سالہا سال تک ان کی مزاحمت کرتا رہا تھا۔ چنانچہ قصین خفیہ طور پر بے کر چکا تھا کہ چوئی بلسان کی میٹھی میٹھی باتوں کی تہ میں جو کچھ ہے اس سے عثمان بطور کو آگاہ کر دے۔

ان دونوں نے بیٹھ کر چپکے چپکے باتیں شروع کیں تاکہ موٹے نمدے کی دیواروں میں سے ان کی آواز باہر نہ جا سکے۔ قصین نے قازقستان کے ساڑھے تین لاکھ قازقوں سے سویت کے وعدوں سے پھر جانے کی شرمناک کہانی سُنائی۔ جب سُرخ سفیدوں سے لڑ رہے تھے تو انقلاب روس کے شروع زمانے میں انہوں نے قازقوں جیسی چھوٹی قوموں کی پشت پناہی کرنے کا ڈھونگ رچایا تھا۔ مگر جوں ہی زاری خطرے پر انہوں نے قابو پا لیا وہ اپنے وعدہ سے پھر گئے اور سویت مملکت میں جتنے قازق اور ایشیائی قومیں تھیں سب کو روسی بنانے لگے۔ اس کے بعد اس نے بتایا کہ جب 1923ء؁ میں لینن نے نئی اقتصادی پالیسی شروع کی تو قازقوں کی امیدویں پھر اُبھر آئیں۔ کیونکہ اس کی رو سے نہ صرف چھوٹے کسانوں کا تحفظ ہوتا تھا بلکہ ان خانہ بدوشوں کا بھی جو جانور پالنے میں لگے رہتے تھے، ایک بار پھر، صرف پانچ سال بعد ہی خانہ بدوشوں کو معلوم ہوا کہ روسیوں نے جھوٹ بولا تھا کیونکہ باوجود سابقہ وعدوں کے وہ ان کے جانور چھین لے گئے اور لوگوں کو مجبور کیا کہ اجتماعی فارموں اور زمین دوز کانوں میں زبردستی کام کریں۔ آزاد انسانوں کی طرح تازہ کھلی ہوا میں گھومتے نہ پھریں۔ یہی وہ وقت بھی تھا، جب سویت حکومت نے مسلمانوں کو ان کے مذہبی حق سے محروم کرنا شروع کیا۔ وہ اپنے مذہب کو نہ تو سیکھیں اور نہ سکھائیں اور ان کے


صفحہ 166
بچے خدا کو بھول کر خود اپنے والدین کی شکایتیں کریں کہ یہ اپنے باپ دادا کی طرح اب بھی نمازیں پڑھے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس کی بھی کوشش کی کہ قازق اپنی زبان بولنی چھوڑ دیں اور اس قدیم طرز زندگی کو ترک کر دیں جسے انہوں نے اپنے پرکھوں سے پایا ہے۔ ان پرکھوں سے جن میں چنگیز خاں بھی شامل ہے۔

قصین نے عثمان کو آخر میں یہ بھی بتایا کہ سویت حکومت میں جو قازق ہیں، انہوں نے تو کبھی ان ضروری اشیاء کو دیکھا نہیں جن کے بارے میں چوئی بلسان نے کہا ہے کہ بڑی مقدار میں الطائی آنے کے لئے رُکی ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ قازقستان کے قازق امیر ہونا کیسا پہلے سے بہت غریب ہو گئے تھے۔ کیونکہ سویت حکومت نے ان سے ان کے جانور چھین لیے تھے۔ ان کی روزی چھین لی تھی اور انہیں قلاق ینعی امیر کسان کہنا شروع کر دیا تھا، حالانکہ انہیں کسان بننے کے کوئی خواہش نہیں تھی بلکہ وہ اپنے خانہ بدوشانہ طریقوں پر اپنے گلے اور ریوڑ چرانے والے گدڑیے ہی رہنا چاہتے تھے۔

عثمان بطور اب بھی حسب عادت زیادہ نہ بولا۔ اور جب قصین اپنی باتیں ختم کر چکا تو کچھ دیر خاموشی رہی پھر عثمان نے کہا :

"میں نے ایک شریف خاندان کے نو عمر رُکن کی باتیں آج سُنی ہیں۔ لیکن اگر روسیوں کو اس کا علم ہو گیا کہ تم کس کی اولاد میں ہو، تو تمہارے واپس جانے پر تمہارے حق میں اچھا نہ ہو گا۔ اگر تم یہاں رہنا چاہو تو اللہ کا دیا ہم دونوں کےلیے بہت ہے۔"

قصین نے جواب دی کہ "مرنا جینا تو اللہ کے ہاتھ ہے۔ کیا میں اپنے


صفحہ 167
آدمیوں کا اسی طرح ملازم نہیں ہوں، جس طرح میں ان کا سردار ہوں۔مجھے یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ خود تو محفوظ جگہ میں رہ جاؤں اور انہیں زمانۂ بد پر چھوڑ دوں؟ اللہ ان کو اجر دیتا ہے جن کے خیالات نیک ہوتے ہیں۔ اللہ تمہیں اجر نیک دے۔"

تھوڑی دیر بعد قصین چلنے کے لیے اٹھا اور عثمان نے اپنے ملاقاتی کو رخصت کیا۔ وہ خوش خوش اپنے خیمے کو سدھارا۔

اگلے دن چوئی بلسان نے عثمان بطور سے اصرار کیا کہ اس کی تجویزوں کو منظور کر لے، لیکن عثمان انہیں قبول کرنے پر رضا مند نہیں ہوا۔ اور بات چیت بے نتیجہ ختم ہو گئی۔

مذاکرات کے ختم ہونے کے بعد کھیل تماشے ہوئے۔ دونوں قوموں کے پہلوانوں نے کشتی کے لیے ہاتھ ملائے۔ کشتی لڑنے والوں نے اوپر کے دھڑ کے کپڑے اتار دیے، کمر میں ایک ایک "بلباغ" یا پٹکا باندھا۔ ایک پہلوان دوسرے کے اس کمر پٹکے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کھینچتا یا دھکیلتا اور کوشش کرتا کہ اسے گرا دے۔ یا وہ آمنے سامنے کھڑے ہو کر اتنے جھکتے کہ کمر سے دھڑکا کا نوے درجہ کا زاویہ بن جاتا۔ اور ایک دوسرے کے کندھوں کو جکڑ لیتے۔ جیتنے والا وہ قرار دیا جاتا جو اپنے حریف سے بلباغ یا کندھے چھڑا لیتا۔ چت کرنے یا دونوں کھوے زمین سے لگانے کی کوئی شرط نہیں تھی۔ تماشائی ادھر اُدھر بھاگے پھرتے یا جوش میں اکھاڑے کے چکر کاٹے جاتے۔ چیخ چیخ کر اپنا مشورہ دیتے، خبردار کرتے، حوصلے بڑھاتے اور پہلوانوں کو بُرا بھلا تک کہتے۔ یہی تماشائی کشتی کی ہار جیت کا فیصلہ کرتے۔ لیکن کشتی لڑنے کی طرح کشتی دیکھنا بھی خاصہ محنت کا کام تھا۔ مگر کشتیوں


صفحہ 168
کے فیصلے عموماً ٹھیک ہوتے تھے کیونکہ قاعدے سیدھے سادے تھے۔

بعض دفعہ کشتی گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑی جاتی۔ لیکن اس کے قاعدے بھی وہی ہوتے جو گرفت چھوڑنے پر پہلے مجبور ہو جاتا ہار جاتا۔ ایسے مقابلوں میں عمدہ گھوڑے کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ سوار کے ہاتھ زیادہ ضروری کام میں مصروف ہونے کے باعث لگام پر نہیں ہوتے۔ کیونکہ قازقوں کے گھوڑے اور منگولوں کے بھی، اپنے سوار کے اشاروں کو سمجھنے میں غیر معمولی درک رکھتے ہیں۔ اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ سوار ایک طرف کو پھسلا جا رہا ہے تو وہ فوراً کسی طرح اسے سنبھال لیتے ہیں۔

گُھڑ دوڑ نے لوگوں میں کشتیوں سے بھی زیادہ جوش و خروش پیدا کیا۔ گُھڑ دوڑ میں کوئی تیس چالیس سوار شریک ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے گھوڑے کو بہت کم کھلایا تھا یا بالکل ہی بھوکا رکھا تھا۔ دوڑ کا آغاز ایک گھاس بھری وادی سے ہوا جس میں روڑے اور پتھر نہیں تھے۔ دوڑ کی راہ وادی کی چڑھائی پر سے تھی جو کہیں کہیں ایک دم سے اونچی ہو جاتی تھی۔ پورا فاصلہ کوئی پانچ میل کا تھا۔ تماشائی خود بھی گھوڑوں پر سوار مقام آغاز پر جمع تھے۔ دوڑ شروع ہوتے ہی مقابلہ کرنے والوں کے تعاقب میں یہ بھی سرپٹ روانہ ہو گئے اور ایسا بھی ہوا کہ بعض تماشائی مقابلہ کرنے والوں سے پہلے اختتام پر پہنچ گئے۔ انعام ایک چاندی کا "یمبو" یا کفش تھا، یہ ایک سکہ تھا جس کی مانگ دوشیزاؤں میں بہت تھی۔ اسے وہ ان شالوں میں ٹانک لیتی تھیں جنہیں شادی ہو جانے کے بعد وہ سر اور کندھوں پر ڈال لیا کرتیں۔

بہادری کے کھیلوں میں ایک ہلکا کھیل انہوں نے یہ رکھا کہ ایک


صفحہ 169
لڑکی اور ایک لڑکے کو چھانٹ کر ایک ایک گھوڑے پر بٹھا دیا۔ لڑکی کے ہاتھ میں ایک ہنٹر دے دیا اور لڑکے کو اس سے چند گز آگے رکھا۔ عثمان کے آواز دیتے ہیں لڑکا سرپٹ روانہ ہو گیا اور لڑکی اس کے پیچھے۔ ایسے مقابلوں میں لڑکی کو گھوڑا لڑکے کے گھوڑے سے ذرا تیز ہوتا ہے، لہذا لڑکی کے چابک سے وہی لڑکا بچ سکت اہے اعلٰی درجہ کی شہسواری جانتا ہو اور چالاکیاں کر سکت ہو۔ وہ بار بار اپنے گھوڑے کو ایک دم سے پھیر دیتا ہے۔ لڑکی کو باور کراتا ہے کہ میں اس سمت میں جا رہا ہوں اور پھر یکایک دوسری سمت میں اُڑا چلا جاتا ہے۔ یا ایک دم سے اپنے گھوڑے کو روک لیتا ہے اور زین پر سے پھسل کر گھوڑے کے پیٹ کے نیچے آ جاتا ہے۔ اس توقع پر کہ جب وہ برابر سے گھوڑا اڑا کر لے جائے گی تو اس کا چابک مجھ تک نہیں پہنچ سکے گا۔

ان مقابلوں میں انعامات نہیں دیے جاتے۔ لڑکی جانتی ہے کہ اگر میں نے اپنے چابک میں لڑکے کے کندھوں کو لپیٹ لیا تو مجھےایسی کامیابی حاصل ہو جائے گی جو شاذ ہی کسی کو حاصل ہوتی ہے۔ اور لڑکا جانتا ہے کہ اگر میں اس کی زد سے نہ بچ سکا تو تماشائی مجھ پر آوازے کسیں گے۔ اور میرے ساتھی اس کا طعنہ مجھے مرتے دم تک دیتے رہیں گے۔ ورنہ مجھے ہمت اور شجاعت کا کوئی ایسا غیر معمولی کارنامہ کرنا پڑے گا، جس سے یہ کلنک کا ٹیکہ دور ہو سکے۔

ایک اور دلچسپ چیز رقص تھا۔ اس کی کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ چاہے مسلمان ہو چاہے غیر مسلم، جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے نزدیک عورت کا سب کے سامنے ناچنا بڑی بداخلاقی میں داخل تھا۔ روایتی قازق رقص صرف مردوں ہی کا حصہ ہے۔ عموماً وہ کوئی کہانی سُناتے ہیں، مثلاً


صفحہ 170
کسی جانور کی پیدائش اور اس کی نشو و نما کی کہانی۔ لیکن اس موقع کے لیے انہوں نے خاص طور پر ہرن کا ناچ تیار کیا تھا۔ جس رقاص کو یہ ناچ پیش کرنا تھا، اُسے سارے وقت سر کے بل ناچنا تھا اور اپنا سارا جھونک ہاتھوں ہی سے سنبھالنا تھا۔ موسیقی کی لٔے پر وہ اپنے جسم کو جھکاتا اور توڑتا موڑتا ہے اورلٔے کے ساتھ ساتھ اپنی گردن کے پٹھوں کو اور کندھوں کو سکیڑ کر زمین سے سر کو اونچا کرتا ہے۔ ترکی میں دیویلی کے مقام پر ایک قازق مہاجر نے ہرن کا ناچ ہمیں دکھایا تھا۔ کارا ملا نے ڈمبری پر اس کی سنگت کی تھی، یہ ناچنے والا ایک بڈھا تھا۔ جس کی گردن کے پٹھوں کی طاقت زائل ہو چکی تھی اس لیے اس بے چارے کا سر زمین سے بلند نہیں ہو سکا۔ لیکن شب ویز کا ناچ جو اس ناچ سے مشابہ ہے وہ بخوبی ناچ سکتا تھا۔ کھیل تماشوں کے بعد پھر دعوتیں ہوئیں اور اگلے دن چوئی بلسان، قصین اور سلطان وہاں سے رخصت ہوئے۔ قصین اور سلطان قازقستان میں اپنے گھر واپس پہنچے ہی تھے کہ بیریا کی خفیہ پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ چند مہینے بعد قصین کو قتل کر دیا گیا۔ لیکن سلطان کو چھوڑ دیا گیا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
----------
صفحہ 118
----------
شاید انہیں اس کا علم ہی نہ ہو کہ سردار یہاں رہتے ہیں۔

اسمٰعیل حجی خود ایک معمر، پستہ قد۔ تنگ سینہ اور دبلا پتلا سا آدمی تھا۔ اس کے دبلے سادھؤوکے سے چہرے پر چھوٹی کالی ڈاڑھی کی جھالر سی لگی ہوئی تھی۔ دیکھنے میں وہ بہت کمزور دکھائی دیتا تھا لیکن وہ بڑا پکا قوم پرست ، رحمدل اور مہذب انسان تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہ کسی مسلمان بھائی نے اس سے کچھ مانگا ہو اور اسے نہ ملا ہو۔ اس تعصب میں بھی نہیں تھا ، جیسا کہ منگول اور جی جن سے اس کی دوستی سے ثابت ہے یہاں پھر اس کی شہادت موجود تھی کہ سویت کی جوڑ توڑ ناکام ہو رہی تھی۔ اس تگڈکا تیسرا رکن باعی ملا بھی اسی ناکامی کی ایک اور شہادت تھا۔کیانکہ وہ ایک قازق تھا اور اس وقت الطائی اوت تیئن شان کے قازقوں کا سردار۔

اسمٰعیل حجی علاوہ کسان ہونے کے کہ اپنی زمین خود کاشت کرتا تھا کوئی بارہ ہزار بھیڑوں کا مالک بھی تھا۔ ان میں سے بیششتر کو وہ عام شرائط پر ٹھیکے پر دے دیتا تھا یعنی ٹھیکہ لینے والے سے سال کے اختتام پر دگنی تعداد میں بھیڑیں واپس لی لیتا۔ اون پنیر اور جانور جو زیادہ پیدا ہوئے ہوں وہ ٹھیکیدار کے۔ اسمٰعیل حجی نے کوئی تین ہزار بھیڑیں انہی شرائط ہر دریائے سرخ کے علاقے میں بسنے والے علی بیگ اور یونس حجی کے قبیلے کو دے رکھیں تھیں۔ اس طرح ان کی دوسری سرگرمیوں کی طرف دشمنوں کا دھیان بھی نہیں جاتا تھا۔

تینوں سردار بیٹھے ہوئے مشورہ کرتے رہتے اور لاریاں جن میں سے اکثر میں فوجی سوار ہوتے ان کے گھر کے قریب سے ارمچی کو آتی جاتی رہتیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
----------
صفحہ 119
----------
یہ لاریاں عموماً روسی ہوتی تھیں اور ان میں منجملہ اور چیزوں کے سامان حرب بھی ہوتا چیچنیوں کے لی بھی اور باغیوں کے لیے بھی۔ اکثر ان میں رودی سامان تعمیر اور تعمیر کرنے والے ہوتے جو ایک نئی شاہراہ سویت سرحد سے لانچاؤ تک بنا رہے تھے۔ یہ شاہراہ صحڑائے گوبھی سے ہو کر پندرہ سو میل دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ لانچاؤ سے یہ شاہراہ چنگ کنگ کو چلی گئی ہے، جو کبھی پہلے چین کا دارالحکومت تھا۔ وہ علاقہ جس کا تعلق ہمارے قصے سے ہے یعنی جو لانچاؤ تک ہے، سن 1938 ع میں بن گیا تھا۔ اس کی دیکھ بھال اور نگرانی چینی حکومت نہیں سویت حکومت کرتی تھی صوبی کنسو کا صدر مقام لانچاؤ جہاں یہ علاقہ ختم ہوتا ہے چین کے سب سے بڑے دوسرے دریا ہوانگہو کے کنارے ہے۔ یہ دریائے پیکنگ کے جنوب میں بحر زرد میں گرتا ہے۔ سوہت سرحد سے بحر اوقیانوس کا جو فاصلہ ہے اس دو تہائی فاصلے پر لانچاؤ خود واقع ہےلہذا سن 1938ع میں جمہوریۂ چین کے دل پر سویت اثرات پوری طرح چھا چکے تھے۔

شاہراہ کو بنانے کے لیے ایک لاکھ سے اوپر قازق، ترک، منگول اور دوسرے ترکستانی باشندے زبردستی پکڑ کر لائے گئے یعنی شاہراہ کو جو مفہوم ہے وہ اس سے پورا نہیں ہوتا۔ قافلے کی پرانی راہ اور اس میں بس اتنا فرق تھا کہ یہ سڑک بجائے ادھر ادھر پھٹتے جانے کے مستقلاً سیدھی چلی گئی تھی، یہ ندی نالوں میں سے بھی گزرتی اور خشک آبی راہگزاروں پر سے بھی، جن میں سے ایک دم تیز بہتا ہوا پانی آجاتا ہے۔ اسے پوری طرح پکا بھی نہیں کیا گیا۔ جب یہ بن گئی تو اس پر سیکڑوں لاریاں اور موٹریں دوڑنے لگیں، پہلے اس راستے کو طے کرنا ایک مہم سمجھا جاتا تھا۔ چنکنگ، ناکنگ اور
 

سید عاطف علی

لائبریرین
----------
صفحہ 120
----------
پیکنگ سے سرحد تک پہنچنے میں جتنا وقت لگتا تھا، اب اس میں کئی کئی ہفتوں کی کمی آگئی ۔ اس شاہراہ کے بنائے جانے سے پہلے ارمچی کو پیکنگ سے جانے میں صحرائے گوبی عبور کر کے جانے کے بدلے، روسی ریلوں سے جانے میں کم وقت لگتا تھا۔

لیکن اگر اس روسیوں کی بنائی ہوئی سڑک نے مرکزی چین کو باہر کی طرف پھیلے ہوئے چینی صوبوں سے قریب تر کردیا تو اس نے چین کے اندرون کو اسی قدر سویت روس سے بھی قریب تر کر دیا، اور اس نے سب سے مغربی علاقے سنکیانگ کو مع اس کے پسماندہ وسائل کے سویت ریاست کے اتنے قریب کردیا کہ اسی کا ایک حصہ بن جانے میں بس تھوڑی ہی کسر رہ گئی ، آج بھی ظاہراً دوستی کے باوجود چینی اور روسی دونوں حکومتیں جانتی ہیں کہ اب بھی کوئی دو سو میل چوڑی زمین کی پٹی ایسی ہے، خلد زا اور تارباغتائی کے درمیان اور سنکیانگ کی شمالی حد کے ساتھ جہاں کسی سرحد کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اس پورے علاقے کے مدعی چین اور روس دونوں ہیں۔

لیکن سن 1936ع میں یہ سڑک ابھی بننی شروع نہیں ہوئی تھی اور انکیانگ پر روس کے قبضے کے ارادے اتنے واضح نہیں ہوئے تھے اس لیے تیز نظر رکھنے والے جو بظاہر امٰعیل حجی کے کھلیان کے باہربھیڑوں کی نگرانی کر رہے تھے، روسی لاریوں اور ان میں سوار ہونے والوں کو دیکھ کت خوشی سے نعرے لگاتے تھے لاریوں کے علاوہ اونٹوں کی لمبی قطاریں آتی تھیں جن پر گیہوں، چائے ، نمک اور غالباً افیون لدی ہوئی ہوتی تھی، اور یہ سب چیزیں مناس کی منڈی میں جاتی تھیں یا اس سے بھی آگے
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 21

بہت سا ترجمے کا مفید کام انہوں نے کیا۔
آسودگی کے زمانے میں علی بیگ کے پاس تین بڑے خیمے تھے، یعنی ہر بیوی کے لیے ایک خیمہ۔ ان خیموں میں علی بیگ کی بھیڑوں ہی کے اون سے بنائے ہوئے نمدے کا استر لگا ہوا تھا ۔ علی بیگ چونکہ سردار تھا اس لیے اس کے خیمے سفید تھے، باقی قبیلے والوں کے خیمے یا تو کالے تھے یا بھورے خاکستری جب وہ اپنی جاڑوں کی قیام گاہ سے گرمیوں کی قیام گاہ کو روانہ ہوتا تو ہر خیمہ اتار لیا جاتا اور اس کے مختلف حصّے جو کئی کئی من کے ہوتے لپیٹ کر اونٹوں اور بیلوں پر لاد دیئے جاتے۔ ہر خیمے کے دس یا بارہ حصّے ہوتے تھے۔ جب ان سب کوجوڑ کر خیمہ نصب کیا جاتا تو اس کی سوزن کاری کی سقف کوئی تیس فٹ کے قطرمیں پھیلی ہوتی ۔ اس کے بیچ و بیچ دهواں خارج کرنے والے گول سوراخ کے نیچے ایک بڑا آہنی ظرف ہوتا جسے پانچ چھے قوی الجثہ آدمی بہ مشکل اٹھا کرعلی بیگ کے بڑے بڑے اونٹ پر لادتے۔ ان دنوں علی بیگ ” منگ باشی“ یعنی ہزارخاندانوں کا سردار تھا اور اس کے ذاتی مویشیوں اور بھیٹر بکریوں کی تعداد ہزاروں پر پہنچتی تھی۔ جس قبیلے کا علی بیگ سردار تھا، اس قبیلے والوں کے پاس تین لاکھ بھیڑیں، چودہ پندرہ ہزار چھوٹے بڑے مویشی، نو دس ہزار دودھیالی گائیں اور شاید ایک ہزاراونٹ تھے، ان کے علاوہ اتنے گھوڑے تھے کہ ہر مرد، عورت، لڑکے اور لڑکی کو سواری کے لیے ایک ایک گھوڑا مل جائے۔
علی بیگ اور حمزہ اپنے وطن میں پڑوسی تھے۔ حمزہ کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ اپنی قوم کے دشمنوں سے اس نے دست بدست کم سے کم ایک سو سولہ لڑائیاں لڑی ہیں۔ اس وقت بھی اس کی عمر صرف

ص 22

۳۳ سال ہے لیکن دس سال کی عمر میں وہ اپنے میں بیس سالہ بڑے بھائی یونس حجّی کے شانہ بشانہ لڑائی میں شریک ہوا تھا۔ قدوقامت میں وہ علی بیگ سے چھوٹا ہے لیکن ذہنی اعتبار سے وہ اتنا ہشیار ہے کہ بیسں سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے کرنل کے برابر کا رتبہ اس نے حاصل کرلیا تھا۔
اپنے وطن مشرقی ترکستان میں علی بیگ، حمزہ اور ان کے قبیلے والے موسم گرما میں زیادہ تر دہی اور پنیر کھاتے اور جاڑوں میں گوشت، روٹی تمام سال کھاتے تھے، قازق گھر والیوں کو اپنی اس ہنرمندی پر بڑا ناز ہے کہ دودھ سے وہ چھبیس قسم کی چیزيں بنا سکتی ہیں۔ ان میں پتھر کی طرح سخت ، بھیڑ کا پنیرہوتا ہے۔ جسے وہ اشتہا انگیزی کے لیے کھانے سے پہلے چباتے رہتے ہیں اور خمیر کی ہوئی چھاچھ ”کومیس“ بھی ہوتی ہے جسے سفرمی مشکیزوں میں بھر کر لے جاتے ہیں اور اسے دعوتوں میں مزے لے لے پیتے ہیں۔
سب سے اچھی کومیس وہ سمجھی جاتی ہے جو گھوڑی کے دودھ سے تیار کی جاتی ہے لیکن عموماً ہرجانور کے دودھ سے تیار کی جا سکتی ہے۔ حسب ضرورت دودھ دینے والا جانور ہونا چاہیے ۔ اشتراکیوں کی تاخت سے پہلے وہ قازق خاندان بہت غریب سمجھا جاتا تھا جس کے خیمے میں کومیس کا ایک مشکیزہ آویزاں نظر نہ آئے . مشکیزہ کے منہ میں ایک ڈوئی سی پڑی رہتی اور جب بھی گھر کا کوئی آدمی اس کے قریب سے ہو کر گزرتا تو زور زور سے اس ڈوئی کو گھما دیتا تا کہ خمیر خوب اچھا اٹھے۔

ترکیہ میں ایک اور مہاجر جو خصوصیت سے قابل ذکرہے، وہ شخص ہے جس نے کوہ الطائی کے عثمان بطور کے حالات ہمیں بتائے ۔ اس کے ساتھی ایسے کارا ملّا کہتے ہیں ۔ بھاٹ کارا ملّا ۔ ہماری ملاقات سے کچھ ہی پہلے کاراملا

ص 23

نے عثمان سورما کی شان میں ایک رزمیہ نظم کہی تھی ۔ ہم دیویلی کے ایک ہوٹل میں ٹہرے ہوئے تھے، ہم نے اسے اپنی جائے قیام پر بلا کر اپنے دستی ٹیپ ریکارڈ پر یہ نظم ریکارڈ کرلی تھی ۔ ترکیہ کے عین قلب میں یہ ایک چھوٹا سا تجارتی شہر ہے سلیحلی کی بستی سے چارسو میل کے فاصلے پر سلیحلی میں قازق مہاجروں کا ایک اور گروہ ٹہرا ہوا تھا جس میں سب ملا کرسات آٹھ سوقازق تھے۔
کا راملّا نے اپنی رزمیہ نظم کچھ گا کراور لحن سے اور کچھ تحت اللفظ سُنائی جس پس منظر میں اس نظم کو پیش کیا گیا وہ نہایت نامناسب تھا۔ اپنے وطن مشرقی ترکستان میں کاراملّا نہایت اعزاز کے ساتھ سردار کے خیمے میں بیٹھتا۔ خیمے کے بیچ میں بڑی سی دیگ اُپلے یا لکڑی کی آنچ پرچڑھی رہتی۔ بل کھاتا ہوا دھواں آہستہ آہستہ خیمے کی نمده دارسقف کی طرف اٹھتا اور اوپر کے گول سوُراخ میں سے نکل کر رات کی سرد ہوا میں تحلیل ہو جاتا۔ تھوڑی دیر کے بعد خیمے کے دروازے کا پردہ اُٹھتا اور مرد، عورتیں، لڑکے اور لڑکیاں چپکے سے اندر آجاتیں، جوجو اندر آتا جاتا اپنے کفش پوش ایک طرف کو اتار دیتا اور حسب حیثیت قریب یا دور کی جگہ پر بیٹھا جاتا- خیمے کی درمیانی آگ کے چاروں طرف زمین پر نمدے کا فرش ہوتا۔ گدوں نمدوں اور گھر کے بُنے ہوئے قالین پاروں پر سب آلتی پإلتی مار کر بیٹھ جاتے۔ خاموش اور آنکھیں پھاڑے۔
دیولی میں کاراملّا کے سامعین صرف چھ سات قازق ہو تے جو اسی کی طرح مہاجرتھے اور اسی کی طرح انمل بے جوڑ یورپی کپڑے پہنے ہوتے چرترکی ہمدردوں کا عطا کردہ ہوتے ۔ ان کے علاوہ سامعین میں ایک


ص 24


ترکی فلسفی تھا، لسانیات کی پروفیسر ایک ترکی خاتون تھیں ان کے شوہرجو انہی کی طرح اسی جامعہ میں ایک مدرس تھے ان دونوں کا ایک مشترک معاون تھا قازق زبان بولنے والا ہمارا وہ ساتھی جسے ہم انگلستان سے لائے تھے اور اس وقت ریکارڈنگ مشین چلا رہا تھا۔ خیمے کے خاموش پردے کے بدلے یہاں ایک لکڑی کا دروازہ تھا، جب اس میں سے لوگ اندر آتے یا باہر جاتے تو یہ زور سے چرچراتا ۔ ذرا ذرا سی دیر کے بعد کوئی لاری شور مچاتی کھڑکی کے قریب سے گذرتی رہتی یا مرغا بانگ دینے لگتا، اور جب ہم نے ریکارڈ مکمل کرنے کے بعد کاراملّا اور اس کے دوستوں کو سُنایا تو یہ ساری آوازیں بھی اس میں شدت کے ساتھ موجود تھیں۔
مشرقی ترکستان میں قازقوں کے گرمائی مسکن شاہراہوں سے اتنے فاصلے پر ہوتے تھے کہ لاریوں کے دھماکوں سے ان کے سکون میں کوئی خلل نہیں پڑتا تھا لیکن بعد کے زمانے میں یہ لاریاں ان کے سرمائی مسکنوں کے قریب سے گزرنے لگی تھیں، یہ لاریاں عموماً روسی اشتراکیوں کی ہوتی تھیں اور ان میں مشرقی ترکستان کی لوٹ کا سامان بھرا ہوتا تھا اُسی لُوٹ کو وہ خراج کہتے تھے۔ زنده جانور، کسانوں سے چھینا ہوا بے پیسے کوڑی کا گیہوں، وہ خام دھاتیں اورسونا تک لُوٹ کے سامان میں شامل ہوتا تھا جسے الطائی میں بیگاروں سے کھدائی کر کے حاصل کیا جاتا تھا۔
عثمان بطورکا جو رزمیہ گانا کارملّا سنایا کرتا تھا اس میں بھی قازق شاعری کی طرح قدیم تاریخ اور روایت کے اتنے ناقابل فہم اشارے اورحوالے تھے کہ ہم کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے تھے۔ مثال کے طور پر اس میں ایک مصرع تھا ” وہ جو طلائی کفتان پہنتا ہے۔“ اس پر ہم دیر تک غور

ص 25


کرتے رہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا، پھر چند ہفتے بعد ہم کونیا کا عجائب گھر دیکھنے گئے جس میں رقص کرنے والے درویشوں کے تبرکات رکھے ہوئے تھے، یہاں ہم نے دیکھا کہ اس فرقے کے بانی نے چھ سات سو سال پہلے ایک قسم کا خرقہ پہنا تھا جو کفتان کہلاتا تھا ۔ یہ ایک خاص قسم کا کرتا تھا جو سینہ بند پر پہنا جاتا تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کا پہننے والا دشمن کے ہتھیاروں سے محفوظ رہتا ہے لیکن شاید بدقسمتی سے عثمان کے کفتان میں یہ خوبی نہیں تھی ۔ سالہا سال تک وہ دشمنوں کے گزند سے محفوظ ضروررہا لیکن بالآخر اشتراکیوں نے اسے گرفتار کر لیا اور اسے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
عثمان بطور کومرے ابھی صرف پانچ سال ہوئے ہیں مگر قازقوں میں اس کے متعلق طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہوگئی ہیں اوراس کا بھی ہمیں یقين ہے کہ آہنی پردے کے پیچھے بھی اکثر قازق گھرانوں میں یہ کہانیاں کہی جاتی ہوں گی، اس کے مداحوں نے اس کے نام سے ایک سن بھی مقررکردیا ہے اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ۱۹۳۹ء میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تھی تو قازق کہیں گے ” عثمان بطور کے کہ ۴۰ میں یہ بات ہوئی تھی۔“ مگراس عقیدت کے با وجود بعض مہاجروں نے کارملّا کی رزمیہ نظم پرخاصی لے دے کی کہ اس نے بطلِ حرّیت سے شجاعت کے بعض وہ واقعات منسوب کردیئے جو دراصل دوسرے سورماوں کے کارنامے ہیں۔ اس کہانی میں اس کے چندر کارناموں کا ذکر کیا ہے ۔ اگر ہم نے غلطی سے انھیں کسی غلط سخص سے منسوب کر دیا ہو تب بھی اس کا کافی ثبوت موجود ہے کہ یہ کارنامے انجام ضرور دیے گئے لہذا بہادری کے ان واقعات کو قازقوں کی عظیم رزمیہ کے اجزا سمجھنا چاہیے جو ایک فرد کے کارناموں سے
 
آخری تدوین:
Top